فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)
 

دوسری فصل
دو بڑی فضیلتیں
اگر اجتماعی مسئلوں کے ہر مسئلے پر شک کریں یا ان کو ثابت کرنے کے لئے تحقیق ،دلیل اور برہان کے محتاج رہیں توایسی صورت میں اجتماعی اتحاد و ہمبستگی اور منافع وغیرہ کے سلسلے میں شک و تردید میں نہیںالجھیں گے .اور کوئی شخص بھی ایسا نہیں ملے گا جویہ کہے کہ نااتفاقی اوراختلاف مفید چیزہے اور اتحاد واتفاق برا اور نقصان دہ ہے. کیونکہ اتفاق کی وجہ سے سب سے کم فائدہ جومعاشرے کو پہونچے گا وہ یہ ہے کہ چھوٹی چھوٹی اور بکھری ہوئی فوجیں آپس میں مل جائیں گی ،اور عظیم فوج کے سائے میں معاشرے میں مختلف طریقوں سے بڑے بڑے تحولات پیدا ہوںگے۔
وہ پانی جو بڑی بڑی ندیوں کے کنارے چھوٹی چھوٹی نہروں کی طرح بہتا ہوا نظر آتا ہے وہ چھوٹے دریاؤں سے ملنے کی وجہ سے وجود میں آیا ہے جس کے اندر نہ اتنی صلاحیت ہے کہ بجلی پیدا کرسکے اور نہ اتنی مقدار ہی میں ہے کہ اس سے کھیتی کی جاسکے ،لیکن جب یہ چھوٹی چھوٹی نہریں ایک جگہ جاکر مل جاتی ہیں تو ایک دریا کی شکل اختیار کر لیتی ہیں اور اب یہ دریاہزاروں کیلو واٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت پیدا کرلیتا ہے اور اس کے پانی سے ہزاروں ایکٹر زمین سیراب کر کے کھیتی کی جاتی ہے۔

غرض ز انجمن واجتماع وجمع قواست
چرا کہ قطرہ چوشدمتصل بہ ہم دریا است
اجتماع اور انجمن اور جمع ہونے کا مقصد طاقت ہے ،کیونکہ اگر پانی کا ایک قطرہ دریاسے مل جائے تو وہ بھی دریا بن جاتا ہے۔

ز قطرہ ہیچ نیایدولی چو دریا گشت
ہر آنچہ نفع تصور کنی در آن آنجا است
قطرہ سے کچھ بھی حاصل نہ ہوگا ،لیکن اگر یہی قطرہ دریابن گیا تو تم جتنا بھی فائدہ سوچ سکتے ہو تمہیں ملے گا۔

ز قطرہ ماہی پیدا نمی شود ہرگز
محیط گشت ، از آن نہنگ خواہد خاست
قطرہ میں کبھی بھی مچھلی زندہ نہیں رہ سکتی، مگر جب یہی قطرہ دریا بن گیا تواس میں نہنگ مچھلی زندہ رہ سکتی ہے ۔

ز گند می نتوان پخت نان وقوت نمود
چو گشت خرمن وخروار وقت برگ ونواست
ایک گیہوں سے روٹی نہیں پکائی جاسکتی اور زندگی بسر نہیں ہو سکتی جب وہ کھلیہان میں گیاتو ایک ذخیرہ بن گیا ہے

ز فرد فرد محال است کارہای بزرگ
ولی ز جمع توان خواستہ ہرچہ خواہی خواست
ایک بڑا کام الگ الگ مردوں سے انجام پانابہت محال ہے، لیکن اگر یہی تمام لوگ ایک ساتھ جمع ہو جائیں تو جو بھی کرناچاہیں انجام دے سکتے ہیں۔

