فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)
 

دسویں فصل
حضرت علی علیہ السلام اور خلیفۂ دوم کوسیاسی مشورے
امام علی علیہ السلام کا سب سے بڑا مقصد اسلام کی نشر و اشاعت اور مسلمانوں کی عزت و آبرو کومحفوظ کرنا تھا۔ اسی بنا پر اگرچہ آپ اپنے کو پیغمبر کا برحق جانشین مانتے تھے اور آپ کی عظمت و برتری دوسروں پر واضح و آشکار تھی، اس کے باوجود جب بھی خلافت مشکل میں گرفتار ہوتی تھی تو آپ بلند ترین افکار اور عالی ترین نظروں سے اسے حل کردیتے تھے، اسی وجہ سے ہم دیکھتے ہیں کہ امام نے خلیفہء دوم کے زمانے میں مشورے اور بہت زیادہ سیاسی، اجتماعی اور علمی مشکلوں کو حل کیا ہے ،بہت سی جگہیں جہاں پر عمر نے سیاسی
مسئلوں میں حضرت علی کی رہنمائیوں سے استفادہ کیا ہے ان میں سے سے چند چیزوں کو ذکر کر رہے ہیں۔

ایران فتح کرنے کے متعلق مشورہ
١٤ھ میں قادسیہ کی سرزمین پر اسلام کی فوج او رایرانی فوج کے درمیان زبردست جنگ ہوئی اور مسلمانوں کو کامیابی نصیب ہوئی اورایرانی فوج کا کمانڈر رستم فرّخ زاد، اور اس کے لشکر کے کچھ افراد قتل کردیئے گئے اور پورے عراق پر مسلمانوں کا سیاسی اور فوجی تسلط ہوگیا اور مدائن جو ساسانی بادشاہوں کی حکومت کا مرکز تھا مسلمانوں کے قبضے میں ہوگیا او رایرانی فوج کے سپہ سالار پیچھے ہٹ گئے۔
ایران کے فوجی سپہ سالاروں اور مشیروں کواس بات کا خوف تھا کہ کہیںایسا نہ ہو کہ اسلام کی فوج دھیرے دھیرے بڑھتی رہے اور پورے ملک کو اپنے قبضے میں لے لے، ا س خطرناک حملے کے مقابلے کے لئے پارسی بادشاہ ، یزدگرد (ایرانی بادشاہ)نے فیروزان کی سپہ سالانی میںایک لاکھ پچاس ہزار سپاہیوں کی فوج بنائی تاکہ ہر طرح کے حملے سے مقابلہ کریں اور اگر حالات سازگار ہوں تو خود حملہ کردیں۔
(عمار یاسر کے بقول) اسلام کی فوج کا سپہ سالار سعد وقاص ، جس کی کوفہ پر حکومت تھی اس نے عمر کو خط لکھا اور اسے حالات سے باخبر کیا کہ کوفہ کی فوج جنگ کرنے کے لئے تیار ہے اور قبل اس کے کہ دشمن ان پر حملہ کریں وہ لوگ دشمن پر رعب و دبدبہ بٹھانے کے لئے جنگ شروع کردیں۔
خلیفہ مسجد میں گئے اور تمام بزرگ صحابیوں کو جمع کیااوران لوگوں کواپنے ارادے سے باخبر کیا کہ میں مدینہ چھوڑ رہا ہوں اور کوفہ اور بصرہ کے درمیان قیام کروں گا تاکہ وہاں رہ کر فوج کی رہبری کروں ۔ اس وقت طلحہ کھڑا ہوا اور خلیفہ کے اس اقدام کی تعریف کی اور ایسی تقریر کی جس کے ایک ایک لفظ سے چاپلوسی کی بو آرہی تھی۔
