نویں فصل
امام ـ کی ''ذی قار'' سے بصرہ کی طرف روانگی
علی علیہ السلام ربذہ میں تھے کہ ناکثین کے خونی حملہ سے باخبر ہوئے اورذی قار میں تھے جب آپ نے مخالفوں کو سزا دینے کا قطعی فیصلہ کیا۔
عظیم شخصیتوں مثلاً امام حسن مجتبیٰ ـ اور عمار یاسر کو کوفہ بھیجنے کا یہ اثر ہوا کہ کوفہ کے لوگوں میں ایک ہیجانی کیفیت پیدا ہوگئی اور یہی سبب بنا کہ لوگ امام ـ کے لشکر میں شامل ہونے کے لئے ذی قار کی طرف دوڑ پڑے، لہٰذا علی علیہ السلام اپنی فوج کے ساتھ منطقہ ذی قار سے بصرہ کی طرف روانہ ہوگئے۔
امام ـ نے پیغمبر کی طرح جنگ کرنے سے پہلے مخالفوں پر اپنی حجت کو تمام کردیا اگرچہ حقیقت ان لوگوں پر واضح تھی یہی وجہ ہے کہ ناکثین کے سردار یعنی طلحہ و زبیر اور عائشہ کے پاس الگ الگ خط لکھا اور تینوں خط میں ان کے کارناموں کو لکھا اور دار الامارہ اور بصرہ کے محافظوں کے قتل کرنے پر سخت اعتراض کیا اور عثمان بن حنیف پر جو ظلم و ستم کیاتھا اس کی سخت مذمت کی۔ امام نے تینوں خط صعصہ بن صوحان کے ہمراہ روانہ کیا وہ کہتے ہیں :
سب سے پہلے ہم نے طلحہ سے ملاقات کی اور امام ـ کا خط اسے دیا اس نے خط پڑھنے کے بعد کہا: کیا اس وقت جب علی کے خلاف جنگ کی پوری تیاری ہوچکی ہے اس سے منہ موڑ رہے ہیںاور نرمی دکھا رہے ہیں؟ پھر زبیر سے ملاقات کی تواسے طلحہ سے کچھ نرم پایا ۔ پھر عائشہ کو امام کا خط دیا لیکن دوسروں سے زیادہ انہیں فتنہ و فساد اور جنگ کرنے پر آمادہ پایا انہوں نے کہا: میںنے عثمان کے خون کا بدلہ لینے کے لئے اقدام کیا ہے اور خدا کی قسم اس کام کو میں ضرور انجام دوں گی۔
صعصعہ کہتے ہیں: اس کے پہلے کہ امام ـ بصرہ میں داخل ہوتے ، میں ان کی خدمت میں پہونچ گیا امام ـ نے مجھ سے پوچھا کہ وہاں کے کیا حالات ہیں۔ میں نے کہا: میںنے ایک گروہ کو دیکھا کہ آپ سے جنگ کرنے کے علاوہ ان کا کوئی اور مقصد نہیںہے امام ـ نے فرمایا: و اللہ المستعان(١)
جب علی علیہ السلام ناکثین کے سرداروں کے قطعی ارادے سے باخبر ہوئے تو آپ نے ابن عباس کو بلایا اور ان سے کہا: ان تینوں آدمیوں سے ملاقات کرو اور میری بیعت کی وجہ سے جو ان پر میرا حق ہے اس کے بارے میں احتجاج کرو۔ جب انھوں نے طلحہ سے ملاقات کیا اور امام ـ کی بیعت اسے یاد دلائی تواس نے ابن عباس کا جوا ب دیا: میںنے بیعت ایسے حالات میں کیاتھا کہ میرے سر پر تلوار تھی۔
ابن عباس نے کہا کہ میںنے خود تمہیںدیکھا کہ تم نے مکمل آزادی کے ساتھ بیعت کی تھی اور اس پہ دلیل پیش کی کہ بیعت کے وقت، علی نے تم سے کہا کہ اگر تم چاہو تو تمہاری بیعت کروں لیکن تم نے کہا نہیں میں آپ کی بیعت کروں گا۔
طلحہ نے کہا: صحیح ہے کہ یہ بات علی نے کہی تھی لیکن اس وقت تمام گروہوں نے بیعت کی تھی اور مخالفت کا امکان نہیںتھا۔
پھر اس نے کہا: ہم عثمان کے خون کا بدلہ چاہتے ہیں اور اگر تمہارے چچازاد بھائی تمام مسلمانوں کے خون کی حفاظت کرنا چاہتے ہیں تو عثمان کے قاتلوں کو ہمیں سونپ دیں اور خود بھی خلافت کو چھوڑ دیں تاکہ خلافت شوری کے اختیار میں آجائے اور شوری جسے چاہے منتخب کرے اگر ایسا نہ ہوا تو ان کے لئے ہماری تلوار ہدیہ ہے۔
