دوسرا باب
بعثت پیغمبر ۖکے بعد اور ہجرت سے پہلے حضرت علی ـ کی زندگی
حضرت علی ـ کی زندگی کا دوسرا دوربعثت کے بعد اور ہجرت سے پہلے کا ہے . اس وقت آپ کی عمر ١٣ سال سے زیادہ نہیں تھی حضرت علی ـ اس پوری مدت میں پیغمبر اسلام کے ہمراہ تھے اور تمام ذمہ داریوںکو تحمل کئے ہوئے تھے، ا س زما نے کی بہترین اور حساس ترین چیز ایک ایسی قابل افتخارشئی ہے جو امام کونصیب ہوئی اور پوری تاریخ میں یہ سعادت و افتخار مولائے کائنات کے علاوہ کسی کو نصیب نہ ہوا ۔
آپ کی زندگی کا پہلا افتخار اس عمرمیں سب سے پہلے اسلام کاقبول کرنا ہے ، بلکہ بہترین لفظوں میں یوں کہا جائے کہ اپنی دیرینہ آرزویعنی اسلام کا اظہار اور اعلان کرنا تھا ۔(١)
اسلام کے قبول کرنے میں سبقت کرنا اور قوانین توحید کا ماننا ان امور میں سے ہے جس پر قرآن نے بھروسہ کیا ہے، اور جن لوگوں نے اسلام کے قبول کرنے میں سبقت کی ہے صریحاًان کا اعلان کیا ہے ''اور وہ لوگ خدا کی مرضی اور اس کی رحمت قبول کر نے میں بھی سبقت کرتے ہیں''۔(٢)
قرآن کریم نے اسلام قبول کرنے میں سبقت کرنے والوں پر اس حد تک خاص توجہ دی ہے کہ وہ لوگ جوفتح مکہ سے بھی پہلے ایمان لائے اور اپنے جان ومال کو خداکی راہ میںقربان کیا ہے ، ان لوگوں پر جو فتح مکہ کی کامیابی کے بعد ایمان لائے ہیںاورجہاد کیا برتری اور فضیلت دی ہے۔(٣)
یہ بات واضح ہے کہ آ ٹھویں ہجری میں مکہ فتح ہواہے ا ور پیغمبر نے بعثت کے اٹھارہ سال بعد بت پرستو ں کے مضبوط قلعے اور حصار کو بے نقاب کر دیا ،فتح مکہ سے پہلے مسلمانوںکے ایمان کی فضیلت وبرتری کی وجہ یہ تھی کہ وہ لو گ اس زمانے میں ایمان لائے جب کہ اسلام کی حکومت شبہ جزیرہ پر نہیں پہونچی
______________________
(1) اس بات کی وضاحت آخر میں ہوگی۔
(٢) خدا فرماتا ہے: ''والسابقون السابقون اولئک المقربون'' سورۂ واقعہ، آیت ١٠ و ١١۔
(٣) ''لایستوی منکم ...'' سورۂ حدید، آیت ١٠۔
تھی ، اور ابھی بھی بت پرستوں کا مرکز ایک محکم قلعہ کی طرح باقی تھا اور مسلمانوں کی جان و مال کا بہت زیادہ خطرہ تھا، اگرچہ مسلمان، مکہ سے پیغمبر اسلام ۖ کی ہجرت کی وجہ سے، اور گروہ اوس و خزرج اور وہ قبیلے جو مدینے کے آس پاس تھے ایک طاقتور گروہ سمجھے جاتے تھے اور بہت سی لڑائیوں میں کامیاب بھی ہوئے تھے لیکن خطرات مکمل طور پر ختم نہیںہوئے تھے۔
اس وقت جب کہ اسلام کا قبول کرنا اور جان و مال کا خرچ کرنا اہمیت رکھتا ہو، قطعی طور پر ابتدائی زمانے میںایمان کا ظاہر کرنا اور قبول اسلام کا اعلان کرنا جب صرف قریش اور دشمنوں کی ہی طاقت و قوت تھی ایسے مقام پر اس کی اہمیت و فضیلت اور بڑھ جاتی ہے اس بنا پر مکہ میں پیغمبر ۖ کے صحابیوں کے درمیان اسلام قبول کرنے میں سبقت حاصل کرناایک ایسا افتخار ہے جس کے مقابلے میں کوئی فضیلت نہیںہے۔