عثمان بھی اپنی جگہ سے اٹھے اور انہوں نے نہ صرف خلیفہ کے مدینہ چھوڑ نے کی تعریف کی بلکہ خلیفہ سے کہا کہ شام اور یمن کی فوج کے پاس خط لکھو کہ وہ لوگ اس جگہ کو چھوڑ دیں اور تم سے آکر مل جائیں اور تم اتنے زیادہ سپاہیوں کے ساتھ دشمن کا مقابلہ کرسکتے ہو۔ اس وقت حضرت علی علیہ السلام اپنی جگہ سے اٹھے اور دونوں نظریوں پر تنقید کی اور فرمایا: ''وہ سرزمین جو محنت و مشقت اور ابھی ابھی مسلمانوں کے تصرف میں آئی ہے اس کا اسلام کی فوج سے خالی رہنا صحیح نہیں ہے اگر یمن اور شام کے مسلمانوں کو وہاں سے ہٹا دو گے تو ممکن ہے حبشہ کی فوج یمن اور روم کی فوج شام کواپنے قبضے میں کرلیں، اور مسلمانوں کی اولادیں اورعورتیں جو یمن اور شام میں زندگی بسر کر رہی ہیں مصیبتوں میں گرفتار ہو جائیں۔ اور اگر مدینے کو چھوڑ کر چلے گئے تو اطراف و جوانب کے عرب اس موقع سے فائدہ اٹھائیں گے اورایسا فتنہ پیدا کردیں گے جس کا نقصان اس فتنہ سے زیادہ ہوگا جس کے مقابلے کے لئے جارہے ہو۔ اور (امور سلطنت) میں حاکم کی حیثیت وہی ہوتی ہے جو مہروں میں ڈوروں کی۔ جو انھیں ایک جگہ ملا کر رکھتا ہے پس اگر ڈورا ٹوٹ جائے تو سب مہرے بکھر جائیں گے اور پھر کبھی سمٹ نہ سکیں گے اگر تو اسلامی فوج کے سپاہیوں کی کمی کی بنا پر فکر مند ہے تو مسلمان جو ایمان رکھتے ہیں سپرد کردیں ،تیری مثال چکی کی اس لکڑی کی ہے جو بیچ میں رہتی ہے اور جنگ کی چکی کو اسلام کے سپاہیوں کے ذریعے انجام دے، جنگ کے میدان میں تمہارا جانا دشمنوں کی جرأت میں اضافہ کا سبب ہوگا، کیونکہ وہ لوگ یہ فکر کرتے ہیں کہ تم اسلام کے پیشوا و حاکم ہو اور تمہارے علاوہ مسلمانوں کا کوئی رہبر نہیں ہے اور اگر اس کودرمیان سے اٹھالیں تو ان لوگوںکی مشکل حل ہو جائے گی اور یہ فکر، ان کے جنگ کی حرص اور کامیابی حاصل کرنے کا باعث بنے گی۔(١)خلیفہ امام کی بات سننے کے
______________________
(١) نہج البلاغہ عبدہ خطبہ ١٤٤، تاریخ طبری ج٤ ص ٢٣٨۔ ٢٣٧، تاریخ کامل ج٣ ص ٣، تاریخ ابن کثیر ج٧ ص ١٠٧، بحار الانوارج٩ ص ٥٠١مطبوعہ کمپانی۔

بعد جنگ پر جانے سے باز آگیا اور کہا یہ رائے و ارادہ علی کا ارادہ ہے اور میں چاہتا ہوں کہ ان کے حکم کی پیروی کروں۔(١)
بیت المقدس فتح کرنے کے بارے میں مشورہ
بیت المقدس فتح کرنے کے سلسلے میں عمر نے حضرت علی علیہ السلام سے مشورہ کیا اور حضرت کے حکم کی پیروی کی۔
مسلمانوں کو شام فتح کئے ہوئے صرف ایک مہینہ گزرا تھا اوران لوگوں کا ارادہ تھا کہ بیت المقدس کی طرف چڑھائی کریں، اسلامی فوج کے علمبردار ابوعبیدہ جرّاح اور معاذ بن جبل تھے۔
معاذ نے ابوعبیدہ سے کہا: خلیفہ کو خط لکھو اور بیت المقدس کی طرف چڑھائی کے متعلق سوال، کرو ابو عبیدہ نے خط لکھا، خلیفہ نے مسلمانوں کے سامنے خط پڑھااوران لوگوں سے مشورہ طلب کیا۔
امام ـ نے عمر کو شوق و رغبت دلایاکہ اپنے سپہ سالاروں کو خط لکھو کہ بیت المقدس کی طرف بڑھتے رہیں اور بیت المقدس فتح کرنے کے بعد ٹھہر نہ جائیں بلکہ سرزمین قیصر میں داخل ہوں اور اس بات سے مطمئن رہیں کا کامیابی انھیں ہی ملے گی کیونکہ پیغمبر نے اس فتح و کامرانی کی خبر دی ہے۔
