گیارہویں فصل
عثمان اور معاویہ کی علمی مشکلات کا حل کرنا
امام کا علمی اور فکری میدان میں مدد کرنا صرف ابوبکر وعمر کی خلافت تک ہی محدود نہیں تھا بلکہ آپ سرپرست اوردین کے حامی و دلسوز کے عنوان سے اسلام اور مسلمانوں کی خلافت کے مختلف دور میں علمی اور سیاسی مشکلوں کو حل کرتے تھے۔ انہی میں سے تیسرے خلیفہ نے بھی امام کے بلند ترین افکار او ران کی عظیم و آگاہانہ رہنمائیوں سے فائدہ اٹھایا ہے۔
یہ کوئی تعجب کی بات نہیں کہ عثمان نے امام کی رہنمائیوں سے استفادہ کیا تھا بلکہ تعجب کا مقام یہ ہے کہ معاویہ نے بھی امام سے بغض و عداوت رکھنے کے باوجود اپنے علمی اور فکری مشکلوں کے حل کے لئے امام کی طرف دست سوال بڑھایاتھا اور کچھ لوگوں کو خفیہ طور پر امام کے پاس بھیجا تاکہ بعض مسئلوں کا جوا ب امام ـ سے دریافت کریں۔
مثلاً کبھی کبھی روم کا حاکم، معاویہ سے کچھ چیزوں کے بارے میں سوال کرتا تھا اور اس سے جواب طلب کرتا تھا ۔ معاویہ اپنی عزت و آبرو بچانے کے لئے (چونکہ اس نے اپنے کو مسلمانوں کا خلیفہ کہا تھا) کچھ لوگوں کو حضرت علی کے پاس بھیجتا تھا تاکہ وہ کسی بھی صورت سے ان سے ان سوالوں کے جوابات حاصل کر کے معاویہ کے پا س لے آئیں۔
خلیفۂ سوم اور معاویہ نے جو اپنی علمی مشکلات کے رفع کے لئے امام ـ کی طرف رجوع کیا ان کے چند نمونے ہم یہاں ذکر کر رہے ہیں۔
١۔ اسلام میںعورتوں کے حقوق میں سے ایک حق یہ ہے کہ اگر مرد اپنی بیوی کو طلاق دے اورعورت کا عدہ ختم ہونے سے پہلے ہی شوہر مر جائے تو عورت دوسرے وارثوں کی طرح شوہر کی میراث کی حقدار ہے کیونکہ جب تک عدہ ختم نہ ہو اس وقت تک شوہر و بیوی کا رشتہ برقرار ہے۔
عثمان کی خلافت کے زمانے میں ایک شخص کی دو بیویاں تھیں ایک بیوی انصار میں سے تھی اور دوسری بنی ہاشم میں سے ،کسی وجہ سے مرد نے اپنی بیوی کو جوانصار سے تھی طلاق دیدیا اور کچھ دنوں کے بعد اس کا انتقال ہوگیا انصار والی عورت خلیفہ کے پاس گئی اور کہا ابھی میرا عدہ ختم نہیں ہوا ہے مجھے میری میراث چاہئیے عثمان فیصلہ کرنے سے معذور ہوگئے لہذا اس معاملے کو امام کے پاس بھیجا حضرت نے فرمایا کہ اگر انصار والی عورت یہ قسم کھا کر کہے کہ شوہر کے مرنے کے بعد تین مرتبہ حائض نہیںہوئی ہے تو وہ اپنے شوہر سے میراث لے سکتی ہے۔
عثمان نے ہاشمی عورت سے کہا: یہ فیصلہ تمھارے پسر عم علی نے کیا ہے۔ اور میںنے اس سلسلے میں کوئی رائے نہیں دی ہے۔
اس نے جواب دیا: میںعلی کے فیصلے پر راضی ہوں۔ وہ قسم کھائے اور میراث لے لے۔(١)
محدثین اہلسنت نے اس واقعے کو دوسرے انداز سے لکھا ہے جن کی عبارتیں شیعہ فقہا کے فتووں سے متفق نہیںہیں۔ (٢)
