فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)
 

پانچویں فصل
جنگ احد میںامیر المومنین ـ کی جاں نثاری
جنگ بدر میںشکست کی وجہ سے قریش کے دل بہت زیادہ افسردہ اور مرجھائے ہوئے تھے .ان لوگوںنے اس مادی اور معنوی شکست کی تلافی کے لئے ارادہ کیا کہ اپنے قتل ہونے والوں کا انتقام لیں. اور اکثر عرب کے قبیلوں کے بہادر وجانباز اور جنگجو قسم کے افراد کاایک منظم لشکر تیار کرکے مدینہ کی طرف روانہ کریں۔
لہٰذا عمرو عاص او ربعض دوسرے افرادکومامورکیاگیاکہ کنانہ او رثقیف قبیلے کے افراد کو اپنا بنائیں اور مسلمانوں کے ساتھ جنگ کرنے میں ان سے مدد طلب کریں .ان لوگوںنے کافی محنت و مشقت کر کے تین ہزار جنگ جو افراد کو مسلمانوںسے مقابلے کے لئے آمادہ کرلیا۔
اسلام کے اطلاعاتی دستہ نے پیغمبر اسلام کو قریش کے ارادے اور مسلمانوں کے ساتھ جنگ کرنے کے لئے وہاں سے روانہ ہونے سے آگاہ کردیا. پیغمبر اسلام نے دشمنوں سے مقابلے کے لئے جانبازوں کی ایک کمیٹی بنائی جس میں سے اکثریت کا کہنا یہ تھا کہ اسلام کا لشکر مدینے سے نکل جائے اور شہر کے باہر جاکر دشمنوں سے مقابلہ کرے. پیغمبر اسلام ۖنماز جمعہ کی ادائیگی کے بعد ایک ہزار کا لشکر لے کر مدینہ سے کوہ احد کی طرف نکل پڑے۔
٧ شوال ٣ھ کی صبح کودونوں لشکر صف بستہ ایک دوسرے کے روبرو کھڑے ہوگئے ،اسلام کی فوج نے ایسی جگہ کومورچہ بنایاکہ ایک طرف یعنی پیچھے سے طبیعی طورپر ایک محافظ کوہ احد تھا لیکن کوہ احد کے بیچ میں اچھی خاصی جگہ کٹی ہوئی تھی اور احتمال یہ تھا کہ دشمن کی فوج کوہ کو چھوڑ کر اسی کٹی ہوئی جگہ اور مسلمانوں کے لشکر کے پیچھے کی طرف سے حملہ کرے، لہٰذا پیغمبر نے اس خطرے کو ختم کرنے کے لئے عبداللہ جبیر کو پچاس تیر اندازوں کے ساتھ اسی پہاڑی پر بھیج دیا تاکہ اگر دشمن اس راستے سے داخل ہو تواس کا مقابلہ کریں. اور حکم دیاکہ ایک لمحہ کے لئے بھی اپنی جگہ سے نہ ہٹیں، یہاں تک کہ اگر مسلمانوں کو فتح نصیب ہو جائے اوردشمن بھاگنے بھی لگیںجب بھی ا پنی جگہ چھوڑ کر نہ جائیں۔
پیغمبر نے علم کو مصعب کے حوالے کیا کیونکہ وہ قبیلۂ بنی عبد الدار کے تھے اور قریش کے پرچمدار بھی اسی قبیلے کے رہنے والے تھے۔
جنگ شروع ہوگئی اور مسلمانوں کے جانباز اور بہادروں کی وجہ سے قریش کی فوج بہت زیادہ نقصان اٹھانے کے بعد بھاگنے لگی، پہاڑی پر بیٹھے ہوئے تیر اندازوں نے یہ خیال کیا کہ اب اس پہاڑی پر رکنا ضروری نہیںہے. لہٰذا پیغمبر کے حکم کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مال غنیمت لوٹنے کے لئے مورچہ کو چھوڑ کر میدان میںآگئے، خالد بن ولید جوجنگ کرنے میں بہت ماہر وبہادر تھا جنگ کے پہلے ہی سے وہ جانتاتھا کہ اس پہاڑی کا دہانہ کامیابی کی کلید ہے، اس نے کئی مرتبہ کوشش کی تھی کہ اس کے پشت پر جائے اور وہاں سے اسلام کے لشکر پر حملہ کرے، مگر محافظت کرنے والے تیر اندازوںنے اسے روکا اور یہ پیچھے ہٹ گیا، اس مرتبہ جب خالدنے اس جگہ کومحافظوں سے خالی پایا توایک زبردست اور غافل گیرحملہ کرتے ہوتے فوج اسلام کی پشت سے ظاہر ہوا ،اور غیر مسلح اور غفلت زدہ مسلمانوں پر پیچھے کی جانب سے حملہ کردیا، مسلمانوں کے درمیان عجیب کھلبلی مچ گئی اور قریش کی بھاگتی ہوئی فوج اسی راستے سے دوبارہ میدان جنگ میںاتر آئی، اور اسی دور ان اسلامی فوج کے پرچم دار مصعب بن عمیر دشمن کے ایک سپاہی کے ہاتھوں قتل کردیئے گئے اور چونکہ مصعب کا چہرا چھپا ہوا تھا ،ان کے قاتل نے یہ سوچا کہ یہ پیغمبر ہیں . لہٰذا چیخنے لگا ''اَلٰا قَدْ قُتِلَ مُحَمَّداً'' (اے لوگو! آگاہ ہوجاؤ محمد قتل ہوگئے) پیغمبر کے قتل کی خبر مسلمانوں کے درمیان پھیل گئی. اور ان کی اکثریت میدان چھوڑ کر بھاگنے لگی اور میدان میں چند لوگوںکے علاوہ کوئی باقی نہ بچا۔