خلیفہ نے فوراً قلم و کاغذ منگایا اور ابوعبیدہ کو خط لکھا اوراسے جنگ جاری رکھنے اور بیت المقدس کی طرف بڑھنے کا حکم اور رغبت دلایا اور لکھا کہ پیغمبر کے چچازاد بھائی نے مجھے بشارت دی ہے کہ بیت المقدس تمہارے ہاتھوں سے فتح ہوگا۔(٢)
______________________
(١) نہج البلاغہ عبدہ خطبہ ١٤٤، تاریخ طبری ج٤ ص ٢٣٨۔ ٢٣٧، تاریخ کامل ج٣ ص ٣، تاریخ ابن کثیر ج٧ ص ١٠٧، بحار الانوارج٩ ص ٥٠١مطبوعہ کمپانی۔
(٢) ثمرة الاوراق، حاشیۂ المستطرف میں، تحقیق: تقی الدین حموی ج٢ ص ١٥، مطبوعہ مصر ١٣٦٨ھ۔

تاریخ اسلام کی ابتدا
ہر قوم کی ایک ابتدائی تاریخ ہوا کرتی ہے جس میں لوگ اپنے تمام واقعات و حادثات کو پرکھتے ہیں، مسیحی قوم کی تاریخ کا آغاز حضرت عیسیٰ کی ولادت سے ہوتا ہے اور اسلام سے پہلے عربوں کی تاریخ ''عام الفیل'' سے شمار ہوتی تھی، بعض قوموں کی تاریخ کاآغاز عمومی ہوتا ہے اور بعض قومیں حادثات وغیرہ سے اپنی
تاریخ کو یاد کرتی ہیں مثلاً قحط والا سال، جنگ کا سال، وغیرہ۔
عمر کی خلافت کے تیسرے سال تک مسلمانوں کی کوئی تاریخ نہیں تھی جسے خطوط اور تمام قرارداداورحکومت کے امور اس تاریخ سے مخصوص ہوتے، تو پھر ان خطوط کا کیا کہنا جو فوج کے سپہ سالاروں کے لئے لکھا جاتا تھا اورتمام خطوط میں صرف مہینوں کا نام لکھا جاتا تھا، لیکن تاریخی سال کا کوئی تذکرہ نہیں ہوتا تھا، یہ کام اسلامی نظام میں نقص کے علاوہ خط موصول کرنے والوں کے لئے بھی مشکلیں ایجاد کر رہا تھا کیونکہ ممکن تھا کہ دو مختلف حکم سپہ سالار کے پاس یا حاکم وقت کے پاس پہونچے اور راستے کی دوری اور خطوط میں تاریخ درج نہ ہونے کی وجہ سے وہ نہیں جان پائیں کہ پہلے کون سا خط لکھا گیا ہے۔
خلیفہ نے تاریخ اسلام کی ابتدا اور اس کے تعیین کے لئے پیغمبر کے تمام صحابیوں کو جمع کیا لوگوںنے اپنے اپنے حساب سے نظریہ پیش کیا بعض لوگوں کا کہنا تھا کہ پیغمبر اسلام کی ولادت کی تاریخ سے اسلامی تاریخ کا آغاز ہو اور بعض لوگوں نے کہا کہ عید بعثت (٢٧ رجب معراج پیغمبر) سے تاریخ کی ابتدا ہو ، انھیں انہی نظریوں میں حضرت علی علیہ السلام نے بھی اپنا نظریہ پیش کیا کہ جس دن پیغمبر اسلام نے سرزمین شرک کو چھوڑا اور سرزمین اسلام پر قدم رکھا اسی سے اسلامی تاریخ کا آغاز کیا جائے، عمر نے تمام نظریوں میں سے حضرت علی علیہ السلام کے نظریہ کو پسند کیااور پیغمبر اسلام کی ہجرت کو تاریخ اسلام کی ابتدا قرار دیا اوراسی دن سے تمام خطوط، سندیں، اور حکومت کے دفاتر وغیرہ میں ہجری سال لکھا جانے لگا۔(١)