عمر نے اپنی خلافت کے زمانے میں ایک دن خباب، جس نے اوا ئل اسلام میںبہت زیادہ زحمتیں برداشت کی تھیں ،سے پوچھا کہ مشرکین مکہ کا برتائو تمہارے ساتھ کیسا تھا ؟
اس نے اپنے بدن سے پیراہن کو جدا کرکے اپنی جلی ہوئی پشت اور زخموں کے نشان خلیفہ کو دکھایا اور کہا .اکثر وبیشتر مجھے لوہے کی زرہ پہناکر گھنٹوں مکہ کے تیزاورجلانے والے سورج کے سامنے ڈال دیتے تھے اور کبھی کبھی آگ جلاتے تھے اور مجھے آگ پر لے جاکر بیٹھاتے تھے یہاں تک کہ آگ بجھ جا تی تھی۔ (١)
جی ہاں ۔مسلّم و عظیم فضیلت اور معنوی برتری ان افراد سے مخصوص ہے جن لوگوں نے اسلام کی راہ میں ہر طرح کے ظلم وستم کو برداشت اور صمیم قلب کے سا تھ اسے قبول کیا۔
علی ـ سے پہلے کسی نے اسلام قبول نہیں کیا
اکثر محدثین و مؤرخین بیان کرتے ہیں کہ پیغمبر اسلام دوشنبہ کو منصب رسالت پرفائز ہوئے اور اس کے دوسرے دن (سہ شنبہ )حضرت علی ـ ایمان لائے (٢) تمام لوگوں سے پہلے اسلام قبول کرنے میںحضرت علی ـ نے سبقت کی ،اور پیغمبرنے اس کی تصریح کرتے ہوئے صحابہ کے مجمع عام میں فرمایا:
______________________
(١) اسد الغابہ، ج٢ ص ٩٩
(٢) ''بعث النبی یوم الاثنین و اسلم علی یوم الثلاثائ''، مستدرک حاکم، ج٢ ص١١٢، الاستیعاب، ج٣ ص ٣٢
قیامت کے دن سب سے پہلے جو حوض کوثر پرمجھ سے ملاقات کرے گا جس نے اسلام لانے میں تم سب پرسبقت حاصل کی ہے وہ علی ابن ابی طالب ـ ہے ۔(١)
پیغمبر اسلام (ص)، حضرت امیر المو منین اور بزرگان دین سے منقول حدیثیں اور روایتیں مولائے کائنات کے اسلام قبول کرنے میں سبقت سے متعلق اس قدر زیادہ ہیں کہ سب کو اس کتاب میں نقل کرنا ممکن نہیں ہے۔ (٢)
اس سلسلے میں امام ـ کا صرف ایک قول اور ایک واقعہ پیش کررہے ہیں امیر المومنین ـ فرماتے ہیں :
اَنٰا عَبْدُاللّٰہِ وَاَخُورَسُوْلِ اللّٰہِ وَاَنٰا الصِّدِّیْقُ الْاَکْبَر لاٰیَقُوْلُھٰابَعْدِیْ اِلَّاکَاذِب مُفْتَرِی وَلَقَدْ صَلَّیْتُ مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہ قَبْلَ النَّاسِ بِسْبَعِ سِنِیْنَ وَاَنَا اَوَّلُ مَنْ صَلَّی مَعَہ۔(٣)
میں خدا کا بندہ، پیغمبر کابھائی اور صدیق اکبر ہوں .میرے بعد یہ دعوی صرف جھوٹا شخص ہی کرے گا ، تمام لوگوں سے سات سال پہلے میں نے رسول خدا کے ساتھ نماز پڑ ھی اور میں ہی وہ پہلا شخص ہوں جس نے رسول خدا کے ساتھ نماز پڑھی .
