نویں فصل
حضرت علی اور خلیفہ اول کی سیاسی مشکلیں
پیغمبر اکرم ۖ نے صحابیوں اور چاہنے والوں کے درمیان جو حضرت علی کے فضائل بیان کئے اس کی وجہ سے پیغمبر اسلام ۖ کی رحلت کے بعد علمی اور فکری مسائل میںحضرت علی امت کے عظیم مرجع قرار پائے یہاں تک کہ وہ افراد بھی جنھوں نے حضرت علی کو خلافت سے دور کر دیاتھا اپنی علمی، سیاسی ، عقیدتی مشکلوں میں آپ کی طرف رجوع کرتے تھے اور ان سے مدد طلب کرتے تھے۔
خلفاء کا امام سے مد دطلب کرنا تاریخ اسلام کاایک مسلّم باب ہے اور بہت زیادہ قطعی سندیں اس سلسلے میں موجود ہیں اور کوئی بھی انصاف پسند اس کا انکار نہیں کرسکتا۔ اور یہ خود اس بات کی دلیل ہے کہ امام ـ قرآن و سنت، اصول و فروع اوراسلام کے سیاسی مصلحتوں میں اعلم تھے صرف کتاب ''الوشیعہ'' کے مولف نے اس تاریخی حقیقت کا کنایةً و اشارتاً انکار کیا ہے اور خلیفۂ دوم کو دسیوں جعلی اور تاریخی سندوںکے ساتھ امت میں سب سے اعلم اور افقہ شمار کیا ہے(١) ہم فی الحال اس سلسلے میں بحث نہیں کریں گے کیونکہ بہت زیادہ تاریخی شواہد موجودہیں کہ خلیفۂ دوم نے مدد کے لئے حضرت علی کی طرف رجوع کیا تھا اور تاریخ نے اسے اپنے دامن میں محفوظ رکھاہے جوان کی بات کا جواب ہے، لہذا جواب دینے سے بہتر یہ ہے کہ خلفاء میں سے ہر ایک کی علمی اور سیاسی مدد جو انھوںنے امیرالمومنین سے مانگی تھی، اسے پیش کیا جائے۔
______________________
(١)مقدمہ الوشیعہ ،ص ن
حضرت علی اورابوبکر کی علمی و سیاسی مشکلیں
تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ خلیفۂ اول نے حضرت علی سے سیاسی، فقہی، عقائدی، تفسیر قرآن اور احکام اسلامی جیسے اہم مسئلوں میں مدد لی تھی اور حضرت کی رہنمائیوں سے پورا فائدہ اٹھایا تھا ، یہاں پر چند نمونے ذکر کر رہے ہیں۔
رومیوں کے ساتھ جنگ
اسلامی حکومت کے دشمنوں میں سے بدترین دشمن روم کے بادشاہ تھے جو ہمیشہ شمال کی جانب سے
اسلامی حکومت کو ڈرایا کرتے تھے، پیغمبر اسلام (ص) اپنی زندگی کے آخری لمحوں تک روم کے خطروں سے غافل نہ تھے۔
٧ ھ میں آپ نے ایک گروہ کو جعفر بن ابی طالب کی سپہ سالاری میں شام کے اطراف میں روانہ کیا، لیکن لشکر اسلام نے اپنے تین سپہ سالاروں کو کھو دینے کے بعد بغیر نتیجہ مدینہ واپس آگئے اس خسارے کی تلاش کرنے کے لئے رسول اکرم ۖ ٩ ھ میں ایک عظیم لشکر کے ہمراہ تبوک کی جانب عازم ہوئے لیکن دشمن سے مقابلہ کئے بغیر مدینہ واپس آگئے اس سفر میں ایسے اہم اور واضح نتائج سامنے آئے کہ جو تاریخ میں محفوظ ہیں، اس کے باوجود روم کی جانب سے ہونے والے خطرے نے پیغمبر کو متفکر رکھا، اور یہی وجہ ہے کہ آنحضرت نے اپنی زندگی کے آخری لمحات میں جب کہ آپ بیمار تھے مہاجرین اورانصار سے سپاہیوں کا انتخاب کیااورانھیں شام کے ساحل کی طرف روانہ کردیا، لیکن یہ لشکر کسی وجہ سے مدینے سے باہر نہیں گیا اور پیغمبر اسلام ۖ کا انتقال ہوگیا جب کہ لشکر اسلام نے مدینے سے چند کلو میٹر کے فاصلے پر پناہ لے رکھی تھی۔
