فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)
 

دسویں فصل
مسلمانوں کے لئے آئندہ کا لائحہ عمل
دین اسلام کی تحریک کی مخالفت قریش والوں سے بلکہ تمام بت پرستوں کے ساتھ شبہ جزیرہ سے شروع ہوئی .وہ لوگ اس آسمانی مشعل کو خاموش کرنے کے لئے مختلف قسم کے مکرو فریب اور سازشیں کرتے رہے، لیکن جتنا بھی کوشش کرتے تھے ناکام ہی رہتے، ان سب کی آخری خواہش یہ تھی کہ رسالتمآب کے بعد اس تحریک کی بنیادوں کو ڈھادیں. اور انھیں کی طرح وہ لوگ جو پیغمبر سے پہلے زندگی بسر کر رہے تھے ان کو بھی ہمیشہ کے لئے خاموش کردیں۔(١)
قرآن مجید نے اپنی بہت سی آیتوں میں ان کی سازشوں اورکھیلے جانے والے کھیلوں کو بیان کیاہے بت پرستوں کی فکروں کو جو انھوں نے پیغمبر کی موت کے سلسلے میں کیا تھا اسے اس آیت میں بیان کیا ہے ارشاد قدرت ہے:
(ام تأمُرُہُمْ أَْحلَامُہِمْ بِہٰذَا أَمْ ہُمْ قوْمُ طٰاغُونَ) (٢)
کیا (تم کو) یہ لوگ کہتے ہیں کہ (یہ) شاعر ہیں (اور) ہم تو اس کے بارے میں زمانے کے حوادث کا انتظار کر رہے ہیں تو تم کہہ دو کہ (اچھا) تم بھی انتظار کرو میں بھی تمہارے ساتھ انتظار کرتا ہوں، کیا ان کی عقلیں انھیں یہ (باتیں) بتاتی ہیں یا یہ لوگ سرکش ہی ہیں؟
اس وقت ہمیں اس سے بحث نہیں ہے کہ دشمنوں کی تمام سازشیں ایک کے بعد ایک کس طرح ناکام ہوگئیں اور دشمن کے اندر اتنی صلاحیت نہ رہی کہ پھیلتے ہوئے اسلام کو روک سکے، بلکہ اس وقت ہمیں اس مسئلہ کی طرف توجہ کرنا ہے کہ پیغمبر کے بعد کس طرح سے اس اسلام کو دوام عطا ہو؟ اس طرح سے کہ پیغمبر کے بعد اسلام کی یہ تحریک رک نہ جائے یا گزشتہ کی طرح عقب ماندگی کا شکار نہ ہو جائے. یہاں پر دو صورتیںہیںاور ہم دونوں صورتوںکے متعلق بحث کریں گے:
______________________
(١) ورقہ ابن نوفل کی طرح، کہ جس نے عیسائیوں کی بعض کتابوں کا مطالعہ کیا اور بت پرستی کے مذہب کو چھوڑ کر خود عیسائی بن گیا۔
(٢) سورۂ طور، آیت ٣٢۔ ٣٠
١۔ امت اسلامیہ کے ہر فرد کی فکر و عقل اس مرحلہ تک پہونچ جائے کہ پیغمبر اسلام کے بعد بھی اسلام کی نئی بنیاد کی تحریک کی اسی طرح رہبری کریں جیسے عہد رسالت میں کیا ہے، اور اسے ہر طرح کی مشکلات سے بچائیں اورامت او ربعد میں آنے والی نسلوں کو صراط مستقیم (سیدھے راستے) کی طرف ہدایت کریں۔
پیغمبر اسلام کے بعد امت کی رہبری کا دارومدار ایسے افراد نے اپنے ذمہ لے لیا تھا کہ افسوس اکثر افراداس کی صلاحیت نہیں رکھتے تھے. اس وقت یہاں اس سلسلے میں بحث نہیں کرنا ہے لیکن اتنی بات ضرور کہناہے کہ تمام طبیعتوں اور ایک امت کے دل کو گہرائیوں سے بدلنا ایک دن، دو دن یا ایک سال ، یا دس سال کا کام نہیںہے او رانقلاب لانے والا کہ جس کی آرزو یہ ہوتی ہے کہ اپنی تحریک کو ہر زمانے کے لئے پایداری او ردوام بخش دے وہ مختصر سی مدت میں اس کام کو انجام نہیں دے سکتا۔
انقلاب کا ہمیشہ باقی رہنا اور لوگوں کے دلوں میں اس طرح رچ بس جانا، انقلاب لانے والے کے مرنے کے بعدبھی اس کی تحریک ایک قدم بھی پیچھے نہ رہے اور پرانے رسم و رواج اور آداب و اخلاق دو بارہ واپس نہ آجائیں اور اس تحریک کو چلانے کے لئے ایسے اہم افراد یا شخص کی ضرورت ہے جو اس تحریک کی باگ ڈور سنبھالے اورہمیشہ اس کی حفاظت کرے اور معاشرے میں مسلسل تبلیغ کر کے غیر مطلوب چیزوں سے لوگوں کو دور کھے تاکہ ایک نسل گزر جائے اور نئی نسل ابتداء سے اسلامی اخلاق و آداب کی عادت کرلے اور آنے والی نسلوں تک برقرار رکھے۔
تمام آسمانی تحریکوں کے درمیان اسلامی تحریک کی ایک الگ خصوصیت ہے اور اس تحریک کو بقا اور دوام بخشنے کے لئے ایسے اہم افراد کی ضرورت تھی. کیونکہ مذہب اسلام ایسے افراد کے درمیان آیاجو پوری دنیا میں سب سے پست تھے اور اجتماعی اور اخلاقی نظام کے اعتبار اور انسانیت کے ہر طرح کی ثقافت سے محروم تھے، مذہبی چیزوں میں حج کے علاوہ جسے اپنے بزرگوں سے میراث میں پایا تھا کسی اور چیز سے آشنا نہ تھے۔
جناب موسی و عیسی کی تعلیمات نے ان پر کوئی اثر نہ کیا تھا ،حجاز کے اکثر لوگ اس کی خبر نہیں رکھتے تھے، جب کہ جاہلیت کے عقائد اور رسومات ان کے دلوں میں مکمل طریقے سے رسوخ کرچکے تھے اور روح و دل سے انھیں چاہتے تھے۔
ممکن ہے کہ ہر طرح کی مذہبی طبیعت ایسی ملتوں کے درمیان بہت جلد اپنا اثر پیدا کرلے مگر اس کے باقی رکھنے اوراسے دوام و پائداری بخشنے کے لئے ان کے درمیان بہت زیادہ تلاش و کوشش کی ضرورت ہے تاکہ ان لوگوں کو ہر طرح کے انحرافات اور پستی سے بچائے۔
