شعروادب فارسی
نظیری نیشاپوری
قسم بہ جان تو ای عشق ای تمامیِ ھست
کہ ھست ھستیِ ماازخمِ غدیرِتومَست
در آن خجستہ غدیرتودیددشمن ودوست
کہ آ فتاب بودآفتاب برسرِدست
فرازمنبر یوم الغدیراین رمزاست
کہ سرزجیب محمدعلی برآوردہ
حدیث لحمک لحمی بیان این معناست
کہ برلسان مبارک پیمبرآوردہ
”اے وجود کامل اے عشق تیری جان کی قسم کہ ھماری ھستی تیرے غدیر کے خم سے مست ھے۔
تیرے اس خجستہ اور مبارک غدیر میں دشمن اور دوست نے دیکھاکہ ایک آفتاب دوسرے آفتاب کے ھاتھوں پرتھا۔
یوم الغدیر کے منبر کے اوپر یہ راز ھے کہ محمد کے وجود سے علی نکلے ۔
حدیث” لحمک لحمی“ اس معنی کی بیان گر ھے کہ جس کو نبی (ص) نے اپنی زبان پر جاری کیا“
محمدجوادغفورزادہ(شفق)
جلوہ گرشدباردیگرطورسینادرغدیر
ریخت از خم ولایت می بہ مینادرغدیر
رودھابایکدگرپیوست کم کم سیل شد
موج می زدسیل مردم مثل دریادرغدیر
ھدیہٴ جبریل بود<الیوم اَکمَلْتُُ لَکُم>
وحی آ مددرمبارک بادمولی درغدیر
باوجودفیض<اَتْمَمتُ عَلَیکم نعمَتی>
ازنزول وحی غوغابودغوغادرغدیر
برسردست نبی ھر کس علی رادیدگفت
آفتاب وماہ زیبابودزیبادرغدیر
برلبش گلواژہٴ<مَنْ کُنْتُ مَولا>تانشست
گلبن پاک ولایت شدشکوفادرغدیر
(برکہٴ خور شید)درتاریخ نامی آشناست
شیعہ جو شیدہ ست ازآن تاریخ آنجادرغدیر
گرچہ درآن لحظہٴ شیرین کسی باورنداشت
می توان انکاردر یاکردحتی درغدیر
باغبان وحی می دانست ازروزنخست
عمرکوتاھی ست درلبخندگلھادرغدیر
دیدہ ھادرحسرت یک قطرہ ازآن چشمہ ماند
این زلال معرفت خشکیدآیادرغدیر؟
دل درون سینہ ھا در تاب وتب بود ای دریغ
کس نمی داند چہ حالی داشت زھرا درغدیر
” غدیر میں ایک بار پھر طور سینا متجلی هوگیاغدیر میںخم ولایت سے مینا میں شراب گری
دریا ایک دوسرے سے مل گئے اور رفتہ رفتہ سیلاب بن گئے غدیر میں لوگوں کا سیلاب دریا کی طرح مو جیں مار رھاتھا۔
غدیر میں جبرئیل کا ھدیہ ”الیوم اکملت لکم دینکم “تھاغدیر میں مولائے کائنات کو مبارکباد پیش کرنے کے لئے وحی نازل هوئی۔
”اتممت علیکم نعمتی “نبی کے فیض ِ وجود کی بناپرغدیر میں بہت شور وغل تھا۔
نبی کے ھاتھوں پرجس نے بھی علی کو دیکھا اس نے کھاغدیر میں آفتاب و ماہتاب نھایت ھی خوبصورت تھے ۔
حضور لب مبارک پر جیسے ھی ”من کنت مو لاہ “آیاغدیر میں ولایت کا چمن کھل اٹھا۔
تاریخ میں خورشید کا تالاب آشنا نام ھے وھاں غدیر میں اس سے شیعہ وجود میں آئے ھیں۔
اگرچہ اس شیرین لمحہ میں کسی کو یقین نھیں تھا کہ غدیر میں بھی دریا کا انکار کیا جا سکتا ھے ۔
