فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)
 

آٹھویں فصل
خونریز پوزش
ایسے حالات ہوگئے تھے کہ ناکثین کے سردار اپنے کو طاقتور سمجھنے لگے اور ابھی عثمان کے پاس خط بھیجے ہوئے کچھ ہی دن گزرے تھے کہ ایک سردرات میں نماز عشاء کے وقت یاایک قول کی بنا پر نماز صبح کے وقت مسجد اور دار الامارہ پر حملہ کردیا اور مسجد و دار الامارہ اور زندان کے محافظوں کو قتل کر کے (کہ جن کی تعداد میں اختلاف ہے) شہر کے اہم مقامات پر قبضہ کرلیااور پھر لوگوں کواپنا ہمنوا بنانے کے لئے تمام سرداروں نے تقریریں کیں۔
طلحہ نے مقتول خلیفہ کی عظمت بیان کرتے ہوئے کہا: خلیفہ نے گناہ کیا تھا مگر پھر توبہ کرلیا تھا ہم نے ابتداء میں چاہا تھا کہ ان کو سمجھائیں ، لیکن ہمارے نادان لوگوںنے ہم پر غلبہ پیدا کرکے ان کو قتل کردیا ابھی یہیں تک کہنے پائے تھے کہ لوگوں نے کہا: تم نے جو خطوط خلیفہ کے متعلق لکھے تھے اس کا مضمون اس کے برعکس تھا، تم نے تو ہم لوگوں کو ان کے خلاف اقدام کرنے کی دعوت دی تھی۔
اس وقت زبیر اٹھا اور اپنی صفائی پیش کرتے ہوئے کہا : میری طرف سے تو کوئی خط تم لوگوں تک نہیں پہونچا اس وقت قبیلۂ ''عبد القیس'' کا ایک شخص کھڑا ہوااور چاروں خلیفہ کی خلافت کی سرگذشت بیان کی اس کی گفتگو کا خلاصہ یہ تھا کہ تمام خلفاء کا انتخاب تم لوگوں یعنی مہاجرین و انصار نے کیا اور ہم لوگوں سے مشورہ تک نہیں لیا یہاں تک کہ تم لوگوں نے علی کے ہاتھ پر بیعت کرلی اور پھر بھی ہم لوگوں سے مشورہ نہیں لیااب کیا بات ہوئی کہ ان کے خلاف اٹھ کھڑے ہو ؟
کیا انھوں نے مال و دولت دبالیاہے کیاحق کے خلاف عمل کیاہے؟ یا خلاف شرع قدم اٹھایا ہے؟ اگریہ کچھ نہیں ہے تو یہ شور و ہنگامہ کیسا ہے؟
اس کی ٹھوس اور منطقی بات نے دنیا پرستوں کے غصے کو اور زیادہ کردیا اور انہوں نے چاہا کہ اسے قتل کردیں لیکن اس کے قبیلے والوں نے اسے بچالیا لیکن دوسرے دن حملہ کرکے اسے اوراس کے ستر ساتھیوںکو قتل کردیااور حکومتی امور کو یعنی نماز جماعت سے لے کربیت المال تک کو اپنے ہاتھوں میں لے لیا اور اپنے مقصد میں کچھ حد تک کامیاب ہوگئے ۔(١)

حاکم بصرہ کا انجام
حاکم بصرہ کا امام ـ کے بارے میں ثابت قدم رہنا ناکثین کے سخت غصہ کا سبب بنا، لہذا جیسے ہی عثمان کے پاس پہونچے توانہیں مارا پیٹا اور ان کے سر اور داڑھی کے بال اکھیڑ ڈالے ، پھر انکو قتل کرنے کے لئے مشورہ کرنے لگے اورآخرمیں یہ طے کیا کہ انہیں رہا کردیں ، کیونکہ ان لوگوں کو اس بات کا ڈر تھا کہ ان کا بھائی سہیل بن حنیف مدینہ میںسخت انتقام لے گا۔