بے شک یہ بات صحیح ہے کہ ولادت پیغمبر یا پیغمبر کی بعثت ایک بڑا واقعہ ہے لیکن ان دونوں دنوں میں اسلام لوگوں کی آنکھوں کے سامنے اجاگر نہ تھا، پیغمبر کی ولادت کے دن اسلام کا وجود نہیں تھا اور پیغمبر کی بعثت کے دن اسلام کا کوئی قانون و قاعدہ نہ تھا، لیکن ہجرت کے دن کفار کے مقابلے میں مسلمانوں کی طاقت و قدرت اور کامیابی اور اسلامی حکومت کی تشکیل کا دن تھا اور اس دن پیغمبر نے سرزمین شرک کو چھوڑا تھا اور مسلمانوں کے لئے اسلامی وطن بنایا تھا۔
______________________
(١) تاریخ یعقوبی ج١ ص ١٢٣، تاریخ طبری ج٢ ص ٢٥٣، کنز العمال ج٥ص ٢٤٤، شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج٣ ص ١١٣ مطبوعہ مصر۔

خلیفۂ دوم کے زمانے میں لوگ صرف حضرت علی کی طرف رجوع کرتے تھے
پیغمبر اسلام(ص) کی رحلت کے بعد مختلف قوم و ملت میں اسلام پھیلنے کی وجہ سے مسلمان نئے مسائل سے روبرو ہوا جس کا حکم قرآن مجید اور پیغمبر کی حدیث میں موجود نہیں تھا، کیونکہ احکام وفروعات سے مربوط آیتیں محدود ہیں، اورتھیں واجبات و محرمات سے متعلق پیغمبر اسلام کی جو حدیثیں امت کے درمیان موجود تھیں ان کی تعداد چار سو سے زیادہ نہیں تھی(١) یہی وجہ ہے کہ مسلمان بہت سے مسئلوں کے حل کے لئے جس کے بارے میں قرآنی نص اور حدیث پیغمبر وارد نہیں ہوئی ہے مشکلوں میں گرفتار ہوئے۔
ان مشکلوں نے ایک گروہ کو اس بات پر مجبور کردیا کہ وہ ان مسئلوں میں اپنی عقل او رائے پر عمل کریں اورغیر صحیح معیاروں کے ذریعے اس مسئلہ کا حکم معین کریں۔ اس گروہ کو ''اصحاب رائے'' کہتے ہیں، وہ لوگ کتاب و سنت سے قطعی اور شرعی دلیل سے استناد کرنے کے بجائے موضوعات کا مطابق مصالح و مفاسد کے حل نکالتے تھے اور ظن و گمان کے ذریعے خدا کے حکم کو معین کرتے تھے اور اسی کے مطابق فیصلہ دیتے تھے۔
خلیفۂ دوم نے بہت سی جگہوں پر نص کے مقابلے میں خود اپنی رائے پر عمل کیا ہے اور وہ جگہیں آج بھی تاریخ کے صفحات پر درج ہیں لیکن اصحاب کی رائے کے متعلق انداز دوسرا تھا ان کے بارے میں کہتے ہیں۔
''صاحبان رائے'' پیغمبر اسلام کی سنتوں کے دشمن ہیں وہ لوگ پیغمبر کی حدیث کو یاد نہیں کرسکتے تھے اسی لئے اپنی رائے کے مطابق فتوی دیتے تھے ، خود بھی گمراہ ہوئے اور دوسروں کو بھی گمراہ کیا، آگاہ ہو جاؤ کہ ہم پیروی کرتے ہیں خود سے کوئی کام نہیں کرتے اور ہم تابع ہیں بدعت نہیں کرتے، ہم لوگ پیغمبر کی حدیثوں پر عمل کریں گے اور گمراہ نہیں ہوں گے''
______________________
(١) رشید رضا، مولف: المنار اپنی کتاب ''الوحی المحمدی'' دوسرا ایڈیشن، ص ٢٢٥، پر لکھتے ہیں کہ پیغمبر اسلام کی تمام حدیثیں جو فروع اور احکام سے متعلق ہمارے پاس ہیںان میں سے اگر تکر ار ہوئی حدیث کو حذف کردیا جائے تو چار سو سے زیادہ نہیںہونگی۔ اور یہ احتمال دینا کہ پیغمبر کی حدیثیں اس سے زیادہ ہیں اور ہم تک نہیں پہونچی ہیں یہ ضعیف ہے لہذا پیغمبر اسلام کی رحلت کے بعد جتنی حدیثیں امت کے پاس موجود ہیںاتنی ہی یا اس سے کچھ زیادہ ہیں۔