٢۔ جس شخص نے فریضہ ٔ حج یا عمرہ کے لئے احرام باندھا ہے ا سکو یہ حق نہیں ہے کہ وہ خشکی میں رہنے والے جانور کا شکار کرے ،قرآن کریم کا اس سلسلے میں ارشاد ہے: '' وَحُرِّمَ عَلَیْکُمْ صَیْدُ الْبَرِّ مَا دُمْتُمْ حُرُمًاً'' (٣) جب تم احرام کی حالت میں ہو تو خشکی میں رہنے والے جانور کا شکار کرنا تم پر حرام ہے، لیکن اگر وہ شخص جو حالت احرام میں نہ ہو اور خشکی میں رہنے والے جانور کا شکار کرے تو کیا حالت احرام میں رہنے والا شخص اس کا گوشت کھا سکتا ہے؟ یہ وہی مسئلہ ہے جس میں خلیفۂ سوم نے امام کے نظریہ کی پیروی کی ہے، اس کے پہلے خلیفہ کی نظریہ تھی کہ حالت احرام میں رہنے والا غیر محرم کے شکار کئے ہوئے جانور کا گوشت کھا سکتا ہے اتفاق سے وہ خود بھی حالت احرام میں تھے کہ اور کچھ لوگوں اسی طرح کے گوشت سے کھانا تیار کر کے ان کو دعوت دی تھی اور یہ اس میں جانا چاہتے تھے ،جب امام نے انہیں ایسا کرنے سے منع کیاتب ان کا نظریہ بدلا۔
ان سے حضرت علی علیہ السلام نے پیغمبر اسلام(ص) کا ایک واقعہ بیان کیا جس سے وہ مطمئن ہوگئے، واقعہ یہ تھاکہ پیغمبر اسلام (ص)جب حالت احرام میں تھے تو کچھ لوگ ان کے لئے بھی
_______________________
(١) مستدرک الوسائل ج٣ ص ١٦٦۔
(٢) کنز العمال ج٣ ص ١٧٨، ذخائر العقبیٰ ص ٨٠۔
(٣) سورۂ مائدہ آیت ٩٦۔
اسی طرح کی غذا لے کر آئے، حضرت نے فرمایا: میں حالت احرام میں ہوں، یہ کھانا ایسے لوگوں کو دیدو جو حالت احرام میں نہ ہوں۔
جس وقت امام نے اس واقعہ کو نقل کیا اس وقت بارہ آدمیوں نے تائید کرتے ہوئے اس کی گواہی دی ، پھر علی علیہ السلام نے فرمایا: رسول اسلام نے نہ صرف ہمیں اس طرح کے گوشت کھانے سے منع کیا ہے بلکہ پرندوں کے انڈے یا شکار ہوئے پرندوں کے گوشت سے بھی منع کیاہے۔(١)
٣۔ اسلام کے مسلّم عقائد میں سے ہے کہ کافر پر مرنے کے بعد سخت عذاب ہوگا،عثمان کی خلافت کے زمانے میں ایک شخص نے اس اصل اسلامی عقیدہ پر اعتراض کرنے کے لئے ایک کافر کی کھوپڑی نکالی اسے خلیفہ کے پاس لے گیا اور کہا: اگر کافر مرنے کے بعد آگ میں جلے گا تو اس کھوپڑی کو بھی گرم ہونا چاہیئے جب کہ میں اس کے بدن پر ہاتھ مس کرتا ہوں پھر بھی مجھے کوئی حرارت محسوس نہیں ہوتی! خلیفہ اس کا جواب دینے سے عاجز ہوگئے اور امام کی طرف رجوع کیا، امام نے معترض کو جواب دیا اور فرمایا کہ ایک لوہا (جس سے آگ نکالتے ہیں ) اور ایک پتھر (جس سے آگ نکلتی ہے) لایا جائے اور پھر دونوں کو آپس میں ٹکرایا اس سے شعلہ نکلااس وقت آپ نے فرمایا: میں لوہے او رپتھر پر ہاتھ پھیر رہاہوں مگر حرارت کا احساس نہیں ہوتا جب کہ دونوں حرارت رکھتے ہیں اور خاص حالات کی وجہ سے اپنا کام کر تے، یہ کوئی مشکل بات نہیں ہے کہ قبر میں کافر کا عذاب بھی ایسا ہو۔