اسلام کا بزرگ سیرت نگار ،ابن ہشام اس طرح رقمطراز ہے:
انس بن مالک کا چچا انس بن نضرکہتاہے : جس وقت اسلام کی فوج ذہنی دباؤ کا شکار ہوئی اور پیغمبر کے قتل کی خبر چاروں طرف پھیل گئی توا کثر مسلمان اپنی جان بچانے کی فکر کرنے لگے اور ہر شخص ادھر ادھر چھپنے لگا.انس کہتا ہے کہ میںنے دیکھا کہ انصار و مہاجر کا ایک گروہ جس میں عمر بن خطاب، طلحہ اور عبیداللہ بھی تھے ایک کنارے پر بیٹھا اپنی نجات کی فکر کر رہا ہے.میںنے اعتراض کے انداز میںان سے کہا: کیوںیہاں بیٹھے ہو؟
ان لوگوںنے مجھے جواب دیا: پیغمبر قتل ہوگئے ہیں او راب جنگ کرنے سے کوئی فائدہ نہیںہے.میں نے ان لوگوں سے کہا کہ اگر پیغمبر قتل ہوگئے تو کیا زندگی کا کوئی فائدہ نہیںہے تم لوگ اٹھو او ر جس راہ میں وہ قتل ہوئے ہیں تم بھی شہیدہو جاؤ . اور اگر محمد قتل کردیئے گئے تومحمد کا خدا زندہ ہے وہ کہتاہے کہ میںنے دیکھاکہ میری باتوں کا ان پر ذرہ برابر بھی اثر نہ ہوا، میں نے اسلحہ اٹھایا اور جنگ میں مشغول ہوگیا۔(١)
ابن ہشام کہتے ہیں:
انس کواس جنگ میں ستر زخم لگے اور اس کی لاش کواس کی بہن کے علاوہ کوئی پہچان نہ سکا، مسلمانوں کے بعض گروہ اس قدر افسردہ تھے کہ انہوں نے خود ایک بہانہ تلاش کیا کہ عبد اللہ بن ابی منافق کا ساتھ کس طرح سے دیں تاکہ ابوسفیان سے ان کے لئے امان نامہ لیں.اور مسلمانوں کے بعض گروہ نے پہاڑی پر پناہ لی۔(٢)
ابن ابی الحدید لکھتے ہیں:
بغداد میں ٦٠٨ھ میںایک شخص واقدی کی کتاب ''مغازی'' کوایک بزرگ دانشمند محمد بن معد علوی سے پڑھتا تھا.ایک دن میںنے بھی اس درس میں شرکت کی.او رجس وقت گفتگو یہاں پہونچی کہ محمد بن مسلمہ جوصریحاً نقل کرتاہے کہ احد کے دن خود میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ مسلمان پہاڑی کے اوپر چڑھ رہے تھے اور پیغمبر ان کا نام لے کر پکار رہے تھے کہ ''اِلَیَّ یا فلان'' (اے فلاں میری طرف آؤ) لیکن کسی نے بھی پیغمبر کی آواز پر لبیک نہ کہا .استادنے مجھ سے کہا فلاں سے مراد وہی لوگ ہیں جنھوں نے پیغمبر کے بعد مقام ومنصب کو حاصل کیا.اور راوی نے خوف وڈر کی وجہ سے ان کا نام لکھنے سے پرہیز کیا ہے اوروہ نہیں چاہتا تھا کہ صریحی طور پر ان سب کا نام لکھے۔(٣)
______________________
(١)،(٢) سیرۂ ابن ہشام ج٣ ص ٨٤۔ ٨٣
(٣) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج١٥ ص ٢٣

جانثاری مقصد وہدف پر ایمان کی علامت ہے
جانثاری اور جانبازی ،مقصدوہدف پر ایمان کی علامت و نشانی ہے اور اس کے ذریعے سے انسان کی جانثاری کا اندازہ اس کے ہدف پر ایمان واعتقاد کے ذریعے لگایا جاسکتا ہے ،اور حقیقت میںبلندترین اور صحیح کسوٹی ایک شخص کے عقیدے کا اندازہ کرنے کے لئے ، اس کے گزرے ہوئے حالات کودیکھ کر لگایا
جاسکتاہے . قرآن کریم نے اس حقیقت کو اپنی آیتوں میںاس طرح سے بیان کیا ہے:
( ِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِینَ آمَنُوا بِاﷲِ وَرَسُولِہِ ثُمَّ لَمْ یَرْتَابُوا وَجَاہَدُوا بَِمْوَالِہِمْ وََنفُسِہِمْ فِی سَبِیلِ اﷲِ ُوْلَئِکَ ہُمْ الصَّادِقُونَ )(١)