جنگ احد اور حنین کے رقت آمیز اور دل ہلا دینے والے واقعات اور مناظر کہ جس میں تحریک کو بڑھا وا دینے والے عین جنگ کے وقت پیغمبر کو چھوڑ کر چلے گئے تھے اور انھیں میدان جنگ میں تنہا چھوڑ دیا تھا یہ اس بات کے گواہ ہیں کہ پیغمبر کے صحابی ایمان و عقل کی اس منزل پر نہ تھے کہ پیغمبر تمام امور کی ذمہ داری ان کے سپرد کرتے اور دشمن کے اس آخری حربہ کو جس میں وہ پیغمبر کی موت کے امیدوار تھے اسے ختم کرتے۔
جی ہاں. اگر امت کی رہبری کو خود امت کے سپرد کرتے تب بھی صاحب رسالت کے نظریات کو حاصل نہیں کرسکتے تھے بلکہ ضروری تھا کہ کوئی اور فکر کی جائے کہ جس کی طرف ہم اشارہ کر رہے ہیں۔
٢۔ تحریک کی بقا و پایداری کے لئے بہترین راستہ تو یہ تھا کہ خداوند عالم کی طرف سے ایک شائستہ شخص، جو تحریک کے اصول و فروع پر عقیدہ و ایمان میں پیغمبر کی طرح ہو تاکہ امت کی رہبری کے لئے اس شخص کا انتخاب ہوتا، تاکہ مستحکم ایمان او روسیع علم جو کہ خطا و لغزش سے پاک ہو اس امت کی رہبری کو اپنے ہاتھوں میں لیتا اور ہمیشہ کے لئے اسے دوام بخشتا۔
یہ وہی بات ہے جس کے صحیح و محکم کا مذھب تشیع ادعا کرتا ہے اور اکثر تاریخیں اس بات پر گواہ ہیں کہ پیغمبر اسلام نے ''حجة الوداع'' کی واپسی پر ١٨ ذی الحجہ ١٠ ھ کو اس اہم مشکل کی گرہ کو کھول دیاتھا اور خدا کی طرف سے اپنا وصی و جانشین معین کر کے اسلام کی بقا و استمرار کا انتظام کردیاتھا۔

امامت کے بارے میں دو نظریے
شیعہ دانشمندوں کی نظر میں خلافت ایک الہی منصب ہے جو خداوند عالم کی طرف سے امت اسلامی کے شائستہ اور عقلمند شخص کو دیا جاتا ہے .امام اور نبی کے درمیان واضح اور وشن فرق یہ ہے کہ پیغمبر شریعت لے کر آتا ہے اس پر وحی نازل ہوتی ہے اور وہ صاحب کتاب ہوتا ہے ،جب کہ امام اگرچہ ان چیزوں کا حقدار نہیں ہے لیکن حکومت کی باگ ڈور سنبھالنے کے علاوہ دین کی ان چیزوں کا بیان اور تشریح کرنے والا ہوتاہے جو پیغمبر وقت کی کمی یا حالات کے صحیح نہ ہونے کی بنا پر اسے بیان نہیں کرپاتا، اور ان تمام چیزوں کے بیان کو اپنے وصیوں کے ذمہ کردیتاہے .اس بنا پر شیعوں کی نظر میں خلیفہ صرف حاکم وقت اور اسلام کا ذمہ دار، قوانین کا جاری کرنے والا اور لوگوں کے حقوق کا محافظ اور ملک کی سرحدوں کا نگہبان ہی نہیں ہوتا، بلکہ مذہبی مسائل اور مبہم نکات کا واضح او رروشن کرنے والا ہوتا ہے اور ان احکام و قوانین کومکمل کرنے والا ہوتا ہے جو کسی وجہ سے دین کی بنیاد رکھنے والا بیان نہیں کرپاتا ہے۔
لیکن خلافت، اہلسنت کے دانشمندوں کی نظر میں ایک عام اور مشہور منصب ہے اور اس مقام کا مقصد صرف ظاہری چیزوں اور مسلمانوں کی مادیات کی حفاظت کے علاوہ کچھ نہیں ہے. خلیفۂ وقت عمومی رائے مشوروں سے سیاسی اقتصادی اور قضائی امور کو چلانے کے لئے منتخب ہوتا ہے اور وہ شئون و احکامات جو پیغمبر کے زمانے میں بطور اجمال تشریع ہوئے ہیں اور پیغمبر کسی علت کی بنا پر اسے بیان نہ کرسکے ہوں، اس کے بیان کرنے کی ذمہ داری علماء اور اسلامی دانشمندوں پر ہے کہ اس طرح کی مشکلات کو اجتہاد کے ذریعے حل کریں۔
حقیقت خلافت کے بارے میں اس مختلف نظریہ کی وجہ سے دو مختلف گروہ مسلمانوں کے درمیان وجود میں آگئے او روہ بھی دو حصوں میں بٹ گئے اور آج تک یہ اختلاف باقی ہے۔
پہلے نظریہ کے مطابق امام، پیغمبر کے بعض امور میں شریک اور اس کے برابر ہے اور جو شرائط پیغمبر کے لئے لازم ہیں وہی شرائط امام کے لئے بھی ضروری ہیں. ان شرائط کو ہم یہاں بیان کر رہے ہیں:
١۔ پیغمبر کے لئے ضروری ہے کہ وہ معصوم ہو یعنی اپنی پوری عمر میں گناہ کے قریب نہ جائے اوردین کے حقائق واحکام بیان کرنے، لوگوں کے اسلامی و مذہبی سوالوں کے جوابات دینے میں خطا کا مرتکب نہ ہو. امام کو بھی ایساہی ہونا چاہئے اوردونوں کے لئے ایک ہی دلیل ہے۔
٢۔ پیغمبر، شریعت کو سب سے زیادہ اور بہتر طور پر جانتا ہو . اور مذہب کی کوئی بھی چیز اس سے پوشیدہ نہ ہو. اور امام بھی جو کہ شریعت کی ان چیزوں کو مکمل کرنے اور بیان کرنے والا ہے جو پیغمبر کے زمانے میں بیان نہیں ہوئی ہیں، ضروری ہے کہ دین کے احکام و مسائل کوسب سے زیادہ جانتاہو۔
٣۔ نبوت ایک انتصابی مقام ہے نہ انتخابی، اور پیغمبر کے لئے ضروری ہے کہ خدا اس کی معرفی کرے اور اسی کی طرف سے مقام نبوت پر منصوب ہو کیونکہ تنہا اسی کی ذات ہے جو معصوم کو غیر معصوم سے جدا کرتا ہے اور صرف خدا ان لوگوں کو پہچانتا ہے جو غیبی عنایتوں کی وجہ سے اس مقام پر پہونچے ہیں او ردین کی تمام جزئیات سے واقف و آگاہ ہیں۔