پیغمبر اسلام (ص)کے انتقال کے بعدمدینہ کی سیاسی فضا جو بحران کا شکار ہوگئی تھی، خاموش ہوگئی
اور ابوبکر نے حکومت کی باگ ڈور اپنے ہاتھوں میں لے رکھی تھی۔
خلیفہ نے پیغمبر (ص)کے اس فرمان کو جو رومیوں سے جنگ کے متعلق آپ نے جاری کیا تھا اس میں دو دلی کا مظاہرہ کیا، لہذا صحابیوں کے کچھ گروہ سے مشورہ کیااور جس نے بھی جو نظریہ پیش کیااس سے یہ قانع اور مطمئن نہیں ہوا آخر میں حضرت علی سے مشورہ کیاامام ـ نے اسے پیغمبر اسلام کے حکم جاری کرنے کی رغبت دلائی اور فرمایا کہ اگر رومیوں سے جنگ کرو گے تو کامیاب رہو گے خلیفہ امام کی اس تشویق اور رغبت سے خوشحال ہوگیااورکہا: تم نے بہترین فال کی طرف اشارہ کیا ہے اور خیر و نیکی کی بشارت دی ہے۔(١)
______________________
(١) تاریخ یعقوبی، ج٢، ص ١٢٣، مطبوعہ نجف۔
یہودیوں کے بزرگ علماء کے ساتھ مناظرہ
پیغمبر اسلام (ص)کے انتقال کے بعد یہودیوں اور نصرانیوں کے بزرگ علماء و دانشوروں نے مسلمانوں کے روح و ذہن کوکمزور کرنے کے لئے اسلام کی طرف قدم بڑھایا اور بہت سے سوالات کئے جن میں سے بعض یہ ہیں:
یہودیوں کے علماء کاایک گروہ مدینہ آیا اور خلیفۂ اول سے کہا: اس وقت تم اپنے پیغمبر کے جانشین ہو تو تم میرے سوال کا جواب دو کہ خدا کہاںہے؟ کیاوہ آسمانوں پر ہے یا زمین پر؟
ابوبکر نے جو جواب دیا اس سے وہ لوگ مطمئن نہ ہوئے انہوںنے کہا کہ خدا عرش پر ہے جس پر یہودیوں نے تنقید کی اور کہا کہ ایسی صورت میں زمین کوخدا سے خالی ہونا چاہیئے، ایسے حساس موقع پر حضرت علی علیہ السلام اسلام کی مدد کوپہونچے اور مسلمانوں کی آبروکی آبرو کو بچا لیا کرلیا ، امام نے منطقی جواب دیتے ہوئے کہا:
''ان اللّہ این الاین فلا این لہ، جل أن یحویٰہ مکان فہو فی کل مکان بغیر مماسّة و لامجاورة ، یحیط علماً بما فیہا و لا یخلوا شیء من تدبیرہ''(١)
تمام جگہوں کو خداوند عالم نے پیدا کیا ہے اور وہ اس سے زیادہ بلند و بالا ہے کہ جگہیں اسے اپنی آغوش میں لیں، وہ ہرجگہ ہے لیکن کسی نے لمس نہیں کیا ہے، اورنہ ہی کسی کا پڑوسی ہے ،تمام چیزیں اس کے علم میں ہیں اور کوئی چیز بھی اس کی تدبیر سے باہر نہیں ہے۔
حضرت علی علیہ السلام نے اس جواب میں خدا کے ہر جگہ ہونے پر واضح استدلال کیاہے اوریہودی علماء کو اتنا تعجب میں ڈال دیاکہ وہ مولائے کائنات کے کلام کی حقانیت اورآپ پیغمبر کے اصلی جانشین ہونے کا اعتراف کرنے لگے۔
