تیسرا باب
بعدِہجرت اور پیغمبر ۖسے پہلے حضرت علی ـ کی زندگی
پہلی فصل
اس زمانے پر ایک نظر
پیغمبر اسلام کی ہجرت کے بعد حضرت علی کامکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کرنا آپ کی زندگی کا تیسرا حصہ ہے .اور اس فصل کے تمام صفحات حضرت علی کی زندگی کے اہم ترین اورتعجب خیز حالات پر مشتمل ہیں،اور امام علیہ السلام کی زندگی کے مہم اور حساس امور زندگی کے اس دور سے وابستہ ہیں جسے ہم دو مرحلوں میں خلاصہ کر رہے ہیں:
١۔ میدان جنگ میں آپ کی فداکاری اور جانبازی
پیغمبر اسلام نے مدینے کی اپنی پوری زندگی میں مشرکوں، یہودیوں اورفتنہ و فساد برپا کرنے والوں کے ساتھ ٢٧ غزوات میں لڑیں. مسلمانوں کی تاریخ لکھنے والوں کی نظر میں جن لوگوں نے ان غزوات کے حالات اور شجاعتوں کا تذکرہ کیاہے، کہتے ہیں کہ غزوہ یعنی وہ جنگ جس میں پیغمبر اسلام ۖنے اسلامی لشکر کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لے رکھی تھی، اور خود سپاہیوں کے ہمراہ میدان جنگ گئے اور انہی کے ساتھ مدینہ واپس آئے. غزوات کے علاوہ ٥٥ ''سریہ'' بھی آپ کے حکم سے انجام پائیں۔(١)
سریہ سے مراد وہ جنگ ہے جس میں اسلامی فوج کے کچھ سپاہی و جانباز دشمنوں کو شکست دینے اور ان سے لڑنے کے لئے مدینہ سے روانہ ہوئے اور لشکر کی سپہ سالاری اسلامی فوج کے اہم شخص کے ہاتھوں میںتھی، حضرت امیر علیہ السلام نے پیغمبر کے غزوات میں سے ٢٦ غزووں میں شرکت کی اور صرف ''جنگ تبوک'' میں پیغمبر اسلام کے حکم سے مدینہ میں رہے ا ور جنگ تبوک میں شریک نہ ہوئے .کیونکہ یہ خوف تھا کہ مدینے کے منافقین پیغمبر کی عدم موجودگی میں مدینہ پر حملہ کردیںاور مدینہ میں اسلامی
امور کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لے لیں۔
جن سریوں کی باگ ڈور امام کے ہاتھوں میں تھی ان کی تعداد معین نہیں ہے مگر پھر بھی ہم ان کی تفصیلات اس حصے میں بیان کریں گے۔
______________________
(١) واقدی نے اپنی کتاب مغازی، ج١، ص ٢ میں پیغمبر کی سریہ کی تعدا د اس سے کم لکھی ہے۔
٢۔ وحی (قرآن) کا لکھنا
کتابت وحی اور بہت سی تاریخی اور سیاسی سندوں کا منظم کرنااور تبلیغی اور دعوتی خطوط لکھنا حضرت علی علیہ السلام کاعظیم اور حساس ترین کارنامہ تھا۔
امیر المومنین علیہ السلام نے قرآن کی تمام آیتوں کو چاہے وہ مکہ میں نازل ہوئی ہوں یامدینے میں یا پیغمبر کی زندگی میں نازل ہوئی ہوں بہت ہی عمدہ طریقے سے انھیں لکھا، اور اسی وجہ سے کاتب وحی اور محافظ قرآن مشہور ہوئے، اسی طرح سیاسی و تاریخی اسناد کے منظم کرنے اور تبلیغی خطوط لکھنے، جو آج بھی تاریخ اور سیرت کی بہت سی کتابوں میں موجودہیں، حضرت علی سب سے پہلے کاتب مشہور ہوئے ،یہاں تک کہ حدیبیہ کا تاریخی صلح نامہ پیغمبر اکرم ۖکے املاء پر مولائے کائنات حضرت علی ـکے ہاتھوں سے لکھا گیا۔