ابن عباس نے موقع غنیمت جانا لہٰذا حقیقت کو اور واضح کرتے ہوئے کہا شایداسی وجہ سے تونے عثمان کے گھر کا دس دن تک محاصرہ کیا اوران کے گھر میں پانی پہونچانے سے منع کیااور جس وقت کہ علی نے تم سے گفتگو کی کہ اجازت دو کہ عثمان کے گھر پانی پہونچایا جائے تو تم نے ان کی موافقت نہ کی اور جب مصریوں نے اتنا زبردست پہرہ دیکھا تو اس کے گھر میں داخل ہوگئے اور اسے قتل کردیا اور اس وقت لوگوں نے اس شخص کے ہاتھوں پر بیعت کی جس کا ماضی تابناک، اس کے فضائل روشن، اور پیغمبر کا سب سے قریبی عزیز تھا او رتم نے اور زبیر نے بغیر کسی مجبوری اور دباؤ کے بیعت کی اور اس وقت اس بیعت کو توڑ دیا۔ کتنے تعجب کی بات ہے کہ تم خلفاء ثلاثہ کی خلافت کے دوران کتنے سکون و آرام سے تھے لیکن جب خلافت علی تک پہونچی تواپنی اوقات سے باہر ہوگئے خدا کی قسم علی تم لوگوں سے کم نہیںہیں او رجو تمہارا یہ کہناہے کہ علی ان کے قاتلوں کو تمہارے حوالے کریں تو تم اس کے قاتلوں کو اچھی طرح سے پہچانتے ہو اور تمہیں اس کی بھی خبر ہے کہ علی تلوار سے نہیں ڈرتے۔
______________________
(١) الجمل ص ١٦٧۔
طلحہ ابن عباس کی منطقی گفتگو سن کر بہت شرمندہ ہوا اورخاموش ہو گیا اس کے بعد گفتگو کو ختم کرنے کے لئے کہا: ابن عباس اس لڑائی سے پیچھے ہٹ جاؤ۔
ابن عباس کہتے ہیں: میں فوراً ہی علی کے پاس گیا اور اپنی گفتگو کا سارا نتیجہ بیان کیا ،حضرت نے مجھے حکم دیا کہ عائشہ سے گفتگو کرو۔ اور ان سے کہو، فوج جمع کرنا عورتوں کی شان نہیںہے اور تم ہرگز اس کام کے لئے مامور نہیں کی گئی ہو تم نے اس کام کے لئے قدم نکالا ہے اور دوسروں کے ساتھ بصرہ آگئی اور مسلمانوں کو قتل کردیا اور کام کرنے والوں کو نکال دیا اور لوگوں کو راستہ دکھایا اور مسلمانوں کے خون کو مباح سمجھا جب کہ تم خود عثمان کی سب سے بڑی دشمن تھی۔
ابن عباس نے امام ـ کے پیغام کو عائشہ تک پہونچایا انہوں نے جواب دیا : تمہارے چچازاد بھائی کا خیال ہے کہ تمام شہروں پر ان کا قبضہ ہے خدا کی قسم، اگر کوئی چیز اس کے ہاتھ میں ہے تو اس سے زیادہ چیزیں میرے اختیار میں ہیں۔
ابن عباس نے کہا: علی کے لئے فضیلت اور اسلام کے لئے ان کی بہت زیادہ خدمات ہیں اور انھوںنے اس راہ میں بہت زیادہ زحمتیں برداشت کی ہیں انہوں نے کہا: طلحہ نے بھی جنگ احد میں بہت زیادہ رنج و مصیبت برداشت کیا ہے۔
ابن عباس نے کہا: میرے خیال میں پیغمبر کے صحابیوں کے درمیان علی سے زیادہ کسی نے رنج و مصیبت برداشت نہیں کی ہے۔ اس وقت عائشہ نے انصاف کی بات کی اور کہا اس کے علاوہ علی کی دوسری بھی فضیلتیں ہیں ۔
ابن عباس نے موقع غنیمت سمجھ کر فوراً کہا: تمہیںخدا کا واسطہ مسلمانوں کا خون بہانے سے پرہیز کرو انہوںنے جواب دیا: مسلمانوں کا خون اس وقت تک بہایا جائے گا جب تک علی اور ان کے ساتھی خود کو قتل نہیں کرلیں گے۔
ابن عباس کہتے ہیں کہ میں عائشہ کی غیر منطقی باتین سن کر مسکرایا او رکہا علی کے ہمراہ صاحبان بصیرت لوگ ہیں جو اس راہ میں اپنے خون کو بہا دیں گے پھر ان کے پاس سے اٹھ کر واپس چلے آئے۔