ا مام علی ـایک اور مقام پر ارشاد فرماتے ہیں:
اس وقت اسلام صرف پیغمبر اور خدیجہ کے گھر میں تھا اورمیں اس گھر کا تیسرا فرد تھا۔(٤)
ایک اور مقام پر امام ـ سب سے پہلے اسلام قبول کرنے کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
''اللُھَّم اِنِّی اَوَّلُ مَنْ اَنَابَ وَسَمِعَ وَأجاَبَ لَمْ یَسْبِقْنِیْ اِلاَّرَسُوْلُ اللّٰہ ۖ بِالصَّلاَةِ''(٥)
پر وردگارا ، میںپہلا وہ شخص ہوں جو تیری طرف آیا اور تیرے پیغام کو سنا اور تیرے پیغمبر کی دعوت پر
لبیک کہا اور مجھ سے پہلے پیغمبر کے علاوہ کسی نے نماز نہیں پڑھی۔
______________________
(١) ''اولکم وارداً علی الحوض اولکم اسلاما علی بن ابیطالب''، مستدرک حاکم، ج٣، ص ١٣٦
(٢) مرحوم علامہ امینی نے اس سلسلے کی تمام روایتوں اور حدیثوں کے متون اور مورخین کے اقوال کو الغدیر کی تیسری جلد ص ١٩١ سے ٢١٣ پر نقل کیا ہے۔
(٣) تاریخ طبری، ج٢، ص ٢١٣، سنن ابن ماجہ، ج١، ص ٥٧ ۔
(٤) نہج البلاغہ عبدہ، خطبہ ١٨٧۔
(٥) نہج البلاغہ، خطبہ ١٢٧
عفیف کندی کا بیان :
عفیف کندی کہتے ہیں :ایک دن میں کپڑااور عطر خریدنے کے لئے مکہ گیا اور مسجدالحرام میں عباس بن عبدالمطلب کے بغل میں جاکر بیٹھ گیا ،جب سورج اوج پر پہونچا تو اچانک میں نے دیکھا کہ ایک شخص آیا اور آسمان کی طرف دیکھا پھر کعبہ کی طرف رخ کرکے کھڑا ہوا، کچھ ہی دیر گزری تھی کہ ایک نوجوان آیا اور اس کے داہنے طرف کھڑاہو گیا پھر ایک عورت آئی اور مسجد میں داخل ہوئی اور ان دونوں کے پیچھے آکر کھڑی ہوگئی پھر وہ تینوں نمازوعبادت میں مشغول ہوگئے ، میں اس منظر کو دیکھ کر بہت متعجب ہواکہ مکہ کے بت پرستوں سے ان لوگوں نے اپنے کو دور کر رکھا ہے اور مکہ کے خدائو ں کے علاوہ دوسرے خدا کی عبادت کررہے ہیں. میں حیرت میں تھا ، میں عباس کی طرف مخاطب ہوا اور ان سے کہا .''اَمرعَظِیم ''،عباس نے بھی اسی جملے کو دہرایا اور فرمایا .کیا تم ان تینوں کوپہچانتے ہو؟
میں نے کہا نہیں انہوں نے کہا . سب سے پہلے جو مسجد میں داخل ہوا اور دونوں آدمیوں سے آگے کھڑا ہوا وہ میرا بھتیجا محمد بن عبداللہ ہے اور د وسراشخص جو مسجد میں داخل ہوا وہ میرا دوسرا بھتیجا علی ابن ابی طالب ہے اوروہ خاتون محمد کی بیوی ہے اور اس کا دعوی ہے کہ اس کے تمام قوانیں خدا وند عالم کی طرف سے اس پر نازل ہوئے ہیں ، اور اس وقت کائنات میں ان تینوں کے علاوہ کوئی بھی اس دین الہی کا پیرو نہیں ہے۔(١)
ممکن ہے یہاں پر سوال کیا جائے کہ اگر حضرت علی ـ پہلے وہ شخص ہیں جو بعثت پیغمبر ۖکے بعد ان پر ایمان لائے تو بعثت سے پہلے حضرت علی ـ کی وضعیت کیا تھی؟.
