فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)
دوسری فصل
حضرت علی ـ کے فضائل و کمالات بیان کرنے پر پابندی
تاریخ انسانیت میں بہت ہی کم شخصیتیں مولائے کائنات حضرت علی علیہ السلام جیسی ہوںگی جن کے دوست اور دشمن دونوںنے مل کر ان کے فضائل وکمالات کو چھپائے ہوں گے اس کے باو جود ان کے فضائل وکمالات سے عالم پُر ہے۔
دشمن نے ان سے عداوت ودشمنی کو اپنے دل میں بٹھا رکھا ، اور حسد وکینہ کی وجہ سے ان کے بلند وبا فضیلت مقامات اور کمالات کو لوگوںسے چھپایا ،اور دوست نے جوانھیںدل وجان سے چاہتااور محبت کرتا ہے وہ دشمنوں کے شکنجے اورجان کے خوف کی وجہ سے ان کے فضائل وکمالات کو چھپایا، ان کے پاس اس کے سوا کوئی راستہ نہ تھا کہ اپنے لبوں کو جنبش نہ دیں اور ان سے محبت والفت کا اظہار نہ کریں اور ان کے متعلق اصلاً گفتگو نہ کریں۔
خاندان بنی امیہ کے افرادہمیشہ اس بات پر کوشاں رہتے تھے کہ جس طرح سے بھی ممکن ہو علی ـ اوران کے خاندان کے فضائل کو مٹادیا جائے .
بس اتنا کہناہی کافی تھا کہ یہ علی ـ کا چاہنے والا ہے بنی امیہ کے حکومتی سپاہیوں میں سے دو آادمی گواہی دیتے تھے کہ یہ علی ـ کا چاہنے وا لا ہے اور فوراً ہی اس کا نام حکو مت میں کام کرنے والوں کی فہرست سے حذف کر دیاجاتا تھا، اور بیت المال سے اس کا وظیفہ بند کر دیا جاتا تھا ، معاویہ اپنے گورنروں اورحاکموںکو خطاب کرتے ہوئے کہتاہے: اگر کسی شخص کے لئے معلوم ہو جائے کہ وہ علی ـ اور ان کے خاندان سے محبت رکھنے والاہے تو اس کا نام کام کرنے والوں کی فہرست سے خارج کر دو، اور اس کا وظیفہ ختم کردو اور اسے تمام سہو لتوں سے محروم کر دو ۔(١)
پھر معاویہ اپنے دوسرے حکم نامہ میں سختی اور تاکید سے حکم دیتا ہے کہ: جوبھی علی ـ اور ان کے
______________________
(١) اُنظروا ا لی من قامت علیہ البینتہ انہ یحب علیاً واھل بیتہ فا محو ہ من الد یوان واسقطو اعطائہ ورزقہ،
خاندان سے دوستی کا دم بھرتا ہے اس کے ناک اور کان کو کاٹ ڈالو اور ان کے گھر کو ویران کردو۔(١)
اس فرمان کے نتیجے میں،عراق کی عوام خصوصاً اہل کوفہ اس قدر ڈرے اور سہمے کہ شیعوں میں سے کوئی بھی ایک شخص معاویہ کے جاسوسوں کی وجہ سے اپنے راز کو اپنے دوستوں تک سے بیان نہیں کر سکتا تھا مگر یہ کہ پہلے قسم لے لیتا تھا کہ اس کے راز کو فاش نہ کرنا ۔(٢)
اسکافی اپنی کتاب نقض عثمانیہ میں لکھتے ہیں :
بنی امیہ اور بنی عباس کی حکومت ،مولائے کائنات کے فضل وکمالات کے متعلق بہت زیادہ حساس تھی اور ان کے فضائل کو روکنے اورمشہورنہ ہونے کے لئے اس نے اپنے فقھا ء ومحدثین اور قاضیوں کو اپنے پاس بلایا اور بہت سختی سے منع کیا کہ اپنی اپنی کتابوں میں علی ـ کے فضائل و کمالات کو نقل نہ کریں ،اس وجہ سے بہت سے محدثین مجبور تھے کہ امام کے فضائل وکمالات کو اشارے اور کنایہ کے طور پر نقل کریں اور یہ کہیں کہ قریش کے فلاں آدمی نے ایسا کیا ہے۔