غدیر میں وحی کا باغبان پھلے دن سے ھی جانتا تھا کہ غدیر میں پھولوں کی مسکراہٹ کی عمر مختصر ھے
اس چشمہ کی ایک بوند کی حسرت میںآنکھیں کھلی رھیں کیا غدیرمیں یہ معرفت کا چشمہ ٴ زلال خشک هوگیا۔
بیشک سینوں کے اندر دل بے چین تھے کہ کسی کو نھیں معلوم کہ غدیرمیںجناب فاطمہ (ص) کی کیا حالت تھی ؟“
سید رضا موید :
از ولا یتعھدی حیدرخدا تاج شرف
باردیگر بر سر زھرا ی اطھر می زند
در حریم ناز وعصمت زین ھمایون افتخار
فاطمہ لبخندبرسیمای شوھرمیزند
این بشارت دوستان راجان دیگر می دھد
دشمنان را این خبر ،بر قلب خنجر می زند
باز تابید از افق روز درخشانِ غدیر
شد فضا سر شار عطرِگل زبستان غدیر
موج زددریای رحمت در بیابان غدیر
چشمہ ھای نو رجاری شد زدامان غدیر
شد غدیر خم تجلیگاہ انوار خدا
تا در آنجا جلوہ گر شد نور مِصباحُ الھُدا
آفرینش را بُوَد بر سوی آن سامان نگاہ
ماسوی اللّٰہ منتظر تا چیست فرمان اِلہ
ناگھان خَتمِ رُسُل آن آفتاب دین پناہ
بر فراز دست می گیردعلی را ھمچو ماہ
تا شناساند بہ مردم آن ولی اللّٰہ را
والِ مَن والا ہ خواند ،عادِمَن عادہ را
ای غدیر خم کہ ھستی روز بیعت باامام
بر تو ای روز امامت از ھمہ امت سلام
از تو مُحکم شد شریعت ،وز تو نعمت شد تمام
مابہ یاد آن مبارک روز و آن زیبا پیام
ازوِلای مُرتضی دل را چراغان می کنیم
بار علی بار دگر تجدید پیمان می کنیم
خط سُرخی کز غدیر خم پیمبر باز کرد
باب رحمت را از اول تا آخر باز کرد
بر جھان ما سوی حق را ہ دیگر باز کرد
از بھشت آرزوھا بر بشر دَر باز کرد
از غدیر خم کمالِ شرع پیغمبر شدہ است
مُھر این فرمان بہ خون مُحسن و اصغر شدہ است
این خدائی روز ،بر شیر خدا تبریک باد
بر تمام اَنبیا واولیا تبریک باد
یا امام العصر این شادی تو را تبریک باد
چھاردہ قرن امامت بر شما تبریک باد
سینہ ھا از داغ ھِجران داغدارت تابہ کِی
چون(موٴید) شیعیان در انتظارات تابہ کِی
”خدا نے حیدر کی ولایت عھدی کاتاج شرف دوسری مرتبہ زھرائے اطھر کے سر پر رکھا
اس قابل فخر کی ھستی کی بنا پرحریم عصمت میںفاطمہ (ص) اپنے شوھر نامدار کے چھرے کو دیکھ کر مسکراتی ھیں
یہ بشارت دوستوں کا حو صلہ بڑھا تی ھے اور اس خبر سے دشمنوں کے دل پرخنجر لگتا ھے ۔
زمین سے دوبارہ غدیر کا چمکتا هوا دن نکلابوستان غدیرکے پھول سے فضا معطر هو گئی
صحرائے غدیر میں دریائے رحمت موج مارنے لگاغدیر کے دامن سے نورکے چشمے بہنے لگے
غدیر خم انوار خدا کی تجلی گاہ بن گیایھاں تک کہ وھاں سے مصباح الھدیٰ کا نور جلوہ گر هو گیا
