فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)
 

تیسری فصل
قتل عثمان کے بعد لوگوں کا حضرت علی ـ کی بیعت کرنا
خلیفۂ سوم کا پیغمبر کے صحابیوں کے ساتھ ناروا سلوک اور لوگوں کو بے جا تحفہ و ہدیہ دینا، اور حکومت کے امور کو بنی امیہ کے غیر شائستہ افراد کے ہاتھوں میں دینا وغیرہ یہ سب ان کے قتل کا سبب بنئ۔ ١٨ ذی الحجہ ٣٥ ھ کو عثمان مصر اور عراق کے انقلابیوں اور پیغمبر کے صحابیوں کے ہاتھوں خود اپنے ہی گھر میں قتل کیا گیااور اس کے اصلی ساتھی اور محافظ انہیں تنہا چھوڑ کر مکہ فرار ہوگئے۔(١)
خلیفۂ سوم کے قتل کی خبر مدینہ اور اس کے اطراف کے مسلمانوں کے لئے بہت تعجب خیز تھی اور ہر شخص آئندہ کی رہبری کے لئے فکرمند تھا اور صحابہ میں سے کچھ لوگ مثلاً طلحہ و زبیر اور سعد وقاص وغیرہ اپنے آپ کو خلیفہ کے لئے نامزد کئے ہوئے تھے اور دوسروں سے زیادہ اپنے آپ کو خلافت کا مستحق سمجھ رہے تھے۔
انقلابیوں کو معلوم تھا کہ عثمان کے قتل کی وجہ سے اسلامی ملکوں کی حالت درہم برہم ہو جائے گی اسی وجہ سے ان لوگوں نے چاہا کہ جتنی جلدممکن ہواس خلاء کو پورا کردیں اور خلیفہ چننے اور ان کے ہاتھ پر بیعت کرنے سے پہلے اپنے وطن واپس نہیں جائیں۔ وہ لوگ ایسے شخص کی تلاش میں تھے جو ان پچیس سال میں اسلامی تعلیمات اور سنت پیغمبر کا وفادار رہا ہو اور وہ حضرت علی کے علاوہ کوئی اور نہ تھا، کیونکہ دوسرے لوگ کسی نہ کسی طرح سے اپنے کو حُب دنیا سے آلودہ چکے تھے اور کسی نہ کسی جہت سے عثمان کے کمزور پہلوئوںمیں مشترک تھے، طلحہ و زبیر اور ان کی طرح دوسرے افراد نے خلیفہ سوم کے زمانے میں دنیاوی امور تک پہنچے اور مال و دولت جمع کرنے اوراس شہر میںاور اس شہرمیں قصر حاصل کرنے میں مصروف تھیاور پیغمبر کی سنت بلکہ شیخین کی سنت کو بھی نظر انداز کرچکے تھے۔
باوجودیکہ حضرت علی کا نام سب سے زیادہ لوگوں کی زبان پر تھا اور جب خلیفہ کے گھر کو انقلابیوں نے محاصرہ کر رکھا تھا امیر المومنین پیغام پہونچانے کے لئے دونوں گروہوں کے درمیان مورد اعتماد تھے اور
______________________
(١) تاریخ طبری ج٥ ص ١٥٦ طبع بولاق۔
سب سے زیادہ کوشش کر رہے تھے کہ یہ مسئلہ اس طرح حل ہوجائے کہ اور دونوں گروہ راضی ہوں، لیکن جو علت سقیفہ کے ماجرے میں علی کو دور کرنے کی سبب بنی تھی، سب کے سب (غیر از جوانی) اسی حالت پر باقی تھی اور اگر انقلابیوں کا مصمم ارادہ اور لوگوں کا دبائونہ ہوتا تو وہی چیز چوتھی مرتبہ بھی امام کو اس مسئلہ سے جدا کردیتی اور خلافت کسی بزرگ صحابی کو مل جاتی اور معاشرہ کوالہی و حقیقی حکومت سے محروم کر دیتی۔
