فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)
 

پہلا باب
بعثت پیغمبر ۖ سے پہلے حضرت علی ـ کی زندگی
عظیم افراد اوران کے دوست اور دشمن
کائنات کی اہم اور بزرگ شخصیتوں کے سلسلے میں کئی طرح کے پہلو نظر آتے ہیں کبھی بالکل مختلف اور کبھی بالکل برعکس، کبھی ان کے دوست ایسے ہوتے ہیں کہ دوستی کے آگے وہ کچھ نہیں دیکھتے اور پروانہ کے مانند اپنی ساری زندگی ان پر نثار و قربان کردیتے ہیں اور اس دوستی کی وجہ سے بدترین مصیبت اور مشکلات، سختی اور شکنجے کو بھی برداشت کرتے ہیں اور اسی کے برعکس ان کے دشمن بھی ایسے ہوتے ہیں جو شیطان صفت، کینہ و بغض اور حسد میں ہمیشہ جلتے رہتے ہیں اور کبھی بھی عداوت و دشمنی سے باز نہیں آتے کہ صلح و آشتی کی راہ ہموار ہوسکے، ان افراد کی دوستی اوردشمنی کبھی کبھی اس قدر حد سے تجاوز کرجاتی ہے جس کی انتہا نہیں ہوتی اور وقت اور مقام کا بھی خیال نہیں رکھتی اور پھر بہت دنوں تک اور مختلف جگہوں پر یہ سلسلہ قائم رہتا ہے اور یہ عداوت و دشمنی انسان کے باعظمت اور محترم و باکمال ہونے کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔
کائنات کی عظیم اور بزرگ شخصیتوں کے درمیان مولائے کائنات حضرت علی ـ کے علاوہ کوئی شخص بھی ایسا نہیں ہے جس کے بارے میں نظرئیے قائم ہوئے ہوں۔
آپ سے محبت اور دشمنی کرنے میں بھی آپ جیسا کوئی نہیںہے ، آپ کے چاہنے والوں کی بھی تعداد بہت ہے اور آپ کے دشمنوں کی تعداد بھی بہت زیادہ ہے، عظیم شخصیتوں اور انسانوں کے درمیان فقط جناب حضرت عیسیٰ مسیح ـکی طرح ہیں جو مولائے کائنات حضرت علی ـ کی طرح ہیں. کیونکہ حضرت عیسیٰـ سے دوستی اور دشمنی کرنے والے دو متضاد دھڑے نظر آتے ہیں ، اس طرح دونوں آسمانوی پیشواؤوں میں مشابہت پائی جاتی ہے ۔
حضرت عیسیٰـ دنیا کے تمام عیسائیوں کے گمان وخیال میں وہی خدا ئے مجسم ہیں جس نے اپنے بندوں اور چاہنے والوں کو اپنے باپ حضرت آدم سے ورثہ میں ملے ہوئے گناہوں سے نجات دلانے کے لئے زمین پر آئے اور آخرکار سولی پر چڑھا دیئے گئے وہ عامعیسائیوں کی نگاہ میں الوہیت کے علاوہ کوئی اور شخصیت کے مالک نہ تھے۔
ان کے مقابلے میں یہودی ان کے بالکل برخلاف ہیں انھوں نے حضرت پر الزام و اتہام لگایاہے اور جھوٹ کی نسبت دی ہے اور ایسی ناروا تہمتیں لگائیں کہ جس کا تذکرہ باعث شرم ہے اور آپ کی مقدس و پاکیزہ ماں کی طرف غلط نسبتیں دی ہیں۔