عثمان بن حنیف مولائے کائنات سے ملنے کے لئے بصرہ سے روانہ ہوئے اور جب امام نے انہیں اس حالت میں دیکھا تو مذاق میں کہا جب تم یہاں سے گئے تھے توبوڑھے تھے اوراب ایک خوبصورت جوان کی طرح واپس ہوئے ہو عثمان نے تمام واقعات سے امام ـ کو باخبر کیا
جو افراد اس خونریز یورش میں قتل ہوئے ان کی تعداد کے بارے میں اختلاف ہے، طبری نے اپنی تاریخ اور جزری نے اپنی کتاب کامل میں مرنے والوں کی تعداد ٤٠ لکھی ہے لیکن ابن ابی الحدید نے ان کی تعداد ٧٠ اور ابو مخنف نے (اپنی کتاب جمل میں) ان کی تعداد ٤٠٠تحریرکی ہے۔(٢)
اس سے زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ ناکثین کے گروہ نے اس گروہ پر جو مسجد ، دارالامارہ اور قیدخانہ کے محافظ تھے، دھوکہ اور فریب سے حملہ کیا اور تمام لوگوں کو بے دردی کے ساتھ موت کے گھاٹ اتار دیا۔
______________________
(١) تاریخ طبری ج٣ ص ٤٨٥؛ کامل ج٣ ص ٢١٧؛الامامة والسیاسة ج١ ص ٦٥۔
(٢) شرح ابن ابی الحدید ج٩ ص ٣٢١۔

حکیم بن جبلّہ کا اقدام
اسی دوران حکیم بن جبلّہ کو عثمان کے اس دردناک واقعہ اور دار الامارہ کے محافظوں کے دردناک قتل نے سخت رنجیدہ کردیا۔ چنانچہ قبیلہ عبدالقیس کے تین سو افراد کے ساتھ ارادہ کیا کہ (طلحہ و زبیر کے لشکر سے) جنگ کرنا چاہا اسی وجہ سے انہوں نے چار گروہ اپنے تین بھائیوں کی ہمراہی اور ہر گروہ کے لئے ایک کمانڈر (سردار) معین کیا تاکہ ناکثین پر حملہ کریں۔ ناکثین نے حکیم سے مقابلہ کرنے کی تشویق دلانے کے لئے
پہلی مرتبہ رسول خدا کی بیوی کو اونٹ پر بٹھایا اور ان کی موجودگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے لوگوں کو اپنی طرف جذب کرلیا یہی وجہ ہے کہ حکیم کے قیام کرنے والے دن کو ''جمل کے دن''سے تعبیر کیا ہے اور اس کی اہمیت کے لئے اس جمل کے پہلے مشہور دن کو چھوٹی صفت اور دوسرے جمل کے دن کوبڑی صفت سے منسوب کیا ہے۔
اس جنگ میں حکیم کے تمام تین سو سپاہی اوران کے تینوں بھائی قتل ہوگئے اس طرح سرزمین بصرہ کی حکومت بغیر کسی اختلاف کے طلحہ و زبیر کے ہاتھوں میں آگئی، لیکن ان میں سے ہر ایک حکومت و حاکمیت چاہتا تھا نماز جماعت کی اقتدا کے سلسلے میں بہت سخت اختلاف ہوگیاکیونکہ اس وقت جس کی اقتدا میں نماز ہوتی لوگ اس کی حکومت تصور کرتے ۔جب عائشہ کو ان دونوں کے اختلاف کی خبر ملی تو حکم دیا کہ دونوں اس مسئلہ سے کنارہ کشی اختیار کرلیں اور نماز کی امامت کی ذمہ داری طلحہ و زبیر کے بیٹوں کو سونپ دی۔ لہذا ایک دن عبداللہ بن زبیر اور دوسرے دن محمد بن طلحہ نماز کی امامت کرتے تھے۔
اور جب بیت المال کے دروازے کو کھولا گیااور ان لوگوں کی نگاہیں مسلمانوں کی بے انتہا دولت پر پڑی تو زبیر نے اس آیت کی تلاوت کی:
'' وَعَدَکُمْ اﷲُ مَغَانِمَ کَثِیرَةً تَْخُذُونَہَا فَعَجَّلَ لَکُمْ ہَذِہِ''۔(١)