(سچے مومن) تو بس وہی ہیں جو خدا اور اس کے رسول پر ایمان لائے پھر انھوں نے اس میں کسی طرح کا شک و شبہ نہ کیا اوراپنے مال سے اور اپنی جانوں سے خدا کی راہ میں جہاد کیا، یہی لوگ (دعوائے ایمان میں) سچے ہیں۔
جنگ احد ،مومن اور غیر مومن کی پہچان کے لئے بہترین کسوٹی تھی اورایک عمدہ پیمانہ تھا بہت سے ان افراد کے لئے جوایمان کا دعوی کرتے تھے. مسلمانوں کے بعض گروہ کا اس جنگ سے بھاگنا اتنا پر اثر تھا کہ مسلمانوں کی عورتیںجواپنے بیٹوں کے ساتھ میدان جنگ میں آئی تھیں اور کبھی کبھی زخمیوں کی خبر گیری کرتی تھیں اور پیاسے جانبازوں کو پانی سے سیراب کرتی تھیں اس بات پر مجبور ہوگئیں کہ پیغمبر کا دفاع کریں۔
جب نسیبہ نامی عورت نے ایمان کا دعویٰ کرنے والوں کوبھاگتے ہوئے دیکھا تو ہاتھ میں تلوار لے کر رسول اسلام(ص) کا دشمنوں سے دفاع کیا .جس وقت پیغمبر نے اس عورت کی جانثاری کو بھاگنے والوں کے مقابلے میں مشاہدہ کیا تو آپ نے اس بہادر عورت کے بارے میں ایک تاریخی جملہ ارشاد فرمایا: ''مَقٰاُم نَسِیْبَةِ بِنْتِ کَعْبٍ خَیْر مِنْ مَقٰامِ فُلٰانِ وَ فُلٰانِ'' (کعب کی بیٹی نسیبہ کا مقام و مرتبہ فلاں فلاں سے بہتر ہے)
ابن ابی الحدید کہتے ہیں کہ راوی نے پیغمبر کے ساتھ خیانت کی ہے کیونکہ جن لوگوںکا نام پیغمبر نے صریحی طور پر ذکر کیا تھا اسے بیان نہیں کیا۔(2)
انہی افرادکے مقابلے میں تاریخ ایک ایسے جانباز کااعتراف کرتی ہے جواسلام کی پوری تاریخ میںفداکاری اور جانثاری کا نمونہ ہے، اور جنگ احد میں مسلمانوں کی دوبارہ کامیابی اسی جانثار کی قربانیوں کا
______________________
(١) سورۂ حجرات آیت ١٥
(٢) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج١٤ ص ٢٦٦
نتیجہ تھی. یہ عظیم المرتبت جانثار، یہ حقیقی فداکار مولائے متقیان حضرت امیر المومنین کی ذات گرامی ہے.جنگ کی ابتدا میں قریش کے بھاگنے کی وجہ یہ تھی کہ ان کے پرچم اٹھانے والے ٩ افراد ایک کے بعد ایک مولائے کائنات کے رعب و دبدبہ کی وجہ سے اپنی جگہ سے ہٹ گئے اور نتیجہ یہ ہوا کہ ان کے دلوں میںشدید رعب بیٹھ گیا اور ان کے اندر ٹھہر نے اور مقابلے کرنے کی صلاحیت باقی نہ رہی۔(١)

امام ـ کی جانثاری پر ایک نظر:
معاصر مصری مؤرخین مجنھوں نے اسلامی واقعات کا تجزیہ کیا ہے حضرت علی کے حق کو جیسا کہ آپ کے شایان شان تھا یا کم از کم جیساکہ تاریخ نے لکھا ہے ادانہیں کیا ہے، اور امیر المومنین کی جانثاری کو دوسرے کے حق میں قرار دیا ہے اس بنا پر ضروری ہے کہ مختصر طور پر حضرت امیر کی جانثاریوں کوانہی کے مأخذ سے بیان کروں۔
١۔ ابن اثیر نے اپنی تاریخ(٢) میں لکھا ہے:
پیغمبر چاروں طرف سے قریش کے لشکر میں گھر گئے تھے ،ہر گروہ جب بھی پیغمبر پر حملہ کرتا توحضرت علی پیغمبر کے حکم سے جب کچھ قتل ہوجاتے تھے تو باقی راہ فرار اختیار کرتے تھے .ایسا جنگ احد میں کئی مرتبہ ہوا. اس جانثاری کی بنیاد پر جبرئیل امین نازل ہوئے اور حضرت علی کے ایثار کوپیغمبر کے سامنے سراہا اور کہا:یہ ایک بلند ترین جانثاری ہے جس کوانھوں نے کر دکھایا ہے. رسول خدا نے جبرئیل امین کی تصدیق کی اور کہا:''میں علی سے ہوںاور علی مجھ سے ہیں''
کچھ ہی دیر کے بعد میدان میں ایک آواز سنائی دی جس کا مفہوم یہ تھا:
لَاسَیْفَ اِلاّٰ ذُوْ الْفِقٰارِ
وَلَا فَتٰی اِلاّٰ عَلی
ذو الفقار جیسی کوئی تلوار نہیں اور علی ـ کے جیسا کوئی جوان نہیں۔
ابن ابی الحدید اس واقعہ کی مزید شرح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