بالکل ایسے ہی اور بھی کچھ افراد ہیں جو مولائے کائنات حضرت علی ـ کے بارے میں متضاد فکر رکھتے ہیں ایک گروہ کم ظرف اور تنگ نظرہے اور دوسرا کچھ زیادہ ہی الفت و محبت کی وجہ سے خدا کے مطیع و فرماںبردار کو مقام الوہیت تک پہونچا دیا ہے اور جو کرامتیں اور معجزات حضرت کی پوری زندگی میں ظاہر ہوئے اس کی وجہ سے وہ خدا مان بیٹھے ہیں افسوس کہ اس گروہ نے اپنے کو اس مقدس نام ''علوی'' سے منسوب کر رکھا ہے اور آج بھی اس نظریہ پر چلنے والے اور ان کی پیروی کرنے والے افراد کثرت سے موجود ہیں. لیکن افسوس کا مقام ہے کہ شیعیت کی تبلیغ کرنے والوں نے آج تک اس مسئلے کو سنجیدگی سے نہیں لیا تاکہ حضرت علی ـ کے حقیقی چہرے کو ان کے سامنے ظاہر کریں اور ان لوگوں کی صراط مستقیم کی طرف رہنمائی کریں جس راستے پر خود حضرت علی ـ افتخار کر رہے ہیں اس گروہ کے مقابلے میں، ایک اور گروہ جس نے خلافت ظاہری کے ابتدائی دنوں سے ہی امام ـ سے بغض و عداوت اپنے دل میں بٹھا رکھی اور پھر کچھ مدت کے بعد خوارج اور نواصب نامی گروہ کے شکل میں ابھر کر سامنے آگئے، پیغمبر اسلام(ص) حضرت علی ـ کے زمانہ حکومت میں ان دونوں گروہوں کے ظہور کے سلسلے میں بخوبی آگاہ تھے اسی وجہ سے آپ نے حضرت علی ـ سے ایک موقع پر فرمایا تھا:
''ہَلَکَ فِیْکَ اِثْنٰانِ مُحِبّ غَالٍ وَ مُبْغِض قَالٍ''(١)
تمہارے ماننے والوں میں سے دوگروہ ہلاک ہوں گے ایک وہ گروہ جو تمہارے بارے میں غلو کرے گا اور دوسرا وہ گروہ جو تم سے دشمنی و عداوت رکھے گا۔
حضرت علی ـ اور حضرت عیسیٰ ـ کے درمیان ایک اور بھی مشابہت پائی جاتی ہے اوریہ وہ مقام ہے جہاں پران دو شخصیتوں کی ولادت ہوئی ہے۔
حضرت عیسیٰ ـ کی ولادت مقدس ،سرزمین بیت اللحم (بیت المقدس کے علاوہ ہے) پر ہوئی اور یہی وجہ ہے کہ بنی اسرائیل کے تمام پیغمبروں سے آپ ایک جہت سے برتر وافضل ہیں، اور مولائے کائنات حضرت علی ـ کی ولادت مکہء مکرمہ کی مقدس سرزمین خانہ کعبہ کے اندر معجزاتی طور پر ہوئی، اور آپ نے خدا کے گھر (مسجد کوفہ) میں جام شہادت نوش کیا اور حسن مطلع کے مقابلے میں حسن ختام سے بہرہ مند ہوئے جو حقیقت میں بے مثال ہے اور کتنی عمدہ بات ہے کہ آپ کے متعلق کہا جائے ''نازم بہ حسن مطلع و حسن ختام او'' (یعنی ہم اس حسن مطلع اور حسن ختام پر افتخار کرتے ہیں اور نازاں ہیں)

حضرت علی ـ کی شخصیت کے تین پہلو:
ماہرین نفسیات کی نظر میں ہر انسان کی شخصیت کے نکھار میں تین اہم عوامل ہوتے ہیں جن میں سے ہر ایک شخصیت سازی میں مؤثر ہوتا ہے گویا انسان کی روح اور صفات اور فکر کرنے کا طریقہ مثلث کی طرح ہے اور یہ تینوں پہلو ایک دوسرے سے ملنے کی وجہ سے وجود میں آتے ہیں اور وہ تینوں عامل یہ ہیں۔
