چوتھا باب
پیغمبرصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وفات کے بعد اور خلافت سے پہلے
حضرت علی ـ کی زندگی
پہلی فصل
حضرت علی کی پچیس سالہ خاموشی
حضرت علی کی زندگی کے اہم واقعات جو پیغمبر کی زندگی میں رونما ہوئے تھے ان کی تحقیق و جستجو تمام ہوگئی. اگرچہ اس حصے میں تفصیلی تحقیق اورمکمل معلومات حاصل نہ ہوسکی اور امام کے بہت سے حالات و واقعات اس زمانے میں جب آپ اس سے رونما ہوئے تھے لیکن اہمیت کے لحاظ سے دوسرے مرحلے میں تھے لہذا بیان نہیںہوئے ہیں. لیکن وہ عظیم واقعات جو امام کی شخصیت کو اجاگر کرتے ہیں یا آپ کے ایمان و عظمت کو واضح و روشن کرتے ہیں ترتیب سے بیان کئے جاچکے ہیں اور اس کی وجہ سے آپ کے فضائل و کمالات او رحسن اخلاق سے ایک حد تک آشنا ہوچکے ہیں۔
اب ہم امام علیہ السلام کی زندگی کے دوسرے حصے کو جو آپ کی زندگی کا چوتھا مرحلہ ہے اس کی کا تجزیہ کررہے ہیں۔
حضرت علی کی زندگی کے تین مرحلوں نے آپ کی عمر عزیز کے ٣٣ سال لے لئے، اورامام اس مختصر سی مدت میں اسلام کے سب سے بڑے شجاع و بہادر او راسلام کے عظیم الشان رہبر کی حیثیت سے پہچانے گئے. اور پوری تاریخ اسلام میں پیغمبر کے بعد کوئی بھی شخص فضیلت ، تقویٰ، علم و دانش، خدا کی راہ میں جہاد مکوشش، برادری و مواسات، غریبوں اوریتیموںکی دیکھ بھال وغیرہ میں آپ کے ہم رتبہ نہ تھا. اور تمام جگہوں پر خصوصاً حجاز و یمن میں آپ کی شجاعت و بہادری، فداکاری ، جانبازی، اور پیغمبر کی مہر و محبت علی کے ساتھ مشہور تھی۔
ان تمام کمالات کے بعد ضروری تھا کہ پیغمبر اسلام کی وفات کے بعد اسلام کا محور او ر اسلامی معاشرہ کی باگ ڈور حضرت علی کے ہاتھوں میں ہوتی، لیکن جب تاریخ کے صفحات پر نظر پڑتی ہے تو اس کے برخلاف نظر آتا ہے کیونکہ امام اپنی زندگی کے چوتھے مرحلے میں جو ایک چوتھائی صدی تھی اور وہ شرائط و حالات جو رونما ہوئے تھے اس عمومی جگہ سے اپنے آپ کو کنارے کرکے خاموشی اختیار کرلی تھی نہ کسی جنگ میں شرکت کی نہ کسی عمومی جلسے میں رسمی طور پر تقریر فرمائی. تلوار کو نیام میں رکھ لیا تھا اورتنہائی کی زندگی بسر کرنے لگے . یہ خاموشی اور طولانی کنارہ کشی اس شخص کے لئے جواس کے پہلے ہمیشہ عمومی مجمع میں رہا ہو اور اسلام کی دوسری عظیم شخصیت اور مسلمانوں کے لئے ایک عظیم رکن کی حیثیت سے شمار ہو اس کے لئے یہ سہل و آسان نہ تھا. روح بزرگ، حضرت علی سے چاہتی تھی کہ خود اس پر مسلط ہو جائے اور خود کو نئے حالات جو ہر اعتبار سے سابقہ حالات سے مخالف تھے، تطبیق کرے۔
اس خاموشی کے زمانے میں امام چند چیزوں میں مصروف تھے جو درج ذیل ہیں:
١۔ خدا کی عبادت: وہ بھی ایسی عبادت جو حضرت علی کی شخصیت کی شایان شان تھی یہاں تک کہ امام سجاد اپنی تمام عبادت و تہجد کواپنے دادا کی عبادت کے مقابلے میں بہت ناچیز جانتے ہیں۔