معاویہ نے تیسری مر تبہ سرزمین اسلامی پر پھیلے ہوئے اپنے سیاسی نمائندوںکو خط لکھا کہ علی کے شیعوں کی گواہی کسی بھی مسئلے میں قبول نہ کریں ۔
لیکن اس کا یہ حکم بہت زیادہ مفید ثابت نہ ہوا جو علی و خاندان کے فضائل کو منتشر ہونے سے روک پاتا ، اس وجہ سے معاویہ نے چوتھی مرتبہ اپنے گورنر کو لکھاکہ جو لوگ عثمان کے فضائل ومناقب کو نقل کریں ان کا احترام کرو اور ان کا نام اور پتہ میرے پاس روانہ کرو تا کہ ان کی عظیم خدمات کا صلہ انھیںدیا جا سکے ۔
یہ ایک ایسی خوشخبری تھی جو اس بات کاسبب بنی کہ تمام شہروں میں عثمان کے جعلی فضائل ومناقب گڑھے جانے لگے اور یہ فضائل نقل کرنے والے عثمان کے فضائل کے متعلق حدیثیں لکھ لکھ کر مالدار بننے لگے ،اور یہ سلسلہ بڑی تیزی سے چلتا رہا ۔ یہاں تک کہ خود معا ویہ اس بے اساس اور جھوٹے فضائل کے مشہور ہونے کی وجہ سے بہت ناراض ہوا اور اس مرتبہ حکم دیا کہ عثمان کے فضائل بیان نہ کیئے جائیں ۔ اور خلیفہ اول اور دوم اور دوسرے صحابہ کے فضائل بیان کئے جائیں اور اگر کوئی محدث ابو تراب کی
______________________
(١)من اتھمتموہ بموالات ھولاء فنکلوابہ واھد موادارہ
(٢)شرح نھج البلاغہ ابن ابی الحد ید ج١١ ۔ص٤٥۔٤٤
فضیلت میںکوئی حدیث نقل کرے تو فوراً اسی سے مشابہ ایک فضیلت پیغمبر کے دوسرے صحابیوں کے بارے میں گڑھ دیا جائے اور اسے لوگوں کے درمیان بیان کیا جائے کیونکہ یہ کام شیعوں کی دلیلوں کوبے اثر کرنے کیلئے بہت مؤثر ہے (١)
مروان بن حکم ان لوگوں میں سے تھا جس کا یہ کہنا تھا کہ علی نے عثمان کا جو د فاع کیا تھاایسا دفاع کسی نے نہیں کیا ۔اس کے باوجود ہمیشہ امام ـ پر لعنت و ملامت کرتا تھا . جب اس پر اعتراض کیا گیاکہ تم علی کے بارے میں جب ایسا عقیدہ رکھتے ہو تو پھر کیوں انھیں برا بھلا کہتے ہوتو اس نے جواب دیا : میری حکومت صرف علی کو برا بھلا کہنے اور ان پر لعنت کر نے کی وجہ سے ہی محکم اور مستحکم ہوگی ، اور ان میں سے بعض لوگ ایسے بھی تھے جو حضرت علی کی پاکیزگی اور طہارت اور عظمت و جلا لت کے کے قائل تھے لیکن اپنے مقام ومنصب کی بقا کے لئے حضرت علی اور ان کے بچوں کو برا بھلا کہتے تھے ۔
عمر بن عبدالعزیز کہتے ہیں :
میرے باپ مدینہ کے حاکم اور مشہور خطیب اور بہت بہادر تھے، اور نما زجمعہ کا خطبہ بہت ہی فصیح وبلیغ انداز سے دیتے تھے، لیکن حکومت معاویہ کے فرمان کی وجہ سے مجبور تھے کہ خطبہء جمعہ کے درمیان علی ـ اور ان کے خاندان پر لعنت کریں ، لیکن جب گفتگو اس مرحلے تک پہونچی تو اچانک ان کی زبان لکنت کرنے لگتی اور ان کے چہرہ کارنگ تبدیل ہونے لگتا اور خطبہ سے فصاحت وبلاغت ختم ہو جاتی تھی. میں نے اپنے باپ سے اس کی وجہ پوچھی تو انہوں نے جواب دیا جو کچھ میں علی ـ کے بارے میں جانتا ہوں اگر دوسرے بھی وہی جانتے تو کوئی بھی میری پیروی نہیں کرتا اور میں علی ـکے تمام فضائل وکمالات اور معرفت کے بعد بھی انھیںبرابھلا کہتا ہوں ،کیو نکہ آل مروان کی حکومت کو بچانے کیلئے میں مجبور ہوں کہ ایسا کروں(٢)