امام علیہ السلام کی علمی اور قلمی خدمات صرف اسی پر منحصر نہیں تھیں بلکہ پیغمبر اکرم ۖکے آثار اور سنتوں کی بہت زیادہ حفاظت بھی کی ہے اور مختلف اوقات میں پیغمبر کی حدیثوں کو جواحکام، فرائض، آداب، سنت، حادثات و واقعات اور غیب کی خبروں پر مشتمل تھیں تحریر کیا. یہی وجہ ہے کہ امام علیہ السلام نے پیغمبر سے جو کچھ بھی سنا اسے چھ کتابوں میں لکھ کر اپنی یادگار چھوڑی. اور امام علیہ السلام کی شہادت کے بعد یہ تمام کتابیں آپ کے بیٹوں کے پاس عظیم میراث کے طورر پر پہونچیں اور امیر المومنین ـ کے بعد دوسرے رہبروں نے مناظرے وغیرہ کے وقت ان کتابوں کو بعنوان دلیل پیش کیا. زرارہ جو امام جعفر صادق ـ کے اہم ترین شاگرد تھے انھوں نے ان کتابوں میں سے چند کتابوں کو آپ کے پاس دیکھااور خصوصیتوں کو نقل کیا ہے۔(١)
______________________
(١) تہذیب الاحکام شیخ طوسی ج٢ ص ٢٠٩ طبع نجف ، فہرست نجاشی ص ٢٥٥، طبع ہندوستان ، مؤلف نے ان چھ کتابوں کے متعلق ''بررسی مسند احمد'' کے مقدمہ میں تفصیل سے بحث کی ہے۔
امام ـ نے کس طرح ہجرت کی
پیغمبر(ص) کی ہجرت کے بعد امام علیہ السلام پیغمبر کے خط کے منتظر تھے .کچھ ہی دیر گزری تھی کہ ابو واقد لیثی حضرت کا خط لیکر مکہ پہونچا اور حضرت علی علیہ السلام کے سپرد کیا. پیغمبر نے جو کچھ بھی ہجرت کی تیسری شب غار ثور میں زبانی حضرت علی سے کہا تھا اس خط میںان چیزوں کی تاکید کی اور حکم دیا کہ خاندان رسالت کی عورتوں کولے کر روانہ ہو جائیں اور غریب و ناتوان افراد جو ہجرت کی طرف مائل ہیں ان کی مدد کریں۔
امام علیہ السلام لوگوں کی امانت ادا کرنے کے سلسلے میں پیغمبر کے حکم پرپورے طور پر عمل کرچکے تھے اور اب صرف ایک کام باقی تھا اور وہ یہ کہ خود اور خاندان رسالت کی عورتوں کو مدینہ لے جانے کا اسباب فراہم کریں. لہٰذا مومنین کا وہ گروہ جو ہجرت کے لئے آمادہ تھا اسے حکم دیاکہ خاموشی سے مکہ سے باہر نکل جائیں اور چند کیلو میٹر دور ''ذو طویٰ'' مقام پر قیام کریں تاکہ امام کا قافلہ وہاں پہونچ جائے، حضرت علی ـ نے مومنین کو خاموشی سے جانے کا حکم دیا تھا مگر خود دن کے اجالے میں سفر کے لئے آمادہ ہوئے اورعورتوں کو ام ایمن کی بیٹی ایمن کے ذریعے عماریوں پر سوار کرایا اور ابوواقد سے کہا اونٹوں کو آہستہ آہستہ لے جاؤ کیونکہ عورتیں تیز تیز جانے کی صلاحیت نہیں رکھتیں۔
ابن شہر آشوب لکھتے ہیں :
