بارہویں فصل
جنگ صفین کے علل و اسباب
امام ـ کا پیغام معاویہ کے نام
حضرت امیر المومنین ـ کی الہی و حقیقی حکومت قائم ہونے اور متقی و پرہیزگار حاکموں کو منصوب کرنے اور غیر متدین حاکموں کے معزول کرنے کے بعد سب سے اہم کام یہ تھا کہ امام ـ شجرۂ خبیثہ کے ریشہ کو شام کی سرزمین سے اکھاڑ پھینکیں ، اور جامعہ اسلامی سے اس کے شر کو ختم کردیں، یہ ارادہ اس وقت اورقطعی ہوگیاجب ہمدان کے حاکم جریر کوفہ پہونچ گئے اور جب امام ـ کے ارادے سے باخبر ہوئے تو امام سے درخواست کی مجھے اجازت دیں کہ میں آپ کا پیغام لے جاؤں اس نے کہا: معاویہ سے میری دوستی بہت پرانی ہے میں اس سے کہوں گا کہ آپ کی حقیقی حکومت کو رسمی طور پر پہچانے اور جب تک خدا کی اطاعت کرے گا اس وقت تک شام کا حاکم رہے گا۔
امام ـ نے اس کی آخری شرط کو سن کر خاموشی اختیار کی اور کچھ نہیں کہا کیونکہ آپ جانتے تھے کہ جریر کے اندر اس کام کو انجام دینے کی صلاحیت نہیں ہے مالک اشتر نے امام ـ کی طرف سے نمائندگی اختیار کرنے پر جریر کی مخالفت کی اور کہا کہ یہ معاویہ کے ساتھ ملا ہوا ہے لیکن امام ـ ان کی رائے کو نظر انداز کر کے جریر کو اس کام کے لئے چنا، (١) اور آئندہ اس نے حضرت کے انتخاب کوصحیحثابت کردیا، جب امام ـ نے جریر کو روانہ کیا تو اس سے فرمایا، تم نے دیکھا ہے کہ رسول خدا ۖ کے تمام اصحاب جو سب کے سب متدین ہیں میرے ساتھ ہیں۔ پیغمبر نے تجھے یمن کا ایک بہترین شخص کہا ہے تم میرا خط لے کر معاویہ کے پاس جاؤ اگر ان چیزوں پر جس میں مسلمانوں کا اتفاق ہے داخل ہوا تو بہتر ہے اور اگر اس نے ایسا نہ کیا تو اس سے کہو کہ اب تک جو خاموشی تھی اب وہ خاموشی ختم ہو جائے گی(٢) اور یہ بات اس تک پہونچا دو کہ میں ہرگز اسکے
_______________________________
(١) تاریخ طبری ج٣ جزء ٥ ص ٢٣٥ تاریخ یعقوبی ج٢ ص ١٨٤ (مطبوعہ بیروت) کامل ابن اثیر ج٣ ص ١٤١؛ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید، ج٣، ص ٧٤۔
(٢) حاکم اسلامی کو چاہئے کہ اعلان جنگ سے پہلے متوجہ کرے کہ جتنی بھی سابقہ امانتیں موجود ہیں وہ ختم ہوگئیں ہیں ، قرآن کریم نے اس مسئلہ کو صراحت سے بیان کیا ہے : ''و اما نخافنَّ من قوم خیانة فانبذ الیہم علی سوائ'' سورۂ انفال، آیت ٥٨۔
حاکم ہونے پر راضی نہ تھا۔ اور لوگ بھی اس کی جانشینی پر راضی نہیں ہوںگے۔(١)
جریر امام ـ کا خط لے کر شام روانہ ہوا، جب معاویہ کے پاس پہونچا تو اس سے کہا: علی کے ہاتھ پر مکہ، مدینہ ، کوفہ، بصرہ ،حجاز، یمن، مصر، عمان، بحرین اور یمامہ کے لوگوں نے بیعت کی ہے اور سوائے اس قلعہ کے کہ جس میں تو ہے کوئی باقی نہیںہے ،اور اگر وہاں کے بیابانوں سے طوفان جاری ہو اتو سب کو غرق کردے گا میں تمہارے پاس اس لئے آیا ہوں کہ تجھے اس چیز کی دعوت دوں جس میں سچائی ہے اور اس شخص کی بیعت کی رہنمائی کروں۔(٢)
پھر اس نے امام ـ کا خط معاویہ کے حوالے کیا جس میں تحریر تھا:
مدینے میں (مہاجر و انصار کی میرے ہاتھ پر) بیعت نے شام میں تجھ پر حجت کو تمام کردیا ہے
اور تجھے میری اطاعت کرنے پر مجبور کیا ہے جن لوگوںنے ابوبکر ، عمر اور عثمان کے ہاتھ پر بیعت کی تھی بالکل اسی طرح انہوں نے میری بھی بیعت کی ہے لہذا اس بیعت کے بعدنہ حاضرین کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ مخالفت کریںنہ ہی غائبین کو حق ہے کہ بیعت کو چھوڑ دیں۔
شوریٰ (تمھاری رائے کے مطابق) مہاجرین و انصار کے حقوق میں سے ہے کہ اگر وہ لوگ کسی کی امامت پر متفق ہو جائیں اور اسے امام کا نام دیں تو یہ کام خدا کی مرضی کے مطابق ہے اور اگر کوئی ان کے فرمان و حکم کی مخالفت کرے یا تفرقہ پیدا کرنے کی کوشش کرے، تو اسے اس کی جگہ پر بٹھا دیتے ہیںاور اگر سرکشی کرے گا تو اس سے غیر مومنین کی راہوں کی پیروی کرنے کے جرم میں جنگ کرتے ہیں اور خدا اسے وسط راہ میں چھوڑ دیتا ہے اور قیامت کے دن جہنم میں ڈال دے گا اور واقعاً یہ کیسا مقدر ہے۔(٣)
طلحہ و زبیر نے میری بیعت کی پھر خود ہی بیعت کو توڑ دیا ،بیعت کو توڑنا بیعت کی مخالفت کرنا ہے (یعنی اے معاویہ تمھاری طرح) یہاں تک کہ حق آگیا اور خدا کا حکم کامیاب ہوا، میرے نزدیک بہترین کام تمھارے
_______________________________
(١) وقعۂ صفین ص ٢٨۔ ٢٧ تاریخ طبری ج٥ ص ٢٣٥۔
(٢) الامامة و السیاسة ج١ ص ٨٤٧ ،شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج٣ ص ٧٥، وقعۂ صفین ص ٢٨۔
(٣) اس آیت کی طرف اشارہ ہے: '' وَمَنْ یُشَاقِقْ الرَّسُولَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُ الْہُدَی وَیَتَّبِعْ غَیْرَ سَبِیلِ الْمُؤْمِنِینَ نُوَلِّہِ مَا تَوَلَّی وَنُصْلِہِ جَہَنَّمَ وَسَائَتْ مَصِیرًا ً'' (سورۂ نسائ، آیت ١١٥)
لئے سلامتی و عافیت ہے لیکن اگر تو نے خود کو بلا میںگرفتا رکیا تو تجھ سے جنگ کروں گا اور اس راہ میں خدا سے مدد طلب کروں گا، عثمان کے قاتلوں کے بارے تو نے بہت کچھ کہا تم بھی اسی چیز میں داخلہو جاؤ جس میں سارے مسلمان داخل ہوئے ہیںاور اس وقت مجھے کوئی واقعہ نہ سناؤ میں تمام لوگوں کو خدا کی کتاب کا پابند کروں گا (جو تو یہ کہہ رہا ہے کہ میں پہلے عثمان کے قاتلوں کو تمھارے حوالے کروں تاکہ تو میری بیعت کرے) تمہاری یہ درخواست ایسی ہی جیسے بچے کو دودھ کے لئے دھوکہ دیا جائے، میں اپنی جان کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اگر تم اپنی عقل کو کام میں لاؤ نہ کہ خواہشات نفس کو، تو مجھے عثمان کے خون کے متعلق پاکیزہ فرد پاؤ گے اور یہ بھی جان لو کہ تم اسلام کے قیدی بننے کے بعد طلقاء اور آزادہ شدہ لوگوں میں سے ہو اور ایسے لوگوں کے لئے خلافت حلال نہیں ہے اور شوریٰ کا ممبر بنے کا بھی حق نہیں ہے ،میںنے تمہارے پاس یا جو لوگ تمہاری طرح دوسرے کاموں میں مشغول ہیں۔ ان کی طرف اپنے نمائندے جریر بن عبد اللہ جو کہ مومن و متدین ہیں روانہ کیا ہے تاکہ بیعت کرو اور اپنی وفاداری کا اعلان کرو۔(١)
شام میں امام ـ کا نمائندہ