خدا کے علاوہ خلقت کی نگاہ اس طرف تھی سب منتظر تھے کہ خدا کا فرمان کیا ھے ؟ناگھاں خاتم الانبیاء چاند کی طرح علی کو ھاتھوں پر اٹھایا۔
تاکہ لوگوں کو اس ولی اللہ کا تعارف کرائیں اور وال من والاہ اور عاد من عاداہ کھیں
اے غدیر خم امام کی بیعت کے دن تیرا کیا کہنااے روز امامت ساری امت کا تجھے سلام
تیری بنا پر شریعت محکم هوئی اور نعمت کا مل هوئی ھم
اس مبارک دن اورنیک پیام کی یاد میں
علی مرتضیٰ کی محبت کی بنا پردل کو چراغاں کرتے ھیں
علی کے ساتھ دوبارہ تجدید عھد کرتے ھیں ۔
”غدیر خم سے پیغمبر(ص) نے جو سرخ راستہ کھولاتو گویا ابتدا سے انتھا تک باب رحمت کھول دیا
ھمارے دنیا کے لئے حق کی جانب ایک اور راستہ کھول دیا
لوگوں کے لئے جنت کی امیدوں کا ایک اور راستہ کھول دیا
غدیر خم سے پیغمبر کی شریعت کا مل هوئی ھے
اس دستاویز کی مھر جناب محسن اور علی اصغر (ع) کے خون سے لگی ھے
یہ خدائی دن شیر خدا کو مبارک هو
اے امامت کی چودہ صدیوں تم کو مبارک هو
تمھارے سینے کب تک داغ حجراں سے داغدار رھیں گے
موٴید کی طرح شیعہ تیرے انتظار میں کب تک رھیں گے “
مصطفی محدّثی خراسانی
ملتھب درکنار برکہ روح تاریخ پیر منتظر است
دست خور شید تانھد دردست آسمان در غدیر منتظر است
برسر آسمانی آن ظھر آیہ ھای شکوہ نازل شد
مژدہ دادند آیہ ھای شکوہ دین احمد تمام کامل شد
ایک حوض کے کنارے تاریخ کی بے چین روح منتظر ھے تاکہ آسمان غدیر ھاتھ میں خورشید کا ھاتھ رکھ دے
پس دور پھر میں با شکوہ آیات نازل هوئیں
باعظمت آیات نے خو شخبری دی کہ دین کامل هوگیا
حاج غلامر ضا ساز گار
غدیر عیدھمہ عُمْرباعلی بودن غدیر آینہ دارعلی ولی اللہ ست
غدیر حاصل تبلیغ انبیا ھمہ عمر غدیر نقش ولای علی بہ سینہٴ ماست
غدیر یک سند زندہ یک حقیقت محض غدیر ازدل تنگ رسول عقدہ گشاست
غدیر صفحہٴ تاریخ وال من والاہ غدیر آیہٴ توبیخ عاد من عادست
ھنوز لالہٴ (اکملت دینکم )روید ھنوز طوطی (اتممت نعمتی )گویاست
ھنوز خواجہٴ لولاک رانِداست بلند کہ ھرکہ راکہ پیمبر منم علی مولاست
بگوکہ خصم شودمنکر غدیرچہ باک کہ آفتاب بہ ھرسو نظرکنی پیداست
چوعمر صاعقہ کوتاہ باد دورانش خلافتی کہ دوامش بہ کشتن زھراست
”غدیر ساری زندگی علی کے ساتھ رہنے کی عید ھے غدیر علی ولی اللہ کی آئینہ دار ھے
غدیر انبیاء کی ساری عمر تبلیغ کا نتیجہ ھے غدیر ھمارے سینوں پر علی کی ولایت کا نقش ھے
غدیر ایک زندہ سنداور ایک خالص حقیقت ھے غدیر رسول کے پریشان دل کا عقدہ کھولتی ھے
