فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)
 

دوسری فصل
مقدمہ کا واقعہ اورعثمان کا قتل

پانچ عوامل کا عکس العمل
جو پانچ وجہیں ہم نے بیان کیں ان کی وجہ سے تمام اسلامی مملکتوں سے اعتراضات ہونے لگے اور خلیفہ اور اس کے تمام نمائندوں پر الزامات لگنے لگے ان تمام لوگوں پر یہ الزام لگایا گیا کہ سب کے سب صحیح اسلامی راستے سے منحرف ہوگئے ہیں۔
یہی وجہ تھی کہ صحابیوں اور مسلمانوں نے ہمیشہ خلیفہ سے درخواست کیا کہ اپنی روش کو بدل دیں یا یہ کہ مسند خلافت سے دور ہو جائیں۔
اس مخالفت و اعتراض کی عظمت اس وقت ظاہر ہوگی جب ہم بعض اعتراض کرنے والوں کے نام اور ان کی گفتگو سے آشنا ہوں ۔
١۔ امیر المومنین علیہ السلام نے عثمان کے طور طریقہ پر بہت زیادہ گفتگو کی ہے، چاہے وہ قتل سے پہلے ہو یا قتل کے بعد ۔ انہی میں سے ایک یہ ہے جو امام کا خلیفہ کے کاموں سے متعلق یہ نظریہ ہے جس دن آپ نے مہاجرین کے فرزندوں کو شامیوں کے ساتھ جنگ کرنے کی دعوت دی، تو آپ نے فرمایا:
''یَا أَبْنَاء الْمُہٰاجِرِیْنَ انفروا علی ائمة الکفر و بقیة الاحزاب و اولیاء الشیطان انفروا الی من یقاتل علی دم حمّال الخطایا فو اللّہِ الذی فلق الحبة و برأ النسمة انہ لیحمل خطایا ہم الی یوم القیامة لاینقص من اوزارہم شیئاً''(١)
اے مہاجرین کے بیٹو! کفر کے سرداروں اور شیطان کے باقی بچے ہوئے دوستوں اور گروہوں کے ساتھ جنگ کرنے کے لئے تیار ہو جاؤ۔ معاویہ سے جنگ کرنے کے لئے اٹھ جاؤ تاکہ اس کو قتل کرسکو جس کی گردن پر بہت سے گناہ ہیں ( یعنی عثمان کو قتل کیا ہے) اس خدا کی قسم کہ جس نے دانہ کو شگافتہ اورانسان کو پیدا کیا وہقیامت تک دوسروں کے گناہوں کو اپنے ذمہ لیتا رہے گا جب کہ دوسروں کے گناہوں سے کچھ بھی کم نہ ہوگا۔
___________________________
(١) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید، ج٢، ص ١٩٤، (طبع جدید)
امام نے اپنی خلافت کے دوسرے دن ایک تقریر کے دوران فرمایا:
''ألا ان کل قطیع أقطعہا عثمان و کل مال أعطاہ من مال اللہ فہو مردود فی بیت المال''(١)
ہر وہ زمین جسے عثمان نے دوسروں کو دیدیا ہے اورہر وہ مال جو خدا کے مال میں سے ہے اور وہ کسی کو دیا ہے ضروری ہے کہ وہ بیت المال کو واپس کیا جائے۔
امام کا یہ کلام اوردوسرے کلام خلیفہ کے کاموں کو روشن کرتے ہیں اور اس سے بھی زیادہ واضح و ہ کلمات ہیں جو آپ نے خطبہ شقشقیہ میں بیان کیا ہے۔
''الی ان قام ثالث القوم نافجاً حضنیہ، بین نثیلہ و معتلفہ ،و قام معہ بنو أبیہ یخضمون مال اللہ خضم الابل نبتة الربیع''(٢)
