گیارہویں فصل
کوفہ، حکومت اسلامی کا مرکز
اسلام کا سورج مکہ سے طلوع ہوا اور تیرہ سال گذر جانے کے بعد یثرب (مدینہ) میں ظاہر ہوا اوردس سال اپنی نورانی کرنوں کو بکھیرنے کے بعد غروب ہوگیا جب کہ افق کی تازگی شبہ جزیرہ کے لوگوں کے لئے کھلی اور سرزمین حجاز خصوصاً شہر مدینہ دینی اور سیاسی مرکز کے نام سے مشہور ہوگیا۔
پیغمبر اسلام ۖ کی رحلت کے بعد مہاجرین و انصار کے ذریعے خلفاء کے انتخاب نے ثابت کردیا کہ مدینہ اسلامی خلافت کا مرکز قرار پائے اور خلفاء اپنے نمائندوں اور حاکموں کو اپنے تمام اطراف و جوانب روانہ کر کے وہاں کے امور کی تدبیر کریں۔ اور ملکوں کو فتح کر کے تمام رکاوٹوں کو دور کر کے اسلام کو پھیلائیں۔
امیر المومنین ـ ،صاحب رسالت کے منصوص و معین کرنے کے علاوہ، مہاجرین و انصار کے ہاتھوں بھی منتخب ہوئے تھے آپ نے بھی خلفاء ثلاثہ کی طرح مدینہ کو اسلامی مرکز قرار دیا اور وہیں سے تمام امور و احکام کی نشر و اشاعت شروع کی ۔ آپ نے اپنی خلافت کے آغاز میں اسی طریقے کو اپنایا اور خطوط بھیجنے، اور عظیم شخصیتوں کو روانہ کر کے، اور دنیا پرستوں کو منصب سے دور کر کے، اور ولولہ انگیز اور تربیتی خطبوں کے ذریعے، اسلامی معاشرے کے تمام امور کو آگے بڑھایا اور اسلامی نظام میں ٢٥ سال یعنی ابوبکر کی خلافت کے ابتدائی دور سے عثمان کے دور تک جو خرابیاں، انحرافات وغیرہ داخل ہوگئے تھے ان کی اصلاح میں مشغول تھے کہ اچانک مسئلہ ناکثین یعنی ان لوگوں کا عہد و پیمان توڑنا جنھوںنے سب سے پہلے آپ کی بیعت کی تھی، پیش آگیا اور بہت خطرناک اور دل دہلا دینے والی خبریں امام ـ کو ملیں اور پتہ چلا کہ ناکثین نے بنی امیہ کی مالی مدد اور پیغمبر کی بیوی کے احترام کی بنا پر عراق کے جنوبی حصہ کو اپنے قبضے میں لے لیا ہے اور بصرہ پر قبضہ کر کے امام ـ کے بہت سے نمائندوں اور کارمندوں کو ناحق قتل کردیا ہے۔
یہی چیز سبب بنی کہ امام ـ ناکثین کی تنبیہ اور ان کی مدد کرنے والوں کو سزا دینے کے لئے مدینہ سے بصرہ کی طرف روانہ ہوں او راپنے سپاہیوں کے ہمراہ بصرہ کے نزدیک پڑاؤ ڈالیں ، جنگ کی آگ حقیقی سپاہیوں اور ناکثین کے باطل سپاہیوں کے درمیان پھیل گئی اور بالآخر حقیقی فوج کامیاب ہوگئی اور حملہ و فساد برپاکرنے والوں کے سردار مارے گئے اور ان میں سے کچھ لوگ بھاگ گئے اور بصرہ پھر حکومت اسلامی کی آغوش میں آ گیا اور وہاں کے تمام امور کی ذمہ داری امام ـ کے ساتھیوں کے ہاتھ میں آگئی ، شہر اور لوگوں کے حالات معمول پر آگئے اور مفسر قرآن اور امام کے ممتاز شاگرد ابن عباس بصرہ کے حاکم مقرر ہوئے۔
ظاہری حالات سے یہ بات واضح ہوتی تھی کہ امام ـ جس راستے سے آئے تھے اسی راستے سے مدینہ واپس جائیں اور پیغمبر ۖ کے روضۂ اطہر کے کنارے اور بعض گروہوں اور صحابیوں کے رائے و مشورہ سے اسلامی معارف کی نشر و اشاعت ، اور معاشرے میں بیمار افراد کی خبر گیری اور حالات دریافت کریں، اور سپاہیوں کو مختلف شہروں میں روانہ کریں، تاکہ اسلامی قدرت نفوذ کرے۔ اور خلافت کے امور کو انجام دیںاور ایک دوسرے سے ہر طرح کے اختلافات سے پرہیز کریں لیکن یہ ظاہرقضیہ تھا ہر شخص امام علیہ السلام کی ظاہری حالت سے یہی سمجھ رہا تھا خصوصاً اس زمانہ میں مدینہ کچھ زیادہ ہی تقویٰ اور قداست کے لئے معروف تھا کیونکہ اسلام کا واقعی مولد ، اور خدا کا پیغام لانے والے کا مدفن ، اور مہاجر ین و انصار میں صحابیوں کا مرکز تھا جن کے ہاتھوں میں خلیفہ کو منتخب کرنا اور معزول کرنا تھا،
١۔ان تمام حالات کے باوجود امام علیہ السلام نے کوفہ جانے کا ارادہ کیا تا کہ کچھ دن وہاں قیام کریں اور امام علیہ السلام نے جو اپنے دوستوں کے رائے مشورے سے کو فہ کا انتخاب کیا اس کی دو وجہیں تھیں : امام علیہ السلام بہت زیادہ افراد کے ساتھ مدینہ سے چلے تھے اور بعض گروہ درمیان راہ میں آپ کے لشکر میں شامل ہو گئے تھے لیکن آپ کے اکثر سپاہی اور چاہنے والے کوفہ اور اس کے اطراف کے رہنے والے تھے کیونکہ امام علیہ السلام نے نا کثین کو شکست دینے کے لئے پیغمبر کے بزرگ صحابی عمار یاسر اور اپنے عزیز فرزند امام حسن علیہ السلام کے ذریعہ اہل کو فہ سے مدد مانگی تھی اور کوفہ اس وقت عراق کا ایک اہم شہر تھا اور بہت زیادہ گروہ اس علاقے سے امام علیہ السلام کی مدد کیلئے اپنے اپنے نمائندوں کے ہمراہ حاضر ہوئے تھے (١)۔