خلیفہ امام کا جواب سن کر بہت خوش ہوے اور کہا : ''لولا علی لہلک عثمان''(٢)
وہ مواردجہاں معاویہ نے امام کی طرف رجوع کیا ہے۔
اسلامی تواریخ نے سات مقامات کا ذکر کیا ہے جہاں معاویہ نے حضرت علی علیہ السلام کے سامنے دست سوال پھیلایا ہے اور اپنی شرمندگی اورندامت کو علم امام ـ کے وسیلے سے دور کیاہے۔
اُذینہ کہتے ہیں: ایک شخص نے معاویہ سے کسی چیز کے بارے میں سوال کیا، معاویہ نے کہا: اس
موضوع کے متعلق علی سے سوال کرو۔ سائل نے کہا: میں نہیں چاہتاکہ ان سے پوچھوں،میں چاہتا ہوں کہ تم
سے سوال کروں۔
______________________
(١) کنز العمال ج٣ ص ٥٣، مستدرک الوسائل ج٢ ص ١١٩۔
(٢) الغدیر ج٨ ص ٢١٤ منقول از کتاب عاصمی زین الفتی فی شرح سورۂ ہل أتی
اس نے کہا کیوں تم ایسے شخص سے سوال نہیں کرنا چاہتے جس کے بارے میں پیغمبر ۖ نے کہا ہے: ''علی سے میری نسبت ایسی ہی ہے جیسی موسیٰ کی ہارون سے تھی مگر یہ کہ میرے بعد کوئی پیغمبر نہیں ہے''، عمر نے اپنی مشکلوں کو امام کے سامنے پیش کرتے تھے۔(١)
جب امام کی شہادت کی خبر معاویہ تک پہونچی تو اس نے کہا: ''فقہ وعلم مرگیا'' معاویہ کے بھائی نے اس سے کہا: تمہاری یہ بات شام کے لوگ تمہاری زبان سے نہ سنیں۔(٢)
ان مقامات کی فہرست جہاں پر معاویہ نے حضرت علی سے مدد طلب کی ہے۔(٣)
١۔ ایسے شخص کے بارے میں حکم معلوم کرنا جو بہت دنوں سے قبروں کو کھود کر کفنوں کو چراتا تھا۔
٢۔ ایسے شخص کے بارے میں حکم معلوم کرنا جس نے کسی کو قتل کردیا اور اس کا دعویٰ تھاکہ میںنے اسے ایسی حالت میں قتل کیا ہے جب کہ وہ میری بیوی کے ساتھ زنا کررہا تھا۔
٣۔ دو آدمیوں کا ایک لباس کے سلسلے میں اختلاف ہوگیا اس میں سے ایک شخص نے دو گواہ پیش کیا کہ یہ مال اس کا ہے او ردوسرے کا دعویٰ تھا کہ اس نے کسی اجنبی سے یہ لباس خریدا ہے۔
٤۔ ایک شخص نے ایک لڑکی سے شادی کی لیکن لڑکی کے باپ نے اس لڑکی کے بجائے دوسری لڑکی کو اس کے حوالے کیا۔
٥۔ حاکم روم نے کچھ سوالات ، کہکشاں، قوس و قزح وغیرہ کے بارے میں معاویہ سے کیا تھا اوراس نے کسی اجنبی کو عراق بھیجا تاکہ ان تمام سوالوں کے جوابات علی سے دریافت کرے۔
٦۔ روم کے حاکم نے دوبارہ اسی طرح کے سوالات معاویہ سے پوچھے اور اپنا جزیہ (ٹیکس) اداکرنے کی یہ شرط رکھی کہ سوالوں کے صحیح جوابات دے۔