جب عباس حضرت علی کے اس ارادے سے باخبر ہوئے کہ وہ دن کے اجالے میں دشمنوں کے سامنے سے مکہ سے ہجرت کر رہے ہیں اور عورتوں کو بھی اپنے ساتھ لے جارہے ہیں تو فوراً حضرت علی کی خدمت میں آئے اور کہا کہ محمد ۖ پوشیدہ طور سے مکہ سے گئے تو قریش ان کو تلاش کرنے کے لئے پورے مکہ اور اطراف مکہ میں ڈھونڈتے رہے تو تم کس طرح سے دشمنوں کے سامنے عورتوں کے ہمراہ مکہ سے باہر نکلو گے؟ کیاتم نہیں جانتے کہ دشمن تمھیں مکہ سے باہر نہیں جانے دیں گے؟
علی علیہ السلام نے اپنے چچا کو جواب دیتے ہوئے فرمایا: کل رات جب میں نے غار ثور میں پیغمبر سے ملاقات کی اور پیغمبر نے حکم دیاکہ ہاشمی عورتوں کے ساتھ مکہ سے ہجرت کرنا تو اسی وقت مجھے خوشخبری بھی دی کہ اب مجھے کوئی بھی تکلیف نہیں پہونچے گی، میں اپنے پروردگار پر اعتماداور احمد مصطفی ۖکے قول پر ایمان رکھتا ہوں اور ان کا اور میرا راستہ ایک ہی ہے اسی لئے میں دن کے اجالے اور دشمنوں کی آنکھوں کے سامنے سے مکہ سے ہجرت کروں گا۔
پھر، امام علیہ السلام نے کچھ اشعار پڑھے جن کا مفہوم وہی ہے جو ہم بیان کرچکے ہیں۔(١)
امام نے نہ صرف اپنے چچا کو ایسا جواب دیا، بلکہ جب لیثی نے اونٹوں کی ذمہ داری اپنے سر لی اورقافلے کو جلدی جلدی لے جانے لگا تاکہ دشمنوں کے سامنے سے جلدی سے دور ہو جائے تو امام نے اُسے اونٹوں کو تیز تیز لے جانے سے منع کیا اور فرمایا: پیغمبر نے مجھ سے فرمایا ہے کہ اس سفر میں تمھیں کوئی تکلیف واذیت نہیں پہونچے گی پھر اونٹوں کو لے جانے کی ذمہ داری خود لے لی اور یہ رجز پڑھا۔
تمام امور کی باگ ڈور خدا کے ہاتھ میں ہے لہٰذا ہر طرح کی بدگمانی کو اپنے سے دور کرو کیونکہ اس جہان کا پیداکرنے والا ہر اہم حاجت کے لئے کافی ہے۔(٢)
______________________
(١) امام علیہ السلام کے اشعار یہ ہیں:
ان ابن آمنة النبی محمداً رجل صدوق قال عن جبرئیل
ارخ الزمام و لاتخف عن عائق فاللہ یردیہم عن التنکیل
انی بربی واثق و باحمد و سبیلہ متلا حق بسبیلی
(٢) امالی شیخ طوسی ص٢٩٩، بحار الانوار ج١٩ ص ٦٥ اور رجز کی عبارت یہ ہے:
لیس الا اللہ فارفع ظنکا یکفیک رب الناس ما اہمّکا
قریش نے حضرت علی ـ کا تعاقب کیا
امام کا قافلہ سرزمین ''ضجنان'' پہونچنے والا تھا کہ سات نقاب پوش سوار سامنے سے آتے ہوئے دکھائی دیئے جو اپنے گھوڑوں کو بہت تیزی کے ساتھ قافلے کی طرف دوڑائے ہوئے تھے. امام نے عورتوںکو ہر طرح کی مشکلات سے بچانے اور ان کی حفاظت کے لئے واقد اور ایمن کوحکم دیا کہ فوراً اونٹوں کو بٹھادواوران کے پیروں کو باندھ دو. پھر عورتوں کواونٹوں سے اتارنے میں مدد فرمائی، جیسے ہی یہ کام ختم ہوا تمام نقاب پوش سوار برہنہ تلواریں لئے ہوئے قافلے کے قریب آگئے اور چونکہ وہ غصے سے بھرے ہوئے تھے اس لئے اس طرح برا و ناسزا کہنا شروع کردیا : کیاتم یہ سوچتے ہو کہ ان عورتوں کے ساتھ ہمارے سامنے فرار کرسکتے ہو؟ بس اس سفر سے باز آجاؤ!