_______________________________
(١)مسعودی لکھتا ہے کہ اما م علیہ السلام کے لشکر میں جو کوفہ کے افراد شامل ہوئے ان کی تعداد سات ہزا ر (٧٠٠٠) تھی اور ایک اور قول کی بناء پر ٦٥٦٠تھی (مروج الذہب جلد ٢ص٣٦٨) یعقوبی نے بھی ان کی تعداد ٦٠٠٠لکھی ہے (تاریخ یعقوبی ج ٢،ص١٨٢)ابن عباس کہتے ہیں . جب ہم لوگ ذی قار پہنچے تو ہم نے امام علیہ السلام سے کہا کہ کوفہ سے بہت کم لوگ آپ کی مدد کیلئے آئے ہیںامام علیہ السلام نے فرمایا ٦٥٠افراد بغیر کسی کمی زیادتی کے میری مدد کرنے آئیں گے، ابن عباس کہتے ہیں . میں نے ان کی تعداد پر تعجب کیا اور ارادہ کیا یقینااسے شمار کروں گا ،١٥،دن ذی قار میں قیام کیا یہاں تک کہ گھوڑے اور حچروں کی آوازیں آنے لگیں اور کوفہ کا لشکر پہنچ گیا ، میں نے انہیں باقاعدہ شمار کیا تو دیکھابا لکل وہی تعداد ہے جسے امام علیہ السلام نے بتایا تھا میں نے تکبیر کہی۔اللہ اکبر صدق اللہ رسولہ۔ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ،ج٢،ص١٨٧۔
اگر چہ بعض گروہ مثلاًابو موسی اشعری اور اسکے ہم فکروں نے امام کی مدد کرنے سے سے پرہیز کیا اور اپنے قول وفعل سے لوگوں کو جہادمیں جانے سے منع کیا
اور جب امام علیہ السلام ناکثین سے جنگ کرنے میں کامیاب ہوگئے اور دشمنوں کو بے بس کر دیاتو اب حق یہ تھا کہ ان لوگوں کے گھریلو حالات اور زندگی سے با خبر ہوں ، اور جنگ اور آپ کی
آواز پر لبیک کہنے والوں کا شکریہ اور جہاد میں جانے سے منع کرنے والوں کی مذمت کریں ۔
٢۔ امام علیہ السلام بخوبی اس بات سے باخبر تھے کہ عہدو پیمان توڑنے اور شورش کرنے والوں کے گناہ کاسبب معاویہ ہے کیونکہ اسی نے عہدوپیمان توڑنے کی رغبت دلائی تھی اور دھوکہ دے کر غائبانہ طور پر ان کی بیعت لی تھی یہاں تک کہ اس نے زبیر کو جوخط لکھا تھا اس میں شورش کے تمام راستوں کو مکمل بیان کیا تھا اور لکھا تھا کہ شام کے لوگوں سے ہم نے تمہاری بیعت لے لی ہے اور جتنی جلدی ہو کوفہ اور بصرہ پر قبضہ کرلو اور عثمان کے خون کا بدلہ لینے کے لئے قیام کرو اورکوشش کروکہ ابو طالب کے بیٹے کا قبضہ ان دونوں شہروں پر نہ ہونے پائے ۔
اب جب کہ اس باغی وسر کش کا تیر نشانے پر نہ لگا اور شورشیں ختم ہو گئیں تو ضروری ہوگیاکہ جتنی جلدسے جلداس فسادی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں اور بنی امیہ کے شجرہ ملعونہ کی شاخ کو اسلامی معاشرے کے پیکر سے دور کردیں ، شام سے نزدیک شہر کوفہ ہے اس کے علاوہ ، کوفہ عراق کا سب سے زیادہ لشکر خیز اور امام علیہ السلام کے فدائیوں کا مرکز تھا ،اور امام علیہ السلام دوسری جگہوں سے زیادہ ان لوگوں پر بھروسہ کرتے تھے امام ٭ نے اپنے ایک خطبے میں اس طرف اشارہ کیا ہے آپ فرماتے ہیں : واللہ ما ا تیتکم اختیارا ولکن جئت الیکم سوتا''(١)۔
یعنی خدا قسم میں اپنی خواہش سے تمہاری طرف نہیں آیا بلکہ مجبوری کی وجہ سے آیاہوں ،
یہی دو وجہیں سبب بنیں کہ اما م علیہ السلام نے کوفہ کو اپنا مرکز بنایا ، اور خلافت اسلامی کے مرکز کومدینہ سے عراق منتقل کردیا ، اسی وجہ سے آپ ١٢،رجب ٣٦ھ دوشنبہ کے دن بصرہ کے بعض بزرگوں کے ہمراہ کوفہ میں داخل ہوئے ، کوفہ کے لوگ اور ان میں سب سے آگے قرآن کے قاریوں اور شہر کی عظیم شخصیتوں نے امام علیہ السلام کااستقبال کیا اور آپ کو خوش آمدید کہا اورامام علیہ السلام کے رہنے کے لئے ''دارالا امارہ ''کا
_______________________________
(١)نہج البلاغہ خطبہ،٧٠
انتخاب کیا اور اجازت لی کہ امام علیہ السلام کو وہاں لے جائیں اور امام علیہ السلام وہاں قیام کریں ، لیکن امام نے قصر میں داخل ہونے سے منع کیا ، کیونکہ اس کے پہلے وہ ظالموں اور ستمگروں کا مرکز تھا ،آپ نے فرمایا ، قصر تباہی و بربادی کا مرکز ہے ، اور بالآخر امام علیہ السلام نے اپنی پھوپھیری بہن جعدہ بنت ھبیرہ مخزوص کے گھر کو قیام کے لئے چنا(١)۔
امام علیہ السلام نے لوگوں سے کہا کہ '' رحبہ '' نامی مقام پر جمع ہوں ، کیونکہ وہ ایک وسیع میدان تھا اور آپ بھی اپنی سواری سے وہیں پر اترے ،
سب سے پہلے آپ نے مسجد میں دورکعت نماز پڑھی اور پھر منبر پر تشریف لائے اور خدا کی حمدو ثنا کی اور پیغمبر اسلام پر درود وسلام بھیجا اور پھر اپنی تقریر اس طرح شروع کی،