بلی چو مورچگان را وفاق دست دہد
بہ قول شیخ، ہژ بر ژیان اسیر و فنا است
اگر چیونٹیوں کی طرح اتحاد و اتفاق کا دامن ہاتھ میں رہے تو شیخ کے بقول زندگی فنا و برباد ہے ۔
اپنے مقصد میں کامیابی کے لئے نہ صرف مادی چیزوں کو طلب کرے بلکہ ضروری ہے کہ لوگوں کی فکری اور معنوی قدرت وطاقت سے اجتماعی مشکلوں کا حل تلاش کرے ،اور صحیح لائحہ عمل بنانے میں مددطلب کرے، اور ایک دوسرے سے مشورہ اور تبادلۂ نظر کے نئے نئے راستے ہموار کرے اور بزرگ و سنگین پہاڑ جیسی مشکلوں سے ہوشیار رہے۔
یہی وجہ ہے کہ آئین اسلام کے اصلی اور بیش قیمتی برناموںمیں تبادلہ خیالات اور مشورے کی اجتماعی امور میں بہت زیادہ اہمیت بیان کی گئی ہے، اور قرآن مجید نے جن لوگوں کوحق پسند اور حق شناس جیسے ناموں سے تعبیر کیا ہے ان کے تمام کام مشورے اور تبادلہ خیالات سے انجام پاتے ہیں۔
(وَالَّذِینَ اسْتَجَابُوا لِرَبِّہِمْ وََقَامُوا الصَّلاَةَ وََمْرُہُمْ شُورَی بَیْنَہُمْ وَمِمَّا رَزَقْنَاہُمْ یُنْفِقُونَ )(١)
اور جو اپنے پروردگار کا حکم مانتے ہیں اور نماز پڑھتے ہیںاور ان کے کل کام آپس کے مشورے سے ہوتے ہیں اور جو کچھ ہم نے انھیں عطا کیاہے اس میں سے (راہ خدا میں) خرچ کرتے ہیں۔
______________________
(١) سورۂ شوریٰ آیت ٣٨

اتحاد اور اخوت
آئین اسلام کاایک اہم اور اجتماعی اصول ''اخوت و برادری'' ہے .پیغمبر اسلام(ص) مختلف صورتوں سے اخوت و برادری کو عام کرنے میں بہت زیادہ کوشاں رہے ہیں۔
مہاجرین کے مدینہ پہونچنے کے بعد پہلی مرتبہ اخوت وبرادری کا رشتہ انصار کے دو گروہ یعنی اوس و خزرج کے درمیان پیغمبر اسلام کے ذریعے قائم ہوا۔
یہ دو قبیلے جومدینہ ہی کے رہنے والے تھے اور عرصۂ دراز سے آپس میں جنگ وجدال کرتیتھے ، رسول اسلام ۖ کی کوششوں کے نتیجے میں ایک دوسرے کے بھائی بن گئے اورارادہ کرلیاکہ ہم لوگ پرانی باتوں کو کبھی نہیں دہرائیں گے.اس اخوت و برادری کاہدف و مقصد یہ تھاکہ اوس و خزرج جو اسلام کے دواہم گروہ مشرکوںکے مقابلے میںتھے وہ آپس میں ظلم و بربریت، لڑائی جھگڑا او رایک دوسرے پر زیادتی کرنے سے باز آجائیں اور پرانی دشمنی کی جگہ صلح و صفا کویاد رکھیں۔
دوسری مرتبہ پیغمبر نے اپنے صحابیوں اوردوستوں کوچاہے مہاجرین سے ہوںیاانصار میں سے ، حکم دیا کہ آپس میںایک دوسرے کواپنا بھائی بنالیں اوردوسرے کے بھائی بن جائیں ،کتنی عمدہ بات ہے کہ دومہاجر ایک دوسرے کے بھائی یا ایک مہاجر میں سے اور ایک انصار میں سے ایک دوسرے کے بھائی بن گئے اور بھائی چارگی کے عنوان سے ایک دوسرے کے ہاتھ میںاپناہاتھ دیااوراس طرح سے ایک سیاسی اور معنوی قدرت و طاقت ابھر کر ان کے سامنے آگئی۔
اسلامی مؤرخین ومحدثین لکھتے ہیں:
ایک دن پیغمبر اپنی جگہ سے اٹھے اوراپنے دوستوں سے فرمایا: ''تآٔخوا فی اللہ اخوین اخوین''
یعنی خدا کی راہ میں آپس میں دودوآدمی بھائی بن جاؤ۔
تاریخ نے اس موقع پر ان افراد کا نام ذکر کیا ہے جن لوگوں نے اس دن پیغمبر کے حکم سے ایک دوسرے کے ساتھ رشتۂ اخوت کو قائم کیا مثلاً ابوبکر اور عمر ،عثمان اور عبدالرحمن بن عوف، طلحہ او ر زبیر، ابی ابن کعب اور ابن مسعود، عمار اور ابو حذیفہ، سلمان اور ابو الدرداء وغیرہ آپس میں ایک دوسرے کے بھائی بنے اور ان افراد کی بھائی چارگی کو پیغمبر نے تائید کیا .یہ برادری اوربھائی چارگی جو چند افراد کے درمیان قائم ہوئی اس برادری اور اسلامی برادری کے علاوہ ہے جسے قرآن کریم نے اسلامی معاشرے میں معیار ومیزان قرار دیا ہے اور تمام مومنین کوایک دوسرے کا بھائی کہا ہے۔

