نام کتاب: فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)
تالیف: آیة اللہ جعفر سبحانی
ترجمہ: سید حسین اختر رضوی اعظمی
تطبیق اورتصحیح : مسعود اختر رضوی اعظمی
نظر ثانی: سیدشجاعت حسین رضوی
پیشکش: معاونت فرہنگی ،مجمع جہانی اہل بیت،ادارۂ ترجمہ
ناشر: مجمع جہانی اہل بیت علیہم السلام
طبع اول : ١٤٢٩ھ ٢٠٠٨ ء
تعداد : ٣٠٠٠
مطبع : لیلا
قال رسول اﷲ ۖ :
''انی تارک فیکم الثقلین، کتاب اﷲ، وعترتی اہل بیتی ما ان تمسکتم بہما لن تضلّوا ابدا وانھما لن یفترقا حتّیٰ یردا علیّ الحوض''۔
حضرت رسول اکرم ۖ نے فرمایا: ''میں تمہارے درمیان دو گرانقدر چیزیں چھوڑے جاتا ہوں:(ایک) کتاب خدا اور (دوسری) میری عترت اہل بیت (علیہم السلام)، اگر تم انھیں اختیار کئے رہو تو کبھی گمراہ نہ ہوگے، یہ دونوں کبھی جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثر پر میرے پاس پہنچیں''۔
اس حدیث شریف کومتواتر اور اس سے مشابہ دوسری حدیثوں کو مختلف تعبیروں کے ساتھ شیعہ اور اہل سنت کے مختلف کتابوں میں ذکرکی گئی ہیں۔
(صحیح مسلم: ١٢٢٧، سنن دارمی: ٤٣٢٢، مسند احمد: ج٣، ١٤، ١٧، ٢٦. ٣٦٦٤ و ٣٧١. ١٨٢٥اور ١٨٩، مستدرک حاکم: ١٠٩٣، ١٤٨، ٥٣٣. و غیرہ.)
پروردگار عالم کا ارشاد ہے:
( اِنَّمَا یُرِیدُ اللَّہُ لِیُذْھِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَہْلَ الْبَیْتِ وَ یُطَھِّرَکُمْ تَطْھِیْراً)
(سورۂ احزاب : آیت ٣٣)
شیعہ اور اہل سنت کی کتابوں میںرسول خدا ۖ کی بہت سی احادیث اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ یہ آیۂ مبارکہ پنجتن پاک کی شان میں نازل ہوئی ہے اور '' اہل بیت'' سے مرادیہی اصحاب کساء ہیں اور وہ : محمد ۖ ، علی ، فاطمہ، حسن و حسین علیہم السلام ہیں۔نمونہ کے طور پر ان کتابوں کی طرف رجوع کریں: مسند احمد بن حنبل(وفات ٢٤١ھ): ج١، ص٣٣١،ج٤،ص١٠٧، ج٦،ص٢٩٢ و ٤؛ صحیح مسلم (وفات٢٦١ ھ) ج٧،ص١٣٠؛ سنن ترمذی (وفات ٢٧٩ھ ):ج٥،ص٣٦١ و...؛ الذریة الطاہرة النبویة دولابی (وفات: ٣١٠ ھ ص١٠٨؛ السنن الکبریٰ نسائی(وفات ٣٠٣ ھ ): ج٥ ،ص١٠٨ و ١١٣؛ المستدرک علی الصحیحین حاکم نیشاپوری(وفات: ٤٠٥ ھ): ج٢، ص ٤١٦، ج٣،ص١٣٣و ١٤٧ و ١١٣؛ البرہان زرکشی(وفات ٧٩٤ ھ ) ص١٩٧؛ فتح الباری شرح صحیح البخاری ابن حجر عسقلانی(وفات ٨٥٢ ھ):ج٧،ص١٠٤؛ اصول الکافی کلینی(وفات ٣٢٨ ھ ): ج١،ص ٢٨٧ ؛ الامامة و التبصرة ابن بابویہ (وفات ٣٢٩ ھ): ص٤٧، ح٢٩؛ دعائم الاسلام مغربی(وفات ٣٦٣ ھ):ص٣٥ و ٣٧؛ الخصال شیخ صدوق(وفات ٣٨١ ھ):ص٤٠٣ و ٥٥٠؛ الامالی شیخ طوسی(وفات ٤٦٠ ھ):ح ٤٣٨،٤٨٢ و ٧٨٣ نیز مندرجہ ذیل کتابوں میں اس آیت کی تفسیر کی طر ف مراجعہ کریں: جامع البیان طبری(وفات٣١٠ھ) ؛ احکام القرآن جصاص(وفات ٣٧٠ ھ )؛ اسباب النزول واحدی(وفات ٤٦٨ ھ)؛ زاد المسیرابن جوزی(وفات٥٩٧ ھ)؛ الجامع لاحکام القرآن قرطبی(وفات ٦٧١ ھ)؛ تفسیر ابن کثیر (وفات ٧٧٤ ھ)؛ تفسیر ثعالبی (وفات٨٢٥ ھ)؛ الدر المنثور سیوطی(وفات ٩١١ ھ)؛ فتح القدیر شوکانی(وفات ١٢٥٠ ھ)؛ تفسیر عیاشی(وفات ٣٢٠ ھ)؛ تفسیر قمی(وفات:٣٢٩ ھ)؛ تفسیر فرات کوفی (وفات ٣٥٢ ھ) آیۂ اولوا الامر کے ذیل میں؛ مجمع البیان طبرسی(وفات ٥٦٠ ھ)ان کے علاوہ اور بھی بہت سی دوسری کتابیںہیں۔