وہ گروہ جس نے پیغمبر پر حملہ کیا تاکہ ان کو قتل کردیںاس میں پچاس آدمی تھے اور علی ـنے جوکہ باپیادہ
______________________
(١) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج١٤ ص ٢٥٠
(٢)تاریخ کامل جلد ٢ ص ١٠٧
جنگ کر رہے تھے ان لوگوں کومتفرق کردیا۔
پھر جبرئیل امین کے نازل ہونے کے بارے میں کہتے ہیں:
اس مطلب کے علاوہ جو کہ تاریخ کے اعتبار سے مسلم ہے میں نے محمد بن اسحاق کی کتاب ''غزوات'' کے بعض نسخوں میں جبرئیل امین کے نزول کے متعلق دیکھا ہے کہ یہاں تک ایک دن اپنے استاد عبدالوہاب سکینہ سے اس واقعہ کی صحت کے متعلق پوچھاتوانھوں نے کہا صحیح ہے، میں نے ان سے کہا پھر کیوں اس صحیح روایت کوصحاح ستہ کے مؤلفین نے نہیں لکھا؟ انھوںنے جواب میںکہا : بہت سی صحیح روایتیں موجود ہیں جس کے لکھنے میں صحاح ستہ کے مؤلفین سے غفلت ہوئی ہے۔(١)
٢۔ حضرت امیر المومنین نے ''رأس الیہود'' کے متعلق اپنے اصحاب کے بعض گروہ کے سامنے جو تفصیلی تقریر فرمائی اس میں اپنی جانثاری کے بارے میںاس طرح اشارہ کیا ہے :
جس وقت قریش کے لشکر نے طوفان کی طرح ہم پر حملہ کیا توانصار اور مہاجرین اپنے گھروں کی طرف روانہ ہوگئے، لیکن میںنے ستر زخم کھانے کے باوجود بھی حضرت کا دفاع کیا۔
پھر آپ نے قبا کواتارااور زخم کے نشانات جوباقی تھے اس پر ہاتھ لگا کر دکھایا، یہاں تک کہ بنا بر نقل ، ''خصال شیخ صدوق'' حضرت علی نے پیغمبر کے دفاع کرنے میںاتنی جانفشانی و جانثاری کی کہ آپ کی تلوار ٹوٹ گئی اور پیغمبر نے اپنی تلوار، ذو الفقار کو حضرت علی کے حوالے کیا تاکہ اس کے ذریعے سے راہ خدا میں جہاد کرتے رہیں۔(٢)
٣۔ ابن ابی الحدید لکھتے ہیں:
جب پیغمبر کے اکثر صحابی وسپاہی میدان سے بھاگ گئے تو دشمنوں نے پیغمبر پر اور بڑھ چڑھ کر حملہ کرنا شروع کردیا. بنی کنانہ قبیلہ کا ایک گروہ اور بنی عبد مناف قبیلے کا گروہ جن کے درمیان چار نامی پہلوان موجود تھے پیغمبر کی طرف حملہ آور ہوئے.اس وقت علی ـ پیغمبر کی چاروں طرف سے پروانہ کی طرح حفاظت کر رہے تھے ، اور دشمن کونزدیک آنے سے روک رہے تھے ،ایک گروہ جس کی تعداد پچاس آدمیوں سے بھی
______________________
(١) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج١٤ ص ٢١٥
(٢) خصال شیخ صدوق ج٢ ص ١٥
زیادہ تھی انھوں نے پیغمبر کو قتل کرنے کا ارادہ کرلیا اور صرف حضرت علی کا شعلہ ور حملہ تھا جس نے اس گروہ کومنتشر کردیا، لیکن وہ پھر دوبارہ آگئے اور پھر سے حملہ شروع کردیا اور اس حملے میں وہ چار نامی پہلوان اوردس دوسرے افراد جن کا نام تاریخ نے بیان نہیں کیا ہے قتل ہوگئے . جبرئیل نے حضرت علی کی اس جانثاری پر پیغمبر کو مبارک باد دی اور پیغمبر نے فرمایا: علی مجھ سے ہیں اور میں علی سے ہوں۔
٤۔ اس پہلے کی جنگوںمیں لشکر کی علمبرداری کے سلسلے میں بہت زیادہ احتیاط رکھی گئی اور پرچم کو بہادر اور دلیر افراد کے ہاتھ میں دیا گیا. علمبردار کے بہادر ہونے کی وجہ سے جنگجووں میں بہادری و شجاعت بڑھ گئی اور سپاہیوں کوذہنی خلفشار سے بچانے کے لئے کچھ لوگوں کو لشکر کاعلمبردار معین کیا گیا تاکہ اگر ایک ماراجائے تودوسرااس کی جگہ پر پرچم کو اپنے ہاتھ میں لے لے۔
قریش، مسلمانوں کی بہادری اورجانثاریوں سے جنگ بدر میں باخبر تھے، اسی وجہ سے اپنے بہت زیادہ سپاہیوں کولشکر کا علمبردار بنایاتھا.قریش کا سب سے پہلا علمبردار طلحہ بن طلیحہ تھا وہ پہلا شخص تھا جو حضرت علی کے ہاتھوں مارا گیا.اس کے قتل کے بعد قریش کے پرچم کوافراد درج ذیل نے سنبھالا اور تمام کے تمام حضرت علی ـ کے ہاتھوںمارے گئے. سعید بن طلحہ ، عثمان بنم طلحہ ، شافع بن طلحہ، حارث بن ابی طلحہ، عزیز بن عثمان، عبد اللہ بن جمیلہ، ارطاة بن شراحبیل، صوأب۔