اگر عثمان کی موت فطری ہوتی اور مدینہ کی فضا اچھی ہوتی تو کبھی بھی بزرگ صحابہ جو عثمان کی خلافت کے زمانے میں بہت زیادہ مال ومقام کے مالک بن گئے تھے ، حکومت علی کی تائید نہیں کرتے اور جو شورٰی بنائی جاتی مل جل کر اس میں رخنہ اندازی کرتے، بلکہ سیاسی کھلاڑی ایسا رول اد کرتے کہ شورٰی بننے کی نوبت نہیں آتی اور خلیفہ وقت کو مجبور کرتے کہ جن کووہ لوگ پسند کرتے ہیں اسے خلیفہ بنائے جس طرح عمرکو ابوبکر نے خلافت کے لئے چنا تھا۔
یہ گروہ جانتا تھا کہ اگر علی علیہ السلام کی حکومت قائم ہوگئی تو ان کے تمام مال کو جمع کرالیں گے اور ان میں سے کسی کو کوئی کام نہیں سونپیں گے، ان لوگوں نے اس حقیقت کو امام کی نورانی پیشانی میں پڑھ لیا تھا اور حضرت کے مزاج سے پوری طرح واقف تھے لہٰذا جب آنحضرت نے طلحہ و زبیر کو کسی کام میں شامل نہیں کیا تو ان دونوں نے فوراً اپنے وعدے کو توڑ دیااور جنگ جمل کا محاذ قائم کردیا
جن وجوہات کی بنا پر امام کوسقیفہ میں حکومت سے دور کیا گیا وہ درج ذیل ہیں:
١۔ حضرت علی کے ہاتھوں صحابہ کرام کے رشتہ داروں کا قتل۔
٢۔ بنی ہاشم اوردوسرے قبیلے خصوصاً بنی امیہ کے درمیان پرانی دشمنی۔
٣۔ حضرت علی کا سختی سے حدود الٰہی کاجاری کرنا۔
قتل عثمان کے بعد نہ صرف یہ وجوہات اپنی جگہ پر باقی تھیں بلکہ دوسری وجہیں بھی جو قدرت کے اعتبار سے ان سے کم نہ تھیںوہ بھی شامل ہو گئیں اوراس سے بھی اہم یہ تھا کہ پیغمبر کی بیوی عائشہ نے امام کی مخالفت کی تھی۔ عثمان کی حکومت کے زمانے میں عائشہ ایک اہم سیاسی شخصیت کی مالک تھیں۔ انھوں نے لوگوں کو کئی مرتبہ عثمان کو قتل کرنے کے لئے کہا تھا اور شاید اسی وجہ سے وہ کبھی پیغمبر کا لباس صحابہ کو دکھاتیں اور کہتیںتھیں کہ ابھی یہ لباس پرانا نہیںہوا ہے لیکن ان کے دین میں تبدیلیاں ہوگئی ہیں۔(١)
مسلمانوں کے درمیان جو عائشہ کا ا حترام تھا اور بہت زیادہ حدیثیں جو پیغمبر سے نقل کی تھیں وہ ان کے سیاسی فائدے ہونے کے لئے کافی تھیںاور اس شخص کے لئے زحمت کا باعث تھیں جو ان کی مخالفت کرتا تھا۔
عائشہ کی مخالفت حضرت علی علیہ السلام سے درج ذیل امور کی بنا پر تھی:
١۔ علی نے داستان ''افک ''میں عائشہ کے طلاق کے بارے میں اپنی رائے دی تھی۔
٢۔ پیغمبر کی بیٹی اورفاطمہ کو حضرت علی سے کئی فرزند ہوئے لیکن پیغمبر کے ذریعے عائشہ کو کوئی اولاد نہ ہوئی۔
٣۔ عائشہ کو معلوم تھا کہ علی ان کے باپ کی خلافت سے راضی نہیں ہیں اور انھیں خلافت و فدک کا غاصب مانتے ہیں۔
ان کے علاوہ قبیلہ تیم سے طلحہ عائشہ کے پھوپھی زاد بھائی تھے اور زبیر ان کا بہنوئی (اسماء کے شوہر) تھے اور یہ دونوں خلافت پر قبضہ کرنے کے لئے پوری کوشش کر رہے تھے۔
حضرت علی کی حکومت سے عائشہ کی ناراضگی پر یہ درج ذیل داستان جسے طبری نے نقل کیا ہے بہت واضح و روشن ثبوت ہے۔
