آٹھویں فصل
خاندان رسالت، حضرت علی ـکی نظر میں
امام علی علیہ السلام کی پچیس سالہ زندگی جو پیغمبر اسلام کی وفات کے بعد شروع ہوتی ہے اور آپ کی ظاہری خلافت کے شروع ہونے پر ختم ہوتی ہے ایک ایسا حساس اورقابل درس حصہ ہے جس میں سے بعض کو ہم نے پہلے ذکر کیا ہے اور بقیہ حصے کو یہاں پر بیان کر رہے ہیں اس میں سے کچھ حصے حسب ذیل ہیں:
١۔ خلفاء ثلاثہ کے مقابلے میںامام کا رویہ اور ان کے ساتھ برتاؤ۔
٢۔ مسلمانوں کو احکام اور اسلامی مسائل کی تعلیم دینا۔
٣۔ امام ـ کی اجتماعی خدمات۔
اس کے پہلے کہ امام کی خلفاء کے مقابلے میں آپ کے رویے کو بیان کریں، ضروری ہے کہ خاندان رسالت کے سلسلے میں حضرت کے نظریہ کو بیان کریں یا خود امام ـ کی اصطلاح میں ''آل محمد'' کے حالات کو بیان کریں تاکہ یہ بات واضح ہو جائے کہ اسلام کی نشرو اشاعت میں حضرت علی علیہ السلام کا خلفاء کے ساتھ ہمکاری کرنااس وجہ سے نہ تھا کہ امام ان لوگوں کو حق کا محور اور واقعی خلیفہ و حاکم سمجھتے تھے ،بلکہ آنحضرت ان کی ہمکاری اور سیاسی و علمی مشکلات کوحل کرنے کے ساتھ ساتھ خاندان رسالت استادان حق ،صحیح پیشوااور حقیقی حاکم جانتے تھے خودواضح لفظوں فرماتے ہیں:
''لایقاسُ بآلِ محمدٍ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم من ہذہ الامة احدُ و لایساویٰ بہم من جرتْ نعمتہُم علیہ ابداً''(١)
اس امت میں کسی شخص کا مقابلہ بھی خاندان رسالت سے نہیں ہوسکتا اور جو لوگ ان کی نعمتوں سے مستفیدہوئے ہیں ہرگز ان کے برابر نہیں ہوسکتے۔
دوسرے مقام پر امام ،آل محمد ۖ کے علمی فضائل کے ایک گوشہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ''ہُم موضعُ سرِّہ و ملجأُ امرِہ و عَیبةُ عِلمہِ و موئلُ حکمِہ و کہوفُ کتبہِ و
______________________
(١) نہج البلاغہ عبدہ، خطبہ٢۔
جبالُ دینِہ، بہم أقامَ انحنائَ ظہرِہ و أذہبَ ارتعادَ فرائضہ''(١)
خاندان پیغمبر کے افراد پیغمبر کے رازوں کے محافظ اوران کے حکم پر عمل کرنے والے، اوران کے علوم کا ذخیرہ، اوران کی کتابوں کے محافظ ہیں۔ وہ لوگ ایسے مضبوط پہاڑ ہیں جو اسلام کی سرزمین کو زلزلہ سے محفوظ رکھتے ہیں، پیغمبر نے ان لوگوں کے وسیلے سے اپنی پشت کو سیدھا کیا اور اپنے کو آرام و سکون بخشا۔
حضرت علی علیہ السلام ایک مقام پر ان لوگوں کو دین کی اساس و بنیاد اور ایمان و یقین کے ستون سے تعبیر کیا ہے اور فرماتے ہیں کہ ان لوگوںکے رفتارو گفتار کو دیکھ کر جو لوگ غلو کرتے ہیں ان کو غلو سے روکا اور جو حق کی راہ میں پیچھے رہ گئے ہیں ان کو واپس منزل پر لایا جا سکتا ہے۔
''ہم اساسُ الدین و عمادُ الیقین الیہم یفیئُ الغالی و بہم یلحقُ التالی''(٢)
ایک اور مقام پر آپ ارشاد فرماتے ہیں :
''انظروا اہلَ بیتِ نبیکم فالزموا سَمْتَہم و اتبعوا أثرَہم فلن یُخرجوکم من ہدی و لن یعیدوکم فی ردیً فان لبدوا فالبدوا و ان نہضوا فانہضوا و لا تسبقوہم فتضلوا و لا تتأخروا عنہم فتہلکوا''(٣)
