فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)
 

چوتھی فصل
حضرت علی علیہ السلام سے مخالفت کے اسباب
امام علی کے انتخاب کے بعد مسلمانوں کے درمیان جو اختلاف و جدائی پیدا ہوئی وہ بالکل الگ تھی اور خلفاء ثلاثہ کے دور اقتدار میں کبھی بھی ایسا اختلاف نہیں تھا، یہ بات حقیقت ہے کہ خلیفۂ اول اختلاف اور جھگڑے کے ذریعے منتخب ہوئے اور انہیںان لوگوںکے اعتراضات کا سامنا کرنا پڑاجو خلافت کو خدا کی جانب سے انتصابی مقام جانتے تھے لیکن زیادہ دنوں تک یہ سلسلہ باقی نہ رہا اورحالات ٹھیک ہوگئے اور مخالف گروہوں نے اسلام کی عالیترین مصلحتوں کے مد نظر اپنی زبانوں کو بند کر رکھا اور اپنے حقوق کو نظر انداز کردیا۔
خلیفہ اول و دوم کا انتخاب اگرچہ بغیر اختلاف کے نہ تھا مگر کچھ ہی دنوں میں شور و غل ختم ہوگیا اور دونوں خلیفہ نے حالا ت پر قابو پالیا، لیکن حضرت علی علیہ السلام کے خلیفہ بننے کے بعد ایک گروہ کھلم کھلا مخالفت کرنے لگا اور امت کے درمیان سخت ترین شگاف پیدا کردیا۔
حضرت علی علیہ السلا م کی حکومت سے مخالفت کی وجہ بہت قدیمی تھی مخالفوں کے رشتہ دار حضرت علی کے ہاتھوں جنگوں میں مارے جاچکے تھے۔ بیعت کے دن ولید بن عتبہ نے علی علیہ السلام سے کہا ، میرے باپ جنگ بدر میں تمہارے ہاتھوں سے قتل ہوئے تھے اور کل تم نے میرے بھائی عثمان کی حمایت نہیں کی اور اسی طرح سعید بن العاص کا باپ بھی جنگ بدر کے دن تمہارے ہاتھوں قتل ہوا ہے اور تم نے مروان کو عثمان کے سامنے بیوقوف اور کم عقل بتایاہے۔
لیکن اصل میں جن چیزوں کو مخالفین نے بہانہ بنایا وہ دو مسئلے تھے:
١۔ بیت المال کے تقسیم کرنے میں تبعیض اورفرق کو ختم کرنا۔
٢۔ خلیفہ سوم کے غیر شائستہ نمائندوں کو معزول کرنا۔
یہی دو موضوع سبب بنے کہ دنیا پرست اور جاہ و مقام پرست گروہ امام ـ کی مخالفت میں اٹھ کھڑا ہوا تاکہ اپنے مال و دولت کو جو ناحق طریقے سے جمع کیا تھا علی کی جمع آوری سے محفوظ کرلیں۔
امام ـ چاہتے تھے کہ اپنے زمانۂ حکومت کو رسول اسلام کے دور حکومت کی طرف پلٹا دیں، اور آپ کی سیرت و رہبری کو مکمل طور پر زندہ کریں۔ لیکن افسوس رسول خدا کے زمانے کا تقویٰ اور پرہیزگاری لوگوں کے درمیان سے ختم ہوچکا تھا ۔ اخلاق عمومی بدل چکا تھا اور لوگ پیغمبر کے طور طریقے کو بھول گئے تھے معاشرے اور لوگوں کے درمیان غیر مناسب تبعیض رسوخ کرچکی تھی اور حکومت کی باگ ڈور ناشائستہ اور غیر صالح افراد کے ہاتھوں میں تھی۔