''اے کوفہ کے لوگو ،اسلام میں تمہارے لئے فضیلتیں ہیں مگر شرط یہ ہے کہ ا سے تبدیل نہ کرنا ،میں نے تم لوگوں کوحق کی دعوت دی اور تم نے اس کا مثبت جواب دیا ، برائی کو شروع کیا لیکن پھر اسے بدل دیا ...تم لوگ ان کے پیشوا ہو جو تمہاری دعوتوں کو قبول کریں اور جس چیز میں تم داخل ہوئے ہو وہ بھی داخل ہوں، سب سے بدترین چیز یںجن پر عذاب سے ڈرتا ہوں وہ دو چیز یں ہیں ایک خواہشات نفس کی پیروی ، دوسرے لمبی لمبی امیدیں ، خواہشات نفس ،پیرویٔ حق سے دور کرتی ہے اور لمبی امیدیں آخرت کو بھلا دیتی ہیں . آگاہ ہو جائو کہ دنیا تیزی سے منھ موڑ چکی ہے اور آخرت سامنے آگئی ہے اور ان میں سے ہر ایک کی اولادیں ہیں تم آخرت کی اولاد بن جائو (دنیا کی اولاو نہ بنو)آج عمل کا دن ہے حساب کا نہیں کل حساب کا دن ہوگا عمل کا وقت نہ ہوگا ۔
خدا وند عالم کا لاکھ لاکھ شکر کہ اس نے اپنے ولی کی مدد کی اور دشمن کو ذلیل خوار کیا اور سچے اور
ایماندار کو عزیز اور عہدو پیمان توڑنے والوں اور اہل باطل کو ذلیل کیا ،تم لوگوں کے لئے لازم ہے کہ تقویٰ وپر ہیز گاری اختیار کرو اور اس شخض کی اطاعت کرو جس نے خاندان پیغمبر خدا کی اطاعت کی ہے ،کیونکہ یہ گروہ اطاعت کے لئے بہتر اور شا ئستہ ہیں بہ نسبت ان لوگوںکے جو خو د کو اسلام اور پیغمبر سے نسبت دیتے ہیں اور خلافت کا دعوی کرتے ہیں اور ہم سے مقابلے کے لئے قیام کرتے ہیں، اور جو فضیلتیں ہم سے ان تک پہنچی
______________________
(١)وقعئہ صفین،ص٨۔
ہیں ان سے ہم پر اپنی فضیلت ثابت کرتے ہیں اور ہماری عظمت ورفعت کا انکار کرتے ہیں وہ لوگ خود اپنی سزا کو پہو نچیں گے اور بہت ہی جلدی اپنی گمراہی کے نتیجے میں آخرت کے میدان میں کھڑے ہوں گے۔
آگا ہ رہو کہ تم میں سے بعض گروہوں نے ہماری نصرت ومدد کرنے سے انکار کیا میں ان کی سرزنش و مذمت کرتا ہوںتم لوگ ان لوگوں سے اپنا رابطہ ختم کر دو اور جس چیز کو وہ دوست نہیں رکھتے ان چیزوں کو ان کے کانوں تک پہنچادو تاکہ لوگوں کی رضایت حاصل کریں ،اور خدا کا گروہ شیطان کے گروہ سے پہچانا جاسکے ( یعنی دونوں کا فرق واضح ہوجائے (١)
_______________________________
(١)وقعة صفین،ص١٣،نہج البلاغہ عبدہ خطبہ نمبر٢٧و ٤١،مرحوم مفید کتاب ارشاد ،ص١٢٤میں اس خطبے کے ابتدائی حصے کو نقل نہیں کیا ہے ۔
حکمرانوں کا عادلانہ تعیین
امام علیہ السلام کا کوفیوں کے ساتھ نرم برتائو کرنا بعض شدت پسند انقلابیوں کو پسند نہیں آیا اسی وجہ سے امام علیہ السلام کی فوج کا سردار مالک بن حبیب یر بوعی اٹھا اور اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ میری نگاہ میں ان لوگوں کو اتنی ہی سزادینا کافی نہیں ہے، خدا کی قسم اگر آپ مجھے حکم دیں تو میں ان سب کو قتل کردوں ، امام علیہ السلام نے سبحان اللہ کہتے ہوئے اسے سخت تنبیہہ کی اور فرمایا حبیب ، تم نے حد سے زیادہ تجاوز کیا ہے . حبیب پھر اٹھا اور کہا حد سے تجاوز اور عمل میں شدت ناگوار حادثوں کو روکنے ، اور دشمنوں
کے ساتھ نرمی اور ملائمیت کرنے سے زیادہ مؤثر ہے .
امام علیہ السلام نے اپنے منطقی اور حکیمانہ ارشاد سے اس کی ہدایت کی اور کہا:
خدا نے ایسا حکم نہیں دیا ہے کہ ا نسان ، انسان کے مقابلے میں مارا جائے گا اب ظلم وتجاوز کی کی پھر کہاں جگہ ہوگی؟خدا وند عالم فرماتا ہے ۔
وَمَنْ قُتِلَ مَظْلُومًا فَقَدْ جَعَلْنَا لِوَلِیِّہِ سُلْطَانًا فَلاَیُسْرِفْ فِی الْقَتْلِ ِنَّہُ کَانَ مَنصُورًا(سورة اسراء آیة٣٣)
اور جو شخص مظلوم قتل کر دیاجائے تو ہم نے اس کے وارث کو حق قصاص دیا ہے مگر قتل میں مقررہ حدود سے تجاوز نہ کرے۔
سیاسی آزادی
جن مخالفین کوفہ نے امام علیہ السلام اور پولیس کے رئیس کے درمیان ہونے والی گفتگو اور علی علیہ السلام کی عدالت کا مشاہدہ کیا اور سیاست کے کھلے ہوئے ماحول کو دیکھا تواپنی مخالفت کی علت کو بیان کیا:
١۔ مخالفوں میں سے ایک شخص ابو بردہ بن عوف اٹھا اور امام علیہ السلام کے لشکر میں شامل نہ ہونے کی وجہ مقتولین جنگ جمل سے متعلق سوال کے ضمن میں بتائی۔ اس نے امام علیہ السلام سے پوچھا کیا آپ نے طلحہ و زبیر کے اطرافیوں کے کشتہ شدہ اجسام کو دیکھا ہے؟وہ کیوں قتل کیے گئے؟ امام علیہ السلام نے علت بیان کرتے ہوئے سائل کے اعتماد کوجذب کرتے ہوئے فرمایا. ان لوگوں نے ہماری حکو مت کے ماننے والوں اور نمائندوں کو قتل کیا عظیم شخصیت ربیعہ ء عبدی کودوسرے دیگر مسلمانوں کے ساتھ قتل کر دیا مقتولین کا جرم یہ تھا کہ ہجوم لانے والوں کو عہدوپیمان توڑنے والا کہا اور کہا کہ اس طرح وہ اپنے عہدوپیمان کو نہیں توڑیں گے اور اپنے امام کے ساتھ اس طرح مکرو فریب نہیں کریں گے، میں نے ناکثین سے کہا کہ ہمارے نمائندوں کے قاتل کو ہمارے حوالے کریں تا کہ ان سے قصاص لیں ۔ اورہمارے اور ان کے درمیان خدا کی کتاب فیصلہ کرے گی لیکن ان لوگوں نے قاتلین کو ہمارے حوالے نہیں کیا اور ہم سے جنگ کرنے کے لئے تیار ہوگئے جبکہ وہ لوگ ہمار ی بیعت کر چکے تھے اور ہمارے ہزاروں دوستوں کو قتل کر دیا تھامیں بھی ان قاتلوں کا بدلہ لینے اور ناکثین کی شورشوں کو خاموش کرنے کے لئے جنگ پر آمادہ ہوگیا اور ان کی شورشوں کو ہمیشہ کیلئے خاموش کردیا ،پھر امام علیہ السلام نے فرمایا کیا تمہیں اس سلسلے میں کو ئی شک وشبہہ ہے؟ سائل نے کہا میں آپ کی حقانیت کے بارے میں مشکوک تھا لیکن اس بیان کو سننے کے بعد ان لوگوں کی غیر مناسب روش مجھ پر آشکار ہوگئی اور میں نے سمجھ لیا کہ آپ ہدا یت یافتہ اور باریک بین ہیں۔ (١)
سیاست کا کون سا ماحول اس سے زیادہ آزادہوگا کہ جہاد کی مخالفت کرنے والے ،سردار وں اور امام علیہ السلام کے درمیان اپنی مخالفت کی علت کو، جو حاکم کی حقانیت کے بارے میں مشکوک تھا ، بصورت سوال وجواب بیان کر ے ، اور اس کا جواب طلب کرے ،؟ اس کے با وجود کہ سوال کرنے والا قبل اس کے کہ علوی ہو عثمانی تھا اور بعد میں کئی مرتبہ علی علیہ السلام کے ساتھ جنگ میں شریک رہا لیکن باطن میں معاویہ کا
_______________________________
(١)شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ،ج٣،ص١٠٤،وقعہ صفین،ص٥۔١
چاہنے والا اورجاسوس تھا لہٰذا امام علیہ السلام کی شہادت اور معاویہ کا عراق پر قبضہ ہونے کے بعد اپنی خدمتوں کے صلے میں جو اس نے معاویہ کے لئے انجام دی تھی ایک بڑی زمین '' فلوجہ ۔(١) جیسے منطقہ میں اس کے نام لکھ دی گئی۔(٢)
٢۔ سلیمان بن صرد خزاعی ، جو پیغمبر کے صحابی تھے اور ان لوگوں میں سے تھے جنھوں نے جنگ جمل میں امام علیہ السلام کی حمایت نہیں کی تھی اور مخالفت کی وجہ سے جنگ میں شریک نہیں ہوئے تھے وہ امام علیہ السلام کی خدمت میں آئے اور علی علیہ السلام نے ان کی ملامت کی اور کہا میری حقانیت کے متعلق تم نے شک کیا اور میرے لشکر میں شامل ہو نے سے انکار کردیا جب کہ میں نے تمہیں بہت اچھا اور بہتر سمجھا تھا کہ تم ہماری خوب نصرت کرو گے ، کس چیز نے تمہیں اہل بیت پیغمبر کی مدد کرنے سے روکا ہے اور ان کی نصرت ومدد کرنے سے تمہیں بے رغبت کر دیا ہے ؟
سلیمان نے احساس شرمندگی کے ساتھ عذر خواہی کی اور کہا ، تمام امور کو پشت پردہ نہ ڈالئیے (اور پچھلی باتوں کو نہ دہرائیے) اور مجھے ان کی وجہ سے شرمندہ اور مذمت نہ کیجئے ، میری محبت ومروت کو اپنی نظر میں رکھئیے میں آپ کی مخلصانہ مدد کروں گا ابھی تمام کام ختم نہیں ہوئے ہیں اور ابھی بہت سے امور باقی ہیں جن میں دوست اور دشمن کو پہچان لیںگے۔
امام علیہ السلام نے سلیمان کی توقع کے خلاف اور عذر خواہی کے مقابلے میں خاموشی اختیار کی اور کوئی جواب نہیں دیا ، سلیمان تھوڑی دیر تک بیٹھے رہے اور پھر اٹھ کر امام مجتبیٰ علیہ السلام کے پاس بیٹھ گئے اور کہا امام علیہ السلام کی تنبہیہ اور ملامت سے آپ کو تعجب نہیں ہورہا؟ امام کے دلبند نے بڑی نوازش کی اور بڑے نرم لہجہ میں فرمایا ان لوگوں کی زیادہ سرزنش کی جاتی ہے جن کی دوستی اور مدد کی امید ہو تی ہے، اس وقت اس عظیم صحابی نے دوسری شورشوں کی بھی خبر دی کہ جو امام علیہ السلام کے خلاف برپا ہوگی اور ان دنوں مخلص وپا کیزہ افرا د مثل سلیمان کی زیادہ ضرورت پڑے گی پھر کہا: ابھی وہ واقعہ باقی ہے کہ جس میں دشمن کے نیزے ہوں گے اور تلواریں میانوں سے باہر ہوجائیں گی ، اس جنگ میں مجھ جیسے افراد کی زیادہ ضرورت ہوگی ، اس
_______________________________
(١)فلوجہ: عراق کا بہترین اور وسیع ترین علاقہ ہے جو عین التمر کے نزدیک ہے اور کوفہ وبغداد کے درمیان میں واقع ہے ۔
(٢)شرح نہج البلا غہ ابن ابی الحدید ،ج٣،ص١٠٤۔