غدیر وال من والاہ کی تاریخ کا صفحہ ھے غدیر عاد من عاداہ کی مذمت کی آیت ھے
ابھی” اکملت دینکم “کا پھول اگتا ھے ابھی ”اتممت نعمتی“ کی صدا بلند ھے
ابھی سید لولاک کی صدا بلند ھے کہ جس کا میں پیغمبر هوں علی اس کے مولا ھیں
کھدو اگر دشمن غدیر کا انکار کردے تو کیا ڈر کیونکہ ھر طرف آفتاب نظر آئے گا
اس خلافت کا زمانہ بجلی کی مدت کی طرح مختصر هو جائے جس کی بقا سید ہ ٴ کونین کو شھید کرنے کے ذریعہ ھے
دکتریحیی حدّادی ابیانہ
ستارہٴ سحر از صبح انتظار دمید
غدیر از نفس رحمت بھار چکید
گرفت دست قدر،رایت شفق بر دوش
زمین بہ حکم قضا آب زندگی نوشید
برآسمان سعادت ز مشرق ھستی
سپیدہ داد نویدِ تولدِ خورشید
بہ باغ ،بلبل شوریدہ رفت بر منبر چو از نسیم صبا بوی عشق یار شنید
زخویش رفتہ ،نواخوان عشق بود وسرود
بہ بانگ زیر وبم،اسرار خطبہٴ توحید
فتاد غلغلہ در باغ و شورشی انگیخت
کہ خیل غنچہ شکفت وبہ روی او خندید
ھوا زعطر گلاب محمدی مشحون
زمین بہ عترت وآل رسول بست امید
رسول،سدرہ نشین شد ،علی بہ صدر نشست
پیِ تکامل دینش خدای کعبہ گزید
گرفت پرچم اسلام را علی در دست
از این گزیدہ زمین وزمان بہ خود بالید
بہ یُمنِ فیضِ ولایت شراب خمّ اَلَست
بہ عشق آل علی از غدیر خم جوشید
”صبح انتظار سے ستارہ چمکا غدیر رحمت بھار کے سانس سے ظاھر هوئی
شفق کے پرچم کو قدر کے ھاتھوں نے دوش پر اٹھایا زمین نے قضا کے حکم سے آب حیات پیا
آسمان سعادت پرمشرق وجود سے خورشید کے طلوع هونے کی خبر سپیدہٴ صبح نے دی
بلبل باغ میں منبر پر اس وقت گئی جب اس نے نسیم صبا کے عشق یار کی خوشبو سونگھی
عشق کا نوا خواں بے هوش هو گیا تھا اور اس نے با آواز بلند خطبہ تو حید کے اسرار پڑھ کر سنائے
باغ میں شور مچ گیاکلیاں کھل کھلاکر مسکرا اٹھیں
فضا گلاب محمدی کے عطر سے معطر هو گئی زمین نے آل محمد سے امید لگا ئی
رسول سدرة المنتھیٰ پر بیٹھ گئے علی صدر نشین هو گئے
خدائے کعبہ نے اپنا دین کا مل کر لیا
علی نے پرچم اسلام کو ھاتھ میں پکڑ لیا اس انتخاب سے زمین و زمان پھولے نہ سمائے
فیض ولایت کی برکت سے ”اَلَسْتُ “کے خم کی شراب آل علی کے عشق میںجوش مارنے لگی “
محمد علی سالا ری
سر زد از دوش پیمبر ،ماہ در شام غدیر
تا کہ جبرائیل او را داد پیغام غدیر
مژدہ داد او را ز ذات حق کہ بافرمان خویش
نخل ھستی بارو بر آرد در ایام غدیر
دین خود را کن مکمَّل با ولا ی مرتضیٰ
خوف تاکی باید از فرمان و اعلا م غدیر
می شود مست ولای مرتضیٰ،از خود جدا
ھرکہ نوشد جرعہ ای از بادہٴ جام غدیر