انسان کا نمائندہ اور سفیراس کی شخصیت کو اجاگر کرتا ہے اور اس کا مناسب انتخاب اس کی عقل کا مل کی حکایت کرتا ہے لہذا زمانہ قدیم کے بہت ہی عمیق مفکروں نے کہا ہے:
''حُسنُ الانتخابِ دلیلُ عقلِ المرئِ و مبلغُ رشدِہ''
یعنی اچھی چیز کا انتخاب انسان کی عقلمندی کی دلیل اور اس کے فکر کی میزان ہے۔
امام ـ نے معاویہ کی معزولی کا فرمان بھیجنے کے لئے ایک ایسے شخص کا انتخاب کیا جو سیاسی اور حکومتی مسائل میں مہارت رکھتا تھا۔ اور معاویہ کو اچھی طرح سے پہچانتا تھا اور خود ایک شعلہ ورخطیب تھا اور یہ شخص جریر بن عبد اللہ بجلی تھا (٢) اس نے امام ـ کا خط معاویہ کو ایک عمومی جگہ پر دیا اور جب وہ خط پڑھ چکا توجریر
_______________________________
(١) وقعۂ صفین ص ٣٠۔ ٢٩، الامامة و السیاسة ج١ ص ٨٥۔ ٨٤، عقد الفرید ج٤ ص ٣٢٢، تاریخ طبری ج٣ جزء ٥ ص ٢٣٥ (مطبوعہ لیدن) ۔ ابن عساکر تاریخ دمشق میں معاویہ کے حالات کی شرح کرتے وقت اور مرحوم شریف رضی نے نہج البلاغہ میں اس خط کے ابتدائی حصے کو خذف کردیا ہے۔ نہج البلاغہ، مکتوب نمبر ٦۔
(٢) اگرچہ وہ بعد میں اپنے وظیفے کی انجام دہی میں سستی اور کاہلی کی وجہ سے متہم تھا مگر اسکا جرم ثابت نہ تھا اور ہم اسکے بارے میں گفتگو کریں گے۔
، امام ـ کے ترجمان کے طور پر اپنی جگہ سے اٹھا اور ایک بہت ہی عمدہ اور دل کو لبھا دینے والا خطبہ پڑھا اور اس خطبے میں خدا کی حمد وثناء اور محمد و آل محمد پر درود کے بعد کہا:
عثمان کے کام (پیغمبر ۖ کے صحابیوں کے ذریعہ عثمان کا قتل ہونا) نے مدینہ میں حاضر رہنے والے لوگوں کو عاجز و ناتوان کردیاہے ان لوگوں کی کیا بات جو واقعہ کے وقت موجودنہ تھے اور لوگوں نے علی کے ہاتھ پر بیعت کی اور طلحہ و زبیر بھی ان لوگوں میں سے تھے جنہوں نے آپ کے ہاتھ پر بیعت کی تھی ،لیکن بعد میں بغیر کسی دلیل کے اپنی بیعت کو توڑ دیا ،اسلام کا قانون فتنوں کو برداشت نہیں کرتا عرب کے لوگ تلوار کو برداشت نہیں کرتے ابھی بصرہ میں غم انگیز واقعہ رونما ہوا ہے کہ اگر یہ دوبارہ واقع ہو جائے تو کوئی بھی باقی نہ بچے گا جان لو کہ تمام لوگوں نے علی کی بیعت کی ہے اور اگر خدا نے اس کام کی ذمہ داری ہمارے حوالے کی ہوتی تو ہم بھی ان کے علاوہ کسی کو منتخب نہ کرتے ، اور جو لوگ بھی عمومی انتخاب کی مخالفت کریں گے ان کو متنبہ کیا جائے گا، (کہ وہ بھی لوگوں کے منتخب کردہ حاکم کو قبول کریں)۔
اے معاویہ جس طریقے سے لوگ اسلام میں داخل ہوئے ہیں تو بھی اسی طرح داخل ہو جا، اور علی کو مسلمانوں کا رہبر مان لے، اگر تو یہ کہے کہ عثمان نے مجھے اس منصب و مقام پر معین کیا ہے اور ابھی تک معزول نہیں کیا ہے تو یہ ایسی بات ہے کہ اگر اسے مان لیا جائے تو خدا کے لئے کوئی دین باقی نہیں بچے گا، اور ہر شخص کے ہاتھ میں جو کچھ بھی ہے اسے مضبوطی سے پکڑ لے گا۔(١)
جب امام ـ کے نمائندے کی تقریر ختم ہوئی تو اس وقت معاویہ نے کہا، صبر کرو تاکہ میں شام
