فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)
 

تیرہویں فصل
حضرت علی ـ سے مقابلے کے لئے معاویہ کے اقدامات

معاویہ کا خط عمرو عاص کے نام
عمرو عاص جو کہ میدان سیاست کا ایک چالاک بھیڑیا تھا او راس وقت مشہورومعروف فلسطین میںگوشہ نشینی کی زندگی گزار رہا تھا معاویہ نے اس کو اپنی طرف جذب کرنے کے لئے اسے اس مضمون کا خط لکھا:
''علی اور طلحہ و زبیر کا واقعہ تونے سنا ہے ،مروان بن حکم بصرہ کے کچھ لوگوں کے ہمراہ شام آیا ہے اور جریر بن عبد اللہ علی کی طرف سے نمائندہ بن کر بیعت لینے کے لئے شام آچکا ہے میں نے ہر طرح کا فیصلہ کرنے سے پرہیز کیا ہے تاکہ تمہارا نظریہ معلوم کروں جتنی جلدی ہو شام آجاؤ تاکہ اس سلسلے میں رائے و مشورہ کیا جائے۔(١)
جب یہ خط عمرو کے پاس پہونچا تو اس نے اس خط کے مفہوم کو اپنے دونوں بیٹوں عبد اللہ اور محمد کو بتایا، اور ان سے ان کا نظریہ معلوم کیا اس کا بڑا بیٹا جو تاریخ میں اچھے نام سے مشہور ہے (و اللہ اعلم) اس کا کہنا تھا:
جب تک رسول خداۖ اور ان کے بعد کے دو خلیفہ زندہ تھے سب کے سب تم سے راضی تھے اور جس دن عثمان کا قتل ہوا اس دن تم مدینہ میں نہ تھے۔ اس وقت کتنا بہتر ہے کہ تم خود اپنے گھر میں بیٹھتے اور بہت کم منافع حاصل کرنے کے لئے معاویہ کی حاشیہ نشینی چھوڑ دیتے، کیوں کہ خلافت تمہیں ہرگز نہیں مل سکتی، اور قریب ہے کہ تمہاری عمر کا سورج غروب ہو جائے اور زندگی کے آخری مرحلے میں بدبخت ہو جاؤ۔
لیکن اس کے دوسرے بیٹے نے اپنے بڑے بھائی کے خلاف نظریہ پیش کیا کہ معاویہ کی دعوت کو قبول کرے اور کہا : تم قریش کے بزرگوں میں سے ہو اور اگر اس امر میں خاموشی اختیار کر کے بیٹھ گئے تو لوگوں کی
_______________________________
(١) الامامة و السیاسة ص ٨٤، وقعہ صفین ص ٣٤۔
نگاہوں میں تم ایک معمولی شخص رہوگے، اور حق شام کے لوگوں کے ساتھ ہے ان کی مدد کرو اور عثمان کے خون کا بدلہ لو اور ایسی صورت میں بنی امیہ اس کام کے لئے قیام کریں گے۔
عمرو عاص جو ایک ہوشیار و چالاک شخص تھا اس نے عبد اللہ کو مخاطب کر کے کہا کہ تمہارا نظریہ میرے دین کے نفع میں ہے،جب کہ محمد کا نظریہ میرے دنیاوی فائدے کے لئے ہے اس سلسلے میں میں غور و فکر کروں گا، پھر اس نے کچھ اشعار پڑھا اور دونوں بیٹوں کے نظریات کو شعری انداز میں بیان کیا ،اس کے بعد اپنے چھوٹے بیٹے وردان کے سے پوچھا: اس نے کہا کیا آپ چاہتے ہیں کہ جو کچھ آپ کے دل میں ہے اس کے بارے میں خبر دوں؟ عمرو نے کہا: بتاؤ تم کیا جانتے ہو اس نے کہا: دنیا و آخرت نے تمہارے دل پر حملہ کردیا ہے علی کی پیروی آخرت کے لئے سعادت کا باعث ہے جب کہ ان کی پیروی دنیاوی نہیں ہے لیکن آخرت کی زندگی دنیا کی ناکامیوں کے لئے قابل تلافی ہے، جب کہ معاویہ کا ساتھ دینے میں دنیا ملے گی مگر آخرت سے محرومی ہوگی، اوردنیا کی زندگی آخرت کی سعادتوں کے لئے قابل تلافی نہیں ہے اس وقت تم ان دونوں کے درمیان کھڑے ہو اور تمہاری سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ کس کا انتخاب کرؤ۔
عمرو نے کہا: تم نے بالکل صحیح کہا ہے۔ اب بتاؤ کہ تمہارا نظریہ کیا ہے؟
اس نے کہا: اپنے گھر میں خاموشی سے بیٹھ جاؤ۔ اگر دین کامیاب ہوگیا تو تم اس کے سائے میں زندگی بسر کرنا اور اگر اہل دنیا کامیاب ہوئے تو وہ لوگ تم سے بے نیاز نہیں ہیں۔
عمرو نے کہا: کیا اب اس وقت گھر میں بیٹھوں جب کہ معاویہ کے پاس میرے جانے کی خبر پورے عرب میں پھیل چکی ہے۔(١)
وہ اندرونی طور پر ایک دنیا پرست انسان تھا ،لہذا معاویہ کا ساتھ دیا لیکن اپنے چھوٹے بیٹے کی گفتگو کو شعری قالب میں ڈھال دیا:
اما علی فدین لیس یشرکہ
دنیا و ذاک لہ دنیا و سلطان
فاخترت من طمعی دنیا علی بصرٍ
و ما معی بالذی اختار برہان(٢)
علی کی پیروی میں دین ہے لیکن دنیا نہیں ہے جب کہ معاویہ کی پیروی کرنے میں دنیا اور قدرت ہے۔
میں نے اپنی لالچ و آرزو کی وجہ سے حقیقت جانتے ہوئے دنیا کو اختیار کیا لیکن اس کے قبول کرنے کے لئے میرے پاس کوئی عذر یا حجت نہیں ہے، پھر وہ شام کی طرف روانہ ہوگیا اور اپنے پرانے اور قدیمی دوست کے ساتھ تبادلہ خیال کرنے لگا اور امام علی ـ کو صفحہء ہستی سے مٹانے کے لئے ایک نقشہ تیار کیا جسے ہم بعد میں بیان کریں گے۔
_______________________________
(١) الامامة والسیاسة، ص ٨٧۔
(٢) وقعۂ صفین، ص ٣٦۔