بنی امیہ کی اولاد کادل علی کی دشمنی سے لبریز تھا، جب کچھ حقیقت پسند افراد نے معاویہ کو نصیحت کی کہ اس کام سے باز آجائے تو معاویہ نے کہا کہ میںاس مشن کو اس حد تک جاری رکھوں گا کہ ہمارے چھوٹے چھوٹے بچے یہ فکر لئے ہوئے بڑے ہو جائیں او رہمارے بزرگ اسی حالت میں بوڑھے ہو جا ئیں۔
______________________
حضرت علی ـ کو ساٹھ سال تک منبروں ، نشستوںمیں وعظ و نصیحت اور خطباء کے ذریعے،اور درس وتدریس کے ذریعے، خطباء اور محدثین کے درمیان معاویہ کے حکم سے برا بھلا کہا جاتا رہا اور یہ سلسلہ اس قدر مفید و مؤثر ہوا کہ کہتے ہیں کہ ایک دن حجاج نے کسی مرد سے غصہ میں بات کی اور وہ شخص قبیلہ ٔ ''بنی ازد'' کا رہنے والا تھا،اس نے حجاج کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: اے امیر! مجھ سے اس انداز سے بات نہ کرو، ہم بافضیلت لوگوں میں سے ہیں. حجاج نے اس کے فضائل کے متعلق سوال کیا اس نے جواب دیا کہ ہمارے فضائل میں سے ایک فضیلت یہ ہے کہ اگر کوئی چاہتا ہے کہ ہم سے تعلقات بڑھائے تو سب سے پہلے ہم اس سے یہ سوال کرتے ہیں کہ کیا وہ ابوتراب کو دوست رکھتا ہے یا نہیں؟!
اگر وہ تھوڑا بہت بھی ان کا چاہنے والا ہوتا ہے تو ہرگز ہم اس سے تعلقات و رابطہ برقرار نہیں کرتے . علی ـ اور ان کے خاندان سے ہماری دشمنی اس حد تک ہے کہ ہمارے قبیلے میں کوئی بھی ایسا شخص نہیں ملے گا کہ جس کا نام حسن یا حسین ہو اور کوئی بھی لڑکی ایسی نہیں ملے گی جس کا نام فاطمہ ہو. اگر ہمارے قبیلے کے کسی بھی شخص سے یہ کہا جائے کہ علی ـسے کنارہ کشی اختیار کرو تو فوراً اس کے بچوں سے بھی دوری اختیار کرلیتا ہے۔(١)
خاندان بنی امیہ کے لوگوں نے مولائے کائنات حضرت علی کے فضائل کو پوشیدہ رکھااور ان کے مناقب سے انکار کیا اور اتنا برا بھلا کہا کہ بزرگوں اور جوانوں کے دلوں میں رسوخ کر گیااور لوگ حضرت علی کو براکہنا ایک مستحب عمل سمجھنے لگے .اور بعض لوگوں نے اسے اپنا اخلاقی فریضہ سمجھا. جب عمر بن عبد العزیز نے چاہاکہاسلامی معاشرے کے دامن پر لگے اس بد نما داغ کو پاک کرے، تو بنی امیہ کی روٹیوں پر پلنے والے کچھ لوگوںنے نالہ و فریاد بلند کرنا شروع کردیاکہ خلیفہ ،اسلامی سنت کو ختم کرنا چاہتا ہے۔
ان تمام چیزوں کے باوجود اسلامی تاریخ کے اوراق آج بھی گواہی دے رہے ہیں کہ بنی امیہ کے بد خصالوں نے جو نقشہ کھینچا تھا ان کی آروزئیں خاک میں مل گئیں اوران کی مسلسل کوششوں نے توقع کے خلاف نتیجہ دیااور فضائل و مناقب امام (ع) اموی خطیبوں کے چھپانے کے باوجود سورج کی طرح چمکا، اور اس نے نہ صرف یہ کہ لوگوں کے دلوں میں حضرت علی کی محبت کو بیدار کیابلکہ یہ سبب بنا کہ لوگ