ابن عباس کہتے ہیں:
علی نے مجھے حکم دیا کہ زبیر سے بھی گفتگو کروں او رحتی الامکان اس سے تنہائی میں ملاقات کروںاور اس کا بیٹا عبداللہ وہاں موجود نہ ہو۔ میں اس خیال سے کہ اس سے تنہائی میں ملاقات کروںدوبارہ اس کے پاس گیا لیکن اسے تنہا نہیں پایاتیسری مرتبہ اسے میںنے تنہا دیکھا، اس نے اپنے غلام ''سرحش'' کو بلایا اور اس سے کہا کہ کسی کو بھی اندر آنے کی اجازت نہ دینا ، میں نے گفتگو کا آغاز کیا،شروع میں اسے بہت غصے میں پایا لیکن دھیرے دھیرے اسے ٹھنڈا کردیا جب اس کے خادم نے میری باتیں سنیں تو فوراً اس نے زبیر کے بیٹے کو خبر کردی اور جیسے ہی وہ اس جلسہ میں وارد ہوا میں نے اپنی گفتگو قطع کردی، زبیر کے بیٹے نے اپنے باپ کے اقدام کو عثمان کے خون کا بدلہ لینے اورام المومنین کی موافقت سے صحیح ثابت کیا میںنے اس کا جواب دیا خلیفہ کا خون تمہارے باپ کی گردن پر ہے یا تو اسے قتل کیا ہے یا اس کی مدد نہیں کیاہے اور ام المومنین کی موافقت اس کی سچائی کی دلیل نہیں ہے اسے گھر کے باہر لائے جب کہ رسول اکرم نے ان سے کہا تھا عائشہ ممکن ہے ایک دن ایسا آئے کہ تم پر حوأب کے کتے بھونکیں، بالآخر میںنے زبیر سے کہا: خدا کی قسم، میں نے ہمیشہ تمہیں بنی ہاشم میں شمار کیا تم ابوطالب کی بہن صفیہ کے بیٹے اور علی کے پھوپھی زاد بھائی ہو، جب عبد اللہ بڑا ہوگیا تو اپنے رشتہ کو ختم کردیا۔(١)
لیکن علی علیہ السلام کے کلام (نہج البلاغہ) سے استفادہ ہوتا ہے کہ وہ طلحہ کی طرف سے مکمل طور سے مایوس ہوچکے تھے اسی لئے ابن عباس کو حکم دیا کہ صرف زبیر سے ملاقات کر کے گفتگو کریں اور شاید یہ ابن عباس کو دوسری مرتبہ حکم دیا تھا۔ اس سلسلے میں امام ـ کابلیغ کلام ملاحظہ کیجیئے۔
''لاتلقین طلحة فانک ان تلقہ تجدہ کا لثور عاقصاً قرنہ، یرکب الصعب و یقول ہو الذلول! و لکن الق الزبیر فانہ ألین عریکةً فقل لہ یقول ابن خالک عرفتنی بالحجاز و انکرتنی بالعراق ، فما عدا مما بدا؟(٢)
طلحہ سے ملاقات نہ کرنا اگر اس سے ملو گے تو اسے ایک بیل(٣) کی طرح پاؤ گے جس کی سینگ
ٹیڑھی ہے وہ سرکش سواری پر سوار ہے اور پھر کہتا ہے کہ یہ آرام سے ہے، البتہ زبیر سے ملاقات کرنا کہ وہ نرم مزاج ہے اور اس سے کہنا کہ تمہارے ماموں زاد بھائی نے کہا ہے کہ تم حجاز میں مجھے پہچانتے تھے اور عراق میں آکربھول گئے حقیقت ظاہر ہونے کے بعد کس چیز نے اسے پھیر دیا؟
______________________
(١) الجمل، ص ١٧٠ و ١٦٧۔
(٢) نہج البلاغہ، خطبہ نمبر ٣١۔
(٣) یعنی جس طرح بیل اپنی نوک دارسینگ سے ہر کسی کو چھیدنے کی کوشش کرتا ہے اسی طرح تم طلحہ کو فتنہ میں مبتلا پاؤ گے۔ رضوی۔
قعقاع بن عمرو کو روانہ کرنا
پیغمبر اسلام کے معروف و مشہور صحابی قعقاع بن عمرو کوفہ میں رہتے تھے اور اپنے قبیلے میں ایک اہم اور قابل احترام شخصیت کے مالک تھے، انھیں امام ـ کا حکم ملا کہ ناکثین کے سرداروں سے ملاقات کریں۔ ان کے اور ناکثین کے سرداروں کے درمیان جو گفتگو ہوئی اسے طبری نے اپنی تاریخ میںاور جزری نے ''کامل'' میں نقل کیا ہے انہوںنے ایک خاص منطقی طریقے سے ناکثین کے بارے میں فکر کی تاکہ ان لوگوں کو امام ـ سے صلح کرنے کے لئے آمادہ کریں اور جب علی کی پاس واپس ہوئے اور اپنی گفتگو کا نتیجہ امام ـ سے بیان کیا تو امام ـ ان کے نرم رویہ پربہت متعجب ہوئے۔(١)