٢۔ قرآن کی تفسیر اور آیتوں کی مشکلات کو حل اور شاگردوں کی تربیت کرتے تھے وہ بھی ابن عباس جیسے شاگرد جو امام کے بعد سب سے بڑے مفسر قرآن کے نام سے مشہور ہوئے۔
٣۔ تمام فرقوں اور مذہبوں کے دانشمندوں کے سوالات کے جوابات دیتے تھے، خصوصاً وہ تمام یہودی اورعیسائی جو پیغمبر کی وفات کے بعد اسلام کے سلسلے میں تحقیق کرنے کے لئے مدینہ آئے تھے. ان لوگوں نے ایسے ایسے سوالات کئے تھے کہ جس کا جواب حضرت علی ، جو توریت اورانجیل پر مکمل تسلط رکھتے تھے اورجیسا کہ ان کی گفتگو سے بھی واضح تھا،کے علاوہ کوئی بھی صلاحیت نہیں رکھتا، اگر یہ فاصلہ امام کے ذریعے پرُ نہ ہوتا تو جامعہ اسلامی شدید شکست کھا جاتا، اور جب امام علیہ السلام نے تمام سوالوں کا محکم اور مدلل جواب دیدیا تو وہ خلفاء جو پیغمبر کی جگہ بیٹھے تھے ان کے چہرے پر مسکراہٹ اور عظیم خوشی کے آثار نظر آئے۔
٤۔ بہت زیادہ ایسے نئے مسائل کا حل پیش کرنا جس کا اسلام میںو جود نہ تھااور اس کے متعلق قرآن مجید اور حدیث پیغمبر موجود نہ تھی یہ امام ـ کی زندگی کا ایک حساس پہلو ہے اور اگر صحابیوں کے درمیان حضرت علی ـ جیسی شخصیت موجود نہ ہوتی ۔ جوپیغمبر اسلام کی تصدیق کے مطابق امت کی سب سے دانا اور قضاوت و فیصلہ کرنے میں سب سے اہم شخصیت تھی تو صدراسلام کے بہت سے ایسے مسائل بغیر جواب کے رہ جاتے اور بہت سی گتھیاں نہ سلجھتیں.
یہی نئے نئے رونما ہونے والے حادثات وواقعات ثابت کرتے ہیں کہ پیغمبر کی رحلت کے بعد ایک آگاہ اور معصوم، مثل پیغمبر کے لوگوں کے درمیان موجود ہو جو اسلام کے تمام اصول وفروغ پر کافی تسلط رکھتا ہو اور اس کا علم وکمال امت کو غیر شرعی اور بے جا عمل اور وہم و گمان سے دور کردے اور یہ تمام عظیم خصوصیتیں پیغمبر کے تمام دوستوں صحابیوں کی تصدیق کی بنیاد پر حضرت علی ـ کے علاوہ کسی اور میں نہ تھیں،
امام ـ کے کچھ فیصلے اور قرآن مجید کی آیتوں سے ان کو ثابت کرنا وغیرہ حدیث وتاریخ کی کتابوں میں تحریر ہیں (١)
٥۔جب خلافت پر بیٹھنے والے سیاسی مسائل یا مشکلات کی وجہ سے مجبور ولاچار ہوئے تو ان کی نگاہ میں تنہا امام ـ مورد اعتماد تھے جو ان کے سروں پر منڈلاتی ہوئی مشکلات کو حل کرتے اور ان کی راہ ہموار کر تے ان میںسے بعض مشورے نہج البلاغہ اور تاریخ کی کتابوں میں نقل ہوئے ہیں ،
٦۔پاک ضمیر اور پاکیزہ روح رکھنے والوں کی تربیت تاکہ وہ امام ـ کی رہبری اور معنوی تصرف کے زیر نظر معنوی کمالات کی بلندیوں کو فتح کر سکیں اور وہ چیز یں جسے آنکھ سے نہیں دیکھ سکتے وہ دل کی نورانی آنکھوں اور باطنی آنکھوں سے دیکھ سکیں ۔
٧۔بہت زیادہ بیوہ اور یتیموں کی زندگی کے روز مرہ کے امور کے لئے کوشش وتلاش کرنا یہاں تک کہ امام ـ نے خود اپنے ہا تھوں سے باغ لگایا اور آب پاشی کے لئے نہریں نکال کر اسے خدا کی راہ میں وقف کر دیا۔