١۔ وراثت ۔
٢۔ تعلیم و تربیت۔
٣۔ محیط زندگی۔
انسان کے اچھے اور برے صفات اور اس کی عظیم و پست خصلتیں ان تینوں عامل کی وجہ سے وجود میں آتی ہیں اور رشد و نمو کرتی ہیں۔
وراثت کے عوامل کے سلسلے میں مختصروضاحت: ہماری اولادیں ہم سے صرف ظاہری صفات مثلاً شکل و صورت ہی بطور میراث نہیں لیتیں بلکہ ماں باپ کے باطنی صفات اور روحانی کیفیت بھی بطور میراث اولاد میں منتقل ہوتی ہیں۔
تعلیم و تربیت اور اور محیط زندگی، جو انسانی شخصیت پر اثر انداز ہوتی ہیں، بہترین تربیت جسے خداوند عالم نے انسان کے ہاتھوں میں دیا ہے یا مثالی تربیت جسے بچہ ماں باپ سے بطور میراث حاصل کرتا ہے اس کی بہت عظمت و منزلت ہے، ایک استاد بچے کی تقدیر یا اس کے درسی رجحان کو بدل سکتا ہے اور اسی طرح گناہوں سے آلودہ انسانوں کو پاک و پاکیزہ ،اور پاک و پاکیزہ افراد کو گناہوں کے دلدل میں ڈال
سکتا ہے یہ دونوں صورتیں انسان کی شخصیت کو اتنا واضح و روشن کرتی ہیں کہ جس کی وضاحت کی ضرورت نہیں ہے ۔البتہ یہ بات فراموش نہیں کرنا چاہیئے کہ ان تینوں امور پر انسان کاارادہ غالب ہے ۔
______________________________
(١) نہج البلاغہ، کلمات قصار نمبر ١٧٧، فیک کے بجائے فیّ ہے۔

حضرت علی ـ کی خاندانی شخصیت :
حضرت علی ـ کی ولادت جناب ابوطالب کے صلب سے ہوئی... حضرت ابوطالب ـ بطحاء (مکہ) کے بزرگ اور بنی ہاشم کے رئیس تھے. آپ کا پورا وجود مہربانی و عطوفت، جانبازی اور فداکاری اور جود و سخا میں آئین توحیدکا آئینہ دار تھا .جس دن پیغمبر اسلام ۖ کے دادا حضرت عبد المطلب کا انتقال ہوا اس وقت آپ صرف آٹھ سال کے تھے اور اس دن سے ٤٢ سال تک آپ نے پیغمبر اسلام(ص) کی حفاظت، سفر ہو یا حضر، کی ذمہ داری اپنے ذمے لے لی تھی اور بے مثال عشق و محبت سے پیغمبر اسلاۖم کے مقدس ہدف، جو کہ وحدانیت پروردگار تھا ،میں جم کر فداکاری کی اور یہ حقیقت آپ کے بہت سے اشعار ''دیوان ابوطالب'' سے واضح ہوتی ہیں مثلاً:
''لِیَعْلَمُ خِیَارُ النَّاسِ اَنّ محمداً نَبِی کَمُوْسیٰ وَ الْمَسِیْحِ بنِ مَرْیَمِ''(١)
پاک و پاکیزہ اور نیک طینت والے یہ جان لیں کہ محمد ۖ، موسیٰ اور عیسیٰ ٪ کی طرح پیغمبر ہیںاور دوسری جگہ فرماتے ہیں:
''اَلَمْ تَعْلَمُوْا أَنَّا وَجَدْنَا مُحمداً رَسُولْاً کَمُوْسیٰ خُطَّ فِی اَوَّلِ الْکُتُبِ''(٢)
کیا تم لوگ نہیں جانتے کہ محمد ۖ موسیٰ ـکی طرح آسمانی رہبر اور رسول ہیں، اور ان کی پیغمبری کا تذکرہ آسمانی کتابوں میں درج ہے۔