جب عثمان کا قتل ہوا توعائشہ مکہ میں تھیں اور اعمال حج انجام دینے کے بعد مدینہ روانہ ہوئیں، آدھے راستہ میں ''سرح'' نامی جگہ پر عثمان کے قتل اور مہاجرین و انصار کا علی کے ہاتھوں پر بیعت کرنے کی انہیں خبر ملی اور یہ خبر سن کر وہ اس قدر ناراض ہوئیں کہ موت کی آرزو کرنے لگیں اورکہا: اے کاش آسمان میرے سر پر گرجاتا، پھر وہیں سے مکہ واپس چلی گئیں اور کہا: عثمان مظلوم قتل ہوا ہے خدا کی قسم میں اس کے خون کا بدلہ لینے کے لئے اقدام کروں گی۔
عثمان کے قتل کی خبر دینے والے نے جرأت دکھاتے ہوئے کہا: آپ تو کل تک لوگوں سے کہتی تھیں کہ عثمان کو قتل کردو وہ کافر ہوگیا ہے ،کس طرح آج انہیں مظلوم سمجھ رہی ہیں؟ انہوں نے جواب دیا:
______________________
(١) تاریخ ابو الفداء ج١ ص ١٧٢۔
بلوائیوں نے پہلے ان سے توبہ کرائی ہے اور پھر انہیں قتل کیا ہے۔(١)

انقلابیوں کی حضرت علی علیہ السلام کے ہاتھوں پر بیعت
عوامل مذکور کی بنا پر ممین تھا کہ امام کو چوتھی مرتبہ بھی خلافت سے محروم کردیا جائے، انقلابیوں کی قدرت اور لوگوں کے دبائو نے ان منفی عوامل کو بے اثر کردیا اور پیغمبر اسلام کے صحابہ گروہی شکل میں علی کے گھر آئے اور آنحضرت سی کہا کہ خلافت کے لئے آپ سے بہتر کوئی شخص نہیں ہے۔(٢)
ابو مخنف کتاب ''الجمل'' میں لکھتا ہے:
عثمان کے قتل کے بعد مسلمانوں کا ایساعظیم اجتماع مسجد میں ہوا کہ مسجد لوگوں سے بھر گئی ، اس اجتماع کا مقصد خلیفہ کا انتخاب تھا، مہاجرین و انصار کی عظیم شخصیتوں مثلاً عمار یاسر، ابو الھیثم بن یہان، رفاعہ بن رافع، مالک بن عجلان اور ابو ایوب انصاری وغیرہ نے رائے پیش کی کہ علی کے ہاتھوں پر بیعت کی جائے۔ سب سے پہلے عمار نے حضرت علی کے بارے میں جوگفتگو کی وہ یہ تھی ''تم لوگوں نے پچھلے خلیفہ کا حال دیکھ لیا ہے اگر تم نے جلدی نہیں کیا تو ممکن ہے پھر ایسی ہی مشکل میں گرفتار ہو جاؤ اس منصب کے لئے علی سب سے زیادہ شائستہ ہیں۔ اورتم سب ان کے فضائل اور سوابق سے آگاہ ہو، اس وقت پورے مجمع نے ایک آواز ہو کر کہا ہم ان کی ولایت و خلافت پر راضی ہیں اس وقت سب وہاں سے اٹھے اور حضرت علی کے گھر گئے۔(٣)
تمام افراد امام کے گھر جس انداز سے آئے تھے اس کی توصیف امام یوں بیان کرتے ہیں : ''فتداکوا علیَّ تداک الابل الھیم یوم وردہا و قدارسلہا راعیہا و خلعت مثانیہا حتی ظننت انہم قاتلیَّ او بعضہم قاتل بعض ولد''
ان لوگوں کا اژدحام پیاسے اونٹ کی طرح تھا جسے شتر بان نے رسی کھول کر آزاد کر دیا ہو اسی طرح ہم پر ہجوم لائے کہ میں نے گمان کیا کہ شاید مجھے قتل کردیں یا ان میں سے بعض لوگ میرے سامنے بعض لوگوں کو قتل کرنا چاہتے ہیں۔(٤)