عمر کی معین کردہ شوریٰ میں قریش کے سرمایہ دار عبد الرحمن بن عوف نے علی علیہ السلام سے درخواست کی کہ اگر خدا کی کتاب او رسنت پیغمبر اور شیخین کی سیرت پر عمل کریں تو میں آپ کی بیعت کروں گا۔ لیکن حضرت علی نے اس شرط کو قبول نہیں کیا اور اس سے کہا: خدا کی کتاب اور سنت پیغمبر اور اپنی تشخیص پر عمل کروںگا نہ کہ سابق کے دونوں خلیفہ کی سیرت پر۔ امام کا عبدالرحمن بن عوف کی پیشنہاد کو نہ ماننا سبب بناکہ حضرت بارہ سال تک حکومت سے محروم رہیں اورعثمان حکومت کی ذمہ داری اپنے ہاتھوں میں لیں۔
اب جب کہ حکومت امام ـ کے ہاتھوں میں تھی ، وقت آگیا تھا کہ بیت المال کی تقسیم میں پیغمبر اسلام کی سنت کو زندہ کیا جائے، بیت المال کے سلسلے میں پیغمبر کاطریقہ کار یہ تھاکہ کبھی بھی مال کو ذخیرہ نہیں کرتے تھے بلکہ تمام مال کو برابر مسلمانوں کے درمیان تقسیم کردیا کرتے تھے اورعجم ، عرب، کالے، گورے میںکوئی فرق نہیں رکھتے تھے۔

بیت المال تقسیم کرنے سے پہلے حضرت علی علیہ السلام کا خطبہ:
حضرت علی علیہ السلام نے بیت المال کو تقسیم کرنے کا حکم دینے سے پہلے خطبہ ارشاد فرمایا :
''اے لوگو! کوئی بھی شخص ماں کے پیٹ سے غلام اور کنیز پیدا نہیں ہوا بلکہ سب کے سب آزادپیدا ہوئے ہیں خداوند عالم نے تم میں سے بعض کو بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے اور جو مشکلوں میں گرفتار ہے اسے چاہئے کہ صبر و تحمل سے کام لے اور صبر و تحمل کے ذریعہ خدا پر احسان نہ کرے، اس وقت بیت المال ہمارے سامنے حاضر ہے اور اسے کالے، گورے، دونوں کے درمیان برابر برابر تقسیم کروں گا''۔(١)
جب امام ـ کا بیان یہاں تک پہونچا تو مروان نے طلحہ و زبیر سے کہا: علی کے اس کلام سے مراد تم لوگ ہو او رتمہارے اوردوسروں میں کوئی فرق نہ ہوگا۔
______________________
(١) اصول کافی، ج٨، ص ٦٨۔
اسکافی نے اپنی کتاب ''نقض عثمانیہ'' جو کتاب عثمانیہ (تالیف جاحظ) پر نقد ہے میں امام ـ کے کلام کو مکمل وضاحت کے ساتھ نقل کیا ہے، وہ لکھتا ہے:
علی بیعت کے دوسرے دن یعنی ١٩ ذی الحجہ ٣٥ ھ بروز شنبہ منبر پر گئے اور ایک مفصل تقریر کرتے ہوئے فرمایا:
''اے لوگو! میں تمہیں پیغمبر کے بہترین راستے پر گامزن کروں گا اور معاشرے میں اپنے قانون کو نافذ کروں گا۔ جو کچھ میں حکم دوں اس پر عمل کرو اور جس سے منع کروں اسے انجام نہ دو (پھر منبر ہی پر سے آپ نے داہنے اور بائیں طرف نگاہ کی اور فرمایا)