خداوند عالم نے بے شمار مال غنیمت کا تم سے وعدہ کیا ہے جسے تم حاصل کر رہے ہو اور اس مال و دولت کو تمہارے سامنے رکھ دیا ہے۔
پھر کہتا ہے : بصرہ کے لوگوں سے زیادہ اس دولت کے ہم سزاوار اور حقدار ہیں اس وقت تمام مال کو ضبط کرلیا۔ اور جب امام ـ نے بصرہ پر قبضہ کرلیا تو تمام مال کو ''بیت المال'' میں واپس کردیا۔(٢)
______________________
(١) سورۂ فتح ، آیت ٢٠۔
(٢) شرح نہج البلاغہ ج٩ ص ٣٢٢؛ تاریخ طبری ج٣ کامل ،ج٣

حضرت علی علیہ السلام کا اس حملہ سے باخبر ہونا
ربذہ کی سرزمین حادثات و واقعات کی آماجگاہ ہے، امام ـ کو اس علاقہ کے متعلق کافی معلومات تھی خصوصاً اس دن سے جب ربذہ پیغمبر اسلام کے اہم صحابیوں خصوصاً پیغمبر کے عظیم صحابی جناب ابوذر کو جلا وطن کر کے
وہاںبھیجا گیا جن کا جرم صرف یہ تھا کہ وہ تبعیض اور اسراف وغیرہ کے خلاف بولتے تھے کئی سال بعد خداوند عالم نے مولائے کائنات کو یہ موقع فراہم کیاکہ عہد و پیمان توڑ نے والوں کواس سرزمین پر گرفتار کریں۔
امام ـ اس سرزمین پر موجود تھے کہ عہد و پیمان توڑ نے والوں کے خونی حملہ کی خبر ملی اور یہ بھی پتہ چلا کہ طلحہ و زبیر بصرہ شہر میں داخل ہوگئے ہیں اور مسجد، دار الامارہ اور قیدخانہ کے محافظوں کو قتل کردیا ہے اور سیکڑوں افراد کو قتل کر کے شہر پر قبضہ کرلیا ہے اور امام ـ کے نمائندے کو زخمی کرنے کے بعدان کے سر اور داڑھی کے بال اکھاڑ ڈالا اور انھیں شہر سے باہر نکال دیا اور بے ہودہ خبریں پھیلا کر بصرہ کے قبیلوں سے بعض گروہ کو اپنی طرف جذب کرلیاہے۔
اس سلسلے میں امام ـ کا نظریہ تھا کہ ناکثین کے وجود کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے لئے کوفہ والوں سے مدد لی جائے ، کیونکہ سرزمین عراق پر صرف آپ کا ایک علاقہ باقی تھا اور وہ شہر کوفہ اور اس کے اطراف کے قبیلے والے تھے لیکن اس راہ میں کوفہ کا حاکم ابو موسی اشعری مانع تھا۔ کیونکہ ہر طرح کے قیام کو فتنہ کا نام دیتا اور لوگوںکو امام ـ کی مدد کرنے سے روکتا تھا۔
مہاجرین و انصار کی بیعت سے پہلے ابوموسیٰ اشعری امام ـ کے ساتھ رہتے ہوئے کوفہ کا حاکم تھا اور جب امام ـ کی حکومت آئی تو مالک اشتر کے مشورے سے اسے اس کے منصب پر باقی رکھا ،مالک اشتر کے نظریہ کے علاوہ ابوموسی اشعری کا طریقہ و روش بیت المال میںاسراف اور ناخواہشات کے مطابق خرچ کرنا تھا یہی وجہ تھی جس نے عثمان کے تمام حاکموں سے اسے الگ کر رکھا تھا۔
جی ہاں، امام ـ نے مناسب سمجھا کہ کچھ اہم شخصیتوں کو کوفہ روانہ کریںاور اس سلسلے میںابو موسی اور کوفہ کے لوگوں کے پاس خط بھیجیں تاکہ اپنے لشکر کے افراد کے لئے زمینہ ہموار کریںاور اگر ایسا نہ ہو تو حاکم کو معزول کر کے اس کی جگہ پر کسی دوسرے کو معین کریں اس سلسلے میں امام ـ نے جو کارنامے انجام دیئے اس کی تفصیل یہ ہے:

١۔ محمد بن ابوبکر کو کوفہ بھیجنا
امام ـ نے محمد بن ابوبکر اور محمد بن جعفر کو خط دے کر کوفہ روانہ کیا تاکہ ایک عمومی مجمع میں کوفہ کے لوگوں سے امام ـ کی مدد کے لئے لوگوں کو آمادہ کریں، لیکن ابوموسی کی ضد نے ان دونوں آدمیوں کی محنت کو بے نتیجہ کردیا جس وقت لوگوں نے ابوموسی کے پاس رجوع کیا تواس نے کہا: ''القعود سبیل الآخرة و الخروج سبیل الدنیا''(١) یعنی گھر میں بیٹھنا راہ آخرت ہے اور قیام کرنا راہ دنیا ہے (جس کو تم چاہو انتخاب کرلو) اسی وجہ سے امام ـ کے نمائندے بغیر کسی نتیجہ کے کوفہ سے واپس آگئے اور ''ذی قار'' نامی جگہ پر امام ـ سے ملاقات کیا اور تمام حالات امام ـ سے بیان کئے۔

٢۔ ابن عباس اور مالک اشتر کو کوفہ روانہ کرنا
امام ـ کی دوسرے امور کی طرح اس امر میں بھی یہی کوشش تھی کہ یہ سلسلہ رک نہ جائے اور اس سے زیادہ شدید اقدام نہ کرنا پڑے لہذا مصلحت دیکھی کہ ابو موسی کو روانہ کرنے سے پہلے دو عظیم و مشہور شخصیتوں یعنی ابن عباس اور مالک اشتر کو کوفہ روانہ کریں تاکہ گفتگو کے ذریعے مشکل کا حل نکال لیں ، مالک اشتر سے فرمایا کہ جس کام کو تم نے انجام دیاہے اور اس کا نتیجہ غلط نکلا ہے ضروری ہے کہ اس کی اصلاح کرو اس کے بعد یہ دونوںکوفہ کے لئے روانہ ہوگئے اور ابو موسی سے ملاقات اور گفتگو کی۔
اس مرتبہ ابوموسی نے اپنی گفتگو کا رخ دوسری طرف موڑتے ہوئے ان لوگوں سے کہا:
''ہٰذِہِ فِتْنَةُ صَمَّائُ، النَّائِمُ فِیْہٰا خَیْر مِنَ الْیَقْظَانِ وَ الْیَقْظَانُ خَیْر مِنَ الْقَاعِدِ وَ الْقَاعِدُ خَیْر مِنَ الْقَائِمِ وَ الْقائِمُ خَیْر مِنَ الرَّاکِبِ وَالرَّاکِبُ خَیْر مِنَ السَّاعِیْ''(٢)
یہ فتنہ ہے کہ سوتا ہوا انسان جاگتے ہوئے انسان سے بہتر ہے اور جاگنے والا بیٹھنے والے سے بہتر ہے اور بیٹھنے والا کھڑے ہونے والے سے بہتر ہے اور کھڑا ہونے والا سوار سے بہتر اور سوار ساعی (یعنی کوشش کرنے والے یا قوم کے سردار) سے بہتر ہے۔
پھر اس نے کہا: اپنی تلواروں کو میان میں رکھ لو۔
اس مرتبہ بھی امام ـ کے نمائندے بہت زیادہ تلاش و کوشش کے باوجود مایوس امام کے پاس لوٹ آئے اور ابوموسی اشعری کی دشمنی اور بغض و حسد سے امام ـ کو باخبر کیا۔
______________________
(١) تاریخ طبری، ج٣، ص ٣٩٣۔٤٩٦
(٢) تاریخ طبری، ج٣، ص ٤٩٦۔
٣۔ امام حسن ـ اور عمار یاسر کو کوفہ روانہ کرنا
