فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)
 

دسویں فصل
حضرت علی ـ کے سپاہیوں کی بہادری
کائنات کے تمام حاکموں میں کوئی بھی حاکم علی جیسا نہیں جو دشمن کو اتنی زیادہ مہلت دے اور عظیم شخصیتوں اور قرآن کو فیصلہ کے لئے بھیجے اور جنگ شروع کرنے میں صبر و تحمل سے کام لے ، یہاں تک کہ دوستوں اور مخلصوں کی طرف سے شکوہ اور اعتراض ہونے لگے، یہی وجہ ہے کہ امام ـ مجبور ہوئے کہ اپنی فوج کو منظم کرکے اپنے سرداروں کو درج ذیل مقامات پر معین کریں:
ابن عباس کواگلے دستے کا سردار اور عمار یاسر کو تمام سواروں کا سردار او رمحمد بن ابی بکر کو پیدل حملہ کرنے والوں کا سردار معین کیا اواس کے بعد مذحج، ہمدان ، کندہ ، قضاعہ، خزاعہ، ازد، بکر، اور عبد القیس کے قبیلے کے سواروں اور پیدل چلنے والوں کے لئے علمبردار معین کیااس دن جتنے افراد چاہے پیدل چاہے سوار، امام ـ کے ہمراہ جنگ کرنے کے لئے آمادہ تھے ان کی تعداد کل سولہ ہزار (١٦٠٠٠) تھی۔(١)
______________________
(١) الجمل ص ١٧٢۔

ناکثین کی طرف سے جنگ کا آغاز:
ابھی امام ـ اپنی فوج کو منظم اور جنگ کے اسرار و رموز سمجھانے میں مشغول تھے کہ اچانک دشمن کی طرف سے امام کے لشکر پر تیروں کی بارش ہونے لگی جس کی وجہ سے امام کی فوج کے کئی افراد شہید ہوگئے ۔ انہی میں سے ایک تیر عبداللہ بن بدیل کے بیٹے کو لگا اور اسے شہید کردیا۔
عبد اللہ اپنے بیٹے کی لاش لے کر امام کے پاس آئے اور کہا: کیا اب بھی ہم صبر و حوصلے سے کام لیں تاکہ دشمن ہمیں ایک ایک کر کے قتل کر ڈالیں؟ خدا کی قسم اگر مقصداتمام حجت ہے تو آپ نے ان پر اپنی حجت تمام کردی ہے۔
عبد اللہ کی گفتگو سن کر امام ـ جنگ کے لئے آمادہ ہوئے ، آپ نے رسول اسلام کی زرہ پہنی اور رسول اکرم کی سواری پر سوار ہوئے اور اپنی فوج کے درمیان کھڑے ہوئے۔
قیس بن سعد بن عبادہ(١) جو امام ـ کا بہت مخلص(گہرا) دوست تھا حضرت کی شان اور جو پرچم اٹھائے ہوئے تھا اس کے لئے اشعار پڑھا جس کا دو شعر یہ ہے:
ہذا اللواء الذی کنا نحف بہ
مع النبی و جبرئیل لنا مدداً
ما ضرمن کانت الانصار عیبتہ
أن لا یکون لہ من غیرہا أحداً
''یہ پرچم جس کو ہم نے احاطہ کیا ہے یہ وہی پرچم ہے جس کے سایہ میں پیغمبر کے زمانے میں جمع ہوئے تھے اوراس دن جبرئیل نے ہماری مدد کی تھی وہ شخص کہ جس کے انصار راز دار ہوں کوئی نقصان نہیں ہے کہ اس کے لئے دوسرے یاور و مددگار نہ ہوں''۔
امام ـ کی منظم فوج نے ناکثین کی آنکھوں کو خیرہ کردیااو رعائشہ جس اونٹ پر سوار تھیں اسے میدان جنگ میں لائے اور اس کی مہار کو بصرہ کے قاضی کعب بن سور کے ہاتھوں میں سونپ دی اس نے قرآن اپنی گردن میں لٹکایا اور قبیلہ ازد اور ضبہ کے افراد نے ا ونٹ کو چاروں طرف سے اپنے احاطہ میں لے لیا عبد اللہ بن زبیر عائشہ کے سامنے اور مروان بن حکم اونٹ کے بائیں طرف کھڑے ہوئے فوج کی ذمہ داری زبیر کے ہاتھوں میں تھی اور طلحہ تمام سواروں کا سردار اور محمد بن طلحہ پیدل چلنے والوں کا سردار تھا۔
امام ـ نے جنگ جمل میں محمد بن حنفیہ کو علم لشکر دے کر آداب حرب کی تعلیم دی اور فرمایا:
'' تزول الجبال و لاتزل، عض علی ناجذ ک ، اعر اللہ جمجمتک ، تد فی الارض قدمک، ارم ببصرک أقصی القوم و غض بصرک و اعلم ان النصر من عند اللہ سبحانہ''۔(٢)
پہاڑ اپنی جگہ سے ہٹ جائیں مگر تم اپنی جگہ سے نہ ہٹنا دانتوں کو بھینچ لینا، اپنا کاسٔہ سر خدا کو عاریةً دیدینا، اپنے قدم زمین میں گاڑ دینا، دشمن کی آخری صف پر نظر رکھنا (دشمن کی ہیبت و کثرت سے) آنکھیں بند رکھنا اور اس بات کا یقین رکھو کہ خدا کی طرف سے مدد ہوتی ہے۔
______________________
(١) شیخ مفید اپنی کتا ب جمل میں تحریر کرتے ہیں کہ قیس بن سعد واردہوا اور شاید اس سے مراد قیس بن سعد بن عبادہ ہے۔
(٢) نہج البلاغہ، خطبہ ١١۔
امام ـ کے دہن اقدس سے نکلا ہوا ہر جملہ بہترین شعار ہے جو تازگی عطا کرتا ہے یہاں پر اس کی شرح کرنا ممکن نہیں ہے۔
جب لوگوں نے محمد بن حنفیہ سے کہا کہ کیوںامام ـ نے انھیں میدان جنگ میں بھیجا اور حسن و حسین کو اس کام سے روکے رکھا۔ تو انھوںنے جواب دیا، میں اپنے بابا کا ہاتھ ہوں اور وہ ان کی آنکھیں ہیں وہ اپنے ہاتھ سے اپنی آنکھوں کی حفاظت کررہے ہیں۔(١)
ابن ابی الحدید نے اس واقعہ کو مدائنی او رواقدی جیسے مؤرخین سے اس طرح نقل کیا ہے:
''امام اس گروہ کے ساتھ جسے ''کتیبة الخضرائ'' کہتے ہیں ا ور جس کے افراد مہاجرین و انصار سے تھے اور حسن و حسین اس کے اطراف کا احاطہ کئے ہوئے تھے ، ارادہ کیا کہ دشمن پر حملہ کریں۔ علم لشکر محمد بن حنفیہ کے ہاتھوں میں دیا اور آگے بڑھنے کا حکم دیتے ہوئے فرمایا: اتنا آگے بڑھو کہ پرچم کو اونٹ کی آنکھ میں گاڑھ دو امام کے بیٹے نے آگے بڑھنا شروع کیا لیکن تیروں کی بارش نے انھیں آگے بڑھنے سے روک دیا وہ تھوڑی دیر تک ٹھہرے رہے یہاں تک کہ تیروں کی بارشکم ہوجائے ،امام ـ نے اپنے بیٹے کو دوبارہ حملہ کرنے کا حکم دیا لیکن جب آپ نے احساس کیا کہ وہ تاخیر کر رہے ہیں تو ان کے حال پر افسوس کیا اور علم لشکر ان سے لے لیا اور اپنے داہنے ہاتھ میں تلوار اور بائیں ہاتھ میں علم لیا اور خود حملہ کرنا شروع کردیااور قلب لشکر میں داخل ہوگئے۔