(غرض اس قوم کا تیسرا آدمی پیٹ پھیلائے اپنے گوبر اور چارے کے درمیان کھڑا ہوگیا اور اس کے ساتھ ہی ساتھ اس کے بھائی بند کھڑے ہوئے جو خدا کا مال اس طرح خوش ہو کرکھارہے تھے جیسے اونٹ موسم بہار کی گھاس خوش ہوہو کر کھاتاہے ، رضوی )
٢۔ پیغمبراسلام کی بیوی ،نے سب سے زیادہ عثمان کے کاموں کو غلط بتاتی تھیں، جب عمار پر عثمان کی طرف سے ظلم و ستم ہوا اور عائشہ کو اس کی خبر ملی تو پیغمبر کے لباس اور نعلین کو باہر لائیں اور کہا کہ ابھی پیغمبر کا لباس اور جوتیاںپرانی نہیں ہوئی ہیں تم نے ان کی سنت کو فراموش کردیاہے۔
ان دنوں جب مصریوں اورکچھ صحابیوںنے عثمان کے گھر کا محاصرہ کیا تھا اس وقت عائشہ مدینہ چھوڑ کر خدا کے گھر کی زیارت کے لئے روانہ ہوگئیں جب کہ مروان بن حکم، زید بن ثابت او رعبد الرحمن بن عتاب نے عائشہ سے درخواست کی تھی کہ اپنا سفر ملتوی کردیں کیونکہ مدینہ میں ان کے رہنے کی وجہ سے ممکن ہے کہ عثمان کے سر سے یہ بلا ٹل جائے۔
______________________
(١) نہج البلاغہ عبدہ، خطبہ ١٤۔
(٢) نہج البلاغہ عبدہ، خطبہ ٣۔
عائشہ نے نہ صرف ان کی درخواست کو ٹھکرا دیا، بلکہ کہا کہ میں چاہتی ہوں کہ کاش تمہارے اور تمہارے دوست جن کی تم مدد کر رہے ہو، کے پیر میں پتھر ہوتا تو تم دونوں کو دریا میں ڈال دیتی، یا اسے ایک بوریہ میں رکھ کردریا میں ڈال دیتی۔(١)
عثمان کے بارے میں عائشہ کی باتیں اس سے کہیں زیادہ ہیں جنہیں ہم نے پیش کیا ہے۔
بس اتنا کافی ہے کہ جب تک وہ عثمان کے قتل اور علی کی بیعت سے باخبر نہ تھیں مستقل عثمان پر اعتراض و تنقید کر رہی تھیں، لیکن جب حج کے اعمال سے فارغ ہوئیں او رمدینہ کا سفر کیا اوردرمیان راہ ''سرف'' نامی مقام پر عثمان کے قتل او ربیعت علی سے باخبر ہوئیں تو فوراًنظریہ کو بدل دیااور کہا کاش آسمان میرے سر پر گرجاتا، یہ جملہ کہا اور لوگوں سے کہا کہ مجھے مکہ واپس لے چلو کیونکہ خدا کی قسم عثمان مظلوم ماراگیا ہے اور میں اس کا بدلہ لوں گی۔(٢)
٣۔ عبدالرحمن بن عوف بھی عثمان پر اعتراض کرنے والوں میں سے ہیں وہ ایسا شخص ہے کہ چھ آدمیوں پر مشتمل شوریٰ میں عثمان کی کامیابی اسی کے مکرو فریب سے ہوئی تھی۔
جس وقت عثمان نے اپنے تعہد کو جو سنت پیغمبر اور شیخین کی روش پر چلنے کے لئے کیا تھا اس کو توڑ ڈالا ،تو لوگوں نے عبد الرحمن پر اعتراض کیا اور کہا یہ سب خرابیاں تمہاری وجہ سے ہیں تو اس نے جواب میں کہا مجھے اس بات کی امید نہ تھی کہ نوبت یہاں تک پہونچ جائے گی، اب میں اس سے کبھی گفتگو نہیں کروں گا اور پھر عبد الرحمن نے اس دن سے آخر دم تک عثمان سے بات نہیں کی، یہاں تک کہ جب عثمان، عبد الرحمن کی حالت بیماری میں عیادت کرنے آئے تو اس وقت عبد الرحمن نے خلیفہ کی طرف سے اپنے چہرے کو موڑ لیا اور ان سے بات نہیں کی ۔(٣)