اس مرتبہ امام ـ نے ارادہ کیا کہ اپنا پیغام بھیجنے کے لئے اس سے بھی زیادہ عظیم المرتبت شخصیتوں سے مدد لیں اور سب سے زیادہ شائستہ افراد اس کام کی انجام دہی کے لئے آپ کے عظیم المرتبت فرزند امام حسن مجتبیٰ ـ اور عمار یاسر تھے ،پہلی شخصیت پیغمبر اسلام کی بیٹی فاطمہ زہرا (س) کے فرزند تھے جو ہمیشہ آپ کی محبت و عطوفت کے سائے میں رہتے تھے اور دوسری شخصیت اسلام قبول کرنے والوں میں سبقت کرنے والے کی تھی جس کی تعریف مسلمانوں نے رسول اسلام سے بہت زیادہ سنی تھی۔ یہ دونوں شخصیتیں امام ـ کا خط لے کر کوفہ میں وارد ہوئے سب سے پہلے امام حسن مجتبیٰ ـ نے لوگوں کے سامنے امام ـ کا خط پڑھ کر سنایا جس کا مضمون یہ تھا۔
یہ خط خدا کے بندے امیر المومنین علی کی طرف سے (اہل کوفہ کے نام) ہے۔
اہل کوفہ(١) جو انصار کا چہرہ مہرہ اور عربوں کی سربلندی کا سہرا ہیں۔ اما بعد: میں تمہیں عثمان کے معاملے (قتل) سے یوں آگاہ کرتا ہوں جیسے تم اس واقعہ کو سن ہی نہیں رہے ہو بلکہ دیکھ بھی رہے ہو حقیقت یہ ہے کہ تمام لوگوںنے انہیں مورد الزام ٹھہرایا باوجود ان تمام حالات کے، مہاجرین میں فقط میںہی ایک واحد مرد تھا جس سے وہ سب سے زیادہ مطمئن اور خوش تھے اور فقط مجھ ہی پر ان کا عتاب سب سے کم تھا حالانکہ طلحہ و زبیر کا ان کی مخالفت میں یہ عالم تھا کہ ان دونوں کی ہلکی سی ہلکی چال بھی ان کے خلاف سر پٹ دوڑ کا حکم رکھتی تھی اور (اس دوڑ میں) ان دونوں کی دھیمی سے دھیمی آواز بھی بانگ درشت سے بازی لے گئی تھی۔ اس پر عائشہ کے غضب کے لاوے نے اچانک پھوٹ کر عثمان کے خلاف جلتی آگ پر تیل کا کام کیا۔ اب کیا تھا (ایک دو تین نہیں) اچھی خاصی جمعیت ان کے خلاف تیار کر لی گئی چنانچہ اسی جمعیت نے عثمان کو قتل کر ڈالا اور تمام لوگوںنے کسی مجبوری و اکراہ سے نہیں، بلکہ رضا و رغبت اور پورے اختیار سے میرے ہاتھ میں ہاتھ دے دیا (یعنی بیعت کی)۔
______________________
(١) امام ـ کے خط میں یہاں پر لفظ ''جبہة الانصار'' استعمال ہوا ہے اور جبہہ کے معنی پیشانی اور گروہ کے ہیںاورانصار سے مراد یاور و دوست ہیں نہ کہ مہاجر کے مقابلے میں لفظ انصارہے ، کیونکہ امام ـ کا مدینہ سے کوفہ ہجرت کرنے سے پہلے اس شہر کو''مرکز انصار'' کے نام سے نہیں جانا جاتا تھا۔
اے لوگو! دار الہجرت کے مکین و مکان ایک دوسرے کودور پھینک رہے ہیں اور شہر (کا خون) یوں کھول رہا ہے جیسے دیگ جوش کھاتی ہے غرض فتنہ کی چکی کا پاٹ اپنی کیلی سے پیوست ہوچکا ہے (اور چکی چلنے کو تیار ہے) لہذا اپنے امیر کی طرف تیزی سے دوڑ تے ہوئے آؤ اور اپنے دشمن سے جہاد کے لئے آگے بڑھو''۔(١)
جب امام حسن ـ ،امام کا خط لوگوں کو پڑھ کر سنا چکے تو اب امام ـ کے نمائندوں کی نوبت آئی کہ وہ گفتگو کریں اور لوگوں کے ذہنوں کو بیدار کریں جس وقت امام حسن ـ نے تقریر شروع کی اس وقت سب کی نگاہیںان کی طرف متوجہ تھیں اور تمام سننے والوں کے لبوں پر ان کے لئے دعائیں تھیں اور خدا سے دعا کر رہے تھے کہ ان کے ارادوں کو قائم کردے، حضرت مجتبیٰ ـ نے نیزہ یا عصا پر تکیہ کرتے ہوئے اس طرح سے اپنی گفتگو شروع کی۔