دو کہنہ کار سیاستدانوں کی ہمکاری
بالآخر ''بنی سھم'' کا پرانا اور قدیمی سیاست دان اور اپنے زمانہ کا معروف و مشہور عمرو عاص نے دنیا کو آخرت پر ترجیح دیا اور فلسطین سے شام کی طرف روانہ ہوگیا تاکہ اس ضعیفی اور بڑھاپے میں دوسری مرتبہ مصر کا حاکم بن جائے۔وہ خوب جانتا تھا کہ معاویہ کو اس کی دور اندیشی اور تدابیر کی ضرورت ہے لہٰذا اس نے سوچاکہ اس کی مددکرنے کے بدلے اس سے زیادہ سے زیادہ قیمت وصول کرے(١) اور گفتگو کے دوران مطالب کو وقفہ ، و قفہ سے بیان کیا تاکہ معاویہ کی فکر و نظر کو اپنی طرف جذب کر لے۔
گفتگو کی پہلی نشست میں معاویہ نے تین مشکلیں بیان کیں جن میں ایک یہ تھی کہ علی ـ کی سر زمین شام پر حملہ کرنے کے ارادے نے تمام چیزوں سے زیادہ میرے ذہن کوالجھن میں ڈال دیاہے یہاں ہم بغیر کسی کمی و زیادتی کے ان دونوں کی گفتگو کو نصر بن مزاحم کی ''تاریخ صفین'' سے نقل کر رہے ہیں۔
معاویہ : کافی دنوں سے تین چیزوں نے میرے ذہن و فکر کو اپنی طرف مشغول کر رکھا ہے اور میں مسلسل اس بارے میں سوچ رہا ہوں، تم سے درخواست ہے کہ اس مسئلہ کا کوئی حل پیش کرو۔
عمرو عاص : وہ تینوں مشکلیں کیا ہیں؟
معاویہ: محمد بن ابی حذیفہ نے مصر کا قید خانہ توڑ ڈالا ہے اور وہ دین کے لئے آفت ہے (یعنی حکومت معاویہ کیلئے)
(وضاحت: عثمان کی خلافت کے زمانے میں مصر کے تمام امور کی ذمہ داری عبد اللہ بن سعد بن ابی سرح پر
_______________________________
(١)الامامةوالسیاسة،ج١،ص٨٧۔
تھی اور محمد بن ابی حذیفہ ان لوگوں میں سے تھا جس نے لوگوں کو حاکم مصر کے خلاف بغاوت کے لئے آمادہ کیا تھا عثمان کے قتل کے بعد اس کا حاکم لوگوں کے خوف سے مصر چھوڑ کر چلا گیا اور اپنی جگہ پر اپنے نمائندے کو منصوب کردیا، لیکن ابو حذیفہ کے بیٹے نے حاکم کے نمائندے کے خلاف لوگوں کو تشویق و رغبت دلائی اور بالآخر اسے مصر سے نکال دیا اور خود وہاں کی ذمہ داریوں کو اپنے ہاتھوں میں لے لیا۔ حضرت علی ـ کی خلافت کے ابتدائی دور میں مصر کی حاکمیت قیس بن سعد کو دی گئی اور محمد کو
معزول کردیاگیا، جب معاویہ نے مصر پر قبضہ کیا تو محمد کو قید خانے میں ڈال دیا لیکن وہ اور اس کے ساتھی کسی صورت سے قید خانے سے بھاگ گئے،(١) جی ہاں، محمد بن ابی حذیفہ بہت زیادہ فعال اور حادثہ کا ایجاد کرنے والا تھا، اور وہ معاویہ کا ماموں زاد بھائی تھا)۔
عمرو عاص: اس واقعہ کی کوئی خاص اہمیت نہیں ہے تم ایک گروہ کو بھیج کر اسے قتل کرواسکتے ہو یا وہ لوگ قید کر کے زندہ تیرے حوالے کرسکتے ہیں ، لیکن اگر یہ لوگ اسے گرفتار نہ کرسکے تو وہ اتنا خطرناک نہیں ہے کہ تمہاری حکومت کو تم سے چھین لے۔
معاویہ: قیصر روم، رومیوں کے گروہ کے ساتھ شام کی طرف چلنے والا ہے تاکہ شام کی حکومت ہم سے واپس لے لے۔
عمرو عاص: قیصر روم کی مشکلات کو ہدیہ وغیرہ مثلاً روم کے غلاموں اور کنیزوں اور سونے چاندی کے برتن وغیرہ بھیج کر دور کرو، اور اسے صحت و سلامتی کی زندگی دے کر دعوت کرو کہ عنقریب وہ اس کام میں شریک ہوگا۔
معاویہ: علی نے کوفہ میں قیام کیا ہے اور شام کی طرف بڑھ رہے ہیں اس مشکل کے بارے میں تمہارا کیا نظریہ ہے؟
عمرو عاص: عرب ہرگز تجھے علی جیسا نہیں سمجھتے ، علی جنگ کے تمام رموز و اسرار سے آشنا ہیں اور قریش میں ان کی مثال نہیں ہے، وہ اس حق کی بنا پر صاحب حکومت ہیں جو ان کے ہاتھ میں ہے مگر یہ کہ تم
ان پر ظلم و ستم کرو اور ان کے حق کو سلب کرلو۔
_______________________________
(١) اسد الغابہ، ج٤، ص ٣١٦۔ ٣١٥۔
معاویہ: میں چاہتا ہوں کہ تم اس سے جنگ کرو کہ اس نے خدا کی نافرمانی کی ہے اور خلیفہ کو قتل کردیا ہے اور فتنہ پیدا کردیا اور اتحاد کو درہم برہم کردیا اور رشتہ داری کو توڑ دیا ہے۔
عمرو عاص: خدا کی قسم، تم اور علی ہرگز شرف و فضیلت میں برابر نہیں ہو تم نہ ان کی ہجرت کی فضیلت رکھتے ہو نہ ان کے دیگرسوابق کی فضیلت رکھتے ہو، نہ ان کی طرح تم پیغمبر ۖ کے ساتھ رہے ہو نہ تم نے ان کی طرح مشرکوں سے جہاد کیا ہے نہ ان کی طرح تمہارے پاس عقل و دانش ہے ، خدا کی قسم علی کی فکر بہت عالی ، ذہن بہت صاف اور وہ ہمیشہ سعی وکوشش میں رہے ہیں، وہ با فضیلت اور سعادت مند اور خدا کے نزدیک کامیاب انسان ہیں، ایسے بافضیلت شخص کے ساتھ جنگ کرنے کے لئے مجھے کیا قیمت دو گے کہ میں تمہارا ساتھ دوں؟ تمہیں معلوم ہے کہ اس ہمکاری میں کتنے خطرے موجود ہیں۔
معاویہ: تمہیں اختیار ہے، تمہیں کیا چاہئے؟
عمرو عاص: مصر کی حکومت۔
معاویہ: (جب کہ وہ دھوکہ کھا چکا تھا) اس نے مکاری کے طور پر دنیا و آخرت کے مسئلے کو سامنے رکھا، اور کہا: میں نہیں چاہتا کہ عرب تمہارے بارے میں اس طرح کی فکر کریں کہ تم دنیاوی غرض کے لئے ہمارے ساتھ جنگ میں شامل ہوئے ہو، کتنا اچھا ہوگا کہ وہ لوگ یہ کہیں کہ تم نے خدا کی مرضی اور آخرت کی اجرت لینے کے لئے ہمارا ساتھ دیا، اور کبھی بھی دنیا کی معمولی اور چھوٹی چیز آخرت کے اجر کے برابر نہیں ہو سکتی۔
عمرو عاص: ان بے ہودہ باتوں کا ذکر نہ کرو۔(١)
معاویہ: میں اگر تجھے دھوکہ دینا چاہوں تو دے سکتا ہوں۔ عمرو عاص: مجھ جیسا آدمی دھوکہ نہیں کھا سکتا، میں اس سے بھی زیادہ چالاک ہوں جتنا تم سوچ رہے ہو۔
معاویہ: میرے نزدیک آؤ تاکہ تم سے اصلی راز بیان کروں۔
_______________________________
(١) ابن ابی الحدید اپنی کتاب شرح نہج البلاغہ، ج٢، ص ٦٥، مطبوعہ مصر، میں لکھتا ہے: میں نے اپنے استاد ابو القاسم بلخی سے کہا کہ یہ عمرو عاص کی گفتگو آخرت پر ایمان نہ رکھنے اور اس کے بے دینی کی وجہ سے نہیں ہے؟ انھوںنے جواب دیا: عمرو عاص نے اصلا ًاسلام قبول ہی نہیں کیا تھا، اور اپنے کفر پر باقی تھا۔
عمرو عاص اس کے قریب گیا اور اپنے کان کو معاویہ کے منھ کے پاس لے گیا تاکہ اس کے اصلی راز کو سنے ،اچانک معاویہ نے اس کے کان کو زور سے دانتوں میں دبا لیا کہا: کیا تم نے دیکھا میں تم کو دھوکہ دے سکتا ہوں، پھر اس نے کہا کہ کیا تم نہیں جانتے کہ مصر عراق کی طرح ہے اور دونوں بڑے شہروں میں شمار ہوتے ہیں۔
عمرو عاص: ہاں میں جانتا ہوں، لیکن عراق تمہارے قبضے میںاسی وقت ہوگا جس وقت مصر پر میرا قبضہ جب کہ عراق کے لوگوں نے علی کی اطاعت کی ہے اور ان کی رکاب میں رہتے ہوئے جنگ کرنے کے لئے آمادہ ہیں ۔
اس موقع پر جب کہ دو سوداگر بحث و مباحثہ میں غرق تھے معاویہ کا بھائی عتبہ بن ابوسفیان وہاں آ پہونچا اور کہا: عمرو کو مصر کی سرزمین دے کر کیوں نہیں خرید لیتے؟ کاش کہ یہی حکومت شام تمہارے لئے باقی رہے اور کوئی دوسرا اس میں مداخلت نہ کرے۔ اس وقت اس نے کچھ شعر کہا اور اس میں عمرو عاص کی معاویہ کے ساتھ نصرت و مدد کو ظاہر کیاجس کا ایک شعر یہ ہے:
اعط عمرواً ان عمرواً تارک
دینہ الیوم لدنیا لم تجز(١)
جو کچھ عمرو کی خواہش ہے اسے دیدو، اس نے آج اپنے دین کو دنیا کے لئے چھوڑ دیا ہے۔
بالآخر معاویہ نے سوچاکہ جیسے بھی ممکن ہو عمرو کی مدد کو اپنی طرف جذب کرے اور اس کی خواہش کو پورا کرے، لیکن عمرو اس کے مکر و فریب کی وجہ سے مطمئن نہیں تھا۔ اس نے یہ سوچا کہ کہیںایسا نہ ہو کہ معاویہ مجھ سے ایک کامیابی کی سیڑھی کی طرح استفادہ کرے اور کام ختم ہوتے ہی اسے اپنے سے دور کردے، لہذا اس نے معاویہ کو متوجہ کرتے ہوئے کہا ضروری ہے کہ اس تعہد اور معاملے کو کاغذ پہ لکھا جائے اور اس کے متعلق شرائط لکھی جائیں اور دونوں آدمی اپنے اپنے دستخط کریں۔
_______________________________
(١) رسول خدا ۖ اپنی تقریر میں ایک شرعی مسئلہ کی طرف یاد دہانی کرتے ہوئے فرماتے ہیں: لاتبع ما لیس عندک'' یعنی جس چیز کے تم مالک نہیں ہو اسے نہ بیچو، اب اس وقت یہ دیکھنا ہے کہ عمرو نے مصر کی حکومت کے مقابلے میں کیا چیز بیچی ہے اور کس چیز کواپنے ہاتھوں سے گنوا دیا ہے وہ بقولے ابن ابی الحدید ، معاویہ سے معاملہ کرتے وقت بھی بے دین و بے ایمان تھا اور حقیقتاً اس معاملہ کو بھی اس مکر و فریب کے ذریعے انجام دیا تھا ، اور بغیر کسی اجرت کے مصر کی حکومت کو خرید لیاتھا۔
تعہد نامہ لکھا گیا اور دونوںنے اپنے دستخط کیا لیکن دستخط کرنے والوں نے اپنے دستخط اور مہر کے سامنے ایک ایک جملے کا اضافہ کیااور اپنے فریب و نفاق کو ظاہر کردیا۔ معاویہ نے اپنے نام کے پاس لکھا: علیٰ ان لا ینقض شرط طاعةً '' یعنی ، یہ تعہد اس وقت تک معتبرہے جب تک شرط کرنے والااطاعت کو نہ توڑے، عمرو نے بھی اپنے نام اور مہر کے آگے ایک جملے کا اضافہ کیا، علیٰ ان لا تنقض طاعة شرطاً، (١) یعنی شرط یہ ہے کہ اطاعت کرنے والا شرط کو نہ توڑے۔
ان دونوں نے یہ دو قیدیں لگا کر ایک دوسرے کو دھوکہ دیا اور خلاف ورزی کے راستے کو آشکار کردیا، کیونکہ اس قید کے لگانے سے معاویہ کا مقصد یہ تھا کہ عمرو نے بغیر کسی شرط و قید کے مطلقاً معاویہ کی بیعت کی ہے اور اگر معاویہ اسے مصر کی حکومت نہ دے تو اس کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ اس وجہ سے کہ معاویہ نے اپنے عہد و شرط کی وفا نہیں کی ہے اس بہانے سے اپنی بیعت توڑ دے، لیکن جب اس کا قدیمی دوست معاویہ کے اس مکر وفریب سے آگاہ ہوا تو اس نے اس راہ ہموار پر روک لگادی اور لکھا کہ میری بیعت اس وقت تک معتبر ہے کہ معاویہ اپنی شرط (مصر کی حکومت) کو نہ توڑے اور معاویہ مصر کو عمرو کے حوالے کرے۔
حقیقت میں دونوں سیاست کے میدان میں لومٹری صفت تھے اور کبھی بھی ان کے پاس نہ دینی تقویٰ تھا اور نہ ہی سیاسی تقویٰ تھا۔
عمرو اس معاملے کے بعد پھولے نہیں سما رہا تھا، معاویہ کے گھر سے نکلا اور جو لوگ باہر اس کا انتظار کر رہے تھے ان سے ملاقات کی اوران کے درمیان درج ذیل سوالات و جوابات ہوئے:
عمرو کے بیٹے: بابا بالآخر کیا نتیجہ نکلا؟
عمرو: مجھے مصر کی حکومت دی ہے۔
عمر کے بیٹے: ملک عرب کی بہادری و طاقت کے مقابلے میں مصر کی حکومت کی کوئی اہمیت نہیںہے۔
عمرو: اگر سرزمین مصر سے تم سیر نہیں ہوئے تو خدا تمہیں کسی چیز سے سیر نہ کرے۔(٢)
_______________________________
(١) وقعۂ صفین ص ٤٠۔
(٢) وقعۂ صفین، ص ٤٠۔ ٣٧، الامامة و السیاسة، ص ٨٨۔ ٨٧۔ (تھوڑے فرق کے ساتھ)
عمرو کا بھتیجہ: کس عنوان سے قریش کے درمیان زندگی بسر کرو گے؟ اپنے دین کو بیچ دیااوردوسرے کی دنیا کا دھوکہ کھا گئے ، کیا مصر کے لوگ ، علی کے ہوتے ہوئے مصر کو معاویہ کے حوالے کریں گے؟ جب کہ یہ لوگ عثمان کے قاتل ہیں۔ اگر ہم فرض بھی کرلیں کہ معاویہ نے اس سرزمین پر قبضہ کر لیا تو کیا تمھیں ا س جملے کی وجہ سے جو کہ تم نے اپنے دستخط کے ساتھ لکھا ہے سرزمین سے دور نہیں کردے گا؟
عمرو کچھ دیر تک فکر کرنے لگا اور کچھ دیر کے بعد ایمان کی وجہ سے نہیں، بلکہ عربوں کی عادت کی بنا پر کہا: اب سب کچھ خدا کے ہاتھ میں ہے نہ کہ علی اور معاویہ کے ہاتھ میں ، اگر میں علی کے ساتھ ہوتا تو میرا گھر ہی میرے لئے کافی ہوتا، مگر اب تو میں معاویہ کے ساتھ ہوں۔
عمرو کا بھتیجہ: اگر تم معاویہ سے نہ ملتے تومعاویہ بھی تم سے ملاقات نہ کرتا، تم نے دنیاوی لالچ کی وجہ سے اس سے ملاقات کی اور وہ تمہارے دین کا خریدار بنا۔
چچابھتیجے کے ساتھ ہونے والی گفتگو جب معاویہ کے کانوں تک پہونچی تو نے چاہا کہ اسے گرفتار کرے لیکن وہ عراق کی طرف بھاگ گیااور امام علی ـ کے لشکر سے ملحق ہوگیا اور امام ـ سے دو بوڑھے سیاسی مکاروں کے درمیان ہوئی گفتگواور معاملہ کو بیان کیا اور بالآخر امام ـ کے نزدیک اپنا ایک مقام بنالیا۔(١)
مروان بن حکم بھی جب عمرو عاص او رمعاویہ کے درمیان ہوئے سیاسی معاملے سے آگاہ ہوا تواس نے اعتراض کیا اور کہا: کیوں عمرو کی طرح ہمیں بھی نہیں خریدتے (اور دین اموی کی قیمت کے مقابلے میں اسلامی ملکوںکے بعض حصے کو میرے حوالے کیوں نہیں کرتے؟) جب معاویہ کواس کی باتوں کا علم ہوا تو اسے تسلی دی اور کہا عمرو جیسے افراد تم جیسوں کے لئے خریدے جا رہے ہیں تاکہ اموی حکومت کومستحکم کیاجائے جس کا توبھی ایک حصہ ہے ۔(٢)
_______________________________
(١) وقعۂ صفین ص ٤١، الامامة والسیاسة ص ٨٨پر نصر بن مزاحم نے اس جوان کو عمرو کا چچا زاد بھائی لکھا ہے۔
(٢) الامامة والسیاسة، ص ٨٨۔
عمروعاص کا شیطانی حربہ
دو چالاک سیاستدانوں کے معاملات ختم ہوگئے اور اب وقت آ پہونچا کہ معاویہ عمرو کے حربے کو استعمال کرے، عمرو جو محمد بن ابی حذیفہ سے مقابلے اور قیصر روم کے شام پر حملہ کرنے کے اندیشہ کے متعلق جو حربہ و منصوبہ تیار کیا تھا وہ بہت ہی دقیق انداز سے انجام دیا گیا،اور دونوں میں کامیابی ملی، لیکن سب سے بڑی مشکل حضرت علی ـ سے مقابلہ کرنے کی تھی جو شام کی طرف روانہ ہوچکے تھے ۔ وہ مشکل ابھی بھی باقی تھی عمرو نے امام علی ـ سے مقابلہ کرنے کے لئے ایک ایسا پروگرام بنایا جس کی وجہ سے شام کے اکثر افراد اپنی مرضی سے معاویہ کے لشکر میں شامل ہوکر علی ـ سے جنگ کرنے کے لئے آمادہ ہو گئے، اب دیکھنا یہ ہے کہ آخر یہ کیسا منصوبہ تھا جس کی وجہ سے شامیوں جیسے آسودہ اور آرام طلبلوگ مثلاً شام سے باہر جانے کے لئے آمادہ ہوئے اور موت کو آسودہ و آرام طلب زندگی پر ترجیح دی۔
''کہتے ہیں کہ ایک بزرگ صحابی معاویہ کے پاس گئے معاویہ نے ان کا پرتپاک استقبال اوران کا احترام کیا، وہ عمرو عاص اور معاویہ درمیان کے بیٹھ گئے اور کہا: تم جانتے ہو کہ کیوں میں تم لوگوں کے درمیان بیٹھا ہوں۔ انھوں نے جواب دیا نہیں۔ انہوںنے کہا: ایک دن تم لوگ پیغمبر ۖ کی بزم میں بیٹھے تھے اور آپس میں مخفیانہ گفتگو کر رہے تھے ، پیغمبر ۖ نے فرمایا کہ خداوند عالم اس شخص پر رحمت نازل کرے جوان دونوں کو ایک دوسرے سے دور کردے، کیونکہ یہ دونوں خیر پر جمع نہیں ہونگے۔(١)
سعی وکوشش کیلئے ایمان سے بہتر کوئی عامل نہیں ہے اس کے باوجود مذہبی احساسات اتنے قوی ہوتے ہیں کہ اگر مفاد طلب زمامداروںکے قبضے میں آجائیں تو ان کے تخریبی اقدامات بیان سے باہر ہوجاتے ہیں۔
عمرو عاص کا حربہ امام علی ـ سے مقابلے کے لئے یہ تھا کہ شام کے افراد کے دینی جذبہ کو حضرت کے خلاف کردے،اور امام ـ پر خلیفہ کے قتل کرنے کا الزام لگادے اور اس خبر کو عام کرنے کے لئے معاشرے کے زاہد اور پارسا لوگوں سے استفادہ کرے جو لوگوں کی نظر میں قابل احترام ہیں۔
_______________________________
(١) ہندوشاہ نخجوانی، تجارب السلف، بہ تصحیح عبا س اقبال ص ٤٦۔
اس کے علاوہ ، معاویہ سے کہا کہ شرحبیل کندی(١) شام کے لوگوں کی نظر میں محترم شخص ہے اور اپنے علاقے میں علی کے نمائندے جریر کا دشمن بھی ہے ۔ اسے ان تمام واقعات سے
اس طرح باخبر کرو کہ اسے یقین پیدا ہو جائے کہ علی ، عثمان کے قاتل ہیں او رتمہارے اور اس کے مورد اعتمادجو افراد ہیں انھیں یہ ذمہ داریاں سونپ دو، کہ پورے شام میں اس بات کو عام کردیں کیونکہ جو چیز شرحبیل کے دل میں بیٹھ جاتی ہے وہ بہت جلدی نہیں نکلتی۔(٢)
______________________
(١) کندہ، غبطہ کے وزن پر ہے اور یمن کے ایک قبیلے کا نام ہے جو عربستان کے شبہ جزیرہ کے جنوب میں واقع ہے جہاں یہ لوگ زندگی بسر کرتے تھے پھر وہاں سے بہت زیادہ گروہ شام وغیرہ کی طرف ہجرت کر گئے شرحبیل بھی اسی قبیلے کا رہنے والا تھا اور اس کے اجداد بھی یمن سے شام کی طرف ہجرت کر گئے تھے۔
(٢) وقعۂ صفین، ص ٤٤، شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید، ج٢، ص ٧١۔