چونکہ آپ کی تلوار لڑتے لڑتے کج ہوگئی تھی لہذا اسے سیدھی کرنے کے لئے اپنی فوج میں واپس آگئے، آپ کے ساتھیوں مثلاً عمار یاسر، مالک اشتر اور حسن و حسین نے آپ سے کہا ہم لوگ حملہ کریں گے اور آپ یہیں پر رک جائیں امام نے نہ ان لوگوں کا جواب دیا اور نہ ہی ان کی طرف دیکھا بلکہ شیر کی طرح ڈکاررہے تھے اور آپ کی پوری توجہ دشمن کی طرف تھی کسی کو بھی اپنے پاس نہیں دیکھ رہے تھے پھر آپ نے اپنے بیٹے کو دوبارہ علم دیا اور پھر دوسری مرتبہ حملہ کیا اور قلب لشکر میں داخل ہوگئے اور جو بھی آپ کے سامنے آتا اسے بچھاڑ دیتے دشمن انھیں دیکھ کر بھاگ جاتے اور ادھر ادھر پناہ لیتے تھے۔ اس حملہ میں امام ـ نے اتنے لوگوں کو قتل کیا کہ زمین دشمنوں کے خون سے رنگین ہوگئی، پھر اپنی فوج کی طرف واپس آگئے اور
______________________
(١) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج١ ص٢٤٤
آپ کی تلوار پھر ٹیڑھی ہوگئی آپ نے اسے اپنے زانو پر رکھ کر سیدھا کیا، اس وقت آپ کے ساتھیوں نے آپ کو حلقے میں لے لیا اور خدا کی قسم دے کر کہا کہ اب آپ خود حملہ نہ کیجئے کیونکہ آپ کی شہادت کی وجہ سے اسلام ختم ہو جائے گا نیز مزید کہا: اے علی ! ہم آپ کے لئے ہیں ۔
امام ـ نے فرمایا: میں خدا کے لئے جنگ کر رہا ہوں او راس کی رضا کا طالب ہوں ۔ پھر اپنے بیٹے محمد بن حنفیہ سے فرمایا دیکھو اس طرح سے حملہ کیا جاتا ہے ،محمد نے کہا: اے امیر المومنین آ پ کی طرح سے کون حملہ کرسکتا ہے۔
اس وقت امام نے مالک اشتر کو حکم دیا کہ دشمن کے لشکر کے بائیں طرف حملہ کرو جس کا سردار ہلال تھا، ا س حملے میں ہلال مارا گیا اور بصرہ کا قاضی کعب بن سور جس کے ہاتھ میں اونٹ کی مہار تھی اور عمر بن یثربی ضبی جو لشکر جمل کا سب سے بہادر سپاہی تھا اور بہت دنوں تک عثمان کی طرف سے بصرہ کا قاضی تھا مارے گئے ۔ بصرہ کے لشکر والوں کی کوشش یہ تھی کہ عائشہ کا اونٹ کھڑا(صحیح و سالم)رہے کیونکہ وہی ثبات و استقامت کا نشان تھا ،اس وجہ سے امام کے لشکر نے پہاڑ کی طرح جمل پر حملہ کیا اور دشمنوں نے بھی پہاڑ کی طرح حملہ کا دفاع کیا ،اس کی حفاظت کے لئے ناکثین کے ستر لوگوں نے اپنے ہاتھ کٹوا دیئے۔(١)
اس وقت سر گردنوں سے کٹ کر گر رہے تھے ،ہاتھ جوڑوں سے کٹ رہے تھے ،دل اور انتٹریاں پیٹ سے باہر نکل رہی تھیں، ان سب کے باوجود تمام ناکثین ٹڈیوں کی طرح جمل کے اطراف میں ثابت قدم تھے اس وقت امام ـ نے فریاد بلندکی:
''ویلکم اعقروا الجمل فانہ شیطان ، اعقروہ و الا فنیت العرب لایزال السیف قائماً و راکعاً حتی یہوی ہذا البعیر الی الارض''
وائے ہو تم پر، عائشہ کے اونٹ کو قتل کردو وہ شیطان ہے اس کو قتل کرو عرب ختم ہو جائیں گے اور تلواریں مسلسل اس وقت تک چلتی رہیں گی جب تک یہ اونٹ کھڑا رہے گا۔(٢)
______________________
(١) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید، ج١، ص ٢٦٥۔
(٢) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید، ج١، ص ٢٦٧۔ ٢٥٧۔
امام ـ کا اپنی فوج کی حوصلہ افزائی کرنے کا طریقہ
امام ـ اپنے لشکرکی حوصلہ افزائی کرنے کے لئے یہ نعرہ لگاتے تھے ''یا مَنصُورُ اَمِت'' یا کبھی ''حم لاینصرون'' کہتے تھے اور یہ دونوں نعرہ حضرت رسول اکرم نے لگایا تھا اور مشرکوں سے جنگ کے وقت لگایا جاتا تھا ،ان نعروں کی گونج نے دشمن کی فوج میں عجیب لرزہ طاری کردیاکیونکہ ان لوگوں کو مسلمانوں کا مشرکوں سے جنگ کرنا یاد آگیا یہی وجہ ہے کہ عائشہ نے بھی اپنی فوج کی حوصلہ افزائی کرنے کے لئے نعرہ لگایا ''یا بنی الکرة الکرة، اصبروا فانی ضامنة لکم الجنة'' یعنی اے میرے بیٹو برد بار رہو اور حملہ کرو میں تمہاری بہشت کی ضامن ہوں۔
اس نعرے کی وجہ سے لشکر والے ان کے ارد گرد جمع ہوگئے اور اتنا آگے بڑھے کہ امام کا لشکر چند قدم کے فاصلے پر تھا۔
عائشہ نے اپنے چاہنے والوںکے جذبات ابھارنے کے لئے ایک مٹھی مٹی مانگی اور جب انھیں مٹی دی گئی تو انہوں نے امام کے چاہنے والوں کی طرف پھینکا اور کہا: ''شاہت الوجوہ'' یعنی تم لوگوںکا چہرہ کالا ہو جائے ۔انہوں پیغمبر کی تقلید کی کیونکہ حضرت نے بھی جنگ بدر میں ایک مٹھی خاک اٹھائی تھی اور دشمنوں کی طرف پھینکی تھی اور یہی جملہ فرمایا تھا اور خدا نے ان کے بارے میں یہ آیت نازل کی: ''و ما رمیت اذ رمیت و لکن اللہ رمیٰ''(١) عائشہ کا یہ عمل دیکھنے کے بعد فوراً ہی امام ـ نے فرمایا: ''و ما رمیت اذ رمیت و لکن الشیطان رمی'' یعنی اگر پیغمبر کے لئے خدا کا ہاتھ پیغمبر کی آستین سے باہر ہوا تو عائشہ کے لئے شیطان کا ہاتھ اس کی آستین سے ظاہر ہواہے۔

اونٹ کا گرنا