خاندان رسالت کے بارے میں فکر و تدبر سے کام لو اور ان کے راستے پر چلو کیونکہ ان کی پیروی تمہیں راہ حقیقت سے دور نہیں کرسکتی اور گمراہی کی طرف نہیں لے جائے گی اگر وہ کسی مقام پر رک جائیں تو تم بھی رک جاؤ اور اگر اٹھ جائیں تو تم بھی اٹھ جاؤ کبھی بھی ان پر سبقت نہ کرنا ورنہ گمراہ ہو جاؤ گے اور ان سے منھ بھی نہ موڑنا ورنہ برباد ہو جاؤ گے۔
امام اہل بیت نبوت کی معرفت و شناخت کو خدا و پیغمبر کی معرفت کے بعد جانتے ہیں۔
''فانہ من ماتَ منکم علی فراشِہ و ہو علی معرفةِ حقِ ربِہ و حقِ رسولِہ و اہلِ بیتِہ مات
______________________
(١) نہج البلاغہ عبدہ خطبہ ٢۔
(٢) نہج البلاغہ عبدہ خطبہ ٢۔
(٣) نہج البلاغہ عبدہ خطبہ ٩٣۔
شہیداً''(١)
تم میں سے جو شخص بھی خود اپنے بستر پر مرجائے اور اپنے پروردگار کے حق اوراپنے پیغمبر کے حق اور خاندان رسالت کے حق کی معرفت رکھتا ہو تو وہ دنیا سے شہید اٹھا ہے۔
امام نے اپنے کلام میں کہ خاندان رسالت کے حق کی معرفت، خدا و رسالت کے حق کی معرفت کے ہمراہ ہے اس حدیث کو واضح اور روشن کردیا ہے جسے محدثین نے پیغمبر اسلام سے نقل کیا ہے ۔
من مات ولم یعرفْ امام َزمانِہ ماتَ میتة ًجاھلیة
جومرجائے اور اپنے زمانہ کے امام کو نہ پہچانے اس کی موت جاہلیت کی موت ہے
امام ایک مقام پر ہر زمانے میں فیض الہی جاری رہنے کے متعلق اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
''الا ان مثلَ آلِ محمدٍ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کمثلِ نجومِ السماء اذا خوی نجمُ طلعَ نجم''(٢)
خاندان رسالت کی مثال آسمان کے ستاروں کی طرح ہے کہ اگر ایک ڈوبتا ہے تو دوسرا نکلتا ہے۔
امام نے خاندان رسالت کے فضائل و کمالات کے متعلق اس سے بہت زیادہ کہا ہے کہ ان سب کو یہاں بیان کرنے کی گنجائش نہیں ہے (٣) نمونہ کے طور پر چند حدیثوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں، حضرت ان کے اسماء مبارک کے سلسلے میں فرماتے ہیں:
''ألا بابی و امی ہم من عِدةٍ اسماء ہم فی السمائِ معروفة و فی الارضِ مجہولة''(٤)
میرے ماں باپ قربان ہوں اس گروہ پر جن کے نام آسمانوں پر مشہور اور زمین پر مجہول ہیں۔
امام ـ کی درج ذیل حدیث اگر چہ حق کی پیروی کرنے والوں کے بارے میں ہے لیکن اس کا مصداق کامل خاندان رسالت ہے۔
______________________
(١) نہج البلاغہ عبدہ خطبہ ١٨٥۔
(٢) نہج البلاغہ عبدہ خطبہ ٩٦۔
(٣) نہج البلاغہ فیض الاسلام خطبہ نمبر ٩٣ ٩٦ ١٠٨ ١١٩ ١٤٧ ١٥٣ ١٦٠ ٢٢٤ و مکتوب نمبر ١٧ کلمات قصار ١٠١۔
(٤) نہج البلاغہ عبدہ خطبہ ١٨٢۔
''عقلوا الدینَ عقلَ وعایةٍ و رعایةٍ لا عقلَ سُماعٍ و روایةٍ فان رواةَ العلمِ کثیر و رعاتُہ قلیل''(١)