امام نے اپنے پہلے جملے میں (تمام جگہوں کوخدا نے پیداکیا ہے) دلیل توحید سے استفادہ کیا ہے اوراس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ دنیا میں قدیم بالذات خدا کے سوا کوئی اور نہیں ہے اور اس کے علاوہ جو کچھ ہے وہ مخلوق ہے، خدا وندعالم کے لئے ہر طرح کے مکان سے نفی کیا ہے، کیونکہ اگر خدا کسی مکان میں ہوتا تو ضروری تھا کہ شروع ہی سے اس کے ساتھ ہوتا، جب کہ جو کچھ بھی اس کائنات میں ہے سب اسی کی مخلوق ہے ۔
کہ انہی میں مکان بھی ہے لہٰذا کوئی بھی چیز اس کے ہمراہ نہیں ہو سکتی واضح لفظوں میں یوں کہا جائے کہ اگر خدا کے لئے کوئی جگہ یا مکان فرض کیا جائے تو یہ مکان بھی خدا کی ذات کی طرح یا قدیم ہوگایا مخلوق
______________________
(١) ارشاد مفید، چاپ قدیم، ص ١٠٧۔
خدا شمار ہو گا، پہلا فرض برہان توحید کے ساتھ ساز گار نہیںہے اور یہ کہ کائنات میں خدا کے سوا کوئی قدیم نہیںہے،سازگار نہیںہے، اور دوسرافرض اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ فرضی مکان ،مخلوق خدا ہے،اس پر شاہد کہ اس کو مکان کی ضرورت نہیںہے کیونکہ خدا تھا اور یہ مکان نہیں تھا بعد میں اس نے خلق کیا۔
امام ـ نے اپنے دوسرے جملے میں(وہ ہر جگہ موجود ہے بغیر اس کے کہ کوئی اسے لمس کرسکے یا اسکا ہمسایہ ہوسکے) خداوند عالم کے صفات میں سے ایک صفت پر اعتماد کیا ہے او روہ یہ کہ اس کا وجود لامتناہی ہے اور لامتناہی ہونے کا لازمہ یہ ہے کہ وہ ہرجگہ ہو اورہر چیز پر قدرت وا حاطہ رکھتاہو، اور یہ کہ خدا جسم نہیں رکھتا یعنی موجودات میں ایک دوسرے سے ملاقات نہیں کرتا اور کسی کی ہمسایگی نہیں کر سکتا۔
کیا یہ مختصر اور پر معنی عبارت حضرت علی علیہ السلام کے وسیع علم اور علم الہی سے معمور ہونے کا پتہ نہیں دیتی؟
البتہ صرف یہ تنہا موردنہیں تھا کہ امام نے، یہودیوں کے علماء اوردانشمندوں کے مقابلے میں خدا کے صفات کے سلسلے میں بحث کی ہے بلکہ دوسرے اور تیسرے خلیفہ کے زمانے میں اور خود اپنی خلافت کے زمانے میں اکثر و بیشتر یہودیوں سے بحث کی ہے۔
ابونعیم اصفہانی نے حضرت علی اور علماء یہود کے چالیس افراد کے درمیان ہوئے مناظرے کو نقل کیا ہے، اور اگر امام ـ کے اس مناظرے کی شرح لکھی جائے تواس کے لئے ایک مستقل کتاب کی ضرورت ہے یہاں پراس کی تفصیل کا مقام نہیں ہے۔(١)
امام کے بحث کا طریقہ یہ تھا کہ وہ سامنے والے کی علمی سطح دیکھ کر بحث کرتے تھے، کبھی بہت دقیق دلیل پر پیش کرتے تو کبھی واضح او رروشن مثالوں اور تشبیہوں سے بات واضح کرتے تھے۔
______________________
(١) حلیة الاولیائ، ج١، ص ٧٢۔