یہ تینوں شرطیں جس طرح سے پیغمبر کے لئے معتبر ہیں اسی طرح امام اور اس کے جانشین کے لئے معتبر ہیں. لیکن دوسرے نظریہ کے مطابق، نبوت کی کوئی بھی شرط امامت کے لئے ضروری نہیںہیں نہ معصوم ہونا ضروری ہے نہ عادل ہونا اورنہ ہی عالم ہونا ضروری ہے نہ شریعت پر مکمل دسترسی ضروری ہے نہ انتصاب ہونا، اورنہ عالم غیب سے رابطہ ہونا ضروری ہے بلکہ بس اتنا کافی ہے کہ اپنے ہوش و حواس اور تمام مسلمانوں کے مشورے سے اسلام کی شان و شوکت کی حفاظت کرے اور قانون کے نفاذ کے لئے امنیت کو جزا قرار دے، او رجہاد کے ذریعے اسلام کو پھیلانے کی کوشش کرے۔
ابھی ہم اس مسئلہ کو (کہ کیا مقام امامت ایک انتصابی مقام ہے یا ایک انتخابی مقام اور کیا پیغمبر کے لئے ضروری تھا کہ وہ خود کسی کو اپنا جانشین معین کریں یاامت کے حوالے کردیں) ایک اجتماعی طریقے سے حل کرتے ہیں. اور قارئین محترم کو بھی اس بات کا بخوبی اندازہ ہو جائے گا کہ اجتماعی اور فرہنگی حالات خصوصاً پیغمبر کے زمانے کے سیاسی حالات سبب بنے کہ خود پیغمبر اپنی زندگی میں جانشینی کی مشکلات کو حل کریں اور اس کے انتخاب کو امت کے حوالے نہ کریں۔
اس بات میں کوئی شک نہیںہے کہ مذہب اسلام، جہانی مذہب اور آخری دین ہے اور جب تک رسول خدا زندہ رہے امت کی رہبری کو اپنے ذمے لئے رہے اور آپ کی وفات( شہادت) کے بعد ضروری ہے کہ امت کی رہبری امت کے بہترین فرد کے ذمے ہو، ایسی صورت میں پیغمبر کے بعد رہبری ،کیا ایک مقام تنصیصی (نص یا قرآنی دلیل )ہے یا مقام انتخابی؟
یہاں پر دو نظریے ہیں:
شیعوں کا نظریہ ہے کہ مقام رہبری ، مقام تنصیصی(نص) ہے اور ضروری ہے کہ پیغمبر کا جانشین خدا کی طرف سے معین ہو. جب کہ اہلسنت کا نظریہ ہے کہ یہ مقام انتخابی ہے اورامت کے لئے ضروری ہے کہ پیغمبر کے بعد ملک و امت کے نظام کو چلانے کے لئے کسی شخص کو منتخب کریں، اور ہر گروہ نے اپنے نظریوں پر دلیلیں پیش کی ہیں جو عقاید کی کتابوں میں ہیں یہاں پر جو چیز بیان کرنے کی ضرورت ہے وہ پیغمبر کے زمانے میں حاکم کے حالات کا تجزیہ و تحلیل کرناہے تاکہ دونوں نظریوں میں سے ایک نظریہ کو ثابت کرسکیں۔
پیغمبر اسلام کے زمانے میں اسلام کی داخلی اور خارجی سیاست کا تقاضا یہ تھا کہ پیغمبر کا جانشین خدا کے ذریعے خود پیغمبر کے ہاتھوں معین ہو. کیونکہ اسلامی معاشرہ کو ہمیشہ ایک خطرناک مثلث یعنی روم، ایران، اورمنافقین کی طرف سے جنگ،فساداوراختلاف کا خطرہ لاحق تھا،اسی طرح امت کے لئے مصلحت اسی میں تھی کہ پیغمبر سیاسی رہبر معین کر کے تمام امتیوں کو خارجی دشمن کے مقابلے میںایک ہی صف میں لاکر کھڑا کردیں. اور دشمن کے نفوذ اور اس کے تسلط کو ( جس کی اختلاف باطنی بھی مدد کرتا) ختم کردیں اب ہم اس مطلب کی وضاحت کر رہے ہیں۔
اس خطرناک مثلث کا ایک حصہ بادشاہِ روم تھا. یہ ایک عظیم طاقت شبہ جزیرہ کے شمال میں واقع تھی جس کی طرف سے پیغمبر اسلام ۖ ہمیشہ اور زندگی کے آخری لمحے تک فکر مند ہے.. سب سے پہلی لڑائی مسلمانوں کی روم کے عیسائی فوج کے ساتھ ٨ ھ میں فلسطین میں ہوئی. اس جنگ میں اسلام کے تین عظیم سپہ سالار یعنی جعفر طیار، زید بن حارثہ اورعبد اللہ بن رواحہ شہید ہوگئے اور اسلامی فوج کی بہت بڑی شکست ہوئی۔
کافروںکی فوج کے مقابلے سے اسلام کی فوج کے پیچھے ہٹنے سے قیصر کی فوج کے حوصلے بلند ہو گئے اور ہر لمحہ یہ خطرہ بنا رہاکہ کہیں نئی اسلامی حکومت کے مرکزپر حملہ نہ ہوجائے۔
اسی وجہ سے پیغمبر ٩ ھ میں بہت زیادہ فوج کے ساتھ شام کے اطراف کی طرف روانہ ہوئے تاکہ ہر طرح کی فوجی لڑائی میں خود رہبری کریں. اس سفر میں اسلامی فوج نے زحمت و رنج برداشت کر کے اپنی دیرینہ حیثیت کو پالیا اور اپنی سیاسی زندگی کو دوبارہ زندہ کیا. لیکن اس کھوئی ہوئی کامیابی پر پیغمبر مطمئن نہیں ہوئے اور اپنی بیماری سے چند دن پہلے فوج اسلام کو اسامہ بن زید کی سپہ سالاری میں دے کر حکم دیا کہ شام کے اطراف میں جائیں اور جنگ میں شرکت کریں۔
اس مثلث کادوسرا خطرناک حصہ ایران کا بادشاہ تھا.یہ سبھی جانتے ہیں کہ ایران کے خسرو نے شدید غصہ کے عالم میں پیغمبر کے خط کو پھاڑا تھا. اور پیغمبر کے سفیر کو ذلیل و خوار کر کے اپنے محل اور ملک سے نکالاتھا، صرف یہی نہیں بلکہ یمن کے گورنر کو نامہ لکھا تھا کہ پیغمبر کو گرفتار کرلے. اور اگر وہ گرفتاری نہ دیں توانھیں قتل کردے۔
