چودہویں فصل
جنگ صفین کے لئے امام کی فوج کی آمادگی
نخلیہ میں امام کی فوج کی پیش قدمی
ابو سفیان کے بیٹے کی وقت برباد کرنے والی سیاست کا خاتمہ ہوا اور خط اور عظیم شخصیتوں کو روانہ کرکے وہ جس مقصدکو حاصل کرنا چاہتاتھا حاصل کرلیا، اس عرصے میں اس نے اپنی فوج کو خوب مضبوط کرلیااور اپنے جاسوسوں کو چاروں طرف روانہ کردیاتاکہ امام علیہ السلام کے بعض حاکموں کو دھوکہ دیں اور آپ کی فوج کے اندر پھوٹ ڈال دیں ۔امام علیہ السلام ٢٥ ذی الحجہ ٣٥ہجری کو رسول خدا (ص)کی طرف سے منصوص خلافت کے علاوہ ظاہری خلافت پر بھی فائز ہوئے(١) اور تمام مہاجرین و انصار نے آپ کے ہاتھ پر بعنوان خلیفہ مسلمین بیعت کی، آپ نے اپنی حکومت کے ابتدائی دنوں میں ہی سبرہ جہمی نامی قاصد کے ہمراہ معاویہ کو خط بھیجا کہ وہ مرکزی حکومت کی اطاعت کرے لیکن اس نے سوائے خود خواہی،خود غرضی،ڈرانے دھمکانے، رعب و دبدبہ، خطوط کے روانہ کرنے اور تہمت لگانے اور قاصد کو بھیجنے اور حضرت علی علیہ السلام کو معطل کرنے کے کچھ نہیں کیا اب وہ وقت آچکا تھا کہ امام علیہ السلام ابو مسلم خولانی کے توسط سے آئے ہوئے خط کا جواب دے کر جنگ کریں اوراس شجرۂ خبیثہ کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں، اسی وجہ سے آپ نے شوال ٣٦ء کے اوائل میں فوج روانہ کرنے کا ارادہ کیااور اس کے پہلے مہاجرین وانصار کو بلایا اور اس آیت کے حکم کے مطابق'' وشاورھم فی الأمر' ' ان کے بزرگوں سے جو آپ کے ساتھ مدینہ سے آئے تھے اور آپ کے ہمراہ تھے اس طرح فرمایا :
''انکم میامین الرّأی، مراجیح الحلم، مقاویل بالحق، مبارکو الفعل والأمرِ، وقدأردنا المسیر اِلیٰ عَدوِّنا وَعدوِّ کم فأ شیروالیناٰ برأیکم''(٢)
تم لوگ بہترین رائے و مشورہ کرنے والے، بردبار و حلیم، حق کہنے والے،اور ہمارے معاشرے
_______________________________
(١) تاریخ طبری ج٤ص٤٥٧۔تاریخ یعقوبی.ج٢ص١٧٨ مطبوعہ بیروت.
(٢)۔ وقعہ صفین ص ٩٢
کے بہترین و صاحب کردار ہو، ہم لوگ اپنے اور تمھارے دشمن کی طرف بڑھناچاہتے ہیں تم لوگ اس سلسلے میں اپنا نظریہ بیان کرو۔
مہاجرین کے گروہ میں سے ہاشم بن عتبہ بن ابی وقّاص اٹھا اور کہنے لگا:
اے امیرالمومنین ، ہم لوگ ابوسفیان کے خاندان کو بہت اچھی طرح پہچانتے ہیں وہ آپ اور آپ کے شیعوں کے دشمن اور دنیا پرستوں کے دوست ہیں، اور حصول دنیا کے لئے اپنی پوری قوت و طاقت کے ساتھ اس سے آپ کے خلاف آپ سے جنگ کریں گے اس سلسلے میں وہ کسی بھی چیز سے دریغ نہیں کریں گے اس کے علاوہ ان کا کوئی اور مقصد نہیں ہے ۔ ان لوگوں نے سیدھے سادھے لوگوں کو بہکانے کے لئے عثمان کے خون کا بہانہ بنایا ہے۔ وہ لوگ جھوٹے ہیں اور اس کے خون کا بدلہ نہیں لینا چاہتے تھے بلکہ وہ دنیا چاہتے تھے ہم لوگوں کو اجازت دیں کہ ان کے مقابلے کے لئے جائیں اور اگر ان لوگوں نے حق کی باتیں مان لیں توکوئی بات نہیں ، لیکن اگر تفرقہ اور جنگ کرنے کے خواہاں ہوئے اور میرا گمان بھی یہی ہے کہ وہ لوگ اس کے علاوہ کچھ اور نہیں چاہتے تو ہمیں چاہیے کہ ان کے ساتھ جنگ کریں۔اس وقت مہاجرین میں سے ایک اور عظیم شخصیت اٹھی جس کے بارے میں پیغمبر نے فرمایا ہے ''عمار مع الحقِّ والحقّ مع عّمار یدورمعہ حیث مادار''(١)
اے امیر المومنین : اگر ممکن ہوتو ایک دن بھی دیر نہ کریں ہم لوگوں کو ان کی طرف روانہ کریںاور قبل اس کے کہ وہ فاسد لوگ جنگ کی آگ روشن کریں اور مقابلہ کرنے کی تیاری اور حق سے جدائی کا ارادہ کریں، ان لوگوں کو جس میں ان کے لئے سعادت ہے ا سکی طرف دعوت دیں اگر ان لوگوں نے قبول کرلیا تو ٹھیک ہے اور اگر مقابلہ کرنے کے لئے آمادہ ہوئے تو ان کے ساتھ جنگ کریں خدا کی قسم ان لوگوں کا خون بہانااور ان لوگوں کے ساتھ جہاد کرنا خداکا قرب اور اس کی طرف سے ہمارے لئے لطف وکرم ہے۔
مہاجرین کے ان دو اہم افراد کی تقریر نے کچھ حد تک زمینہ فراہم کیا۔ اب وقت تھاکہ انصار کی طرف سے بھی عظیم شخصیتیں اس سلسلے میں اپنا نظریہ پیش کریں ۔ اس وقت قیس بن سعد بن عبادہ نے کہا : ہمیں جلد سے جلد دشمن کی طرف روانہ کریں خدا کی قسم، ہمارے لئے ان کے ساتھ جنگ کرنا روم کے
_______________________________
(١)طبقات ابن سعد ،ج،٣۔ص ١٨٧ (مطبوعہ لیدن)
ساتھ جہاد کرنے سے بہتر ہے، کیونکہ یہ لوگ اپنے دین میں مکروفریب کررہے ہیں اور خدا کے اولیائ(مہاجرین وانصار ) اور وہ لوگ جوان کے ساتھ نیکی کرتے ہیں انہیں ذلیل و خوار سمجھتے ہیں وہ لوگ ہمارے مال کو حلال اور ہمیں اپنا غلام سمجھتے ہیں ۔