ایک ایسی قربانی ، کہ جس میں تمام بنی ہاشم ایک سوکھی اور تپتی ہوئی غار میں قید ہوگئے اور یہ چیز مقصدسے عشق ومحبت کے علاوہ ممکن نہیں ہے کہ اتنا گہرا معنویت سے تعلق ہو، رشتہ کی الفت ومحبت اور تمام مادی عوامل اس طرح کی ایثار وقربانی کے روح انسان کے اندر پیدا نہیں کرسکتیں۔
حضرت ابو طالب کے ایمان کی دلیل اپنے بھتیجے کے آئین وقوانین پر اس قدر زیادہ ہے جس نے
محققین کی نظروں کواپنی طرف جذب کر لیا ہے . مگر افسوس کہ ایک گروہ نے تعصب کی بنیاد پر ابوطالب پر
شک کیااور دوسرے گروہ نے تو بہت ہی زیادہ جسارت کی ہے اور آپ کوغیرمومن تک کہہ ڈالاہے .حالا نکہ وہ دلیلیں جوحضرت ابو طالب کے لئے تاریخ وحدیث کی کتابوں میں موجود ہیں اگراس میں سے تھوڑا بہت کسی اور کے متعلق تحریر ہوتا تو اس کے ایمان واسلام کے متعلق ذرہ برابر بھی شک و تردیدنہ کرتے۔
مگر انسان نہیں جانتا کہ اتنی دلیلوں کے باوجود بعض انسانوں کا دل روشن نہ ہوسکا (اور وہ گمراہی کے دلدل میں پھنسے ہیں )
________________________
(١)،(٢) مجمع البیان، ج٤، ص٣٧۔

حضرت علی ـ کی ماں کی شخصیت :
آپ کی مادر گرامی فاطمہ بنت اسد،جناب ہاشم کی بیٹی ہیں .آپ وہ پہلی خاتون ہیں جو پیغمبر پر ایمان سے پہلے آئین ابراہیمی پر عمل پیرا ہوئیں . وہ وہی پاکیزہ ومقدس خاتون ہیںجو دردزہ کی شدت کے وقت مسجداالحرام کی طرف آئیں اور دیوار کعبہ کے قریب جاکر کہا :
پروردگارا: ہم تجھ پر اورپیغمبروں پر اور آسما نی کتابوں پرجو تیری طرف سے نازل ہوئی ہیں اور اپنے جد ا براہیم کے آئین پر جنھوں نے اس گھر کو بنا یا ہے ایمان کامل رکھتی ہوں.
پرور دگارا: جس نے اس گھر کو تعمیر کیا اس کی عظمت اور اس مولود کے حق کا واسطہ جومیرے رحم میں ہے اس بچہ کی ولادت کو مجھ پر آسان کردے۔
ابھی کچھ دیر بھی نہ گزری تھی کہ فاطمہ بنت اسد معجزاتی طریقہ سے خدا کے گھر میں داخل ہوگئیں اور مولائے کائنات کی ولادت ہوئی۔(١)
اس عظیم فضیلت کو مذہب شیعہ کے معتبرمحدثین اور مورخین اور علم انساب کے معتبر دانشوروںنے اپنی اپنی کتابوں میں نقل کیا ہے .اہلسنت کے اکثر دانشوروں نے اس حقیقت کو صراحت سے بیان کیاہے اور اس کو ایک بے مثال فضیلت کے نام سے تعبیر کیا ہے۔ (٢)
حاکم نیشاپوری کہتے ہیں :
خا نہ کعبہ میں علی ـکی ولادت کی خبر حدیث تواترکے ذریعہ ہم تک پہنچی ہے ۔(٣)
______________________
(١) کشف الغمہ ، ج١ ص ٩٠
(٢)جیسے مروج الذہب، ج٢ ص٣٤٩،بشرح الشفاء ، ج١ ص ١٥١