ان لوگوں کے مارے جانے کی وجہ سے قریش کی فوج میدان چھوڑ کر بھاگ گئی، اس طرح سے مسلمانوں نے حضرت علی کی جانثاری کی وجہ سے جنگ فتح کرلی۔(١)
علامہ شیخ مفید اپنی کتاب ''ارشاد'' میں امام جعفر صادق ـ سے نقل کرتے ہیں کہ قریش کے علمبرداروں کی تعداد ٩ آدمیوں پر مشتمل تھی اورتمام کے تمام یکے بعد دیگرے حضرت علی کے ہاتھوںمارے گئے۔
ابن ہشام نے اپنی کتاب ''سیرئہ'' میںان افراد کے علاوہ اور بھی نام ذکر کئے ہیں جو حضرت علی کے پہلے ہی حملہ میں قتل ہوگئے تھے۔(٢)
______________________
(١) تفسیر قمی ص ١٠٣، ارشاد مفید ١١٥، بحار الانوار ج٢٠ ص ١٥
(٢) سیرئہ ابن ہشام ج١ ص ٨٤، ٨١

چھٹیں فصل
اسلام کی شرک پر کامیابی
عرب کے بت پرستوں کی فوج چیونٹی اور ٹڈی کی طرح ایک گہرے خندق کے کنارے آکر رک گئی جسے مسلمانوںنے چھ دن میں کھودی تھی. ان لوگوں نے سوچا پچھلی مرتبہ کی طرح اس مرتبہ بھی احد کے جنگل میں مسلمانوں سے مقابلہ کریں گے لیکن اس مرتبہ وہاں کوئی موجود نہ تھا. بہرحال وہ لوگ آگے بڑھتے رہے یہاں تک کہ شہر مدینہ کے دروازے تک پہونچ گئے. مدینے کے نزدیک ایک گہری اور خطرناک خندق دیکھ کر وہ لوگ حیران و پریشان ہوگئے ،دشمن کی فوج کے سپاہیوں کی تعداد دس ہزار سے زیادہ تھی جب کہ اسلام کے مجاہدوں کی تعداد تین ہزار سے زیادہ نہ تھی۔(١)
تقریباً ایک مہینے تک مدینہ کا محاصرہ کئے رہے اور قریش کے سپاہی ہر لمحہ اس فکر میں تھے کہ کسی طرح سے خندق کو پار کر جائیں. دشمن کے سپاہی خندق کے سپاہیوں سے مقابلے کے لئے جنہوںنے تھوڑے سے فاصلے پر اپنے دفاع کے لئے مورچہ بنایاتھا روبرو ہوئے اور دونوں طرف سے تیر چلنے کا سلسلہ شب و روز جاری رہا اور کسی نے بھی ایک دوسرے پر کامیابی حاصل نہ کی۔
دشمن کی فوج کا اس حالت پر باقی رہنا بہت دشوار اور مشکل تھا، چونکہ ٹھنڈی ہوا اور غذا کی کمی انھیں موت کی دعوت دے رہی تھی اورعنقریب تھا کہ جنگ کا خیال ان کے دماغوں سے نکل جائے اور سستی اور تھکن ان کی روح میں رخنہ پیدا کردے. اس وجہ سے فوج کے بزرگوں کے پاس کوئی اور چارہ نہ تھا مگر یہ کہ کسی بھی صورت سے ان کے بہادرو دلیر سپاہی خندق کو پار کر جائیں. فوج قریش کے چھ پہلوان و بہادر اپنے گھوڑے کودوڑاتے ہوئے خندق کے پاس گئے اوردھاوابول دیا اور بہت ہی احتیاط سے خندق پار کرکے میدان میں داخل ہوگئے ،ان چھ پہلوانوں میں عرب کا نامی گرامی پہلوان عمرو بن عبدود بھی تھا جو شبہ جزیرہ کا قوی اور بہادر جنگجو مشہور تھا،لوگ اسے ایک ہزار بہادروں پر بھاری سمجھتے تھے اور وہ اندر سے لوہے کی زرہ پہنے ہوئے تھا اور مسلمانوں کی صفوں کے سامنے شیر کی طرح غرایااور تیز تیز چلا کر کہا کہ بہشت کا
______________________
(١) امتاع الاسماع، مقریزی،منقول از سیرۂ ہشام ج٢ ص ٢٣٨
دعوی کرنے والے کہاںہیں؟کیاتمہارے درمیان کوئی ایسا نہیں ہے جومجھے جہنم واصل کردے یامیں اس کو جنت میں بھیج دوں؟
اس کے کلمات موت کی آواز تھے اور اس کے مسلسل نعروں کی وجہ سے لوگوں کے دلوں میں اس طرح ڈر بیٹھ گیا تھاایسا معلوم ہوتا تھا کہ سب کے کان بند ہوگئے ہوں اور زبانیں گنگ ہو گئی ہوں۔(١)
ایک مرتبہ پھر عرب کے بوڑھے پہلوان نے اپنے گھوڑے کی لگام کو چھوڑ دیا اور مسلمانوں کی صفوں کے درمیان پہونچ گیا اور ٹہلنے لگااور پھر اپنا مقابل مانگنے لگا۔