جب قیس کی گفتگو ختم ہوئی تو خزیمہ بن ثابت اور ابو ایوب انصاری اس کے جلد بازی کے فیصلے پر نکتہ چینی کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ بہتر تھا کہ تھوڑا صبر کرتے تاکہ تم سے بزرگ لوگ اپنا نظریہ پیش کرتے ، اس وقت انصار کے سرداروں کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا تم لوگ اٹھو اور امام علیہ السلام کے سامنے اپنے نظریہ کا اظہار کرو،
سہل بن حنیف ،جو انصار کی عظیم شخصیت تھی اس نے کہا:اے امیر المومنین : ہم آپ کے اور آپ کے دوستوں کے دوست اور آپ کے دشمنوں کے دشمن ہیں ، ہمارا نظریہ آپ کا نظریہ ہے ہم لوگ آپ کا داہنا بازو ہیں، لیکن ضروری ہے کہ یہ کام کوفہ کے لوگوں کے لئے انجام دیجئے اور ان لوگوں کو جنگ کرنے کی دعوت دیجئیے اور جو فضیلتیں انہیں نصیب ہوئی ہیں ان سے انہیں باخبر کیجئے چاہے وہ لوگ اس سرزمین اوریہاں کے لوگ سمجھے جائیں ، اگر وہ لوگ آپ کی آواز پر لبیک کہیں تو آپ کا مقصد پورا ہوجائے گا، ہم لوگ ذرہ برابر بھی آپ کے نظریہ کے خلاف نہیں ہیں آپ جب بھی ہمیں بلائیں گے ہم حاضر ہوں گے اور جب بھی کوئی حکم دیں گے اس پر عمل کریں گے۔(١)
سہل کی گفتگو اس کے کامل العقل ہونے کی حکایت کرتی ہے، کیونکہ اگرچہ مہاجرین و انصار امام علیہ السلام کے ہمرکاب تھے اور اسلامی امت کی عظیم شخصیت شمار ہوتے تھے اوران لوگوں کا اتحاد معاشرہ کی بیداری میں بہترین اثر رکھتا تھا لیکن فی الحال امام علیہ السلام کا لشکر عراقی افراد نے تشکیل دیا تھا اور ان کے درمیان قبیلوں کے بزرگ تھے بغیر ان کے اعلان کئے ایک لاکھ کا لشکر جمع کرنا ممکن نہ تھا لیکن امام علیہ السلام نے سب سے پہلے مہاجرین و انصار سے کیوں مشورہ کیا اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ لوگ امام علیہ السلام کی حکومت کے بانی اور تمام مسلمانوں کی توجہ کا مرکز تھے اور بغیر ان کو اپنائے ہوئے عراقیوں کو اپنی طرف مائل کرنا ممکن نہ تھا۔
_______________________________
(١)وقعہ صفین ص ٩٣،٩٢
امام علیہ السلام کی تقریر
امام علیہ السلام نے سہل کے مشورہ کے بعداپنے خصوصی مشاورتی جلسہ کو ایک عظیم اجتماع میں تبدیل کردیا۔ اس عظیم اجتماع میں اکثر افراد شریک تھے منبر پر تشریف لے گئے اور با آواز بلند فرمایا:
''سیروا اِ لیٰ اعدائِ اللّہ ، سیروا اِلیٰ اعدائِ السنن والقرآن، سیروا اِلیٰ بقیة الاحزاب، قتلةِ المہاجرین والانصار''
خدا کے دشمنوں کی طرف حرکت کرو ، قرآن اور پیغمبر کی سنتوں کے دشمنوں کی طرف حرکت کرو اور، بقیہ بچے ہوئے (احزاب) اور مہاجرین و انصار کے قاتلوں کی طرف حرکت کرو۔
اس وقت قبیلہ بنی فزار کے اربد نامی شخص نے اٹھ کر کہا:
آپ چاہتے ہیںکہ ہم لوگوں کو شام روانہ کریں تاکہ اپنے بھائیوں کے ساتھ جنگ کریں جس طرح بصرہ بھیجا تھا اور ہم نے اپنے بصری بھائیوں کے ساتھ جنگ کی؟ نہیں ، خدا کی قسم ہم ایسا کام انجام نہیں دیں گے۔
اس وقت مالک اشتر کھڑے ہوئے اور پوچھا یہ کون شخص ہے؟ جیسے ہی مالک اشتر کے منہ سے یہ جملہ نکلا سب کے سب اس کی طرف متوجہ ہوگئے اور وہ لوگوں کے حملہ کے خوف سے فرار ہوگیا اور مال بیچنے والوں کے بازار میں پناہ لے لی اور لوگ طوفان کی طرح اس کا پیچھا کرنے لگے اور اسے تلوار کے غلاف، ہاتھ پیر سے اتنا مارا کہ وہ مرگیا، جب اس کی موت کی خبر امام علیہ السلام کو ملی تو آپ بہت ناراض ہوئے کیونکہ اس کی گستاخی کی سزا یہ نہیں تھی کہ اسے اس طرح قتل کردیا جائے ، اسلامی عدالت کا تقاضا یہ تھا کہ اس کے قاتل کے بارے میں تحقیق وجستجو کی جائے اور اس تحقیق کا نتیجہ یہ معلوم ہوا کہ وہ '' ہمدان'' قبیلہ اور کچھ لوگوں کے ذریعہ قتل ہوا ہے اور اس کا کوئی ایک قاتل نہیں ہے امام علیہ السلام نے فرمایا : یہ اندھا قتل ہے کہ اس کے قاتل کی خبر نہیں ہے لہٰذا اس کی دیت بیت المال سے ادا کی جائے اور آپ نے ایسا ہی کیا۔(١)
_______________________________
(١) وقعہ صفین۔ص٩٥،٩٤
مالک اشتر کی تقریر
یہ غیر متوقع واقعہ امام علیہ السلام کی ناراضگی کا سبب بنا اگرچہ آپ نے حکم دیا کہ اس کی دیت بیت المال سے ادا کی جائے مگر آپ کے چہرے پر ناراضگی کے اثرات نمایاں تھے، اسی وجہ سے امام علیہ السلام کے دلعزیز اور چاہنے والے مالک اشتر اٹھے اور خدا کی حمد وثناء کے بعد کہا:
اس واقعہ سے آپ پریشان نہ ہوں، اس بد بخت خیانت کارکی گفتگو آپ کو مدد و نصرت کرنے والوں سے مایوس نہ کرے، یہ سیلاب کی طرح امڈتا ہوا مجمع جو آپ دیکھ رہے ہیں سب کے سب آپ کے پیرو ہیں اور آپ کے علاوہ کسی اور چیز کو نہیں چاہتے اورآپ کے بعد زندہ نہیں رہنا چاہتے اگر ہمیں دشمنوں کی طرف بھیجنا چاہتے ہیں تو بھیج دیجیئے خدا کی قسم اگر کوئی شخص موت سے ڈرتا ہے تو اس سے نجات حاصل نہیں کرسکتا اور جو شخص زندگی چاہتا ہے اسے نہیں دی جائے گی اور ان لوگوں کے ساتھ بدبخت اور شقی شخص کے علاوہ کوئی دوسرا زندگی گزارنا نہیں چاہتا اور ہم لوگ یہ بھی جانتے ہیں کہ کوئی بھی شخص اس وقت تک موت کی آغوش میں نہیں جاسکتا جب تک کہ اس کی موت کا وقت نہ آچکا ہو، کس طرح سے ہم ان لوگوں سے جنگ نہ کریں جنہیں آپ نے خدا اور قرآن اور سنت پیغمبرۖ کا دشمن اور مہاجرین وانصار کے قاتل کے طور پر بتایاہے؟ کل انہیں میں سے کچھ لوگوںنے (بصرہ میں ) مسلمانوں کے کچھ گروہ پر حملہ کر کے خدا کو غضبناک کیا تھا اور زمین ان کے برے کاموں کی وجہ سے تاریک ہوگئی تھی ان لوگوں نے اپنے آخرت کے حصے کو اس دنیا کے تھوڑے سے مال ودولت کے لئے بیچ دیا ، امام علیہ السلام مالک اشتر کی تقریر سننے کے بعد لوگوں سے مخاطب ہوئے اور فرمایا:
'' الطریق مشترک والناسُ فی الحقِّ سوائ ومن ِ اجتھدَ رأیُہُ فی نصیحة العامّة ِ فلہ مانویٰ وقد قضیٰ ما علیہ ''
یہ راستہ ، عمومی راستہ ہے او ر لوگ حق کے مقابلے میں برابر ہیں اور وہ شخص جو خود اپنی نظر ورائے سے معاشرے کے لئے اچھائی کرے تو خدا اس کی نیت کے مطابق اسے جزا دے گا اور وہ کام جو '' فزاری'' نے انجام دیا وہ ختم ہوگیا ۔(١)
آپ اتنا کہہ کر منبر سے نیچے تشریف لائے اور اپنے گھر واپس چلے گئے۔
_______________________________
(١) وقعہ صفین۔ص٩٥
امام کے لشکر میں معاویہ کے نفوذ کے عوامل
فوجیوں اور لشکریوں کے اندراپنا اثرورسوخ پیدا کرنا،گروہ مخالف کے کمانڈروں کو درہم و دینار کے ذریعے خریدنا، بڑی طاقتوںکی بڑی پرانی روشن رہی ہے ابو سفیان کا بیٹا اس فن میں ایک نابغہ اور ماہر تھا۔
ایک گروہ کی نظر میں سیاست کا مطلب یہ ہے کہ انسان کسی بھی صورت سے چاہے وہ شرعی اعتبار سے ہو یا غیر شرعی لحاظ سے اپنے مقصد تک پہونچ جائے اور ان لوگوں کا فلسفہ یہ ہے کہ مقصد اور ہدف ایک توجیہی وسیلہ ہے سادہ لوح افراد جن لوگوں نے معاویہ کی ظاہری کامیابی کو علی علیہ السلام سے زیادہ سمجھی تھی ان لوگوں نے امام علیہ السلام پر الزام لگایا کہ وہ سیاست کے رموز و اسرار سے واقف نہیں ہیں اور معاویہ ان سے زیادہ سیاسی سوج بوج رکھتا ہے اسی وجہ سے امام علیہ السلام اسلامی سیاست کے تمام اصول و قوانین سے بے بہرہ تنقید کرنے والوں کے سلسلہ میں فرماتے ہیں :
'' واللّہِ ما معاویةُ بأدھیٰ منّی ولکنّہ یغدرُ ویفجرُ ولولا کراھیةُ الغدر لکنتُ من أدھیٰ الناس ولکنَّ کلَّ غدرِةٍ فجرة وکلَّ فجرةٍ ضلالة ولکلَِّ غادِرٍ لوائُ یعرفُ بہ یوم القیامة''(١)
''خدا کی قسم معاویہ مجھ سے زیادہ سیاست مدار نہیں ہے لیکن وہ دھوکہ کرتاہے اور گناہ کرتاہے اور اگر دھوکہ بازی اور حیلہ گری میں کراہت نہ ہوتی تومیں لوگوں میں سب سے زیادہ سیاست مدار ہوتا، لیکن ہر طرح کی چالبازی اور فریب گناہ ہے اور ہرگناہ ایک قسم کا کفر ہے اور قیامت کے دن ہر دھوکہ باز کے ہاتھ میں ایک مخصوص قسم کا پرچم ہوگا جس کے ذریعہ سے وہ پہچان لیا جائے گا''۔
اس بنا پر کہ ہماری گفتگو دلیل یا شاہد سے خالی نہ ہو معاویہ کی چالبازیوں اور مکاریوں کے چند نمونوں کو یہاں پر بیان کررہے ہیں جن کے ذریعہ سے اس نے امام علیہ السلام کی فوج میںنفوذ پیدا کیا تھا ۔
معاویہ کے خلاف جنگ کرنے کے سلسلے میں جو امام علیہ السلام کی تقریر کا اثر ہوا اس کی توصیف ممکن
_______________________________
(١) نہج البلاغہ عبدہ خطبہ ١٩٥
نہیں ہے، یہاں تک کہ معاویہ کے عوامل نفوذی میں سے ایک بنام ''اربد'' امام علیہ السلام پر اعتراض کے سبب ، وہ بھی نازک وقت میں لوگوں کے لات وگھونسوں کا نشانہ بنا، اور اس کے قاتل کی پہچان نہ ہوسکی۔(١)