یہ تمام فعالیت اور امور کا انجام دینا امام ـ کا وہ کارمانہ تھا جوآپ نے ا س ٢٥۔سالہ دور میں انجام دیا تھا ، لیکن یہ بات نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتی ہے کہ اسلام کے بڑے بڑے تاریخ دانوں نے امام ـ کی زندگی کے ان خدمات کو زیادہ اہمیت نہیں دی ، اور امام ـ کی زنذگی کے اس دور کی خصوصیات و جزئیات کو صحیح
______________________
(١)۔ محقق عالیقدر جناب شیخ محمد تقی شو ستری نے اس موضوع پر ایک کتاب لکھی ہے جس کا ترجمہ فارسی میں بھی ہواہے .
طریقے سے نہیں لکھا ہے جب کہ یہی تاریخ داں جب بنی امیہ اور بنی عباس کے سپہ سالاروں کے حالات لکھتے ہیں تو اتنادقیق اور تفصیلی گفتکو کرتے ہیں کہ کوئی بھی چیز باقی نہ رہ جائے ۔
کیا یہ افسوس کا مقام نہیں ہے کہ امامـ کی پچیس سالہ زندگی کے خصوصیات مبہم اور غیرواضح ہوں مگر ظالموں کی تاریخ ،جنایت و بدبخت محققین اور معاویہ ،مروان اور خلفا ء بنی عباس کے بیٹوں کی عیاشی وشرابخوری کی تاریخ بہت ہی دقت و محنت سے لکھی جائے ،اور ان محفلوں میں پڑھے جانے والے اشعار وہ باتیں جو خلفاء اور ناچ ورنگ کی محفل منعقد کرنے والوں کے درمیان ہوئیں اور وہ راز ونیاز جو رات کے اندھیرے میں طے ہوئے تھے وہ تاریخ اسلام، کے نام سے اپنی اپنی کتابوں میں لکھیں ؟ نہ صرف ان کی زندگیوں کا صرف یہ حصہ لکھا بلکہ ان کے حاشیہ نشینوںنوکروں ، اور ان کے علاوہ خادموں اور بکریوں ،اور زیور وآلات ،عورتوں اور محبوبائوں کے آرائش وسنورنے ،اور ان کی زندگی کے خصوصیات تک کو اپنی اپنی کتابوں میں بیان کیا لیکن جب اولیاء خدا اور حق شناس افراد کی بات آتی ہے تو وہی ،اگر ان کی جانثاری اور فدا کار ی نہ ہوتی تو ہرگز یہ نالائق گروہ خلافت وسرداری کی باگ ڈور ان کے ہاتھ میں نہ دیتے گویا ان کی فکریں زنجیروں سے بندھی ہوں ۔اور تاریخ کے ان ابواب سے اتنی تیزی سے گزرنا چاہتے ہیں کہ جلد ازجلد تاریخ کا یہ حصہ ختم ہو جائے ۔
اسلام کا پہلا ورق جدا ہو گیا
اس فصل کا پہلا ورق اس وقت جدا ہو گیاجب پیغمبر اسلام(ص) کا سر امام ـ کے سینے پر تھااور آپ کی روح ،خدا کی بارگاہ میں چلی گئی ،حضرت علی ـ اس واقعہ کو اپنے ایک تاریخی (١)خطبے میں اس طرح بیان کرتے ہیں:
''پیغمبر کے صحابہ جو آپ کی تاریخی زندگی کے محافظ ہیں وہ بخوبی جانتے ہیں کہ میں نے ایک لمحہ کے لئے بھی خدا اور اس کے پیغمبر دشمنوں کے ساتھ جہاد کرنے میں دوری اختیار نہیں کی جب کہ بڑے بڑے طاقتور لوگ بھاگ گئے اور جنگ سے پیچھے ہٹ گئے ،میں نے اپنی جان کو پیغمبر خدا کی راہ میں قربان کرنے سے ذریغ نہ کیا جب رسول خدا کا انتقال ہوا اس وقت ان کا سر میرے سینے پر تھا ، اور میرے ہاتھوں
______________________
(١)نہج البلاغہ عبدہ خطبہ ١٩٢۔''لقد علم المستحفظون من اصحاب محمد ۖ''.