٧۔ تیسری مرتبہ پھرروم کی جانب سے کچھ سوالات معاویہ کی طرف پہونچے اور ان کے جوابات طلب کئے عمر و عاص نے کسی نہ کسی بہانے سے ان تمام سوالوں کے جوابات امام سے حاصل کرلئے۔
______________________
(١) ذخائر العقبیٰ ص ٧٩۔
(٢) الاستیعاب ج٢ ص ٤٢٦۔
(٣) علی و الخلفاء ، ص ٣٢٤۔ ٣١٦۔
بارہویں فصل
حضرت علی علیہ السلام کی سماجی خدمات
خلافت سے حضرت علی علیہ السلام کوکی محرومیت کا زمانہ ،مسلمانوںکے سارے امور سے کنارہ کشی کا زمانہ نہیں تھا،اس دور میں آپ نے بہت زیادہ علمی اور سماجی خدمات انجام دیںجن کی مثال تاریخ کے صفحات پر کسی اور کے لئے نہیں ملتی
حضرت علی علیہ السلام ان سے نہیں تھے جو معاشرے کے مسائل اور ضروریات کو صرف ایک نظر اور وہ بھی خلافت کی نظر سے دیکھتے ،اور وہ سوچتے کہ جب خلافت چھن گئی تو ساری ذمہ داریوں سے سبکدوش ہو جائوں گا ،اس کے باوجود نہ کہ آپ کو سیاسی رہبری سے محروم کر دیا گیا تھابہت ساری ذمہ داریاں سنبھالے ہوئے تھے اور اس وصیت کی تاسی کرتے ہوئے جس کو جناب یعقوب نے اپنے فرزند وں سے کی تھی (١)مختلف طریقوں سے سماج کی خدمت کی۔
خلفاء ثلاثہ کے زمانے میں حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کی اہم ترین خدمتیں یہ تھیں:
١۔ علماء یہود و نصاری کے علمی حملے کے مقابلے میں اسلام کے مقدس عقائد او راصول کی حفاظت اور ان کے شبہات کے جوابات دینا۔
٢۔ خلافت کے مشکل مسائل کی راہنمائی اور صحیح ہدایت کرنا ، خصوصاً قضاوت کے مسائل کا حل کرنا۔
٣۔سماجی خدمات انجام دینا، ان میں کچھ بہت اہم ہیںجن کو ذیل میں ذکر کر رہے ہیں۔
١۔ فقیروں او ریتیموں کی خبر گیری
اس بارے میں پر صرف اسی آیت کا ذکر کرنا کافی ہے ''الَّذِینَ یُنفِقُونَ َمْوَالَہُمْ بِاللَّیْلِ وَالنَّہَارِ سِرًّا وَعَلاَنِیَةً ً''(٢) (جو لوگ رات کو، دن کو چھپا کے یا دکھا کے ]خدا کی راہ میں[ خرچ کرتے ہیں)
تمام مفسرین کا اتفاق ہے کہ یہ آیت حضرت علی علیہ السلام کی شان میں نازل ہوئی ہے اگرچہ یہ آیت پیغمبر اسلام (ص)کے زمانے میں حضرت علی کی سماجی خدمات کو بیان کرتی ہے لیکن یہ اس خدمت کا سلسلہ پیغمبر اسلام کی رحلت کے بعد بھی جاری تھا۔ اور حضرت ہمیشہ یتیموں اور فقیروں کی خبر گیری کیا کرتے تھے اور آپ زندگی کے آخری لمحے تک فقیروں پر انفاق کرتے رہے۔ اس سلسلے کے بہت سے شواہدتاریخ کے دامن میں آج بھی موجود ہیں جن کی تفصیل یہاں پر ممکن نہیں ہے۔
______________________
(١) قرآن کریم (سورۂ یوسف، آیت ٦٧) کے مطابق حضرت یعقوب نے اپنے بیٹوں سے وصیت کی کہ جب شہر مصر میں داخل ہوں تو ایک دروازے سے داخل نہ ہوں بلکہ مختلف دروازوں سے وارد ہوں۔
(٢) سورۂ بقرہ، آیت ٢٧٤۔
٢۔ غلاموں کو آزاد کرنا