جیسا کہ ہم نے پہلے ذکر کیا کہ عمر نے نص کے مقابلے میں اپنی رائے پر عمل کیا ہے اور بہت سی جگہوں پر دلیل نہ ہونے کی وجہ سے انہوںنے خود اپنی رائے اور نظریہ پر عمل کیا لیکن بہت سے مقامات پر باب علم پیغمبر حضرت امیر المومنین کی طرف رجوع کیا۔ پیغمبر اسلام(ص) کے فرمان کے مطابق حضرت امیر المومنین علیہ السلام پیغمبر کے علوم کا خزانہ اور احکام خداوندی کے وارث تھے اور قیامت تک جن چیزوں کی امت کو ضرورت ہوگی ان تمام چیزوں کے کے جاننے والے تھے اورامت پیغمبر میں ان سے بڑا عالم کوئی نہیں تھا یہی وجہ ہے کہ سیکڑوں مقام پر جن میں سے کچھ جگہوں کو تاریخ نے اپنے دامن میں جگہ دی خلیفۂ دوم نے امام کے علوم سے استفادہ کیا ہے اور اس کی زبان پر ہمیشہ یہ جملہ یا اس سے مشابہ جملہ ورد رہتا تھا۔
''عجزت النسائُ ان یلدنَ مثلَ علی بن ابی طالب''
عورتیں اس بات سے عاجز ہیں کہ علی جیسی شخصیت کو پیدا کرسکیں۔
''اللہم لا تبقنی لمعضلة لیس لہا ابن ابی طالب ''
خداوندا! مجھے ایسی مشکل میں گرفتار نہ کرنا جس کے حل کے لئے علی بن ابی طالب نہ ہوں۔
(وہ جگہیں جہاں پر عمر نے اپنی رائے و نظریہ پر نص کے مقابلے میں عمل کیا ہے) اس میں سے کچھ جگہوں کو بطور نمونہ پیش کر رہے ہیں۔
١۔ ایک شخص نے عمر سے اپنی بیوی کے بارے میں شکایت کیا کہ شادی کے چھٹے مہینے بعد ہی اسے بچہ ہوا ہے عورت نے بھی اس بات کو قبول کرلیااور کہا کہ شادی سے پہلے میرا کسی سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ خلیفہ نے حکم دیدیا کہ اس عورت کو سنگسار کردیاجائے ، لیکن امام نے حد جاری کرنے سے منع کردیا اور فرمایا کہ قرآن کی نظر میںعورت چھ مہینے کے عرصہ میں بچہ پیدا کرسکتی ہے کیونکہ آیت میں حمل اوردودھ پلانے کی کل مدت ٣٠ مہینہ معین ہوئی ہے۔
''. وَحَمْلُہُ وَفِصَالُہُ ثَلَاثُونَ شَہْرًا ''(١)
اور اس کا پیٹ میں رہنا اور اس کے دودھ بڑھائی کی (کل مدت) تیس مہینہ ہے۔
______________________
(١) سورۂ احقاف، آیت ١٥۔
قرآن کی دوسری آیت میں صرف دودھ پلانے کی مدت دو سال بیان ہوئی ہے۔
''وَفِصَالُہُ فِیْ عَامَیْنِ''(١) اور اس کے دودھ بڑھانے کی مدت دو سال ہے۔
اگر تیس مہینے سے دو سال کم کریں تو حمل کے لئے چھ مہینہ کی مدت باقی رہے گی۔
عمر نے ا مام ـ کے منطقی کلام سننے کے بعد کہا: ''لولا علی لہلک عمر''(٢)
٢۔ خلیفۂ دوم کی عدالت میں یہ ثابت ہوا کہ پانچ آدمیوں نے عفت کے منافی عمل انجام دیا ہے خلیفہ نے تمام آدمیوں کے بارے میں ایک ہی فیصلہ کیا ، لیکن امام نے ان کے حکم کو باطل قرار دیدیا اور فرمایا کہ ان لوگوںکے بارے میں تحقیق و جستجو کی جائے اگر ان کے حالا ت مختلف ہوںگے تو کہ خدا کا حکم بھی مختلف ہوگا۔