دین و اصول اور فروع کی حقیقت کو حد کمال و عقل تک پہچانا ہے اور اس پر عمل کیا ہے نہ یہ کہ صرف سن کر پہچانا ہے کیونکہ علم کے دعوے دار بہت ہیں اور اس پر عمل کرنے والے بہت کم ہیں۔
امام نے اگر چہ ذیل کے کلام میں ان کے باعظمت مقام کو بیان کیا ہے لیکن اپنے دوسرے کلام میں ان کی ولایت و رہبری کی تصریح کی ہے اور ان لوگوں کو اس امت کا ولی و حاکم اور پیغمبر کا جانشین اور ان کے منصبوں کا (سوائے نبوت کے) وارث قرار دیاہے۔
''و لہم خصائصُ حقِ الولایة و فیہم الوصیةُ و الوراثة''(٢)
ولایت و امامت کی خصوصیتیں (علم اور اعجاز) ان کے پاس ہیں اور پیغمبر کی وصیت ان کے بارے
میں ہے اور یہ لوگ پیغمبر کے وارث ہیں۔
حضرت علی کے بیانات کی روشنی میں جب خاندان رسالت کی عظمت واضح ہو گئی اور خود آپ بھی اسی خاندان کی ایک اہم فرد ہیں۔ تو اب ضروری ہے کہ امام کی خلفاء کے بارے میں امام کے رویے کی اہم تاریخی حوالوں کے ساتھ وضاحت کریں۔
_______________________
(١) نہج البلاغہ عبدہ خطبہ ٢٣۔
(٢) نہج البلاغہ عبدہ خطبہ٢۔
امام خلفاء کی فکری اور قضاوتی آماجگاہ تھے
منصب خلافت سے کنارہ کشی کرنے کے بعد امام پچیس سال تک خاموش رہے اور مکمل طور پر خاموش رہنے کا مطلب یہ نہیں تھا کہ آپ امور رہبری میں ہر طرح کی مداخلت سے کنارہ کشی کئے ہوئے تھے، اگرچہ سیاسی رہبری اور منصب خلافت پر دوسروں نے قبضہ کرلیا تھا اور منصوب و معزول کرنا اور اسلامی اموال ان کے ہاتھ میں تھا، اس کے باوجود اس امت کے تنہا معلم اور لوگوں کی فکروں کی آماجگاہ جن کے علم کے مقابلے میں سبھی خاضع تھے وہ علی بن ابی طالب ـ تھے۔
ا س زمانے میں امام ـ کی اہم ترین خدمات یہ تھیں کہ نئے اسلام کے قضاوت کی رہبری کرتے تھے ،جب بھی ان کو کوئی مشکل پیش آتی تھی فوراً اس مسئلہ کے حل کے لئے حضرت کی طرف رجوع کرتے تھے اور کبھی کبھی خود امام بغیر اس کے کہ لوگ ان کی طرف رجوع کرتے خلیفہء وقت کی مسئلہ قضاوت میں راہنمائی کرتے تھے اور جو اس کے جاری کردہ حکم میں غلطیاں ہوتی تھیں اس پر متوجہ کرتے اور بہترین اورفیصلوں کے ذریعے پیغمبر کے صحابیوں کے ذہنوں کو جلا بخشتے تھے۔
اگرچہ امام ان کی خلافت کو تسلیم نہیں کرتے تھے اور خود کو پیغمبر اسلام ۖ کا وصی و جانشین اور امت کے تمام امور کی رہبری کے لئے بہترین فردجانتے تھے، لیکن جب بھی اسلام اور مسلمانوں کی مصلحتوں پر کوئی وقت آتا تھا تو ہر طرح سے مدد کرتے تھے بلکہ جانبازی اور فداکاری سے بھی دریغ نہیں کرتے تھے اور ہمیشہ مسکراتے ہوئے چہرے سے تمام مشکلات کا استقبال کرتے تھے۔