(٣) مستدرک حاکم ، ج٣ ص ٤٨٣
مشہور مفسرآلوسی بغدادی لکھتے ہیں :
کعبہ میں علی ـکی ولادت کی خبر دنیا کے تمام مذہبوں کے درمیان مشہور ومعروف ہے اور آج تک کسی کو بھی یہ فضیلت حاصل نہیں ہوئی ہے۔ (١)

پیغمبر اسلام ۖ کی آغوش میں:
اگر امام علیہ السلام کی عمر کو پانچ حصوں میں تقسیم کیا جائے تو آپ کی زندگی کا ابتدائی دور پیغمبر اسلامۖ کی بعثت سے پہلے کا دور ہوگا .اس وقت امام علیہ السلام کی عمر دس سال سے زیادہ نہیں تھی. کیونکہ جب علی علیہ السلام کی ولادت ہوئی تو پیغمبر اسلام کی عمر٣٠ سال سے زیادہ نہ تھی .اور پیغمبر اسلام چالیس سال کی عمر میں رسالت کے لئے مبعوث ہوئے۔ (٢)
امام علیہ السلام کی زندگی کے حساس ترین واقعات اسی دور میںرونما ہو ئے یعنی حضرت علی ـ کی شخصیت پیغمبر کے توسط سے ابھری، عمر کایہ حصہ ہر انسان کے لئے اس کی زندگی کا سب سے حساس اور کامیاب واہم حصہ ہوتاہے ایک بچے کی شخصیت اس عمر میں ایک سفید کاغذ کے مانند ہوتی ہے اور وہ ہر شکل کو قبول کرنے اور اس پر نقش ہونے کے لئے آمادہ ہوتاہے. اس کی عمر کا یہ حصہ پرورش کرنے والوںاور تربیت کرنے والوں کے لئے سنہرا موقع ہوتا ہے تا کہ بچے کی روح کو فضائل اخلاقی سے مزین کریں کہ جس کی ذمہ داری خدا نے ان کے ہاتھوں میں دی ہے تاکہ ان کی بہترین تربیت کریں اور اسے انسانی اور اخلاقی اصولوں سے روشناس کرائیں اور بہترین اور کامیاب زندگی گذارنے کا طورطریقہ اسے سکھائیں۔
پیغمبر عظیم الشان نے اسی عظیم مقصد کے لئے حضرت علی علیہ السلام کی ولا دت کے بعد ان کی تربیت کی ذمہ داری خود لے رکھی تھی، جس وقت حضرت علی ـ کی والدہ نو مولود بچے کولے کر پیغمبر کی خدمت میں حاضر ہوئیںتوپیغمبر اسلام نے والہانہ عشق ومحبت کے ساتھ اس بچے کودیکھا اور کہا اے چچی علی کیجھولے کو میرے بستر کے قریب رکھ دیجیئے ،اس جہت سے امام علی علیہ السلام کی زندگی کا آ غاز
___________________________
(١) شرح قصیدہ عبدالباقی آفندی ص ١٥
(٢) بعض لوگوں نے مثلاابن خشاب نے اپنی کتاب موالید الائمہ میں علی ـ کی کل عمر ٦٥ سال اور بعثت پیغمبر سے پہلے ١٢ سال لکھی ہے. تفصیل کے لئے کتاب کشف الغمہ تالیف مشہور مورخ علی بن عیسیٰ اربلی (متوفی ٦٩٣ھ) ص ٦٥ پر دیکھ سکتے ہیں۔
پیغمبر اکرم کے لطف خاص سے ہوا، پیغمبر صرف سوتے وقت حضرت علی ـ کے گہوارہ کو جھولا تے ہی نہیں تھے بلکہ آپ کے بدن کو دھوتے بھی تھے اور انھیں دودھ بھی پلاتے تھے ، اور جب علی علیہ السلام بیدار ہوتے تو خلوص والفت کے ساتھ ان سے بات کرتے تھے اور کبھی کبھی انھیں سینے سے لگا کر کہتے تھے ''یہ میرا بھائی ہے اور مستقبل میں میرا ولی وناصر اور میرا وصی اور میراداماد ہوگا''