اس حادثہ کا سبب یہ ہوا کہ دوسرے عوامل نفوذی اپنے امور کو انجام دینے سے باز آجائیں اور امام علیہ السلام کے ارادے کو سست کرنے اور رخنہ اندازی ڈالنے کے لئے کوئی دوسرا طریقہ اپنائیں تاکہ اس کے ذریعے سے امام علیہ السلام کو جنگ سے روک دیں اور یہ معلوم نہیں کہ کس گروہ کو نفع حاصل ہو ان کو ڈرائیں اسی وجہ سے رخنہ اندازی کرنے والوں میںایک قبیلہ عبس (شایدغطفان کا باشندہ ) اور دوسرا قبیلہ بنی تمیم سے جن کے نام عبداللہ اور حنظلہ تھے ،نے ارادہ کیا کہ امام علیہ السلام کے دوستوں کے درمیان نظریاتی اختلاف پیدا کریں اور خیر خواہی اور نصیحت کا طریقہ اپنائیں لہٰذا دونوں نے اپنے قبیلے والوں کو اپنا ہم خیال بنالیا اور پھر امام علیہ السلام کے پاس آئے پہلے حنظلہ تمیمی نے کہا:
ہم لوگ خیر خواہی اور بھلائی کے لئے آپ کے پاس آئے ہیں امید ہے کہ آپ ہماری باتوں کو قبول کریں گے، ہم لوگ آپ کے اور ان لوگوں کے بارے میں جو آپ کے ساتھ ہیں سوچ رہے ہیں کہ اس مرد (معاویہ) سے خط وکتابت کریں اور شامیوں کے ساتھ جنگ کرنے میں جلد بازی سے کام نہ لیں ۔ خدا کی قسم کوئی بھی نہیں جانتا کہ دونوں گروہوں کے درمیان مقابلے میں کون گروہ کامیاب ہوگا اور کس گروہ کو شکست ہو گی۔
پھر عبید اللہ عبسی اٹھا اور حنظلہ کی طرح اس نے بھی گفتگو کی اور جو لوگ ان دونوں کے ساتھ آئے تھے ان لوگوں نے ان دونوں کی تائید کی ۔
امام علیہ السلام نے خدا کی حمد وثناء کے بعد ان لوگوں کے جواب میں فرمایا:
'' خداوند عالم انسانوں اور، اس سرزمین کا وارث ہے، آسمانوں اور ساتوں زمین کا پروردگار ہے ہم سب کے سب اسی کی بارگاہ میں پلٹ کر جائیں گے وہ جس شخص کو چاہتا ہے سرداری عطا کرتاہے، اور جس شخص سے چاہتاہے سرداری کو روک دیتا ہے، جس شخص کو چاہتا ہے عزت بخشتا ہے اور جس شخص کو چاہتا ہے
_______________________________
(١) وقعہ صفین ص ٩٤
ذلیل خوار کردیتا ہے دشمن کی طرف پشت کرنا گمراہوں اور گنہگاروں کا کام ہے اگرچہ ظاہری طور پر کامیابی اور غلبہ پاجائیں ۔ خدا کی قسم میں ایسے لوگوں کی باتیں سن رہا ہوں جو ہرگز اس بات پر راضی نہیں ہیں کہ اچھائیوں کو پہچانیں اور برائیوں سے انکار کریں''(١)امام علیہ السلام نے اپنے کلام کے ذریعے ان دونوں جاسوسوں کو جو لوگوں سے اپنے کوپوشیدہ رکھے ہوئے تھے اور ان لوگوں کی طرف سے گفتگو کررہے تھے ذلیل ورسوا کردیا اور واضح لفظوں میں فرمایا کہ معاویہ کے ساتھ جنگ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا ایک حصہ ہے اورکوئی بھی مسلمان اس وجوب سے انکار نہیں کرسکتا اور وہ لوگ جو ان لوگوں کو معاویہ سے جنگ کرنے کے لئے روک رہے ہیں حقیقت میں وہ اسلام کے ان دو اصولوں کو پامال کررہے ہیں ۔
پردے فاش ہونے لگے
امیرالمومنین علیہ السلام کی گفتگو کا اثر یہ ہوا کہ حقیقت سب پر آشکار ہوگئی اور اسی مجمع میں دونوں جاسوس بے نقاب ہوگئے،لہٰذا معقل ریاحی نے اٹھ کر کہا، یہ گروہ خیر خواہی کے لئے آپ کی طرف نہیں آئے ہیں بلکہ آپ کو بہکانے کے لئے آئے ہیں ان سے دور رہئیے کیونکہ یہ لوگ آپ کے قریبی دشمن ہیں۔ (٢)اسی طرح مالک نامی شخص اپنی جگہ سے اٹھا اور کہنے لگا: حنظلہ کی معاویہ سے خط وکتابت ہے آپ اجازت دیجیئے کہ جنگ شروع ہونے تک اسے قید کردوں ، قبیلہ عبس کے دوآدمی ، عیاش اور قائد نے کہا: خبر ملی ہے کہ عبداللہ کا معاویہ کے ساتھ رازونیاز ہے اور دونوں کے درمیان خط وکتابت ہوتی ہے آپ اسے قید کر لیجئے یا اجازت دیجیے کہ ہم لوگ اسے جنگ شروع ہونے تک قید رکھیں۔(٣)
ان چار افراد کی حقیقت بیانی کا سبب یہ ہوا کہ جاسوس بے سرو پا ہو کر کہنے لگے: یہ اس شخص کی جزا ہے جو آپ کی مدد کے لئے آیا اور اپنے نظریہ کو آپ کے اور آپ کے دشمنوں کے بارے میں بیان کیا؟ امام علیہ السلام نے ان لوگوں کے جواب میں فرمایا : خدا وند عالم ہمارے اور تمہارے درمیان حاکم ہے میں تم لوگوں کو اس کے سپرد کررہاہوں اور اسی سے مدد حاصل کروں گا جو شخص جاناچاہتا ہے چلا جائے امام نے یہ بات کہی اور لوگ منتشر ہوگئے، چند دن بھی نہ گزرے تھے کہ حنظلہ اور قبیلہ تمیم کے بزرگوں کے درمیان ایک
_______________________________
(١) وقعہ صفین ص٩٦۔ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج ٣ ص ١٧٥
(٢)،(٣) واقعہ صفین ص ٩٤۔ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج ٣ ص ١٧٥
جھڑپ ہوئی جس کی وجہ سے دونوں نفوذی عامل اپنے گروہ کے ساتھ عراق سے شام کی طرف روانہ ہوگئے اور معاویہ سے جاکر مل گئے، امام علیہ السلام نے حنظلہ کی خیانت کی وجہ سے حکم دیا کہ اس کے گھر کو ویران کردیا جائے تاکہ دوسروں کے لئے درس عبرت ہو۔(١)