امام کی منزلت اس سے بالتر اور آپ کی روح اس سے بزرگ تر تھی کہ آپ کے بارے میں بعض یہ خیال کریں کہ چونکہ خلافت کی باگ ڈور ان سے لے لی گئی لہٰذا حکومت کے کسی بھی امور میں مداخلت نہ کریں اور کسی بھی مشکل کو حل نہ کریں، تاکہ اسلامی معاشرہ ناراض ہو جائے اور خلافت غیر مستحکم ہو جائے اور حکومت کا تختہ پلٹ جائے ، نہیں امام ایسے شخص نہ تھے ،وہ اسلام کے پروردہ تھے اور اسلام کی آغوش میںانھوں نے تربیت پائی تھی اور جب پیغمبر اسلام شجر اسلام کی آبیاری کر رہے تھے اس وقت آپ نے بہت زحمتیں برداشت کیں اور اسلام کی راہ میں خون نثار کیا، آپ کا ایمان اور پاکیزہ فکر اس بات کے لئے راضی نہ تھی کہ اسلام کی مشکلات اور مسلمانوں کے دشوار امور کے مقابلے میں مکمل خاموش رہیں اور ہر طرح کی مداخلت سے پرہیز کریں۔
امام ـ کا اہم ہدف یہ تھا کہ پوری دنیا میں اسلام پھیل جائے اور مستحکم ہو جائے اور امت کے افراد معارف الٰہی ،دین کے اصول و فروع سے باخبر اور یہودیوں اور نصرانیوں کے دانشمندوں کے نزدیک اسلام کی عظمت محفوظ ہو جائے جو اس نئے مذہب کی طرف گروہ در گروہ تحقیق کے لئے مدینہ آرہے تھے اور جہاں تک امام کے امکان میں تھا اور حکومت ، مزاحمت ایجاد نہیں کرتی تھی بلکہ کبھی کبھی آپ کے سامنے دست سوال دراز کرتی تھی تو آپ ان کی رہنمائی اور رہبری سے منھ نہیں پھیرتے تھے بلکہ ہمیشہ استقبال کرتے تھے۔
امام نے اس خط میں جو مالک اشتر کے ذریعے مصر والوں کے نام لکھا تھا اس میں آپ نے اس حقیقت کی وضاحت اور خلفاء کے ساتھ مدد اور رہنمائی کرنے کی وجہ کوبھی بیان کیا ہے۔
''فامسکتُ یدی حتی رأیتُ راجعةَ الناسِ قدرجعتْ عن الاسلامِ یدعون الی محقِ دینِ محمدٍ فخشیتُ ان لم انصرْ الاسلامَ و اہلَہ ان أَری فیہ ثلماً او ہدماً تکونُ المصیبةُ بہ علَّ اَعظمَ من فوتِ ولایتِکم التی انما ہی متاعُ ایامٍ قلائلٍ یزولُ منہا ما کانَ کمایزولُ السراب''(١)
میں نے ابتدا میں خلفاء کی مدد کرنے سے پرہیز کیا (اور ان کو ان کے حال پر چھوڑ دیا) یہاں تک کہ میں نے دیکھا کہ ایک گروہ نے اسلام سے منھ پھیر لیا ہے اور لوگوں کو دین محمدۖ کے مٹانے کی دعوت دے رہا ہے مجھے خوف محسوس ہوا کہ اگر اسلام اور مسلمانوں کی مدد کے لئے نہ اٹھوں تو اسلام کے اندر رخنہ یا ویرانی دیکھنا پڑے گی اور یہ مصیبت میرے لئے اس چند روزہ حکومت سے دوری سے زیادہ بڑی ہوگی جو سراب کی طرح زائل ہو ۔
امام کا یہ نامہ آپ کی روح کی پاکیزگی اور اس اسلامی معاشرہ کے امور میں مداخلت کی علت کو بیان کر ہا ہے کہ جس کی باگ ڈور ایسے افراد کے ہاتھ میں تھی جنہیں امام تسلیم نہیں کرتے تھے۔
حضرت علی ،رسول اسلام ۖکی نظر میں
پیغمبر اسلام ۖ کے انتقال کے بعد خلفاء اور آپ کے اصحاب نے اپنی مشکلات کے حل کے لئے حضرت علی کی طرف رجوع کیا، اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ ان لوگوںنے پیغمبر اسلام ۖ سے حضرت علی کے علم و فضل و قضاوت کے بارے میں سنا تھا کہ آپ نے فرمایا:
''اعلمُ امتی بالسنةِ و القضائِ علیُّ بنُ ابی طالب''(٢)
میری امت میں اسلامی سنت اور قضاوت کے احکام کی سب سے زیادہ معلومات رکھنے والے