پر ان کی روح بدن سے جدا ہوئی اور میں نے بطور تبرک اپنے ہاتھوں کو چہرے پر ملا، اس وقت ہم نے ان کے بدن کو غسل دیا اور فرشتوں نے ہماری مددکی، فرشتوں کاایک گروہ زمین پر آتا تھا تودوسرا چلا جاتا تھا اور ان کے ہمہمہ کی آواز جب کہ وہ پیغمبر کے جنازے پر نماز پڑھ رہے تھے میرے کانوں سے ٹکرارہی تھی یہاں تک کہ ہم نے انھیں ان کی قبر میں رکھ دیا۔پیغمبر کی زندگی میں بھی اور ان کی رحلت کے بعد بھی کوئی مجھ سے زیادہ سزاوار نہیں ہے '' پیغمبر کے انتقال کے بعد بعض گروہ نے خاموشی اختیار کرلی اور دوسرا گروہ پوشیدہ طور پر راز ورموزتلاش کرنے میں مصروف ہو گیا۔
پیغمبر کی رحلت کے بعد سب سے پہلا واقعہ جس سے مسلمان روبرو ہوئے وہ عمر کی طرف سے پیغمبر کی وفات کو جھٹلانا تھا۔ اس نے پیغمبر کے گھر کے سامنے شوروغوغا کرنا شروع کردیااور جو لوگ یہ کہتے تھے کہ پیغمبر کا انتقال ہو گیا ہے ان کو دھمکی دیتا تھا،جب کہ عباس اور ابن مکتوم ان آیتوں کی تلاوت کررہے تھے جس کے مفہوم سے واضح ہو رہا تھا کہ پیغمبر کا انتقال ہوگیا ہے مگر اس کا لوگوں پر کوئی اثر نہ پڑا یہاں تک کہ عمر کا دوست ابوبکر جو مدینہ کے باہر تھا وہ آیا، اور جیسے ہی اس حالات سے باخبر ہوا تو اس نے بھی اسی آیت (١) کو پڑھا کہ جس کودوسروں نے اس سے پہلے پڑھا تھااور عمر کو خاموش کردیا۔
جس و قت حضرت علی ـ پیغمبر کو غسل دے رہے تھے اس وقت اصحاب کا ایک گروہ ان کی مدد کررہا تھا اور غسل وکفن کے ختم ہونے کا انتظار کررہا تھا ،اور خود پیغمبر کی نماز جنازہ پڑھنے کے لئے آمادہ ہورہا تھا اور اکثر افراد سقیفئہ بنی سا عدہ میں پیغمبر کے جانشین کا انتخاب کررہے تھے اگرچہ سقیفہ میں تمام امور کی باگ ڈور انصار کے ہاتھوں میں تھی لیکن جب ابو بکر وعمر اور ابو عبیدہ جو مہاجرین میں سے تھے اس واقعہ سے با خبر ہوئے تو پیغمبر کا جسم اطہر جو غسل کے لئے آمادہ تھا چھوڑ کر سقیفہ میں انصار کے ساتھ شریک ہو گئے ،اور لفظی تکراراور مار پیٹ کے بعد ابو بکر پانچ آدمی کے ووٹ سے رسول خدا(ص) کے خلیفہ منتخب ہوئے ،جب کہ مہاجرین میں ان تین آدمیوں کے علاوہ کوئی بھی اس چیز سے آگاہ نہ تھا۔(٢)
______________________
(١) سورۂ زمر، آیت ٣٠، (انک میت و انہم میتون)تم مرجاؤ گے اور دوسرے بھی مرجائیں گے۔