معاویہ کاخط شرحبیل کے نام
معاویہ نے شرجیل کو خط لکھا اور اس نے علی ـ کے نمائندہ جریر کے آمد کی خبر دی شرحبیل اس وقت شام کے شہر حمص میں رہتا تھا۔ معاویہ نے اس سے درخواست کی کہ جتتی جلدی ممکن ہو شام آ جاؤ ۔ اور اس وقت اپنے دربار کے تمام نمک خواروں کو، جو سب کے سب یمن قحطان کے رہنے والے تھے اور شرحبیل سے لوگوں کے اچھے تعلقات تھے، ذمہ داری سونپی کہ حمص جائیں اور سب مل جل کر ایک آواز سے یہی کہیں کہ خلیفہ سوم کے علی قاتل ہیں۔ جب معاویہ کا خط شرجیل کو ملا تو اس نے اپنے دوستوں کو بلایا اور معاویہ کی دعوت کو ان کے درمیان میں رکھا ، شام کا سب سے ذہین اور قابل فہم شخص عبد الرحمن بن غنم ازدی اٹھا اور اس نے زاہد و عابد کو اس کام کے برے نتیجے سے آگاہ کیااورکہا:
تم نے جس دن سے کفر سے اسلام کی طرف ہجرت کی ہے ہمیشہ لطف الہی تمہارے شامل حال رہا۔ اور جب تک لوگوں کی طرف سے خدا کا شکر منقطع نہ ہو تو خدا کی طرف سے بھی نعمتوں کا سلسلہ ختم نہیں ہوتا، اور ''خداوند عالم ہرگز لوگوں کے حالات کو اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک لوگ خود اپنے کو بدل نہ ڈالیں'' ہمیں عثمان کے قتل کی خبر حضرت علی ـ ہی کے ذریعے ملی ہے، اگر واقعاً علی نے عثمان کو قتل کیا ہے تو مہاجر و انصار نے ان کی بیعت کیا ہے اور یہ لوگ لوگوں پر حاکم ہیں اور اگر علی نے ان کو قتل نہیں کیا ہے
تو کیوں معاویہ کی تصدیق کر رہے ہو؟ میں تم سے درخواست کرتا ہوں کہخود اور اپنے عزیزوں کو ہلاکت میں نہ ڈالو۔ اگر تمہیں اس بات کا خوف ہے کہ جریر کسی مقام پر پہونچ جائے گا تو تم بھی علی کے پاس جاؤ اور اپنی قوم اور شام کے لوگوں کے ساتھ ان کی بیعت کرو۔
لیکن اس مرد ازدی کی خیر خواہی مؤثر ثابت نہ ہوسکی اور شرحیل معاویہ کی دعوت پر لبیک کہتے ہوئے شام کی طرف روانہ ہوگیا۔(١)

معاویہ کا بزرگان قبیلہ اور خشک زاہدوں سے مدد مانگنا
تمام قبایلی نظام میں رئیس قبیلہ کو تصمیم گیری میں مکمل آزادی ہوتی ہے، اور اگر وہ کسی چیز کو مان لے تو قبیلے کے افراد اسے مان لیتے ہیںاور در حقیقت یہ ایک رائے تمام افراد کی رائے کی جانشین ہوتی ہے خصوصاً اگر رئیس قبیلہ ظاہری طور پر تقوے والا ہو۔
معاویہ شام کے لوگوں اور یمنی مہاجرین جو شام میں زندگی بسر کر رہے تھے کو اپنی طرف جذب کرنے کے لئے ایسے ہی لوگوں کی تلاش میں تھا ،اور اس کی دوسری عقل عمرو عاص نے بھی اسے اس کام کے لئے مشورہ دیاتھا۔ ان افراد میں شرحبیل یمنی(٢) کے اندر دونوں شرائط موجود تھے جو شام کے حمص علاقے میں رہتا تھا شرجیل خود مقدس بھی تھا اور یمنی مہاجروں میں بزرگ بھی شمار ہوتاتھا اور اس کی نظر کو جذب کرنے سے امام ـ کے متعلق لوگوںکی فکروں میں تبدیلی لائی جاسکتی تھی۔
اسی وجہ سے معاویہ نے اسے خط لکھا اور شام آنے کی دعوت دی۔(٣)
اور وہ لوگ جو شرحبیل کے معتمد خاص معتمد تھے انھیں حکم دیا کہ مستقل اس سے ملاقات کرتے رہیں اور علی ـ کو عثمان کے قاتل کے طور پر پہچنواتے رہیں اور اس کے ذہن میں یہ بات ڈالتے رہیں تاکہ اس کے ذہن میں ''امام کا قاتل'' ہونا اس طرح رچ بس جائے کہ اس کے علاوہ دوسری چیز اس کے ذہن میں نہ آئے۔
______________________
(١) وقعۂ صفین ص ٤٥۔ ٤٤، شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج٢ ص ٧١۔
(٢) ابن ابی حاتم اپنی کتاب ''الجرح و التعدیل'' (ج، ص ٣٣٨) میں اس کا نام لکھتے ہیں اور بخاری نے اپنی تاریخ (ج٢، ص ٢٤٩) میں اس کا حال لکھا ہے۔
(٣) وقعۂ صفین ص ٤٥۔ ٤٤، شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج٢ ص ٧١، کامل ابن اثیر ج٣ ص ١٤٣۔
وہ جب حمص سے شام آیا تو تمام لوگوں نے اس کا بہت احترام کیا معاویہ نے اس کے ساتھ ملاقات کی اور شام کے زاہد سے یہ کہا: جریر بن عبد اللہ بجلی عراق سے یہاں آیا ہے اور مجھے علی کی بیعت کرنے کی دعوت دے رہا ہے اور علی بہترین لوگوں میں سے تو ہیں مگر یہ کہ انھوںنے عثمان کو قتل کیا ہے میں نے کسی بھی طرح کا ارادہ کرنے سے پرہیز کیا ہے کیونکہ میں بھی شام کے لوگوں میں سے ایک ہوں اور جس چیز کے بارے میںوہ رائے دے گے گے میں بھی وہی رائے دوں گا اور جس چیز کو وہ لوگ پسند نہیں کریںگے میں بھی اس چیز کو پسند نہیں کروں گا۔
شام کے زاہد نے اپنا نظریہ پیش کرنے سے پرہیز کیا اور کہا میں پہلے تحقیق کروں گا پھر کوئی رائے پیش کروں گا لہذا وہاں سے چلا گیا اور تحقیق کرنے لگا۔(١)
وہ لوگ جنھیں معاویہ نے پہلے ہی سے اسے ذہنی طور پر بہکانے کے لئے معین کیا تھا ان لوگوں نے مختلف طریقوں سے اسے بہکایا اور امام کے ہاتھوں عثمان کے قتل کی تصدیق کی اور علی ـ کے بارے میں اس کے دل میں شک و شبہہ پیدا کردیا۔
غلط اور جھوٹ پر مبنی باتوں نے اس سادہ لوح زاہد کی فکر کو تبدیل کردیااور اسے اتنا بہکایاکہ اس کے اندر انتقام کی آگ بھڑک اٹھی اور معاویہ سے زیادہ وہ حسد کرنے لگا۔ لہذا جب وہ دوسری مرتبہ معاویہ سے ملا تو اس سے کہا میں نے صرف لوگوں سے یہی سنا کہ علی عثمان کے قاتل ہیں۔ اس لئے تمہیں حق نہیں ہے کہ تم اس کی بیعت کرو اور اگر ایسا کرو گے تو تمہیں شام سے نکال دوں گا یاتجھے قتل کردوں گا۔(٢)
معاویہ اس کی باتیں سن کر مطمئن ہوگیا کہ دین فروشوں نے زاہد سادہ لوح کو خوب دھوکہ دیا ہے ۔ پھر معاویہ نے اس سے کہا: میں شام کا ایک فرد ہوںاو رہرگز تمہاری مخالفت نہیں کروں گا۔ شام کا زاہد وہاں سے اٹھ کر حصین بن نمیر کے پاس گیا اور اس سے کہا کہ کسی کو امام ـ کے نمائندہ جریر کے پاس بھیجو تاکہ اس سے بھی گفتگو کی جائے۔
_______________________________
(١) وقعۂ صفین ص ٤٥۔ ٤٤، شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج٢ ص ٧١، کامل ابن اثیر ج٣ ص ١٤٣۔
(٢) وقعۂ صفین ص ٤٨۔ ٤٧، شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج٢ ص ٧٣۔
زاہد شام کی نمائندہ امام ـ سے گفتگو
جریر بن عبد اللہ حصین بن نمیر کے ساتھ شرحبیل کے پاس آئے اور تینوں کے درمیان گفتگو ہوئی۔ زاہد شامی نے جریر سے کہا تم صحیح خبر کے ساتھ یہاں نہیں آئے ہو گویا تم چاہتے ہو کہ ہمیں شیر کے منھ میں ڈال دو اور عراق و شام کو آپس میں لڑا دو، علی کی خو ب تعریف کرتے ہو جب کہ انھوں نے عثمان کو قتل کیاہے اور تم قیامت کے دن خدا کے سامنے جواب دہ ہوگے ، جب شرحبیل کی بات ختم ہوئی تو امام کے نمائندے نے اسے یہ جواب دیا:
''میں ہرگز مبہم باتوں کے ساتھ تم لوگوں کے پاس نہیں آیاہوں کس طرح سے علی کی خلافت مبہم ہوگی، جب کہ مہاجرو انصار نے ان کی بیعت کی ہے اور بیعت توڑنے کی وجہ سے طلحہ و زبیر مارے گئے ہیں؟ تم نے خود اپنے کو شیر کے جال میں ڈالاہے، میںنے ایسا ہرگز کام نہیں کیا ہے۔ اگر عراق اور شام حق کی حفاظت کرنے کے لئے متحد ہو جائیں تو ایک امر باطل کے لئے جدا ہونے سے بہتر ہے اور تمہارا جو یہ کہناہے کہ علی نے عثمان کو قتل کیا ہے تو خدا کی قسم یہ الزام تراشی کا ایک ایسا تیر ہے جو دور سے پھینکنے کے علاوہ کچھ نہیں، تم دنیا کے محبوب ہوگئے ہو اور پہلے بھی سعد وقاص کے زمانے سے کچھ دل میں چھپائے ہو۔(١)
گفتگو ختم ہوگئی بعدمیں جریر نے ایک قصیدہ اپنے یمنی ہم منصب شرحبیل کے پاس اس پیغام کے ساتھ روانہ کیا۔
''شرحبیل'' اے سمط کے بیٹے، خواہشات نفسانی کی پیروی نہ کرو، کیوں کہ اس دنیا میں دین کے مقابلے میں کچھ نہیں ہے اور حرب کے بیٹے سے کہو کہ اب تمہارا کوئی احترام نہیں ہے جس چیز کا ارادہ کیاہے اس تک پہونچ جاؤ، لہذا اس کی امید کو خاک میں ملادو۔(٢)
______________________
(١) جریر کی عبارت یہ ہے: ''فوا للہ ما فی یدیک فی ذالک الا القذف بالغیب من مکان بعید، اور یہ جملہ اس آیت کا اقتباس ہے کہ ارشاد قدرت ہے، ''یقذفون بالغیب من مکان بعید'' (سورۂ نسائ، آیت ٥٣) وقعۂ صفین ص ٤٨۔ ٤٧۔
(٢) وقعۂ صفین ص ٤٩۔ ٤٨، شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج٢ ص ٨١۔ ٨٠۔
جس وقت جریرکا نصیحت آمیز خط بہترین قصیدہ کے ساتھ شرحبیل کے پاس پہونچاتو اسے ایک جھٹکا لگا اور فکر میں ڈوب گیااور کہا: یہ بات میرے لئے دنیا و آخرت میں نصیحت ہے، خدا کی قسم۔ میں اپنے ارادے میں جلد بازی سے کام نہیں لوں گا۔
جب معاویہ کو جریر اور زاہد شامی کے درمیان ہوئی گفتگو اور جریر کے پیغام کی خبر ملی تو اس نے امام کے نمائندے کی مذمت کی اور جریر کے کلام کو بے اثر کرنے کے لئے ایک گروہ معین کیا تاکہ وہ مسلسل شرحبیل سے ملاقات کرتے رہیں اور علی کے ہاتھوں عثمان کے قتل کی خبر کا اسے یقین دلاتے رہیں، اور اس سلسلے میں جھوٹی گواہی دینے سے بھی پرہیز نہ کریں، اور جھوٹے اور جعلی خطوط لکھ کر اس کے حوالے کریں۔
اس ضمیر فروش گروہ نے اس قدر اسے بہکایا کہ بیدار ضمیر زاہد کو دوبارہ گمراہ کردیااور وہ سست
جھوٹے گواہوں کے دھوکے میں آگیا اور اپنے ارادے کو اور مستحکم کرلیا۔(١)
جب یمن کے دوسرے قبیلے کے سردار ،شرحبیل کے ارادے اور اس کے دھوکہ کھانے سے باخبر ہوئے تو ان لوگوں کے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا کہ وہ اس کے بھانجے کو اس کے پاس بھیجیں تا کہ وہ اس سے گفتگو کرکے اس مسئلے کو واضح کرے، شام میں وہ اکیلا شخص تھا جس نے امام علیہ السلام کے ہاتھوں پر بیعت کی تھی اور شام کے زاہدوں اور عابدوں میں اس کا شمار ہوتا تھا۔
اس نے معاویہ کے فر یب اور دھوکہ کا پردہ فاش کردیااور اس سے کہا کہ یہ گواہی دینے والے افراد اور یہ خطوط وغیرہ صرف ایک دھوکہ ہے اور ان میں سے کسی کا بھی حقیقت سے واسطہ نہیں ہے۔
جب شام کا عابد اس کے شعر کے مفہوم سے آگاہ ہوا تو کہا: یہ شیطان کا بھیجا ہوا ہے خدا کی قسم اسے شام سے باہر نکال دوں گا مگر یہ کہ وہ میرے بس میں نہ ہو۔(٢)
معاویہ جو اپنے نمک خواروں کے ذریعے شرحبیل کی فکر کو بدل چکا تھا جب اسے اپنے ارادے میں مستحکم پایا تو اس کے لئے یہ پیغام بھیجا:
''تم نے حق بات پر لبیک کہا اس کا اجر خدا دے گاتم جانتے ہو کہ معاشرے کے تمام صالح افراد
_______________________________
(١) وقعۂ صفین ص ٤٩، شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج٣، ص ٨١۔
(٢) وقعۂ صفین، ٥٠۔ ٤٩۔
نے تمہاری باتوں کو قبول کرلیا ہے لیکن اس گروہ کی رضایت و آگاہی صرف علی سے جنگ کرنے کے لئے کافی نہیں ہے بلکہ علی سے جنگ کرنے کے لئے عمومی رضایت کا ہونا ضروری ہے اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے کہ شام کے تمام شہروں میں سفر کرو اور اعلان کرو کہ عثمان کو علی نے قتل کیا ہے اور تمام مسلمانوں پر واجب ہے کہ قاتل سے اس کے خون کا بدلہ لیں''۔
اس نے شام کے شہروں کا سفر شروع کردیا سب سے پہلے وہ حمص گیا وہاں اس نے تقریر کرتے ہوئے کہا: اے لوگو! عثمان کو علی نے قتل کیا ہے اور جو گروہ اس واقعہ پر غضبناک ہوا اسے بھی قتل کردیا اور اس وقت علی نے تمام اسلامی ملکوں پر قبضہ کرلیا ہے اور صرف شام باقی ہے انہوں نے تلوار اٹھالی ہے اور لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار ہے ہیں اور تم تک پہونچنے والے ہیں مگر یہ کہ خدا کی طرف سے کوئی نیا واقعہ رونما ہو، اور ان سے مقابلے کے لئے معاویہ سے زیادہ کوئی طاقتور نہیںہے اٹھو اور آمادہ ہوجاؤ۔
دھوکہ کھائے ہوئے عابد کی باتوں کا بہت زیادہ اثر ہوا، کیونکہ حمص کے علاقے میں لوگ اسے محبوب رکھتے تھے۔ اور سب نے اس کی دعوت پر لبیک کہا صرف وہاںکے زاہد و عابد اس کے بہکانے میں نہیں آئے اور سب نے اس کی مخالفت کی ، پھر شرحبیل نے شام کے دوسرے شہروں کا سفر کیااور لوگوں کو علی کے ساتھ جنگ کرنے کے لئے لشکر میں شامل ہونے کی دعوت دی اور سب نے اس سے وعدہ بھی کیا۔
شرحبیل تمام شہروں کا دورہ کر کے دمشق واپس آگیا اور اپنی کامیابی پر فخر کرتا ہوا معاویہ کے پاس پہونچا اور اپنی پرانی باتیں تحکمانہ انداز میں دہرائی اور کہا: تم اگر علی اور عثمان کے قاتلوں کے ساتھ جہاد کرو ، تو ہم یا ان سے بدلہ لے لیں گے یااپنے مقصد میں قربان ہو جائیں گے ایسی صورت میں تم اپنی جگہ پر باقی رہو گے اور اگر ایسا نہ ہوا تو تمہیں اس منصب سے معزول کردیں گے اور کسی دوسرے کو تمہاری جگہ پر معین کردیں گے تاکہ اس کے زیر نظر جہاد کریں، اور عثمان کے خون کا بدلہ علی سے لے لیں، یا قتل ہو جائیں۔(١)
معاویہ زاہد فریب خوردہ کی تند و تیز باتیں سن کر خوشی سے پھولے نہیں سما رہا تھا۔
_____________________________
(١) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج٣ ص ٨٣۔ ٨٢، وقعۂ صفین ص ٥٢۔ ٥٠۔
جریر کی طرف سے اتمام حجت
جریر اس واقعہ سے کہ جس کی اسے توقع نہ تھی بہت ہی ناراض ہوا، او ردوبارہ اپنے قدیمی دوست او رزاہد قبیلہ کے پاس گیا اور اسے برے نتیجوں اور بے جا ارادوں سے باخبر کیا اور کہا:
خداوند عالم نے امت اسلامی کو خونریزی کرنے سے منع کیا ہے اور اختلاف کو دور کردیا ہے اور ممکن کہ بہت ہی جلد اسلامی حکومتیں سکون و اطمینان کی زندگی بسر کریں، اور تم ان کے درمیان فساد پھیلانا چاہتے ہو، اپنی باتوں کو پوشیدہ رکھو کہیں ایسا نہ ہو کہ اچانک وہ وقت آ پہونچے کہ تم اپنی باتوں کو واپس نہ لے سکو، شرحبیل نے جواب دیا: نہیں میں ہرگز اپنی باتوں کو پوشیدہ نہیں رکھوں گا، پھر وہ وہاں سے اٹھ کر چلا گیا او رایک عمومی جگہ پر تقریر کی، لوگوں نے اس کے پہلے کے حالات کی وجہ سے اس کی باتوں کی تصدیق کردی اس وقت نمائندہ امام ـ کو بہت ناامیدی ہوئی اور اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کرے۔(١)
______________________
(١) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج٣ ص ٨٤، وقعۂ صفین ص ٥٢۔