خسرو پرویز، اگر چہ پیغمبر کے زمانے میں ہی مرگیا تھا لیکن یمن کو آزاد کرنے کا مسئلہ (جو مدتوں تک ایران کے زیر نظر تھا) خسرو ایران کی نظروں سے پوشیدہ نہ تھا. اورغرور و تکبر نے ایران کے سیاست دانوں کواس بات کی اجازت نہ دی کہ اس طرح کی قدرت (پیغمبر اسلام )کو برداشت کرسکیں۔
اور اس مثلث کا تیسرا خطرہ گروہ منافقین کی طرف سے تھا جو ہمیشہ ستون پنجم (مدد و طاقت) کی طرح مسلمانوں کے خلاف سازش میں لگے تھے، یہاں تک کہ ان لوگوںنے کہ جنگ تبوک میں جاتے وقت راستے میں پیغمبر اسلام کو قتل کرنا چاہا . منافقین کے بعض گروہ آپس میں یہ کہتے تھے کہ رسول خدا کی موت کے بعداسلامی تحریک ختم ہو جائے گی اور سب کے سب آسودہ ہو جائیں گے۔(١)
پیغمبر کے انتقال کے بعد ابوسفیان نے بے ہودہ قسم کے مکر و حیلے اپنائے اورچاہا کہ حضرت علی کے ساتھ بیعت کر کے مسلمانوں کو دو حصوںمیں تقسم کر کے ایک دوسرے کو روبرو کردے اوراچھے لوگوں کو برائیوں کی طرف راغب کرے. لیکن حضرت علی اس کی سازش سے باخبر تھے ،چنانچہ اس کو ہوشیار کرتے ہوئے کہا: خدا کی قسم! فتنہ و فساد برپا کرنے کے علاوہ تیرا کوئی اور مقصد نہیںہے اور صرف آج ہی تونہیں چاہتا کہ فتنہ و فساد برپا کرے بلکہ تو چاہتا ہے کہ ہمیشہ فتنہ و فساد ہوتا رہے ،جا مجھے تیری ضرورت نہیںہے۔(٢)
منافقوں کی تخریب کاری (فتنہ و فساد) اس حد تک پہونچ گئی تھی کہ قرآن مجید نے سورۂ آل عمران، نساء ، مائدہ، انفال، توبہ، عنکبوت، احزاب، محمد، فتح، مجادلہ، حدید، منافقون او رحشر میں اس کا تذکرہ کیا ہے۔
کیاایسے سخت دشمنوں کے بعد جو اسلام کے کمین میں بیٹھے تھے صحیح تھا کہ پیغمبر اسلام اپنے بعد نو بنیاد اسلامی معاشرے کے لئے دینی و سیاسی رہبر وغیرہ کو معین نہ کرتے؟ اجتماعی محاسبہ کی رو سے معلوم ہوتا ہے کہ پیغمبر پر ضروری تھا کہ رہبر کا تعیین کریںاور تاکہ اپنے بعد ہونے والے تمام اختلاف کو روک دیںاور
______________________
(١) سورۂ طور، آیت ٣٢۔ ٣٠
(٢) کامل ابن اثیر ج٢ ص ٢٢٠، العقد الفرید ج٢ ص ٢٤٩
ایک محکم دفاعی طاقت کو وجود میں لا کر وحدت اسلامی کی بنیاد کو محفوظ کریں، اور ہر ناگوار حادثہ رونما ہونے سے پہلے اور یہ کہ رسول اسلام کے انتقال کے بعد ہر گروہ یہ کہے کہ رہبر ہم میں سے ہو یہ سوائے رہبر معین کئے ممکن نہ تھا۔
مذکورہ باتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ نظریہ باکل صحیح ثابت ہوتا ہے کہ پیغمبر اپنے بعد ہونے والے رہبر کو خود معین کریں شایدیہی وجہیں تھیںکہ پیغمبر بعثت کی ابتداء سے آخر عمر تک مسئلہ جانشینی کو ہمیشہ بیان کرتے رہے اور اپنے جانشین کوآغاز رسالت میں بھی اور آخر زمانہ رسالت میںبھی معین کیا ،ان دونوںکی توضیح ملاحظہ کیجئے۔
دلیل عقلی، فلسفی اوراجتماعی حالات سے قطع نظر کہ یہ سب کی سب میرے نظریئے کی تائید کرتی ہیں ، وہ حدیثیںاو رورایتیں جو پیغمبر اسلام سے وارد ہوئی ہیں علمائے شیعہ کے نظریہ کی تصدیق کرتی ہیں.پیغمبر اکرم نے اپنی رسالت کے زمانے میں کئی دفعہ اپنے جانشین اوروصی کومعین کیا ہے اور امامت کے موضوع کو عمومی رائے اور انتخاب کے ذریعے ہونے والی بحث کو ختم کردیا ہے۔
پیغمبر نے نہ صرف اپنی آخری عمر میںاپنا جانشین معین کیا تھا، بلکہ آغاز رسالت میں کہ ابھی سو آدمیوں کے علاوہ کوئی ان پر ایمان نہ لایا تھا اپنے وصی و جانشین کو لوگوں کے سامنے پیش کیا۔
جس دن خدا نے آپ کو حکم دیا کہ اپنے رشتہ داروں کو خدا کے عذاب سے ڈرائیں اورعمومی دعوت سے پہلے انھیں مذہب توحیدقبول کرنے کے لئے بلائیں،تو اس مجمع میں جس میں بنی ہاشم کے ٤٥ سردار موجود تھے، آپ نے فرمایا:''تم میں سے سب سے پہلے جو میری مدد کرے گا وہی میرا بھائی ، وصی اور میرا جانشین ہوگا''
جس وقت حضرت علی ان کے درمیان سے اٹھے اور ان کی رسالت کی تصدیق کی. اسی وقت پیغمبر نے مجمع کی طرف رخ کر کے کہا: ''یہ جوان میرا بھائی، وصی اور جانشین ہے''
مفسرین و محدثین کے درمیان یہ حدیث ''یوم الدار'' اور حدیث ''بدء الدعوة'' کے نام سے مشہور ہے۔
پیغمبر نے نہ صرف آغاز رسالت میں بلکہ مختلف مناسبتوں اور سفرو حضر میں حضرت علی کی ولایت و جانشینی کو صراحت سے بیان کیا تھا . لیکن ان میں سے کوئی بھی ایک عظمت و صراحت کے اعتبار سے ''حدیث غدیر'' کے برابر نہیں ہے
اب ہم واقعہ غدیر کو تفصیل سے بیان کرتے ہیں:

واقعۂ ِ غدیر خم
پیغمبر اسلام ١٠ ھ میں وظیفۂ حج اور مناسک حج کی تعلیم کے لئے مکہ معظمہ روانہ ہوئے اور اس مرتبہ یہ حج پیغمبر اسلام کا آخری حج تھااسی وجہ سے اسے ''حجة الوداع'' کہتے ہیں. و ہ افراد جو پیغمبر کے ہمراہ حج کرنا چاہتے تھے یا حج کی تعلیمات سے روشناس ہونا چاہتے تھے پیغمبر کے ہمراہ روانہ ہوئے جن کی تعداد تقریباً ایک لاکھ بیس ہزار تھی۔
حج کے مراسم تمام ہوئے ،پیغمبر اسلام مدینے کے لئے روانہ ہوئے جب کہ بہت زیادہ لوگ آپ کی خدا حافظی کے لئے آئے سوائے ان لوگوں کے جو مکہ میں آپ کے ہمراہ ہوئے تھے وہ سب کے سب آپ کے ہمراہ تھے وہ پہلے ہی روانہ ہوگئے. جب یہ قافلہ بے آب و گیاہ جنگل بنام ''غدیر خم'' پہونچا جو جحفہ(١) سے تین میل کی دوری پر واقع ہے ،وحی کا فرشتہ نازل ہوا اور پیغمبر کو ٹھہر نے کا حکم دیا پیغمبر نے بھی سب کو ٹھہر نے کا حکم دیدیا تاکہ جو پیچھے رہ گئے ہیں وہ بھی پہونچ جائیں۔
قافلے والے اس بے آب و گیاہ اور بے موقع ، دوپہر کے وقت ، تپتے ہوئے صحرا میں اور گرم و تپتی ہوئی زمین پر پیغمبر کے اچانک رک جانے سے متعجب تھے، لوگ آپس میں ایک دوسرے سے کہہ رہے تھے: لگتاہے خدا کی طرف سے کوئی اہم حکم آگیاہے اور حکم کی اتنی ہی اہمیت ہے کہ پیغمبر کو حکم دیا ہے کہ اس سخت حالت میں آگے بڑھنے سے سب کو روک دیں اور خدا کے پیغام کو لوگوں تک پہونچائیں۔
رسول اسلام پر خد اکا یہ فرمان نازل ہوا:
(یَاَیُّہَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا ُنزِلَ ِلَیْکَ مِنْ رَبِّکَ وَِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَہُ وَاﷲُ یَعْصِمُکَ مِنْ النَّاس)(٢)
______________________
(١) جحفہ: رابغ سے چند میل دور مدینے کے راستے میں واقع ہے اور حاجیوں کی ایک میقات میں سے ہے۔
(٢) سورۂ مائدہ آیت ٦٧
اے پیغمبر، جو حکم تمہارے پروردگار کی طرف سے تم پر نازل کیا گیا ہے پہونچا دو اور اگر تم نے ایسا نہ کیا تو (سمجھ لو کہ) تم نے اس کا کوئی پیغام ہی نہیں پہونچایااور (تم ڈرو نہیں) خدا تم کو لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا۔
اگر آیت کے مفہوم پر غور کیا جائے تو چند نکات سامنے میں آتے ہیں:
١۔ وہ حکم جسے پہونچانے کے لئے پیغمبر کو حکم دیا گیا وہ اتنا عظیم اوراہم تھا کہ (بر فرض محال) اگر پیغمبر اس کے پہونچانے میں خوف کھاتے اور اسے نہیں پہونچاتے تو گویا آپ نے رسالت الہی کو انجام نہیں دیا بلکہ اس پیغام کے پہونچانے کی وجہ سے آپ کی رسالت مکمل ہوئی۔
دوسرے لفظوں میں یہ کہا جائے کہ ''ما انزل الیک'' سے مراد ہرگز قرآن مجید کی تمام آیتیں اور اسلامی احکامات نہیں ہیں کیونکہ اگر پیغمبر ،خداوند عالم کے تمام احکامات کو نہ پہونچائیں تو اپنی رسالت کو انجام نہیںدیا ہے تو یہ ایک ایساواضح اور روشن امر آیت کے نزول کا محتاج نہیںہے، بلکہ اس حکم سے مراد ایک خاص امر کا پہونچانا ہے تاکہ اس کے پہونچانے سے رسالت مکمل ہو جائے اوراگر یہ حکم نہ پہونچایا جائے تو رسالت عظیم اپنے کمال تک نہیںپہو نچ سکتی، اس بنا پر ضروری ہے کہ یہ حکم اسلامی اصول کا ایک اہم پیغام ہو تاکہ دوسرے اصول و فروع سے ارتباط رکھے ہواور خدا کی وحدانیت اور پیغمبر کی رسالت کے بعد اہم ترین مسئلہ شمار ہو۔
٢۔معاشرے کو دیکھتے ہوئے پیغمبر اسلام کو یہ احتمال تھا کہ ممکن ہے اس پیغام کو پہونچاتے وقت لوگوں کی طرف سے انھیں ضرر پہونچے لیکن خداوند عالم ان کے ارادے کوقوت و طاقت دینے کے لئے ارشاد فرماتا ہے: (وَاﷲُ یَعْصِمُکَ مِنْ النَّاس)
اب ہم ان احتمالات کا تجزیہ کریں گے جو ماموریت کے سلسلے میں مفسرین اسلامی نے بیان کئے ہیں کہ کون سا احتمال آیت کے مفہوم سے نزدیک ہے۔
شیعہ محدثین اور اسی طرح اہلسنت کے ٣٠ بزرگ محدثین(١) نے بیان کیا ہے کہ یہ آیت غدیر خم
______________________
(١) مرحوم علامہ امینی نے اپنی کتاب الغدیر، ج١ ص ١٩٦ تا ٢٠٩ تک ان تیس افراد کے نام و خصوصیات مکمل طریقے سے بیان کئے ہیں . جن کے درمیان بہت سے نام مثلاً طبری ، ابونعیم اصفہانی، ابن عساکر، ابو اسحاق حموینی، جلال الدین سیوطی وغیرہ شامل ہیں اور پیغمبر کے صحابی میں ابن عباس ، ابو سعید خدری و براء ابن عازب وغیرہ کے نام پائے جاتے ہیں۔
میں نازل ہوئی ہے جس میںخدا نے پیغمبر کو حکم دیا ہے کہ حضرت علی کو ''مومنوں کا مولی'' بنائیں۔