______________________
(١) تاریخ طبری ج٥ ص ٧٣، طبع بولاق۔
(٢) تاریخ طبری ج٥ ص ١٥٢طبع بولاق۔
(٣) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج٤ ص ٨۔
(٤) نہج البلاغہ خطبہ٥٣۔
آنحضرت خطبہ شقشقیہ میں گھر میں داخل ہوتے وقت مہاجرین وانصار کے اژدحام کی اس طرح وضاحت کی ہے۔
''لوگ بجُّو (ایک درندہ جانور ہے) کی گردن کے بال کی طرح میرے اطراف جمع تھے اور ہر طرف سے مجھ پر ہجوم کئے ہوئے تھے ، یہاں تک کہ حسن و حسین بھیڑ میں دب گئے اور میرا لباس اورردا پھٹ گئی اورچاروں طرف سے بکریوں کے گلہ کی طرح مجھے گھیر لیا ، تاکہ میں ان کی بیعت کو قبول کروں۔(١)
جی ہاں، امام نے ان کی درخواست کا جوا ب دیتے ہوئے فرمایا: تمہارا حاکم بننے سے بہتر یہ ہے کہ تمہارا مشاور بنوں ، ان لوگوں نے قبول نہیں کیا اورکہا، جب تک آپ کے ہاتھوں پر بیعت نہیں کرلیں گے آپ کو جانے نہیں دیں گے، امام نے کہا: جب تم لوگ اتنا اصرار کر رہے ہو تو ضروری ہے کہ بیعت مسجد میںانجام دی جائے، کیونکہ میری بیعت مخفیانہ اور بغیر تمام مسلمانوں کی مرضی کے نہیں ہونی چائیے ۔
مجمع کے آگے آگے چلتے ہوئے امام علی مسجد پہونچے مہاجرین وانصار نے ان کی بیعت کی، پھر دوسرے گروہ بھی مسجد میں پہونچے اور بیعت کی سب سے پہلے جن لوگوں نے امام کی بیعت کی وہ طلحہ و زبیر تھے پھر ان کے بعد ہر ایک نے آپ کے ہاتھ پر بیعت کی ، صرف چند لوگوں نے بیعت نہیں کیا۔(٢)
سب کے سب آپ کی خلافت و رہبری پر راضی تھے لوگوں نے ٢٥ ذی الحجہ کو امام کے ہاتھوں پر بیعت کی۔(٣)
______________________
(١) نہج البلاغہ، خطبہ ٣۔
(٢)وہ لوگ یہ ہیں محمد بن مسلمہ، عبداللہ بن عمر، اسامہ بن زید، سعد وقاص، کعب بن مالک، عبد اللہ بن سلام، طبری کے مطابق یہ سب کے سب عثمانی اور ان کے چاہنے والے تھے (تاریخ طبری، ج٥، ص ١٥٣؛ اور بعض لوگوں کا عقیدہ ہے کہ ان لوگوں نے بیعت کیا تھا لیکن جنگ جمل میں شرکت نہیں کیا)
(٣) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید، ج٤، ص ٨٩۔

حقیقی بیعت
اسلامی خلافت کی تاریخ میں کوئی بھی خلیفہ حضرت علی کی طرح تمام لوگوں کی رائے سے منتخب نہیں ہوا، ان کا انتخاب مہاجرین و انصار میں سے صحابہ ، قرّائ، صلحائ، فقہا و غیرہ کے ذریعے نہیں ہوا تھا، یہ صرف
امام کی واحد شخصیت ہے جو سب کی مرضی سے منتخب ہوئے دوسرے لفظوں میں یوں کہا جائے کہ خلافت و رہبری اس طرح سے حضرت علی تک پہنچی۔
امام اپنے ایک کلام میں بیعت کرنے والوں کے اژدحام اور لوگوں کی طرف سے بہترین استقبال او ربیعت کے متعلق فرماتے ہیں:
''حتی انقطعت النعل و سقط الرّداء ووُطیء الضعیف و بلغ من سرور الناس ببیعتہم ایای ان ابتہج بہا الصغیر و ہدج الیھا الکبیر و تحامل نحوہا العلیل و حسرت الیہا الکعاب''(١)