شام میں نمائندہ امام ـ کی شکست کی وجہ
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ امام ـ کا نمائندہ جریر شام میں لوگوں سے بیعت لینے کے لئے گیاتھا اور اپنی ذمہ داری انجام دینے میں وہ ناکام ہوگیا، اس نے کوئی کام نہیں کیا بلکہ امام ـ کو معاویہ کے مصمم ارادے سے اس وقت باخبر کیا جب کچھ نہیں کیا جا سکتا تھا معاویہ نے امام ـ کے خلاف شام کے تمام لوگوں کو جنگ کے لئے آمادہ کر لیا جریر کی کوتاہی یہ تھی کہ جب سے وہ شام میں آیا تھا معاویہ کے آج کل کے بہانے دھوکے کھاتا رہا، اور شام کے معزول حاکم نے اپنے اموی شیطنت کی وجہ سے اپنا نظریہ پیش کرنے سے پرہیز کیا اور امام کے نمائندے کووامیدوناامیدی کے درمیان رکھا جریرنے اس امید میں کہ معاویہ کو بیعت کے لئے آمادہ کرلے اور اختلاف کو ختم کردے ،خاموش رہنے کو ہی بہتر جانا اورہمیشہ معاویہ کے قطعی نظریہ کے جاننے کی امید میں تھا۔
معاویہ کے لئے شروع میں اپنی قطعی رائے پیش کرنا مصلحت کے خلاف تھا۔ البتہ اس کا نظریہ اسی وقت معلوم ہوگیا تھا جب امام کا نمائندہ شام میں پہلی مرتبہ واردہوا تھا، یعنی اس کا ارادہ مرکزی حکومت کی
مخالفت، نافرمانی اورخراب کاری تھا، لیکن ان دنوں اس کو بیان کرنا سبب یہ بنتاکہ امام کانمائندہ کوفہ واپس چلاجائے۔ اور معاویہ کی مخالفت کی ساری روداد کو امام ـ سے بیان کرے جس کی وجہ سے امام ـ مخالفوں کی سرکوبی کرتے اور اپنے لشکر کو ان کے طرف روانہ کرکے فساد کو جڑ سے ختم کردیتے۔
جی ہاں، معاویہ نے امام ـ کے نمائندے کو مختلف بہانوں سے روکے رکھا تاکہ مرکزی حکومت سے جنگ کرنے کے لئے عمرو عاص کو اپنے ساتھ لے سکے اور پھر اس نے پروپیگنڈہ کرنے والوں کو شام کے تمام علاقوں میں روانہ کیا تاکہ لوگوں کے دلوں میں علی کی مخالفت کے شعلے بھڑکا دے۔ اور ان علاقوں سے رسول خدا ۖ کی خلافت و جانشینی کے لئے اپنے حق میں فائدہ اٹھائے اس نے صرف اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ مشہور و معروف زاہد شام شرحبیل جو کہ لوگوں کے درمیان زیادہ مقبول تھا امام کی مخالفت کرنے کے لئے اپنی طرف جذب کر لیا۔ زاہد فریب خوردہ حضرت علی ـ کے مقابلے میں جنگ کرنے کے لئے اس طرح آمادہ ہوگیاکہ اگر اس کام میں معاویہ کوتاہی کرتا تو یہ خود شام کے سادہ لوح لوگوں کو امام ـ سے مقابلے کے لئے آمادہ کرتا۔
یہ شیطانی حربے کی کامیابی معاویہ کے لئے اتنی مفید ثابت ہوئی کہ امام ـ کا نمائندہ جریر اپنی اس مامؤریت میں جواس کے ذمے تھی، معاویہ کی ظاہری چیزوں سے دھوکہ کھا گیااور امام ـ کو اس بات پر آمادہ کیاکہ امام اس فساد کے قلعہ کو نیست و نابود کردیں، اور اس وقت امام ـ کے پاس واپس آیا جب معاویہ نے اسلامی ممالک کی بہت سی اہم جگہوں پرانتقام عثمان کے نام پر امام سے مقابلہ کرنے کے لئے اپنی فوج بٹھا رکھی تھی ۔

معاویہ کا آخری حربہ
آخری لمحوں میںمعاویہ کا سب سے آخری حربہ امام ـ کا امتحان لیناتھا اوروہ یہ کہ وہ معلوم کرے کہ کیا امام اسے اس کے منصب سے واقعاً معزول کرنا چاہتے ہیں، اسی وجہ سے وہ امام کے نمائندے جریر کے گھر گیا اور کہا میرے پاس ایک نئی فکر ہے تم اپنے دوست کے پاس لکھو کہ شام کی حکومت مجھے دیدیںاور مصر سے خراج لینے کی ذمہ داری بھی مجھے سونپ دیںاو رجب ان کا انتقال ہو جائے تو کسی کی بیعت کو میرے اوپر واجب نہ کریں اس صورت میں میں ان کے سپردہو جاؤں گا اور ان کی حکومت کی تحریری طورپر تائیدکروں گا۔(١)
نمائندہ امام نے اس کا جواب دیا کہ تم خط لکھو او رمیں اس کی تائید کروں گا بالآخر خط لکھا گیا اور قاصد دونوں خط لے کر کوفہ روانہ ہوا۔
معاویہ کے خط کی عبارت عرب کے تمام قبیلوں میں مشہور ہوگئی، معاویہ کے ہم خیال مثلاً ولید عقبہ نے ایساخط لکھنے کی وجہ سے معاویہ پر اعتراض کیا ولید نے اس کے ضمن میں معاویہ کو شعر لکھا:
سألت علیاً فیہ ما لن تنالہ و لو نلتہ لم یبق الا لیالیا۔(٢)
تم نے علی سے وہ چیز مانگی ہے جو تمہیں ہرگز نہیں مل سکتی اور اگر مل بھی گئی تو چند راتوں کے علاوہ تم اس پر مسلط نہیں رہ سکتے۔
عقبہ کے بیٹے نے پہلے مصرعہ میں حقانیت سے کام لیا ہے کیونکہ امام علی ـ ہرگز باطل کے ساتھ دوستی اور معاملہ نہیں کرسکتے لیکن اس کے شعر کا دوسرا مصرعہ بالکل غلط ہے کیونکہ برفرض محال اگر مصلحةً امام ـ اس بات کو قبول کرلیتے تو ہرگز اس پر نقض نہیں کرتے، چونکہ امام ـ نے ''حکمین'' کے مسئلے میں اپنے تعہد و پیمان کو بالکل واضح و روشن کردیا تھا۔
معاویہ، علی ـ کو ولید سے زیادہ پہچانتا تھا اور اسے معلوم تھا کہ دونوں صورتوں میں اسی کا فائدہ ہے کیونکہ اگر علی ـ حکومت اس کے حوالے کردیتے تو ایک مستقل حکومت بغیر کسی مشکل کے اس کے نصیب میں آجاتی۔ اور اگر ایسا نہیں کرتے تو معاویہ اپنے مکر و فریب سے لوگوں کا خون بہاتا اور حجاز و عراق کو مستحکم کرلیتا،اس کے علاوہ امام ـ کے نمائندے کو دھوکے میں رکھنا خود معاویہ کے فائدے میں تھا، کیونکہ وہ اپنی طاقت میں اضافہ کرتا اور شام کے لوگوں کو امام ـ سے جنگ کرنے کے لئے زیادہ آمادہ کرتا۔
______________________
(١)،(٢) وقعۂ صفین ص ٥٢، شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج٣ ص ٨٤۔