پیغمبر اسلام ۖ حضرت علی کو اتنا عزیز رکھتے تھے کہ کبھی بھی ان سے جدا نہیں ہوتے تھے اور جب بھی مکہ سے باہر عبا دت خدا کے لئے جاتے تھے توحضرت علی علیہ السلام کو چھوٹے بھائی یا عزیز ترین فرزند کی طرح اپنے ساتھ لے جاتے تھے۔ (١)
اس حفاظت و مراقبت کا مقصد یہ تھا کہ حضرت علی علیہ السلام کی شخصیت کا دوسرا پہلو جوکہ تربیت ہے آپ کے ذریعے ہو اور پیغمبر کے علاوہ کوئی شخص بھی ان کی تربیت میں شامل نہ ہو ۔
حضرت امیر المومنین علیہ السلام اپنے خطبے میں پیغمبر اسلام کی خدمات کو سراہتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:
وَقَدْعَلِمْتُمْ مَوْضِعِیْ مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ ۖ بِالْقَرَا بَةِ الْقَرِ یْبَةِ وَالْمَنْزِلَةِ الْخَصِیْصَةِ وَضعْنِیْ فِیْ حجْرِہِ وَاَنَا وَلَدیَضُمُّنِْ اِلَی صَدْرِہِ وَ یَکْنُفُنِْ فِیْ فِرَاشِہِ وَ یَمَسَّنِیْ جَسَدَہ وَ یُشِمُّنِْ عَرْفَہُ وَ کَانَ یَمضُغُ الشَّیَٔ ثُمَّ یُلقمُنِیْہِ.(٢)
_________________________
(١) کشف الغمہ، ج١، ص ٩٠۔
(٢) نہج البلاغہ عبدہ، ج٢ ص ١٨٢، خطبۂ قاصعۂ ۔


پیغمبر ا سلام حضرت علی علیہ السلام کو اپنے گھر لے گئے
جب خدا نے چاہا کہ اس کے دین کا عظیم ولی سردار انبیاء پیغمبراسلام ۖکے گھر میں پرورش پائے اور رسول اسلام کے زیر نظر اس کی تربیت ہو تو پیغمبر اسلام کو اس کی طرف متوجہ کیا ۔
اسلام کے مشہور مورخین لکھتے ہیں :
مکہ میں سخت قحط پڑا ،پیغمبرکے چچا ابو طالب اپنے اہل و عیال کے ساتھ اخراجات کے متعلق بہت پریشان ہوئے،پیغمبر اکرم(ص) اپنے دوسرے چچا عباس جو ابو طالب سے زیادہ امیر اوردولتمندتھے، سے گفتگو کی اور دونوں کے درمیان یہ طے پا یا کہ ہر ایک حضرت ابو طالب کے لڑکوں میں سے ایک ایک کو اپنے گھر لے جائے تا کہ اس قحط کے زمانے میں ابو طالب کی پریشا نیوں میں کچھ کمی واقع ہوچنانچہ جناب عباس ، جعفر کو اور پیغمبر اسلام ۖ حضرت علی ـ کو اپنے گھر لے گئے ۔(١)
اب جبکہ حضرت علی ـ مکمل طور پر پیغمبر کے اختیار میں تھے حضرت علی ـنے انسانی اور اخلاقی فضیلتوں کے گلستان سے بہت زیادہ فائدہ اٹھا یا اور پیغمبر اسلام کی سر پرستی میں کمال کے بلندترین درجے پر فائز ہوئے، امام علیہ السلام نے اپنے خطبے میں اس زمانے اور پیغمبر کی تربیت کی طرف اشارہ کیا ہے آپ فرماتے ہیں :