______________________
حضرت علی ـ کے بارے میں بہت زیادہ تلاش و جستجو کریں اور امام ـ کی شخصیت پر سیاست کی عینک اتار کر قضاوت کریں، یہاں تک کہ عبداللہ بن زبیر کا پوتا عامر جو خاندان علی کا دشمن تھا اپنے بیٹے کو وصیت کرتا ہے کہ علی کو برا کہنے سے باز آجائے کیونکہ بنی امیہ نے ساٹھ سال تک منبروں سے علی پر سب و شتم کیا لیکن نتیجہ کچھ بھی نہ نکلا بلکہ حضرت علی کی شخصیت اور بھی اجاگر ہوتی گئی اور لوگوںکے دلوں میں ان کی محبت اور بھی بڑھتی گئی۔(١)
پہلا مددگار
مولائے کائنات کے فضائل کا چھپانا اور ان کے مسلم حقائق کے بارے میں منصفانہ تحلیل تحلیل نہ کرنا صرف بنی امیہ کے زمانے سے مخصوص نہیں تھا بلکہ بشریت کے اس نمونہء کامل ہمیشہ ہتک کی متعصب مؤرخین نے مولائے کائنات حضرت علی کے خاندان اور ان کے حق پر حملہ کرنے سے گریز نہیں کیا ہے ۔اور آج بھی جب کہ اسلام آئے ہوئے چودہ صدیاں گزر گئیں وہ لوگ جو اپنے کو نئی نسل کا رہبر اور روشنفکر تصور کرتے ہیں اپنے زہریلے قلم کے ذریعے اموی مقاصد کی مدد کرتے ہیں اور مولائے کائنات کے فضائل و مناقب پر پردہ ڈالتے ہیں جس کی ایک واضح مثال یہ ہے:
غار حرا میں پہلی مرتبہ پیغمبر ۖ کے قلب پر وحی الہی کا نزول ہوا اور پیغمبر ۖ منصب رسالت و نبوت پر فائز ہوئے، وحی کے فرشتے نے اگرچہ آپ کو مقام رسالت سے آگاہ کردیا لیکن اعلان رسالت کا وقت معین نہیں کیا ،لہٰذا پیغمبر ۖ نے تین سال تک عمومی اعلان سے گریز کیا اور جب بھی راستے میں شائستہ اور معتبر افراد سے ملاقات ہوتی یا خصوصی ملاقات ہوتی تو ان کو اس نئے قوانین الہی سے روشناس کراتے اور چند گروہ کو اس نئے قانون الہی کی دعوت دیتے، یہاں تک کہ وحی کا فرشتہ نازل ہوا اور خداوند عالم کی طرف سے حکم دیا کہ اے پیغمبر اپنی رسالت کا اعلان اپنے رشتے داروںاوردوستوں کے ذریعے شروع کریں۔:
(وََنذِرْ عَشِیرَتَکَ الَْقْرَبِینَ وَاخْفِضْ جَنَاحَکَ لِمَنْ اتَّبَعَکَ مِنْ الْمُؤْمِنِینَ فَِنْ عَصَوْکَ فَقُلْ ِنِّی بَرِیئ مِمَّا تَعْمَلُونَ ) (٢)
______________________
(١) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید، ج١٣، ص ٣٢١
(٢) سورۂ شعرائ، آیت ٢١٦۔ ٢١٤
اور اے رسول! تم اپنے قریبی رشتہ داروں کو (عذاب خدا سے) ڈراؤ اور جو مومنین تمہارے پیرو ہوگئے ہیں ان کے سامنے اپنا بازو جھکاؤ (تواضع کرو) پس اگر لوگ تمہاری نافرمانی کریں تو تم (صاف صاف) کہہ دو کہ میں تمہارے کرتوتوں سے بری الذمہ ہوں۔
پیغمبر ۖ کی عمومی دعوت کا اعلان رشتہ داروں سے شروع ہونے کی علت یہ ہے کہ جب تک نمائندئہ الہی کے قریبی اور نزدیکی رشتہ دار ایمان نہ لائیں اور اس کی پیروی نہ کریںاس وقت تک غیر افراد اس کی دعوت پر لبیک نہیں کہہ سکتے ،کیونکہ اس کے قریبی افراد اس کے تمام حالات و اسرار اور تمام کمالات و معایب سے آگاہ ہوتے ہیں، لہٰذا اعزہ و احباب کا ان کی رسالت پر ایمان لانا ان کی صداقت کی نشانی شمار ہوگا اور رشتہ داروںکا پیروی و اطاعت سے اعراض کرنا ان کی صداقت سے منہ پھیرنا ہے۔