امام ـ کا اپنے نمائندہ کو جواب
معاویہ کا مقصد یہ ہے کہ اس پر میری بیعت نہ ہو،تا کہ جس کو بھی چاہے منتخب کرلے اور وہ چاہتا ہے کہ تمہیں ایسے ہی معطل رکھے اور شام کے لوگوں کو جنگ کے لئے آزمالے،ابتدائی ایام میں جب میں مدینہ میں تھاتو مغیرہ بن شعبہ نے مجھ سے کہا کہ میں معاویہ کو اس کے مقام پر باقی رہنے دوں،لیکن میں نے
اس بات کو قبول نہیں کیا، خدا ایسا دن نہ لائے کہ میں گمراہ لوگوں سے مدد طلب کروں، اگر اس نے بیعت کیا (تو کوئی بات نہیں) او راگر ایسا نہ کرے تو تم میرے پاس واپس آجاؤ۔(١)
امام ـ نے اس خط میں معاویہ کے ایک مقصد کی طرف اشارہ کیا ہے وہ یہ کہ وہ اس سیاسی چال کے ذریعے وقت گذارنا چاہتا ہے، تاکہ اس عرصے میں خط لکھنے اوراس کا جواب آنے تک اپنی فوج کو جنگ کے لئے اچھی طرح آمادہ کرلے، اور اگر امام ـ کا جواب ''نہیں'' کی صورت میں ہو (کہ ضرور ایسا ہی ہوگا) تو پوری قدرت و توانائی کے ساتھ امام ـ کے سامنے مقابلے کے لئے آجائے۔

جریر پر معاویہ سے دوستی کا الزام
سرزمین شام میں جریر کا زیادہ دن رہنا عراق کے لوگوں کے لئے تشویش کا باعث بنا اسی وجہ سے ان لوگوں نے دشمن کے ساتھ دوستی کرنے کاان پر الزام لگایا۔ جب لوگوں کی باتیں امام ـ نے سنیں تو آپ نے اس کے متعلق فرمایا: میں دوبارہ خط لکھوں گا اور اسے شام سے واپس بلالوں گا۔ اگر اس کے بعد بھی وہ شام میں رہ گیا یا دھوکہ کھا گیا یا میرے حکم کو نظر انداز کردیا اور میری مخالفت کرنے لگاتب تم کچھ کہنا اسی وجہ سے امام ـ نے جریر کو دوبارہ خط لکھا:
...''جیسے ہی میرا خط تمہارے پاس پہونچنے معاویہ کو آخری فیصلے پر آمادہ کرنااور ایک قطعی بات پر راضی کرنا اور (جب وہ آمادہ ہو جائے تو) اس سے کہناکہ دوباتوں میں سے کسی ایک کو اختیار کر لے، گھر سے بے گھر کرنے والی جنگ یا رسوا کرنے والی صلح، پس اگر وہ جنگ کو اختیار کرلے تو صلح کی بات اس کے منھ پر دے مارو، اور اگر صلح کا چناؤ کرے تو بیعت لے لو''۔(٢)
جب جریر کو امام ـ کا خط ملا تو اس نے معاویہ کے سامنے اس خط کو پڑھا اور اس سے کہا: انسان کا دل گناہوں کی وجہ سے بند ہوجاتاہے اور توبہ کرنے سے دل کھل جاتا ہے اور میری نظر میں تیرا دل بند ہے اور اس وقت تو حق و باطل کے درمیان کھڑا ہے اور اس چیز کی فکر میں ہے جو دوسرے کے ہاتھ میں ہے
______________________
(١) وقعۂ صفین ص ٥٢۔
(٢) نہج البلاغہ مکتوب نمبر٨، وقعۂ صفین ص ٥٥، (خط میں کچھ تبدیلی کے ساتھ)
معاویہ نے اس سے کہا: میں دوسری نشست میں اپنی قطعی رائے اور کا اعلان کروں گا، اس نے اپنی قطعی رائے کا اعلان اس وقت کیا جب شام کے لوگ اس کی بیعت کرچکے تھے اور معاویہ ان لوگوں کو خوب آزما چکا تھا، پھر اس نے امام کے نمائندہ کو شام سے جانے کی اجازت دی کہ وہ امام کے پاس چلا جائے اور امام ـ کے پاس خط لکھا جسے بعض مورخین نے اپنی کتابوں میں نقل کیا ہے:
''مہاجرین وانصار نے تمہاری اس وقت بیعت کی جب تم عثمان کے خون سے بریٔ الذمہ تھے اس وقت تمہاری خلافت پچھلے تینوں خلیفہ کی خلافت کی طرح تھی، لیکن تم نے مہاجروں کو عثمان کے قتل کرنے پر آمادہ کیا اور انصار کو اس کی مدد کرنے سے روک دیا نتیجے میں جاہلوں نے تمہاری اطاعت کی اور کمزور لوگ طاقتور ہوگئے شام کے لوگوںنے ارادہ کیا ہے کہ تمہارے ساتھ جنگ کریں، تاکہ عثمان کے قاتلوں کو ان کے حوالے کرو، اگر ایسا کیا تو خلافت کا مسئلہ مسلمانوں کی شوری میں رکھا جائے گا، اپنی جان کی قسم میری حالت طلحہ و زبیر جیسی نہیں ہے کیونکہ ان دونوں نے تمہاری بیعت کی تھی لیکن میں نے تمہاری بیعت نہیں کی ہے او راسی طرح شام کے لوگ بصرہ کے افراد کی طرح نہیں ہیں کہ ان لوگوںنے تمہارے ہاتھ پر بیعت کی تھی اور تمہارے مطیع و فرمان بردار تھے، جب کہ شام کے لوگوں نے تمہاری خلافت کو قبول نہیں کیا ہے اور تمہارے مطیع و فرمان بردار نہیں ہیں، لیکن اسلام میں تمہارے افتخارات اور تمہاری رسول خدا ۖ سے قرابت اور قریش کے درمیان تمہاری عظمت و رفعت کا میں انکار نہیں کرسکتا۔(١)
یہ خط جو جھوٹ کی سیاہی سے لکھا گیا تھا معاویہ کی چالاکی و سازش تھی جس نے اپنے مفاد کے لئے اپنے رقیب پر کسی بھی طرح کی تہمت لگانے سے پرہیز نہیں کیا، لیکن امام ـ نے اپنے خطوط میں تمام حقائق سے مدد لیتے ہوئے اپنے حق کے دفاع کے لئے تمام حقیقتوں کو بیان کیا،حضرت اپنے خط میں معاویہ کو مخاطب کرتے ہوئے، اس کی لگائی ہوئی تہمت کے بارے میں لکھتے ہیں:
''میرے پاس ایسے شخص کا خط پہونچا جس کے پاس فکر نہ تھی جو اس کی ہدایت کرتی اور نہ اس کا کوئی پیشوا ہے جو اسے راہ راست پر لاتا، خواہشات نفسانی نے اسے گھیر لیا ہے اور اس نے اسے قبول کر کے اس
_______________________________
(١) الامامة و السیاسة ج١ ص ٩١ کامل مبرد ج٣ ص ١٨٤، شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج٣ ص ٨٨۔
کی پیروی بھی کی ہے کیا تو نے یہ فکر کیا ہے کہ عثمان کے بارے میں میرے کام نے میری بیعت کو تمہارے لئے باطل کردیا ہے اپنی جان کی قسم، میں بھی مہاجروں کا ایک فرد تھا کہ وہ جہاں بھی جاتے میں بھی ان کے ہمراہ جاتا اور خدا نے ہرگز انھیں گمراہ نہیں کیا اور ان کے آنکھوں پر پردہ نہیں ڈالا اور عثمان کے قتل کے بارے میں نہ تو میں نے کوئی حکم دیا ہے کہ میرے حکم کی غلطی مجھے مورد سوال قرار دے اور نہ میںنے اسے قتل ہی کیا ہے کہ مجھ پر قصاص واجب ہو جائے۔
اور جو تم یہ کہہ رہے ہو کہ شام کے لوگ اہل حجاز پر حاکم ہیں تو تم اہل شام میں سے کسی کو بھی دکھاؤ کہ جو شوریٰ کا ممبر ہو اور پیغمبر اسلام ۖ کی جانشینی کے لئے چنا گیاہو اگر تم ایسا تصور کرتے ہو، تو مہاجرین و انصار تمہاری باتوں کو جھٹلا دیں گے۔
اور جو تمہارا یہ کہنا ہے کہ میں عثمان کے قاتلوں کو تمہارے حوالے کروں تو تمہاری یہ بات بالکل بے جا ہے تیرا عثمان سے کیا واسطہ: تم بنی امیہ کی اولاد میں سے ہو اور عثمان کے بیٹے اس کام کے لئے تم سے زیادہ بہتر ہیں اگر تو یہ سوچ رہا ہے کہ ان کے باپ کے خون کا بدلہ لینے کے لئے ان سے زیادہ قوی اور طاقتور ہے تو، تم میری اطاعت کرو، اور اس وقت اس کے قاتلوں سے شکایت کرو میں تمام لوگوں کو راہ راست پر لانے کی کوشش کروں گا، لیکن تمہارا شام و بصرہ اور طلحہ و زبیر کے بارے میں فیصلہ کرنا بے اساس ہے اور سبھی ایک حکم میں شما رہوتے ہیں کیونکہ وہ ایک اجتماعی اور عمومی بیعت تھی اوراس میں کچھ سوچنے سمجھنے کی ضرورت نہیں ہے اور خیا رفسخ بھی نہیں ہے لیکن تیرا یہ اصرار کرنا کہ میں نے عثمان کو قتل کیا ہے توتم نے بالکل حقیقت سے کام نہیں لیا ہے او راس کے بارے میں تجھ تک خبر نہیں پہونچی ہے، پیغمبر ۖ سے میری قرابت اور فضیلت او رقریش کے درمیان میرے شرف کو تم نے قبول کرلیا ہے اپنی جان کی قسم، اگر تم سے ممکن ہوتا تو تم اس کا بھی انکار کردیتے۔(١)
اس وقت آپ نے اپنے منشی نجاشی کو حکم دیا کہ معاویہ کے خط کو جنگی اشعار کے ساتھ جواب دو اور دونوں کو معاویہ کے پاس بھیج دو۔
______________________
(١) نہج البلاغہ کے چھٹے او رساتویں مکتوب میں اس کے مضمون کی طرف اشارہ کیا ہے۔
نمائندہ امام ـ کی شام سے واپسی:
امام کے نمائندہ جریر کی تقریر، عقلمندی ، بردباری ، صبر جو ایک سیاسی نمائندہ میں ہونا چاہئے وہ اس کے اندر موجود تھا اور کسی کو بھی اس میں شک نہیں کہ اس نے بہت کوششیں کیں کہ بغیر خونریزی کے امام ـ کی نظر کو جذب کرے اور معاویہ کو مرکزی حکومت کی اطاعت کرنے پر مجبور کرے (اس کی ان کوششوں کے بارے میں بھی کسی کو شک نہیں ہے) لیکن اس سے ایک غلطی ہوئی اور وہ یہ کہ بنی امیہ کے دو سیاسی مکاروں کے آج کل کی باتوں میں پڑ کر دھوکہ کھا گیا اور معاویہ نے اس سنہرے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے شام کے لوگوں کو خوب آزما لیا اور ان لوگوں کو امام ـ کے مقابلے میں جنگ کرنے کے لئے آمادہ کر لیا اور اس نے اس وقت اپنے آخری فیصلے کا اعلان کیا جب شام کے لوگوں سے عثمان کے خون کا بدلہ لینے کے لئے بیعت کرچکا تھا۔
جریر کی غلطی کا نتیجہ یہ ہوا کہ امام ـ رجب ٣٦ھ کے شروع ایام میں کوفہ آئے اور اس وقت سے کئی مہینہ تک جریر کے انتظار میں رہے تاکہ معاویہ کے قطعی نظریہ سے آگاہ کرے اور اس کے نتیجے میں معاویہ نے اس مدت میں شامیوں کو خوب مسلح کردیا اور تمام لوگوں کو امام ـ سے جنگ کرنے کے
لئے آمادہ کردیااور دشمن کی توجہ سے بے خبر ہوگیا۔ کوئی بھی ایسی قطعی و یقینی دلیل نہیں ہے جو یہ ثابت کرے کہ جریر نے خیانت کی تھی البتہ یقین کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ ان سے کوتاہی ہوئی جس نے تاریخ اسلام کا نقشہ بدل دیا اور قاسطین کی منحوس حیات کا استمرار اسی کوتاہی کا مرہون منت تھا۔ اس کی غلطی یا قصور نے تاریخ اسلام کو فائدہ پہونچایا۔ اور قاسطین کی منحوس زندگی کی بقاء ایک حد تک نمائندہ امام کی غلطیوں کی وجہ سے تھی البتہ امام ـ نے کوفہ میں قیام کے دوران بہت سے کام انجام دیئے اور حاکموں اور نمائندوں کو معزول اورنیک و صالح اور خدمت کرنے والوں کو ان کی جگہ پر منصوب کیا لہذا کوفہ میں امام کے قیام کی علت جریر کی تاخیر سے واپسی نہیں تھی،خاص طور سے اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ امام ـ نے کوفہ میں قیام کرنے کے بعد جریر کو ہمدان کی گورنری کے بجائے کوفہ کی اہم گورنری سپرد کی ۔
اس مدت میں امام ـ کی مشکلوں میں سے ایک مشکل یہ تھی کہ نوجوان اور بہادر، دشمن سے جنگ کرنے کے لئے آمادہ تھے اور آپ سے شام سے جنگ کرنے کی درخواست کر رہے تھے۔ لیکن امام ـ خونریزی نہیںچاہتے تھے بلکہ یہ چاہتے تھے کہ بغیر لڑائی کے اس واقعہ کا حل نکل جائے چنانچہ ان نوجوانوں کو جانے سے منع کردیااوران سے فرمایا:
''تم لوگ ہمارے حکم کے منتظر رہو جب کہ میرا نمائندہ جریر شام میں ہے اگر میں جنگ کا حکم دوں گا تو صلح کے دروازے شام والوں پر بند ہو جائیں گے ۔اگر ان لوگوں کی نیت صحیح ہوگی تو ان کے درمیان سے گذرے گا میںنے جریر کو خط لکھا ہے اور اسے وہاں کم رہنے کے لئے کہا اور اگر تاخیر کرے تو یا تو دھوکہ کھایا ہے یااپنے امام کی مخالفت کی ہے میں چاہتا ہوں کہ اس کام میں تھوڑا صبر کروں لیکن یہ کام اس چیز سے مانع نہیں ہے کہ لوگ دھیرے دھیرے آمادہ ہوں جب چلنے کا حکم دیا جائے تو فوراً چلنے کو تیار ہو جائیں۔(١)
______________________
(١) نہج البلاغہ عبدہ خطبہ، ٤٢۔