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
حرف اول
جب آفتاب عالم تاب افق پر نمودار ہوتا ہے کائنات کی ہر چیز اپنی صلاحیت و ظرفیت کے مطابق اس سے فیضیاب ہوتی ہے حتی ننھے منھے پودے اس کی کرنوں سے سبزی حاصل کرتے اور غنچہ و کلیاں رنگ و نکھار پیدا کر لیتی ہیں تاریکیاں کافور اور کوچہ و راہ اجالوں سے پر نور ہو جاتے ہیں ، چنانچہ متمدن دنیا سے عرب کی سنگلاخ وادیوں میں قدرت کی فیاضیوں سے جس وقت اسلام کا سورج طلوع ہوا ،دنیا کی ہر فرد اور ہر قوم نے قوت و قابلیت کے اعتبار سے فیض اٹھایا۔
اسلام کے مبلغ و مؤسس سرور کائنات حضرت محمد مصطفی ۖ غار حراء سے مشعل حق لے کر آئے اور علم و آگہی کی پیاسی اس دنیا کو چشمئہ حق و حقیقت سے سیراب کر دیا ،آپ کے تمام الہی پیغامات ایک ایک عقیدہ اور ایک ایک عمل فطرت انسانی سے ہم آہنگ ارتقائے بشریت کی ضرورت تھا ،اس لئے ٢٣ برس کے مختصر عرصے میں ہی اسلام کی عالمتاب شعاعیں ہر طرف پھیل گئیں اور اس وقت دنیا پر حکمراں ایران و روم کی قدیم تہذیبیں اسلامی قدروں کے سامنے ماند پڑ گئیں ،وہ تہذیبی اصنام جو صرف دیکھنے میں اچھے لگتے ہیں اگر حرکت و عمل سے عاری ہوں اور انسانیت کو سمت دینے کا حوصلہ ،ولولہ اورشعور نہ رکھتے تو مذہبِ عقل و آگہی سے روبرو ہونے کی توانائی کھو دیتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ایک چوتھائی صدی سے کم مدت میں اسلام نے تمام ادیان و مذاہب اور تہذیب و روایات پر غلبہ حاصل کر لیا۔
اگرچہ رسول اسلام ۖ کی یہ گرانبہا میراث کہ جس کی اہل بیت (ع) اور ان کے پیرووں نے خود کو طوفانی خطرات سے گزار کر حفاظت و پاسبانی کی ہے ،وقت کے ہاتھوں خود فرزندان اسلام کی بے توجہی اور ناقدری کے سبب ایک طویل عرصے کے لئے تنگنائیوں کا شکار ہو کر اپنی عمومی افادیت کو عام کرنے سے محروم کر دئی گئی تھی ،پھر بھی حکومت و سیاست کے عتاب کی پروا کئے بغیرمکتب اہل بیت (ع) نے اپنا چشمئہ فیض جاری رکھا اور چودہ سو سال کے عرصے میں بہت سے ایسے جلیل القدر علماء و دانشور دنیائے اسلام کو تقدیم کئے جنہوں نے بیرونی افکار و نظریات سے متاثر اسلام و قرآن مخالف فکری و نظری موجوں کی زد پر اپنی حق آگین تحریروں اور تقریروں سے مکتب اسلام کی پشت پناہی کی ہے اور ہر دور اور ہر زمانے میں ہرقسم کے شکوک و شبہات کا ازالہ کیا ہے ،خاص طور پر عصر حاضر میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد ساری دنیا کی نگاہیں ایک بار پھر اسلام وقرآن اور مکتب اہل بیت ٪ کی طرف اٹھی اور گڑی ہوئی ہیں ،دشمنان اسلام اس فکری و معنوی قوت و اقتدار کو توڑنے کے لئے اور دوستداران اسلام اس مذہبی اور ثقافتی موج کے ساتھ اپنا رشتہ جوڑنے اور کامیاب و کامراں زندگی حاصل کرنے کے لئے بے چین و بے تاب ہیں ،یہ زمانہ علمی اور فکری مقابلے کا زمانہ ہے اور جو مکتب بھی تبلیغ اور نشر و اشاعت کے بہتر طریقوں سے فائدہ اٹھا کر انسانی عقل و شعور کو جذب کرنے والے افکار و نظریات دنیا تک پہنچائے گا ،وہ اس میدان میں آگے نکل جائے گا۔
(عالمی اہل بیت (ع) کونسل)مجمع جہانی اہل بیت (ع) نے بھی مسلمانوں خاص طور پر اہل بیت (ع) و طہارت کے پیرووں کے درمیان ہم فکری و یکجہتی کو فروغ دینا وقت کی ایک اہم ضرورت قرار دیتے ہوئے اس راہ میں قدم اٹھایا ہے کہ اس نورانی تحریک میں حصہ لے کر بہتر انداز سے اپنا فریضہ ادا کرے، تاکہ موجودہ دنیائے بشریت جو قرآن و عترت کے صاف و شفاف معارف کی پیاسی ہے زیادہ سے زیادہ عشق و معنویت سے سرشار اسلام کے اس مکتب عرفان و ولایت سے سیراب ہو سکے ،ہمیں یقین ہے عقل و خرد پر استوار ماہرانہ انداز میں اگر اہل بیت٪ عصمت وطہارت کی ثقافت کو عام کیا جائے اور حریت و بیداری کے علمبردار خاندان نبوت ۖ و رسالت کی جاوداں میراث اپنے صحیح خدوخال میں دنیا تک پہنچادی جائے تو اخلاق و انسانیت کے دشمن ،انانیت کے شکار ،سامراجی خوں خواروں کی نام نہاد تہذیب و ثقافت اور عصر حاضر کی ترقی یافتہ جہالت سے تھکی ماندی آدمیت کو امن ونجات کی دعوتوں کے ذریعہ امام عصر (عج) کی عالمی حکومت کے لئے استقبال کے لئے تیار کیا جا سکتا ہے ۔
ہم اس راہ میں تمام علمی و تحقیقی کوششوں کے لئے محققین و مصنفین کے شکر گزار ہیں اور خود کومؤلفین ومترجمین کا ادنیٰ خدمتگار تصور کرتے ہیں ،زیر نظر کتاب ،مکتب اہل بیت (ع) کی ترویج و اشاعت کے سلسلے کی ایک کڑی ہے ، آیةاللہ جعفر سبحانی دام ظلہ کی گرانقدر کتاب فروغ ولایت کو فاضل جلیل مولانا سید حسین اختر رضوی اعظمی نے اردو زبان میں اپنے ترجمہ سے آراستہ کیا ہے جس کے لئے ہم دونوں کے شکر گزار ہیں اور مزید توفیقات کے آرزومند ہیں ،اسی منزل میں ہم اپنے تمام دوستوں اور معاونین کا بھی صمیم قلب سے شکریہ ادا کرتے ہیں کہ جنہوں نے اس کتاب کے منظر عام تک آنے میں کسی بھی عنوان سے زحمت اٹھائی ہے ،خدا کرے کہ ثقافتی میدان میں یہ ادنیٰ جہاد رضائے مولیٰ کا باعث قرار پائے۔
والسلام مع الاکرام
مدیر امور ثقافت ،مجمع جہانی اہل بیت (ع)
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
مقدمہ