(٢)سقیفہ کی تاریخ اور کس طرح ابو بکر ۔٥ ۔ آدمیوں کی رائے سے خلیفہ بنے اگر تفصیل جاننا ہو تو میری کتاب ، رہبری امت اور پیشوائی در اسلام کا مطالعہ کریں چونکہ ہم نے ان دونوں کتاب میں واقعۂ سقیفہ کو تفصیل سے لکھا ہے لہذا یہاں پر مختصر تحریر کیا ہے ۔
ایسے پر آشوب ماحول میں امام علی ـ، پیغمبر کے غسل وکفن میں مشغول تھے اور انجمن سقیفہ اپنے کام میں مشغول تھی ۔ ابو سفیان جو بہت بڑا سیاسی اور سوجھ بوجھ رکھتاتھا مسلمانوں کے درمیان اختلاف پیدا کر نے کے لئے حضرت علی ـ کے گھر آیا اور آپ سے کہنے لگا اپنا ہاتھ بڑھائے تاکہ میں آپ کی بیعت کروں اورآپ کو مسلمانوں کے خلیفہ کے عنوان سے لوگوں کے سامنے روشناس کرائوں،کیو نکہ اگر میں نے آپ کے ہاتھ پر بیعت کر لی تو عبد مناف کے فرزندوں میں سے کوئی بھی آپ کی مخالفت کے لئے نہیں اٹھے گااور آخر میں پورا عرب آپ کو اپنا حا کم وسردار قبول کرلے گا لیکن حضرت علی ـ نے ابو سفیان کی باتوں پر کوئی توجہ نہ دی کیونکہ اس کی نیت سے آگاہ تھے آپ نے فرمایا فی الحال میں پیغمبر کی تجہیز وتکفین میں مصروف ہوں۔
ابو سفیان کی درخواست کے وقت یا اس کے پہلے عباس نے بھی حضرت علی ـ سے درخواست کی کہ اپنے بھتیجے حضرت علی ـکے ہاتھ پر بیعت کریں لیکن حضرت نے ان کی درخواست کو قبول نہیں کیا۔
تھوڑی دیر گزری تھی کہ تکبیر کی آواز کانوں سے ٹکرائی حضرت علی ـ نے عباس سے اس کا سبب پوچھا عباس نے کہا ۔
میں نے نہیں کہا تھا کہ دوسرے لوگ بیعت لینے میں تم پر سبقت کر رہے ہیں؟.میں نے تم سے نہیں کہا تھاکہ اپنا ہاتھ بڑھائوتاکہ تمھاری بیعت کریں ؟لیکن تم حاضر نہ ہوئے اور دوسروں نے تم پر سبقت حاصل کرلی ۔
کیا عباس اور ابو سفیان کی درخواست عاقلانہ تھی ؟
اگر حضرت علی ـ، عباس کی درخواست قبول کر لیتے اور پیغمبر اسلام کے انتقال کے فوراً بعدبڑی بڑی شخصیتوں کو بیعت کی دعوت دیتے تو یقینا سقیفہ میں لوگ جمع نہیں ہو سکتے تھے یا اصلاً سقیفہ کا وجود ہی نہ ہوتا ، کیونکہ دوسرے افراد کے اندر ہر گزاتنی جرأ ت نہ تھی کہ خلافت اسلامی جیسے اہم مسئلہ پر ایک گروہ کے مختصر سے مجمع میں تبادلئہ خیالات کرتے ،اور ایک شخص کو چند آدمیوں کی رائے سے جانشین کے لئے منتخب کر تے۔
بہر حال ،پیغمبراسلام(ص) کی عمومی دعوت اور چند اہم شخصیتوں کا حضرت علی کے ہاتھوں پر خصوصی بیعت کرنا حقیقت سے دور تھا اور تاریخ نے اس بیعت کے سلسلے میں بھی وہی فیصلہ کیا ہے جو ابوبکر کی بیعت کے بارے میں کیا ہے ، اس لئے کہ حضرت علی ـ کی جانشینی دوحال سے خالی نہیں تھی یا امام ـ ،خدا کی طرف سے ولی وحاکم منصوص تھے یانہیں تھے ؟