اسی لئے پیغمبر ۖ اسلام نے حضرت علی ـ کو حکم دیا کہ بنی ہاشم کے ٤٥ بزرگوں کو دعوت پر مدعو کریں اور ان کے کھانے کیلئے گوشت اور دودھ کا انتظام کریں،تمام مہمان اپنے معین وقت پرپیغمبر کی خدمت میں حاضر ہوئے اور لوگوں نے کھانا کھایا ،پیغمبر کے چچا ابولہب نے ایک حقیر اور پست جملہ سے، بنے ہوئے ماحول کو خراب کر دیا اور لوگ منتشر ہوگئے اور بغیر کسی نتیجہ کے دعوت ختم ہوگئی اور لوگ کھانا کھا کر پیغمبر کے گھر سے نکل گئے ۔
پیغمبر نے پھر دوسرے دن اسی طرح کی دعوت کا اہتمام کرنے اور ابو لہب کے علاوہ تمام لوگوں کو دعوت دینے کا ارادہ کیا اور پھر حضرت علی ـنے پیغمبر کے حکم سے گوشت اور دودھ کھانے کے لئے آمادہ کیا اور بنی ہا شم کی مشہور ومعروف شخصیتوں کو کھانے اور پیغمبر کی گفتگوسننے کے لئے دعوت دی ،تمام مہمان اپنے معین وقت پر حاضر ہوئے اور کھانے وغیرہ کی فراغت کے بعد پیغمبر نے اپنی گفتگو کا آغازیوں کیا :
''خدا کی قسم میں لوگوںکو راہ راست پر لانے میں غلط بیانی سے کام نہ لو ںگا میں (بر فرض محال) اگر دوسروں سے غلط بیانی سے کام لوںتو بھی تم سے غلط نہیں کہوںگا اگر دوسروں کو دھوکہ دوں تو تمھیں دھوکا نہیں دوںگا ،خدا کی قسم کہ جس کے علاوہ کوئی خدا نہیں میں تمہاری طرف اور تمام عالم کی ہدایت کے لئے اسی کی طرف سے بھیجا گیا ہوں ،ہاں ،آگاہ ہو جائو ،جس طرح تم سو جاتے ہو ویسے ہی مر جائو گے اور جس طرح سوکر اٹھتے ہو ویسے ہی زندہ کئے جائو گے، اچھے اعمال انجام دینے والوںکو ان کا اجر دیا جائے گا اور برے اعمال انجام دینے والے اپنے عمل کا نتیجہ پائیں گے ،اور نیک اعمال کرنے والوں کے لئے جنت ہمیشگی کاگھر ہے اور برے کام کرنے والوں کے لئے جہنم آمادہ ہے۔
کوئی بھی شخص اپنے اہل وعیال کے لئے مجھ سے اچھی چیز نہیں لایا ہے میں تمہاری دنیا وآخرت کے لئے بھلائی لے کر آیا ہوں میرے خدا نے مجھے حکم دیا ہے کہ تم کو اس کی وحدانیت اور اپنی رسالت کی طرف دعوت دوں تم میں سے کون ہے جو اس راہ میں میری مدد کرے تا کہ وہ میرا بھائی ،وصی اور تمہارے درمیان میرا نما ئندہ ہو؟''
آپ نے یہ جملہ کہا اور تھوڑی دیر خاموش رہے تاکہ دیکھیں کہ حاضرین میں سے کون ہمیشہ نصرت و مدد کرنے کے لئے آمادہ ہوتا ہے مگر اس وقت خاموشی نے ان پر حکومت کررکھی تھی اور سب کے سب اپنے سروں کوجھکائے فکروں میں غرق تھے .
یکایک حضرت علی ـجن کی عمر پندرہ سال سے زیادہ نہ تھی ، اس خاموشی کے ماحول کو شکست دے کر اٹھے اور پیغمبر سے مخاطب ہوکر کہا: اے پیغمبر خدا ، میں آپ کی اس راہ میں نصرت و مددکروں گا پھراپنے ہاتھوں کو پیغمبر اسلام کی طرف بڑھایا تاکہ اپنے عہدوپیمان کی وفاداری کا ثبوت پیش کریں .