کے لوگوں سے مشورہ کروں اور پھر نتیجے کا اعلان کروں۔(٢)
_______________________________
(١) الامامة و السیاسة ج١ ص ٨٥، وقعۂ صفین ص ٣١۔ ٣٠، شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج٣ ص ٧٧۔ ٧٦۔
(٢) شرح نہج البلاغہ، ج٣، ص ٧٧۔
امام ـ کا بیعت لینے کا مقصد معاویہ کو معزول کرنا تھا
امام ـ نے اپنی حکومت کے ابتدائی دنوں سے ہی کبھی بھی کسی سے بیعت لینے کے لئے اصرار نہیں کیا۔ تو پھر معاویہ سے بیعت لینے کے لئے اتنا اصرار کیوں کیا؟ اس کی علت یہ تھی کہ آپ اس سے بیعت لے کر منصب سے معزول کرنا چاہتے تھے تاکہ مسلمانوں کے مال و حقوق کو اس سے واپس لے لیں؛ کیونکہ جن
لوگوں نے حضرت علی ـ کے ہاتھ پر مسلمانوں کے امام کے اعتبار سے بیعت کی تھی ان لوگوں نے شرط رکھی تھی کہ آپ مسلمانوں کی وضعیت کو پیغمبر کے زمانے کی طرح دوبارہ واپس لائیںگے۔ اور ان کی مصلحتوں اور اسلام کو ترقی عطا کرنے میں کوتاہی نہ کریںگے، معاویہ جیسے افراد کی موجودگی ایسے کاموں کے لئے رکاوٹ تھی، اصل میں عثمان کے خلاف انقلاب اسی لئے برپا ہوا تھا کہ پچھلے تمام حاکم اور سردار اپنے منصب سے برطرف ہو جائیں اور دنیا پرست اور مالدار لوگ مظلوموں کا حق لوٹنے سے باز آجائیں۔
معاویہ کی جانب سے شامیوںکو اس قضیہ سے آگاہ کرنا
ایک دن دربار معاویہ کے منادی نے شام کے کچھ گروہوں کو مسجد میں جمع کیا، معاویہ مبنر پر گیا اور خدا کی حمد و ثنا کی اور سر زمین شام کے صفات اس طرح بیان کئے کہ خدا نے اس سرزمین کو پیغمبروں اور خدا کے صالح بندوں کی زمین قرار دیا ہے اور اس زمین پر بسنے والوں کی ہمیشہ مدد کی ہے اس کے بعد کہا:
(اے لوگو) تمھیں معلوم ہے کہ میں امیر المومنین عمر بن خطاب اور عثمان بن عفان کا نمائندہ
ہوں، میں نے کسی کے ساتھ کوئی ایساکام نہیں کیا کہ میں اس سے شرمندہ ہو ں۔ میں عثمان کا ولی ہوں، جو مظلومیت کے ساتھ مارا گیا ہے اور خدا کہتا ہے کہ ''جو شخص مظلوم قتل ہوگا میں اس کے ولی کو طاقت وقوت عطا کروں گا، لیکن قتل کرنے میں اسراف نہ کرو؛ کیونکہ قتل ہونے والا خدا کی طرف سے مدد پاتا ہے۔(١)
پھر اس نے کہا کہ میں چاہتا ہوں عثمان کے قتل کے بارے میں تم لوگوں کا نظریہ معلوم کروں۔
اس وقت مسجد میں موجود سبھی لوگ کھڑے ہوگئے اور کہنے لگے، ہم لوگ عثمان کے خون کا بدلہ لینا چاہتے ہیں۔
پھر لوگوں نے اس کام کے لئے اس کے ہاتھ پر بیعت کی اور سب نے ایک آواز ہو کر کہا کہ ہم سب اس راہ میں اپنی جان و مال قربان کردیں گے۔(٢)
معاویہ کی گفتگو کا ایک جائزہ
١۔ معاویہ نے شام کی سرزمین کو انبیاء کی سرزمین اور شام کے لوگوں کو خدا کی شریعت و دین کا دفاع کرنے
_______________________________
(١) سورۂ اسرائ، آیت ٣٣۔
(٢) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج٣ ص ٧٨۔ ٧٧، وقعۂ صفین ص ٣٢۔ ٣١۔
والا بتایا تاکہ اس کے ذریعے وہ خود کو الہی قانون کا دفاع کرنے والا ثابت کرسکے اور لوگوں کے احساسات و جذبات سے فائدہ اٹھائے اور تمام لوگوں کو آپسی جنگ کے لئے تیار کرے۔