اے لوگو! جب بھی میں اس گروہ کو جو دنیا کی محبت میں غرق ہے اور بہت زیادہ مال و دولت، پانی و سواری اور غلاموں اور خوبصورت کنیزوں کا مالک ہے اگر اسے دنیاوی محبت سے نکال کر شرعی حقوق سے آشنا کروں تو وہ لوگ مجھ پر اعتراض نہ کریں اور یہ نہ کہیں کہ ابوطالب کے بیٹے نے ہم لوگوں کو اپنے حقوق سے محروم کردیا ہے جو لوگ یہ فکر کرتے ہیں کہ پیغمبر کی ہمنشینی کی وجہ سے دوسروں پر فضیلت رکھتے ہیں تو انھیں جان لینا چاہیئے کہ ملاک فضیلت کوئی اور چیز ہے صاحب فضیلت وہ شخص ہے جو خدا اور پیغمبر کی آواز پر لبیک کہے اور قوانین اسلام کو قبول کرے ایسی صورت میں تمام لوگ حقوق کے اعتبار سے دوسروں کے برابر ہو جائیں گے تم لوگ خدا کے بندے ہو اور مال، خدا کا مال ہے اور تم لوگوں کے درمیان برابر برابر تقسیم ہوگا ۔ اور کوئی بھی کسی دوسرے پر فضیلت نہیں رکھتا، کل تم لوگوں کے درمیان بیت المال تقسیم ہوگا اس میں عرب و عجم دونوں برابر ہوں گے۔(١)

بیت المال تقسیم کرنے کا طریقہ
امام ـ نے اپنے کاتب عبید اللہ بن ابی رافع(٢) کو حکم دیا کہ مہاجرین و انصار میں سے ہر ایک کو تین تین دینار دیدو۔
_____________________
(١) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید، ج٧، ص ٣٧۔
(٢) ابو رافع کا گھر اصل شیعہ اور بزرگ خاندان میں سے ہے جو ابتدا سے خاندان رسالت سے محبت کرتا ہے اور ابورافع خود پیغمبر کے صحابیوں میں سے ہے اور علی کا چاہنے والا ہے۔
اس وقت سہل بن حنیف انصاری نے اعتراض کیااور کہا: کیایہ بات مناسب ہے کہ ہم اس کالے آدمی کے برابر و مساوی ہوںجو کل تک ہمارا غلام تھا؟
امام ـ نے اس کے جواب میں کہا کہ قرآن کریم میں اسماعیل (عرب) کے فرندوں اور اسحاق کے فرزندوں میں کوئی فرق نہیںہے۔

گذشتہ حکمرانوں کی معزولی
امام ـ کا اہم ترین سیاسی فیصلہ یہ تھا کہ پچھلے خلیفہ کے معین کردہ حاکموں کو جن میںسر فہرست معاویہ تھا کو معزول کردیں۔ جب سے حضرت علی علیہ السلام نے خلافت کو قبول کیا اسی دن سے سوچ لیا تھا کہ عثمان کے زمانے کے جتنے بھی حکمرانوںنے بیت المال اور دوسری چیزوں کواپنے خاص سیاسی مقصد اور غرض کے لئے استعمال کیا یا اسے اپنے یا اپنے بیٹوں سے مخصوص کردیا تھااور قیصر و کسریٰ کی طرح حکومت قائم کرلی تھی ان سب کو معزول کردیں گے ۔ امام ـ کا عثمان پر یہ اعتراض تھا کہ اس نے معاویہ کو حکومت شام کے لئے باقی رکھا تھا اور لوگوں نے کئی مرتبہ اس اعتراض کو امام ـ سے سنا تھا، امام ـ ٣٦ ھ کے اوائل ہی میں صالح اور متدین افراد کو اسلام کے بزرگ شہروں کے لئے معین کردیا تھا۔ عثمان بن حنیف کوبصرہ ، عمار بن شہاب کو کوفہ ، عبیداللہ بن عباس کو یمن ، قیس بن سعد کو مصراورسہل بن حنیف کو شام کے لئے معین کیا اور سہل بن حنیف جو آدھے راستے سے واپس آگیا اس کے علاوہ سبھی اپنے اپنے علاقوں میں پہنچے اور حکومت کی ذمہ داریوں کو سنبھالا ۔ (١)