عائشہ کا اونٹ ایک بے منھ جانور تھا اور اسے برے مقصد تک پہونچنے کے لئے استعمال کیا گیا تھا اس پر کجاوہ لگا کر بڑے احترام سے عائشہ کو بٹھایا گیا تھا بصرہ کے سپاہی اس کی بڑی شدت سے حفاظت کر رہے تھے اور بہت زیادہ لوگ محافظ تھے جب بھی کوئی ہاتھ کٹتا تو دوسرے ہاتھ میںاونٹ کی مہار چلی جاتی بالآخر اونٹ کی مہار پکڑنے کے لئے کوئی آگے نہ بڑھا، زبیر کے بیٹے نے سبقت دکھائی اور اونٹ کی مہار پکڑ لی لیکن مالک اشتر نے اس پر حملہ کردیااور اسے زمین پر پٹک دیااور اس کی گردن کو پکڑا جب زبیر کے بیٹے کو یہ احساس ہوا کہ وہ مالک اشتر کے ہاتھوں قتل ہو جائے گا تو اس نے فریاد بلند کی اے لوگو! حملہ کرو اور مالک کو قتل کردو اگر چہ میں بھی قتلہوجائوں ۔(١)
مالک اشتر نے اس کے چہرے پر ایک وار کر کے اسے چھوڑ دیا لوگ عائشہ کے اونٹ کے پاس سے دور ہوگئے امام ـ نے اس کے پاؤں کاٹنے کا حکم دیا تاکہ دشمن عائشہ کا اونٹ دیکھ کر دوبارہ اس کی طرف واپس نہ آئیں۔ پیر کٹتے ہی اونٹ زمین پر گر پڑا اور کجاوہ بھی گر گیا اس وقت عائشہ کی ایسی فریاد بلند ہوئی کہ دونوں لشکر کے سپاہیوں نے سنا، امام ـ کے حکم سے محمد بن ابوبکر بہن کے کجاوے کے پاس پہونچے اور اس کی رسیوں کو کھولا۔
اس جنگ میں جو گفتگو بہن اور بھائی کے درمیان ہوئی ہم اسے مختصراً نقل کر رہے ہیں:
عائشہ: تم کون ہو؟
محمد بن ابوبکر: تیرے گھر کا ایک شخص جو تیرا سب سے بڑا دشمن ہے۔
عائشہ: تو اسماء خثعمیہ کا بیٹا ہے؟
محمد بن ابوبکر: ہاں، لیکن وہ تیری ماں سے کم نہ تھی۔
عائشہ: یہ بات صحیح ہے کہ وہ شریف عورت تھی اس سے کیا بحث ، خدا کا شکرکہ تم سالم ہو۔
محمد بن ابوبکر:لیکن تم مجھے سالم دیکھنا نہیں چاہتی تھی۔
عائشہ: اگر تجھے سالم دیکھنا نہ چاہتی تو ایسی گفتگو نہ کرتی۔
محمد بن ابوبکر:تو اپنی کامیابی چاہتی تھی اگرچہ میں قتل بھی کردیا جاتا۔
عائشہ: میں جس چیز کو چاہتی تھی وہ میرے نصیب میں نہیں میری آرزو تھی کہ تو صحیح و سالم بچ جائے یہ سب باتیں چھوڑو اور لعنت و ملامت نہ کرو ، جس طرح سے کہ تمہارا باپ ایسانہ تھا۔
علی عائشہ کے کجاوے کے پاس پہونچے اور اپنے نیزے سے اس پر مارا اور کہا: اے عائشہ ، کیا رسول اسلام نے تمہیں اس کام کو انجام دینے کا حکم دیا تھا؟
اس نے امام ـ کے جواب میں کہا: اے ابو الحسن اب جب کہ تم کامیاب ہوگئے ہو تو مجھے معاف کردو۔
______________________
(١) اس نے یہ کہا: اقتلونی و مالکاً، و اقتلوا مالکاً معی۔
تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ عمار یاسر اور مالک اشتر بھی وہاں پہونچ گئے اوران لوگوں کے درمیان درج ذیل گفتگو ہوئی۔
عمار: اماں! آج اپنے بیٹوں کودیکھا کہ راہ راست پر دین کی راہ میں کس طرح تلواریں چلارہے تھے؟ عائشہ نے ان سنی کردیا اور کوئی جواب نہ دیا کیونکہ عمار پیغمبر اسلام کے جلیل القدر صحابی اور قوم کے بزرگ تھے۔
مالک اشتر: خدا کا شکر کہ اس نے اپنے امام کی مدد کی اور اس کے دشمنوں کو ذلیل و خوار کیا، حق آیا اور باطل مٹ گیا کیونکہ باطل تو مٹنے ہی والا ہے، اے مادر! آپ نے اپنے کام کو کیسا پایا؟
عائشہ: تم کون ہو تمہاری ماں تمہارے غم میں بیٹھے؟!
مالک اشتر: میں آپ کا بیٹا مالک اشتر ہوں۔
عائشہ: تم جھوٹ بول رہے ہو میں تمہاری ماں نہیں ہوں۔
مالک اشتر: آپ میری ماں ہیں اگرچہ آپ قبول نہ کریں۔
عائشہ: تم وہی ہو جو میری بہن اسماء کو ان کے بیٹے (عبد اللہ بن زبیر) کے غم میں بٹھا نا چاہتا تھا؟۔
مالک اشتر: یہ کام میں اس لئے انجام دیتا تاکہ خدا کے سامنے عذر پیش کرسکتا ( یہ خدا کے حکم کی بجآوری کے لئے تھا) ۔
پھر عائشہ (جب کہ سوارہو رہی تھیں) نے کہا: تم نے افتخار حاصل کرلیا اور کامیاب ہوگئے خدا کا کام قابل نتیجہ ہوتا ہے۔
امام ـ نے محمد بن ابوبکر سے فرمایا: کہ اپنی بہن سے پوچھوکوئی تیر تو نہیں لگا؟ کیونکہ عائشہ کا کجاوہ تیر لگنے سے ساہی کے کانٹے کی طرح ہوگیا ہے۔
اس نے اپنے بھائی کے جواب میں کہا صرف ایک تیر میرے سر پر لگا ہے محمد نے اپنی بہن سے کہا خداوند عالم قیامت کے دن تمہارے خلاف فیصلہ کرے گا، کیوں کہ تم نے امام کے خلاف قیام کیا اور لوگوں کو ان کے خلاف اکسایا اور خدا کی کتاب کو نظر انداز کیا ہے عائشہ نے کہا: مجھے چھوڑ دو اور علی سے کہو مجھے مشکلات و پریشانیوں سے بچائیں (میری حفاظت کریں)
محمد بن ابوبکر نے امام ـ کو اپنی بہن کی سلامتی و خیریت سے آگاہ کیا ۔ امام ـ نے فرمایا: وہ ایک عورت ہیں اورعورتیں منطقی نقطۂ نظر سے طاقتور نہیں ہوتیں تم اس کی حفاظت کی ذمہ داری لو اور اسے عبد اللہ بن خلف کے گھر پہونچا دو تاکہ اس کے بارے میں کوئی تدبیر کریں۔
عائشہ پر امام ـ اور ان کے بھائی کا رحم و کرم ہوا مگر عائشہ مسلسل امام ـ کو برا بھلا کہتی رہیں۔ اور جنگ جمل میں قتل ہونے والوں کی بخشش و مغفرت کی دعا میں مشغول رہیں۔(١)
______________________
(١) الجمل، ص ١٩٨۔ ١٦٦؛ تاریخ طبری، ج٣، ص ٥٣٩۔

طلحہ و زبیر کا انجام
مؤرخین کا کہنا ہے کہ طلحہ کا قتل مروان کے ہاتھوں ہوا کیونکہ جب طلحہ نے اپنے سپاہیوں کو شکست کھاتے ہوئے دیکھا اور اپنی موت کو آنکھوں سے دیکھ لیاتو راہ فرار اختیار کیا اس وقت مروان کی نگاہ اس پر پڑی ا ور اس کے ذہن میں یہ بات آئی کہ عثمان کے قتل کرنے میں سب اہم رول اسی کا تھا لہذا اسے تیر مار کر زخمی کردیا طلحہ کو یہ احساس ہوا کہ یہ تیر خود اس کی فوج نے پھینکا ہے لہذا اس نے اپنے غلام سے کہا کہ اسے جلدی سے یہاں سے دوسری جگہ پر پہونچا دے ، بالآخر طلحہ کے غلام نے اسے ''بنی سعد'' کے کھنڈر میں پہونچا دیا۔ طلحہ کے بدن سے خون بہہ رہا تھا اس نے کہا: کسی بھی بزرگ کا خون ہماری طرح آلودہ نہیں ہوا ابھی اتنا ہی کہا تھا کہ روح اس کے بدن سے نکل گئی۔