''اے لوگو! ہم لوگ یہاں اس لئے آئیںہیں کہ تم لوگوںکو قرآن مجید اور پیغمبر کی سنت اور سب سے زیادہ دانااورصحیح فیصلہ کرنے والے، اور سب سے شائستہ فرد کی مسلمانوں سے بیعت لیں اور تم لوگوں کو ایسے شخص کی دعوت دیں جس پر قرآن نے اعتراض نہیں کیاہے اور اس کی سنت کا انکار نہیں کیااور ایمان میں جو شخص آپ(پیغمبر) سے دو نسبت رکھتا تھا (ایمان اور رشتہ داری) سب میں سبقت رکھتا تھا اور کبھی بھی انہیں تنہا نہیں چھوڑا جس دن لوگ انہیں اکیلا چھوڑ کر بہت دور چلے گئے تھے تو خدا نے اس کی مدد کو کافی جانا اور وہ پیغمبراسلام(ص) کے ساتھ نماز پڑھتا تھا جب کہ دوسرے افراد مشرک تھے۔
اے لوگو! ایسی شخصیت تم سے مدد مانگ رہی ہے اور تمہیں حق کی طرف بلا رہی ہے اور اس کی آرزو ہے کہ تم اس کی پشتیبانی کرو اور وہ گروہ جس نے تم سے اپنے عہد و پیمان کو توڑ دیا ہے اور اس کے متقی و متدین ساتھیوں کو قتل کردیا ہے اور اس کے بیت المال کو برباد کردیاہے تم لوگ اس کے مقابلے میں قیام کرو۔ اٹھو اور بیدار ہو جاؤ کہ خدا کی رحمت تم پر سایہ فگن ہے تم لوگ اس کی طرف بڑھو اور اچھے کام کا حکم دو اور بری چیزوں سے لوگوں کو منع کرو اور جس چیز کو صالح افراد آمادہ کر رہے ہیں انھیں تم بھی آمادہ کرو۔
______________________
(١) نہج البلاغہ، نامہ ١۔
ابن ابی الحدید نے مشہور و معروف مؤرخ ابو مخنف سے امام حسن ـ کی دوتقریریں نقل کی ہیں اور ہم نے صرف ایک کے ترجمہ پر ہی اکتفاء کیا ہے امام حسن مجتبیٰ ـ کی دو نوں تقریریں امام علی علیہ السلام کی شخصیت اوران کے لطف و محبت کی وضاحت کرتی ہیں جو کہ حیرت انگیز ہے۔(١)
جب امام حسن ـ کی تقریر ختم ہوئی اس وقت عمار یاسر اٹھے او رخدا کی حمد و ثنا اور محمد و آل محمد پر سلام و درود کے بعد لوگوں سے اس طرح مخاطب ہوئے:
اے لوگو! پیغمبر کا بھائی تمہیں خدا کے دین کی مدد کے لئے آواز دے رہا ہے تم پر لازم ہے کہ وہ امام جس نے کبھی بھی شریعت کے خلاف کوئی کام نہیں کیا۔ وہ ایسا دانشمند ہے جسے تعلیم کی ضرورت نہیں، اور ایسا بہادر جو کسی سے بھی نہیں ڈرتا، اور اسلام کی خدمت کرنے میں اس کا کوئی بھی مقابلہ نہیں کرسکتا، اگر تم لوگ اس کی خدمت میں حاضر ہو تو پوری حقیقت سے تم لوگوں کو آگاہ کردے گا۔