''وَلَقَدْکُنْتُ اتَّبِعُہُ الْفَصِیْلُ اُمِّہِ یِرْفَعُ لِیْ کُلَّ یَوْمٍ مِنْ اَخْلاٰقِہِ عَلَماً وَ یَأْمُرُنِیْ بِالْاِقْتِدائِ بِہِ''(٢)
میں اونٹ کے اس بچہ کی طرح جو اپنی ماں کی طرف جاتاہے ، پیغمبر کی طرف گیا،آپ روزانہ مجھے اپنے اخلاق حسنہ کا ایک پہلو سکھاتے تھے اور حکم دیتے کہ ان کی پیروی کروں۔

حضرت علی علیہ السلام غار حرا میں
پیغمبر اسلام (ص)رسالت پرمبعوث ہونے سے پہلے تک سال میں ایک مہینہ غار حرا میں عبادت میں مصروف رہتے تھے اور جیسے ہی مہینہ ختم ہوتاتھا آپ پہاڑ سے نیچے اترتے تھے اور سیدھے
______________________
(١) سیرۂ ابن ہشام، ج١ ص ٢٣٦ ۔
(٢) نہج البلاغہ عبدہ، ج٢ ص ١٨٢۔
مسجدالحرام کی طرف جاتے تھے اور سات مرتبہ خانہ کعبہ کا طواف کرتے تھے پھراپنے گھرواپس آتے تھے ۔
یہاں پر سوال یہ ہے کہ جب پیغمبر اسلام حضرت علی ـ سے اس قدر محبت کر تے تھے تو کیا اس عجیب وغریب جگہ پر عبادت ودعا کے لئے حضرت علی ـ کو اپنے ساتھ لے جاتے تھے یا انھیں اتنی مدت تک چھوڑ کر جاتے تھے ؟
تمام قرائن سے پتہ چلتا ہے کہ جس دن سے پیغمبراسلام حضرت علی ـ کو اپنے گھرلے گئے اس دن سے ایک دن کے لئے بھی انھیں اپنے سے جدا نہیں کیا۔
مورخین لکھتے ہیں :
حضرت علی ـ ہمیشہ پیغمبر کے ساتھ رہتے تھے اور جب بھی پیغمبرشہر سے باہر جاتے اور بیابان اور پہاڑ کی طرف جاتے تو حضرت علی ـ کو اپنے ساتھ لے جاتے۔(١)
ابن ابی الحد یدکہتے ہیں :
حدیثوں سے پتہ چلتا ہے کہ جب جبرئیل پہلی مرتبہ پیغمبر اسلام پر نازل ہوئے اور انھیںرسالت کے عہدے پر فائز کیا اس وقت علی ـ پیغمبر (ص)کے ہمراہ تھے اوروہ دن انہی دنوں میں سے تھا جن دنوںپیغمبر اسلام غار حرا میں عبا دتوں کے لئے جایا کر تے تھے ۔
حضرت امیرالمٔومنین علیہ السلام اس سلسلے میں فرماتے ہیں :
وَلَقَدْکَانَ یُجَاوِزُ فِیْ کُلِّ سَنَةٍ بِحَرائِ فَأرَاہُ وَ لاٰیُرَاہُ غَیْرِیْ...(٢)
''پیغمبر ہر سال غار حرا میں عبادت کے لئے جاتے تھے اور میرے علاوہ کسی نے انھیں نہیں دیکھا'' اس جملے سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ مولائے کائنات غار حرا میں پیغمبر اسلام کے ہمراہ ،رسالت کے بعدبھی تھے لیکن گذشتہ قرآئن سے مولائے کائنات کا پیغمبر اسلام کے ساتھ غار حرا میں ہونا غا لباً رسالت سے پہلے ہے اور خودیہ جملہ اس بات کی تائیدکرتا ہے کہ یہ واقعہ پیغمبر اسلام ۖکی رسالت سے پہلے کا ہے ۔