_______________________
(١) نہج البلاغہ عبدہ نامہ ٦٢۔
(٢) کفایة الطالب، مطبوعہ نجف، ص ١٩٠۔
علیبن ابی طالب ہیںِ ان لوگوں نے پیغمبر اسلام ۖ سے سنا تھا کہ حضرت نے زید بن ثابت اور ابی ابن کعب وغیرہ کی معرفی کرتے وقت حضرت علی کے بارے میں فرمایا: ''اقضاکم علی''(١) یعنی تم میں سب سے اچھا فیصلہ کرنے والے علی بن ابی طالب ہیں۔
ابھی پیغمبر کی آواز صحابیوں کے کانوں سے ٹکراہی رہی تھی کہ پیغمبر نے فرمایا:
''انا مدینةُ العلم و علی بابُہا فمن اراد المدینةَ فلیاتِہا من بابہا''(٢)
میں شہر علم ہوں اورعلی اس کا دروازہ ہیں جو شخص بھی چاہتا ہے کہ شہر میں داخل ہو تو اسے چاہئیے کہ شہر کے دروازے سے داخل ہو۔
جی ہاں، خلفاء اور پیغمبر کے اصحاب اپنی مشکلوں کے حل کے لئے کیوں نہ مولائے متقیان حضرت علی کی طرف رجوع کریں اور ان کے بتائے ہوئے مشورے پر عمل کریں؟ اس لئے کہ ان لوگوںنے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھاکہ جب اہل یمن نے پیغمبر اسلام ۖ سے کہا : کسی ایسے شخص کو ہماری رہبری کے لئے بھیجئے جو ہمیں دینسکھا سکے اور سنت اسلامی کی ہمیں تعلیم دے سکے اور خدا کی کتاب کے مطابق فیصلہ کرسکے'' اس وقت پیغمبر اسلام نے حضرت علی کی طرف دیکھا اور فرمایا:
''یا علُّ انطلقْ الی اہل الیمن ففقہہم فی الدین و علمْہم السننَ و احکم فیہم بکتابِ اللّہ... اذہب ان اللہ سیہدی قلبک و یثبت لسانک''(٣)
اے علی، یمن جاؤ اور ان لوگوں کو خدا کے دین کی تعلیم دو اور اسلامی سنتوں سے ان کو آشنا کرو اور قرآن مجید کے ذریعے ان کے فیصلے کرو (پھر آپ نے علی کے سینے پر ہاتھ رکھ کر فرمایا) جاؤ خدا تمہارے قلب کو حق کی طرف رہبری کرے گا اور تمہاری زبان کو خطا و غلطیوں سے محفوظ رکھے گا۔
پیغمبر اسلام ۖ کی دعا حضرت علی کے بارے میں اس قدر مستجاب ہوئی کہ امام ـ نے فرمایا: اس وقت سے لے کرآج تک کسی بھی مشکل میں گرفتار نہیں ہوا۔
______________________
(١) کفایة الطالب، مطبوعہ نجف، ص ١٠٤۔
(٢) مرحوم آیت اللہ میر حامد حسین ہندی نے اپنی کتا ب عبقات الانوار کی ایک جلد میں اس حدیث کی سند کو جمع کیاہے۔
(٣) کنز العمال ج٦ ص ٣٩٢۔
پیغمبر ۖ کے زمانے میں حضرت علی کی قضاوت
امیر المومنین صرف خلفاء کے زمانے میں ہی بہترین قاضی اورامت کے بہترین فیصلہ کرنے والے نہیں تھے بلکہ پیغمبر کے زمانے میں بھی یمن اور مدینے میں لوگوں کے مسلّم قاضی تھے، رسول خدا ۖ نے ان کے فیصلوں کو سراہا ہے اور اسی لئے اپنے بعد جامعہ اسلامی کے لئے بہترین فیصلہ کرنے والے کے عنوان سے حضرت علی کو لوگوں کے سامنے پیش کیا ہے یہاں پر ہم آپ کے فیصلوں میں سے دو فیصلے بعنوان نمونہ پیش کر رہے ہیں جو پیغمبر کے زمانے میں کئے تھے اور حضرت نے اس کی تصدیق بھی کی تھی۔
١۔ جس زمانے میں حضرت علی پیغمبر ۖ کے حکم سے یمن میں رہ رہے تھے اس وقت یہ واقعہ پیش آیا تھا۔