جی ہاں، وہ افراد جنہوںنے خلیفہ کے خلاف اعتراضات کئے اورا ن کے قتل کے مقدمات فراہم کئے بہتر ہے ان کی تعداد اس سے بہت زیادہ ہے جن کا ذکر کیا ہے دو اہم چیزوں کا ذکر کرنا مناسب ہے وہ
یہ کہ طلحہ و زبیر سب سے زیادہ ان پر اعتراض کرتے تھے ، بہرحال ، لوگوں کا نام اور مخالفین کی گفتگو ؤں اور خلیفہ کو ان کے منصب سے گرانے والے افراد کے نام کے لئے تاریخی کتابوں کی طرف رجوع کریں، کیونکہ ہمارا مقصد عثمان کی خلافت کی معزولی کو بیان کرنا نہیںہے بلکہ ہمارا مقصد یہ بیان کرنا ہے کہ لوگوں نے حضرت علی کے ہاتھ پر کیسے بیعت کی؟
______________________
(١)الانساب ج٥ ص ٤٨۔
(٢) تاریخ طبری ج٣ ص ٤٧٧۔
(٣) انساب الاشراف، ج٥، ص ٤٨۔

عثمان کے گھر کا محاصرہ
شورش کی پانچوں عوامل نے اپنا کام کر دکھایا او رعثمان کا اپنے نقائص اورخلافت پر اعتراض سے بے توجہی سبب بنی کہ اس وقت کے اسلام کے اہم مراکز، مثلاً کوفہ، بصرہ اور مصر کچھ لوگ امر بالمعروف اورنہی عن المنکر اور خلیفہ کو کتاب الہی اور سنت پیغمبر و سیرت شیخین کی مخالفت سے روکنے کے لئے مدینہ روانہ ہوں کہ مدینے میں رہنے والے اپنے ہمفکروں کے ساتھ کوئی راہ حل تلاش کریں خلیفہ توبہ کریں اور حقیقی اسلام کی طرف پلٹیں، یا مسند خلافت سے دور ہو جائیں۔
بلاذری اپنی کتاب ''انساب الاشراف'' میں لکھتے ہیں:
٣٤ ھ میں خلیفہ کی سیاست سے مخالفت کرنے والے تین شہروں کوفہ ، بصرہ اور مصر سے مسجد الحرام میں جمع ہوئے اور عثمان کے کاموں پر گفتگو کرنے لگے۔ اور سب نے ارادہ کیا کہ خلیفہ کے برے کاموں پر گواہ و شاہد بن کر اپنے اپنے شہر واپس جائیں اور جو لوگ اس سلسلے میں ان کے ہم خیال ہیں ان سے گفتگو کریں ، اور آئندہ سال انہی دنوں میں ملاقات کریں اور خلیفہ کے بار ے میں کوئی فیصلہ کریں۔ اگر وہ اپنے غلط کاموں سے باز آجائیں تو اس کے حال پر چھوڑ دیں، لیکن اگر باز نہ آئے تو اسے اس منصب سے الگ کردیں۔
اسی وجہ سے دوسرے سال (٣٥ ھ) میںمالک اشتر کی سرداری میں کوفہ سے ایک ہزار کا لشکر، حُکیم بن جبلَّہ عبدی کی سرداری میں بصرہ سے ڈیڑھ سو آدمیوں کا لشکر ، کنانہ بن بشر سکونی تجیبی اورعمر اور بدیل خزاعی کی سرپرستی میں مصر سے چار سو یا اس سے زیاد ہ افراد کا لشکر مدینہ میں داخل ہوا۔ اور مہاجر و انصار کے بہت سے افراد جو خلیفہ کے طریقہ کے مخالف تھے وہ بھی ان سے ملحق ہو گئے۔(١)