اسلام میں مستحب مئوکد ہے کہ غلاموں کو آزاد کیا جائے رسول اسلام (ص)سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا:
''من اعتقَ عبداً مومناً اعتقَ اللّہُ العزیزُ الجبارِ بکل عضوٍ عضواً لہ من النار''(١)
اگر کوئی شخص ایک مومن غلام کو آزاد کرے تو خداوند عزیز و جبار اس غلام کے بدن کے ہر حصے کے مقابلے میں آزاد کرنے والے کے بدن کے حصے کو جہنم کی آگ سے آزاد کرے گا۔
حضرت علی علیہ السلام دوسرے تمام فضائل و خدمات کی طرح اس سلسلے میں بھی سب سے آگے تھے اور اپنی مزدوری کی اجرت سے (نہ کہ بیت المال سے) ہزاروں غلاموں کو خریدا اور آزاد کیا۔
امام جعفر صادق نے اس حقیقت کی گواہی دی ہے اور فرمایاہے:
''ان علیاً اعتق الفَ مملوک من کد یدہ''(٢)
علی (علیہ السلام) نے اپنے ہاتھوں سے جمع کی ہوئی رقم سے ہزار غلاموں کو آزاد کیاتھا۔
______________________
(١) روضۂ کافی ج٢ ص ١٨١۔
(٢) فروغ کافی ج٥ ص ٧٤، بحار الانوار ج٤١ ص ٤٣۔
٣۔ زراعت او ردرخت کاری
پیغمبر اسلام (ص)کے زمانے میں اور ان کے بعد حضرت علی علیہ السلام کا ایک مشغلہ کھیتی باڑی اورپیڑ پودھے لگانا تھا، حضرت نے اس ذریعے سے بہت ہ خدمتیں انجام دی تھیںاور لوگوں پر خرچ کیا تھا، اس کے علاوہ بہت سی جائدادیں جنہیں خود آباد کیا تھا وقف کیا تھا۔
امام جعفر صادق اس بارے میں فرماتے ہیں کہ ''کان امیر المومنین یضرب بالمرِّ و یستخرج الارضین''(١)
حضرت امیر المومنین بیلچہ چلاتے تھے اور زمین کے دل سے چھپی ہوئی نعمتوں کو نکالتے تھے۔
اسی طرح آپ ہی سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا: خدا کی نظر میں زراعت سے زیادہ محبوب کوئی کام نہیں ہے۔
(٢)ایک شخص نے حضرت علی کے پاس ایک وسق (٣) خرمے کی گٹھلی دیکھی اس نے پوچھا یاعلی ان خرمے کی گٹھلیوں کوجمع کرنے کا کیا مقصد ہے؟
آپ نے فرمایا: یہ تمام کے تمام خدا کے حکم سے خرمے کے پیڑ میں تبدیل ہو جائیں گے۔
راوی کہتا ہے کہ امام نے ان گٹھلیوں کو زمین میں دبا دیا کچھ دنوں کے بعد وہاں کھجور کا باغ تیار ہوگیا اورامام نے اسے وقف کردیا۔(٤)
٤۔ چھوٹی نہریں کھودنا
عرب جیسی تپتی اور سوکھی زمین میںنہریں بنانا بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے ۔
امام جعفرصادق فرماتے ہیں: پیغمبر اسلام (ص)نے انفال (٥) میں سے ایک زمین کو حضرت علی کے حوالے کیا اور امام نے وہاں نہر کھودی جس کا پانی اونٹ کی گردن کی طرح فوارہ کے ساتھ نکل رہا تھا۔
______________________
(١) فروغ کافی، ج٥، ص ٧٤، بحار الانوار، ج٤١، ص ٤٣۔
(٢) بحار الانوار ج٣٢ ص ٢٠۔