زبیر کا قتل
جنگ جمل کا دوسرے فتنہ پرورزبیرنے جب شکست کا احساس کیا تو مدینہ کی طرف بھاگنے کا ارادہ کیا وہ بھی قبیلہ ''احنف بن قیس'' کے راستے سے اس قبیلہ نے امام ـ کے حق جنگ میں شرکت کرنے سے پرہیز کیا تھا، قبیلہ کا سردار زبیر کی اس نامردی پر بہت غضبناک ہوا، کیونکہ اس نے انسانی اصولوں کے خلاف لوگوں کو اپنے مفاد کے لئے قربان کردیا تھا اور اب چاہتا تھا کہ میدان سے بھاگ جائے۔
احنف کے ساتھیوں میں سے عمرو بن جرموز نے ارادہ کیا کہ جتنے لوگوں کا خون بہا ہے اس کا بدلہ زبیر سے لے، لہٰذا اس کا پیچھا کیا اور جب وہ راستے میں نماز پڑھنے کے لئے کھڑا ہوا تو پیچھے سے حملہ کیا اور
اسے قتل کر ڈالا اس کا گھوڑا ، انگوٹھی اور اس کی تلوار ضبط کرلیااور جو نوجوان اس کے ساتھ تھا اسے اس کے حال پر چھوڑ دیا، اس جوان نے زبیر کو ''وادی السباع'' میں سپرد خاک کیا۔(١)
عمرو بن جرموز احنف کے پاس واپس آیا اور اس نے زبیر کے حالات سے آگاہ کیا اس نے کہا: مجھے نہیں معلوم کہ تم نے نیک کام انجام دیا یا برا، پھر دونوں امام ـ کی خدمت میں آئے جب امام ـ کی نظر زبیر کی تلوار پر پڑی تو آپ نے فرمایا: ''طالماً جلی الکرب عن وجہ رسول اللہ'' یعنی، اس تلوار نے کئی مرتبہ پیغمبر کے چہرے سے غم کے غبار کو ہٹایا تھا۔ پھر اس تلوار کو عائشہ کے پاس بھیج دیا۔(٢)
جب حضرت کی نظر زبیر کے چہرے پر پڑی تو آپ نے فرمایا: ''لقد کنت برسول اللہ صحبة و منہ قرابةً و لکن دخل الشیطان منخرک فأوردک ہذا المورد''(٣)
یعنی تو مدتوں پیغمبرکے ہمراہ تھا اور ان کا رشتہ دار بھی تھا لیکن شیطان نے تیری عقل پر غلبہ پیدا کر لیا اورتجھے اس انجام تک پہونچا دیا۔

جنگ جمل میں قتل ہونے والوں کی تعداد
تاریخ نے جنگ جمل میں قتل ہونے والوں کی تعداد کو معین نہیں کیا اور اس سلسلے میں کافی اختلاف پایا جاتا ہے شیخ مفید لکھتے ہیں کہ بعض مؤرخین نے جنگ جمل میں مارے جانے والوں کی تعداد ٢٥ ہزار لکھا ہے جب کہ عبداللہ بن زبیر (اس معرکہ کا فتنہ پرور انسان) نے قتل ہونے والوں کی تعداد ١٥ ہزار لکھا ہے اور شیخ مفید نے دوسرے والے قول کو ترجیح دیا ہے اور لکھتے ہیں کہ مشہور یہ ہے کہ مارے جانے والوں کی کل تعداد ١٤ ہزار تھی۔(٤)
طبری نے اپنی کتاب میں مارے جانے والوں کی تعداد ١٠ ہزار نقل کی ہے جس کی نصف تعداد عائشہ کے لشکر اور نصف تعداد امام ـ کے لشکر کی ہے ۔ پھر دوسرا نظریہ نقل کرتا ہے جس کا نتیجہ جو کچھ ہم
______________________
(١) الجمل، ص ٢٠٤؛ تاریخ ابن اثیر، ج٣، ص ٢٤٤۔ ٢٤٣۔
(٢) تاریخ طبری، ج٣، ص ٥٤٠؛ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید، ج١، ص ٢٣٥۔
(٣) الجمل، ص ٢٠٩۔
(٤) الجمل، ص ٢٢٣۔
نے زبیر سے نقل کیا ہے دونوں ایک ہی ہے۔ (١)

جنگ جمل میں قتل ہونے والوں کی تدفین
جنگ جمل کا واقعہ ١٠ جمادی الثانی ٣٦ ھ کو جمعرات کے دن رونما ہوا اور ابھی سورج غروب نہیں ہوا تھا(٢) کہ عائشہ کے اونٹ گرنے اور کجاوہ کے ٹیڑھے ہونے سے جنگ ختم ہوگئی اور ایک بھی معقول ہدف نہ ہونے کی وجہ سے غالباً ناکثین نے راہ فرار اختیار کرلی، مروان بن حکم نے قبیلۂ ''عنزہ'' کے گھر میں پناہ لی۔
اور نہج البلاغہ میں حضرت علی کے کلام سے استفادہ ہوتا ہے کہ حسنین نے امام ـ سے اس کی حفاظت کی درخواست کی، لیکن سب سے عمدہ بات یہ کہ جب حسنین نے آپ سے عرض کیا کہ مروان آپ کی بیعت کرلے گا تو امام ـ نے فرمایا:
''أولم یبایعنی بعد قتل عثمان؟ لا حاجة لی فی بیعتہ انہا کف یہودیة لو بایعنی بکفہ لغدر بسبتہ۔ اما ان لہ امرة کلعقة الکلب أنفہ، و ہو ابو الاکبش الاربعة و ستلقی الامة منہ و من ولدہ یوماً أحمر''۔(٣)
کیاعثمان کے قتل کے بعد اس نے میری بیعت نہیں کی تھی اب مجھے اس کی بیعت کی ضرورت نہیںہے یہ ہاتھ تو یہودی والا (یعنی مکار ہاتھ ہے، اس لئے کہ یہودی اپنی مکر و حیلہ میں ضرب المثل ہیں۔مترجم) ہاتھ ہے اگر یہ ہاتھ سے میری بیعت کرلے گا توذلت کے ساتھ اسے توڑ بھی دے گا یاد رکھو اسے ایسی حکومت ملے گی جس میں کتّا اپنی ناک چاٹتا ہے اور اس کے چار بیٹے بھی بس اتنی ہی دیر کے لئے حکمران ہوں گے اور وہ دن جلد آنے والا ہے جب امت کواس کے اور اس کے بیٹوں کے ذریعے سرخ (خونی) دن دیکھنا نصیب ہوگا۔
عبداللہ ابن زبیر نے ایک ازدی کے گھر میں پناہ لی تھی اور عائشہ کو اس بات کی خبر دے دی تھی عائشہ
______________________
(١) تاریخ طبری، ج٣، ص ٥٤٣۔
(٢) ابن ابی الحدید نے جنگ ہونے کی مدت دو دن لکھی ہے ، ج١، ص ٢٦٢۔
(٣) نہج البلاغہ، خطبہ ٧١۔
نے اپنے بھائی محمد بن ابوبکر کو جو امام ـ کے حکم سے عائشہ کی حفاظت کر رہے تھے ، عبد اللہ کے پاس بھیجا جہاں وہ پناہ لئے تھا تاکہ اسے عبد اللہ بن احنف کے گھر پہونچا دے ،کیونکہ عائشہ بھی وہیں تھیں ۔ بالآخر عبد اللہ بن زبیر اور مروان نے بھی وہیں پناہ لی۔(١)