گذشتہ حکمرانوں خصوصاً معاویہ کی معزولی کا چرچا اسی زمانے میں اور بعد میںبھی تھا،ناآگاہ افراد اس معزولی کو امام ـ کی سیاسی غلطی سمجھتے ہیں اور کہتے ہیںکہ چونکہ علی سیاسی مکرو فریب سے دور تھے اور جھوٹ او رظاہر سازی کو خداوند عالم کی مرضی کے خلاف سمجھتے تھے ۔ اس لئے انہوں نے معاویہ اوراس جیسوں کو حکومت سے معزول کردیا ، جس کے نتیجے میں تلخ حوادث سے دوچار ہوئے لیکن اگر آپ پچھلے حکمرانوں کو معزول نہ کرتے اور ان کو ایک زمانے تک باقی رکھتے اور پھر انھیں معزول کرتے تو کبھی بھی جمل، صفین نہروان کی جنگ سے سامنا نہیں کرتے، اور اپنی حکومت میں کامیاب ہوتے۔ یہ کوئی نئی بات
______________________
(١) تاریخ طبری، ج٥، ص ١٦١۔
نہیں ہے بلکہ امام ـ کی حکومت کے اوائل ہی میں بعض لوگوں نے حضرت علی علیہ السلام سے یہ درخواست کی تھی لیکن آپ نے ان کی باتوں کو نہیں مانا تھا۔
مغیرہ بن شعبہ جو عرب کے چارسیاسی لوگوں میں سے ایک تھا جب امام ـ کے ارادے سے باخبر ہوا تو امام ـ کے گھر آیا اور آپ سے چپکے سے کہا: مصلحت یہی ہے کہ عثمان کے حکمرانوں کو ایک سال تک ان کے منصب پر باقی رہنے دیں ۔ اور جس وقت لوگوں سے آپ بیعت لیں او رآپ کی حکومت، خاور سے باختر'' تک قائم ہو جائے، اور مکمل طریقے سے حکومت کے حالات پر مسلط ہو جائیں اس وقت جس کو چاہے معزول کردیں اور جس کو چاہیں اس کے مقام پر باقی رکھیں۔
امام ـ نے اس کے جواب میں کہا: ''واللّہ لا أداہن فی دینی و لا أعطی الدنی فی أمری'' یعنی خدا کی قسم میں دین میں سستی نہیں کروں گا اور حکومت کے امور کو پست افراد کے ہاتھوں نہیں دوں گا۔
مغیرہ نے کہا: اگر آپ اس وقت میری بات عثمان کے تمام حکمرانوں کے متعلق قبول نہیں کرتے تو کم از کم معاویہ کو اس کے حال پر چھوڑ دیجئے تاکہ وہ شام کے افراد سے آپ کی بیعت لے، اور پھر اپنے اطمینان و سکون کی خاطر معاویہ کو اس کے منصب سے معزول کردیجیئے گا امام علیہ السلام نے فرمایا: خدا کی قسم، دودن کے لئے بھی اجازت نہیں دوں گا کہ معاویہ لوگوں کی جان و مال پر مسلط ہو۔
مغیرہ علی کا جواب سن کر مایوس ہوگیا اور آپ کے گھر سے چلا گیا دوسرے دن پھر امام ـ کے گھر آیا اور معاویہ کو معزول کرنے پر آپ کے نظریہ کی تائید کی اور کہا: آپ کے شایان شان یہ نہیں ہے کہ زندگی میں مکرو فریب سے داخل ہوں۔ جتنی جلدی ہو معاویہ کو بھی اس کے منصب سے معزول کردیں۔
ابن عباس کہتے ہیں: میںنے علی علیہ السلام سے کہا کہ اگر مغیرہ نے معاویہ کواس کے منصب پر باقی رہنے کی درخواست کی ہے تو اس کا مقصد صرف اچھائی اور بہترین مصلحت کے علاوہ کچھ نہیں ہے لیکن اپنی دوسری درخواست میںاس کے برخلاف ہدف رکھتا ہے لیکن میری نظر میں مصلحت یہی ہے کہ معاویہ کو اس کے منصب سے دور نہ کریں۔ اورجب تمہاری بیعت کرلے اور شام کے لوگوں سے تمہارے لئے بیعت لے تو میں خود اسے شام سے باہر کردوں گا، لیکن امام ـ نے ان کی درخواست کو بھی قبول نہیں کیا۔ (١)