(٣) ایک وسق ساٹھ صاع کے برابر اور ہر صاع ایک من ہے۔ (ایرانی من تین کلو کاہوتاہے ۔رضوی)
(٤) مناقب ابن شہر آشوب ج١ ص ٣٢٣، بحار الانوار ج٦١ ص ٣٣۔
(٥) وہ زمینیں جو بغیر جنگ و جدال کے مسلمانوں نے حاصل کی ہوں جس میں کچھ انفال نبوت سے مخصوص ہے اور رسول اسلام(ص) نے اسے اسلام اور مسلمانوں کے مفاد میں خرچ کرتے تھے۔
فرمایا: یہ نہر خانۂ کعبہ کے زائرین اورجو لوگ یہاں سے گزریں گے ان کے لئے وقف ہے ،کسی کو حق نہیں ہے کہ اس کا پانی بیچے اور میرے بچے اسے میراث میں نہیں لیں گے۔(١)
آج بھی مدینہ سے مکہ جاتے وقت راستے میں ایک علاقہ ہے جسے ''بئر علی'' کہتے ہیں امام نے وہاں پر کنواں کھودا تھا ۔
امام جعفر صادق کے بعض ارشادات سے استفادہ ہوتا ہے کہ امیر المومنین نے مکہ اور کوفہ کے راستوں میں بہت سے کنویں کھودے تھے۔(٢)
٥۔ مسجدوں کی تعمیر کرنا
مسجدوں کی تعمیر اور تاسیس کرنا خدا اور آخرت پر ایمان رکھنے کی علامت ہے ،اور امام نے بہت سی مسجدیں بنائی تھیںجن جس میں سے کچھ مسجدوں کا نام تاریخ نے درج کیا ہے اور وہ یہ ہیں:
مدینہ میںمسجد الفتح ، قبر جناب حمزہ کے پاس، کوفہ، میقات ،بصر ہ میں مسجدیں۔(٣)
٦۔ مکان و جائداد کا وقف کرنا
حدیث و تاریخ کی متعدد کتابوں میں حضرت علی علیہ السلام کے موقوفات کے نام تحریر ہیں ،ان موقوفات کی اہمیت کے لئے یہی کافی ہے کہ معتبرمئورخین کے نقل کرنے کے مطابق ان کی سالانہ آمدنی ٤٠ ہزار دینار تھی جو تمام محتاجوں اور فقیروں پر خرچ ہوتی تھی ۔ تعجب خیز بات یہ ہے کہ اتنی زیادہ آمدنی کے باوجود حضرت امیر اپنے اخراجات کے لئے تلوار بیچنے پر مجبور ہو گئے تھے۔(٤)
جی ہاں، کیوں علی علیہ السلام نے ان موقوفات میں سے کچھ اپنے لئے باقی نہ رکھا؟ کیا پیغمبر اسلام ۖنے نہیں فرمایا ہے ''جو شخص بھی اس دنیا سے اٹھ جائے تو مرنے کے بعد اسے کوئی چیز فائدہ نہیں پہونچاتی مگر یہ کہ اس نے تین چیزیں چھوڑی ہوں، نیک اور صالح اولاد جواس کے لئے استغفار کرے، سنت حسنہ جو
________________
(١) فروغ کافی، ج٧، ص ٥٤٣، وسائل الشیعہ، ج١٣، ص ٣٠٣۔
(٢،٣) مناقب ، ج١، ص ٣٢٣، بحار الانوار، ج٤١، ص ٣٢۔
(٤) کشف المحجہ ، ص ١٢٤، بحار الانوار، ج٤١، ص ٤٣۔
لوگوں کے درمیان رائج ہو، نیک کام جس کا اثر اس کے مرنے کے بعد بھی باقی رہے۔(١) حضرت علی علیہ السلام کے وقف نامے اسلام میں احکام وقت کے لئے ایک منبع و مدرک ہونے کے علاوہ ، آپ کی سماجی خدمات پر ٹھوس ثبوت ہیں۔ان وقف ناموںسے آگاہی پیدا کرنے کیلئے وسائل الشیعہ، ج١٣کتاب الوقوف و الصدقات کی طرف رجو ع کیجیئے۔
_____________________
(١) وسائل الشیعہ ج١٣ ص ٢٩٢۔
|