جتنی مرتبہ بھی اس عرب کے نامی پہلوان کی آواز جنگ کے لئے بلند ہوتی تھی فقط ایک ہی جوان اٹھتاتھا اور پیغمبر سے میدان جنگ میں جانے کی اجازت مانگتا،. مگر ہر بار پیغمبر اسے منع کردیتے تھے اوروہ جوان حضرت علی تھے. پیغمبر ان کی درخواست پر فرماتے تم بیٹھ جاؤ یہ عمرو ہے۔
عمرو نے تیسری مرتبہ پھر آواز دی اور کہا میری آواز چیختے چیختے بیٹھ گئی، کیا تمہارے درمیان کوئی شخص ایسا نہیں ہے جو میدان جنگ میں قدم رکھے؟ اس مرتبہ بھی حضرت علی نے پیغمبر سے بہت اصرار کیا کہ جنگ میں جانے کی اجازت دیدیں. پیغمبر نے فرمایا: یہ لڑنے والا عمرو ہے ، حضرت علی خاموش ہوگئے بالآخر پیغمبر نے حضرت علی کی درخواست کو قبول کرلیا. پھر اپنی تلوار انھیں عطا کی اوراپنا عمامہ ان کے سر پر باندھااور ان کے حق میں دعا کی(٢) اور کہا: خداوندا! علی ـ کودشمن کے شر سے محفوظ رکھ. پروردگارا: جنگ بدر میں عبیدہ اور جنگ احد میں شیر خدا حمزہ کو تو نے مجھ سے لے لیا، خدایا! علی ـکو مشکلات سے دور رکھ. پھر اس آیت کی تلاوت فرمائی: (رب لاتذرنی فرداً و انتَ خیرُ الوارثین)(٣) پھر اس تاریخی جملے کو بیان فرمایا: ''برزَ الایمانُ کلّہُ الی الشرک کلِّہ'' یعنی ایمان و شرک کے دو مظہر ایک دوسرے کے روبرو ہوئے ہیں۔(٤)
______________________
(١) واقدی نے اپنی کتاب مغازی میںاس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے وہ کہتا ہے کہ ''کان علی رؤوسہم الطیر'' گویاان کے سروں پر پرندے بیٹھے تھے. مغازی ج٢ ص ٤٨
(٢) تاریخ الخمیس ج١ ص ٤٨٦
(٣) سورۂ انبیاء آیت ٨٩
(٤) کنز الفوائد ص ١٣٧
حضرت علی مکمل ایمان کے مظہر اورعمرو شرک وکفر کا کا مل مظہر تھا. شاید پیغمبر کے اس جملے سے مقصد یہ ہو کہ ایمان اور شرک کا فاصلہ کم ہوگیاہے اور اس جنگ میں ایمان کی شکست شرک کی موقعیت کو پوری دنیا میںاجاگر کردے گی۔
امام ـ تاخیرکے جبران کے لئے بہت تیزی سے میدان کی طرف روانہ ہوئے اور عمرو کے پڑھے ہوئے رجز کے وزن اور قافیہ پر رجز پڑھنا شروع کیا جس کا مفہوم یہ تھا: جلدی نہ کر اے بہادر میں تجھے جواب دینے کے لئے آیا ہوں۔
حضرت علی لوہے کی زرہ پہنے ہوئے تھے اور ان کی آنکھیں مغفر (لوہے کی ٹوپی) کے درمیان چمک رہی تھیں، عمرو حضرت علی کو پہچاننے کے بعد ان سے مقابلہ کرنے سے کترانے لگا اور کہا تمہارے باپ ہمارے دوستوں میں سے تھے اور میں نہیں چاہتا کہ ان کے بیٹے کے خون کو بہاؤ ں۔
ابن ابی الحدید کہتے ہیں :
جب میرے استاد ابو الخیر نے تاریخ کے اس حصے کا درس دیا تو اس طرح بیان کیا : عمرو نے جنگ بدر میں شرکت کی تھی اور بہت ہی قریب سے حضرت علی کی شجاعت و بہادری کو دیکھا تھا اسی وجہ اس نے بہانہ بنایا او ربہت خوفزدہ تھا کہ کس طرح سے ایسے بہادر سے مقابلہ کرے۔
حضرت علی نے اس سے کہا: تومیری فکر نہ کر. میں چاہے قتل ہو جاؤں چاہے فتح حاصل کرلوں، خوش نصیب رہوں گا اور میری جگہ جنت میں ہے لیکن ہر حالت میں جہنم تیرا انتظار کر رہا ہے اس وقت عمرونے ہنس کر کہا:اے میرے بھتیجے یہ تقسیم عادلانہ نہیںہے جنت اور جہنم دونوں تمہارا مال ہے۔(١)
اس وقت حضرت علی نے اسے وہ نذر یاد دلائی جس کو جو اس نے خدا سے کیا تھا کہ اگر قریش کا کوئی شخص اس سے دو چیزوں کا تقاضا کرے تو وہ ایک چیز کو قبول کرلے گا. عمرو نے کہا:بالکل ایسا ہی ہے حضرت علی نے کہا:میری پہلی درخواست یہ ہے کہ اسلام قبول کرلے . عرب کے نامی پہلوان نے کہا: یہ درخواست مجھ سے نہ کرو مجھے تمہارے دین کی ضرورت نہیں ہے ،. پھر علی ـنے کہا:جا اور جنگ کرنے کا خیال اپنے دل سے نکال دے اور اپنے گھر کی طرف چلاجا. اور پیغمبر کے قتل کودوسروں کے حوالہ کردے کیونکہ اگروہ