پھر دن کے باقی حصے میں امام ـ میدان جنگ میں آئے اور بصرہ کے لوگوں کو بلایاتاکہ اپنے مرنے والوں کو دفن کریں۔ طبری کے نقل کر نے کے مطابق، امام نے ناکثین کے گروہ میں شامل بصرہ اور کوفہ کے لوگوں کی نماز جنازہ پڑھی اور جو آپ کے ساتھی جام شہادت نوش کرچکے تھے ان پر بھی نماز پڑھی اور سب کو ایک بڑی قبر میں دفن کردیا اور پھر حکم دیا کہ لوگوں کے تمام مال و اسباب کو انھیں واپس کردیں ، صرف ان اسلحوں کو واپس نہ کریں جن پر حکومت کی نشانی ہوپھر فرمایا:
''لا یحلُّ لمسلمٍ من المسلم المتوفی شیئ''(٢)
مردہ مسلمان کی کوئی بھی چیز دوسروں کے لئے حلال نہیں ہوگی۔
امام ـ کے بعض ساتھیوں نے بہت اصرار کیا کہ ناکثین کے ساتھ جنگ گویا مشرکوں کے ساتھ جنگ گرنا ہے یعنی جتنے لوگ گرفتار ہوئے ہیںانھیں غلام بنایاجائے اور ان کا مال تقسیم کردیا جائے
امام ـ نے اس سلسلے میں فرمایا: ''أیکم یأخذ ام المومنین فی سہمہ''(٣) یعنی تم میں سے کون حاضر ہے جو عائشہ کو اپنے حصے کے طور پر قبول کرے؟ امام جعفرصادق ـ نے ایک حدیث میں اس گروہ کے متعلق جسے فقہ اسلامی نے ''باغی'' کے نام سے تعبیر کیا ہے، فرمایا ہے:
''ان علیاً علیہ السلام قتل اہل البصرة و ترک أموالہم ، فقال ان دار الشرک یحل ما فیہا و ان دار الاسلام لایحل ما فیہا ان علیا انما من علیہم کما من رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم علی اہل مکة''۔(٤)
امام ـ نے اہل بصرہ کو ان کی بغاوت کی وجہ سے قتل کیا تھا لیکن ان کے مال و اسباب کو ہاتھ نہ لگایا کیونکہ مشرک کا حکم اور مسلمان باغی کا حکم برابر نہیںہے اسلامی فوج کو جو کچھ بھی مشرک و کافر کے علاقہ سے ملے اس کا لے لینا حلال ہے لیکن جو کچھ سرزمین اسلام پر پایا جائے حلال نہیںہوگا جیسا کہ علی نے ان پر احسان کیا جیسا کہ پیغمبر اسلام نے اہل مکہ پراحسان کیا تھا۔
______________________
(١)امام علیہ السلام نے اپنے اس کلام میں غیب کی چند خبروں سے آگاہ کیاتھا۔
(٢) تاریخ طبری، ج٢، ص ٥٤٣۔
(٣) وسائل الشیعہ، ج١١، باب ٢٥، ابواب جہاد۔
(٤) وسائل الشیعہ، ج١١، باب ٢٥، ابواب جہاد، اس سلسلے میں ابن ابی الحدید کا دوسرا نظریہ ہے وہ کہتا ہے کہ امام نے جوکچھ بھی میدان میں تھا سب کو لے لیااور اپنے لشکر کے درمیان تقسیم کردیا۔
حضرت علی ـ کی مقتولین سے گفتگو
جنگ بدر میں پیغمبر اسلام (ص)نے قریش کے لاشوں کو ایک کنویں میں ڈالا اور پھر ان سے گفتگو کرنے لگے اور جب حضرت سے لوگوں نے کہا کہ کیا مردے بھی زندوں کی باتیں سنتے ہیںتو آپ نے فرمایا: تم لوگ ان سے زیادہ سننے والے نہیں ہو۔(١)
امیر المومنین علیہ السلام میدان جمل میں لاشوں کے درمیان سے گزر رہے تھے کہ عبد اللہ بن خلف خزاعی کو دیکھا جو خوبصورت کپڑے پہنے تھا لوگوں نے کہا وہ ناکثین کے لشکر کا سردار تھا امام ـ نے فرمایا: ایسا نہیں تھا بلکہ وہ ایک شریف اور اچھا انسان تھا پھر آپ کی نظر عبد الرحمن بن عتاب بن اسید پر پڑی تو آپ نے فرمایا: یہ شخص ناکثین کا سردار اور رئیس تھا پھر آپ قتل گاہ میں ٹہلتے رہے یہاں تک کہ قریش کے گروہ کے کچھ لاشوں کو دیکھا اور فرمایا: خدا کی قسم، تمہاری یہ حالت میرے لئے غم کا باعث ہے لیکن میں نے تم پر حجت تمام کردی تھی لیکن تم لوگ نا تجربہ کار نوجوان تھے اور اپنے کام کے نتیجے سے باخبر نہ تھے۔
پھر آپ کی نگاہ بصرہ کے قاضی کعب بن سور پر پڑی جس کی گردن میں قرآن لٹکا ہوا تھا آپ نے حکم دیا کہ اس کی گردن سے قرآن نکال کر کسی پاک جگہ پر رکھ دیا جائے پھر فرمایا: اے کعب! جو کچھ میرے خدا نے وعدہ کیا تھا اسے میںنے صحیح اور استوار پایا۔ اور کیا تو نے بھی جو کچھ تیرے پروردگار نے تجھ سے وعدہ کیا تھا صحیح پایا؟ پھر فرمایا:
''لقد کان لک علم لونفعک ، و لکن الشیطان أضلَّک فأزلک فعجَّلک الی النار''(٢)
______________________
(١) سیرۂ ہشام، ج١، ص ٦٣٩۔
(٢) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید، ج١، ص ٣٤٨۔
تیرے پاس علم تھااے کاش (تیرا وہ علم) تجھے فائدہ پہونچاتا لیکن شیطان نے تجھے گمراہ کیا اور تجھے بہلا پھسلا کر جہنم کی طرف لے گیا۔
اور جب امام ـ نے طلحہ کی لاش کودیکھا تو فرمایا: اسلام میں تیری خدمات تھیں جو تجھے فائدہ پہونچا سکتی تھیں لیکن شیطان نے تجھے گمراہ کردیااور تجھے بہلایا اورتجھے جہنم کی طرف لے گیا۔(١)
تاریخ کے اس حصے میںامام ـ نے باغیوں کی صرف مذمت کی اور اہل جہنم کی شناخت کرائی اس کے علاوہ دوسری چیزیں بیان نہیں کی ہیں لیکن معتزلہ فرقہ کا کہنا ہے کہ ان میں سے بعض لوگ اپنی موت سے پہلے اپنے کام پر شرمندہ ہوئے تھے اور توبہ کرلیاتھا۔ ابن ابی الحدیدجو مذہب معتزلہ کا بہت بڑا مدافع ہے لکھتا ہے کہ بزرگوں سے روایت ہے کہ علی نے فرمایا : طلحہ کو بٹھائو اور اس وقت اس سے کہا:
''یعز علی با أبا محمد أن اراک معفراً تحت نجوم السماء و فی بطن ہذا الوادی۔ ابعد جہادک فی اللہ و ذبک عن رسول اللہ؟''
یہ بات میرے لئے سخت ناگوار ہے کہ تجھے زیر آسمان اور اس بیابان میں خاک آلوددیکھوں کیا سزاوار تھا کہ خدا کی راہ میں جہاد اور پیغمبر خدا سے دفاع کے بعد تم ایسا کام انجام دو؟