______________________
(١) الغدیر، ج٩، ص ١٦٨۔
مسعودی لکھتاہے:
چونکہ عبد اللہ بن مسعود، عمار یاسرا ور محمد بن ابی بکر، خلیفہ کی نظر میں بے توجہی کا شکار تھے، قبیلۂ ''بنی زُھر'' عبد اللہ کی حمایت میں اور ''بنی مخزوم'' عمار کی حمایت میں اور تیم، محمد بن ابی بکر کی وجہ سے اور ان تین گروہوں کے علاوہ دوسرے افراد بھی انقلابیوں کے ساتھ مل گئے اور خلیفہ کے گھر کا محاصرہ کرلیا۔
مصریوں نے خلیفہ کو جوخط لکھا اس کا مضمون یہ ہے:
اما بعد: خداوند عالم کسی قوم کی حالت کونہیں بدلتا مگر یہ کہ وہ خود اس کو بدل ڈالیں، خدا کے واسطے، خدا کے لئے، پھر خدا کے واسطے آخرت میں اپنے حصہ کو فراموش نہ کرو ، خدا کی قسم، ہم لوگ خدا کے لئے غضبناک ہوتے ہیں اور خدا ہی کے لئے خوشحال ہوتے ہیں، ہم اپنی اپنی تلواروں کواپنے کاندھوں سے اتار کر زمین پر نہیں رکھیں گے جب تک تمہارے سچے توبہ کی خبر ہم تک نہ پہونچ جائے یہی ہمارا پیغام ہے۔(١)
______________________
(١) مروج الذہب ج٣ ص ٨٨ طبع بیروت سال ١٩٧٠۔

مخالفوں کے سامنے خلیفہ کا تعہد
گھر کا محاصرہ سبب بنا خلیفہ اپنے کاموں پر سنجیدگی سے سوچیںاور محاصرہ ختم کرنے کی سبیل نکالیںلیکن وہ شورش کی تہ سے آگاہ نہیں تھے اور معاشرے کے اچھے لوگوں کو برے لوگوں کے درمیان تشخیص نہیں دے پارہے تھے،انہوں نے گمان کیا کہ شاید مغیرہ بن شعبہ یا عمرو عاص کے وسیلے سے یہ ناگہانی بلا ٹل جائے گی، اس وجہ سے اس نے ان دونوں کو انقلابیوں کی آگ خاموش کرنے کے لئے گھر کے باہر بھیجا، جب انقلابی لوگوں نے ان منحوس چہروں کو دیکھا توان کے خلاف نعرے لگانے لگے ۔ اور مغیرہ سے کہا: اے فاسق و فاجر واپس جا واپس جا ، اور عمرو عاص سے کہا: اے خدا کے دشمن واپس چلا جا کہ تو امین و ایماندار نہیںہے اس وقت عمر کے بیٹے نے خلیفہ سے حضرت علی کی عظمت کے بار ے میں بتایا اور کہا کہ صرف وہی اس شورش کی آگ کو خاموش کرسکتے ہیںلہٰذا خلیفہ نے حضرت سے درخواست کی کہ اس گروہ کو کتاب خدا اور سنت پیغمبر کی دعوت دیجئے ۔امام نے اس کی درخواست کو اس شرط پر قبول کیا کہ جن چیزوں کی میں ضمانت لوں خلیفہ اس پر عمل کرے، علی علیہ السلام نے ضمانت لی کہ خلیفہ، کتاب خدا اور سنت پیغمبر پر
عمل کریں انقلابیوں نے حضرت علی علیہ السلام کی ضمانت قبول کرلیا اور وہ سب آنحضرت کے ساتھ عثمان کے پاس آئے اور ان کی سخت مذمت کی انہوںنے بھی ان لوگوں کی باتوں کو قبول کرلیا اور یہ طے پایا کہ عثمان تحریری طور پر تعہد دیں۔