کسب رضا میں دھوکہ کا تصور نہ کریں ، امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام نے فرمایا خدا تجھ پر رحمت نازل کرے ہم ہرگز تم کو مورد الزام نہیں ٹھہرائیں گے۔(١)
سلیمان بن صرد نے اس کے بعد کبھی بھی اہلبیت پیغمبر کے دفاع سے گریز نہیں کیا انہوں نے امام علی علیہ السلام کے ہمراہ جنگ صفین میں شرکت کی اور میدان جنگ میں شام کے سب سے بڑے پہلوان '' حوشب'' کو قتل کیا ، معاویہ کے مرنے کے بعد انہوںنے امام حسین علیہ السلام کو خط لکھا اور آپ کو عراق آنے کی دعوت دی اگر چہ انہوںنے کربلا میں امام حسین علیہ السلام کی مدد کرنے میں کو تاہی کی ،لیکن اس غلطی کا ازالہ کرنے کے لئے بعنوان'' توابین'' چار ہزرا کا لشکر تیار کرکے امام حسین علیہ السلام کے قاتلوں سے بدلہ لینے کے لئے قیام کیا اور ٦٥ھ میں'' عین ابو وردہ'' علاقے میں شام کی طرف سے آنے والے عظیم لشکر سے جنگ کی اور شہید ہو ئے ۔(٢)
٣۔ محمد بن مخنف کہتے ہیں : امام علیہ السلام کے کوفہ آنے کے بعد میںاپنے بابا کے ساتھ امام علیہ السلام کی خدمت میں آیا ،وہاں پر عراق کی بہت سی شخصیتیں اور قبیلوں کے سردار موجود تھے ان سب نے ناکثین کے مقابلے میں جنگ کرنے سے مخالفت کی تھی ، امام علیہ السلام نے ان کی مذمت کی اور کہا تم لوگ اپنے قبیلے کے سردار ہو کیوں تم نے جنگ میں شرکت نہیں کی ؟ اگر تم لوگوں کی نیتوں میں کھوٹ تھاتو تم سب نقصان میں ہو اور اگر میری حقانیت اور مدد کے بارے میں مشکوک تھے تو تم سب ہمارے دشمن ہو ،ان لوگوں نے جواب دیا کہ ہم لوگ آپ کے دوستوں کے دوست اور دشمنوں کے دشمن ہیں . پھر اس وقت سب نے اپنا اپنا عذر پیش کیا مثلاً کسی نے بیماری کا بہانہ بنایا تو کسی نے مسافرت کا بہانہ بنایا ، امام علیہ السلام نے
ان کا عذر سن کر خاموشی اختیار کرلی لیکن میرے بابا کی خدما ت کو سراہا اور ہمارے قبیلے کا شکر یہ ادا کیا اور کہا مخنف بن سلبم اور اس کا قبیلہ ، اس گروہ کی طرح نہیں ہے جس کی قرآن اس طرح سے توصیف کررہا ہے:
وَِنَّ مِنْکُمْ لَمَنْ لَیُبَطِّئَنَّ فَِنْ َصَابَتْکُمْ مُصِیبَة قَالَ قَدْ َنْعَمَ اﷲُ عَلَیَّ ِذْ لَمْ َکُنْ مَعَہُمْ شَہِیدًا (٧٢) وَلَئِنْ َصَابَکُمْ فَضْل مِنَ اﷲِ لَیَقُولَنَّ کََنْ لَمْ تَکُنْ بَیْنَکُمْ وَبَیْنَہُ
_______________________________
(١)شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید معتزلی ج٣ص١٠٦۔ مراصد الا طلاع۔
(٢)مروج الذہب ج٣ص١٠٢۔١٠١۔
مَوَدَّة یَالَیْتَنِی کُنتُ مَعَہُمْ فََفُوزَ فَوْزًا عَظِیمًا۔(سورہ نساء آیت ٧٢و ٧٣)۔(١)
اور تم میں سے بعض ایسے بھی ہیں جو ( جہادسے) پیچھے ہٹیں گے پھر اگر ( اتفاقاً )تم پر کوئی مصیبت آپڑی تو کہنے لگے خدا نے ہم پر بڑافضل کیا کہ ان میں (مسلمانوں ) کے ساتھ موجود نہ ہوا اور اگر تم پر خدا نے فضل کیا (اور دشمن پر غالب آئے ) تو اس طرح اجنبی بن گئے گویا تم میں اور اس میں کبھی کی محبت ہی نہ تھی یوں کہنے لگا کاش میں بھی ان کے ساتھ ہوتا تو میں بھی بڑی کامیابی حاصل کرتا ۔
بالآخر امام علیہ السلام نے ان تمام تحقیق و تفحص اور عذر قبول کرنے یا ان کے مقابلے میں خاموشی اختیار کرنے بعد اعلان کیا کہ اس مرتبہ تم لوگ معاف کردیئے گئے اور تم لوگوں کے عذر کو قبول کر لیا لیکن آئندہ اس قسم کی حر کتیں نہ ہوں ، اگر امام علیہ السلام اتنا زیادہ ملامت وسرزنش نہیں کرتے تو ممکن تھا کہ یہ گروہ آئندہ بھی مخالفتیں کرتا ۔
_______________________________
(١) ٔوقعئہ صفین ،ص١٠ ، شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ،ج٣،ص١٠٧۔٠٦ا
کوفہ کی نماز جمعہ میں امام علیہ السلام کا پہلا خطبہ
امام علیہ السلام نے کو فہ میں داخل ہونے کے بعدنماز پڑھانا چاہی اور پوری نماز پڑھی اور جمعہ کے دن نمازجمعہ کوفہ کے لوگوں کے ہمراہ پڑھی اپنے خطبے میں کوفیوں سے مخاطب ہوئے اور خدا کی حمدو ثناء اور پیغمبر اسلام (ص)پر دروروسلام کے بعد فرمایا:میں تم لوگوں کو تقویٰ کی دعوت دیتا ہوں کیونکہ تقویٰ بہترین چیز ہے کہ جس کاخدا وند عالم نے اپنے بندوں کو حکم دیا ہے اور خدا وند عالم کی رضایت اور نیکی حاصل کرنے کا یہ بہترین وسیلہ ہے تم لوگوں کو تقوی کا حکم دیا گیا ہے اورتم لوگ خدا کی نیکی اور اس کی اطاعت کرنے کیلئے پیدا کئے گئے ہو...