ایک گروہ نے شیر کا شکار کر کے ایک گہرے گڈھے میں اسے رکھا اور چاروں طرف سے اس کی محافظت کرنے لگے کہ اچانک ان میں سے ایک کا پیر لڑکھڑا یا اس نے اپنے کو بچانے کے لئے دوسرے کا ہاتھ پکڑااور اس نے تیسرے کا ہاتھ پکڑا اور اس نے چوتھے کا ہاتھ پکڑااورسب کے سب اس گڈھے میں گر پڑے اور شیر نے ان پر حملہ کر دیا اور اور شیر کے حملے کی وجہ سے وہ سب موت کی آغوش میں چلے گئے، ان کے رشتہ داروں کے درمیان اختلاف ہوگیا۔ امام علی اس واقعے سے مطلع ہوئے اور فرمایا: میں تمہارا فیصلہ کروں گا اور اگر میرے فیصلے پر راضی نہ ہو تو اس مسئلہ کو پیغمبر کی خدمت میں پیش کرو تاکہ وہ تمہارا فیصلہ کریں۔ پھر آپ نے فرمایا: جن لوگوں نے اس گڈھے کو کھودا ہے وہ لوگ ان چاروں مرنے والے افراد کا دیہ اس طرح سے ادا کریں۔
پہلے مرنے والے شخص کے وارث کو ایک چوتھائی دیہ ادا کریں اور دوسرے شخص کے وارث کو ایک تہائی دیہ ادا کریں اور تیسرے شخص کے وارث کو آدھا دیہ ادا کریںاور چوتھے شخص کے وارث کو پورا دیہ دیں۔
جب امام سے پوچھا گیا کہ پہلے شخص کے وارث کو کیوں ایک چوتھائی دیہ دیا جائے، حضرت نے جواب میں فرمایا: کیونکہ اس کے بعد تین آدمی مرے ہیں اور اسی ترتیب کودوسرے مقام پر فرماتے ہیں : دوسرے شخص کے وارث کو ایک تہائی حصہ دیں کیونکہ اس کے بعد دو آدمی مرے ہیں، اور تیسرے شخص کے وارث کو آدھا دیہ دیں کیونکہ اس کے بعد ایک آدمی مرا ہے اور چوتھے شخص کے وارث کو پورا دیہ دیں کیونکہ وہ آخری آدمی ہے جو مرا ہے۔(١)
جی ہاں، مرنے والوں کے ورثاء نے امام کے فیصلے کو قبول نہیں کیا اور مدینے کے لئے روانہ ہوگئے اور پیغمبر کی خدمت میں اس مسئلہ کو پیش کیا آنحضرت نے فرمایا:
''القضاء کما قضی علی''(٢)
محدثین شیعہ و اہل سنت دونوں نے امام علی کے اس فیصلے کو بعینہ اسی طرح نقل کیا ہے، لیکن شیعہ محدثین نے اس فیصلے کودوسرے انداز سے بھی نقل کیا ہے، اس نقل کے مطابق ۔
امام نے فرمایا: پہلا شخص شیر کا لقمہ بنا ہے اس لئے اس کا دیہ کسی پر نہیں ہے لیکن پہلے شخص کے وارثوں کو چا ہیئے کہ دوسرے شخص کے ورثاء کوایک تہائی دیہ دیں اور دوسرے شخص کے ورثاء تیسرے شخص کے ورثاء کو آدھا دیہ دیں اور تیسرے شخص کے ورثاء چوتھے شخص کے ورثاء کو پورا دیہ دیںشیعہ دانشمند پہلی حدیث کو معتبر نہیں مانتے ہیں کیونکہ اس حدیث کی سند میں غیر معتبر افراد موجود ہیں لیکن دوسری حدیث کی پر مکمل یقین رکھتے ہیں، اس فیصلے میں سب سے اہم چیز یہ ہے کہ امام نے چوتھے فردکی دیت کو پہلے تینوں افراد کے اولیاء کے درمیان برابر برابر تقسیم کیا ہے اس ترتیب کے ساتھ کہ ایک تہائی دیہ کو پہلے والے کے ورثاء دوسرے والے کے ورثاء کو ادا کریں۔ اور دوسرے والے کے ورثاء اس کا دوتہائی (ایک تہائی اپنا حق جو پہلے والے سے لیا ہے ادا کریں) تیسرے والے کے ورثاء کو ادا کریں اور تیسرے والے پورا دیہ ادا کریں۔ یعنی دوتہائی جو پہلے لیا تھا ایک تہائی لے لیں اور ایک مکمل دیہ چوتھے والے کے ورثاء کو ادا کریں اور اس طرح سے چوتھے شخص کا دیہ پہلے والے تین افراد پر برابر برابر تقسیم ہو جائے گا ۔