______________________
(١) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج٢ ص ١٤٨
کامیاب ہوگیا تو قریش کے لئے باعث افتخار ہو گا اور اگر قتل ہوگیا تو تیری آرزو بغیر جنگ کے پوری ہوجائے گی ۔
عمرو نے جواب میں کہا: قریش کی عورتیں اس طرح گفتگو نہیں کرتیں، کس طرح واپس جاؤں، جب کہ محمد ۖ میرے قبضے میں ہیں اور اب وہ وقت پہونچ چکا ہے کہ جو میں نے نذر کی تھی اس پر عمل کروں؟ کیونکہ میں نے جنگ بدر کے بعد نذر کی تھی کہ اپنے سر پر تیل اس وقت تک نہیں رکھوں گا جب تک محمد سے اپنے بزرگوں کاانتقام نہ لے لوں گا۔
حضرت علی نے اس سے کہا: اب تو جنگ کے لئے آمادہ ہوجا! تاکہ پڑی ہوئی گتھی کو شمشیر کے ذریعے سلجھائیں. اس وقت بوڑھا پہلوان سخت غصے کی وجہ سے جلتے ہوئے لوہے کی طرح سرخ ہوگیا اور جب حضرت علی کو پیادہ دیکھا تو خود گھوڑے سے اتر آیا گھوڑے کو ایک ہی وار میں قتل کر دیااور ان کی طرف بڑھا اور اپنی تلوار سے حضرت علی پر حملہ کردیا اور پوری قوت سے حضرت کے سر پر مارا، حضرت علی نے اس کی ضربت کو اپنی سپر کے ذریعے روکا لیکن سپر دو ٹکڑے ہوگئی اورخود بھی ٹوٹ گئی اور آپ کا سر زخمی ہوگیا اسی لمحے امام نے موقع سے فائدہ اٹھایا اور ایک کاری ضرب لگائی اور اسے زمین پر گرادیا . تلوار کے چلنے کی آواز اور میدان میں گردو غبار کی وجہ سے دونوں طرف کے سپاہی اس منظر کونزدیک سے نہیں دیکھ پا رہے تھے، لیکن اچانک جب حضرت علی کی تکبیر کی آواز بلند ہوئی تومسلمان خوش ہوکر چیخنے لگے اور ان کو یقین ہوگیا کہ حضرت علی نے عرب کے پہلوان پر غلبہ پالیا ہے . اور مسلمانوں کو اس کے شر سے محفوظ کردیاہے۔
اس نامی و مشہور پہلوان کے قتل ہونے کی وجہ سے، پانچ اور نامی پہلوان، عکرمہ ، ہبیرہ، نوفل، ضرار اور مرد اس، جنھوں نے عمرو کے ساتھ خندق پار کیا تھا اور حضرت علی اورعمرو کی جنگ کے نتیجے کے منتظر تھے ، وہاں سے بھاگ گئے .ان میں سے چار پہلوان خندق سے پار ہوگئے تاکہ قریش کو عمروکے مرنے کی خبر سنائیں ،مگر نوفل بھاگتے وقت اپنے گھوڑے سے خندق میں گرگیا اور حضرت علی جوان سب کا پیچھا کر رہے تھے خندق میں گئے اور اس کو ایک ہی حملے میں موت کے گھاٹ اتار دیا۔(١)
اس نامی پہلوان کی موت کی وجہ سے شعلۂ جنگ ہوگیااور عرب کے ہر قبیلے والے اپنے ا پنے
قبیلے کی طرف واپس جانے لگے .زیادہ دیر نہ گزری تھی کہ دس ہزار کا لشکر ٹھنڈک اور بھوک کی وجہ سے اپنے گھروں کی طرف چلا گیا اور ا سلام کی اساس و بنیاد جسے عرب کے نامی اور قوی دشمن نے دھمکی دی تھی حضرت کی جانثاری کی وجہ سے محفوظ ہوگئی۔
______________________
(١) تاریخ الخمیس ج١ ص ٤٨٧

اس جانثاری کی اہمیت
جو لوگ اس جنگ کے جزئیات اور مسلمانوں کی ابتر حالت اور قریش کے نامی پہلوان کی دھمکیوں کے خوف و ہراس سے مکمل باخبر نہیں ہیں وہ اس جانثاری اور قربانی کی واقعی حقیقت کو کبھی بھی سمجھ نہیں سکتے . لیکن ایک محقق جس نے تاریخ اسلام کے اس باب کا دقیق مطالعہ کیا ہے اور بہترین روش اور طریقے سے اس کا تجزیہ و تحلیل کیا ہے پر اس واقعے کی اہمیت پوشیدہ نہیںہے۔