انسانی معاشرہ، تحقیق وجستجو کرنے والوں کی نظر میں ایک ایسے دریا کے مانند ہے جو خاموش اور بغیرآواز کے ہے اور زمانہ گزرنے کی وجہ سے اس کے بعض حصّے خشک ہوگئے ہیں اور اب جبکہ بہت زیادہ عرصہ گزر گیاہے تو ممکن ہے نابود وختم ہوجائے جس چیز نے اس کوخاموش اور بغیر آواز کا دریا باقی رکھا ہے وہ صرف ہوا کے تند اور تیز جھونکے اور تند وضعیف طوفان ہیں طوفان اورہوا کے جھونکے اٹھتے ہیں اور موج بنا کر کشتیوں کی قسمت وتقدیریں معین کرتے ہیں اور اس میں سے بعض موجیں ایسی بھی ہیں جو کشتی کو غرقاب کرکے لوگوں کو موت کی وادی تک پہونچا دیتی ہیں اور بعض موجیں ایسی ہیں جو نجات اور زندگی عطا کرتی ہیں ۔
جی ہاں، عظیم تاریخی شخصیتیں انسانی معاشرے کے لئے وہی بہترین موجیں ہیں جو کبھی کبھی لوگوں کو ہلاکت وبدبختی میں گرفتار کردیتی ہیں اور کبھی کبھی زندگی وسعادت کے لئے ہمیشہ راہنمائی کرتی ہیں ، حقیقتاً خدا وندعالم کی طرف سے معین کئے ہوئے الٰہی نمائندے اور پیغمبر اور پاک وپاکیزہ راہنما وہی بہترین موجیں ہیں جو اپنی بے مثال موج ہدایت کے ذریعے معاشرہ کی کشتی کو اپنی عاقلانہ اورمنطقی تربیت اور لوگوں کو آخرت کی طرف رغبت دلانے یا نجات تک پہونچانے اور ہمیشہ عمدہ زندگی کی طرف راہنمائی کرنے کے لئے انسانی اور الٰہی قوانین کی طرف راغب کرتی ہیں ۔
یہ صاحبان عظمت وشرافت برائیوں اور پلیدگیوں سے خدا کی دی ہوئی طاقت و ہدایت کے ذریعہ ہمیشہ جنگ کرتے رہے اور انسانی معاشرے کو عزت وکرامت جیسی نعمتوں سے نوازتے رہے تاریخ شاہد ہے کہ جہاں پر بھی وحی کا نور چمکا ہے وہاں کے افراد کی فکریں اور عقلیں کھل گئیں ہیں اور انسانیت اور معاشرے میں ترقی کا سبب بنا ہے ۔
پیغمبر اسلام (ص) ایک نور تھے جو انسانوں کے تاریک قلب ودماغ میں چمکے اور اس زمانے کے بدبخت وخبیث معاشرے کو انسانی فرشتوں سے روشناس کرایا اور تہذیب وتمدن کا ایسا تحفہ پیش کیا جو آج تک تمام انسانی قوانین میں سب سے عمدہ اور قیمتی ہے اور ہر شخص اس بات کی تصدیق کرتاہے، اوراگر صرف اور صرف تمام مسلمان اس راستے پرچلتے جو پیغمبر نے اسلامی معاشرے کے لئے معین کیا تھا اور اختلاف وتفرقہ ، تعصب اور خود غرضی سے پرہیز کرتے تو یقین کامل ہے کہ چودہ سو سال گذرجانے کے بعد آج بھی اس تہذیب وتمدن کے مبارک درخت سے بہترین بہترین میوے تناول کرتے ، اور ایسی ظلم و ستم سے دنیا میں اپنی عظمت وبزرگی کے محافظ ہوتے لیکن افسوس اور ہزار افسوس کہ پیغمبر ختمی مرتبت ۖ کی دردناک رحلت کے بعد جنگ وجدال، خود غرضی اور مقام طلبی نے بعض مسلمانوں پر قبضہ جمالیا تھا جس کی وجہ سے اسلامی اور الٰہی راستے میں زبردست اور خطرناک انحراف پیدا ہوگیا اور اسلام کے سیدھے راستے کو بہت زیادہ نقصان پہونچایا۔
حقیقتاً ، معاشرہ اُن دنوںکس چیز سے راضی نہ تھا ؟ اور کس وجہ سے لوگ ناشکری اور سرکشی اختیار کئے ہوئے تھے؟