حضرت علی ـ پیغمبر ۖکے بھائی تھے :
رسول اسلام(ص) نے جتنے افراد بھی مسجد نبوی میں حاضر تھے انھیںایک دوسرے کا بھائی بنایا، صرف علی ـان کے درمیان تنہا بچے جن کے لئے بھائی کانتخاب نہیں کیا، اس وقت حضرت علی آنکھوں میں آنسوؤوں کا سوغات لئے ہوئے پیغمبر اسلام کی خدمت میں پہونچے اور کہا آپ نے اپنے تمام دوستوں کے لئے ایک ایک بھائی کا انتخاب کردیا لیکن میرے لئے کسی کو بھائی نہیں بنایا۔
اس وقت پیغمبر اکرم نے اپنا تاریخی کلام جوحضرت علی کی پیغمبر سے قربت و منزلت اور نسبت اور آپ کی شخصیت کو اجاگر کرتا ہے انھیں مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:
''اَنْتَ اَخِیْ فِی الدُّنْیٰا وَ الْآخِرَةِ وَالَّذِیْ بَعَثَنِیْ بِالْحَقِّ مٰا اَخَّرتُکَ الاّٰ لِنَفْسِیْ اَنْتَ اَخِیْ فِی الدُّنْیٰاوَ الْآخِرَةِ''(١)
تم دنیا و آخرت میں میرے بھائی ہو .وہ خدا جس نے ہمیںحق پر مبعوث کیا ہے میں نے تمہاری برادری کے سلسلے میں خود تاخیر سے کام لیا ہے تاکہ تمہیںاپنابھائی قرار دوں، ایسی بھائی چارگی جو دونوں جہان (دنیا و آخرت) میں باقی رہے۔
رسول اسلام ۖکا یہ کلام حضرت علی ـ کی عظمت اور پیغمبر اسلام سے نسبت کو معنوی و پاکیزگی اور دین کے اہداف میں خلوص کو بخوبی واضح ورو شن کرتا ہے. خود اہلسنت کے دانشمندوں میں سے
______________________
(١) مستدرک حاکم، ج٣، ص ١٤، استیعاب ، ج٣، ص ٣٥
الریاض النضرة کے مؤلف نے اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے۔(١)
یہاں پر آیت مباہلہ (٢) کی تفسیر کا مبنٰی سمجھ میںآتا ہے تمام علمائے تفسیر کا اتفاق ہے کہ ''اَنْفُسَنَا وَاَنْفُسَکُمْ'' سے مراد علی بن ابی طالب ہیںجسے قرآن نے ''نفس پیامبر'' کے خطاب سے یاد کیا ہے. اس لئے کہ فکری اور روحی جاذبیت نہ یہ کہ صرف دو فکروں کواپنی طرف کھینچتی ہے بلکہ کبھی کبھی دو انسان کو ایک ہی شخص بتاتی ہے۔
اس لئے کہ ہر موجود اپنے ہم جنس کو جذب اور اپنے مخالف کو دفع کرتی ہے، اور یہ عالم اجسام اور اجرام زمین و آسمان سے مخصوص نہیںہیں بلکہ عظیم وبزرگ شخصیتیں جذب اوردفع کا مظہر ہیں.ایک گروہ کو جذب اور دوسرے گروہ کو دفع کرتی ہیں. اس طریقے کی کشش اور گریز سنخیت یا روح کے متضاد ہونے کی وجہ سے ہے اور یہی سنخیت اور تضاد ہے جوایک گروہ کواپنے قریب کرتی ہے اور دوسرے گروہ کواپنے سے دور کردیتی ہے۔ اس مسئلہ کو اسلامی فلسفۂ نے اس طرح تعبیر کیا ہے ''السنخیة علة الانضمام'' یعنی سنخیت اور مشابہت اجتماع اورانضمام کا سرچشمہ ہے۔