اس سوال کا جواب بحث کے شروع میں بیان کیا گیا ہے جس سے واضح اور روشن ہوتاہے کہ یہاں پر ایمان سے مراد، اپنے دیرینہ ایمان کا اظہار کر نا ہے جو بعثت سے پہلے حضرت علی کے دل میں موجزن تھا،اور ایک لمحہ کے لئے بھی حضرت علی ـ سے دور نہ ہوا ، کیونکہ پیغمبر کی مسلسل تربیت ومراقبت کی وجہ سے حضرت علی ـ کے روح ودل کی گہرائیوں میں ایمان رچ بس گیا تھااور ان کا مکمل وجودایمان واخلاص سے مملو تھا ۔
______________________
(١)تاریخ طبری ج٢ص٢١٢۔کامل ابن اثیر ج٢ ص٢٢. استیعاب ج٣۔ص٣٣٠و...
ان دنوں جب کہ پیغمبر مقام رسالت پر فائز نہ ہوئے تھے ،حضرت علی ـ پر لازم تھا کہ رسول اسلام کے منصب رسالت پر فائز ہونے کے بعد پیغمبر سے اپنے رشتے کو اور مستحکم کرتے اور اپنے دیرینہ ایمان اور اقرار رسالت کو ظاہر اور اعلان کرتے، قرآن مجید میں ایمان و اسلام کا استعمال اپنے دیرینہ عقیدہ کے اظہار کے متعلق ہوا ہے .مثلاً خدا وند عالم نے جناب ابراہیم کو حکم دیا کہ ا سلام لائو جناب ا براہیم کہتے ہیں ،میں سارے جہان کے پروردگارپر ایمان لایا.
قرآن مجید نے پیغمبر کے جملے کو نقل کیا ہے، پیغمبر خود اپنے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں:وَاُمِرْتُ اَنْ اَسْلَمَ لِرَبِّ الْعَالَمِیْنَ (مومن٦٦)اور مجھے تو یہ حکم ہوچکا ہے کہ اپنے بارے میں سارے جہان کے پالنے والے کا فر ماںبر دار بنوں ،حقیقتاًان موا رد اور ان سے مشابہت رکھنے والے تمام موارد میں اسلام سے مراد ، خدا کے سامنے اپنی سپردگی کا اظہار کرنا اور اپنے ایمان کوظاہر کرناہے ، جو انسان کے دل میں موجود تھا،اور اصلاً اسلام کے اظہار کا مطلب ایمان کا حاصل کرنا یا ایمان لانا نہیں ہے ،کیونکہ پیغمبر اسلام اس آیت کے نازل ہونے سے پہلے بلکہ بعثت سے پہلے موحد اور خدا کی بارگاہ میں اپنے کو تسلیم کرنے والے تھے اس بنا بر ثابت ہے کہ ایمان کے دو معنی ہیں ،
١۔اپنے باطنی ایمان کا اظہار کرنا جو پہلے سے ہی انسان کے قلب وروح میں موجود تھا، حضرت علی کا بعثت کے دوسرے دن ایمان لانے کا مقصد اور ہدف بھی یہی تھا اس کے علاوہ کچھ اور نہ تھا ۔
٢۔ایمان کا قبول کرنااور ابتدائی گروہ کااسلام لانا پیغمبر کے بہت سے صحابیوں اور دوستوں کا ایمان تھا (جو پہلے والے معنی کے بر عکس ہے )۔
اسحاق سے مامون کا مناظرہ :
مامون نے اپنی خلافت کے زمانے میں چاہے سیاسی مصلحت کی بنیاد پر یا اپنے عقید ے کی بنیاد پر،مولائے کائنات کی برتری کا اقرار کیا اور اپنے کو شیعہ ظاہر کیا . ایک دن ایک علمی گروہ جس میں اس کے زمانے کے( ٤٠)چالیس دانشمند اور خود اسحاق بھی انھیں کے ہمراہ تھے ، کی طرف متوجہ ہوا اورکہا:
جس دن پیغمبر خدا ۖ رسالت پر مبعوث ہوئے اس دن بہترین عمل کیا تھا؟١
اسحاق نے جواب دیا ، خدا اور اس کے رسول کی رسالت پر ایمان لانا ۔
مامون نے دوبا رہ پوچھا ، کیا اسلام قبول کرنے میں اپنے حریفوں کے درمیان سبقت حاصل کر نا بہترین عمل نہ تھا ؟
اسحاق نے کہا ، کیوںنہیں . ہم قرآن مجید میں پڑھتے ہیں .والسا بقون السا بقون اولیک المقربون،اور اس آیت میں سبقت سے مراد وہی اسلام قبول کرنے میں سبقت کرنا ہے
مامون نے پھرسوال کیا ، کیا علی ـ سے پہلے کسی نے اسلام قبول کرنے میں سبقت حاصل کی ہے ؟یا علی ـ وہ پہلے شخص ہیںجو پیغمبر پر ایمان لائے ہیں ؟
اسحاق نے جواب دیا ،علی ہی وہ ہیں جو سب سے پہلے پیغمبر پر ایمان لائے لیکن جس دن وہ ایمان لائے ، بچے تھے اور بچے کے اسلام کی کوئی اہمیت نہیں ہے لیکن ابو بکر اگر چہ وہ بعدمیں ایمان لائے اور جس دن خدا پرستوں کی صف میں کھڑے ہوئے وہ بالغ وعاقل تھے لہٰذا اس عمرمیں ان کا ایمان اور عقیدہ قابل قبول ہے.
مامون نے پوچھا ، علی کس طرح ایمان لائے ؟کیا پیغمبر نے انھیں اسلام کی دعوت دی یا خدا کی طرف سے ان پر الہام ہوا کہ وہ آئیںاورتوحید اور اسلام کو قبول کریں؟
یہ بات کہنا بالکل صحیح نہیں ہے کہ حضرت علی کا اسلام لانا خدا وند عالم کی طرف سے الہا م کی وجہ سے تھا، کیونکہ اگر ہم یہ فرض کر لیں تو اس کا لازمہ یہ ہوگا کہ علی کا ایمان پیغمبر کے ایمان سے زیادہ افضل ہو جائے گا اس کی دلیل یہ ہے کہ علی کا پیغمبر سے وابستہ ہونا جبرئیل کے توسط اور ان کی رہنمائی سے تھا نہ یہ کہ خدا کی طرف سے ان پر الہام ہوا تھا ۔
بہرحال اگر حضرت علی کا ایمان لانا پیغمبر کی دعوت کی وجہ سے تھا تو کیا پیغمبر نے خود ایمان کی دعوت دی تھی یا خدا کا حکم تھا ؟۔یہ کہنا بالکل صحیح نہیں ہوگا کہ پیغمبر خدا نے حضرت علی کوبغیرخدا کی اجازت کے اسلام کی دعوت دی تھی بلکہ ضروری ہے کہ یہ کہا جائے کہ پیغمبر اسلام نے حضرت علی کو اسلام کی دعوت ،خدا کے حکم سے دی تھی ۔
کیا خدا وند عالم اپنے پیغمبر کو حکم دے گا کہ وہ غیر مستعد(آمادہ ) بچے کو جس کا ایمان لانا اور نہ لانا برابرہو اسلام کی دعوت دے ؟(نہیں) ۔بلکہ یہ ثابت ہے کہ امام ـ بچپن میں ہی شعوروادراک کی اس بلندی پر فائز تھے کہ ان کا ایمان بزرگوں کے ایمان کے برابر تھا۔( ١)