پیغمبر کے بعد ولایت و جانشینی عظیم اوراہم موضوعات میں سے ہے اور اس کے پہونچانے سے رسالت کی تکمیل ہوئی ہے نہ یہ کہ امر رسالت میں نقص شمار کیا جائے۔
اسی طرح یہ بھی صحیح ہے کہ پیغمبر اسلام اپنے اجتماعی اور سیاسی حالات کی رو سے اپنے اندر رعب و ڈر محسوس کرتے کیونکہ حضرت علی جیسے شخص کی وصایت اور جانشینی جن کی عمر ٣٣ سے زیادہ نہ تھی، کا اعلان ایسے گروہ کے سامنے جو عمر کے لحاظ سے ان سے بہت بڑے تھے ،بہت زیادہ دشوار تھا۔(١)
اس کے علاوہ اس مجمع میں پیغمبر کے اردگرد بیٹھے لوگوں کے بہت سے رشتہ داروں کاخونمختلف جنگوں میں حضرت علی کے ہاتھوں بہا تھا اورایسے کینہ توز افراد پر ایسے شخص کی حکومت بہت دشوار مرحلہ تھا، اس کے علاوہ حضرت علی پیغمبر کے چچا زاد بھائی اور داماد تھے اورایسے شخص کو خلافت کے لئے معین کرنا کم ظرفوں کی نگاہ میں،رشتہ دار کو بڑھاواد ینا تھا۔
لیکن ان تمام سخت حالات کے باوجود خداوند عالم کا حکیمانہ ارادہ یہ تھا کہ اس تحریک کو دوام بخشنے کے لئے حضرت علی کو خلافت و جانشینی کے لئے منتخب کیا جائے اوراپنے پیغمبر کی رسالت کو رہبر و رہنما کا تعیین کر کے پایہ تکمیل تک پہونچایاجائے۔
______________________
(١) خصوصاً ان عربوں پر جو اہم منصبوں کو قبیلے کے بزرگوں کے شایان شان سمجھتے تھے اورنوجوانوں کو اس بہانے سے کہ وہ تجربہ نہیں رکھتے ان کو اس کا اہل نہیں سمجھتے تھے اسی لئے جب پیغمبر نے عتاب بن اسید کو مکہ کا حاکم اوراسامہ بن زید کو فوج کا سپہ سالار بنا کر تبوک بھیجا تو بہت سے اصحاب پیغمبر اور دوستوں نے اعتراض کیا۔

واقعہ غدیر کی تشریح :
١٨ ذی الحجہ کو غدیر خم کی سرزمین پر دو پہر کا تپتا ہوا سورج چمک رہا تھا اور اکثر مؤرخین نے مجمع جن کی تعداد ٧٠ ہزار سے ١٢٠ ہزار تک بیان کی ہے اس جگہ پر پیغمبر کے حکم سے ٹہرے ہوئے تھے او راس روز رونما ہونے والے تاریخی واقعہ کا انتظار کر رہے تھے اور شدید گرمی کی وجہ سے اپنی رداؤں کو دو حصوں میں تہہ کر کے ایک حصے کو سر پر اوردوسرے حصے کو پیر کے نیچے رکھے ہوئے تھے۔
ایسے حساس موقع پر ظہر کی اذان پورے بیابان میں گونج اٹھی اور مؤذن کی تکبیر کی آواز بلند ہوئی ،
لوگ نماز ظہر ادا کرنے کے لئے آمادہ ہوگئے اور پیغمبر نے اس عظیم الشان مجمع میں جس کی سرزمین غدیر پر مثال نہیں ملتی نماز ظہرباجماعت ادا کی، پھر لوگوں کے درمیان اس منبر پر جو اونٹ کے کجاووں سے بنایا گیا تھا تشریف لائے اور بلند آواز سے یہ خطبہ پڑھا۔
تمام تعریفیں خدا سے مخصوص ہیں ہم اسی سے مدد چاہتے ہیں اور اسی پر ہمارا ایمان ہے اور اسی پر بھروسہ ہے اور برے نفس اور خراب کردار سے خدا کی پناہ مانگتے ہیں کہ اس کے علاوہ گمراہوں کا کوئی ہادی و رہنما نہیںہے وہ خدا جس نے ہر شخص کی ہدایت کی اس کو گمراہ کرنے والا کوئی نہیں ہے. میں گواہی دیتا ہوں کہ خدا کے علاوہ کوئی معبود نہیںاور محمد خدا کا بندہ اور اسی کی طرف سے بھیجا ہوا ہے۔
اے لوگو، عنقریب میں تمہارے درمیان سے خدا کی بارگاہ میں واپس چلا جاؤ ں گا اور میں مسئول ہوں اور تم بھی مسئول ہو میرے بارے میں کیا فکر کرتے ہو؟
پیغمبر کے صحابیوں نے کہا: ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ نے خدا کے مذہب کی تبلیغ کی اور ہم لوگوں کے ساتھ نیکی کی اور ہمیشہ نصیحت کی اوراس راہ میں بہت زیادہ زحمتیں برداشت کیں خدا آپ کو جزائے خیر دے۔
پیغمبر نے پھر مجمع سے مخاطب ہو کر فرمایا:
کیا تم گواہی نہیں دو گے کہ خدا کے علاوہ کوئی معبود نہیں اور محمد خدا کا بندہ اور اس کا پیغمبر ہے؟ جنت و جہنم اور موت حق ہیں اور قیامت بغیر کسی شک وتردید کے ضرور آئے گی اور خداوند عالم ان لوگوں کو جو قبروں میں دفن ہیں دوبارہ زندہ کرے گا؟
پیغمبر کے صحابیوں نے کہا: ہاں ہاں ہم گواہی دیتے ہیں۔
پھر پیغمبر نے فرمایا: میں تمہارے درمیان دو گرانقدر چیزیں بطور یادگار چھوڑ کر جارہا ہوں کس طرح ان کے ساتھ برتاؤ کرو گے ؟ کسی نے پوچھا: ان دوگرانقدر چیز سے کیا مراد ہے؟
پیغمبر اسلام نے فرمایا: ثقل اکبر جو خدا کی کتاب ہے جس کا ایک سرا خدا کے ہاتھ میں اور دوسرا تمہارے ہاتھ میں ہے اس کو مضبوطی سے پکڑلو تاکہ گمراہ نہ ہوجاؤ . اور ثقل اصغر میری عترت اور میرے اہلبیت ہیں میرے خدا نے مجھے خبر دی ہے کہ میری یہ دونوں یادگاریں قیامت تک ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گی۔