اس موقع پر بصرہ کے لوگوں کا ایک گروہ امام ـ کی خدمت میں پہونچاتاکہ آپ کے نظریہ اور ان کوفیوں کے نظریہ سے باخبر ہوں جو امام کے لشکر میں شامل ہوئے تھے۔ اور جب وہ لوگ بصرہ واپس چلے گئے تو امام ـ نے اپنے نمائندوں کے درمیان تقریر کی اور پھر اس منطقہ سے روانہ ہوگئے اور ''زاویہ'' نامی مقام پر قیام کیا۔ طلحہ و زبیر اور عائشہ بھی اپنی جگہ سے روانہ ہوئے اور اس علاقے میں آکر ٹھہرے ،جہاں بعدمیں عبیداللہ ابن زیاد کا محل بنا اور امام ـ کے مقابلے ٹھہر گئے ۔ دونوں لشکر بڑے ہی اطمینان سے تھا امام ـ نے کچھ لوگوں کو بھیجا تاکہ باغیوں کے مسئلہ کو گفتگو کے ذریعے حل کریں۔ یہاں تک کہ پیغام بھی بھیجا کہ جو وعدہ ان لوگوں نے قعقاع سے کیاہے اگر اس پر باقی ہیں تو تبادلہ نظر کریں۔ لیکن حالات ایسے تھے کہ یہ مشکل سیاسی گفتگو سے حل نہیں ہوسکتی تھی اور اس فتنہ کو ختم کرنے کے لئے ضروری تھا کہ اسلحہ اٹھایا جائے۔
______________________
(١) تاریخ کامل ابن اثیر ج٣ ص ٢٢٩۔
دشمن کی فوج کم کرنے کے لئے امام ـ کی سیاست
احنف بن مالک اپنے قبیلہ کا سردار تھا اس کے علاوہ اپنے اطراف کے قبیلوں میں بھی اہم مقام رکھتا تھا جب
عثمان کے گھرکا لوگوںنے محاصرہ کیا تھا اس وقت وہ مدینے میںتھا اور اس وقت اس نے طلحہ و زبیر سے پوچھا تھا کہ عثمان کے بعد کس کی بیعت کی جائے دونوں افراد نے امام ـ کی بیعت کے لئے کہا تھا ،جس وقت احنف حج کے سفر سے واپس ہوا اور دیکھا کہ عثمان قتل کردیئے گئے ہیں تو اس نے امام ـ کی بیعت کی ۔ اور بصرہ واپس آگیا اور جب طلحہ و زبیر کے متعلق اسے یہ خبر ملی کہ انھوں نے اپنے عہد و پیمان کو توڑ دیا ہے تو بہت تعجب میں پڑ گیا اور جب عائشہ کی طرف سے اسے بلایا گیا کہ ان کی مدد کرے تو اس نے اس درخواست کو رد کردیا اور کہا، میں نے ان دونوں کے کہنے سے علی کی بیعت کی ہے اور میں ہرگز پیغمبر کے چچا زاد بھائی کے ساتھ جنگ نہیں کروں گا مگر ان سب سے دور رہوں گا ۔ اسی وجہ سے وہ امام ـ کی خدمت میں آیا اور کہا ہمارے قبیلے والے کہتے ہیں کہ اگر علی کامیاب ہوگئے تو ہمارے مردوں کو قتل کردیں گے اور عورتوں کو قیدی بنالیں گے ۔ امام ـ نے اس سے کہا: مجھ جیسے شخص سے ہرگز نہ ڈرو جب کہ یہ مسلمانوں کا گروہ ہے۔ احنف نے یہ جملہ سن کر امام ـ سے کہا ان دو کاموں میں سے ایک کام میرے لئے معین فرمائیں یا آپ کے ہمراہ رہ کر جنگ کروں یا دس ہزار تلوار چلانے والوں کے شر کو آپ سے دور کروں۔ امام ـ نے فرمایا: کتنا بہتر ہے کہ جو تم نے بے طرفی کا وعدہ کیا ہے اس پر عمل کرو۔ احنف نے اپنے قبیلے اور اطراف میں رہنے والے قبیلوں کو جنگ میں شرکت کرنے سے روک دیا اور جب علی کا میاب ہوگئے۔ تو تمام لوگوںنے حضرت علی کے ہاتھوں پر بیعت کی اور آپ کے ہمراہ ہوگئے۔
امام ـ کی طلحہ اور زبیر سے ملاقات