پیغمبر نے حکم دیا کہ اے علی بیٹھ جائو اور پھر اپنے سوال کو ان لوگوں کے سامنے دہرایا ،پھر علی ـ اٹھے اورنصرت پیغمبر کا اعلان کیا ، اس مرتبہ بھی پیغمبر نے حکم دیا کہ علی بیٹھ جائو،تیسری مرتبہ پھر مثل سابق علی کے علاوہ کوئی دوسرا نہ اٹھا اور صرف علی ـنے اٹھ کر پیغمبر کی نصرت اور محافظت کا اعلان کیا ۔ اس موقع پر پیغمبر نے اپنے ہاتھ کو علی کے ہاتھ میں دیا اور حضرت علی کے بارے میں بزرگان بنی ہاشم کی بزم میں اپنے تاریخی کلام کا آغاز اس طرح سے کیا۔
''اے میرے رشتہ دارو اور دوستو ،جان لو کہ علی میرا بھائی میرا وصی اور تمہارے درمیان میرا جانشین وخلیفہ ہے''
سیرہ حلبی کی نقل کی بنا پر ۔رسول اکرم نے اس جملے کے علاوہ دو اور باتیںاس کے ساتھ بیان کیںکہ :'' وہ میرا وزیر اور میرا بھائی ہے ''۔
اس طریقے سے پر خاتم النبیین کے توسط سے اسلام کے سب سے پہلے وصی کا تعیّن، اعلان رسالت کے آغاز پر اس وقت ہوا جب بہت ہی کم لوگ اس قانون الہی کے پیرو تھے،
پیغمبر اسلام نے ایک ہی موقع پر اپنی نبوت اور حضرت علی ـ کی امامت کا اعلان کرکے.یہ ثابت کر دیاکہ نبوت وامامت دو ایسے مقام ہیں جو ایک دوسرے سے جدا نہیں ہیں اور امامت تکمیل نبوت ورسالت ہے ۔
اس تاریخی واقعہ کے مدارک:
شیعہ اور غیر شیعہ محدثین اور مفسرین نے اس تاریخی واقع کو بغیر کسی کمی وزیادتی کے اپنی کتابوں میںنقل کیا ہے(١) اور امام ـکے اہم فضائل ومناقب میں شمار کیا ہے اہلسنت کے صرف ایک مشہور مورخ ابن تیمیہ دمشقی نے جو اہلبیت علیھم السلام کے بارے میں ہر حدیث سے انکار کرنے میں مہارت رکھتے ہیں اس سند کو رد کیا ہے اور اس سند کوجعلی قراردیا ہے ۔
انہوں نے نہ صرف اس حدیث کو جعلی اور بے اساس قرار دیاہے بلکہ امام کے خاندان کے سلسلے میں خاص نظریہ رکھنے کی وجہ سے اکثر ان حدیثوں کو جو خاندان رسالت کے فضائل و مناقب میں بیان ہوئیں ہیں اگر چہ وہ حد تواتر تک پہونچ چکی ہوں جعلی اور بے اساس قراردیاہے .
تاریخ ''الکامل'' پر حاشیہ لگانے والے نے اپنے استاد کہ جن کا نام پوشیدہ رکھاہے، سے نقل کیاہے کہ میرے استاد نے بھی اس حدیث کوجعلی قرار دیا ہے (شاید ان کا استادبھی ابن تیمیہ کی فکروں پر چلنے والا تھا، یا یہ کہ اس سند کو خلفاء ثلاثہ کی خدمت کے مخالف جانا ہے اس لئیجعلی قراردیاہے )،پھر وہ خود عجیب انداز سے اس حدیث کے مفہوم کی توجیہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ :اسلام میں امام ـ کا وصی ہونا ،بعد میں ابوبکر کی خلافت کے منافی نہیں ہے ،کیونکہ اس دن علی ـ کے علاوہ کوئی مسلمان نہ تھا جو پیغمبر کا وصی ہوتا۔
ایسے افرادسے بحث ومباحثہ کرنا فضول ہے. ہمارا اعتراض ان لوگوں ہے جنہوں نے اس حدیث کو اپنی بعض کتابوں میں تفصیل سے اور بعض کتابوں میںمختصر اور مجمل طریقے سے ذکر کیا ہے ،یعنی ایک طرح سے حقیقت بیان کرنے سے چشم پوشی کی ہے ،یا ہمارا اعتراض ان افراد پر ہے جن لوگوں نے اس حدیث کو اپنی کتاب کے پہلے ایڈ یشن میںتو شامل کیا لیکن اسکے بعد کے ایڈیشن میں کسی دبائو اور خوف وہراس سے
______________________
(١) تفسیر سورہ شعراء آیت نمبر ٢١٤ کی طرف رجوع کریں
حذف کردیا ہے. یہاں پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ پیغمبر اسلام ۖکے انتقال کے بعد امام کے حقوق وفضائل کو پوشیدہ اور چھپا یا گیا ہے اور آج بھی یہ سلسلہ جاری ہے ۔
اب یہاں پرہم اس بات کی تشریح کررہے ہیں ۔
تاریخی حقایق کاکتمان:
محمد بن جریر طبری جوتاریخ اسلام کا ایک عظیم مؤرخ ہے ،اس نے اپنی تاریخ طبری میں اس تاریخی فضیلت کو معتبر سندوں کے ساتھ نقل کیاہے(١) لیکن جب اپنی تفسیر (٢) میںاس آیت ''وََنذِرْ عَشِیرَتَکَ الَْقْرَبِینَ '' پر پہونچتا ہے تو اس سند کو توڑ مروڑ کر مجمل اور مبہم نقل کرتا ہے جس کی وجہ تعصب کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔
اس کے پہلے ہم بیان کرچکے ہیں کہ پیغمبر ۖ نے دعوت ختم ہونے کے بعد حاضرین کو مخاطب کر کے پوچھا تھا:
''فأیکم یوازرنی علیٰ ان یکون أخی و وصیّی وخلیفتی''؟
لیکن طبری نے اس سوال کو اس طرح نقل کیا ہے۔
''فأیکم یوازرنی علی ان یکون أخی و کذا وکذا''؟!