٢۔مقتول خلیفہ کو مظلوم بتایاکہ ان کا خون ظالموں کے گروہ نے بہایا ہے جب کہ ان کا قتل پیغمبر اسلام کے صحابہ اور تابعین کے ہاتھوں ہوا تھااور ان کی نظر میں صحابہ اور تابعین راہ حق کی پیروی کرنے والے اور عادل و انصاف پسند ہیں۔
٣۔ اگرہم فرض کریں کہ عثمان مظلوم قتل کئے گئے لیکن ان کا ولی قاتلوں کے بارے میں کوئی فیصلہ کرے اور''ولی الدم'' سے مراد مقتول کے مال کا وارث ہے ،توکیا معاویہ ان کے مال کا وارث تھا یا کسی قریبی وارث ہونے کی وجہ سے اس کی نوبت نہیں آتی؟ یہ بات صحیح ہے کہ عثمان عفان کا بیٹا اور وہ ابو العاص بن امیہ کا بیٹا اور معاویہ ابوسفیان کا بیٹا اور وہ حرب بن امیہ کا بیٹا تھا۔ اور سب کا سلسلہ امیہ تک پہونچتا ہے لیکن کیا یہ دوری رشتہ، نزدیکی رشتہ داروں کے باوجود بھی کافی تھا، کہ معاویہ نے اپنے کو عثمان کے خون کا ولی بتایا؟
امیر المومنین ـ اپنے خط میں معاویہ کو لکھتے ہیں:
''انّما انتَ رجل من بنی امیہ و بنو عثمان اولی بذالک منک''(١)
تم امیہ کی اولاد سے ہو اور عثمان کے بیٹے اپنے باپ کے خون کا بدلہ لینے کے لئے تم سے اولیٰ ہیں۔
یہ سب ایسے سوالات ہیں کہ جن کا جواب ابوسفیان کے بیٹے کے ضمیر کا پردہ فاش کردیں گے، اور یہ بات ثابت ہو جائے گی کہ عثمان کے خون کا مسئلہ نہ تھا، بلکہ حکومت پر قبضہ کر کے امام کو اس سے دور کرنا تھا کہ جس کے ہاتھوں پر مہاجرین و انصا رنے بالاتفاق بیعت کیا تھا اور سب سے زیادہ تعجب کی بات اس کا لوگوں سے مشورہ کرنا ہے، وہ جب لوگوں سے اس سلسلے میں مشورہ لے رہا تھا اسی وقت عثمان کے خون کا بدلہ لینے کے لئے اپنی قطعی رائے بھی پیش کی تھی او راس پر بہت سنجیدہ تھااس طرح کی صحنہ سازی کی روایت قدیمی ہے اور زبردستی اپنی بات منوانے کو ''مشورہ'' کانام دیاجاتا ہے ۔
تاریخ لکھتی ہے: اگرچہ معاویہ نے لوگوں کا مثبت جواب سنا،مگر اس کے دل میں خوف طاری
_______________________________
(١) وقعۂ صفین، ص ٥٨، الامامة والسیاسة، ج١، ص ٩٢۔ ٩١۔
تھا اور کچھ اشعاروہ خود بخود پڑھ رہا تھا، جس کا آخری شعر یہ ہے:
و انی لارجوا خیر ما نال نائل و ما أنا من ملک العراق بائس(١)
میں ایک بہترین چیز کا امیدوار ہوں ، کہ امید خود اس کی امید وار ہے اور میں ملک عراق سے مایوس نہیں ہوں۔
اس نے اپنے اس مقصد تک پہونچنے کے لئے اپنے لالچی ساتھیوں کو بلایا اور اسی میں سے عتبہ بن ابوسفیان نے اس سے کہا: علی کے ساتھ اگر جنگ کرنا ہے تو اس کے لئے عمرو عاص کو بھی باخبر کرو اور اس کے دین کو خرید لو، کیونکہ وہ ایسا شخص ہے کہ عثمان کی حکومت سے بھی دور رہا، اور طبیعی ہے کہ تمہاری حکومت سے تو بہت دور رہے گا، مگر یہ کہ اسے درہم و دینار دے کر راضی کرلو۔(٢)
_______________________________
(١)شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج٣ ص ٧٨۔
(٢) وقعۂ صفین ص ٣٣، شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج٣ ص ٧٩۔
|