پیغمبر کے فرزند اورعظیم المرتبت صحابی کی تقریروںنے لوگوںکے قلو ب کو بیدار اوران کے ذہنوں کو جلا بخش دی اور وہ کام جسے سادہ لوح حاکم نے روک کر رکھا تھااس سے دور ہوگئے کچھ ہی دیر گزری تھی کہ تمام لوگوں کے اندر جوش و خروش پیدا ہوگیا، خصوصاً اس وقت جب زید بن صوحان نے عائشہ کا خط کوفیوں کو پڑھ کر سنایا اور سب کو حیرت میں ڈال دیا، اس نے زید کے لئے خط میں لکھا تھا کہ اپنے گھر میں بیٹھے رہو اور علی کی مدد نہ کرو، زید نے خط پڑھنے کے بعد بلند آواز سے کہا: اے لوگو! ام المومنین کا فریضہ گھر میں بیٹھناہے اور میرا فریضہ میدان جنگ میں جہاد کرنا ہے اس وقت وہ ہمیںاپنے فریضے کی طرف بلا رہی ہیں اور خود ہمارے فریضے پر عمل کر رہی ہیں۔
ان تمام واقعات کی وجہ سے لوگوں نے امام ـ کے حق میںاپنے نظریے کو بدل دیااور بہت سے گروہ نے امام ـ کی مدد کرنے کے لئے اپنی آمادگی کا اعلان کردیا۔ اور تقریباً بارہ ہزار افراد اپنے گھر اور زندگی چھوڑ کر امام ـ کی خدمت میں روانہ ہوگئے۔
ابو الطّفیل کہتا ہے: امام ـ نے کوفہ کے اس گروہ کے پہونچنے سے پہلے مجھ سے کہا میرے چاہنے والے جو کوفہ سے میری طرف آرہے ہیںان کی تعداد بارہ ہزار ایک آدمی پر مشتمل ہے جب یہ لوگ امام کے
______________________
(١) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج١٤ ص ١٤۔ ١١؛ تاریخ طبری ج٣ ص ٥٠٠۔ ٤٩٩۔
پاس پہونچ گئے تو ہم نے شمار کرنا شروع کیا تو کل تعداد بارہ ہزار ایک تھی، نہ ایک آدمی کم تھا نہ ایک آدمی زیادہ۔(١)
لیکن شیخ مفید نے ان سپاہیوں کی تعداد جو کوفہ سے امام کی طرف آئی تھی کل چھ ہزار چھ سو لکھا ہے اور مزید کہتے ہیں امام ـ نے ابن عباس سے کہا کہ دو دن میں (چھ ہزار چھ سو افراد) لوگ میری طرف آئیںگے اور طلحہ و زبیر کو قتل کردیں گے اور ابن عباس کہتے ہیں کہ جب ہم نے سپاہیوں کو شمار کیا تو ان کی تعداد چھ ہزار چھ سو افراد پر مشتمل تھی۔(٢)

ابوموسیٰ اشعری کی ناکام کوشش
ابوموسیٰ کوفہ کے حالات بدلنے کی وجہ سے بہت سخت ناراض ہوا اورعمار یاسر کو مخاطب کر کے کہا: ''میں نے پیغمبر سے سناہے کہ بہت جلد ہی فتنہ برپا ہوگا جس میں بیٹھنے والے کھڑے ہونے والے سے بہتر ہوں گے اور یہ دونوں سوار افراد سے بہتر ہوں گے اور خداوند عالم نے ہمارے خون اور مال کوایک دوسرے پر حرام قرار دیا ہے''۔
عمار کے دل و دماغ میں ابو موسیٰ اشعری کے خلاف جو نفرت بھری تھی اس بنا پر کہا: ہاں، پیغمبر خدا نے تجھے مراد لیا ہے اور تیرے بارے میں کہا ہے اور تیرا بیٹھنا تیرے قیام سے بہتر ہے نہ کہ دوسرے افرادکا۔(٣)
یہاں پر اس حدیث کے سلسلے میں تھوڑا غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے۔
اگر ہم فرض بھی کرلیں کہ پیغمبر نے ایسی حدیث بیان فرمائی ہے لیکن یہ کیسے معلوم کہ پیغمبر کامقصد جمل کا واقعہ ہے؟ کیاایسے گروہ کا مقابلہ کرنا جس نے چار سو لوگوں کے سروں کو بکریوں کی طرح جدا کردیا ہے ایسا فتنہ ہے کہ اس میں بیٹھنے والا کھڑے ہونے والے سے بہتر ہے؟!