اے لوگو، کتاب خدا او رمیری عترت پر سبقت نہ لے جانا بلکہ ہمیشہ اس کینقش قدم پر چلناتاکہ تم محفوظ رہ سکو، اس موقع پر پیغمبر نے حضرت علی کو ہاتھوں پر بلند کیا یہاں تک کہ آپ کے بغل کی سفیدی دیکھائی دینے لگی اور سب نے حضرت علی کو پیغمبر کے ہاتھوں پر دیکھا اورانھیں اچھی طرح سے پہچانا اور جان لیا کہ اس اجتماع او رٹھہرنے کا مسئلہ حضرت علی سے مربوط ہے اور سب کے سب پوری توجہ اور دلچسپی کے ساتھ آمادہ ہوئے کے پیغمبر کی باتوں کو غور سے سنیں۔
پیغمبر نے فرمایا: اے لوگو، تمام مومنین میں سب سے بہتر شخص کون ہے؟
پیغمبر کے صحابیوں نے جواب دیا خدا اور اس کا پیغمبر بہتر جانتا ہے۔
پیغمبر نے پھر فرمایا: خداوند عالم میرا مولااور میں تم لوگوں کا مولا ہوں اور ان کے نفسوں سے زیادہ ان پر حق تصرف رکھتا ہوں. اے لوگو! جس جس کا میں مولا اور رہبر ہوں علی بھی اس کے مولا اور رہبر ہیں۔
رسول اسلام نے اس آخری جملے کی تین مرتبہ تکرار کی(١) اور پھر فرمایا:
پروردگارا ،تو اسے دوست رکھ جو علی کو دوست رکھتا ہو او رتواسے دشمن رکھ جو علی کو دشمن رکھتا ہو۔
خدایا علی کے چاہنے والوں کی مدد کر اوران کے دشمنوں کو ذلیل و رسوا کر، خدایا علی کو حق کا محور قرار دے۔
پھر فرمایا: دیکھو جو بھی اس بزم میں شریک نہیں ہے ان تک یہ پیغام الہی پہونچا دینا اور دوسروں کو اس واقعہ کی خبردے دینا۔
ابھی یہ عظیم الشان مجمع اپنی جگہ پر بیٹھا ہی تھا کہ وحی کا فرشتہ نازل ہوا اور پیغمبر اسلام کو خوشخبری دی کہ خدا نے آج تمہارے دین کو مکمل کردیا اور اپنی نعمت کو مومنین پر تمام کردیا۔(٢)
اس وقت پیغمبر کی تکبیر بلند ہوئی اور فرمایا:
خداکا شکر کہ اس نے اپنے دین کو کامل کردیا اور نعمتوں کو تمام کردیا اور میری رسالت اور میرے بعد علی کی ولایت سے خوشنود ہوا۔
______________________
(١) احمد بن حنبل نے اپنی کتاب ''مسند'' میں نقل کیا ہے کہ پیغمبر نے اس جملے کی چار مرتبہ تکرا رکی۔
(٢) الْیَوْمَ َکْمَلْتُ لَکُمْ دِینَکُمْ وََتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِی وَرَضِیتُ لَکُمْ الِْسْلاَمَ دِینًا ً . سورۂ مائدہ، آیت٣
پیغمبر اسلام منبر سے اترے اور آپ کے صحابی گروہ در گروہ حضرت علی کو مبارکباد دیتے رہے اور انھیں اپنا مولی اور تمام مومنین زن و مرد کا مولا مانا اس موقع پر رسول خدا کا شاعر حسان بن ثابت اپنی جگہ سے اٹھا او رغدیر کے اس عظیم و تاریخی واقعہ کو اشعار کی شکل میں سجا کر ہمیشہ کے لئے جاویدان بنا دیا یہاں اس مشہور قصیدے کے دو شعر کا ترجمہ پیش کرتے ہیں:
پیغمبر نے حضرت علی سے فرمایا: اٹھو میں نے تمہیں لوگوں کی راہنمائی اور پیشوائی کے لئے منتخب کیا جس شخص کا میں مولا ہوں علی بھی اس کا مولا ہے. اے لوگو! تم پر لازم ہے کہ علی کے سچے پیرو اور ان کے حقیقی چاہنے والے بنو۔(١)
جو کچھ اب تک بیان کیا گیا وہ اس عظیم تاریخی واقعہ کا خلاصہ تھا جواہلسنت کے دانشمندوں نے بیان کیا ہے شیعہ کتابوں میں یہ واقعہ تفصیل سے بیان کیا گیا ہے. مرحوم طبرسی نے اپنی کتاب احتجاج(٢) میں پیغمبر کا ایک تفصیلی خطبہ نقل کیاہے تفصیل کے خواہشمند قارئین اس کتاب کی طرف رجوع کرسکتے ہیں۔

غدیر کا واقعہ کبھی بھی بھلایا نہیں جاسکتا
خداوند عالم کا حکیمانہ ارادہ یہ ہے کہ عظیم تاریخی واقعہ غدیر ہر زمانے اور ہر صدی میں لوگوں کے دلوں میں زندہ اور کتابوں میں بطور سند لکھا رہے ،ہر زمانے میں اسلام کے محققین ،تفسیر ، حدیث، کلام اور تاریخ کی کتابوں میںاس کے متعلق گفتگو کریں اور مقررین و خطباء اپنی تقریروں، وعظ و نصیحت اور خطابتوں میںاس واقعہ کا تذکرہ کریں اور اسے حضرت علی کا ایسا فضائل شمار کریں جو غیر قابل انکار ہو نہ، صرف مقررین اور خطیب بلکہ بہت سارے شعراء اور دیگر افراد نے بھی اس واقعے سے ستفادہ کیا ہے اور اپنے ادبی ذوق کو اس واقعہ میں غور و فکر کرکے او رصاحب ولایت کے ساتھ حسن خلوص سے پیش آکر اپنی فکروں کو جلا بخشی ہے اور عمدہ و عالی ترین قصائد مختلف انداز اور مختلف زبانوں میں کہہ کر اپنی یادگار یںچھوڑی ہیں۔
______________________
(١) فقالَ لہ قم یاعلی فاننی
رضیتک من بعدی اماماً و ہادیاً
فمن کنت مولاہ فہذا ولیہ
فکونوا لہ اتباع صدق موالیاً
(٢) احتجاج طبرسی ج١ ص ٨٤ ۔ ٧١ ، طبع نجف
اسی وجہ سے بہت کم ایسا تاریخی واقعہ ہے جو غدیر کے مثل تمام دانشمندوں کی توجہ کا مرکز بنا ہو بلکہ تمام افراد خصوصاً محدثین ، متکلمین، فلسفی ، خطیب و شاعر، مؤرخ اور تاریخ لکھنے والے سب ہی اس کی طرف متوجہ ہوئے ہیں اور سب نے کچھ نہ کچھ اس سلسلے میں لکھا ہے۔