اب وقت آگیا ہے کہ خلیفہ سابق کے حکمرانوں کی معزولی، خصوصاً معاویہ کی معزولی کو سیاسی،سماجی اسلامی معاشرے کی مصلحت، اسی طرح خود امام ـ کی مصلحتوں کا جائزہ لیں۔
اس سے ہٹ کر کہ غیر صالح سابقہ حکمرانوں کو باقی رکھنااسلام اور مسلمانوں کی مصلحت کے خلاف تھا کیا سیاسی اصول اور مملکتی امور کی تدبیر حکمرانوں کے باقی رکھنے میں تھی یا یہ کہ یہاں تقویٰ اور سیاست ایک تھی۔ اور اگر امام ـ کے علاوہ کوئی اورمسند خلافت پر بیٹھتا جب بھی سابق حکمرانوں کی معزولی کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا؟ اگر عثمان کے بعد معاویہ خلافت کے لئے منتخب ہوتا، تب بھی سابق حکمرانوں کی معزولی کے علاوہ کوئی چارہ نہ ہوتا؟
______________________
(١) تاریخ طبری، ج٥، ص ١٦٠۔

معاویہ کی معزولی میںامام ـ کی عجلت کی وجہ
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ بعض لوگ مثلاً معاویہ جیسے افراد کو منصب پر باقی رکھنا تقویٰ اور طہارت و پاکیزگی کے برخلاف تھا اور امام ـ تمام چیزوں سے باخبر تھے لیکن اصل بحث یہ ہے کہ ایسے افراد کا باقی رکھنا سیاست و تدبیر اور دور اندیشی کے مطابق تھا؟ اگر فرد غیر متقی ،امام ـ کی جگہ ہوتا اور اسی گروہ کے ذریعہ منتخب ہوتا جس کے ذریعے امام منتخب ہوئے تو کیاایسے افراد کو اس کے مقام و منصب پر باقی رکھتا؟ یایہ کہ امام ـ کی دور اندیشی اور شخصی مصلحت (تقوی اور اسلام کے عالی مصلحت کے علاوہ) کابھی تقاضا تھا کہ ایسے افراد کو ان کے منصب و مقام سے دور کردیاجائے اور اسلام کے حساس شعبوں کو ایسے افراد کے سپرد کیا جائے جو مسلمانوں اورانقلابیوں کی مرضی کے مطابق ہو؟
بعض لوگ پہلے نظریہ کے موافق ہیںان کا کہنا ہے کہ امام ـ کے تقوے کی وجہ سے لوگ اسلامی منصب سے دور ہوئے، ورنہ امام ـ کی شخصی مصلحت کا تقاضا تھا کہ معاویہ کو نہ چھیڑیں اور مدتوں اس کے ساتھ نرم برتاؤ کرتے رہیں تاکہ جنگ صفین و نہروان جیسے حادثوں سے روبرو نہ ہوں۔
لیکن دوسرے محققین مثلاً مصر کے عظیم دانشورعباس محمود عقادامؤلف ''کتاب عبقریة الامام علی'' اسی طرح اس دور کے اہل قلم حسن صدر دوسرے نظریہ کی تائید کرتے ہیں اوردلیلوں کے ذریعے ثابت کرتے ہیں کہ اگر امام ـ اس کے علاوہ کوئی صورت اپناتے تو بہت زیادہ مشکلات سے دو چار ہوتے اور معاویہ اور اس کے مانند افراد کی معزولی امام ـ کے تقوے کے مطابق تھی، بلکہ حکومت کی دور اندیشی اور آئندہ نگری اس بات کا تقاضہ کر رہی تھی کہ ایسے فاسد عناصر کو خلافت سے دور کردیں۔