اس وقت ایک شخص امام ـ کی خدمت میں پہونچا اور کہا: میں طلحہ کے ساتھ تھا جب اسے اجنبی کی جانب سے تیر لگا تو اس نے مجھ سے مدد مانگی اور پوچھا : تم کون ہو؟
میںنے کہا: میں امیر المومنین کے دوستوں میں سے ہوں۔
اس نے کہا: تم اپنا ہاتھ مجھے دو تاکہ میں تمہارے وسیلے سے امیر المومنین کی بیعت کروں پھر اس نے میرے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ کر بیعت کی ۔
امام ـ نے اس موقع پر فرمایا: خدا نے چاہا کہ طلحہ نے جس حالت میں میری بیعت کی ہے اسے جنت میں لے جائے۔(٢)
تاریخ کا یہ حصہ افسانہ کے علاوہ کچھ نہیں ہے، کیا طلحہ امام ـ کے مقام و منزلت اور آپ کی حقانیت
______________________
(١) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید، ج١، ص ٣٤٨۔
(٢) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید، ج١، ص ٣٤٨۔
و شخصیت سے واقف نہ تھا؟ اس طرح کی توبہ وہ لوگ کرتے ہیں جو مدتوں جہالت میں زندگی بسر کرتے ہوں اور جب جہالت کا پردہ ان کی آنکھوں سے ہٹ جاتا ہے تو وہ حقیقت کا نظارہ کرتے ہیں ،جب کہ طلحہ شروع سے ہی حق و باطل کے درمیان فرق کو جانتا تھا۔ اس کے علاوہ اگر اس افسانہ کو صحیح مان بھی لیاجائے تو قرآن کریم کی نظر میں طلحہ کے توبہ کی کوئی اہمیت نہیں ہے :
''و لیست التوبة للذین یعملون السیئات حتی اذا حضرَ أحدُہم الموتَ قال انی تُبتُ الآن و لا الذین یموتون و ہم کفار اولٰئک أعتد نا لہم عذاباً ألیماً''(١)
اوران لوگوں کی توبہ جو لوگ برے کام انجام دیتے ہیںاور پھر موت کے وقت کہتے ہیں کہ میںنے توبہ کرلیا ہے تو وہ قابل قبول نہیں ہے اوران لوگوں کی توبہ ایسی ہے کہ وہ مرتے ہیں جب کہ ان کی موت کفر کی ہوتی ہے اور ان لوگوں کے لئے دردناک عذاب ہے۔
بہرحال، کیا صرف امام ـ کی بیعت کرنے سے اس کے سارے گناہ معاف کردیئے جائیں گے؟اس نے زبیر اور ام المومنین کی مدد و مشورت سے بصرہ کے میدان میں بہت زیادہ لوگوں کا خون بہایا ہے ، یہاں تک کہ ان لوگوں کے حکم سے بہت سے گروہ مثل گوسفند ذبح کئے گئے ہیں لوگ رسول خدا کے صحابیوں کی اس طرح کی بے فائدہ طرفداری کرتے ہیںاور چاہتے ہیں کہ سب کو عادل مانیں۔
______________________
(١) سورۂ نسائ، آیت ١٦۔

بصرہ کی شکست، امام ـ کا خطوط لکھنا، اور عائشہ کو مدینہ روانہ کرنا
امام ـ کی فوج اور بصرہ کے بے وفاؤں کے درمیان جنگ کے احتمال کی خبر ، تجارت کرنے والے گروہ جو اس راستے سے عراق، حجاز، شام وغیرہ آتے جاتے تھے، کے ذریعے تمام اسلامی ملکوںتک پہونچ گئی اور مسلمان اور عثمان کے کچھ چاہنے والے اس واقعہ کی خبر سننے کے لئے بے چین تھے اور دونوں گروہوں میں سے ایک کی کامیابی اور دوسرے کی شکست بہت ہی اہمیت کی حامل تھی۔ اسی وجہ سے امام ـ نے مقتولین دفن کرنے کا حکم دیا، اور میدان جنگ کا جائزہ لینے کے بعد، اور بعض قیدیوں کو ان کے خیمہ میں واپس لے جانے کا حکم دینے کے بعد، اپنے کاتب عبد اللہ بن ابی ارفع کو بلایا اور کچھ خطوط املاء کئے (لکھوائے) اور امام کے منشی نے تمام چیزوںکو خط میں لکھا اور خط میں کوفہ اور مدینہ کے مومنین سے مخاطب ہوئے کیونکہ یہی
دو علاقے اس زمانے میں اسلام کے سب سے حساس علاقے تھے، اور اسی کے ساتھ ساتھ آپ نے اپنی بہن ام ہانی بنت ابو طالب کو بھی خط لکھا ۔ امام ـ نے اس طرح کے خطوط لکھ کر اپنے دوستوںکو خوشحال اور مخالفت کرنے والوں کو ناامید کردیا۔
شیخ مفید نے ا ن تمام خطوط کی عبارت کو اپنی کتاب(١) میں بطور کامل نقل کیا ہے ،لیکن طبری نے تمام خطوط میں سے امام ـ کے صرف اس خط کو بہت مختصر طریقے سے اپنی کتاب میں نقل کیا ہے جو آپ نے کوفہ کے لوگوں کے نام لکھا تھا،اور چونکہ اس نے اپنی کتاب کے اس حصے کو تحریر کرنے میں سیف بن عمر کی تحریرپر اعتماد و کیا ہے لہذا اس نے حقِّ مطلب ادا نہیں کیا ہے اور حساس مطالب کو فقط سادگی سے نقل کرکے آگے بڑھ گیا ہے۔
امام ـ نے جو خط (طبری کے نقل کرنے کے مطابق) کوفہ کے لوگوںکے نام لکھا ہے اس میں جنگ کی تاریخ ١٥ جمادی الثانی ٣٦ھ اورجنگ کی جگہ خربیہ لکھی ہے ۔
جی ہاں امام ـ دوشنبہ کے دن ''خربیہ'' سے بصرہ روانہ ہوئے تھے اور جب آپ بصرہ کی مسجد میں پہونچے تو آپ نے وہاں دو رکعت نماز پڑھی اور پھر سیدھے عبداللہ بن خلف خزاعی کے گھر پہونچے جس کا گھر بصرہ میں سب سے بڑا تھا اور عائشہ کو اسی گھر میں رکھا گیا تھا۔
عبد اللہ، عمر کی خلافت کے زمانے میں دیوان بصرہ کا کاتب تھا جیسا کہ ہم بیان کرچکے ہیں وہ اور عثمان کے بھائی جنگ جمل میں مارے گئے تھے۔ بعض لوگوں کا کہناہے کہ اس نے پیغمبرکا زمانہ بھی دیکھا تھا(٢) اگرچہ یہ بات صحیح نہیںہے۔
جب امام ـ عبداللہ کے گھر میں داخل ہوئے اس وقت اس کی بیوی صفیہ بنت حارث بن طلحہ بن ابی طلحہ گریہ و زاری میں مشغول تھی، عبد اللہ کی بیوی نے امام ـ کی توہین کی اور آپ کو ''قاتل الأحبة'' اور ''مفرق الجمع'' کہا۔ لیکن امام ـ نے اسے کوئی جواب نہ دیا۔ پھر عائشہ کے کمرے میں گئے اور انھیں سلام کیااور ان کے پاس بیٹھ گئے اور صفیہ نے جو اہانت کی تھی اسے بیان کیا۔ یہاں تک کہ جب امام ـ