پہلی صورت میں ۔ بیعت لینے کی کوئی ضرورت نہیں تھی اور خلافت کے لئے رائے لینا اور اس منصب پر قبضہ کرنے کے لئے کسی کو خلیفہ بنانا خدا کی معین کی ہو ئی چیزوں کی توہین کرنا ہے اور خلافت کے موضوع کو جو الہی منصب ہے اور یہ کہ خلیفہ کے لئے ضروری ہے کہ خدا کی طرف سے معین ہو اس قانون کی توہین کرتا ہے اور اُسے ایک انتخابی مقام ومنصب قرار دینا ہے، جب ایک متدین اور حقیقت پسند انسان اپنی شخصیت و منزلت کی حفاظت کے لئے حقیقت اور اصلیت میں تحریف نہیں کرتا، اور حقیقت سے چشم پوشی نہیں کرتا تو کس طرح سے امام معصوم ایسا کر سکتاہے ؟
دوسری صورت میں : ۔خلافت کے لئے حضرت علی ـ کا انتخاب بالکل اسی طرح ہوتا جس طرح سے خلافت کے لئے ابو بکرکا انتخاب ہوا ، اور ابو بکر کے جگری دوست خلیفئہ دوم (عمر) ابو بکر کے انتخاب کے سلسلے میں بہت دنوں تک یہی کہتے رہے ۔
کانت بیعةابی بکر فلتة وقی اللہ شرھا۔(١)
یعنی ابوبکر کا خلافت کے لئے منتخب ہونا ایک جلد بازی کاکام تھا اور خدانے اس کے شرکو روک دیا ،ان تمام چیزوں سے اہم بات یہ کہ ابو سفیان اپنی درخواست میں ذرہ برابر بھی حسن نیت نہیں رکھتا تھا اور اس کا مقصد صرف یہ تھا کہ مسلمانوں کے درمیان اختلاف ،اضطراب اور گروہ بندی پیدا کردے اورعربوں کو پھرسے جاہلیت کے اندھیرے میں ڈال دے اور اسلام کے نئے اور ہرے بھرے درخت کو ہمیشہ کے لئے خشک کردے ۔
وہ حضرت علی ـ کے گھر آیا اور امام ـ کی مدح میں اشعار پڑھا جس کے دو شعر کا ترجمہ یہاں پیش کررہے ہیں ۔
اے ہاشم کے بیٹو،اپنی خاموشی کو ختم کردو تاکہ لوگ خصوصاًقبیلئہ تیم اور قبیلئہ عد ی کے لوگ تمہارے
______________________
(١)تاریخ طبری ج٣ص٥.٢ سیر ہ ابن ہشام ج٤ ص٨.٣
مسلم حق کو لالچی نگاہوں سے نہ دیکھیں ۔
خلافت کا حق تمھیں ہے اور تمھاری طرف آیا ہے اور اس کے لئے حضرت علی کے علاوہ کوئی شائستگی ولیاقت نہیں رکھتا ہے (١)
لیکن حضرت علی ـ کنا بتہً اس ناپاک نیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں :توایسی فکر میں ہے جس کے اہل ہم نہیں ہیں ۔
طبری لکھتا ہے :
علی ـ نے اس کی ملامت کی اور کہا تیرا ہدف فتنہ وفساد کے علاوہ کچھ نہیں ہے تو ہمیشہ ، اسلام کے لئے کینہ پرور ثابت ہوا ہے مجھے تیرے وعظ ونصیحت کی ضرورت وحاجت نہیںہے(٢)