جمادی الثانی ٣٦ ھ میںامام ـ نے دو نوں لشکر کے درمیان ناکثین کے سرداروں سے ملاقات کی اوردونوں لشکر والے اتنے نزدیک ہوگئے تھے کہ گھوڑوں کے کان ایک دوسرے سے ملنے لگے تھے۔ امام ـ نے سب سے پہلے طلحہ پھر زبیر سے گفتگو کی جس کی تفصیل یہ ہے:
امام ـ : تم نے اسلحہ اور پیدل اور سوار فوج کو اکٹھا کر لیا ہے اگر اس کام کے لئے تمہارے پاس کوئی دلیل ہے تو پیش کرو اگر ایسا نہیںہے تو خدا کی مخالفت سے پرہیز کرو اور اس عورت کی طرح نہ ہو جاؤ جس نے اپنے دھاگوں کو خراب کردیاہے ۔ کیامیں تمہارا بھائی نہ تھا اور تمہارے خون کو حرام قرار نہیں دیا تھا اور تم نے بھی میرے خون کو محترم نہیں سمجھاتھا؟ کیا میں نے کوئی ایسا کام کیا ہے جواس وقت میرے خون کو حلال سمجھ رہے ہو؟
طلحہ: آپ نے لوگوں کو عثمان کے قتل کرنے پر اکسایا۔
امام ـ: اگر میں نے ایسا کام ہے تو خداوند عالم قیامت کے دن لوگوں کو ان کے اعمال کی سزا تک پہونچائے گا اور اس وقت لوگوں پر حقیقت واضح ہو جائے گی۔ اے طلحہ ! کیاتوعثمان کے خون کا بدلہ طلب کر رہا ہے؟ خداعثمان کے قاتلوں پر لعنت کرے، تم پیغمبر کی بیوی کو لائے ہو کہ اس کے زیرسایہ جنگ کرو جب کہ اپنی بیوی کو گھر میں بٹھا رکھا ہے کیا تم نے میری بیعت نہیں کی تھی؟
طلحہ: میںنے آپ کی بیعت کی اس لئے کہ میرے سر پر تلوار تھی۔
پھر امام ـ زبیرکی طرف متوجہ ہوئے اور اس سے پوچھا۔ اس نافرمانی کی کیا وجہ ہے؟
زبیر: میں تمہیں اس کام کے لئے اپنے سے زیادہ بہتر نہیں سمجھتا۔
امام ـ : کیامیںاس کام کے لئے سزاوار نہیںہوں؟ (زبیر نے چھ افراد پر مشتمل شوری میں علی کو خلیفہ معین کرنے کے لئے رائے دی تھی) میںنے تمہیں عبدالمطلب کی اولاد میں شمار کیا لیکن جب تیرا بیٹا عبد اللہ بڑاہوا تو ہم لوگوں کے درمیان جدائی پیداکردی۔ کیا تمہیں وہ دن یاد نہیں جس دن پیغمبر اسلام قبیلۂ بنی غنم سے گزر رہے تھے رسول اسلام اور میں دونوں ہنس رہے تھے، تم نے پیغمبر سے کہا کہ علی مذاق کرنے سے باز نہیں آرہے ہیں اور پیغمبر نے تم سے کہا: خدا کی قسم، اے زبیر تو اس کے ساتھ جنگ کرے گا اور اس وقت تم ستم کرنے والے ہوگے۔
زبیر: یہ بات صحیح ہے اگر یہ واقعہ میرے ذہن میں ہوتا تواس طریقے سے پیش نہ آتا خدا کی قسم میں تم سے جنگ نہیں کروں گا۔
زبیر ، امام ـ کی باتیں سن کر بہت متأثر ہوا اور عائشہ کے پاس گیااور پورا واقعہ بیان کیامگر جب عبداللہ اپنے باپ کے ارادے سے باخبرہوا تو بہت زیادہ ناراض ہوکر کہنے لگا ان دو گروہ کو یہاں جمع کیا ہے اور اس وقت کہ ایک گروہ طاقتور ہوا ہے دوسرے والے گروہ کو چھوڑ کر جا رہے ہو؟ خدا کی قسم! علی نے جو تلوار بلند کی ہے تم اس سے ڈر رہے ہو، کیونکہ تم جانتے ہو کہ ان تلواروں کو بہادر اٹھاتے ہیں ۔
زبیر نے کہا: میںنے قسم کھائی ہے کہ علی سے جنگ نہیں کروں گا اب میں کیا کروں؟
عبد اللہ نے کہا: اس کا حل کفارہ ہے ،بہتر ہے کہ ایک غلام آزاد کرو، اس بناء پرزبیر نے اپنے غلام ''مکحول'' کو آزاد کردیا۔
یہ واقعہ زبیر کی سطحی ذہنیت پر دلالت کرتاہے وہ پیغمبر اسلام کی حدیث کو یاد کرتے ہوئے قسم کھاتا ہے کہ علی کے ساتھ جنگ نہیں کرے گا لیکن اپنے بیٹے کے غلط بہکانے پر پیغمبر کی حدیث کو نظر انداز کردیتا ہے اور اپنی قسم کو کفارہ دے کر بے اہمیت کردیتا ہے۔