چنانچہ تعہد نامہ اس طرح سے لکھا گیا:
''یہ خط خدا کے بندے امیر المومنین عثمان کی طرف سے ان لوگوں کے نام ہے جن لوگوں نے ان پر تنقید کی ہے ، خلیفہ نے یہ عہد کیا ہے کہ خدا کی کتاب اور پیغمبر کی سنت پر عمل کرے گا، محروموں کی مدد کرے گا ڈرے اور سہمے افراد کو امان دیں گے، جلاوطن کئے ہوئے لوگوں کو ان کے وطن واپس بلائے گا، اسلامی لشکر کو دشمنوں کی سرزمین پر نہیں روکے گا، ...علی علیہ السلام مسلمانوں اور مومنوں کے حامی ہیں اور عثمان پر واجب ہے کہ اس تعہد پر عمل کرے''۔
زبیر ، طلحہ، سعد وقاص، عبد اللہ بن عمر، زید بن حارث، سہل بن حنیف، ابو ایوب وغیرہ نے گواہ کے طور پر اس تعہد نامہ کے نیچے دستخط کئے یہ خط ذیقعدہ ٣٥ھ میں لکھا گیا اور ہر گروہ کو اسی مضمون کا خط ملا اوروہ اپنے اپنے شہر واپس چلا گیا اس طرح خلیفہ کے گھر کا محاصرہ ختم ہوگیا اور لوگ آزادانہ طور پر آنے جانے لگے۔(١)
انقلابیوں کے چلے جانے کے بعد، امام نے دوبارہ خلیفہ سے ملاقات کی اوران سے کہا: تم پر ضروری ہے کہ تم لوگوں سے بات کرو تاکہ وہ لوگ تمہاری باتوں کو سنیں اور تمہارے حق میں گواہی دیں، کیونکہ انقلاب کی آواز تمام اسلامی ملکوں تک پہونچ چکی ہے اور بعید نہیں کہ دوسرے شہروں سے پھر کئی گروہ مدینہ پہونچ جائیں اور پھر دوبارہ تم مجھ سے درخواست کرو کہ میں ان سے بات کروں۔ خلیفہ کوحضرت علی کی صداقت پر پورا بھروسہ تھا لہٰذا گھر سے باہر آئے اوراپنے بے جا کاموں کی وجہ سے شرمندگی کا اظہار کیا۔
امام نے اتحاد مسلمین اور مقام خلافت کی عظمت کے لئے بہت بڑی خدمت انجام دی، اگر عثمان اس کے بعد حضرت علی کی ہدایت و رہنمائی پر عمل کرتے تو کوئی بھی واقعہ ان کے ساتھ پیش نہ آتا، لیکن افسوس خلیفہ ارادے کے ضعیف اور بے جا بولنے والے تھے اور ان کو مشورہ دینے والے حقیقت شناس اور سچے نہ
______________________
(١) الانساب ج٥ ص ٦٢۔
تھے اور مروان بن حکم جیسے افراد نے ان کی عقل و دور اندیشی کو چھین لیا تھا لہذا مصریوں کے چلے جانے کے بعد خلیفہ نے مروان کے شدید اصرار پر بہت ہی غیر شائستہ فعل انجام دیا، عثمان نے چاہاکہ مصریوں کے ساتھ اپنی ملاقات کودوسرے انداز سے پیش کریں اوراس طرح سے بیان کریںکہ مدینہ سے مصر شکایتیں پہونچی تھیںاور وہ لوگ یہاں تحقیق کرنے کے لئے آئے تھے اور جب ان لوگوں نے دیکھا کہ تمام شکایتیں بے اساس ہیں تو وہ لوگ اپنے وطن واپس چلے گئے۔