ابوسفیان، مسلمانوں کے درمیان پیغمبر کی جانشینی کے اختلافی مسئلے سے بخوبی واقف تھا اور اس سلسلے میں اس نے یہ نظریہ پیش کی۔
میں ایک ایسا طوفان دیکھ رہا ہوں جسے خون کے علاوہ کوئی دوسری چیز خاموش نہیں کرسکتی(٣)
ابوسفیان اپنے نظریہ میں بہت صحیح تھا ،اور اگر خاندان بنی ہاشم کی قربانی اور عفو ودر گذ رنہ ہوتی تو اس اختلافی طوفان کو قتل وغارت گری کے علاوہ کوئی دوسری چیز روک نہیں سکتی تھی۔
______________________
(١)الد رجات الر فیعہ ص٨٧
بنی ہاشم لاتُطمِعُواالناس فیکم ولاسیماتیم ابن مرّة اوعدی
فما الامرالا فیکم و الیکم ولیس لھا الاابو حسن علٍ
(٢) شرح نہج البلا غہ ابن ابی الحدیدج٢ص٤٥
(٣)''انی لأری عجاجة لایُطفؤُھا الاالدم'' شرح نہج البلاغہ ج٢ص٤٤جوہری کی کتاب السقیفہ سے ماخوذ۔
بغض وکینہ رکھنے والا گروہ
جاہل عرب کے بہت سے قبیلے بدلہ لینے اور بغض وکینہ رکھنے میںبہت مشہورتھے ،جب ہم تاریخ جاہلیت عرب کا مطالعہ کرتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ چھوٹے چھوٹے حادثے ہمیشہ بڑے بڑے حادثات میں تبدیل ہوتے تھے ،اس کی صرف وجہ یہ تھی کہ ان کے اندر بدلہ لینے کی فکر کبھی ختم نہیں ہوتی تھی یہ بات صحیح
ہے کہ وہ لوگ اسلامی تعلیمات کی بناء پر ایک حد تک جاہلیت سے دور ہوئے تھے اور نئی زندگی حاصل کر لی تھی لیکن ایسا نہیں تھا کہ ان کے اس طرح کے احساسات مکمل طور پر ختم ہو گئے تھے ،اور کوئی اثر ان کے اندر باقی نہ تھا ،بلکہ اسلام قبول کرنے کے بعد بھی کم وبیش بدلہ لینے کی حس ان کے اندر باقی تھی ۔
یہ بات بغیر کسی دلیل کے نہ تھی کہ حباب بن منذرنے جوگروہ انصار کا بہادر شخص اور گروہ انصار کے لئے خلافت کا امید وار تھاسقیفہ میں خلیفہ دوم کی طرف رخ کرکے کہا تھا ۔
ہم تمہاری خلافت و جانشینی کے ہر گز مخالف نہیں ہیں اور نہ اس کام پرحسد کرتے ہیں لیکن ہمیں اس بات کا ڈر ہے کہ حکومت کی باگ ڈور ایسے افراد کے ہاتھ میں چلی جائے کہ ہم نے شرک کو مٹانے اور اسلام کو پھیلانے کے لئے اسلامی جنگوں میں ان کے باپ دادا اوران کے فرزندوں کو قتل کیا ہے کیونکہ مہاجرین کے اعزاء و احباب انصار کے فرزندوں اور نوجوانوں کے ہاتھ قتل ہوئے ہیں. چنانچہ اگر انہی افراد کے ہاتھ میں حکومت آجائے تو ہماری حالت یقینا تبدیل ہو جائے گی۔
ابن ابی الحدید کہتے ہیں:
میں نے کتاب ''سقیفہ'' تالیف احمد بن عبد العزیز جوہری کو ٦١٠ھ میں استاد ابن ابی زید رئیس بصرہ سے پڑھی، اور جب بحث حباب بن منذر کی گفتگو تک پہونچی تو میرے استاد نے کہا حباب کی پیشنگوئی بہت عاقلانہ تھی اور جس چیز کا اسے خوف تھا وہ یہ کہ مسلم بن عقبہ مدینہ پر حملہ کرے گا اور اس شہر کویزید کے حکم سے محاصرہ میں رکھا جائے گا اورہوا بھی یہی بنی امیہ نے جنگ بدرمیں قتل ہونے والے اپنے تمام افراد کا بدلہ انصار کے بیٹوں سے لے لیا۔
پھر استاد نے ایک اور مطلب کی یاد دہانی کرتے ہوئے کہا:
جس چیز کی حباب نے پیشنگوئی کی تھی پیغمبر نے بھی اس کی پیشنگوئی کی تھی، آپ بعض عربوں کے بغض و کینہ اور اپنے خاندان کے ساتھ بدلہ لینے کے متعلق خوف زدہ تھے کیونکہ آپ جانتے تھے کہ ان کے بہت سے رشتہ داروں کو مختلف جنگوں میں بنی ہاشم کے جوانوںنے قتل کیا تھا اور اس سے بھی آگاہ تھے کہ اگر حکومت کی باگ ڈور دوسروں کے ہاتھ میں چلی گئی تو ممکن ہے خاندان رسالت سے بدلہ لینے کی جرأت ان کے اندر پیدا ہوجائے اسی وجہ سے آپ ہمیشہ حضرت علی کے بارے میں سفارش کرتے تھے اور انھیں اپنا وصی اور امت کے حاکم کے عنوان سے پہچنواتے تھے، تاکہ جو مقام و مرتبہ ا ور منزلت خاندان رسالت کی ہو اس کی وجہ سے علی ـاوران کے اہلبیت کا خون محفوظ رہے، لیکن کوئی کیا کرسکتا ہے تقدیر نے تمام چیزوں کو بدل ڈالا اور حکومت دوسروں کے ہاتھوں میں آگئی اور پیغمبر کی پیشنگوئی شرمندۂ تعبیر نہ ہوسکی اور جو چیز نہیںہونی چاہیئے تھی وہ ہوگئی اور ان کے خاندان کا کتنا پاک و پاکیزہ خون بہا دیا گیا۔(١)
اگرچہ رئیس بصرہ کی بات شیعہ نقطۂ نظر سے صحیح نہیں ہے ، کیونکہ شیعہ عقیدہ کے مطابق، پیغمبر نے خدا کے حکم سے حضرت علی کوامت کی رہبری کے لئے منصوب اور معین کیا او رحضرت علی کو منتخب کرنے کی وجہ ان کے اور ان کے اہلبیت کے خون کی حفاظت کرنا مقصود نہیں تھی بلکہ حضرت علی کے اندر وہ خوبیاں تھیں کہ ایسا بابرکت مقام و منزلت ان کے لئے ہوا۔
لیکن بہرحال اس کی تحلیل بالکل صحیح تھی کیونکہ اگر حکومت کی باگ ڈور حضرت علی کے خاندان کے ہاتھوں میں ہوتی تو کبھی بھی کربلاکا خونین واقعہ نہ ہوتا اور امام کے بچے بنی امیہ اور بنی عباس کے جلادوں کے ہاتھ شہید نہ ہوتے اور خاندان رسالت کا پاکیزہ خون مٹھی بھر مسلمان نما افراد کے ہاتھوں نہ بہتا۔
______________________
(١) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج٢ ص٥٣
|