جوتے کا بند (فیتا) ٹوٹ گیا ، عبا کاندھوں سے گرگئی، او رکمزور لوگ بھیڑ میں دب گئے اور میرے ہاتھوں پر بیعت کرنے کے بعد لوگوں کی خوشی کا عالم یہ تھا کہ بچے خوش ہوئے اور بوڑھے ا ور ناتواں میری بیعت کے لئے آئے اور لڑکیوںنے اس بیعت کا منظر دیکھنے کے لئے اپنے چہروں سے نقابیں پلٹ دیں۔
عبد اللہ بن عمر نے امام کی بیعت نہیں کی، اسے کیا معلوم کہ خلافت لینا امام کا ہدف و مقصد نہیں ہے اور کبھی بھی اس کے لئے جنگ و جدال نہیں کیا بلکہ صرف اور صرف حق کے قیام اور عدالت کو جاری کرنے اور مجبوروں اور لاچاروںکے حقوق کی ادئیگی کے لئے منصب خلافت کو قبول کیاہے۔
بیعت کے دوسرے دن یعنی ٢٦ ذی الحجہ ٣٥ ھ کو عبد اللہ امام کے پاس اس ارادے سے آیا کہ شک و وسوسہ کے ذریعہ امام کو خلافت سے دور کردے۔ اس نے کہا: بہتر ہے کہ آپ خلافت چھوڑ دیں اور شوریٰ کے حوالے کردیں کیونکہ تمام لوگ آپ کی خلافت پرراضی نہیں ہیں۔
امام نے اسے ڈانٹتے ہوئے کہا: تجھ پر افسوس، میں نے ان لوگوں سے نہیں کہا تھا کہ میری بیعت کریں ۔ کیا تم نے ان لوگوں کا اژدحام نہیں دیکھا؟ اے نادان اٹھ اور دور ہوجا۔ عمر کے بیٹے نے جب مدینہ کے حالات کو اپنے لئے بہتر نہ پایا تو مکہ چلا گیا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ مکہ خدا کا حرم اور جائے امن ہے اور امام وہاں کا ہمیشہ احترام کریں گے۔(٢)
______________________
(١) شرح نہج البلاغہ، عبدہ خطبہ، ٢٢٤۔
(٢) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج٤ ص ١٠۔
صحیح تاریخ اور امام کے اقوال اس بات کی حکایت کرتے ہیں کہ امام ـ کی بیعت کرنے میں لوگوں پر کوئی جبر و زبردستی نہیں تھی اور بیعت کرنے والوں نے اپنی پوری رضایت سے، اگرچہ مختلف اہداف کے تحت، علی کے ہاتھوں پر بعنوان رہبر بیعت کی، خود طلحہ و زبیر، جو اپنے کو حضرت کا مثل سمجھتے تھے، بیعت سے استفادہ کرنے یا لوگوں کی مخالفت کی وجہ سے مہاجر و انصار کے ساتھ امام ـ کے ہاتھوں پر بیعت کی، طبری نے ان دونوں کی بیعت کے سلسلے میں دو طرح کی روایت نقل کی ہے ،لیکن وہ روایتیں کو جو اس بات کی حکایت کرتی ہیں کہ ان لوگوں نے امام کے ہاتھوں پر بیعت اپنی رضایت سے کیا تھا دوسری طرح کی روایت سے زیادہ اور شاید یہی وجہ ہوئی کہ اس عظیم مورخ نے دوسری روایت سے زیادہ پہلی روایت پر اعتماد کیا ہے۔(١)
امام کا کلام پہلی روایت کو ثابت کرتا ہے جس وقت ان دو آدمیوں نے اپنے عہد و پیمان کو توڑا اور سنگین جرم کے مرتکب ہوئے تو ان دونوں نے لوگوں کے درمیان مشہور کردیا کہ ہم لوگوں نے شوق و رغبت سے بیعت نہیں کی تھی۔ امام نے دونوں کا جواب دیا:
''زبیر کی فکر یہ ہے کہ اس نے اپنے ہاتھوں سے بیعت کی ہے نہ کہ اپنے دل سے، ہرگز ایسا نہیں تھا بلکہ اس نے بیعت کا اعتراف کیا اور اپنی رشتہ داری کا دعوی کیا۔ اسے چاہئے کہ جو کچھ اس نے کہا ہے اس پر دلیل پیش کرے، یا یہ کہ جس بیعت کو اس نے توڑ دیا ہے دوبارہ اس بیعت کو انجام دے۔(٢)
امام نے طلحہ و زبیر کے ساتھ گفتگو کر کے اس مسئلہ کو اور بھی واضح کردیا ہے اور لوگوں نے جو بیعت کے لئے اصرار کیا ہے اس کے بارے میں فرمایا :
''واللّہ ما کانت لی فی الخلافة رغبة و لا فی الولایة اربة و لکنکم دعوتمونی الیہا و حمَّلتمونی علیہا''(٣)
خدا کی قسم مجھے خلافت سے کوئی دلچسپی نہیں تھی اور اس میں میرا کوئی مقصد نہ تھا تم لوگوںنے اس کے لئے دعوت دی۔ اور خلافت لینے کے لئے بہت اصرار کیا۔
______________________
(١) تاریخ طبری ج٥ ص ١٥٣۔ ١٥٢، طبع بولاق، اس مطلب کو تین طریقے سے نقل کیا ہے۔
(٢) شرح نہج البلاغہ عبدہ، خطبہ، ٧۔
(٣) شرح نہج البلاغہ عبدہ، خطبہ ٢٠٠۔
جھوٹی تاریخ
سیف بن عمر ان جھوٹے مئورخوںمیں سے ہے جس نے اپنی روایتوں میں تاریخی چیزوں کو جعلی اور بے اساس مطالب سے بدلنے کی کوشش کی ہے وہ اس سلسلے میں کہتا ہے کہ طلحہ و زبیر نے مالک اشتر کی تلوار سے ڈر کر بیعت کی تھی۔(١)
یہ مطلب ، طبری کے اس مطلب سے بالکل برعکس ہے جسے اس نے پہلے نقل کیا ہے اور خود امام کے کلام سے مطابقت نہیں رکھتا ،آزادی اور امام علیہ السلام کی حکومت کے بالکل خلاف ہے جن چند لوگوں نے امام کے ہاتھ پر بیعت نہیں کی تھی امام نے انھیںان کے حال پر چھوڑ دیا، اور ان سے کوئی واسطہ نہ رکھا، یہاں تک کہ جب امام ـ سے کہا گیا کہ کسی کو ان کے پاس بھیجیں تو امام نے جواب دیا۔ مجھے ان کی بیعت کی ضرورت نہیں ہے۔(٢)
تاریخ طبری ''مستند'' ہے اور ان روایتوں کی سندیں مشخص ہیں لہذا جھوٹی اور بے اساس روایت کی شناخت ممکن ہے، اس طرح کی روایتوں کاہیرو سیف بن عمر ہے جس کا مقصد خلفاء ثلاثہ کے لئے فائدہ پہنچانا اور خاندان رسالت کو نقصان پہنچانا ہے ۔
ابن حجر عسقلانی نے اپنی کتاب ''تہذیب التہذیب'' میں سیف ابن عمر کے بارے میں لکھا ہے :
''وہ جعلی اور جھوٹی خبریں گڑھنے والا آدمی ہے، دانشمندوں کی نظر میں اس کی بیان کردہ تمام باتیں غیر معتبر اور تمام حدیثیں بے کار ہیں اوراس پر زندیق ہونے کا الزام بھی ہے۔ (١)
لیکن افسوس کہ اس کی جعلی روایتیں تاریخ طبری کے علاوہ تمام تاریخی کتابوں مثلاً تاریخ ابن عساکر، کامل ابن اثیر، البدایہ و النہایہ اورتاریخ ابن خلدون وغیرہ میں موجود ہیںسب نے بغیر تحقیق کے طبری کی پیروی کی ہے ان لوگوںنے خیال کیا ہے کہ جو کچھ طبری نے نقل کیا ہے وہ عین حقیقت ہے۔
______________________
(١) تاریخ طبری، ج٥، ص ١٥٧۔