جی ہاں ، ان لوگوں کی ناشکری اور ناراضگی ایسے امام کی مخالفت کی وجہ سے تھی کہ جنہیں پیغمبر اسلام (ص) نے مختلف طریقوں اور زاویوں اور مناسبتوں سے پہچنوایا تھا اور نتیجہ یہ ہوا کہ درد ناک اور غم انگیز مخالفتیں اور ناشکری جو تمام مومنوں، پرہیز گاروں ، عالموں ، دانشمندوں ، سیاستدانوں اور فکر وآگہی رکھنے والوں خلاصہ یہ کہ پیغمبر اسلام (ص) کے بعد سب سے بزرگ الٰہی نمائندے نے ٢٥ سال تک گوشہ نشینی اختیار کرلیا اور تنہا آپ ہی نے ان دنوں اسلامی معاشرے کو منتشر ہونے سے بچایا اور یہ بات یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ اس زمانے کو لوگوں نے نہ یہ کہ صرف علی ـ کو نہیں پہچانا بلکہ اس امام برحق وعظیم الشان کے فضائل وکمالات کو ذرہ برابر بھی درک نہیں کیا۔
لیکن اس ٢٥ سال کی گوشہ نشینی کے بعد جسے حضرت نے یوں تعبیر کیا ہے کہ جیسے میری آنکھ میں کانٹا اور گلے میں ہڈی ہو ، جس وقت اسلامی معاشرہ پیغمبر اسلام (ص) کے بتائے ہوئے سیدھے راستے سے بالکل منحرف ہوگیا اور مسلمانوں نے چاہا کہ پھر سے اسی راستے کو اپنائیں تو حقیقی رہنما اور عظیم وبزرگ الٰہی شخصیت اور اپنے بڑے مربی کو تلاش کرنے لگے ، تاکہ وہ معاشرے کو صحیح راستے پر لائیں اور جس طرح سے پیغمبر (ص)چاہتے تھے اسی طرح عدل وانصاف سے آراستہ حکومت قائم کریں، اور ان لوگوں نے اس مقدس مقصد کے لئے حضرت علی علیہ السلام کے ہاتھوں پر بیعت کی اور آپ نے بھی خداوند عالم کے حکم کے مطابق '' جب عدل وانصاف کی حکومت قائم کرنے کے لئے زمینہ فراہم ہوجائے تو فوراً حکومت قائم کرو'' ان کی بیعت کو قبول کرلیا، لیکن معاشرے میں اس قدر اختلاف وانحراف پھیل چکا تھا کہ جس کے خاتمہ کے لئے سرکشوں اور مخالفوں سے جنگ وجدال کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا۔
یہی وجہ ہے کہ اس عظیم وکریم ، سخی اور بہادر اور کامل الایمان شخص کی خلافت کے زمانے میں صرف داخلی جنگیں ہوئیں، ناکثین (معاہدہ توڑنے والے) کے ساتھ جنگ شروع ہوگئی اور مارقین ( دین سے خارج ہونے والے) کو جڑ سے ختم کرنے کے بعد جنگ کا خاتمہ ہوا ،اور بالآخر کچھ اندرونی دشمنوں ( خوارج نہروان) کے بچ جانے کی وجہ سے تاریخ میں ہمیشہ باقی رہنے والے ظالم و بدبخت شخص کے ہاتھوں خدا کے گھر میں جام شہادت نوش فرمایا ، جس طرح سے خدا کے گھر میں آنکھیں کھولی تھیں ۔
اور اپنی بابرکت وباعظمت زندگی کو دو مقدس عبادت گاہوں ( کعبہ اور محراب کوفہ) کے درمیان بسر کیا۔
اس کتاب کے بارے میں :
امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کی پوری زندگی کو پانچ حصوں میں تقسیم کیا جاسکتاہے۔
١۔ ولادت سے بعثت تک،
٢۔ بعثت سے ہجرت تک،
٣۔ ہجرت سے پیغمبر اسلام (ص) کی رحلت تک،
٤۔ رحلت پیغمبر (ص)سے خلافت تک،
٥۔ خلافت سے شہادت تک،