یہ بات صحیح ہے کہ معاویہ کو معزول کرنے کے بعد امام ـ شامیوں کی مخالفت کی وجہ سے بہت سی مشکلوں سے روبرو ہوئے لیکن اگر اس کو معزول نہ کرتے تو صرف شامیوں کی ہی مخالفت سے دوچار نہ ہوتے بلکہ مظلوم انقلابیوں کی مخالفت سے امام ـ کو روبرو ہونا پڑتا اور یہی سبب بنتا کہ دن بہ دن مخالفتیں بڑھتی رہتیں اور اسلامی معاشرہ میں اس سے بھی زیادہ اختلاف ہوتا۔
یہاں مناسب ہے کہ ان دلیلوں کو بھی پیش کردوں۔
١۔ امام ـ محروم اور مظلوم انقلابیوں کے ذریعے منصب خلافت پر آئے تھے جو عثمان کے ظلم و بربریت سے تنگ آکر مدینہ میں جمع ہوگئے تھے اورانھیں موت کے گھاٹ اتار دیا تھا مظلوم انقلابیوں کے غیظ و غضب کا یہ عالم تھا کہ طلحہ و زبیر جیسے افراد کو بھی خاموش کردیاتھا اور حضرت علی کی بیعت کے لئے آمادہ کرلیا تھا۔
اس انقلابی گروہ نے امام ـ کے ہاتھوں پر اس مقصد کے تحت بیعت کی تھی کہ اسلامی ملک میں ہٹ دھرمی ، خود غرضی اور انانیت کا خاتمہ ہو جائے اور فساد و تباہی برپا کرنے والوں حکومت متزلزل ہو جائے۔
اس گروہ کے ساتھ محترم و متدین صحابہ بھی تھے جو پچھلے خلیفہ سے مکمل طور پر ناراض تھے لیکن خاموشی اور کنارہ کشی اختیار کئے ہوئے تھے اور خلیفہ کے قتل ہونے کے بعد امام علی علیہ السلام کے ہاتھوں پر بیعت کیاتھا۔
ادھر معاویہ کا ظلم و جور کسی پر پوشیدہ نہ تھا اگر علی علیہ السلام نے اس سلسلے میں کوتاہی یا بے توجہی کی ہوتی تو آپ کا کام معاویہ کے ساتھ ایک سازش اور انقلابیوں اور متدین صحابہ کے اہداف کی پامالی کے علاوہ کچھ نہ ہوتا، معاویہ جیسے افراد کی وضعیت امام ـ کے مومن فداکاروں کی نظر میں ایک سیاسی مصلحت اور ریاکاری شمار ہوتی اور جتنا زیادہ معاویہ اس کام کو اپنی پاکیزگی کے لئے استفادہ کرتا علی علیہ السلام کو اتنا ہی زیادہ نقصان ہوتا۔ لوگوں کے تند احساسات اور طوفان کو صرف معاویہ کی معزولی ہی ختم کرسکتی تھی اگر امام ـ معاویہ کے ساتھ نرم رویہ اختیار کرتے تو اپنی حکومت کے آغاز ہی میںاپنے اکثر طرفداروں کو کھو دیتے، اور دوبارہ وہ لوگ گناہوں اور سرکشی کے لئے آمادہ ہو جاتے اور علی علیہ السلام کی مخالفت کے لئے کھڑے ہو جاتے اور بہت ہی کم لوگ وفاداروں میں باقی رہتے جو ہر حال میں امام ـ کے نظریات پر باقی رہتے اور جس کا نتیجہ یہ ہوتا کہ اسلام کی مرکزی حکومت میںاختلاف اور جدائی پیدا ہو جاتی اور وہ گروہ جو امام ـ کی پوشیدہ طور پر مخالفت کر رہاتھا وہ مخالف و موافق گروہوں کی شکل میں ابھر کر سامنے آجاتا اور امام ـ کی حکومت کی عمر کا چراغ پہلے ہی دن خاموش ہو جاتا۔