عبد اللہ کے گھر سے نکل رہے تھے اس وقت بھی صفیہ نے دوبارہ توہین کی اس وقت امام ـ کے دوستوںسے برداشت نہ ہوسکا اور عبداللہ کی بیوی کودھمکی دی ۔
امام ـ نے انھیں اس کام سے منع کیااور کہا کوئی بھی خبر مجھے نہ ملے کہ تم لوگوںنے عورتوں کو اذیت دی ہے۔
______________________
(١) الجمل، ص ٢١١و ٢١٣۔
(2) اسد الغابہ، ج٢، ص ١٥٢۔

بصرہ میں امام ـ کی تقریر
امام ـ عبداللہ کے گھر سے نکلنے کے بعد شہر کے مرکزی مقام پر گئے بصرہ کے لوگوںنے مختلف پرچم کے ساتھ امام ـ کے ہاتھوں پر دوبارہ بیعت کی یہاں تک کہ زخمیوںاور وہ لوگ جنھیں امان دی گئی تھی ان لوگوں نے بھی دوبارہ حضرت کی بیعت کی ۔(١)
امام ـ پر لازم تھا کہ بصرہ کے لوگوں کو ان کے کام کی غلطیوں اور برائیوں سے آگاہ کریں اسی وجہ سے بصرہ کے تمام افراد آپ کی گفتگو سننے کے لئے آمادہ تھے جب کہ عظمت و نورانیت نے آپ کا احاطہ کر رکھا تھا آپ نے اپنی تقریر شروع کی:
''تم لوگ اس عورت اور اونٹ کے سپاہی تھے جب اس نے تمہیں بلایا تو تم نے اس کی آواز پر لبیک کہا اور جب وہ قتل ہوگیا تو تم لوگ بھاگ گئے تمہارا اخلاق پست اور تمہارا عہد و پیمان عذر و دھوکہ اور تمہارا دین منافقت اور تمہارا پانی کھارا ہے او رجو شخص تمہارے شہر میں زندگی بسر کرنا چاہے گا وہ گناہوں میں مبتلاہوگااو رجو شخص تم لوگوں سے دور رہے گا وہ حق کو پالے گا۔ گویا میں دیکھ رہا ہوں کہ خدا کا عذاب زمین و آسمان سے تمہارے اوپر آرہا ہے اور میرے خیال سے تم سب لوگ غرق ہوگئے ہو سوائے مسجد کے مناروں کے، اور اسی طرح کشتی کا وسطی حصہ (سینہ) پانی کے اوپر نمایاں و ظاہر ہے۔(٢)
پھر آپ نے فرمایا: تمہاری سرزمین پانی سے نزدیک اور آسمان سے دور ہے تمہارے چھوٹوں کی کوئی اہمیت نہیںاور تم لوگوںکی فکریں احمقانہ ہیں تم لوگ (ارادہ میں سستی کی وجہ سے) شکاریوں کا ہدف
______________________
(١) تاریخ طبری، ج٣، ص ٥٤٥۔
(٢) نہج البلاغہ، خطبہ ١٣٠۔
او رمفت خوروں کے لئے لقمہ لذیذ او ردرندوں کا شکار ہو۔(١)
پھر آپ نے فرمایا: اے اہل بصرہ، اس وقت میرے بارے میں تم لوگوں کا کیا نظریہ ہے؟
اس وقت ایک شخص اٹھا او رکہا: ہم لوگ آپ کے لئے نیکی و خیر کے علاوہ کوئی دوسری فکر نہیں رکھتے ، اگر آپ ہمیں سزا دیں تو یہ ہمارا حق ہے کیونکہ ہم لوگ گناہگار ہیں اور اگر آپ ہمیں معاف کردیں گے تو خدا کے نزدیک عفو و درگذر بہترین و محبوب چیز ہے۔
امام ـ نے فرمایا: میں نے سب کو معاف کردیا۔ فتنہ وغیرہ سے دور رہو تم لوگ پہلے وہ افراد ہو جنھوں نے بیعت کو توڑ دیا اور امت کے ستون کو دو حصوں میں کردیا گناہوں کو چھوڑ دو اور خلوص دل سے توبہ کرلو۔(٢)

اچھی نیت عمل کی جانشین ہے
اس وقت امام ـ کے دوستوں میں سے ایک شخص نے کہا: میری خواہش تھی کہ کاش میرا بھائی یہاں ہوتا تاکہ دشمنوں پر آپ کی فتح و کامرانی کو دیکھتااور جہاد کی فضیلت و ثواب میں شریک ہوتا، امام ـ نے اس سے پوچھا: کیا تمہارا بھائی دل اور فکر سے میرے ساتھ تھا؟
اس نے جواب دیا: جی ہاں۔
امام ـ نے فرمایا: ''فقد شَہدْنا و لقد شہِدنَا فی عسکرِنا ہذا اقوام فی أصلابِ الرجال و ارحامِ النساء سیرعفُ بہم الزمان و یقوی بہم الایمان''۔(٣)
تمہارابھائی بھی اس جنگ میں شریک تھا (اور دوسرے شریک ہونے والے سپاہیوں کی طرح اسے بھی اجر و ثواب ملے گا) نہ یہ صرف وہ بلکہ وہ لوگ بھی جوابھی اپنے باپ کے صلب اوراپنی ماؤں کے رحم میںہیں اور زمانہ انھیںان باتوں سے بہت جلدی آشکار کردے گا اور ایمان ان لوگوں کی وجہ سے قوی ہوگا وہ لوگ بھی اس جنگ میں شریک ہیں۔
______________________
(١) نہج البلاغہ، خطبہ ٥١٤۔
(٢) الجمل، ص ٢١٨۔
(٣) نہج البلاغہ خطبہ ١٢
امام ـ کا یہ کلام اصل تربیت و اخلاق حسنہ کی طرف اشارہ ہے اور وہ یہ کہ اچھی اور بری نیت جزا اور سزا کے لحاظ سے خود اپنے عمل کی جانشین ہوتی ہے نہج البلاغہ میںدوسرے مقامات پر بھی اس کی طرف اشارہ کیاہے مثلاً آپ فرماتے ہیں :
''ایہا الناس انما یجمع الناس الرضا و السخط ۔ وانما عقرَ ناقَة ثمودرجل و احد فعمَّہم اللہ بالعذاب لما عمَّوہ بالرضا''۔(١)
اے لوگو! لوگ کبھی ایک عمل سے خوش اور کبھی ایک عمل سے ناخوش ہو کر ایک پرچم کے نیچے جمع ہوتے ہیں۔ ثمود کے ناقہ کوایک آدمی نے ماراتھا لیکن جب عذاب آیاتو سب پر آیاکیونکہ سبھی اس عمل پر راضی تھے۔

بیت المال کی تقسیم
امام ـ کے لشکر کے سپاہی اس جنگ میں کسی بھی چیز کے مالک نہ بنے بلکہ حقیقت میں یہ جنگ سو فیصد الہی جنگ تھی۔ لہذا امام ـ نے دشمن کے اسلحوںکے علاوہ تمام چیزیں خود انہی لوگوںکو واپس کردیں۔ اس وجہ سے ضروری تھا کہ بیت المال ان کے درمیان تقسیم کیاجائے ۔ جب امام ـ کی نگاہیںاس پر پڑیں تو آپ نے ایک ہاتھ کو دوسرے ہاتھ پر مارتے ہوئے کہا: ''غری غیری'' (یعنی جاؤ دوسروںکودھوکہ دو) بیت المال میںکل چھ لاکھ درہم تھے، آپ نے تمام درہموں کواپنے سپاہیوں کے درمیان تقسیم کردیا او ر ہر ایک کو پانچ سو درہم ملے جب امام تقسیم کرچکے تو پانچ سو درہم باقی بچا اسے امام نے اپنے لئے رکھ لیااچانک ایک شخص واردہوا اور اس نے دعویٰ کیاکہ میں بھی اس جنگ میں شریک تھا لیکن اس کا نام فہرست میں لکھنا رہ گیا تھا ۔ امام ـ نے وہ پانچ سو درہم اسے دے دیا، اور فرمایا: خدا کا لاکھ لاکھ شکر کہ اس مال سے میں نے کچھ اپنے لئے حاصل نہیں کیا۔(٢)