حالات سے معلوم ہوگیاہے کہ جنگ کا ہونا یقینی ہے لہذا ناکثین نے ارادہ کیا کہ اپنی فوج کو مزید مضبوط اور منظم کریں۔
ایسے علاقوں میں جہاں لوگ قبیلائی نظام کے طور پر زندگی بسر کرتے ہیں وہاں کے سارے امور قبیلہ کے سردار کے ہاتھ میں ہوتے ہیں اور اسے ہر شخص قبول کرتا ہے ۔بصرہ کے قبیلوں کے اطراف میں ایک شخصیت احنف نام کی بھی ہے، اگر وہ ناکثین کے گروہ میں مل جاتا تو اس کی فوج بہت زیادہ طاقتور ہو جاتی اور چھ ہزار سے بھی زیادہ لوگ ناکثین کے زیر پرچم جمع ہو جاتے اور ان کی تعداد میں اضافہ ہوجاتا لیکن احنف نے اپنی ہوشیاری اور عقلمندی سے سمجھ لیاکہ ان کا ساتھ دینا خواہشات نفسانی کے علاوہ کچھ نہیں ہے اس نے اپنی ذہانت سے سمجھ لیا کہ عثمان کا خون صرف ایک بہانہ ہے اور اصل حقیقت ، حکومت حاصل کرنا ہے اور علی کو منصب سے دور کرنے اور خلافت پر قبضہ کرنے کے علاوہ کوئی دوسری چیز نہیں ہے، اسی وجہ سے امام ـ کے حکم کے مطابق اس نے کنارہ کشی اختیار کی اور اپنے قبیلے اوراطراف کے قبیلے سے چھ ہزار آدمیوں کو ناکثین کے گروہ میں شامل ہونے سے بچا لیا ۔
احنف کا ایسے وقت میں کنارہ کشی اختیا رکرنا ناکثین کو بہت ناگوار گزرا، اس کے علاوہ ان کی امیدیں بصرہ کے قاضی، کعب بن سور پر تھیں لیکن جب اس کے پاس پیغام بھیجا تو اس نے بھی ناکثین کا ساتھ دینے سے پرہیز کیا اور جب لوگوں کوخبر ملی کہ اس نے بھی ساتھ دینے سے انکار کردیا ہے تو ارادہ کیا کہ اس سے ملاقات کریں او رروبرو اس سے گفتگو کریں لیکن اس نے ملاقات کرنے سے انکار کردیالہذا اب ان کے پاس عائشہ سے توسل کے علاوہ کوئی اور چارہ نہیںتھا تاکہ وہ اس سے ملنے جائیں۔
عائشہ خچر پر سوار ہوئیں اور بصرہ کے لوگوں کا ایک گروہ ان کی سواری کے اطراف میں چلنے لگا وہ قاضی کے گھر گئیں قاضی سب سے بڑا قبیلہ ''ازد'' کا سردارتھا اور یمنی لوگوں کی نگاہ میںاس کا ایک خاص مقام تھا، عائشہ نے گھر میں داخل ہونے کے لئے اجازت طلب کی اور انھیں اجازت ملی، عائشہ نے اس کی معزولی کی وجہ دریافت کی ۔ اس نے جواب دیا۔ لازم نہیں ہے کہ میں اس فتنہ میں شریک رہوں، عائشہ نے کہا: میرے بیٹے اٹھو کیونکہ میں کچھ ایسی چیزیں دیکھ رہی ہوں جسے تم نہیں دیکھ رہے ہو (ان کا مقصد یہ تھا کہ فرشتے مومنین یعنی ناکثین کی حمایت کیلئے آئے تھے!) پھر انہوں نے کہا میں خدا سے خوف محسوس کر رہی ہوں کہ وہ سخت سزا دینے والا ہے اس طرح بصرہ کے قاضی کو ناکثین کا ساتھ دینے کے لئے راضی کرلیا۔
زبیر کے بیٹے کی تقریر اورامام حسن مجتبیٰ ـ کا جواب