تعجب کی بات نہیں ہے کہ دو کلمہ وصی و خلیفتی کو تبدیل کر کے مبہم اور مجمل الفاظ کو اس کی جگہ پر ذکر کرنا سوائے تعصب اور خلیفہ کے مقام و منزلت کو گھٹانے کے کچھ نہیںہے۔
اس نے نہ صرف پیغمبر(ص) کے سوال میں تحریف کیا ہے، بلکہ حدیث کا دوسرا حصہ جو پیغمبر اسلام(ص) نے حضرت علی سے فرمایا تھا کہ ''ان ہذا اخی و وصیّی و خلیفتی'' بھی بدل ڈالا ہے، اور دو ایسے ا لفاظ جو مولائے کائنات امیر المومنین کی بلا فصل خلافت پر واضح دلیل تھے کو ایسے لفظوں یعنی
______________________
(١) اس تاریخی فضیلت کو ان کتابوں نے نقل کیا ہے ، تاریخ طبری ج٢ ص ٢١٦، تفسیر طبری ج١٩ ص ٧٤، کامل ابن اثیر ج٢ ص ٢٤، شرح شفای قاضی عیاض ج٣ ص ٣٧، سیرۂ حلبی ج١ ص ٣٢١ و ... اس حدیث کو تاریخ و تفسیر لکھنے والوں نے دوسرے طریقے سے بھی نقل کیا ہے جن کو ہم یہاں نقل کرنے سے پرہیز کر رہے ہیں۔
(٢) تفسیر طبری، ج١٩، ص ٧٤
کذاوکذا سے بدل دیاہے جو غیر معروف اور غیر مشہور ہیں۔
ابن کثیر شامی جس کی تاریخ کی اساس تاریخ طبری ہے، لیکن جب اس سند تک پہونچا ہے تو تاریخ طبری کوچھوڑ کر طبری کی تفسیر کی روش کی پیروی کی اور وہ بھی مبہم اور مجمل طریقے سے ۔ ان تمام چیزوں سے بدتر و ہ تحریف ہے جسے اس زمانے کے روشن فکر اور مصر کے مشہور مورخ ڈاکٹر محمد حسنین ہیکل نے اپنی کتاب ''حیات محمد'' میں کیاہے اور خود اپنی کتاب کے معتبر ہونے پر سوالیہ نشان لگادیاہے۔
کیونکہ اولاً انھوں نے پیغمبر اسلام ۖ کے دو حساس جملے کو جودعوت کے آخر میں پیغمبر نے بعنوان سوال فرمایا تھا اس کو نقل کیا ہے لیکن اس دوسرے جملے کو جو پیغمبر ۖ نے حضرت علی سے فرمایاتھا کہ تو میرا بھائی ،وصی اور میرا خلیفہ ہے کوبالکل حذف کردیا اور اس کا تذکرہ تک نہیں کیا۔
ثانیاً اپنی کتاب کے دوسرے اور تیسرے ایڈیشن میں اپنا تعصب کچھ اور بھی دکھایا اور اس حدیث کے پہلے حصے کو بھی حذف کردیا. گویا متعصب افراد نے انھیںاس پہلے جملے کو نقل کرنے پر ہی بہت ملامت کی،اور اس کتربیونت کی وجہ سے ناقدین تاریخ کو تنقید کا موقع دیا ، اور اپنی کتاب کے اعتبار کو گرا دیا ۔
اسکافی کا بیان
اسکافی نے اپنی مشہور و معروف کتاب میںاس تاریخی فضیلت کا تذکرہ کیاہے کہ حضرت علی نے اپنے باپ، چچا اور بنی ہاشم کی بزرگ شخصیتوں کے سامنے پیغمبر ۖ سے عہد و پیمان باندھاکہ ہم آپ کی مدد کریں گے اور پیغمبر ۖ نے انھیں اپنا بھائی، وصی اور خلیفہ قرار دیا. اس کے متعلق وہ لکھتے ہیں :
''وہ افراد جو یہ کہتے ہیں کہ امام بچپن میں ہی صاحب ایمان تھے ،اوریہ وہ زمانہ ہوتا ہے کہ جب بچہ اچھے اور برے میںتمیز نہیں کرپاتا، اس تاریخی فضیلت کے سلسلے میں کیا کہتے ہیں؟!