٢۔ اگر ہم فر ض کرلیں کہ جوشیلے انقلابی امام ـ کی معاویہ کے ساتھ ہمراہی کو قبول کرلیتے اور امام کے لشکر میں اختلاف و جدائی بھی نہیں ہوتی، لیکن دیکھنا یہ ہے کہ معاویہ امام ـ کی رحمدلی اور دعوت کے مقابلے میں کیساعکس العمل پیش کرتا۔ کیاعلی کی دعوت کو قبول کرتا؟ اور شام کے لوگوں سے ان کی بیعت کراتا، جس کی وجہ سے امام ـ شام کی طرف سے مطمئن ہو جاتے؟ یا یہ کہ معاویہ اپنی چالاکی اور سیاسی چالوں سے یہ سمجھ لیتاکہ یہ ہمراہی اور نیکی چند دنوں سے زیادہ کی نہیں ہے اور علی علیہ السلام حکومت پر مکمل قبضہ پانے کے بعد تمام اسلامی حکومتوں سے اسے دور کردیں گے اور اس کی خود غرضی کو ختم کردیں گے؟
معاویہ کی شیطانی حرکتیں اور دور اندیشی کسی پرپوشیدہ نہیںہیں وہ حضرت علی کو تمام لوگوں سے زیادہ پہچانتاتھا۔ اور وہ جانتا تھا کہ ان کی حکومت میں خود غرضی اور بیت المال کو اپنی سیاسی غرض میں خرچ نہیں کرسکتا اور اگر امام اس کو ہمکاری کے لئے دعوت د ے رہے ہیں تو صرف وقتی طور پر دوستی اور مصلحت کے علاوہ کوئی اور چیز نہیںہے۔ اور بعد میں اس کے مشن کو قلع و قمع کریں گے اور شام جیسی بزرگ سرزمین پیغمبر کے صحابیوں اور نیک لوگوں کے ہاتھوں میںسپرد کر دیں گے۔
ان باتوں کی روسے معاویہ ہرگز امام علی علیہ السلام کی دعوت کو قبول نہیں کرتا، بلکہ ان سے عثمان کے پیراہن کی طرح، شامیوں کے درمیان اپنی شخصیت کو مستحکم کر نے اور قتل عثمان میں علی کی شرکت کا الزام لگانے کے لئے لوگوں کے ساتھ ہوگیا۔
ابن عباس جانتے تھے کہ امام ـ معاویہ کے ساتھ زیادہ نہیں رہ سکتے تھے بلکہ اس وقت تک کے لئے جب تک حضرت حالات پر قابو پالیتے ، معاویہ خوب جانتا تھا کہ علی کی اس کے ساتھ مصلحت وقتی طور پر ہے لہذا وہ قطعی طور پر امام ـ کی دعوت کو قبول نہ کرتا بلکہ مکروفریب سے کام لیتا۔

بہترین موقع جو چھوٹ جاتا
معاویہ کے پاس جو سب سے بڑا بہانہ اور حربہ تھا وہ عثمان کے خون کا بدلہ تھا اگر وہ ابتدا ہی میںاس موقع سے استفادہ نہ کرتا ، تو اس حربہ سے فائدہ نہیں اٹھا سکتا تھا۔
معاویہ نے عثمان کے خون آلود پیراہن کو عثمان کی بیوی ''نائلہ'' کی انگلیوں کے ساتھ جو شوہر کے دفاع میں کٹ گئیں تھیں شام کے منبر کے اوپر لٹکا دیا تاکہ شامیوں کو عثمان کے خون کا بدلہ لینے کے لئے آمادہ کرے جس کے لئے معاویہ نے دعویٰ کیا تھا کہ علی کے اشارے پر ہی عثمان کا قتل ہوا ہے اگر وہ ابتدا ہی میں حضرت علی کی دعوت کو قبول کرلیتا تو ہرگز وہ عثمان کے قتل کو امام ـ سے منسوب نہ کرپاتا اور عثمان کی مظلومیت کو امام ـ کے خلاف بیان نہ کرتا، معاویہ کے پاس عثمان کا قتل ایک ایساقوی حربہ تھا جو حضرت علی علیہ السلام کے خلاف استعمال کرتا ، اور اس حربہ کا استعمال اس صورت میں ممکن تھاکہ جب علی کی دعوت کو قبول نہ کرتا کیونکہ امام کی بیعت کرنے کی صورت میںامام ـ کی رہبری کو صحیح ثابت کرتا اورادھر عثمان کا خون بھی خشک ہو جاتا اوراس طرح وہ بہترین موقع گنوا بیٹھتا۔