پیغمبر کی وفات کے بعد بہت سارے واقعات رونما ہوئے ، مثلاً سقیفہ سے عثمان کے قتل تک، ممکن
ہے پیغمبر کی حدیث اس واقعے کے متعلق ہو؟! اگر تاریخ کے اوراق کا جائزہ لیں اور ١١ھ سے ٣٥ ھ تک کے واقعات کونظر میں رکھیں تو معلوم ہوگا کہ بہت سے ایسے واقعات ہیں جو بہت زیادہ افسوس کے لائق ہیں کیامالک بن نویرہ کے تلخ واقعہ کو ایک معمولی واقعہ سمجھ سکتے ہیں؟ خلیفہ سوم کے زمانے کے حادثوں کو اور اسی طرح مومن و متدین افراد پر ظلم و ستم اورانھیں جلا وطن کرنا وغیرہ، کیا انہیں فراموش کیا جاسکتا ہے؟ اور کیوں یہ حدیث معاویہ او رمروان اور عبد الملک کے خلافت کے زمانے سے مخصوص نہ ہو ؟
اس کے علاوہ ، اسلام کے پاس ایسے اصول ہیں جنھیںکسی وقت بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا اورانھیں میں سے ایک اولی الامر کی اطاعت ہے۔ خلیفہء منصوص (اللہ کا منتخب کردہ) یا مہاجرین و انصار کی طرف سے منتخب خلیفہ کی اطاعت ایک اسلامی فریضہ ہے جس کی تمام لوگوں نے تائید کی ہے اور ابوموسیٰ اشعری نے بھی امام ـ کو ''ولی امر'' مانا ہے کیونکہ اس نے حضرت کے حکم کو قبول کیا ہے اور کوفہ کی حکومت پر حاکم کے طور پر باقی رہا ہے اور اس کے بعد جو بھی کام انجام دیتا تھا وہ علی کے والی و حاکم کے عنوان سے انجام دیتا تھا۔ ایسی صورت میں حدیث مجمل کواس آیت کریمہ ''اطیعو ا اللّہ و اطیعو ا الرسول و اولی الامر منکم'' کے مقابلے قرار نہیں دینا چاہئے اور نص قرآنی کی مخالفت نہیں کرنی چاہئے ۔
______________________
(١) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج١٤،ص ١٤۔ ١١؛ تاریخ طبری ج٣ ص ٥٠٠۔ ٤٩٩۔
(٢) جمل ص ١٥٧۔
(٣) تاریخ طبری ج٣ ص ٤٩٨۔

ابوموسیٰ اشعری کی معزولی
متعدد نمائندوں کو بھیجنے کے بعد اور تمام کوششوں کے بے اثر ہونے کی وجہ سے امام ـ کے لئے ضروری تھا کہ ابوموسیٰ اشعری کو اس کے منصب سے معزول کردیں۔ امام ـ نے اس کے پہلے بھی کئی خط لکھ کر اس پر اپنی حجت تمام کردی تھی ،آپ نے اسے لکھا تھا کہ ''میں نے ہاشم بن عبتہ کو روانہ کیا ہے کہ وہ تمہاری مدد سے مسلمانوں کو میری طرف روانہ کرے، لہذا تم اس کی مدد کرو اور میںنے تمہیںاس منصب پر باقی رکھا کہ حق کے مددگار رہو۔
جب امام ـ خط بھیجنے اور عظیم شخصیتوں کو روانہ کرنے کے بعد حاکم کوفہ کی فکرونظر بدلنے سے مایوس ہوئے تو امام حسن ـ کے ہمراہ ابوموسیٰ اشعری کوایک خط بھی لکھا اورباقاعدہ طور پر اسے ولی عہدی سے معزول کردیا اور قرظہ بن کعب کو اس کی جگہ منصوب کردیا ۔ امام کے خط کی عبارت یہ ہے:'' فقدکنت أریٰ أن تعزبَ عن ھذا الامر الذی لم یجعل لک منہ نصیباً سیمنعک من ردِّ أمری وقد بعثتُ الحسن بن علیٍ وعمار بن یاسر یستنفران الناس وبعثت قرطة بن کعب والیاً علی المصرفا عتزل عملنا مذموماً مدحوراً ''
''اسی میں مصلحت دیکھتا ہوںکہ تم اپنے منصب سے کنارہ کشی اختیار کر لو اس مقام کے لئے خداوند عالم نے تمہارا کوئی حصہ نہیں رکھا ہے اور خدا نے تمہاری مخالفت سے مجھے روک دیا ہے؟ میںنے حسن بن علی اور عمار یاسر کو بھیجا ہے تاکہ لوگوں کو ہماری مدد کے لئے آمادہ کریں اور قرظہ بن کعب کو والی شہر قرار دیا ہے تم ہمارے امور سے دور ہو جاؤ تم سب کی نگاہوں سے گر چکے ہو اور لعنت کے مستحق ہو''۔
امام ـ کے خط کے مضمون سے شہر کے سارے لوگ باخبر ہوگئے اور کچھ ہی دنوں بعد مالک اشتر نے کوفہ جانے کی درخواست کی اور امام ـ نے انھیں کوفہ روانہ کردیا اور دار الامارہ کواپنے قبضے میں لے کر نئے والی شہر کے حوالے کردیا اور ابوموسیٰ کوفہ میںایک رات رہنے کے بعد شہر سے چلا گیا۔(١)
______________________
(0) تاریخ طبری ج٣ ص ٥٠١۔