تحقیق و جستجو کے بعد امام نے فرمایا:
ان میں سے ایک کو قتل کرادو، دوسرے کو سنگسار کرادو، تیسرے کو سو کوڑے مارو ، چوتھے کو پچاس کوڑے لگائواور پانچویں کو نصیحت کرو۔
خلیفہ نے جب امام کا مختلف فیصلہ سنا تو بہت تعجب ہوا اور امام سے اس کا سبب دریافت کیا ، تو امام ـ نے فرمایا:
پہلا شخص کافر ذمی ہے اور کافر ذمی کی جان اس وقت تک محترم ہے جب تک احکام ذمی پر عمل کرے، لیکن اگر احکام ذمی کی رعایت نہ کرے تو اس کی سزا قتل ہے اوردوسرے نے عورت شوہر دار سے زنا کیا ہے۔ اور اسلام میں اس کی سزا سنگسار کرنا ہے اور تیسرا شخص کنوارا ہے جس نے اپنے کو گناہوں سے آلودہ کیا ہے اس کی سزا سو تازیانہ ہے چوتھا شخص غلام ہے اور اس کی سزا آزاد شخص کی آدھی سزا کے برابر ہے اور پانچواں شخص پاگل ہے۔(٣)
اس وقت خلیفہ نے کہا: ''لاعشتُ فی امةٍ لست فیہا یا ابا الحسن!''
میں ایسے لوگوں کے درمیان نہ رہوں جن میںاے ابو الحسن آپ نہ ہوں۔
______________________
(١) سورۂ لقمان، آیت ١٤۔
(٢) مناقب شہر ابن آشوب ج١ ص ٤٩٦، بحار ج٤٠ ص ٣٣٢۔
(٣) شیخ طوسی تہذیب ج١٠ ص ٥٠احکام زنا حدیث ١٨٨۔
٣۔ ایک غلام جس کے پیر میں زنجیر بندھی تھی کہیں جارہا تھا، دو آدمیوں کے درمیان ا س کے وزن کے متعلق اختلاف ہوگیا اور ان میں سے ہر ایک یہ کہہ رہا تھا کہ اگر اس کی بات صحیح نہ ہوگی تو اس کی زوجہ کو تین طلاق والی ہو جائیگی ۔ دونوں غلام کے مالک کے پاس آئے اور اس سے کہا کہ زنجیر کو کھول دے، تاکہ اس کو وزن کریں اس نے کہا: میں اس کے وزن سے آگاہ نہیں ہوں اور میںنے نذر بھی کی ہے کہ اس کی زنجیر کو نہیں کھولوں گا مگر یہ کہ اس کے وزن کا صدقہ دوں۔
اس مسئلہ کو خلیفہ کے پاس پیش کیا گیا، انہوں نے حکم دیا کہ اس وقت غلام کا مالک زنجیر کھولنے سے معذور ہے لہذا یہ دونوں اپنی اپنی بیویوں سے جدا ہوجائیں ، ان لوگوںنے خلیفہ سے گذارش کی کہ اس مسئلہ کو حضرت علی کے سامنے پیش کیا جائے، امام نے فرمایا: زنجیر کے وزن سے آگاہی بہت آسان ہے۔ اس وقت آپ نے حکم دیا کہ ایک بڑا طشت لایا جائے او رغلام سے کہا کہ اس کے بیچ میں کھڑا ہو جائے، پھر امام نے زنجیر کو نیچے کردیا اور اس میںایک دھاگا باندھا اور طشت کو پانی سے بھر دیا۔ پھر زنجیر کو اس تاگے کے ذریعے اوپر کھینچنا شروع کیا یہاں تک کہ پوری زنجیر پانی سے باہر آگئی اس وقت حکم دیا کہ زنجیر کو دھاگے کے ذریعہ اوپر کھینچیں تاکہ وہ پانی سے اوپر آجائے۔ پھر فرمایا کہ طشت کو ٹوٹے پھوٹے لوہوں سے بھر دو تاکہ پانی اپنی اصلی جگہ تک آجائے اور آخر میں فرمایا کہ ان ٹوٹے ہوئے لوہوں کو کھینچیں کیونکہ اس کا وزن وہی زنجیر کا وزن ہے اور اس طریقے سے تینوں افراد کی مشکل حل ہوگئی۔(١)