زبیر کا بیٹا اپنی فوج کو منظم کرنے کے بعد تقریر کرنے لگا اور اس کی آواز امام ـ کے دوستوں کے درمیان پہونچی اس وقت امام حسن ـ نے خطبے کے ذریعے عبداللہ کی باتوں کا جواب دیاپھر ایک کہنہ مشق شاعر نے امام حسن ـ کی شان میں قصیدہ پڑھا جس نے موجودہ لوگوں کے جذبات کو ابھار دیا امام مجتبیٰ ـ کا نوارنی کلام اور شاعر کا کلام ناکثین کے گروہ میں بہت زیادہ مؤثرثابت ہوا ،کیونکہ پیغمبر اسلام کی بیٹی کے فرزند نے عثمان کے سلسلہ میں طلحہ کے کردارکو آشکار کردیا یہی وجہ ہوئی کہ طلحہ تقریر کرنے کے لئے کھڑا ہوااور وہ قبیلے جو حضرت علی کے پیرو تھے انھیں منافق کہا، طلحہ کی تقریر ان لوگوںکے رشتہ داروں پر جو کہ طلحہ کی فوج میں تھے بہت گراں گزری،اچانک ایک شخص نے اٹھ کر کہا:اے طلحہ تم مضر، ربیعہ اور یمن کے قبیلے والوں کو گالی دے رہے ہو؟ خدا کی قسم، ہم لوگ ان سے اور وہ لوگ ہم سے ہیں زبیر کے پاس موجود لوگوںنے چاہا کہ اسے گرفتار کریں لیکن قبیلہ بنی اسد کے لوگوں نے منع کیا مگر بات یہیں پر ختم نہ ہوئی بلکہ ایک دوسرا شخص اسود بن عوف کھڑا ہوا اور اس نے بھی پہلے والے شخص کی بات کو دہرایا ۔ یہ تمام باتیں اس بات کی حکایت کرتی ہیں کہ طلحہ جنگجو تھا لیکن ایسے حساس موقع پر سیاست کے اصولوں سے باخبر نہ تھا ۔
حضرت علی علیہ السلام کی تقریر
امام ـایسے حالات میںاٹھے اور ایک فصیح و بلیغ خطبہ ارشاد فرمایا اور اس میں ان چیزوں کو بیان کیا:
''طلحہ اور زبیر بصرہ میں داخل ہوئے جب کہ بصرہ کے لوگ میرے مطیع و فرمانبردار اور میری بیعت میں تھے ان لوگوں نے ان کو میری مخالفت کے لئے اکسایا اور جس نے بھی ان کی مخالفت کی اسے قتل کردیا تم سب لوگ اس بات سے واقف ہو کہ انھوںنے حکیم بن جبلۂ اور بیت المال کے محافظوں کو قتل کر ڈالا اور عثمان بن حنیف کو نا گفتہ بہ صورت میںبصرہ سے نکال دیااب جب ان کی حقیقتوں کا پردہ چاک ہوگیاہے تو جنگ کرنے کے لئے آمادہ ہوگئے ہیں۔
امام ـ کی تقریر کے بعد حکیم بن مناف نے امام ـ کی شان میںاشعار پڑھ کر امام کی فوج میں نئی روح پھونک دی اس کا دو شعر یہ ہے:
أبا حسن أ یقظت من کان نائماً و ما کل من یدعی الی الحق یسمع
اے ابو الحسن! خواب غفلت میں پڑے ہوئے لوگوں کو بیدار کردیا ورنہ ضروری نہیں ہے کہ جس کو حق کی دعوت دی جائے وہ اس کو سنے۔
و أنت امرء أعطیت من کل وجہةٍ محاسنَہا و اللّہ یعطی و یمنع
آپ ایسے شخص ہیں کہ ہر بہترین کمال آپ کوعطاہوا ہے اور خدا جسے بھی چاہے عطا کرے یا عطا نہ کرے۔
امام ـ نے ناکثین کو تین دن کی مہلت دی کہ شایدمخالفت کرنے سے باز آجائیں اور آپ کی اطاعت کرنے لگیں لیکن جب ان کے حق کی طرف آنے سے مایوس ہوگئے تو اپنے چاہنے والوں کے درمیان ایک خطبہ ارشاد فرمایا اور اس میں ناکثین کے دردناک واقعات کو بیان کیا جب امام ـ خطبہ دے چکے تو شداد عبدی اٹھا اور مختصر طور پر اہل بیت پیغمبر سے اپنی صحیح شناخت کو ا س طرح بیان کیا :
''جب گناہگارزیادہ ہوگئے اوردشمن مخالفت کرنے لگے اس وقت ہم نے اپنے پیغمبر کے اہلبیت کے پاس پناہ لی۔ اہل بیت وہ ہیں جن کی وجہ سے خدا نے ہم لوگوں کو عزیز و محترم بنایا اور گمراہی سے ہدایت کی طرف راستہ دکھایا۔ اے لوگو! تم پر لازم ہے ان لوگوں کا دامن تھام لو۔ اور جوادھر ادھر بہک گئے ہیں ( اور ان سے منھ موڑ لیاہے) انھیں چھوڑ دو تاکہ وہ ضلالت و گمراہی کے کھنڈر میں چلے جائیں۔(١)
______________________
(١) الجمل، ص ١٧٩۔ ١٧٨۔
امام ـ کا آخری مرتبہ اتمام حجت کرنا