(٢) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید، ج٤، ص ٩ ۔
(٣) تہذیب التہذیب ج٤ ص ٢٩٦۔
اختلافات کی جڑ
امام کوعثمان کی تیرہ سالہ حکومت سے جو چیز ملی وہ بہت زیادہ نعمتیں اور مال غنیمت تھے جو مسلمانوںکو مختلف ملکوں سے حاصل ہوتے تھے، علی علیہ السلام کے لئے مال غنیمت اور زیادہ نعمتیں ایسی مشکل نہ تھی کہ امام اسے حل نہیں کر سکتے تھے مبلکہ مشکل یہ تھی کہ انہیں کیسے تقسیم کیا جائے ، کیونکہ خلیفۂ دوم کی حکومت کے آخری زمانے اور عثمان کے دور حکومت میں پیغمبر کی سنت اور خلیفہ اول کے طور و طریقے میں تبدیلی آگئی تھی۔ اور ایک گروہ نے زور زبردستی یا خاندان خلافت سے وابستگی کی بناء پر مال غنیمت کو اپنا مال سمجھ رکھا تھا جس کی وجہ سے شدید طبقاتی اختلاف اور عجیب وناراضگی رونما ہوگئی تھی۔
پیغمبر اسلام کے زمانے اور خلیفہ اول کے زمانے میں ١٥ھ (١) یا ٢٠ھ (٢) تک مال غنیمت جمع نہیں کیا جاتا تھا، بلکہ فوراً ہی اسے مسلمانوں کے درمیان مساوی تقسیم کردیا جاتاتھا، لیکن خلیفۂ دوم نے بیت المال تاسیس کیا، اور لوگوں کا حسب مراتب وظیفہ معین کیا اور اس کام کے لئے ایک خاص رجسٹر بنایا گیا ابن ابی الحدید نے مسلمانوں کے حقوق کی مقدار کواس طرح بیان کیا ہے۔
پیغمبر کے چچا حضرت عباس کے لئے ہر سال ١٢ ہزار ، پیغمبر کی ہر بیوی کے لئے١٠ہزار اور عائشہ کے لئے ٢ ہزار اضافی، مہاجرین میں سے اصحاب بدر کے لئے ٥ ہزار ، اور انصار کو ٤ہزار اصحاب احد اور حدیبیہ کے لئے ٤ہزار اور حدیبیہ کے بعد کے اصحاب کے لئے ٣ہزار ، اور جن لوگوں نے پیغمبر کے انتقال کے بعد جنگوںمیں شرکت کی تھی رتبے کے اعتبار سے ٢٥٠٠ ٢٠٠٠ ٢٠٠١٥٠٠ وظیفے معین ہوئے۔(١)
عمر کا یہ دعویٰ تھا کہ اس طرح سے ہم اشراف کو اسلام کی طرف جذب کریں گے ، لیکن اپنی عمر کے آخری سال میں کہا کہ اگر میں زندہ بچ گیا تو جس طرح سے پیغمبر مال و دولت کو برابر برابر تقسیم کرتے تھے میں بھی اسی طرح مساوی تقسیم کروں گا۔(٢)
______________________
(١) شرح نہج البلاغہ ابن الحدید طبع مصر ج٣ ص ١٥٤۔
(٢) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج٢ ص ١٤٣۔
عمر کے اس کام سے اسلام میں طبقاتی نظام پیدا ہوگیا اور عثمان کے دور میں یہی نظام بہت زیادہ اوراختلاف بہت عمومی ہوگیا۔
علی علیہ السلام جو ایسے ماحول میں خلیفہ منتخب ہوئے تھے چاہتے تھے کہ لوگوں کو پیغمبر کی روش کی طرف دوبارہ واپس پلٹا دیں اور طبقاتی نظام کو لوگوں کے درمیان سے ختم کردیں اور مال غنیمت کو برابر برابر تقسیم کریں ۔ یقینا آپ کو اس سلسلے میں بہت زیادہ مشکلیںپیش آئیں ، کیونکہ مال غنیمت کو لوگوں کے درمیان برابر برابر تقسیم کرنے سے کچھ لوگوں کے منافع خطرے میں پڑ جاتے۔