(کتاب جواہر الکلام ج٦ کتاب دیات، ''بحث تزاحم موجبات''کی طرف رجوع فرمائیں)
٢۔ پیغمبر اسلام ۖ مسلمانوں کے ایک گروہ کے ہمراہ مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے کہ دو آدمی مسجد میں وارد
ہوئے اور اپنے اختلاف کو بیان کیا جس کا خلاصہ یہ ہے:
_______________________
(١) ذخائر العقبیٰ مولف: محب طبری ص ٨٤ ،کنز العمال ج٢ ص ٣٩٣، وسائل الشیعہ ج١٩ ص ١٧٥۔
(٢) کنز العمال ج٢ ص ٣٩٣، وسائل الشیعہ ج١٩ ص ١٧٥ باب٤ موجبات ضمان۔
ایک گائے نے اپنی سینگھ سے کسی کے جانور کو مار ڈالا، تو کیا گائے کا مالک جانور کی قیمت کا ضامن ہے؟
مسلمانوں میں سے ایک شخص فوراً بول اٹھا اور کہا: ''لاضمان علی البہائم'' یعنی غیر مکلف جانور کسی کے مال کا ضامن نہیں ہے۔
شیخ کلینی کے اصول کافی میں نقل کرنے کے مطابق پیغمبر نے ابوبکر اورعمر سے کہا کہ ا س اختلاف کا فیصلہ کریں ان دونوںنے کہا: ''بہیمة قتلت بہیمةً ما علیہا من شیئ''(١) یعنی ایک جانور نے دوسرے جانور کو مارا ہے اور جانور کے لئے کوئی ضمانت نہیں ہے۔ اس وقت پیغمبر اسلام ۖ نے حضرت علی سے فرمایا کہ وہ فیصلہ کریں ۔ امام نے کلی قانون، جس سے آج بھی استفادہ کیا جاتا ہے، سے اس مشکل کو حل کردیا اور فرمایا: اس کا نقصان اس شخص کے ذمہ ہے جس نے کوتاہی کیا ہے اور اس نے جانور پالنے کی شرطوں پر عمل نہیں کیا ، ہے اور اگر جانور کے مالک نے اپنے جانور کی صحیح دیکھ بھال اور اس کی حفاظت کی ہے لیکن گائے کے مالک نے اپنے وظیفے سے کوتاہی کی اور اسے آزاد چھوڑ دیا تو گائے کا مالک ضامن ہے اور ضروری ہے کہ اس جانور کا دیہ دے ، لیکن اگر واقعہ اس کے برعکس ہے تو اس پر کوئی ضمانت نہیں ہے ۔
پیغمبر اسلام ۖ نے اس عظیم اور کلی فیصلہ سننے کے بعد آسمان کی طرف اپنے ہاتھوں کو بلند کر کے کہا:
''الحمد للہ الذی جعل فی امتی من یقضی بقضاء النبیین''
یعنی خداوندعالم کا شکر کہ اس نے ہمارے خاندان میں ایسے شخص کو قرار دیا ہے جس کا فیصلہ پیغمبروں کے فیصلے کی طرح ہے۔(٢)
رسول اسلام ۖ کے زمانے میں حضرت علی کے فیصلے صرف انہی دو فیصلوں میں منحصر نہیں ہیں، بلکہ مولائے متقیان نے پیغمبر کے زمانے میں ایسے ایسے حیرت انگیز فیصلے کئے ہیں جو آج بھی تاریخی اور روائی (روایتوں کی) کتابوں میں موجود ہیں۔(٣)
______________________
(١) اصول کافی ج٧ ص ٣٥٢ حدیث ٦ ٧۔
(٢) صواعق محرقہ، ص ٧٥، مناقب ابن شہر آشوب، ج١، ص ٤٨٨۔
(٣) مرحوم مجلسی نے بحار الانوار میں کچھ فیصلوں کا تذکرہ کیا ہے، بحار الانوار ج٤ ص ٢٤٠۔ ٢١٩، کی طرف رجوع فرمائیں۔
|