جب یہ بات لوگوں نے خلیفہ کی زبان سے سنی تو مخالفین کی طرف سے اعتراض و تنقیدہونے لگی، سب ان سے کہہ رہے تھے کہ خدا سے ڈرو! توبہ کرو! اعتراض اتنا شدید تھا کہ خلیفہ نے دوسری مرتبہ پھر اپنی باتیں واپس لے لیں، اور قبلہ کی طرف دونوں ہاتھ بلند کیا اور کہا:
''پروردگارا! میں پہلا وہ شخص ہوں جو تیرے پاس واپس آؤں گا''(١)
______________________
(١) تاریخ طبری ج٣ ص ٣٨٥، طبع اعلمی بیروت۔
انقلابیوں کے سرداروں کو قتل کرنے کا حکم دینا
قریب تھا کہ مصریوں کی آفت جائے کیونکہ وہ لوگ مدینے سے مصر کی طرف روانہ ہوچکے تھے لیکن راستے میں ''ایلہ'' نامی مقام پر لوگوں نے عثمان کے غلام کو دیکھا کہ مصر کی طرف جارہا ہے، ان لوگوں کو شک ہوا کہ شاید وہ عثمان کا خط لے کر مصرکے حاکم عبداللہ بن ابی سرح کے پاس جا رہا ہے اسی وجہ سے اس کے سامان کی تلاشی لینے لگے، اس کے پانی کے برتن میں سے رانگے (قلع) کا ایک پائپ نکلا جس کے اندر خط رکھا تھا ،خط میں حاکم مصر کو خطاب کرتے ہوئے لکھا تھا جیسے ہی عمر و بن بدیل مصر میں داخل ہو اسے قتل کردینا، اور کنانہ ، عروہ، اور ابی عدیس کے ہاتھوں کو کاٹ دینا اور اسی طرح خون میں تڑپتاہوا چھوڑ دینا اور پھر ان لوگوں کو پھانسی پر چڑھا دینا۔
خط دیکھنے کے بعد مصری اپنے آپ کو قابو میں نہ رکھ سکے، اور سب کے سب آدھے ہی راستے سے مدینہ واپس آگئے۔ اور علی علیہ السلام سے ملاقات کی اور انھیں خط دکھایا ۔ علی علیہ السلام خط لے کر عثمان کے گھر آئے اور اسے دکھایا عثمان نے قسم کھا کر کہا کہ یہ تحریر ان کے کاتب کی اور مہر انہی کی ہے لیکن وہ اس
سے بے خبر ہیں، حقیقت میں بات یہی تھی کہ خلیفہ اس خط سے بالکل بے خبر تھے اور ان کے ساتھیوں مثلاً مروان بن حکم کا کام تھا خلیفہ کی مہر حمران بن ابان کے پاس تھی کہ اس کے بصرہ جانے کے بعد مہر مروان کے پا س تھی۔(١)
مصریوں نے خلیفہ کے گھر کا دوبارہ محاصرہ کرلیااور ان سے ملاقات کرنے کو کہا اور جب لوگوں نے عثمان کودیکھا تو اس سے پوچھا: کیا تم نے اس خط کو لکھا ہے؟ عثمان نے خدا کی قسم کھا کر کہا کہ مجھے اس کا کوئی علم نہیں ہے، گروہ کے نمائندہ نے کہا: اگر ایسا خط تمہاری اطلاع کے بغیر لکھا گیا ہے تو تم خلافت اور مسلمانوں کے امور کی ذمہ داری لینے کے لائق نہیں ہو، لہٰذا جتنی جلدی ہو خلافت سے کنارہ کشی اختیار کر لو، خلیفہ نے کہا کہ خدا نے جو لباس میرے بدن پر ڈالا ہے اسے میں ہرگز اتار نہیں سکتا، مصریوں کے انداز گفتگو نے بنی امیہ کو ناراض کردیا ، لیکن بجائے اس کے کہ اصلی علت کو بیان کریں، علی کے علاوہ انھیں کوئی اور نظر نہیں آیا اور مصریوں کی طرف سے مقام خلافت پرہونے والی جسارت کا الزام ان پر لگایا، امام نے ان لوگوں کوتیز ڈانٹا اور کہا کیا تم نہیں جانتے کہ اس وادی میں میرے پاس کوئی اونٹ نہیں ہے یعنی مرا ان سے کوئی رابطہ نہیں ہے اس وقت کہا:
______________________
(١) مروج الذہب ج٢ ص ٣٤٤۔
محاصرہ میں خلیفہ کا مختلف لوگوں کو خط بھیجنا
عثمان نے محاصرہ کے ایام میں معاویہ کو خط لکھا کہ مدینے کے لوگ کافر ہوگئے ہیںاور بیعت کو توڑ دیا ہے لہٰذا جتنی جلدی ہوسکے اچھے جنگ کرنے والوں کو مدینہ روانہ کرو، لیکن معاویہ نے عثمان کے خط کو کوئی اہمیت نہ دی، اور کہا کہ میں پیغمبر کے صحابیوں کی مخالفت نہیں کروں گا۔ خلیفہ نے مختلف خط یزید بن اسد بجلی کو شام اور عبد اللہ بن عامر کو بصرہ بھیجا اوراسی طرح حج کے موسم میں تمام حاجیوں کے نام خط لکھا ،اس سال حاجیوں کے سرپرست ابن عباس تھے، لیکن کوئی بھی مؤثر ثابت نہ ہوا، کچھ لوگ خلیفہ کی مدد کے لئے گئے لیکن مدینہ پہونچنے سے پہلے ہی ان کے قتل سے آگاہ ہوگئے۔

عثمان کے قتل میں جلدی،مروان کی غلط تدبیر کا نتیجہ تھا
محاصرہ کرنے والے خلیفہ کے گھر پر حملہ نہیں کرنا چاہتے تھے بلکہ ان لوگوں کی صرف یہ کوشش تھی کہ کھانا پانی گھر میں نہ پہونچے تاکہ خلیفہ اور ان کے ساتھی محاصرہ کرنے والوں کی بات مان لیں ، لیکن مروان کی یہ غلط تدبیر کہ انقلابیوں پر حملہ کر کے ایک شخص یعنی عروہ لیثی کو اپنی تلوار سے قتل کر ڈالنا یہی سبب بنا کہ تمام محاصرین خلیفہ کے گھر میں داخل ہوجائیں ۔ اس اجتماعی ہجوم میں خلیفہ کے تین ساتھی عبد اللہ بن وہب، عبد اللہ عوف اور عبد اللہ بن عبدالرحمن مارے گئے۔ ہجوم کرنے والے عمر و بن حزم انصاری کے گھر سے دار الخلافہ پر چڑھے اور خلیفہ کے آنگن میں اتر گئے، گھر کے اندر عثمان کا غلام ناقل، مالک اشتر اور عمر و بن عبید کے ہاتھوں مارا گیا۔ حملہ اتنا شدید تھا کہ بنی امیہ، جو خلیفہ اور ان کے ساتھیوں کی حفاظت کرنے والے تھے سب کے سب بھاگ گئے اور رسول کی بیوی ام حبیبہ (ابوسفیان کی بیٹی) نے ان لوگوں کو اپنے گھر میں چھپالیا،اسی لئے تاریخ میں یہ حادثہ ''یوم الدار'' کے نام سے مشہور ہے ،خلیفہ کا قتل محمد بن ابی بکر، کنانہ بن بشر تحبیبی، سودان بن حمر ان مرادی ، عمر و بن حمق اورعمیر بن صابی کے ہاتھوں ہوا۔ خلیفہ کے قتل کے وقت ان کی بیوی نائلہ نے اپنے کو اپنے شوہر کے زخمی نیم جان بدن پر گرادیاجس کی وجہ سے ان کی دو انگلیاں کٹ گئیں لیکن انہوں نے عثمان کا سر جدا ہونے سے بچالیا مگر ہجوم کرنے والوں کی تلواروں نے ان کا کام تمام کردیا۔ اور کچھ لمحوں بعد ان کا بے روح جسم گھر کے گوشے میں گراپڑاتھا۔