حضرت علی علیہ السلام نے کہا: اگر واپس نہ گیاتو کیا کرو گے؟
انھوں نے کہا: زبردستی تم کو اس سفر سے روکیں گے یا تمہارے سر قلم کردیںگے۔
اتنا کہنے کے بعد وہ لوگ اونٹوں کی طرف بڑھے تاکہ ان کو واپس لے جائیں اس وقت حضرت علی نے اپنی تلوار نکال کر ان کو اس کام سے روکا. ان میں سے ایک شخص نے اپنی برہنہ تلوار حضرت علی کی طرف بڑھائی. ابوطالب کے لال نے اس کی تلوار کے وار کو روکا اور غصے کی حالت میں تھے ان پر حملہ کیا اور اپنی تلوار سے ''جناح'' نامی شخص پر وار کیا. قریب تھا کہ تلوار اس کے شانے کو کاٹتی کہ اچانک اس کا گھوڑا پیچھے کی طرف ہٹا اورامام کی تلوار گھوڑے کی پشت پر جالگی، اس وقت حضرت علی نے ان سب کو متوجہ کرتے ہوئے بآواز بلندکہا:
''میں عازم مدینہ ہوں اور رسول خدا کی ملاقات کے علاوہ میراکوئی اور مقصد نہیںہے ،جو شخص بھی یہ ارادہ رکھتا ہے کہ انھیں ٹکڑے ٹکڑے کرے اور ان کا خون بہائے وہ میرے ساتھ یامیرے نزدیک آئے۔''
اتنا کہنے کے بعد آپ نے ایمن او رابوواقد کو حکم دیاکہ فوراً اٹھ کر اونٹوں کے پیر کھول دیںاور چلنے کے لئے آمادہ ہوجائیں۔
دشمنوں نے یہ احساس کرلیا کہ حضرت علی جنگ کرنے کے لئے آمادہ ہیں او رانھوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ ان کے ساتھیوں میں سے ایک شخص عنقریب مرنے ہی والا تھا، لہٰذا اپنے ارادے سے باز آگئے او رمکہ کے راستے کی طرف چل پڑے. امام نے بھی اپنے سفر کو مدینے کی طرف جاری رکھا . آپ نے کوہ ضجنان کے نزدیک ایک دن او رایک رات قیام کیا تاکہ وہ لوگ جوہجرت کے لئے آمادہ تھے وہ بھی آجائیں . تمام افراد میں سے جو حضرت علی اور ان کے ہمراہیوں سے ملحق ہوئے ان میں ایک ام ایمن تھیں جوایک پاکدامن عورت تھیں جنھوں نے آخر عمر تک خاندان رسالت کو نہیں چھوڑا۔
تاریخ کا بیان ہے کہ حضرت علی نے یہ پورا راستہ پیدل چل کر تمام کیا،اور ہر ہر منزل پر خدا کا ذکر کرتے رہے اور پورے سفر میں اپنے ساتھیوں کے ہمراہ نماز پڑھی۔
بعض مفسرین کا کہنا ہے کہ درج ذیل آیت ان افراد کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔(١)
(الَّذِینَ یَذْکُرُونَ اﷲَ قِیَامًا وَقُعُودًا وَعَلَی جُنُوبِہِمْ وَیَتَفَکَّرُونَ فِی خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالَْرْضِ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ ہَذَا بَاطِلًا ً)(٢)
جو لوگ اٹھتے، بیٹھتے ، کروٹ لیتے (الغرض ہر حال میں) خدا کا ذکر کرتے ہیں اور آسمانوں اور زمین کی بناوٹ میںغور و فکر کرتے ہیں اور (بے ساختہ) کہہ اٹھتے ہیں کہ خداوندا تونے اس کو بیکار پیدا نہیں کیا ہے۔
جب حضرت علی ، اور ان کے ہمراہی مدینہء منورہ پہونچے تو رسول اکرم(ص) ان کے دیدار کے لئے فوراً گئے جس وقت پیغمبر اسلام کی نگاہ حضرت علی پر پڑی تو آپ نے دیکھا کہ ان کے پیر ورم کر گئے ہیںاوران سے خون کے قطرے گر رہے ہیں.آپ نے فوراً حضرت علی کو گلے سے لگایا اورفرط محبت سے آپ کی چشم مبارک سے آنسووؤں کے قطرات جاری ہوگئے۔(٣)
______________________
(١) امالی شیخ طوسی ص ٣٠٣۔ ٣٠١
(٢) سورۂ آل عمران، آیت ١٩١
(٣) اعلام الوریٰ ص ١٩٢، تاریخ کامل ج٢ ص ٧٥
|