اپنے تمام امور کو خدا کے لئے بغیر کسی ریا اور شہرت طلبی کے انجام دو، جو شخص بھی غیر خدا کے لئے امور انجام دے گا خداوند عالم اسے اسی کے حوالے کرے گا جس کے لئے اس نے وہ کام انجام دیا ہے، اور جو شخص خدا کے لئے کام انجام دے گا خدا خود اس کا اجر عطا کرے گا۔ خدا کے عذاب سے ڈرو کہ تم کو بیہودہ اور عبث پیدا نہیں کیا ہے خدا تمہارے تمام کاموں سے آگاہ ہے اور تمہاری زندگی کے ایام کو معین کیا ہے، دنیا کے دھوکے میں نہ آنا کیونکہ دنیا اپنے متوالوں کو دھوکہ دیتی ہے اور مغرور وہ شخص ہے جسے دنیا مغرور کردے ۔
دوسری دنیا حقیقی جگہ ہے اگر لوگ جانتے ہوتے ۔
خدا سے دعا کرتا ہوں کہ شہداء جیسا مقام اور پیغمبر اسلام کی ہمنشینی اور اچھے لوگوں کی طرح زندگی بسر کرنے کی توفیق مرحمت فرمائے۔(١)
حاکموں کو روانہ کرنا
امیر المومنین علیہ السلام نے کوفہ میں قیام کرنے کے بعد ان اسلامی سرزمینوں پرجن پر اب تک آپ کی جانب سے کوئی بھی نمائندہ یا حاکم نہیں گیا تھا، صالح و متدین شخص کو وہاں روانہ کیا ،تاریخ نے ان افراد کے نام و خصوصیات اور ان کے محل قیام کو اپنے دامن میں درج کیاہے ۔(٢)
مثلاً خلید بن قرّہ کو خراسان روانہ کیا، جب خلید نیشاپور پہونچے تو انھیں خبر ملی کہ شاہ کسریٰ کے باقی افراد جو اس زمانے میں افغانستان کے شہر کابل میں زندگی بسر کر رہے تھے وہ لوگ فعالیت کر رہے ہیں اور لوگوں کو حکومت اسلامی کے خلاف قیام کرنے کے لئے آمادہ کررہے ہیں، امام علی ـ کے نمائندے نے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ ان کو نیست و نابودکیا اور کچھ لوگوں کو اسیر کر کے کوفہ بھیج دیا۔(٣)
امام ـ نے تمام اسلامی علاقوں میں اپنے اپنے نمائندوں کو بھیجا لیکن شام میں معاویہ کی مخالفت زخم میں ہڈی کی طرح باقی رہی اور ضروری تھا کہ اس سلسلے میں جلد سے جلد کوئی تدبیر کی جاتی۔
قبل اس کے کہ امام علی علیہ السلام کی حکومت کے اس تاریخی حصے کو بیان کیا جائے کوفہ میں جو بہترین واقعہ پیش آیا اسے بیان کیا جائے، امام علی ـ نے عراق کے لوگوں سے ملاقات کے بعد ان کے کچھ گروہ کے
ساتھ روبرو ہوئے جو مدتوں سے خاندان کسری کے زیر نظر تھے، امام ـ نے ان سے پوچھا کہ خاندان کسری کے کتنے لوگوں نے تم پر حکومت کیا ہے ان لوگوں نے جواب دیا ٣٢ بادشاہوں نے ہم پر حکومت کی ہے۔ امام ـ نے ان کی حکومت کرنے کا طور و طریقہ پوچھا ان لوگوںنے جواب دیا، ان سب کی ایک ہی روش تھی لیکن ہرمز کے بیٹے کسری نے ایک خاص روش اختیار کی اس نے ملک کی ساری دولت و ثروت کو اپنے سے مخصوص کرلیا اور ہمارے بزرگوں کی مخالفت کرنے لگا۔ جو چیزیں لوگوں کی ضرورت تھیں انہیں ویران
___________________________
(١)،(٢) وقعۂ صفین ص ١٤۔ ١٥؛ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج ٣ ص ١٠٨ تاریخ طبری ج٣ جزء ٥ ص ٢٣٣۔
(٣) وقعۂ صفین، ص ١٢۔
کردیا اور جو چیز اس کے لئے فائدہ مند تھی اسے آباد کردیا ۔ لوگوں کو حقیر و پست سمجھتا تھا اور فارس کے لوگوں کو ناراض کردیا لوگوں نے اس کے خلاف قیام کیا اور اسے قتل کر ڈالا ان کی عورتیں بیوہ ہوگئیں اور بچے یتیم ہوگئے ،امام ـ نے ان کے نمائندہ''نرسا'' کی باتوں کا جواب دیتے ہوئے فرمایا:
''ان اللّہ عزَّ و جل خلقَ الخلقَ بالحقِ و لایرضی من احدٍ الا بالحقِ و فی سلطان اللّہِ تذکرة مما خوَّل اللّہُ و انہا لاتقومُ مملکة الا بتدبیرٍ و لابدَ من امارةٍ،و لایزالُ أمرُنا متماسکاً ما لم یشتم آخرُنا اولَنا، فاذا خالفَ آخرُنا اولَنا و افسدوا ہلکوا و اہلکوا''
خداوند عالم نے انسانوں کی تخلیق حق پر کی ہے اور ہر انسان کے صرف حقیقی عمل پر راضی ہے سلطنت الہی میں ذکر کے لائق ہے جو چیز خدا نے عطا کیا ہے اور مملکت بغیر تدبیر کی باقی نہیں رہ سکتی۔ اور حتماً لازم ہے کہ حکومت باقی ہو۔ اور ہمارے کام میں اس طرح اتحاد ہوگا کہ آنے والی نسل اپنے اپنے بزرگوں کو برا بھلا نہیں کہے گی، لہذا جب بھی نئی نسل نے اپنی پر انی نسلوں کو برا بھلا کہا اور نیک روش کے ذریعے لوگوں کی مخالفت کی تو وہ خود بھی نابود ہوگئے اور دوسروں کو بھی نابود کردیا۔
اس وقت امام ـ نے ان کے بزرگ ''نرسا'' کو ان لوگوں کا سرپرست و امیر معین کیا۔(١)
بعض حاکموں کو امام ـ کا خط لکھنا
امام ـ کے کوفہ میں قیام اور مختلف شہروں میں حاکم روانہ کرنے کے بعد معاویہ کی نافرمانی اور سرکشی نے امام ـکو سب سے زیادہ فکر مند کردیا، اور آپ مستقل اسی فکر میں تھے کہ جتنی جلد ممکن ہو اس کینسر کو جامعہ اسلامی کے بدن سے دور کردیں۔ اور دوسری طرف بعض حاکموں کی وضعیت اور محبت کلی طور پر واضح نہ تھی کچھ حاکموں نے اور وہاں کے لوگوں نے امام کی بیعت کا اعلان نہیں کیا تھا۔