جریر امام کے حضور میں
جریر بہت دنوں کے بعد ناامید امام کے پاس واپس آگئے مالک اشتر نے امام ـ کے سامنے انہیں پیش کیا اور دونوں کے درمیان تیز و تند گفتگو ہوئی جس کا خلاصہ یہاں بیان کر رہے ہیں:
مالک اشتر:اے امام: اگر اس کی جگہ پر مجھے بھیجتے تو میں کام کو صحیح طور پر انجام دیتا اس شخص نے ہر طرح کی امید کو ناامیدی میں بدل دیا، خاندان امیہ نے اس کے دین کو اسی وقت خرید لیا تھا جب وہ ہمدان کا حاکم تھا اس کو حق نہیں ہے کہ و ہ زمین پر چلے اور اب جب کہ شام سے واپس آیا ہے تو ہمیں ان کی طاقت سے خوف دلاتا ہے، اے امام اگر آپ اجازت دیں تو اس کو اور اس کے ہم خیالوں کو قید کردوں تاکہ واقعیت روشن و واضح ہو جائے اور ظالم نیست و نابود ہو جائیں۔
جریر: اے کاش میری جگہ تم گئے ہوتے تو میری طرح واپس نہیں آتے اور عمرو عاص یا ذی الکلاع اور حوشب تمہیں قتل کر ڈالتے کیونکہ وہ تمہیں عثمان کا قاتل سمجھتے ہیں۔
مالک اشتر: اگر میں جاتا تو ان کا جواب مجھے مجبور نہیں کرتا میں معاویہ کو کسی نہ کسی طرح دعوت دیتا اور اسے فکر کرنے کا بھی موقع نہیں دیتا۔
جریر: جاؤ اب بھی راستہ کھلا ہوا ہے۔
مالک اشتر: اب تو وقت ہاتھ سے نکل گیا ہے اور معاویہ نے سارا فائدہ اٹھا لیاہے۔(١)
اس میں کوئی شک نہیں کہ مالک اشتر کی گفتگو منطقی تھی او رجریر مالک اشتر کے منطقی اعتراض کا صحیح جواب نہ دے سکا، ایک ایسے سیاسی شخص کے لئے شائستہ تھا کہ وہ اپنی غلطی کااعتراف کرتا او رعذر خواہی کرتا لیکن اس نے مالک اشتر کے اعتراض کا جواب دیا اور دھیرے دھیرے امام ـسے دور ہونے لگا اور ''فرقیسا'' (٢) جو کہ فرات کے کنارے تھا وہاں رہنے لگا۔
اگر جریر اس وقت تک جرم کا مرتکب نہ ہوا ہوتا تو اس کی غلطی معافی کے قابل تھی، لیکن اس کے بعد اس کے سارے کام اصول کے خلاف تھے، کیونکہ امام ـ کی دوستی و ہمراہی کا چھوڑنا او ربہت دور زندگی بسر کرنا عملی طور پر امام ـ کی حکومت پر اعتراض تھا، اس کے علاوہ جریر کے کنار کش ہونے کی وجہ سے قبیلے کے تعصب نے اپنا کام کر دکھایا اور جریر کے قبیلے سے بہت مختصر لوگ (صرف ١٩ آدمی) قسر سے جو بجلیہ قبیلے کے اطراف میں رہتے تھے امام ـ کے ساتھ جنگ صفین کے لئے روانہ ہوئے اگرچہ بجلیہ کے اطراف ''اخمس'' سے سات سو (٧٠٠) لوگوں نے شرکت کی۔
جریر کا عمل ایک قسم کی نافرمانی اور حکومت حقہ کے خلاف خروج تھا اور امام ـ نے اس کام کو جڑ سے ختم کرنے کے لئے جریر اور اس کے ہمفکر ثویر بن عامر کے گھر کو ویران کردیا تاکہ دوسروں کے لئے درس عبرت ہو۔(٣)
_______________________________
(١) وقعۂ صفین ص ٦٠، شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج٣ص ١١٥۔ ١١٤۔
(٢) رجعہ علاقے سے کچھ دوری پر واقع ہے اور خابور کے پاس ہے۔
(٣) وقعۂ صفین ص ٦١۔ ٦٠۔

معاویہ کے خطوط اسلامی شخصیتوں کے نام
معاویہ نے جنگ صفین پر روانہ ہونے سے پہلے عمرو عاص سے کہا میں چاہتا ہوں تین لوگوں کو خط لکھوں او ران لوگوں کو علی کے خلاف برانگیختہ کروں وہ تین آدمی یہ ہیں عبد اللہ بن عمر، سعد بن وقاص ، محمد بن مسلمہ۔
معاویہ کے مشاورنے اس کے نظریہ کو قبول نہیں کیا اور اس سے کہا یہ تینوں افراد تین حالتوں سے
خالی نہیں ہیںیا علی کے چاہنے والے ہیںاس صورت میں تمہارا خط باعث بنے گا کہ راہ علی پر باقی رہنے میں ان لوگوں کا ارادہ ٹھوس ہو جائے یا عثمان کے چاہنے والے ہیں اس صورت میں ان کے استحکام میں اضافہ نہیں ہو گا اور اگر وہ لوگ کسی بھی طرف نہیں ہیں تو ہرگز تم ان لوگوں کی نظر میں علی سے زیادہ مورد اعتماد نہیںہو۔ اس لئے تمہارے خط کا اثر ان لوگوں پر نہیں پڑے گا۔(١)
معاویہ نے اپنے مشاور کے نظریہ کو قبول نہیں کیا اور اپنی اور عمرو عاص کی دستخط کے ساتھ ایک خط عبد اللہ ابن عمر کو لکھا جس کی عبارت یہ تھی:
''حقائق اگر ہم پر پوشیدہ ہوں تو تم پر پوشیدہ نہیں ہیں، عثمان کو علی نے قتل کیا ہے اس کی دلیل یہ ہے کہ ان کے قاتلوں کو امان دی ہے ،ہم عثمان کے خون کا بدلہ لینا چاہتے ہیں تاکہ حکم قرآن کے مطابق انہیں قتل کریں اور اگر علی عثمان کے قاتلوں کو ہمارے حوالے کردیں تو ہم ان سے کوئی مطالبہ نہیں کریں گے اور اس وقت خلافت کے مسئلہ کو عمر بن خطاب کی طرح مسلمانوں کے درمیان شوری میں پیش کریں گے ہم ہرگز نہ خلافت کے طلبگار تھے او رنہ ہیں تم سے بس گذارش یہ ہے کہ قیام کرو او رہماری اس راہ میں مدد کرو، اگر ہم اور تم آپس میں متحد ہوگئے تو علی مرعوب ہو جائیں گے اور پھر اپنے ارادے سے پیچھے ہٹ جائیں گے۔(٢)

عبد اللہ بن عمر کا جواب
اپنی جان کی قسم، تم دونوںنے اپنی بصیرت اور حقیقت شناسی کو اپنے ہاتھوں سے کھودیا ہے اور حوادث کو فقط دور سے دیکھ رہے ہو اور تمہارے خط نے شک کرنے والوں کے شک و تردید میں اضافہ کردیا ہے تم لوگوںکا خلافت سے کیا ربط؟ معاویہ تم طلیق و آزاد شدہ ہو او رعمرو تم ایک متہم شخص او رغیر قابل اعتماد ہو، اس کام سے باز آجاؤ میں تمہاری مدد نہیں کر سکتا۔(٣)
عبد اللہ بن عمر نے جو خط معاویہ کو لکھا اس نے عمرو عاص کی مردم شناسی اور دور اندیشی کو ثابت کردیااور یہ بھی واضح کردیا کہ معاویہ اپنے قدیمی حریف کے کاموں تک نہیں پہونچ سکا ہے اور اگر بعض سیاسی مسئلوں میں برتری رکھتا ہے(مثلاً کشادہ دلی کے ساتھ مخالف کی بات سنتااو راگر اس کے سامنے آتا تو گذشتہ کونظر انداز کردیتا، اور اگر گفتگو ایک طرف ہو جاتی تو فوراً گفتگو کا عنوان بدل دیتا اور بحث کے اصل موضوع کو دوسرے انداز سے شروع کرتا) اس کے باوجود ابھی پورا مردم شناس نہیں ہورہے۔
_______________________________
(١) الامامة و السیاسة ج١ ص ٨٩۔ ٨٨۔
(٢) وقعۂ صفین، ص ٦٣، ابن قتیبہ کے نظریہ کے مطابق اس خط کو معاویہ نے اہل مکہ او رمدینہ کے لئے لکھاتھا ۔ الامامة و السیاسة ص ٨٩۔
(٣)وقعة صفین ص٦٣،لیکن ابن قتیبہ نے معاویہ کے جواب میں ایک دوسرے خط کا ذکر کیا ہے،الامامة والسیاسةص٩٠۔٨٩

معاویہ کے خط لکھنے کا مقصد
معاویہ کا مختلف لوگوں کو خط لکھنے کا مقصد یہ تھا کہ بعض شخصیتوں کو متوجہ کرے جو نہ موافقوں کی صف میں تھے نہ ہی مخالفوں کی صف میں ۔ یہ لوگ مکہ و مدینہ میںلائق احترام اور با اثر شخصیت کے حامل تھے اور ان کی نظر جذب کرنے کی وجہ سے دو شہروں میں مخالفت ایجاد کرنا تھا جو شوریٰ کے مرکزی افراد اور خلیفہ انتخاب کرنے میں ایک اہمیت رکھتے تھے۔
لیکن یہ لوگ ان لوگوں سے زیادہ عقلمند تھے جن لوگوں نے معاویہ سے دھوکہ کھایا اور اس کے ساتھ رہے لہٰذا دوسروں نے بھی، یعنی سعد وقاص اور محمد بن مسلمہ نے بھی عبد اللہ بن عمر کی طرح جواب دیا۔(١)
نصر بن مزاحم نے کتاب ''وقعہ صفین'' میں معاویہ کا ایک دوسراخط نقل کیا ہے جواس نے عبد اللہ بن عمر کے نام لکھا تھا اور اس پر امام ـ کی مخالفت کرنے کا الزام لگایا ہے اور اس طرح چاہا کہ مخالفت کا بیج اس کے دل میں بودے اور پھر لکھتا ہے کہ میں خلافت کواپنے لئے نہیں چاہتا بلکہ تمہارے لئے چاہتا ہوں اوراگر تم نے بھی قبول نہیں کیا تو ضروری ہے کہ مسئلہ خلافت کو مسلمانوں کی شوریٰ میں بیان کیا جائے ۔
عبد اللہ بن عمر اگر چہ سادگی میں بہت مشہور تھا اس نے معاویہ کا خط پڑھ کر اس کو جواب دیاکہ تم نے لکھاہے کہ میں نے علی کی نکتہ چینی کی ہے اپنی جان کی قسم میں کہاں او رعلی کاسابقہ ایمان، ان کی ہجرت ، رسول خدا ۖ کے نزدیک ان کی و رفعت ومنزلت اور مشرکوں کے مقابلے میں ان کی مقاومت کہاں؟ اگر میںنے ان کی موافقت نہیں کی تو اس کی وجہ یہ تھی کہ اس حادثہ میں پیغمبرۖ کی طرف سے کوئی حدیث نہیں
______________________
(١) معاویہ کے اصل خط کو جو اس نے سعد بن ابی وقاص اور محمد بن مسلمہ انصاری کے نام لکھا تھا اور ان کے جواب کو ابن قتیبہ نے الامامة و السیاسة ص ٩١۔ ٩٠۔ پر لکھا ہے۔
آئی تھی لہذا ہم نے دونوں میں سے کسی کی طرف بھی رغبت کرنے سے پرہیز کیا۔(١)