٤۔ ایک عورت جنگل میں پیاسی تھی اور تشنگی نے اس پر سخت غلبہ کیا مجبوراً اس نے ایک چرواہے سے پانی مانگا اس نے اس شرط پر پانی دینے کا وعدہ کیا کہ عورت خود کو اس کے حوالے کرے، خلیفۂ دوم نے اس عورت کے حکم کے متعلق امام سے مشورہ کیا حضرت نے فرمایا: کہ عورت اس کو انجام دینے میں مجبور تھی
اور مضطر و مجبور پر کوئی حکم نہیں ہے۔(٢)
یہ واقعہ اور اسی طرح کے دوسرے واقعات ، جن میں سے بعض کو بیان کیا ہے یہ اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ امام اسلام کے مکمل قوانین سے باخبر تھے جو قرآن و حدیث میں بیان ہوئے ہیں اور خلیفہ
ان چیزوں سے بے خبر تھے۔
______________________
(١) شیخ صدوق، من لایحضرہ الفقیہ ج٣ ص ٩۔
(٢) سنن بیہقی ج٨ ص ٢٣٦، ذخائر العقبیٰ ص ٨١، الغدیر ج٦ص ١٢٠۔
٥۔ ایک پاگل عورت نے عفت کے خلاف عمل کیا، خلیفہ نے اسے مجرم قراردیا لیکن امام نے اسے پیغمبر اسلام کی ایک حدیث یاد دلاتے ہوئے عورت کو آزاد کردیا اور حدیث یہ ہے تین لوگوں سے حکم اٹھالیا گیا ہے جس میں سے ایک دیوانہ ہے یہاں تک کہ وہ اچھا ہو جائے۔(١)
٦۔ایک حاملہ عورت نے اپنے گناہوں کا اعتراف کیا۔ خلیفہ نے حکم دیا کہ اس کواسی حالت میں سنگسار کرد یں امام نے حد جاری کرنے سے منع کیا اور فرمایا کہ تم اس کی جان لینے کا حق رکھتے ہو نہ کہ اس بچے کی جو کہ اس کے پیٹ میں ہے۔(٢)
٧۔ کبھی کبھی امام مشکلوں کو حل کرنے کے لئے نفسیاتی اصولوں سے استفادہ کرتے تھے، ایک دن ایک عورت نے اپنے بیٹے سے بیزاری ظاہر کی اوراس کی ماں ہونے سے انکار کردیا اور اس کا دعویٰ تھا کہ وہ ابھی کنواری ہے جب کہ اس نوجوان کا اصرار تھا کہ یہ میری ماں ہے خلیفہ نے حکم دیا کہ اس کی طرف غلط نسبت دینے کی وجہ سے نوجوان کو تازیانہ مارا جائے۔ جب اس واقعہ کی خبر امام کو ملی تو امام نے اس عورت اور اس کے رشتہ داروں کو بلایا تاکہ اس عورت کی شادی ان میں سے جس سے بھی چاہیں کردیں اور ان لوگوںنے بھی حضرت علی کو اپنا وکیل بنادیا۔ امام نے اسی نوجوان کی طرف رخ کر کے کہا: میں نے اس عورت کا عقد تمہارے ساتھ پڑھا اور اس کی مہر ٤٨٠ درہم ہے پھر ایک تھیلی نکالی جس میں اتنا ہی درہم تھا اور عورت کے حوالے کیا اور اس جوان سے کہا: اس عورت کا ہاتھ پکڑو اور پھر میرے پاس نہ آنا، مگر یہ کہ شادی وغیرہ کے آثار تمہاری شکل و صورت سے ظاہر ہوں۔
عورت نے جب یہ کلام سنا تو چیخ اٹھی اور کہا: ''اللہ ، اللہ ہو النار، ہو و اللہ ابنی!'' یعنی خدا کی پناہ، خدا کی پناہ، اس کا نتیجہ آگ ہے خدا کی قسم یہ میرا بیٹا ہے پھر اس نے انکار کرنے کی وجہ کو تفصیل سے بیان کیا۔(٣)
______________________
(١) مستدرک حاکم ج٢ ص ٩٥، الغدیر ج٦ ص ١٠٢۔
(٢) ذخائر العقبیٰ ص ٨٠، الغدیرج٦ ص ١١٠۔
(٣) کشف الغمہ ج١ ص ٣٣، بحار الانوار ج٤٠ ص ٢٧٧۔