کتاب کی تقسیم بندی اسی طریقہ پر ہوگی ان پانچ حصوں میں امام علیہ السلام کی عام زندگی ، مستند اور آسان طریقے سے بیان ہوئی ہے ہماری یہ کوشش ہے کہ اس کتاب میں مبالغہ گوئی اور بے جا ظن وگمان سے دور رہیں اور شروع سے ہی یہی کوشش تھی کہ اصل منابع کی طرف رجوع کریں نہ اتنا طولانی فاصلہ ہو کہ آدمی تھک جائے اور نہ اتنا زیادہ ہی مختصر ہو کہ مقصد ختم ہوجائے بلکہ اس کے منابع ومآخذ کو اس مقدار تک بیان کردیںکہ پڑھنے والوں کی زبان پر شکوہ نہ آئے اور ان کے لئے یہ کافی ہو۔
جب مؤلف ''فروغ ابدیت '' ( پیغمبر اسلام (ص) کی مکمل سوانح حیات)کی طباعت ونشر سے فارغ ہوا تو اس وقت ارادہ کیا کہ شیعوں کے پہلے رہبر وپیشوا حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام کی قابل افتخار زندگی کو اسی کتاب کے طرزپر تحریر کروں اور خداوند عالم کا شکرکہ اس نے اس کام کے لئے توفیق بھی دیدی اور حضرت کی زندگی کا چار حصہ کتاب کی شکل میں منظر عام پر آگیا، لیکن انقلاب اسلامی کی سیاسی فضا میں چند مذہبوں کے ایجاد نے مؤلف کی فکر کو اس آفت کے دفاع کی طرف متوجہ کردیا خصوصاً مارکسیزم سے دفاع کی طرف ،اور ان ہی چیزوں نے مؤلف کو متقیوں اور پرہیز گاروں کے رہبر علی بن ابی طالب علیہ السلام کے بارے میں کچھ لکھنے سے روک دیا لیکن کچھ ہی دنوں کے بعد دوبارہ خدانے توفیق دی کہ امام علیہ السلام کی زندگی کے پانچویں اور چھٹے حصے کو تحریر کروں جو آپ کی زندگی کا سب سے زیادہ حساس اور پر آشوب دور تھا اور اس طرح سے مؤلف نے امام علیہ السلام کی پوری زندگی کو تحلیلی اور مستند اور بہترین اور اس زمانے کے طریقوں کے اعتبار سے مکمل کرکے حضرت کی خدمت میں پیش کیا۔
دوباتیں :
یہاں پر دو باتوں کا تذکرہ ضروری ہے،
یہ کتاب، جیسا کہ بیان ہوا ہے امام علیہ السلام کی عام اور ذاتی زندگی کا مجموعہ ہے اور آپ کی زندگی کے دوسرے حصّے مثلاً علم وفضل، تقویٰ وپرہیز گاری، فضائل ومناقب ، خطبے اور تقریریں ، خطوط ونصیحتیں اور کلمات قصار (موعظہ) ، احتجاجات اور مناظرے ، آپ کے اصحاب اور ساتھی اور ان کے حالات ، معجزے اور کرامتیں ، فیصلے اور تعجب خیز قضاوتیں وغیرہ جیسی بحثوں کو اس کتاب میں ذکر نہیں کیا ہے کیونکہ یہ تمام عنوانات خود ایک الگ موضوع ہیں جس پر الگ الگ کتابیں درکار ہیں ۔
مؤلف کتاب '' فروغ ولایت '' اپنی تمام تر عاجزی کے ساتھ معترف ہے کہ وہ امام علیہ السلام کی نورانی زندگی کا ایک ادنیٰ سا پہلو بھی پیش کرنے سے قاصر رہا ہے لیکن اس بات پر مفتخر ہے کہ وہ حضرت یوسف کے خریداروں کی فہرست میں شامل ہوگیا ہے اگرچہ اس مختصر سے بہانے ، کہ اس زمانے کے یوسف کی نظر رحمت کا بھی حقدار نہ ہوسکے ، لیکن کیا کرے :
ماکل مایتمنیٰ المرء یدرکہ
تجری الریاح بما لا تشتھی السّفن
جعفر سبحانی
قم، مؤسئسہ امام صادق ـ
١٥ رجب ١٤١٠ ھ
٢٢ بہمن ١٣٦٨ ش
|