عیسائی دانشمند کواطمینان بخش جواب
سلمان کہتے ہیں:
پیغمبر(ص) کے انتقال کے بعد عیسائیوں کا ایک گروہ ایک پادری کی سربراہی میں مدینہ آیا اور خلیفہ کے سامنے سوال کرنا شروع کرکیا، خلیفہ نے ان لوگوں کو حضرت علی کے پاس بھیجا ان لوگوںنے امام
سے سوال کیا کہ ''خدا کہاں ہے؟'' امام ـ نے آگ جلائی اور پھر اس سے پوچھا بتاؤ آگ کا رخ کدھر ہے ،عیسائی دانشمند نے جواب دیا چاروںطرف آگ ہے اورآگ کا سامان اور پشت نہیںہے اور آگ پشت و رخ نہیں رکھتی۔ امام نے فرمایا: اگر آگ جسے خدا نے پیدا کیا ہے اس کا کوئی خاص رخ نہیںہے تواس کا خالق جو ہرگز اس کے مشابہ نہیںہے اور اس سے بہت بلند و بالا ہے وہ پشت و رخ رکھتا ہو، مشرق و مغرب کواسی خدا نے پیداکیا ہے اور جس طرف بھی رخ کرو گے اس طرف خدا ہے اور کوئی چیز اس سے پوشیدہ نہیں ہے۔(١)
امام نے نہ صرف اسلام اور مسلمانوں کے فکری اور عقائدی مسئلوں میں خلیفہ کی مدد کی بلکہ جب بھی خلیفہ ، قرآن کریم کے کلموں کے معنی کی تفسیر کرنے سے عاجز ہو جاتے تھے تو ان کی مدد کرتے تھے ،
چنانچہ جب ایک شخص نے ابوبکر سے اس آیت ''وفاکہة و أبا متاعاً لکم و لانعامکم''(٢) میں لفظ ''أب'' کا معنی پوچھا انہوں نے بہت تعجب سے کہا میں کہاں جاؤں، اگر بغیر علم و آگاہی کے خدا کے کلام کی تفسیر کروں۔
جب یہ خبر حضرت علی علیہ السلام کے پاس پہونچی تو آپ نے فرمایا: ''أب'' سے مراد ہری بھری گھاس ہے۔(٣)
اور عربی میں کلمۂ ''أب'' کے معنی ہری گھاس کے ہیں تو اس پرخود آیت پر واضح طور پر دلالت کررہی یہ کہ
کیونکہ آیت ''فاکہة و أباً'' کے بعد بغیر کسی فاصلے کے ارشاد قدرت ہوتا ہے: ''متاعاً لکم و لانعامکم'' یعنی یہ دونوں تمہارے اور تمہارے چارپایوں کے فائدے کے لئے ہیںاور جو کچھ
انسان کے فائدے کے لئے ہے وہ ''میوہ'' ہے اور جو کچھ حیوان کے لئے باعث لذت اور زندگی ہے وہ ''ہری گھاس'' ہے جو یقیناً صحرائی ہری بھری گھاس ہے۔
______________________
(١) قضاء امیر المومنین مطبوعہ نجف ١٣٦٩ھ ص ٩٦۔
(٢) سورۂ عبس، آیت ٣٢۔ ٣١؛ اور میوے اور چارا (یہ سب کچھ) تمہارے اورتمہارے چارپایوں کے فائدے کے لئے بنایا ہے۔
(٣) الدر المنثور ج٦ ص ٣١٧، ارشاد ص ١٠٦۔
ایک شرابی کے بارے میں حضرت علی کا فیصلہ
خلیفہ اول نے نہ صرف امام ـ سے قرآن کے مفاہیم سے آگاہی حاصل کی بلکہ، فروع دین اور احکام میں حضرت سے ہمیشہ مدد لیتے رہے۔
حکومت کے سپاہی ایک شرابی کو پکڑ کر خلیفہ کے پاس لائے تاکہ شراب پینے کی وجہ سے اس پر حد جاری کریں۔ وہ اس بات کا دعوی کر رہا تھا کہ مجھے معلوم نہیں تھا کہ شراب حرام ہے کیونکہ ہم نے ایسے معاشرے میں پرورش پائی ہے جو آج تک شراب کو حلال سمجھتے ہیں، خلیفہ فیصلہ کرنے سے عاجز آگیا فوراً کسی کو حضرت علی کے پاس بھیجا اور ان سے اس مشکل کا حل دریافت کیا۔ امام نے فرمایا:
دو معتبر افراد ا شرابی کا ہاتھ پکڑ کر مہاجرین و انصار کے پاس لے جائیں اور ان لوگوں سے پوچھیں کہ کیا ابھی تک آیت تحریم خمر (شراب کو حرام قرار دینے والی آیت) کو اس مرد کے سامنے پڑھا ہے یا نہیں؛ اگر ان لوگوں نے گواہی دی کہ ہاں ہم نے آیت حرمت کو اس کے سامنے پڑھا ہے تو ضروری ہے کہ اس پر خدا کی طرف سے معین کردہ حد جاری ہو اور اگر ان لوگوںنے گواہی نہیں دی تو ضروری ہے کہ یہ شخص توبہ کرے کہ آئندہ کبھی بھی اپنے ہونٹ کو شراب سے تر نہیں کرے گا اور پھر اسے چھوڑ دیا جائے۔
خلیفہ نے امام کے حکم کی پیروی کی اوراسے آزاد کردیا۔ (١)
یہ بات صحیح ہے کہ امام نے خلفاء کے زمانے میں خاموشی اختیار کی اور کوئی بھی عہدہ نہیں لیا، لیکن کبھی بھی اسلام کے دفاع اوردین مقدس کی حمایت سے غافل نہیں رہے۔
تاریخ کے دامن میں یہ واقعہ موجود ہے کہ ''رأس الجالوت'' (یہودیوں کے پیشوا) نے درج ذیل مطالب کے بارے میںابوبکر سے سوال کیا اوراس کے متعلق قرآن کا نظریہ دریافت کیا۔
١۔ زندگی اور ہر زندہ موجودات کی بقا کیاہے؟
٢۔ بے جان چیز جس نے کلام کیا ہے وہ کیا ہے؟
٣۔ وہ چیز جو ہمیشہ کم اور زیادہ ہوتی رہتی ہے کیا ہے؟
جب یہ خبر امام ـ کے پاس پہونچی تو آپ نے فرمایا:
______________________
(١) اصول کافی ج٢ حدیث ١٦، ارشاد مفید ص ١٠٦ ،مناقب ابن شہر آشوب ج١ ص ٤٨٩۔
زندگی کی بقا قرآن کی نظر میں ''پانی'' ہے(١) وہ بے جان چیز جس نے گفتگو کی وہ زمین و آسمان ہیں جنہوں نے خداکا حکم پاتے ہی اپنی اطاعت کا اظہار کیا (٢) اور جو چیز ہمیشہ کم و زیادہ ہوتی ہے وہ دن اور رات ہیں۔(٣)
جیسا کہ امام کے اس بیان سے واضح و روشن ہوتا ہے امام معمولاً اپنے کلام کو ثابت کرنے کے لئے قرآن کی آیتوں سے استناد کرتے تھے اور یہ ان کے کلام کی حقانیت کو مزید بڑھا دیتاتھا۔(٤)
____________________
(١) ''و جعلنا من الماء کُلَ شیئٍ حی'' سورۂ انبیاء آیت ٣٠؛ یعنی ہم نے پانی سے ہر زندہ موجودات کو پیدا کیا۔
(٢) ''فقال لہا و للأرض أئتیا طوعاً او کرہًا قالتا أتینا طائعین؛ سورۂ حم سجدہ ، آیت ١١؛ تو اس نے اس سے اور زمین سے فرمایا کہ تم دونوں آؤ خوشی سے یا کراہت سے دونوں نے عرض کی ہم خوش خوش حاضر ہیں (اور حکم کے پابند ہیں)
(٣) ''یولجُ اللیلَ فی النہارِ و یولجُ النہارَ فی اللیل'' سورۂ لقمان، آیت ٢٩؛ یعنی خدا ہی رات کو ( بڑھا کے) دن میں داخل کردیتا ہے (تو رات بڑھ جاتی ہے) اور دن کو (بڑھا کے) رات میں داخل کردیتا ہے (تو دن بڑھ) جاتا ہے۔
(٤)بحار الانوار ج٤ ص ٢٢٤۔
|