______________________
(1)نہج البلاغہ خطبہ ٢٠٠
(2) تاریخ طبری ج٣، ص ٥٤٧۔

عائشہ کو مدینہ روانہ کرنا
رسول خدا (ص)سے نسبت رکھنے کی وجہ سے عائشہ کاایک خاص احترام تھا امام ـ نے ان کے مقدمات سفر، مثلاً سواری، راستے کا خرچ ، آمادہ کیااور محمد بن ابوبکر کو حکم دیاکہ اپنی بہن کے ساتھ رہیں
اور انھیں مدینہ پہونچائیں اور آپ کے جتنے بھی دوست مدینہ کے تھے او رمدینہ واپس جاناچاہتے تھے انھیں اجازت دیاکہ عائشہ کے ہمراہ مدینہ جائیں امام ـ نے صرف اتناہی انتظام نہیںکیابلکہ بصرہ کی چالیس عظیم عورتوں کو عائشہ کے ساتھ مدینہ روانہ کیا۔
سفر کی تاریخ پہلی رجب المرجب ٣٦ھ بروز شبنہ معین ہوئی اس مختصر سے قافلے کے روانہ ہوتے وقت اکثر لوگ کچھ دور تک ان کے ساتھ گئے اور خدا حافظی کیا:
عائشہ امام ـ کی بے انتہا محبت دیکھ کر متأثر ہوئیں اور لوگوںسے کہا: اے میرے بیٹو! ہم میں سے بعض لوگ، بعض لوگوں پر ناراض ہوتے ہیں لیکن یہ کام زیادہ نہیں ہونا چاہئے خداکی قسم، میرے اور علی کے درمیان۔ ایک عورت اور اس کے رشتہ داروں کے درمیان جو رابطہ ہوتا ہے اس کے علاوہ کچھ نہیںہے اگرچہ وہ میرے غیض و غضب کا شکار ہوئے ہیں۔ مگر وہ نیک اور اچھے لوگوںمیں سے ہیں۔
امام ـ نے عائشہ کی بات سن کر شکریہ اداکیااور فرمایا: لوگو وہ تمہارے پیغمبر کی بیوی ہیں پھرآپ نے کچھ دور تک ان کی ہمراہی کی اور خدا حافظ کہا۔
شیخ مفید لکھتے ہیں:
''چالیس عورتیں جو عائشہ کے ہمراہ مدینہ گئیں ظاہراً انھوںنے مردوں کالباس پہن رکھا تھا تاکہ اجنبی لوگ انہیں مرد سمجھیں اور کسی کے ذہن میں بھی ناروا باتیںان کے متعلق یا پیغمبر کی بیوی کے متعلق خطور نہ کریں اور عائشہ نے بھی یہی سوچا کہ علی نے مردوں کوان کی حفاظت کے لئے بھیجا ہے مستقل اس کام کے لئے شکوہ کر رہی تھیں ۔ جب مدینہ پہونچیں اور دیکھاکہ سب عورتیںہیں جنھوں نے مردوں کالباس پہن رکھا ہے تواپنے اعتراض کے لئے عذر خواہی کی اور کہا: خدا ابوطالب کے بیٹے کو نیک اجر عطا کرے کہ میرے متعلق رسو ل خدا کی حرمت کا خیال رکھا۔(١)
______________________
(١) الجمل ، ص ٢٢١۔

حاکموں کو منصوب کرنا
عثمان کی خلافت کے دور میں مصر کا حاکم عبد اللہ بن سعد بن ابی سرح تھااو رمصریوںکی خلیفہ کے اوپر حملہ کرنے کی ایک وجہ اس کے برے اور بے ہودہ اعمال تھے یہاں تک کہ جب وہ مصر سے نکالاگیااس وقت
محمد بن ابی حذیفہ مصر میں تھے اور ہمیشہ حاکم مصر اور خلیفہ پر اعتراض کرتے تھے۔ جب مصرکے لوگوں نے خلیفہ پر حملہ کرنے کے لئے مدینہ کا سفر کیا اس وقت مصر کے تمام امور کی ذمہ داری محمد بن حذیفہ کے حوالے کردی اور وہ اس منصب پر باقی تھے یہاں تک کہ امام ـ نے قیس بن سعد بن عبادہ کو مصر کے امور کی انجام دہی کے لئے منصوب کیا۔
طبری کاکہناہے کہ جس سال جنگ جمل ہوئی اسی سال قیس مصر گئے، لیکن بعض مؤرخین مثلاً ابن اثیر(١) وغیرہ کا کہناہے کہ قیس ماہ صفر میں مصر بھیجے گئے اگر اس صفر سے مراد ، صفر ٣٦ھ ہے تو یقینا قیس واقعۂ جمل سے پہلے گئے اور اگر صفر ٣٧ھ مرادہے تو وہ واقعہ جمل کے چھ مہینے کے بعدگئے جب کہ طبری نے قیس کے جانے کی تاریخ و سال کو ٣٦ ھ ہی لکھا ہے آور یہ واقعۂ جمل کاسال ہے۔
جی ہاں، امام ـ نے خلید بن قرہ یربوعی کوخراسان کا حاکم اور ابن عباس کو بصرہ کا حاکم معین کیااور پھر ارادہ کیا کہ بصرہ سے کوفہ کاسفر کریں۔
کوفہ جانے سے پہلے آپ نے جریر بن عبداللہ بجلی کو شام روانہ کیاکہ معاویہ سے گفتگو کریں ، تاکہ وہ مرکزی حکومت کی پیروی کا اعلان کرے جس حکومت کے رئیس امام ـ تھے۔(٢)چونکہ بصرہ کی ایک خاص اہمیت تھی اور شیطان نے وہاں اپنی شیطنت کا بیج بودیا تھا لہذاامام نے ابن عباس کو حاکم بصرہ اور زیاد بن ابیہ کو جزیہ جمع کرنے کی ذمہ داری اور ابو الاسود دوئلی کو ان دونوں کاجانشین و مددگار قراردیا۔(١)
امام ـ نے ابن عباس کو لوگوں کے سامنے بصرہ کا حاکم بناتے وقت بہترین اور عمدہ تقریر کی جسے شیخ مفید نے اپنی کتاب ''الجمل'' میں نقل کیاہے۔(٣)
طبری کہتا ہے کہ امام نے ابن عباس سے کہا: ''اضرب بمن أطاعک من عصاک و ترک أمرک''۔(٤)
______________________
(١) تاریخ ابن اثیر، ج٣، ص ٢٦٨۔
(٢) تاریخ ابن اثیر، ج٣، ص ٥٦٠۔ ٥٤٦۔
(٣)،(٢) تاریخ جمل، ص ٣٢٤۔
(٤) تاریخ طبری، ج٣، ص ٥٤٦۔
اطاعت کرنے والوںمیں گناہ کرنے والوں کو او رجو لوگ تمہارے حکم کی پیروی نہ کریں انھیں سخت سزا دینا ۔
جس وقت امام ـ بصرہ سے سفر کر رہے تھے اس وقت خدا سے یہ دعا و مناجات کر رہے تھے، ''الحمد للّہ الذی أخرجنی من أخبث البلاد'' خداوند عالم کالاکھ لاکھ شکر کہ اس نے ہمیں خبیث ترین شہر سے دور کردیا۔
اس طرح امام ـ کی حکومت سے پہلی مشکل و آفت ختم ہوگئی اور آپ کوفہ کی طرف روانہ ہوگئے تاکہ معاویہ کے فاسدنقشوں اور ارادوں کو پامال کریںاور اسلام کی وسیع ترین سرزمین کو فاسد عناصر اورخودغرض لوگوں سے پاک کریں۔