معاویہ کا خط سعد بن وقاص کے نام
معاویہ نے فاتح سرزمین ایران سعد وقاص کو خط لکھا:
عثمان کی مدد کے لئے بہترین لوگ قریش کی شوریٰ تھی، ان لوگوں نے اسے چنا اور دوسروں پر مقدم کیا، طلحہ و زبیر نے اس کی مدد کرنے میں جلدی کی اور وہ لوگ تمہاری شوری کے ہمراہی اور اسلام میں بھی تمہاری ہی طرح تھے ام المومنین (عائشہ) بھی اس کی مدد کے لئے گئیں تمہارے لئے بہتر نہیں ہے کہ ان لوگوں نے جس چیز کو پسند کیا ہے تم اسے ناپسند کرو اور جس چیز کو ان لوگوں نے اختیار کیا ہے تم اسے چھوڑ دو، ہمیں چاہیئے کہ ہم خلافت کو شوریٰ کے حوالے کردیں۔(٢)

سعد وقاص کا جواب
عمر بن خطاب نے ایسے افراد کو شوریٰ میں شامل کیا جن کے لئے خلافت جائز تھی، ہم سے زیادہ کوئی بھی خلافت کے لئے بہتر نہ تھا، مگر یہ کہ ہم اس کی خلافت پر راضی رہیں اگر ہم بافضیلت ہیں تو علی بھی اہل فضل میں سے ہیںجب کہ علی کے فضائل بہت زیادہ ہیں اور ہمارے فضائل اتنے نہیں ہیں اور اگر طلحہ و زبیر اپنے گھر میں خاموشی سے بیٹھتے تو بہتر تھا، خداوند عالم ام المومنین کو جوانھوں نے کام کیاہے معاف کردے۔(٣)
معاویہ نے کوشش کی تھی کہ شوریٰ کے تمام اراکین سے زیادہ خلیفۂ سوم کی فضیلت کو ثابت کرے، لیکن سعد وقاص نے اسے قبول نہیں کیا اور اس کی حاکمیت او رسب سے آگے بڑھنے کو شوریٰ کے اراکین کی رائے سے توجیہ کیا اور اسی کے ساتھ طلحہ و زبیر پر اعتراض بھی کیا۔
______________________
(١) وقعۂ صفین ص ٧٣۔ ٧٢۔
(٢) الامامة و السیاسة، ج١ ص ٩٠ وقعۂ صفین، ص ٧٤۔
(٢) الامامة والسیاسة ج١ ص ٩٠، وقعۂ صفین ص ٧٧۔ ٧٥۔
معاویہ کا خط محمد بن مسلمہ کے نام
معاویہ نے اس خط میں اسے انصار کے فارس(بہادر) سے تعبیر کیاہے او رخط کے آخر میں لکھتا ہے:
انصار جو تمہاری قوم ہے اس نے خدا کی نافرمانی کی ہے اور عثمان کو ذلیل کیاہے اور خدا تم سے اور ان لوگوں سے قیامت کے دن سوال کرے گا۔(١)
مسلمہ کے بیٹے نے ایک مقدمہ کے بعد جواب دیا:
تم دنیا کے علاوہ کسی چیز کو نہیں چاہتے اور خواہشات نفسانی کے علاوہ کسی چیز کی پیروی نہیں کرتے، عثمان کی موت کے بعد اس کا دفاع کر رہے ہو لیکن اس کی زندگی میں اسے ذلیل و خوار کیا اور اس کی مدد نہیں کی۔(٢)
______________________
(١) الامامة والسیاسة ج١ ص ٩٠، وقعۂ صفین ص ٧٧۔ ٧٥۔
(2)الامامة والسیاسةج١ص٩٠،وقعة صفین ص٧٧۔٧٥

(٢) معاویہ کے خط کا مفہوم اور اس کا مقصد
معاویہ کے خط کا مفہوم مکمل طور سے اشتعال انگیز تھا اور معاویہ کی یہ کوشش تھی کہ لوگوں کو امام ـ کی مخالفت کے لئے برانگیختہ کردے، مثلاً عمر کے بیٹے کو خلافت پر قبضہ کرنے کے لئے بلایا کیونکہ وہ شوریٰ کا ناظر تھا، سعد وقاص چونکہ چھ نفری شوریٰ کا ممبر اور طلحہ و زبیر کے مثل تھا لہذا شوریٰ میں اس کے ممبر ہونے کا تذکرہ کیااور اسے طلحہ و زبیر کے راستے پر چلنے کی دعوت دی او رمحمد بن مسلمہ کو انصار کا شہسوار اور مہاجروں کو منظم کرنے والا قرار دیا او ر یاد دلایاکہ ان لوگوںنے عثمان کی مدد نہیں کی لہذا اس کا جبران کرنے کے لئے فوراً اٹھ جائیں اور اس کی مدد کریں۔
ان تمام خطوط سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ معاویہ کا مقصد صرف اسلامی معاشرہ کودرہم برہم کر کے علی ـ کا مخالف بنانے کے علاوہ کچھ نہ تھا اور بنا بر فرض محال اگروہ عثمان کا ولی دم تھا تو یہ بات کوئی عقلمند انسان قبول نہیں کرے گا کہ ایک انسان کے خون کا بدلہ لینے کے لئے تمام مسلمانوں کی جان جوکھم میں ڈال دے ۔
معاویہ کا اصرار تھا کہ خلیفہ کا انتخاب شوریٰ کے ذریعے ہو اور عمر کی شوریٰ کی تعداد چھ آدمیوں سے زیادہ نہ تھی، اگر شوریٰ کا انتخاب تکلیف دہ تھا تو مہاجرین وانصار کا متحد ہونا بدرجہ اولی الزام آور تھا سب لوگ اس سے باخبر ہیں کہ امام ـ مہاجرین و انصار کے ذریعے اس مقام پر منتخب ہوئے ہیں آپ اپنے گھر میں بیٹھے ہوئے تھے کہ لوگ جوق درجوق آپ کے پاس آئے اور بہت زیادہ اصرار کر کے آپ کو مسجد میں لے گئے اور پھر آپ کے ہاتھوں پر بیعت کی، اور چند لوگوں کے علاوہ کسی نے بھی آپ کی بیعت کی مخالفت نہیں کی۔
اس کے علاوہ اگر مہاجرین و انصار نے عثمان کی مدد نہیں کی تو خود معاویہ نے بھی تو اس کی مدد نہیں کی جب کہ عثمان کے گھر کا محاصرہ بہت دنوں تک تھا اور وہ اس سے آگاہ بھی تھا اور وہ اپنی فوج کے ساتھ خلیفہ کی مدد کے لئے جاسکتا تھا، لیکن ہرگز اس نے ایسا نہیں کیا اور اس کے خون کو بہتا ہوا دیکھتا رہا۔
اس کے علاوہ خود عثمان نے شام کے لوگوں او روہاں کے حاکم معاویہ کے پاس خط لکھا اور ان سے مدد مانگی تھی یہاں تک کہ اپنے خط کے آخر میں یہ بھی لکھا تھا:
''فیاغوثاہ و لا امیرُ علیکم دونی ، فالعجل العجل یا معاویة وادرک ثم ادرک و ما اراک تدرک''(١)
ان تمام چیزوں کے باوجود معاویہ نے ان خطوط کو نظر انداز کردیا اور اپنے خلیفہ کی بالکل بھی حمایت نہیں کی لیکن اس کی موت کے بعد اس کے خون کا بدلہ لینے کی فکر ہوگئی۔
مؤرخین نے عثمان کے دو طرح کے محاصروں کو لکھا ہے اور پہلے محاصرہ اوردوسرے محاصرے کے درمیان بہت زیادہ فاصلہ تھا، بعض نے محاصرہ کی مدت ٤٩ دن بعض نے ٧٠ دن اور بعض نے ٤٠ دن اور بعض نے ١ مہینے سے زیادہ لکھا ہے اس لئے یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ عثمان کے محاصرے کی خبر معاویہ نے نہ سنی ہو، اور وہ پورے واقعہ سے بے خبر ہو۔
_______________________________
(١) الامامة و السیاسة ص ٣٨۔
شام کا خطیب
ہر زمانے اورہر جگہ پر ایسے افراد موجود ہوتے ہیں کہ اپنا کھانا روزانہ کی قیمت سے کھاتے ہیں اور چاپلوسی اور جھوٹی تعریف کرنے والے صاحبان قدرت و ثروت کی خوشامد اور اور ان کیتعریفیں کیا کرتے ہیں اور حق کو ناحق، اور باطل کو حق دکھاتے ہیں لیکن تاریخ میں ایسے بھی افراد موجود ہیں جو حق و حقیقت کا کسی بھی چیز سے معاملہ نہیں کرتے اور ان کی زبانوں پر کلمہ حق کے علاوہ کچھ جاری نہیں ہوتا۔
قبیلہ ''طی'' کے لوگ جو مدینہ او رشام کے دو پہاڑوں کے درمیان زندگی بسر کر رہے تھے وہ سب کے سب خصوصاً عدی بن حاتم، علی ـ کے عاشق تھے۔ عدی امام ـ کی خدمت میں آئے اور کہا ہمارے قبیلہ کا ایک شخص ''خفاف'' اپنے چچازاد بھائی ''حابس'' کی ملاقات کے لئے شام جانے والاہے، خفاف بہترین خطیب و مقرر اور عمدہ شاعر ہے اگر آپ کی اجازت ہوتوہم اس سے کہیں کہ معاویہ سے ملاقات کرے اور مدینیاور عراق میںآپ کی جو شان و شوکت ہے اسے بیان کرکے، معاویہ او رشامیوں کا حوصلہ پست کرے، امام ـ نے عدی کی درخواست کو قبول کیا، خفاف شام کی طرف روانہ ہوا، اور اپنے چچازاد بھائی حابس کے پاس گیا اور اس سے کہا میں عثمان کے قتل کے وقت مدینہ میں موجود تھا پھر حضرت علی ـ کے ساتھ مدینہ سے کوفہ آیا ہوں اور تمام حالات سے باخبر ہوں دونوں چچازاد بھائیوں نے طے کیا کہ دوسرے دن معاویہ کے پاس جائیں او راسے تمام واقعات سے آگاہ کریں ، دوسرے دن دونوں بھائی معاویہ کے پاس گئے حابس نے اپنے بھائی کا تعارف کرایا اور کہا کہ وہ حادثہ ''یوم الدار'' اور عثمان کے قتل کے دن موجود تھا اور علی کے ساتھ کوفہ آیا ہے او راپنی بات میں مکمل یقین و اعتماد رکھتا ہے معاویہ نے خفاف سے کہا، عثمان کے واقعات سے مجھے آگاہ کرو، خفاف نے مختصر طور پر عثمان کے قتل کے واقعات کو اس طرح بیان کیا:
''مکشوح نے اس کا محاصرہ کیا اور حکیم نے حملہ کرنے کا حکم دیا، محمد بن ابوبکر او رعمار قتل کرنے میں شریک تھے اور تین آدمی عدی بن حاتم، مالک اشتر نخعی اور عمرو بن الحمق اس کارنامے میں بہت فعال تھے اسی طرح سے طلحہ و زبیر قتل کرنے میں بہت زیادہ کوشش کر رہے تھے، اور اس گروہ سے سب سے جدا رہنے والے علی ـ تھے جو عثمان کے قتل میںکسی طرح بھی شریک نہیں تھے۔
معاویہ نے کہا: پھر اس کے بعد کیا ہوا؟
خفاف نے کہا: لوگ عثمان کے قتل کے بعد جب کہ ابھی اس کا جنازہ ایسے ہی زمین پر پڑا تھا پروانے کی طرح علی کے پاس اس طرح جمع ہوئے کہ جوتے گم ہوگئے اور ردائیں کاندھوں سے گر گئیں، بوڑھے لوگ مجمع میں دب گئے اور سب نے رہبر اور پیشوا کی حیثیت سے علی ـ کی بیعت کی، اور جب طلحہ و زبیر نے اپنی بیعت کو توڑ دیا تو امام ـ سفر کرنے کے لئے آمادہ ہوئے اور مہاجرین وانصار بہت تیزی کے ساتھ آپ کے ہمراہ چلنے کے لئے تیار ہوگئے، اس سفرسے تین لوگ، سعد بن مالک، عبد اللہ بن عمر، محمد بن مسلمہ بہت ناراض ہوئے اور تینوں افراد نے گوشہ نشینی اختیار کرلی، لیکن علی (علیہ السلام) پہلے گروہ کی وجہ سے ان تینوں سے بے نیاز ہوگئے امام ـ کا کاروان سرزمین ''طی'' پہونچااور میرے قبیلہ سے کچھ لوگ امام کے لشکر سے ملحق ہوئے، اور ابھی بصرہ کا آدھا ہی راستہ طے کیا تھا کہ طلحہ و زبیر کے بصرہ جانے کی خبر ملی، ایک گروہ کو کوفہ روانہ کیا اور ان لوگوں نے بھی ان کی دعوت کو قبول کیا او ربصرہ کی طرف روانہ ہوگئے، بصرہ پر حملہ ہوا اور شہر پر ان کا قبضہ ہوگیا پھر کوفہ کی فکر کی، اس شہر میں شور و غل مچ گیا، بچے محل کی طرف دوڑے او ربوڑھے او رنوجوان خوشی خوشی ان کی طرف دوڑ پڑے اس وقت وہ کوفہ میں ہیں اور شام پر قبضہ کرنے کے علاوہ کوئی اور فکر نہیں کر رہے ہیں، جب خفاف کی گفتگو ختم ہوئی تو معاویہ خوف کے مارے تھرتھر کانپنے لگا۔
اس وقت حابس نے معاویہ سے کہا: میرا چچازاد بھائی خفاف بہت اچھا شاعر ہے میری جب اس سے ملاقات ہوئی تھی تو اس نے بہت اچھا شعر پڑھا تھا اورعثمان کے متعلق میری نظر کو بدل ڈالا اور علی کی خوب تعریف کی، معاویہ نے کہا کہ وہ شعر جو تم نے اس کے لئے کہا تھا مجھے سناؤ اس نے وہ اشعار پڑھا، خفاف کا شعر سن کر معاویہ نے سخت لہجہ میں حابس سے کہا: میرے خیال سے یہ شخص علی کاجاسوس ہے جتنی جلدی ممکن ہو اس کو شام سے باہر کردو، لیکن معاویہ نے اسے دوبارہ اپنے پاس بلایا اور کہا: مجھے لوگوں کے کام وغیرہ سے آگاہ کرو، اس نے پھر وہی باتیں دہرائیں ، معاویہ ا س کی عاقلانہ باتیں سن کر حیرت میں ڈوب گیا۔(١)
_______________________________
(١) وقعۂ صفین ص ٦٦۔ ٦٤، شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج٣ ص ١١٢۔ ١١٠۔
صحابہ کے بیٹوں کا سہارا
ابو سفیان کا بیٹااس اما م سے مقابلہ کرنے کی کوشش میں تھا جس کا سبقت ایمان اور مشرکین کے ساتھ جہاد کرنا روشن وواضح تھا لہذا اس نے بعض صحابیوں اور ان کے بیٹوں کو اپنی طرف جذب کرکے اپنی شخصیت بنانی چاہی جب عبیداللہ ابن عمر حضرت علی کی حکومت سے بھاگ کر شام گیاکیونکہ حضرت ھرمزان کے قتل کی بنا پر اس سے قصاص چاہ رہے تھے اور معاویہ کو یہ خبر ملی تو وہ (١) خوشی سے پھولے نہیں سما رہا تھا لہٰذا اپنے مشاور اور عقل (عمروعاص) سے رابطہ کیا اور عبیداللہ کی آمد پر اسے مبارک باد دی اور اسے ملک شام کے اور اپنے پاس رہنے کا وسیلہ سمجھا(٢) پھر دونوں نے ارادہ کیا کہ اس سے درخواست کریں کہ لوگوں کے مجمع میں منبر پر جا کر علی کو برا بھلا کہے، جب عبیداللہ معاویہ کے پاس آیا تو معاویہ نے اس سے کہا اے میرے بھتیجے ،تمہارے باپ کا نام (عمر بن الخطاب) تمہارے اوپر لگا ہواہے خواب غفلت سے بیدار ہوجاؤ اور مکمل آمادگی کے ساتھ گفتگو کرو، کیونکہ تم لوگوں کے درمیان قابل اعتماد ہو، منبر پر جاؤ علی کو برا بھلا کہو، گالی دو اور گواہی دو کہ عثمان کو علی نے قتل کیا ہے۔
زمام حکومت ایسے فتنہ پرور لوگوں کے ہاتھوں میں تھی جنہوںنے خلفاء کے بیٹوں کو برے اور بیہودہ کاموں کی ترغیب کرتے تھے تاکہ اس کے ذریعہ امام علیہ السلام کی عظمت کو گھٹادیں ،لیکن امام علیہ السلام کی رفعت وعظمت اتنی بلند تھی جس کا دشمن بھی منکر نہیں ہوسکتا ۔ عبیداللہ جوامام علیہ السلام کی عدالت کی وجہ سے بھاگ گیا تھا اس نے معاویہ سے کہا ، میں علی کو گالی نہیں دے سکتا اور ناسزا نہیں کہہ سکتا کیونکہ وہ فاطمہ بنت اسد بن ہاشم کے بیٹے ہیں ان کے نسب کے بارے میں میں کیا کہوں؟ ان کی جسمانی اور روحاحی طاقت کا اندازہ اسی سے لگایا جاسکتاہے کہ وہ پچھاڑ دینے والے بہادر ہیں، میں عثمان کے قتل کا الزام ہی صرف ان کی گردن پر ڈال سکتاہوں ۔
عمرو عاص اپنی جگہ سے اٹھا اور کہا:
خدا کی قسم، اس وقت زخم نمایاں ہوں گے(بھیجے باہر نکلیں گے) جب عبیداللہ وہاں سے چلا گیا تو
_______________________________
(١) تاریخ طبری ج٣،جز٥ ص ٤٢،٤١۔ کامل ابن اثیر ج ٣ص ٤٠
(٢) الامامة والسیاسة ج١ ص ٩٢
معاویہ نے عمر وعاص سے کہا ،اگر وہ ہرمزان کو قتل نہ کرتا اور علی کے قصاص سے نہ ڈرتا تو ہماری طرف کبھی بھی نہ آتا کیا تم نے نہیں دیکھا کہ اس نے علی کی کیسی تعریف کی؟
جی ہاں، عبیداللہ نے تقریر کی اور جب بات علی علیہ السلام تک پہونچی تو اس نے اپنی بات روک دی اور ان کے بارے میں کچھ نہ کہا اور منبر سے اتر گیا۔
معاویہ نے اس کے پاس پیغام بھیجا اورکہا: اے میرے بھتیجے ، علی کے بارے میں تمھاری خاموشی دو علتوں کی بناء پر تھی ناتوانی کی وجہ سے یا خیانت کی وجہ سے۔
اس نے معاویہ کو جواب دیا :میں نہیں چاہتا کہ ایسے شخص کے بارے میں گواہی دوں جو عثمان کے قتل میں شامل نہ تھا اور اگر میں گواہی دیتا تو لوگ ضرور قبول کرلیتے ،معاویہ اس کا جواب سن کر ناراض ہوا اور اسے نکال دیا اور اس کو کوئی مقام ومنصب نہیں دیا۔
عبیداللہ نے اپنے شعر میں کچھ ترمیم کرکے اس طرح بیان کیا کہ ،اگرچہ علی عثمان کے قتل میں شامل نہ تھے لیکن ان کے قاتلوں نے علی کے پاس پناہ لی اور انہوں نے نہ ان کے کام کو برا کہا اور نہ
ہی کہااور میں عثمان کے بارے میں گواہی دیتا ہوں کہ انہوں نے توبہ کرلی تھی اور بعد میں قتل ہوئے۔(١)عمرکے بیٹے کا معاویہ کے ساتھ اتنا ہی محبت سے پیش آنا کافی تھا اور اسی محبت کی وجہ سے اس کا دل جیت لیا اور اسے اپنے مقربین میں شامل کر لیا۔
_______________________________
(١) واقعہ صفین : ص ٨٤،٨٢