امام ـ کی ایک اور فضیلت
جب مسجد نبوی کی تعمیر ہوچکی تو پیغمبر کے صحابیوں نے مسجد کے اطراف میں اپنے اپنے لئے گھر بنائے اور ہر گھر کا ایک دروازہ مسجد کی طرف کھلا رکھا . پیغمبر اسلام نے بحکم خدا فرمایا: تمام دروازے جو مسجد کی طرف کھلتے ہیں اسے بند کردیا جائے سوائے علی بن ابی طالب کے دروازے کے ، یہ بات رسول اسلام ۖکے بہت سے صحابیوں پر ناگوار گذری . لہٰذا پیغمبر اسلام منبر پر تشریف لائے اور فرمایا : خداوند عالم نے مجھے حکم دیاہے کہ تمام دروازے جو مسجد کی طرف کھلتے ہیںانھیں بند کردوں سوائے حضرت علی کے دروازے کے، اور خودمیں نے اپنی طرف سے دروازہ بند کرنے یا کھولنے کا حکم نہیں دیاہے بلکہ میںاس مسئلے میں خدا کے حکم کا پابند ہوں۔(٣)
______________________
(١)الریاض النضرة ج٢ ص ١٦ مؤلف محب الدین طبری
(٢)سورہ آل عمران ٦١
(٣) مسند احمد ج٣ ص ٣٤٩، مستدرک حاکم ج٣ ص ١٢٥ ،الریاض النضرة ج٣ ص ١٩٢
اس دن رسول خدا کے تمام صحابیوں نے اس واقعہ کو حضرت علی ـ کی ایک بہت بڑی فضیلت سمجھا یہاں تک کہ بہت زمانے کے بعد خلیفۂ دوم نے کہا کہ ، کاش وہ تین فضیلتیں جو علی کونصیب ہوئیں وہ مجھے بھی نصیب ہوتیں، اور وہ تین فضیلتیں یہ ہیں:
١۔ پیغمبر نے اپنی بیٹی کا عقد علی ـ سے کیا۔
٢۔ تمام دروازے جو مسجد کی طرف کھلتے تھے وہ بند ہوگئے صرف علی ـکے گھر کا دروازہ کھلا رہا۔
٣۔ جنگ خیبر میں پیغمبر نے علم کوعلی ـ کے ہاتھوںمیںدیا۔(١)
حضرت علی ـاور لوگوں کے درمیان جو فرق ہے وہ اسی لئے کہ آپ کا مسجد سے کسی وقت بھی رابطہ منقطع نہیںہوا ،وہ خدا کے گھر میں پیدا ہوئے اورکعبہ میں آنکھ کھولی اس بنا پر پہلے ہی دن سے مسجد آپ کا گھر تھا اور یہ تمام فضیلتیں کسی دوسرے کے لئے نہ تھیں . اس کے علاوہ حضرت علی ہمیشہ اور ہر حالت میں مسجد کے احکام کی رعایت کرتے تھے لیکن دوسرے افرادبہت کم مسجدکے آداب و احکام کی رعایت کرتے تھے۔
______________________
(١) مسند احمد، ج٢، ص ٢٦