کیا یہ ممکن ہے کہ پیغمبر اسلام(ص) کثیر تعداد میں موجود افراد کے کھانے کا انتظام ایک بچے کے حوالے کریں؟ یاایک چھوٹے بچے کو حکم دیں کہ بزرگان کو کھانے پر مدعو کرے؟
کیایہ بات صحیح ہے کہ پیغمبر ایک نابالغ بچے کو راز نبوت بتائیں اور اپنے ہاتھ کو اس کے ہاتھ میںدیں اور اسے اپنا بھائی ، وصی اور اپنا خلیفہ لوگوںکے لئے معین کریں؟!
بالکل نہیں! بلکہ یہ بات ثابت ہے کہ حضرت علی اس دن جسمانی قوت اور فکری لحاظ سے اس حد پر پہونچ چکے تھے کہ ان کے اندر ان تمام کاموں کی صلاحیت موجود تھی . یہی وجہ تھی کہ اس بچے نے کبھی بھی دوسرے بچوں سے انسیت نہ رکھی اورنہ ان کے گروہ میں شامل ہوئے اور نہ ہی ان کے ساتھ کھیل کود میں مشغول ہوئے، بلکہ جس وقت سے پیغمبر اسلام(ص) کے ساتھ نصرت و مدد اور فداکاری کا پیمان باندھا تو اپنے کئے ہوئے وعدے پر قائم و مستحکم رہے اور ہمیشہ اپنی گفتار کو پیغمبر ۖ کے کردار میں ڈھالتے رہے اور پوری زندگی پیغمبر(ص)کے مونس و ہمدم رہے۔
وہ نہ صرف اس موقع پر پہلے شخص تھے جو سب سے پہلے پیغمبر اسلام(ص) کی رسالت پر اپنے ایمان کا اظہار کیا ،بلکہ اس وقت بھی جب کہ قریش کے سرداروں نے پیغمبر ۖ سے کہا کہ اگر آپ اپنے وعدے میں سچے ہیں اور آپ کارابطہ خدا سے ہے تو کوئی معجزہ دکھائیں (یعنی حکم دیں کہ خرمے کا درخت یہاں سے اکھڑ کر آپ کے سامنے کھڑا ہوجائے) تو اس وقت بھی علی وہ واحد شخص تھے جو تمام لوگوںکے انکار کرنے کے باوجود اپنے ایمان کا لوگوں کے سامنے اظہار کیا۔(١)
امیر المومنین علیہ السلام نے قریش کے سرداروں کے معجزہ طلبی کے واقعے کو اپنے ایک خطبہ میںنقل کیاہے. آپ فرماتے ہیں کہ پیغمبر اسلام(ص) نے ان لوگوں سے کہا:اگر خدا ایساکرے تو کیا خدا کی وحدانیت اور میری رسالت پر ایمان لاؤ گے؟ سب نے کہا: ہاں یا رسول اللہ۔
اس وقت پیغمبر ۖ نے دعا کی اور خدا نے ان کی دعا کو قبول کیااور درخت اپنی جگہ سے اکھڑ کر پیغمبر(ص) کے سامنے بڑے ادب سے کھڑا ہوگیا. معجزہ طلب کرنے والے سرداروں نے کفر و عناد و عداوت کی راہ اختیار کی اور تصدیق کرنے کے بجائے پیغمبر(ص) کو جادوگر کے خطاب سے نوازا ،اور میں پیغمبر(ص) کے پاس کھڑا تھا ،میں نے ان کی طرف رخ کر کے کہا: اے پیغمبر ! میں وہ پہلا شخص ہوںجوآپ کی رسالت پر ایمان لایا، اور میں اعتراف کرتا ہوں کہ درخت نے اس کام کو خدا کے حکم سے انجام دیاہے تاکہ آپ کی نبوت کی تصدیق کرے اور آپ کے قول کوسچا کر دکھائے۔
اس وقت میرا یہ اعتراف کرنا اور تصدیق کرنا ان لوگوں پر گراں گزرا، ان لوگوںنے کہا کہ تمہاری تصدیق علی کے علاوہ کوئی نہیں کرے گا۔(٢)
______________________
(١) النقض علی العثمانیہ ص ٢٥٢، شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج١٣ ص٢٤٤ و ٢٤٥، میں تذکرہ کیا ہے۔
(٢) نہج البلاغہ عبدہ، خطبہ ٢٣٨ (قاصعہ)