_______________________________
(١)شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج ٣ ص ١٧٦۔وقعہ صفین ص ٩٧
انتظار یا شام کی طرف روانگی
فوج کے تمام سپہ سالار او ر امام علیہ السلام کے چاہنے والے ابو سفیان کے بیٹے کو نیست ونابود کرنے کیلئے متفق تھے سوائے چند لوگوں کے مثلاً عبداللہ بن مسعود کے اصحاب جو خود اپناخاص نظریہ رکھتے تھے ( ان کے نظریات آئندہ بیان ہوں گے)
لیکن انہی افراد کے درمیان امام علیہ السلام کے مورد وثوق اور مخلص لوگ،مثلاً عدی بن حاتم ، زید بن حسین طائی تاخیر کے خواہاں تھے شاید خط وکتابت اور بحث ومباحثے کے ذریعے مشکل ختم ہوجائے ، لہٰذا عدی نے امام علیہ السلام سے کہا:اے امام! اگر مصلحت ہو تو تھوڑا صبر کیجیے اور ان لوگوں کو کچھ مہلت دیجئے تاکہ ان لوگوں کا جواب آجائے اور آپ کے بھیجے ہوئے افرادان سے گفتگو کریں اگر قبول کرلیا تو ہدایت پا جائیں گے اور دونوں کے لئے صلح بہتر ہے اور اگر اپنی کٹ حجتی پر اڑے رہے تو ہمیں ان سے مقابلے کے لئے لے چلئے۔
لیکن ان لوگوں کے مقابلے میں علی علیہ السلام کے لشکر کے اکثرسپہ سالار شام جانے کے لئے بیتاب تھے ان میں سے یزید بن قیس ارحبی ، زیاد بن نضر ، عبداللہ بن بدیل ، عمرو بن حمق(دوبزرگ صحابی) اورمعروف بابعی حُجر بن عدی بہت زیادہ اصرار کررہے تھے اور اپنا نظریہ بیان کرتے ہوئے ایسے نکات کی یاد دہانی کررہے تھے جو ان کے نظریہ کو صحیح ثابت کررہے تھے۔
مثلاً عبداللہ بن بدیل کا نظریہ یہ تھا :
وہ لوگ ہم سے دو چیزوں کی وجہ سے جنگ کرنا چاہتے ہیں :
١۔ وہ لوگ مسلمانوں کے درمیان مساوات سے فرار کر رہے ہیں اور مال ودولت اور منصب میں
تبعیض کے قائل ہیں اور جو مقام ومنصب رکھتے ہیں اس میں بخل سے کام لیتے ہیں اور جس دنیا کو حاصل کرچکے ہیں اسے گنوانا نہیں چاہتے۔
٢۔ معاویہ ،علی علیہ السلام کے ہاتھ پر کس طرح بیعت کرے جب کہ امام علیہ السلام نے ایک ہی دن میں اس کے بھائی ،ماموں اور نانا کو جنگِ بدر میں قتل کیا ہے، خدا کی قسم مجھے امید نہیں ہے کہ وہ لوگ تسلیم ہوں گے مگر یہ کہ ان کے سروں پر نیزے ٹوٹیں اور تلواریں ان کے سروں کو پارہ پارہ کردیں اور لوہے کی سلاخیں ان کے سروں پر برس پڑیں۔
عبداللہ کی دلیلوں سے یہ بات واضح وروشن ہوتی ہے کہ شام کی طرف روانہ ہونے میں جتنی بھی تاخیر ہوگی اتنا ہی دشمن کو فائدہ اور امام علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں کو نقصان پہونچے گا ، لہٰذا امام کے ایک چاہنے والے ، یزید ارجی نے امام علیہ السلام سے کہا:
'' جنگ کرنے والے افراد سستی اور کاہلی سے کام نہیں لیتے اور جو کامیابی انہیں نصیب ہوتی ہے ہرگز اسے اپنے ہاتھوں سے جانے نہیں دیتے اوراس سلسلے میں آج اور کل پر بات نہیں ٹالتے(١)
_______________________________
(١)شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج ٣ ص ١٧٧۔وقعہ صفین ص ١٠٢۔٩٨
غیظ وغضب میں بردبار ی
اسی اثناء میں امام علیہ السلام کو خبر ملی کہ بزرگ صحابی عمروبن حمق اور حجر بن عدی شام والوں پر
لعنت وطعن کررہے ہیں(١)امام علیہ السلام نے کسی کو حکم دیا کہ ان لوگوں کو اس کام سے منع کرے وہ لوگ امام علیہ السلام کا پیغام سن کر امام علیہ السلام کی خدمت میں آئے اور کہا: کیوں آپ نے ہمیں اس کام سے روکا؟ کیا وہ لوگ اہل باطل سے نہیں ہیں؟ امام علیہ السلام نے فرمایا: کیوں نہیں لیکن '' مجھے پسند نہیں ہے کہ تم لوگ لعنت کرنے والے او ربراکہنے والے بنو، گالی نہ دو اور نفرت نہ کرو اگر اس کی جگہ ان کی برائیوں کو بیان کرو توبہت زیادہ مؤثر ہوگا اور اگر لعنت اور ان سے بیزاری کرنے کے بجائے کہوکہ ، خدا یا ہمارے خون اور ان کے خون کی حفاظت فرما ۔ ہمارے اور ان کے درمیان صلح قراردے ، ان لوگوں کو گمراہی سے ہدایت عطا کرتاکہ جولوگ ہمارے فضائل وکمالات سے بے خبر ہیں اس سے وہ باخبر وآشنا ہوجائیں تو یہ میرے لئے
خوشی کا باعث اور تمہارے حق میں بہتر ہوگا'' (١)
دونوں افراد نے امام علیہ السلام کی نصیحتوں کو قبول کرلیا اور عمروبن حمق نے امام علیہ السلام سے اپنی الفت ومحبت کو ان الفاظ میں بیان کیا:
'' میں نے رشتہ داری یا مال ومقام کی لالچ کے سبب آپ کے ہاتھوں پر بیعت نہیں کی ہے بلکہ بیعت کرنے کی وجہ یہ تھی کہ آپ کے اندر ایسی پانچ اہم صفتیں ہیں جن کی وجہ سے میں نے آپ کی محبت کو اپنے اوپر فرض کیا ہے ،آپ پیغمبر (ص)کے چچا زادبھائی ہیں اور آپ ہی سب سے پہلے وہ شخص ہیں جو ان پر ایمان لائے ہیں اور آپ اس امت کی سب سے بہترین اور پاکیزہ عورت کے شوہر ہیں، آپ رسول خداۖ کی ذریت ِ طاہرہ کے باپ ہیں اور مہاجرین کے درمیان جہاد کرنے والوںمیں سب سے زیادہ اور عظیم حصہ آپ کا ہے ، خدا کی قسم اگر مجھے حکم دیں کہ بلند پہاڑوں کو اس کی جگہوں سے ہٹادوں اور دریا کے پانی کو ان سے نکالوں اور جہاں تک ممکن ہو آپ کے دوستوں کی مدد کروں اور آپ کے دشمنوں کو نابود کردوں تو بھی جو حق آپ کا میری گردن پر ہے میں اسے ادا نہیں کرسکتا۔
امیر المومنین علیہ السلام نے جب عمرو کے خلوص وجذبہ کا مشاہدہ کیا تو ان کے حق میں یہ دعا فرمائی ''اللھم نوّر قلبہ بالتقیٰ وأیدہُ الیٰ صراط مستقیم ۔ لیت أنَّ فِی جُندی مأةٍ مثلک فقال حُجر اِذاً واللّہ یاأمیر المومنین صحّ جُندک و قلَّ من یَغشّیک ''(٢)
خدا اس کے قلب کو نورانی بنادے اور اسے سیدھے راستے کی طرف ہدایت فرما کاش میری فوج میں تمہاری طرح کے سو افراد ہوتے۔
حُجر نے کہا: اگر ایسا ہوتا ،توآپ کی فوج اصلاح کو قبول کرتی اور متقلّب (بدلنے والے) افراد اس میں بہت کم ہوتے۔
_______________________________
(١)وقعہ صفین ص١٠٣،نہج البلاغہ،خطبہ ١٩٧، شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج٣ ص ١٨١۔ اخبارالطوال ص ١٥٥ تذکرہ الخواص ابن جوزی ص ١٥٤ ۔ مصادر نہج البلاغہ ج٣ص١٠٢
(٢)وقعہ صفین ص ١٠٤۔١٠٣
امام علیہ السلام کا آخری فیصلہ
امام علیہ السلام اپنے موافقوں اور مخالفوں کی گفتگوؤں کو سننے کے بعد اس آیت '' وشاورھم فی الأمر فاذا غرمت فتوکل علی اللّہِ '' کے حکم پر عمل کرتے ہوئے اس نتیجہ پر پہونچے کہ خود کوئی قطعی فیصلہ کریں ۔ لہٰذا ہر کام سے پہلے یہ حکم دیا کہ جتنے بھی ذخیرے یا اضافی مال حاکموں کے پاس ہیں انہیں ایک جگہ جمع کیا جائے تاکہ فوج کو شام روانہ کرتے وقت ان کے اخراجات مہیا ہو سکیں ۔
جہاد اسلامی کے تین اہم رکن
جنگ اور قرآن کے مطابق '' جہاد'' یا ''قتال'' کے لئے بہت سے مقدمات ( چیزوں ) کی ضرورت ہوتی ہے جن میں سب سے اہم تین چیزیں ہیں۔
١۔ بہترین وطاقتور اور بہادر جانباز وسپاہی ۔
٢۔ لائق اور عمدہ سپہ سالار۔
٣۔ اخراجات کا کافی مقدار میں ہونا۔
مختلف طرح سے آزمانے اور لوگوں کی طرف سے مستقل دعوت ناموں اور بہت زیادہ گروہوں مثلاً عراق کے بہت سے قبیلوں کا امام علیہ السلام کی آواز پر لبیک کہنے نے ان تینوں اہم رکنوں میں سے پہلے رکن کو تو پورا کردیا ،اس بارے میںامام علیہ السلام کے لئے کوئی فکر کرنے کی ضرورت نہ تھی لیکن ان کو اپنے ارادے پر باقی رکھنے کے لئے عظیم شخصیتوں مثلاً خود آپ کے بیٹوں امام حسن مجتبیٰ وحضرت حسین علیھما السلام اور ان کے باوفا اصحاب اسی طرح عماریاسروغیرہ نے مختلف موقعوں پر تقریریں کیں اور دوسرے رکن کی انجام دہی کے لئے امام علیہ السلام نے محترم اور عظیم شخصیتوں کے پاس خط لکھا اور ان لوگوں کوجنگ میں شریک ہونے کے لئے دعوت دی ، ان افراد کے وجود نے علاوہ اس کے کہ امام علیہ السلام کے لشکر کو معنویت اور جذبہ عطا کیا اورخود جہاد کو باحیثیت اور معنویت سے پُرکردیا لشکر کی طاقت میں بھی اضافہ کردیا ، یہاں پر ہم صرف امام علیہ السلام کے اس خط کا ترجمہ پیش کرنے پر اکتفا کریں گے جو آپ نے اصفہان کے حاکم مخنف بن سلیم کے نام لکھا ، خط کا مضمون یہ ہے:
'' تجھ پر سلام : اس خدا کی حمد وثناء جس کے علاوہ کوئی خدا نہیں ہے اما بعد، اس شخص سے جنگ کرنا عارفوں پر لازم ہے جس نے حق سے منہ موڑ رکھا ہے اور خواب غفلت کی وجہ سے اس کے دل اندھے اور گمراہی کے دلدل میں پھنس گئے ہیں۔
جو لوگ خداوند عالم کی مرضی پر راضی ہیں خدا ان سے راضی ہے اور جو لوگ اس کی مخالفت کرتے ہیں خدا ان پر غضبناک ہوتاہے، ہم نے ارادہ کیاہے کہ اس گروہ کی طرف جائیں جو بندگان خدا کے بارے میں جس چیز کا خداوند عالم نے حکم دیا ہے اس کے خلاف عمل کرتاہے اور بیت المال کو اپنا مال سمجھ بیٹھا ہے اور حق کو پامال کرکے باطل کو ظاہر کردیا ہے اور خدا کی اطاعت نہ کرنے والوں کو اپنا راز دار بنالیا ہے اگر خدا کا کوئی ولی ومطیع ان بدعتوں کو بزرگ شمار کرتا ہے تو وہ لوگ اسے اپنا دشمن تصور کرتے ہیں اسے اس کے گھر اور علاقے سے باہر نکال دیتے ہیں اور اُسے بیت المال سے محروم کردیتے ہیں اوراگر کوئی ظالم ان کے ظلم میں شریک ہوتاہے تو وہ اسے اپنا دوست سمجھتے ہیں اور اُسے اپنا قریبی تصور کرتے ہیں اور اس کی دلجوئی کرتے ہیں، ان لوگوں نے بہت زیادہ ظلم وستم کیئے ہیں اور (شریعت کی ) مخالفت کا ارادہ کرلیا ہے بلکہ بہت دنوں سے اس کام کو انجام دے رہے ہیں تاکہ لوگوں کو حق سے دور کردیں اور ظلم وستم اور گناہوں کے پھیلانے میں ان کی مدد کریں ۔