قاتلان عثمان کے کو سپرد کرنا ایک مشکل مرحلہ تھا
معاویہ نے امام علیہ السلام کے خلاف جو لشکر جمع کیا اس کے لئے سب سے بڑا بہانہ یہ تھا کہ امام علیہ السلام عثمان کے قاتلوں کی حمایت کررہے ہیں۔
عثمان کے قتل کی علتیں تفصیل کے ساتھ بیان ہو چکی ہیں یہاں پر جس چیز کا تذکرہ کرنا ہے وہ یہ ہے کہ ہجوم کرنے والوں کی معاشرے میں شخصیت ایسی تھی کہ خود علی علیہ السلام ان لوگوں کو معاویہ کے حوالے نہیں کرسکتے تھے، یہ بات درست ہے کہ کچھ لوگوں نے عثمان کے گھر کا محاصرہ کیا تھااور کچھ نے انہیں قتل کیا
تھا لیکن خلفاء کے اموی والیوں کے ظلم وستم کی وجہ سے لوگوں کی نظر میں یہ گروہ اتنی اہمیت کا حمل ہوگیا تھا کہ ان کا معاویہ کے حوالے کرنا بہت بڑی مشکل کو دعوت دینا تھا، اس سلسلے میں ذیل کے واقعے پر توجہ فرمائیں۔
علی کے ساتھ جنگ کرنا آسان کام نہیں تھا، یہی وجہ ہے کہ یمن کا زاہد ابو مسلم خولانی جوکہ شام میں سکونت پذیر تھا، کو جب یہ خبر ملی کہ معاویہ علی کے ساتھ جنگ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے تو قاریوں کے گروہ کے ساتھ معاویہ کے پاس گیا اوراس سے پوچھا ،کیوں علی کے ساتھ جنگ کرنا چاہتے ہو جب کہ کسی بھی زاویہ سے تو ان کے برابر نہیں ہوسکتا؟ نہ پیغمبرۖ کے ساتھ ان کی جیسی مصاحبت تجھے نصیب ہے نہ تمہارے پاس سابقہ اسلام ہے، اور نہ ہی ہجرت اور پیغمبرۖ کی خویشاوندی تمہیں حاصل ہے ، معاویہ نے ان لوگوں کے جواب میںکہامیںہرگزاس بات کا دعویٰ نہیں کرتا کہ علی کی طرح میرے فضائل ہیں، لیکن میں تم سے پوچھتا ہوں کہ کیا تمہیں نہیں معلوم کہ عثمان کا قتل بے گناہ ہوا ہے؟ ان لوگوں نے جواب دیا ہاں، پھر اس نے کہا علی عثمان کے قاتلوں کو میرے حوالے کردیں تاکہ میں ان سے عثمان کے خون کا بدلہ لوں ۔ ایسی صورت میں ہم ان سے جنگ نہیں کریں گے۔
ابو مسلم اور اس کے ہمفکروں نے معاویہ سے درخواست کی کہ علی کے نام خط لکھے، معاویہ نے اس سلسلے میں خط لکھا اور ابومسلم کو دیا تاکہ وہ امام تک پہونچا دے ( ہم معاویہ کا خط اور امام علیہ السلام کا جواب بعد میں ذکر کریں گے)۔
ابو مسلم کوفہ میں داخل ہوا اور معاویہ کا خط علی علیہ السلام کے سپردکرکے کہا:
آپ نے ایسا کام اپنے ذمہ لیا ہے کہ خدا کی قسم مجھے ہرگز پسند نہیں کہ وہ آپ کے علاوہ کسی دوسرے کے ذمہ ہو لیکن عثمان جو ایک محترم مسلمان تھے بے گناہ مظلومیت کے ساتھ مارے گئے ان کے قاتلوں کو ہمارے حوالے کردیں آپ میرے پیشوا وحاکم ہیں اگر آپ کی کوئی مخالفت کرے گا تو ہمارے ہاتھ آپ کی مدد کریں گے اور ہماری زبانیں آپ کے لئے گواہی دیں گی اور اس صورت میں آپ پر کوئی ذمہ داری نہ ہوگی۔
امام نے اس کا کوئی جواب نہیں دیا صرف یہ فرمایا،کہ کل آنا اور اپنے خط کا جواب لے لینا دوسرے دن ابومسلم اپنے خط کا جواب لینے امام علیہ السلام کی خدمت میں پہنچا تو دیکھا کہ بہت بڑا مجمع مسجد کو فہ میں ہے اور سب کے سب اسلحوں سے مسلح ہیں اور یہ نعرہ لگارہے ہیں ، ہم عثمان کے قاتل ہیں ابومسلم نے یہ منظر دیکھا اور امام علیہ السلام کی خدمت میں جواب کے لئے گیا اور امام سے کہا
میں نے ان لوگوں کو دیکھا کیا یہ آپ کے ساتھ رابطہ رکھتے ہیں ؟ امام نے کہا : تم نے کیا دیکھا؟ ابومسلم نے کہا: ایک گروہ تک یہ خبر پہونچی ہے کہ آپ عثمان کے قاتلوں کو ہمارے حوالے کرنا چاہتے ہیں یہی وجہ ہے کہ سب جمع ہوگئے ہیں اور مسلح ہوگئے ہیں اور نعرہ لگارہے ہیں کہ سب کے سب عثمان کے قتل میں شریک ہیں، علی علیہ ا لسلام نے فرمایا:
خدا کی قسم ! میں نے ایک لمحے کے لئے بھی یہ ارادہ نہیں کیا کہ ان لوگوں کوتمہارے حوالے کروں ،میں نے اس سلسلے میں بہت زیادہ تحقیق کی ہے اوراس نتیجے پر پہنچا کہ یہ صحیح نہیں ہے کہ ان لوگوں کو تمہارے یا تمہارے علاوہ کسی کے حوالے کروں۔(١)
یہ واقعہ اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ اس زمانے میں عثمان کے قاتلین اہم حیثیت کے مالک تھے اور ان لوگوں کو کسی کے حوالے کرنا ایک عظیم خونی جنگ کو دعوت دینے کے برابر تھا۔
لوگوں کا یہ اجتماع ایک فطری امر تھا ورنہ امام علیہ السلام ابو مسلم خولانی کے سوال کا جواب دینے میں لاعلمی کا اظہا ر نہیں کرتے ، یہ ابومسلم کی سادگی تھی کہ اس نے بھرے مجمع میں اپنے آنے کا سبب بیان کردیا اور یہ خبر دھیرے دھیرے سب تک پہونچ گئی جس کی وجہ سے انقلابی لوگ جو خلیفہ سوم کے حاکموں کے ظلم وستم سے تنگ آگئے تھے اسی وجہ سے انہیں قتل کیا تھا، آپس میں متحد ہوگئے ،اور اگر امام علیہ السلام نے کہا کہ ہم نے اس مسئلے کی تحقیق کی ہے کہ کسی بھی صورت میں مناسب نہیں ہے کہ ان لوگوں کو شامیوں یا کسی اور کے حوالے کریں تو وہ اسی وجہ سے تھا کہ ان میں سے کسی ایک کے بارے میں فیصلہ کرنا تمام لوگوں کے اندر اشتعال کا باعث بن جاتا ۔
اس کے علاوہ قصاص (خون کا بدلہ ) کی درخواست کرنا مرنے والے کے ولی کا حق ہوتاہے اور وہ عثمان کے بیٹے تھے نہ کہ معاویہ ،جو اس کا بہت دور کا رشتہ دار تھا اس نے عثمان کے قتل کو حکومت تک پہنچنے کا ایک بہانہ بنایا تھا۔
_______________________________
(١) وقعہ صفین ص٨٥،٨٦، شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج ٥اص ٧٥،٧٤