اسی بنا پر امام ـ نے بعض حاکموں کو جو خلیفہ سوم کی طرف سے حاکم معین تھے۔ خط لکھا اور ان سے کہا کہ اپنی اپنی تکلیف کو ظاہر کریں اور اپنی اور لوگوں کی بیعت کا اعلان کریں۔(٢)
امام ـ کے خطوط میں دو اہم خط تھے، جن میں سے ایک ہمدان کے حاکم جریر بن عبد اللہ بجلی کو لکھا
تھا اور دوسرا خط آذربائیجان کے حاکم، اشعث بن قیس کندی کو لکھا، ان دونوں خط کاخلاصہ ہم یہاں تحریر کر رہے ہیں:
_______________________________
(١) وقعۂ صفین، ص ١٤۔
(٢) کامل ابن اثیر، ج٣، ص ١٤١۔
امام ـ کا حاکم ہمدان کے نام خط
خداوند عالم کسی بھی قوم کی حالت کو نہیں بدلتا مگر یہ کہ وہ لوگ خود اپنی روحی زندگی کو تبدیل کردیں میں تمہیں طلحہ و زبیر کے حالات کی خبر دیتا ہوں، جب ان لوگوں نے ہماری بیعت کو توڑ دیا اور میرے معین کردہ حاکم عثمان بن حنیف پر حملہ کیا میں مہاجر و انصار کے ہمراہ مدینے سے باہر آیا اور درمیان راہ یعنی ''عذیب'' نامی جگہ سے اپنے بیٹے حسن، عبد اللہ بن عباس، عمار یاسر او رقیس بن سعد بن عبادہ کو حکم دیا کہ وہ کوفہ جائیں اور لوگوں کو اسلامی فوج میں داخل ہونے کی دعوت دیں تاکہ عہد و پیمان توڑنے والوں کو سبق سکھائیں ، کوفہ کے لوگوں نے میری آواز پر لبیک کہا میں نے بصرہ سے کچھ فاصلے پر قیام کیا اور شورش کرنے والے سرداروں کو اپنی طرف بلایا اور انھیں مجبور سمجھ کر ان کی غلطیوں کو معاف کردیا اور پھر میں نے ان لوگوں سے دوبارہ بیعت کرنے کے لئے کہا لیکن ان لوگوں نے جنگ کے علاوہ کوئی کام نہ کیا، میں نے بھی خدا سے دعا کی اور جنگ کرنے کا ارادہ کرلیا۔ کچھ لوگ جنگ میں مارے گئے کچھ لوگ بصرہ بھاگ گئے اس وقت ان لوگوںنے ایسی چیزوں کی مجھ سے درخواست کی جس کو میں نے جنگ سے پہلے ان سے طلب کیا تھا۔ میں نے بھی ان کی سلامتی اور حفاظت کا انتظام کیا اور جنگ صلح میں تبدیل ہوگئی ، عبد اللہ بن عباس کو بصرہ کا گورنر معین کیا اور پھر میں کوفہ آگیا اور یہ خط میں تمہیں زحر بن قیس کے ہمراہ بھیج رہا ہوں۔ جو کچھ تمھیں معلوم کرنا ہو اس سے پوچھ لینا۔(١)
اس خط میں اور اسی طرح دوسرے خط میں جو اشعث بن قیس کو لکھا گیا اس میں کوشش یہی تھی کہ قریش کے دو بزرگوں اور صحابیوں (طلحہ و زبیر) کے درمیان جو مقابلہ ہوااس کی وجہ و علت واضح ہو جائے تاکہ امت مسلمہ کو یہ معلوم ہو جائے کہ ان لوگوںنے پہلے ،امام ـ کے ہاتھوں پر بیعت کی اور اپنے عہد و پیمان کو توڑ کر جامعہ کے نظام کو درہم برہم کردیااور شورش و انقلاب برپا کردیا۔
_______________________________
(١) وقعۂ صفین ص١٩۔ ٢٠، شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج٣ ص ٧١۔ ٧٠؛ الامامة و السیاسة ص ٨٢۔
جب امام ـ کا خط ہمدان کے حاکم کے پاس پہونچا تو اس نے لوگوں کو جمع کیا اور کہا:
اے لوگو! یہ امیر المومنین علی بن ابیطالب ـ کا خط ہے اور وہ دین و دنیا دونوں میں معتبر اور با اعتماد شخص ہیں۔ اور ہم دشمن پر ان کی کامیابی کے لئے خدا کا شکر ادا کرتے ہیں، اے لوگو! اسلام پر سبقت کرنے والے مہاجرین و انصار اور تابعین کے گروہ نے ان کی بیعت کی ہے اور اگر مسئلہ خلافت کو تمام مسلمانوں کے درمیان رکھتے اور سب کو خلیفہ منتخب کرنے کا حق دیتے تو وہ اس کام کے لئے سب سے شائستہ فرد تھے، اے لوگو! زندگی گزارنے کے لئے معاشرہ کے ساتھ مل کر رہنا ضروری ہے جدائی و افتراق فنا و موت ہے ، علی ( ـ) جب تک تم لو گ حق پر رہوگے تمہاری رہبری کریں گے اور اگر حق سے منحرف ہوگئے تو تمھیں پھر سیدھے راستے پر لگادیں گے۔
لوگوں نے حاکم وقت کی بات سن کر کہا:ہم نے تمام باتیں سنیں ہم ان کی اطاعت کریں گے اور ہم سب ان کی حکومت پر راضی ہیں اس وقت حاکم نے امام ـ کے پاس ایک خط لکھا جس میں اپنی اطاعت کرنے اور لوگوں کی اطاعت کے متعلق تحریر کیا۔ (یعنی سب لوگ آپ کے مطیع و فرمانبردار ہیں)۔(١)
امام ـ کاقاصدزحر بن قیس اپنی جگہ سے اٹھا اور ایک فصیح و بلیغ خطبہ دیااور کہا:
اے لوگو! مہاجر وانصارنے ان کمال کی وجہ سے جنھیں حضرت علی کے بارے میں جانتے تھے اور ان اطلاعات کی بنیاد پرجوقرآن میں ان کے بارے میں موجودہے ان کے ہاتھوں پر بیعت کی ہے، لیکن طلحہ اور زبیر نے بغیر کسی وجہ کے اپنے عہد و پیمان کو توڑا اور لوگوں کو بغاوت و شورش کی دعوت دی اور صرف اتنا ہی نہیں بلکہ لوگوں کو جنگ کرنے کے لئے آمادہ کردیا۔(٢)
ہمدان کے حاکم اور غرب کے لوگوں کی بیعت نے امام ـ کی حکومت کو اور بھی مضبوط کردیا۔ کچھ دنوں کے بعد حاکم ہمدان نے امام ـ کی حمایت و اعتماد حاصل کرنے کے لئے کوفہ کا سفر کیا۔ :
_______________________________
(١) وقعۂ صفین ص ١٦شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج٣ ص ٧١۔ ٧٢۔
(٢) وقعۂ صفین ص ١٨۔ ١٧، الامامة و السیاسة ص ٨٣۔ ٨٢۔
آذربائیجان کے گورنراشعث کے نام امام ـ کا خط
اشعث بن قیس کا رابطہ پچھلے خلیفہ کے ساتھ بھی بہت گہرا تھا اور اس کی بیٹی خلیفہ کی بہو