یہاں مناسب تھا کہ مامون اس کے متعلق دوسرا بھی جواب دیتا کیونکہ یہ جواب ان لوگوں کے لئے مناسب ہے جن کی معلومات بحث ولایت وامامت میں بہت زیادہ ہو اور اس کا خلاصہ یہ ہے کہ اولیائے الہی کا کبھی بھی ایک عام آدمی سے مقابلہ نہیں کرناچاہئے اور نہ ان کے بچپن کے دورکو عام بچوں کے بچپن کی طرح سمجھنا چاہئے اور نہ ہی ان کے فہم وادراک کو عام بچوںکے فہم و ادراک کے برابرسمجھنا چاہیے ، پیغمبروں کے درمیان بعض ایسے بھی پیغمبرتھے جوبچپن میں ہی فہم وکمال اور حقایق کے درک کرنے میں منزل کمال پر پہونچے تھے ،اور اسی بچپن کے زمانے میں ان کے اندر یہ لیاقت موجود تھی کہ پروردگار عالم نے حکمت آمیز سخن اور بلند معارف الہیہ ان کو سکھایا، قرآن مجید میں جناب یحییٰ علیہ السلام کے متعلق بیان ہوا ہے :
یَا یَحْییٰ خُذِالْکِتَابَ بِقُوَّةٍ وَآتَیْنٰا ہُ الْحُکْمَ صَبِیّاً(مریم١٢) اے یحییٰ کتاب (توریت) مضبوتی کے ساتھ لو اور ہم نے انھیں بچپن ہی میں اپنی بارگاہ سے حکمت عطا کی جب کہ وہ بچے تھے۔
بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ اس آیت میں حکمت سے مرادنبوت ہے اور بعض لوگوں کا احتمال یہ ہے کہ حکمت سے مراد معارف الہی ہے .بہر حال جو بھی مراد ہو لیکن آیت کے مفہوم سے واضح ہے کہ انبیاء اور اولیاء الہی ایک خاص استعداد اور فوق العادہ قا بلیت کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں ،اور ان کا بچپن دوسروں کے بچپن سے الگ ہوتا ہے ،
حضرت عیسیٰ ـ . اپنی ولادت کے دن ہی خدا کے حکم سے لوگوں سے گفتگو کی اور کہا : بے شک میں خدا کا بندہ ہوں ،مجھ کو اُسی نے کتاب عطا فرمائی ہے اور مجھ کونبی بنایا۔(٢)
معصومین علیہم السلام کے حالات زندگی میں بھی ہم پڑھتے ہیں کہ ان لو گوںنے بچپن کے زمانے
______________________
(١) عقد الفرید، ج٣، ص ٤٣. اسحاق کے بعد جاحظ نے کتاب العثمانیہ میں اشکال کیاہے اور ابوجعفر اسکافی نے کتاب نقض العثمانیہ میں اس اعتراض کا تفصیلی جواب دیاہے اور ان تمام بحثوں کو ابن ابی الحدید نے نہج البلاغہ کی شرح ج١٣ ص ٢١٨ سے ص ٢٩٥ پر لکھا ہے۔
(٢) سورۂ مریم، آیت ٣٠
میں عقلی ،فلسفی اور فقہی بحثوں کے مشکل سے مشکل مسئلوں کا جواب دیا ہے ۔(١)
جی ہاں نیک لوگوں کے کاموں کو اپنے کاموں سے قیاس نہ کریں . اور اپنے بچوں کے فہم و ادراک کو پیغمبروں اوراولیاء الہی کے بچپن کے زمانے سے قیاس نہ کریں۔(٢)
______________________
(١) بطور مثال وہ مشکل سوالات جو ابوحنیفہ نے امام موسیٰ کاظم سے اور یحییٰ ابن اکثم نے امام جواد ـ سے کیے تھے. اور جوجوابات ان لوگوںنے سنا وہ آج بھی حدیث اور تاریخ کی کتابوںمیں محفوظ ہیں۔
(٢) امیر المومنین ـ فرماتے ہیں: لَایُقٰاسُ بِآلِ مُحَمَدٍ مِنْ ہٰذِہِ الْاُمَّةِ اَحَد. اس امت کے کسی بھی فرد کو پیغمبر اسلام کے فرزندوں اور خاندان سے موازنہ نہ کرو۔ نہج البلاغہ، خطبہ دوم
|