اس حدیث کے ہمیشہ باقی رہنے کی ایک علت، اس واقعہ کے بارے قرآن مجید کی دو آیتوں کا نازل ہونا ہے(١) اور جب تک قرآن باقی ہے یہ تاریخی واقعہ بھی باقی رہے گا اور کبھی بھی ذہنوں سے بھلایا نہیں جاسکتا ، اسلامی معاشرہ نے شروع سے ہی اسے ایک مذہبی عید شمار کیاہے اور تمام شیعہ آج بھی اس دن عید مناتے ہیں اور وہ تمام رسومات اور خوشیاں جو دوسری عیدوں میں انجام دیتے ہیں اس عید میں بھی انجام دیتے ہیں۔
تاریخ کی کتابیں دیکھنے سے بخوبی معلوم ہوتا ہے کہ ١٨ ذی الحجہ کا دن مسلمانوں کے درمیان '' عید غدیر'' کے نام سے مشہور ہے. یہاں تک کہ ابن خلکان، مستعلی بن المستنصر کے بارے میں کہتا ہے:
٤٨٧ ھ میں ١٨ ذی الحجہ کو غدیر کے دن لوگوں نے اس کے ہاتھ پر بیعت کیا۔(٢)
العبیدی المستنصر باللہ کے بارے میں لکھتا ہے کہ اس کا انتقال ٤٨٧ھ میں اس وقت ہوا جب ذی الحجہ مہینے کی بارہ راتیں باقی تھیں اور یہ رات ١٨ ذی الحجہ یعنی شب غدیر تھی۔(٣)
تنہا ابن خلکان نے ہی اس رات کو غدیر کی رات نہیں کہا ہے بلکہ مسعودی(٤) اور ثعلبی (٥) نے بھی اس رات کو امت اسلامی کی معروف و مشہور رات کہا ہے۔
اس اسلامی عید کی بازگشت خود عید غدیر کے دن ہوتی ہے کیونکہ پیغمبر نے اس دن مہاجرین و انصار، بلکہ اپنی بیویوں کو حکم دیا کہ علی کے پاس جائیں اور ان کی اس عظیم فضیلت پر انھیں مبارکباد دیں۔
زید بن ارقم کہتے ہیں: مہاجرین میں سب سے پہلے جس نے علی کے ہاتھ پر بیعت کی وہ ابوبکر، عمر،
______________________
(١) سورۂ مائدہ آیت ٣ اور ٦٧
(٢،٣) وفیات الاعیان ج١ ص ٦٠ و ج٢ ص ٢٢٣
(٤) التنبیہ و الاشراف ص ٨٢٢
(٥) ثمار القلوب ٥١١
عثمان، طلحہ اور زبیر تھے اور بیعت اور مبارکبادی کا یہ سلسلہ مغرب تک چلتا رہا۔
اس تاریخی واقعہ کی اہمیت کے لئے بس اتنا ہی کافی ہے کہ ١١٠ صحابیوں نے حدیث غدیر کو نقل کیا ہے . البتہ اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ اتنے زیادہ گروہوں میں سے صرف اتنی تعداد میں لوگوں نے واقعہ غدیر کو نقل کیا ہے بلکہ صرف اہلسنت کے ١١٠ دانشمندوںنے واضح طور پر نقل کیا ہے .یہ بات صحیح ہے کہ پیغمبر نے اپنے خطبے کو ایک لاکھ کے مجمع میں بیان کیا لیکن ان میں سے بہت زیادہ لوگ حجاز کے نہیں تھے اور ان سے حدیث نقل نہیں ہوئی ہے اور ان میں سے جن گروہوں نے اس واقعہ کو نقل کیا ہے تاریخ نے اسے اپنے دامن میں جگہ تک نہیں دیا ہے ، اور اگر لکھا بھی ہے تو ہم تک نہیں پہونچا ہے۔
دوسری صدی ہجری جو کہ ''تابعین'' کا زمانہ ہے ٨٩ افراد نے اس حدیث کو نقل کیا ہے اور اس صدی کے بعد جتنے بھی حدیث کے راوی ہیں سب کے سب اہل سنت کے دانشمند اورعلماء ہیں اور اس میں ٣٦٠ افراد نے اس حدیث کو اپنی اپنی کتابوں میں نقل کیا ہے اور بہت زیادہ لوگوں نے اس کی حقانیت اور صحیح ہونے کا اعتراف کیا ہے۔
تیسری صدی میں ٩٢ دانشمندوں نے، چوتھی صدی میں ٤٣ دانشمندوں نے ، پانچویں صدی میں ٢٤ دانشمندوں نے، چھٹی صدی میں بیس دانشمندوں نے، ساتویں صدی میں ٢١ دانشمندوں نے، آٹھویں صدی میں ١٨ دانشمندوں نے ،نویں صدی میں ١٦ دانشمندوں نے، دسویں صدی میں ١٤ دانشمندوں نے، گیارہویں صدی میں ١٢ دانشمندوں نے، بارہویں صدی میں ١٣ دانشمندوں نے، تیرہویں صدی میں ١٢ دانشمندوں نے اور چودہویں صدی میں ٢٠ دانشمندوں نے اس حدیث کو نقل کیا ہے۔
کچھ محدثین و مؤرخین نے صرف اس حدیث کے نقل کرنے پر ہی اکتفا نہیں کیا ہے بلکہ اس کی سند اور اس کے مفاد و مفہوم کے بارے میں مستقل طور پر کتابیں بھی لکھی ہیں۔
اسلام کے بزرگ مؤرخ طبری نے ایک کتاب بنام ''الولایة فی طریق حدیث الغدیر'' لکھا ہے اور اس حدیث کو ٧٠ سے زیادہ طریقوں سے پیغمبر سے نقل کیا ہے۔
ابن عقدہ کوفی نے اپنے رسالہ ''ولایت'' میں اس حدیث کو ١٠٥ افراد سے نقل کیا ہے۔
ابوبکر محمد بن عمر بغدادی جو جعانی کے نام سے مشہور ہے اس حدیث کو ٢٥ طریقوں سے نقل کیا ہے ، جن لوگوں نے اس تاریخی واقعہ کے متعلق مستقل کتابیں لکھی ہیں ان کی تعداد ٢٦ ہے۔
شیعہ دانشمندوں نے اس اہم اور تاریخی واقعے کے متعلق بہت قیمتی کتابیں لکھی ہیں اور تمام کتابوں میں سب سے جامع اور عمدہ کتاب ''الغدیر'' ہے جو عالم تشیع کے مشہور و معروف دانشمند علامہء مجاہد مرحوم آیت اللہ امینی کی تحریر کردہ ہے، امام علی ـ کی حالات زندگی لکھنے والوں نے اس کتاب سے ہمیشہ بہت زیادہ استفادہ کیا ہے۔