اس حقیقت کا جاننا بھی ضروری ہے کہ اگر حضرت علی میدان جنگ میں دشمن سے مقابلے کے لئے نہ جاتے تو پھر کسی بھی مسلمان میں اتنی جرأت نہ تھی کہ وہ عمروکے مقابلے میں جاتا، اور ایک فوج کے لئے سب سے بڑی ذلت و رسوائی کی بات یہ ہے کہ دشمن مقابلے کے لئے بلائے اور کوئی نہ جائے اور سپاہیوں پر خوف چھا جائے. حتی اگر دشمن جنگ کرنے سے باز آجاتا اور محاصرہ کوختم کر کے اپنے گھر واپس چلا جاتا. تب بھی اس ذلت کا داغ تاریخ اسلام کی پیشانی پر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے باقی رہتا۔
اگر حضرت علی اس جنگ میں شرکت نہ کرتے یا شہید ہو جاتے تو قریب تھا کہ کوہ ''سلع'' میں پیغمبر کے پاس رہنے والے سپاہی جو عمرو کی للکار سے بید کے درختوں کی طرح لرز رہے تھے، میدان چھوڑ کر چلے جاتے اور کوہ سلع سے اوپر جاتے اور پھر وہاں سے بھاگ جاتے، جیسا کہ جنگ احد اور حنین میں ہوااور تاریخ کے صفحات پر آج بھی درج ہے کہ سب کے سب فرار ہوگئے علاوہ چند افراد کے، جنھوں نے پیغمبر کی جان بچائی اور سب کے سب جان بچا کر بھاگ گئے اور پیغمبر کو میدان میں تنہا چھوڑ دیا۔
اگر امام علیہ السلام اس مقابلے میں(معاذ اللہ) ہارجا تے تو نہ صرف یہ کہ جتنے بھی سپاہی کوہ ''سلع'' کے دامن میں اسلام کے زیر پرچم اور پیغمبر کے پاس کھڑے تھے بھاگ جاتے بلکہ وہ تمام سپاہی جو پوری خندق کے کنارے حفاظت اور مورچہ سنبھالنے کے لئے کھڑے تھے وہ مورچے کو چھوڑ دیتے اور ادھراُدھر بھاگ جاتے۔
اگر حضرت علی علیہ السلام نے قریش کے پہلوانوں کا مقابلہ کر کے ان کو بڑھنے سے روکا نہ ہوتا یااس راہ میں قتل ہو جاتے تودشمن بڑی آسانی سے خندق کو پار کر جاتا اور پھر دشمن کی فوج اسلام کی فوج کی طرف بڑھتی اور پورے میدان میں بڑھ بڑھ کر حملہ کرتی جس کا نتیجہ یہ ہوتا کہ آئین توحیدی پر شرک کامیاب ہوجاتااور اسلام خطرے میں پڑ جاتا، ان تمام چیزوں کودیکھنے کے بعد پیغمبر اسلام نے، الہام اور وحی الہی سے حضرت علی کی جانثاری کو اس طرح سراہتے ہیں:
''ضَرْبَةُ عَلِیٍّ یَوْمَ الْخَنْدَقِ اَفْضَلُ مِنْ عِبَادَةِ الثَّقَلَیْنِ''(١)
اس ضربت کی عظمت و رفعت جو علی ـنے خندق میں دشمن پر ماری تھی دونوںجہان کی عبادتوں سے بہتر ہے۔
اس بیان کا فلسفہ یہ ہے کہ اگر یہ جانثاری واقع نہ ہوتی توقانون شرک پوری دنیا پر چھا جاتااور پھر کوئی بھی ایسی شمع باقی نہ رہتی جس کے اردگرد ثقلین طواف کرتا. اور اس کی نورانیت کے زیر سایہ خدا کی عبادت و پرستش کرتا۔
ہم یہاں پر بڑے فخر سے کہہ سکتے ہیں کہ امام نے اپنی بے نظیر اور عظیم فداکاری کی وجہ سے اس دنیاکے مسلمانوں اور توحید کے متوالوںکورہین منت قرار دیاہے یا دوسرے لفظوں میں یوں کہا جائے کہ اتنا زمانہ گزر جانے کے بعد بھی اسلام و ایمان، امام کی فداکاری وجانثاری کے صدقے میں آج تک باقی ہے۔
جی ہاں، حضرت علی کی فداکاری وجانثاری کے علاوہ آپ کی سخاوت و فیاضی کایہ عالم تھا کہ عمروبن عبدود کوقتل کرنے کے بعداس کی قیمتی زرہ اور لباس کواس کی لاش کے پاس چھوڑ کر میدان سے واپس آگئے، جب کہ عمرو نے اس کام کی وجہ سے آپ کی ملامت و سرزنش کی، لیکن امام علیہ السلام نے اس کی ملامت و سرزنش پر کوئی توجہ نہ دی. اور جب اس کی بہن اس کی لاش کے سراہنے پہونچی تو اس نے کہا کہ ہرگز میں تم پر گریہ نہ کروںگی کیونکہ تو کسی کریم و شریف کے ہاتھوں قتل ہوا ہے(٢) جس نے تیرے قیمتی لباس اور قیمتی اسلحوں تک کوہاتھ نہیں لگایاہے۔
______________________
(١) مستدرک حاکم ج٣ ص ٣٢، بحار الانوار ج٢٠ ص ٢١٦
(٢) مستدرک حاکم ج٣ ص٣٢، بحار الانوار ج٢٠ ص ٣٣