موروثی حکومت کی برقراری
کئی سال سے معاویہ نے اپنی چالاکی ،اور بے حساب و کتاب تحفے تحائف کے ذریعے، عظیم اور بزرگ شخصیتوں کو جلا وطن کر کے جواس کی حکومت کے خلاف تھے اور بہت زیادہ تبلیغ کر کے اور خلیفہ وقت کی نظر عنایت کو جذب کر کے ایک موروثی سلطنت و حکومت کا مقدمہ فراہم کرلیا تھا اور وہ عثمان کے قتل یا موت کا منتظر تھا کہ اپنی دیرینہ آرزؤں کو عملی جامہ پہنا سکے۔
یہی وجہ ہے کہ جب انقلابیوں نے عثمان کے گھر کا محاصرہ کیا اور معاویہ کو اس کی خبر ملی تو اس نے کوئی مدد نہ کی تاکہ جتنی جلدی ہو عثمان کا سایہ اس کے سر سے دور ہوجائے اور وہ اپنی آرزو تک پہونچ جائے، ایسا شخص کبھی بھی امام ـ کی دعوت کو قبول نہیں کرتا ، بلکہ اس سے اپنے فائدے اور امام ـ کے نقصان کے لئے استفادہ کرتا، تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ خلیفۂ وقت نے معاویہ سے مدد طلب کی مگر اس نے حالات آگاہی کے باوجود بھی ان کی مدد کے لئے قدم نہ بڑھایا۔
امیر المومنین ـ نے اپنے ایک خط میں معاویہ کو لکھا ''تم نے عثمان کی اس وقت مدد کی جب مدد کرنے میں تیرا فائدہ تھا اور اس دن تم نے اسے ذلیل و خوار کردیا کہ جس دن مدد کرنے میں صرف اس کا فائدہ تھا''(١)
امیر المومنین ـ پھر اپنے ایک خط میں معاویہ کو لکھتے ہیں کہ ''خدا کی قسم ، تمہارے چچا زاد بھائی کو تمہارے علاوہ کسی نے قتل نہیں کیا اور مجھے امیدہے کہ تجھے اس کے گناہوں کی طرح اس سے ملحق کردوں''۔(٢)
ابن عباس اپنے خط میں معاویہ کو لکھتے ہیں ''تمھیں عثمان کے مرنے کا انتظار تھا۔تو اس کی بربادی کا خواہاں تھا۔تونے اس کی مدد کرنے سے لوگوں کو منع کردیا اس کا خط اور مدد کی درخواست اور استغاثہ کی آواز تجھ تک پہونچی لیکن تونے کوئی توجہ نہ دی، جب کہ تو جانتا تھا کہ جب تک لوگ اسے قتل نہ کرلیں نہیںچھوڑیں گے، وہ قتل کردیا گیا اور جب کہ تو بھی یہی چاہتا تھا۔ اگر عثمان مظلوم قتل ہواتو سب سے بڑا ظلم کرنے والا تو تھا۔
کیا ایسی حالت میں جب کہ وہ ہمیشہ عثمان کی موت یا اس کے قتل کا انتظار کر رہا تھا تاکہ اپنی آرزو کو پہونچ جائے، وہ امام ـ کی دعوت کو قبول کرتا؟ اور جو موقع اسے بہت ہی مشکلوں سے حاصل ہوا تھا، اسے گنوا دیتا؟
______________________
(١) نہج البلاغہ نامہ ٣٧۔
(٢) العقد الفرید، ج٢، ص ٢٢٣۔