١٠ جمادی الاول ٣٦ ھ جمعرات کے دن امام ـ اپنے سپاہیوں کے درمیان کھڑے ہوئے اور کہا: جلدی نہ کرو میں آخری مرتبہ اس گروہ پر اپنی حجت تمام کردوں ۔ اس وقت ابن عباس کو قرآن دیا اور کہا یہ قرآن لے کر ناکثین کے سرداروں کے پاس جاؤ اوران لوگوں کو اس قرآن کی دعوت دو اور طلحہ و زبیر سے کہو کیا ان لوگوںنے میری بیعت نہیں کی تھی؟ تو پھر کیوں بیعت کو توڑ دیا؟ اور ان سے کہنا کہ یہ خداکی کتا ب ہمارے اور تمہارے درمیان فیصلہ کرے گی۔
ابن عباس سب سے پہلے زبیر کے پاس گئے اورامام ـ کے پیغام کوان تک پہونچایااس نے امام ـ کا پیغام سن کر جواب دیا۔ میری بیعت اختیاری نہ تھی اور مجھے قرآن کے فیصلے کی ضرورت نہیں ہے، پھر ابن عباس طلحہ کے پاس گئے اور اس سے کہا امیر المومنین نے کہا ہے کہ کیوں تم نے بیعت کو توڑ ڈالا؟ اس نے کہا: میں عثمان کے خون کا بدلہ لینا چاہتا ہوں۔
ابن عباس نے کہا: عثمان کے خون کا بدلہ لینے کے لئے عثمان کا بیٹا ''آبان'' سب سے زیادہ سزاوار ہے۔
طلحہ نے کہا: وہ کمزور آدمی ہے اور ہم اس سے زیادہ طاقتور ہیں۔ سب سے آخر میں ابن عباس عائشہ کے پاس گئے دیکھا کہ وہ اونٹ کے کجاوہ پر سوار بیٹھی ہیں اور اونٹ کی مہار بصرہ کا قاضی کعب بن سور پکڑے ہوئے ہے اور قبیلہ ازد اور ضبہ کے لوگ اس کو چاروں طرف سے گھیرے ہوئے ہیں جب عائشہ کی نظر ابن عباس پر پڑی تو کہا: کس لئے آئے ہو؟ جاؤ اور علی سے کہو کہ ان کے اور ہمارے درمیان تلوار کے علاوہ کوئی دوسری چیز نہیںہے۔
ابن عباس امام ـ کی خدمت میں آئے اور پورا ماجرا بیان کیاامام ـ نے چاہا کہ دوسری مرتبہ اتمام حجت کریں تاکہ واضح و روشن دلیل کے ساتھ تلوار اٹھائیں لہذاآپ نے اس مرتبہ فرمایا: تم میں سے کون حاضر ہے جواس قرآن کواس گروہ کے پاس لے جائے۔ اور انھیں دعوت دے اور اگر اس کے ہاتھ کو کاٹ دیں تواسے دوسرے ہاتھ میں لے لے۔ اوراگر دونوں ہاتھ کاٹ دیں تو اسے دانتوں سے پکڑ لے؟
ایک جوان نے اٹھ کر کہا: اے امیر المومنین میں اس کام کے لئے حاضر ہوں۔ امام ـ نے پھر اپنے دوستوں کے درمیان آواز دی لیکن اس نوجوان کے علاوہ کسی نے امام ـ کی آواز پر لبیک نہ کہا، لہٰذا امام ـ نے قرآن اسی جوان کو دیا اور کہا قرآن لے کر ان کے پاس جاؤ اور ان سے کہو کہ یہ کتاب ابتدا سے انتہا تک ہمارے اور تمہارے درمیان حاکم ہے۔
وہ نوجوان امام ـ کے حکم کے مطابق قرآن لے کر دشمنوں کو پاس گیا دشمنوں نے اس کے دونوں ہاتھوں کو کاٹ دیا اس نے قرآن کو دانتوں سے دبایایہاں تک کہ دنیا سے رخصت ہوگیا۔(١)
اس واقعہ نے جنگ کو قطعی او رناکثین کی دشمنی کو واضح کردیا، اس کے باوجود امام ـ نے اپنا لطف و کرم دکھایا اور حملہ کرنے سے پہلے ارشاد فرمایا:
''میں جانتا ہوں کہ طلحہ و زبیر جب تک لوگوں کا خون نہیں بہالیں گے اپنے کام سے باز نہیں آئیں گے لیکن تم لوگ اس وقت تک جنگ شروع نہ کرنا جب تک وہ جنگ شروع نہ کریں ، اگر ان میں سے کوئی بھاگے تو اس کا پیچھا نہ کرنا، زخمیوں کو قتل نہ کرنا، اور دشمنوں کے بدن سے کپڑے نہ اتارنا''۔(٢)
______________________
(١) تاریخ طبری ج٣ ص ٥٢٠۔
(٢) کامل ابن اثیر ج٣ ص ٢٤٣۔
|