جس وقت میرا خط تمہارے پاس پہونچے تم اپنے کاموں کو کسی مورد اعتماد شخص کے حوالے کرنا اور جلدی سے ہمارے پاس آنے کی کوشش کرنا شاید ان مکار اور دھوکے باز دشمنوں کا مقابلہ کرنا پڑے اور امربالمعروف اور نہی عن المنکر کرنا پڑے ہم جہاد کے ثواب میں تم سے بے نیاز نہیں ہیں''۔(١)
جس وقت امام علیہ السلام کے منشی عبداللہ بن ابی رافع کے ہاتھ کا لکھا ہوا خط اصفہان کے حاکم کے پاس پہونچا فوراً ہی اس نے اپنے دو قریبی ساتھیوں کو بلایا اور اصفہان کے تمام امور کو حارث بن ابی الحارث اور ہمدان کے تمام امور کو جو اس زمانے میں سیاسی اعتبار سے اصفہان کے زیر نظر تھا ،سعید بن وہب کے سپرد کیا ، اور امام کی خدمت کے لئے چل پڑا اور اسی طرح سے کہ جیسا کہ امام نے کہا تھا ( کہ ہم جہاد کے اجروثواب میں تم سے بے نیاز نہیں ہیں ) جنگ کے دوران
______________________
(١)وقعہ صفین ص ١٠٦۔١٠٤۔شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج ٣ ص ١٨٣۔١٨٢
شہادت پر فائز ہوگیا (١)
یہی تنہا حاکم نہیں تھا جسے امام علیہ السلام نے جنگ کے لئے بلایا تھا بلکہ اسی سلسلے میں ذیقعدہ ٣٧ ھ میں ابن عباس کو خط لکھا کہ باقی بیت المال کو میرے حوالے کر دو لیکن جو لوگ تمہارے اطراف میں ہیں پہلے ان کی ضرورتوں کو پورا کرو اور بقیہ تمام مال کو کوفہ بھیج دو البتہ جنگ کے شرائط کو دیکھتے ہوئے صرف کوفہ کا بیت المال امام علیہ السلام کے لئے کافی نہ تھا جس کی وجہ سے دوسرے شہروں سے بھی مدد حاصل کی ہے (٢)
سپاہیوں کو حوصلہ عطا کرنا
امام علیہ السلام کے پاس سپاہیوں کی کمی نہ تھی، سرزمین اسلام کے بہت سے حصے آپ کے اختیار میں تھے لیکن ، نفوذی عوامل ، بزدل افراد ، مایوسی اور بے یقینی کی وجہ سے راہ حق سے دور ہورہے تھے، اسی وجہ سے امام علیہ السلام اور آپ کے بیٹے امام مجتبیٰ علیہ السلام ،دوسرے بیٹے امام حسین علیہ السلام فوجی چھاونی نخلیہ سے چلتے وقت تک لوگوں کے درمیان تقریریں کرتے رہے اوران کے دلوں کو محکم ومطمئن کرتے رہے ، تاریخ نے ان تقریروں اور خطبوں کی عبارتوں کو اپنے دامن میں محفوظ کررکھا ہے(٣)
اور کبھی عظیم شخصیتیں اور شہادت کے متمنی افراد مثلاً ہاشم بن عتبہ بن وقاص ، سعد وقاص کے بھتیجے نے لوگوں کے مجمع میں تقریر کی اور بہت زیادہ اصرار کیا کہ جلد سے جلد ان لوگوں سے جنگ شروع کریں جن لوگوں نے خدا کی کتاب کی مخالفت کی ہے اور خدا کے حلال کو حرام اور حرام کو حلال کیا ہے ، اس نے اتنا زیادہ جوش وخروش اور دلسوز انداز میں گفتگو کی کہ امام علیہ السلام نے اس کے حق میں دعا کی اور فرمایا: اللھمّ ارزقہ الشھادة فی سبیلک والمرافقة لنبیّک صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم '' (٤)۔یعنی پروردگارا: اسے اپنی راہ میں شہادت کے درجے پر فائز کر اور اسے اپنے پیغمبر ۖکا ہم نشین قرار دے۔
ہاشم صفین میں امام علیہ السلام کے لشکر کا علمبردار تھا اورجنگ کے آخری دنوں میں جام شہادت نوش کیا ۔
______________________
(١)،(٢)وقعہ صفین ص ١٠٦۔١٠٤۔شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج ٣ ص ١٨٣۔١٨٢
(٣) وقعہ صفین ص ١١٥۔١١٢
(٤)شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج ٣ ص ١٨٤
راہ کے انتخاب میں آزادی
عبداللہ بن مسعود (١) کے ماننے والوں کا ایک گروہ امام علیہ السلام کے پاس پہونچا اور کہا : ہم لوگ آپ کے ساتھ چلیں گے اور آپ لوگوں سے دور اپنا پڑاؤ ڈالیں گے تاکہ آپ کے اور آپ کے مخالفوں کے کام پر نظر رکھیں ، جس وقت ہم دیکھیں گے کہ ایک گروہ غیر شرعی کام کررہا ہے یا تجاوز کررہا ہے تو اس کے خلاف جنگ کریں گے۔
امام علیہ السلام کی پوری حیات اور حکومت میں ایسی کوئی بات نہ تھی جوان کے لئے شک و تردید کا سبب بنتی لیکن دشمن کے بہکاوے نے ان کے دلوں میں وسوسے ڈال رکھے تھے اور صالحین کو ابوسفیان سے جنگ کرنے کے سلسلے میں مردّد کر رکھا تھا ، اسی وجہ سے امام علیہ السلام نے ان لوگوں سے فرمایا:'' مرحباً وأھلاً ، ھٰذا ھوالفقہ فی الدین والعلم بالسنة من لم یرض بھذا فھو جائر خائن '' (٢)مبارک ہو تمہیں یہ کلام وہی دین فہمی اور حقیقت سے آشنا ئی اور پیغمبر اسلام