(عمرو بن عثمان کی بیوی) تھی۔ امام ـ نے اپنے ایک چاہنے والے ہمدانی(١)،زیاد بن مرحب(٢) کے ذریعہ خط اس کے پاس بھیجا جس کی عبارت یہ تھی:
اگر تمھیں کوئی مشکل نہ تھی تو میری بیعت کرنے میں سبقت کرتے اورلوگوں سے بھی میری بیعت لیتے اگر تقوی اختیار کرو گے تو بعض چیزیں تمھیں حق کو ظاہر کرنے کے لئے آمادہ کردیں گی، جیسا کہ تمھیں معلوم ہے کہ لوگوںنے میری بیعت کی ہے اور طلحہ و زبیر نے بیعت کرنے کے بعد عہد و پیمان کو توڑ دیا ہے اور ام المومنین کو ان کے گھر سے بلا کر اپنے ساتھ بصرہ لے گئے۔ میں بھی ان کے پاس گیا اور ان سے کہا
کہ اپنی بیعت پر واپس آجاؤ لیکن ان لوگوںنے قبول نہیں کیا میں نے بہت اصرار کیا مگر کوئی فائدہ نہ ہوا...(٣)
پھر امام ـ نے ایک تاریخی کلام اشعث کے گوش گزار کیا:
''و ان عملک لیس لک بطعمة و لکنہ امانة و فی یدیک مال من مال اللہ و انت من خُزَّان اللہ علیہ حتی تسلِّمہ الی ...''(٤)
گورنری تمہارے لئے مرغن غذا کالقمہ نہیں ہے ،بلکہ ایک امانت ہے او رتمہارے پاس جومال ہے وہ خدا کا ہے اور تم اس مال کے لئے خدا کی طرف سے خزانہ دار ہو یہاں تک کہ وہ مجھے واپس کردو، تم جان لو کہ میں تم پر برا حاکم نہیں رہوں گا جب کہ تم سچائی کو اپنا ساتھی بنائے رکھو گے۔
دونوں خط ایک وقت لکھا گیا جب کہ پہلے خط میں الفت و محبت کی چاشنی ہے لیکن دوسرے خط میں الفت و محبت کے ساتھ تندی اور تنبیہ بھی شامل ہے ان دونوں میں فرق کی وجہ دونوں حاکموں کی روحانی کیفیت ہے اشعث لوگوں سے امام ـ کی بیعت اور شناخت امام کے لئے بہت زیادہ مائل نہ تھا لہذا امام ـ کا خط ملنے کے بعد بجائے یہ کہ حاکم ہمدان کی طرح خود اٹھ کر امام ـ کے فضائل سے لوگوں کو آشنا کراتا اور لوگوں سے
_______________________________
(١)قبیلۂ ہمدان (میم پر ساکن) یمن کا ایک مشہور قبیلہ ہے اور وہاں کے لوگ سچے اور امام سے گہرا تعلق اور محبت رکھتے تھے۔
(٢) الامامة و السیاس، ص ٣، زیاد بن کعب۔
(٣) الامامة و السیاس ص ٣ وقعۂ صفین ص ٢١۔ ٢٠۔
(٤) الامامة و السیاسة ص ٨٣ وقعہ صفین، ص ٢١۔ ٢٠ جو کچھ وقعہ صفین کے مولف نصر بن مزاحم نے لکھاہے، مرحوم سید رضی نے شروع کے کچھ حصے کو حذف کردیا ہے۔ نہج البلاغہ، مکتوب نمبر٥، ابن عبد ربہ عقد الفرید، ج٣، ص ١٠٤۔ ابن قتیبہ ، الامامة والسیاسة ج١،ص ٨٣ نے جو کچھ نصر بن مزاحم نے نقل کیا ہے اسے بطور خلاصہ لکھا ہے ،رجوع کریں ، مصادر نہج البلاغہ ج٣، ص٢٠٢ شرح نہج البلاغہ ابن میثم ج٤،ص ٣٥٠
آپ کی بیعت کا خواستگار ہوتا۔ اس نے خاموشی اختیار کی، یہی وجہ ہے کہ امام ـ کا قاصد و نمائندہ زیاد بن مرحب اپنی جگہ سے اٹھا اور عثمان کے قتل کی داستان اور طلحہ و زبیر کی بیعت توڑنے کے واقعات کو لوگوں کے سامنے بیان کیا اور کہا:
اے لوگو، وہ شخص جسے مختصر کلام قانع نہ کر سکے اسے طولانی کلام بھی قانع نہیں کرے گا، عثمان کا مسئلہ ایسا نہیں ہے کہ اس کے متعلق گفتگو کر کے تمھیں قانع کیا جا سکے یقیناواقعہ کا سننا دیکھنے کی طرح کبھی نہیں ہوسکتاہے۔
اے لوگو! آگاہ ہو جاؤ کہ عثمان کے قتل کے بعد مہاجرین و انصار نے علی کے ہاتھ پر بیعت کی اور ان دو آدمیوں (طلحہ و زبیر) نے بغیر کسی وجہ کے اپنی بیعت سے انکار کردیا اور بالآخر خدا نے علی کو زمین کا وارث بنا دیااور نیک اور اچھی عاقبت متقیوں کے لئے ہے۔(١)
اس موقع پر اشعث کے پاس کوئی دوسرا راستہ نہ تھا لہذا مجبوراً اس حاکم کی اطاعت کرنے کی بنا پر جنھیں مہاجر و انصار نے منتخب کیاتھا۔ مختصر طور پر ان کے بارے میں کچھ بیان کرے، لہذا وہ اٹھا اور کہنے لگا:
اے لوگو! عثمان نے اس علاقے (آذربائیجان) کی حاکمیت مجھے دی تھی وہ قتل ہوگئے حکومت میرے ہاتھ میں تھی اور لوگوں نے علی کی بیعت کی ان کی اطاعت ہمارے لئے ایسی ہی ہے جس طرح سے ہماری اطاعت پچھلے والوں کے ساتھ تھی، تم نے طلحہ و زبیر سے متعلق ماجراسنااور جو کچھ ہم سے پوشیدہ ہے ان امور میں علی مورد اعتماد ہیں۔(٢)
حاکم نے اپنی بات ختم کی اور اپنے گھر چلا گیا اور اپنے دوستوں ، چاہنے والوں کو بلایا اور کہا:
علی کے خط نے مجھے وحشت میں ڈال دیاہے وہ آذربائجان کی دولت و ثروت کو ہم سے لے لیں گے، لہذا ہمارے لئے بہتر ہے کہ ہم معاویہ سے ملحق ہو جائیں، مگر حاکم کے مشاوروں نے اس
کی مذمت کی، اور کہا: تمہارے لئے موت اس کام سے بہتر ہے کیا تم اپنے قبیلہ اوردیار کو چھوڑ دو گے اور شامیوں کی طرف جاؤ گے؟ اس نے مشاوروں کی بات کو تسلیم کرلیا، اور اپنے روابط کو مستحکم کرنے کے لئے کوفہ روانہ ہوگیا۔(٣)
_______________________________
(١) وقعۂ صفین، ص ٢١، الامامة و السیاسة، ج١، ص ٨٣۔ (١) الامامة و السیاسة، ج١، ص ٨٤۔ ٨٣، وقعۂ صفین، ص ٢١۔
(٢) الامامة و السیاسة، ج١، ص ٨٢۔
|