______________________
(١)شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید، ج١٣ ص ٢٠٨
(٢) نہج البلاغہ، خطبہ ١٨٧ (قاصعہ)
حضرت علی علیہ السلام کی طہارت وپاکیزگی اورپیغمبر اسلام کے ہاتھوں ان کی پرورش کاہونا اس بات کا سبب بنا کہ اسی بچپن کے زمانے میں حساس دل ا و ر چشم بصیرت اور اپنی بہترین سماعتوں کے ذریعے ایسی چیزیں دیکھیں اور ایسی آوازیں سنیں کہ جن کا سننا یا دیکھنا عام آدمی کے لئے ممکن نہیں ہے ۔
چنانچہ ا مام علیہ السلام خوداس سلسلے میں فرماتے ہیں :
''أَرْیَ نُوْرَ الْوَحْیِ وَ الَّرَسٰالَةِ وَ أَشُمُّ رِیْحَ النُّبُوَةِ''(١)
ہم نے بچپن کے زمانے میں غار حرا میں پیغمبر اسلام ۖکے ساتھ وحی اور رسالت کے نور کو دیکھا جو پیغمبر پر چمک رہا تھااور پاک وپاکیزہ نبوت کی خوشبو سے اپنے مشام کومعطر کیا ۔
امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں :
امیرالمو منین (ع)نے پیغمبر اسلام ۖ کی رسالت سے پہلے نور رسالت اور وحی کے فرشتے کی آواز کو سنا تھا اس عظیم موقع پر جب کہ آپ پر وحی نا زل ہوئی. آپ نے حضرت علی علیہ السلام سے فرمایا : اگر میں خاتم الانبیاء نہ ہوتا تو تم میں پیغمبری کی تمام چیزیں بدرجہ اتم موجودتھیں اورتم میرے بعد پیغمبرہوتے لیکن تم میرے بعد میرے وصی اور وارث اور تمام وصیوں کے سردار اور متقیوں کے پیشوا ہو۔(٢)
امیرالمومنین علیہ السلام اس غیبی آواز کے متعلق جس کو آپ نے بچپن میں سنا تھا ارشاد فرماتے ہیں : جس وقت پیغمبر پر وحی نازل ہوئی اسی وقت میرے کانوں سے کسی کے نالہ وفریاد کی آواز ٹکرائی میں نے رسول خدا سے پوچھا یارسول اللہ ۖ یہ نالہ و فریاد کیسا ہے ؟
آپ نے فرما یا: یہ شیطان کی نالہ وفریاد ہے اور اس کی علت یہ ہے کہ میری بعثت کے بعد زمین والوں کے درمیان جو اس کی اطا عت وپر ستش ہوتی اس سے یہ نا امید ہوگیا ہے پھر پیغمبر اسلام ۖ علی ـ کی طرف مخاطب ہوکر کہتے ہیں:
''اِنَّکَ تَسْمَعُ مَا اسْمَعُ وَتَریٰ مٰا اَرَیٰ ، أَلٰا أََنَّکَ لَسْتَ بِنَبِیٍٍ وَلٰکِنَّکَ وَزِیْر''()
اے علی! جس چیز کو میں نے سنا اور دیکھا تم نے بھی اسے دیکھا اور سنا مگر یہ کہ تم پیغمبر نہیںہو بلکہ تم میرے وزیر اور مدد گار ہو ۔
______________________
(١) قبل اس کے کہ پیغمبر اسلام ۖ خدا کی طرف سے رسالت کے منصب پر فائز ہوں وحی اور غیبی آوازوں کو سنا جیسا کہ روایات میں ذکر ہے . شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ، ج١٣ ص ١٩٧
(٢) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید، ج١٣ ص ٣١٠