کی سنت سے آگاہی ہے جو شخص بھی اس کام پر راضی نہ ہو وہ ستم گر اور خائن ہے۔
عبداللہ بن مسعود کے دوستوں کا دوسرا گروہ بھی امام کے پاس آیا اور اس نے کہا : ہم آپ کی تمام فضیلتوں کا اعتراف کرتے ہیں لیکن اس جنگ کے شرعی ہونے کے سلسلے میں شک وتردید کررہے ہیں ، اگر بنا ہے کہ ہم لوگ بھی دشمن کے ساتھ جنگ کریں تو ہم لوگوں کو کسی دور مقام پر بھیج دیں تاکہ وہاں سے دین کے دشمنوں سے جہاد کریں ۔ امام علیہ السلام یہ سن کر ناراض نہ ہوئے بلکہ ربیع بن خثیم کی سرپرستی میں ان میں سے چار سو آدمیوں پر مشتمل ایک لشکر '' ری '' کی طرف روانہ کردیا تاکہ وہاں اپنا وظیفہ انجام دیں اور اسلامی جہاد جو خراسان کے اطراف میں رونما ہوا ہے اس میں مدد کریں۔ (٣)
_______________________________
(١) عبداللہ بن مسعود حافظ قرآن اور صدر اسلام کے مسلمانوں میں سے ہے اور عثمان سے اس کی مخالفت کی روداد بہت طویل ہے ٣٢ ہجری میں مدینے میں انتقال ہوا، جنگ صفین کی آمادگی ٣٧ ہجری کے آخر میں ہوئی جس میں اس کا کوئی وجود نہ تھا بلکہ کچھ گروہ جن لوگوں نے اس سے قرآن و احکام سیکھا تھا وہ لوگ باقی تھے۔ طبقات ابن سعد ج٣،ص ١٦٠ (مطبوعہ بیروت)۔
(٢)وقعہ صفین ص، ١١٥۔شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج ٣ ص١٨٦۔
(٣)شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج ٣ ص١٨٦ ۔
جب یہ گروہ جنگ میں شرکت کرنے کی طرف مائل نہ ہوا تو امام علیہ السلام نے میں قبیلہ باہلہ کے لوگوں کو بھی جن کے امام سے روابط اچھے نہیں تھے اس جنگ میں شرکت کرنے سے منع کردیا اور جو ان کا وظیفہ تھا انہیں دے دیا اور حکم دیا کہ '' دیلم '' کی طرف چلے جائیں اور وہاں اپنے مسلمان بھائیوں کے ساتھ مل کر خدمت کریں (١)
امام علیہ السلام کی فوج کے عظیم سپہ سالار
امام علیہ السلام کے لشکر کے اکثر سپاہی کوفہ وبصرہ اور ان دونوں شہروں کے اطراف میں رہنے والے یمن کے قبیلے تھے۔
امام علیہ السلام ان پانچ قبیلے والوں کو جو ابن عباس کے ہمراہ بصرہ سے نخلیہ ( کوفہ کی فوجی چھاؤنی ) آئے تھے ، ان کے لئے پانچ عظیم سپہ سالار معین کئے:
١۔ قبیلہ بکر بن وائل کے لئے خالد بن معمر سدوس
٢۔ قبیلہ عبد القیس کے لئے عمروبن مرجوم عبدی
٣۔ قبیلہ ازد کے لئے صبرة بن شیمان ازدی
٤۔ تمیم وضُبّہ ورباب کے لئے احنف بن قیس
٥۔ اہل عالیہ کے لئے شریک بن اعور
یہ تمام سپہ سالار ابن عباس کے ہمراہ بصرہ سے کوفہ آئے اور انہوں نے ابو الاسود دوئلی کو اپنا جانشین قراردیا۔ اور خودسفر میں امام علیہ السلام کے ہمراہ رہے(٢)
اسی طرح امام علیہ السلام نے کوفہ کے سات قبیلوں پر، جن کی شرکت سے کوفہ کی فوجی چھاؤنی چھلک رہی تھی سات سپہ سالارمعین فرمائے ، جن کے نام تاریخ نے اپنے دامن میں محفوظ کررکھا ہے۔(٣)
_______________________________
(١)وقعہ صفین ص ١١٦
(٢)وقعہ صفین ص ١١٧۔شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج ٣ ص١٩٤
(٣)وقعہ صفین ص ١٢١۔مروج الذھب(ج٢، ص ٣٨٤) میں ابومسعود عقبہ بن عامر کا ذکر ہوا ہے۔
پہلا فوجی دستہ
تمام سپہ سالاروں کا تعیّن اپنے اختتام کو پہونچا، امام علیہ السلام نے عقبہ بن عمرو انصاری کو اپنا جانشین معین فرمایا جو سابق الاسلام تھے اور پیغمبر کے ہاتھوں پر '' عقبہ '' میں بیعت کی تھی ۔ آپ نے حکم دیا کہ جنگ کے لئے آمادہ ہوجائیں ۔ جس وقت کوفہ کی فوجی چھاؤنی سپاہیوں سے چھلک رہی تھی ایک گروہ جو عثمان کی حکومت کے زمانے میں صرف حکومت کوفہ پر اعتراض کرنے کی وجہ سے جلا وطن کیا گیاتھا چاروں طرف سے آگیا اور یہ نعرہ لگایا '' قد آن للذین أخرجوا من دیارھم '' وہ وقت آپہونچا ہے کہ جو لوگ اپنے گھروں سے دور کردیئے گئے تھے وہ دشمن کے ساتھ جنگ کرنے کے لئے آمادہ ہوجائیں (١)
شروع میں امام علیہ السلام نے بارہ ہزار افراد پر مشتمل دو طاقتور فوج کو شام کی طرف روانہ کیا اور آٹھ ہزار افراد پر مشتمل فوج کی ذمہ داری زیاد کو سونپی اور دوسری فوج جو چار ہزار جانبازوں پر مشتمل تھی اس کی ذمہ داری ہانی کے سپرد کی اور دونوں کو حکم دیا کہ پورے اتحاد واتفاق کے ساتھ شام کی طرف سفر کریں اور جہاں پر دشمن کا سامنا ہو وہیں پڑاؤ ڈال دیں (٢)۔
_______________________________
(١)وقعہ صفین ص١٢١
(٢)کامل ابن اثیر ص ١١٤، تاریخ طبری ٣ جزء ٤ ص ٢٣٧
|