شد بپا ھنگامہ ای درآسمان ودر زمین
تا ولایت شد علی را ثبت ،ھنگام غدیر
شور شوقی شد در آن صحرای سوزان حجاز
مرغ اقبال آمد وبنشست بر بام غدیر
عشق مولا در دلم از زاد روز من نشست
جبینم حک بود تا مرگ خود نام غدیر
” دوش پیغمبر (ص) سے شام غدیر میںچاند چمکا یھاں تک کہ جبرئیل نے حضور کوپیغام غدیر پهونچایا
خدا کی جانب سے حضور کے لئے خوشخبری دی کہ اپنے حکم سے کہ تم میوہ دار درخت خرما هو جس کے پھل ایام غدیر میں نکلیں گے
ولائے مرتضیٰ سے اپنا دین مکمل کرو اعلان غدیر کرنے سے کب تک ڈرتے رهوگے
ولائے مرتضیٰ میں مست انسان خود سے بے خود هو جاتا ھے جو بھی جام غدیر کا ایک گھونٹ پی لیتا ھے
آسمان و زمین میں ایک ہنگامہ هو گیا یھاں تک کہ غدیر کے وقت علی کی ولایت ثبت هو گئی
حجاز کے اس تپتے صحرا میں ایک جوش و ولولہ پیدا هو گیا قسمت کا پرندہ بام غدیر پرآکر بیٹھ گیا
میرے دل میں مو لائے کا ئنات کا عشق میری ولادت کے دن سے ھی بیٹھ گیامیری پیشا نی پر مرتے دم تک غدیر کا نام کندہ رھے گا “
محمود شاھرخی
بہ کا م دھر چشاندی مِیی ز خم غدیر
کہ شورو جوشش آن در رگ زمان جاری است
زچشمہ سارو لای تو ای خلا صہٴ لطف
بہ جو یبار زمان فیض جاودان جاری است
”تم نے زمانہ کو غدیر خم کی شراب چکھا دی جس کا جوش زمانہ کی رگ میں جاری ھے
اے خلاصہٴ لطف تیری ولایت کے چشمہ سے زمانہ کی نھر کی جا نب ھمیشگی فیض جا ری ھے “
حکیم ناصر خسرو
بیا ویزد آن کس بہ غدر خدا ی کہ بگریزد از عھد روز غدیر
چہ گوئی بہ محشر اگر پرسدت از آن عھد محکم شبر یا شبیر
”جوشخص عھد غدیر سے فرار اختیار کرے گا وہ خداکے عذاب میں مبتلا هوگا
اگر تم سے اس شبیر و شبر کے محکم عھد کے بارے میں سوال کیا جائے تو تم کیا جواب دوگے “
طائی شمیرانی
سائباں با ور نکردم مہ شود بر آفتاب تا ندیدم بر فراز دست احمد بو تراب
آری آری ماہ بر خو رشید گردد سا ئباں مصطفےٰ گر آفتاب آید علی گر ما ھتاب
”مجھے یقین نھیں آیا کہ سورج کے اوپرچاند کا سایہ هو سکتا ھے جب تک میں نے احمد کے ھاتھوں پرابو تراب کو نھیں دیکھا تھا ۔
ھاں ،ھاں چاند خورشید کے لئے سائبان بن سکتا ھے اگر مصطفےٰ آفتاب هوں اور علی ما ہتاب“
طاھرہ مو سوی گرما رودی
ای شرف اھل ولایت ،غدیر بر کہٴ سر شار ھدایت ،غدیر
زمزم و کو ثر زتو کی بہتر ند آبرو ی خویش زتو می خرند
این کہ کند زندہ ھمہ چیز آب ز آب غدیر است نہ از ھر سراب
از ازل این بر کہ بجا بودہ است آینہٴ لطف خدا بودہ است
”اے اھل ولایت کے شرف غدیر ھدایت کے سرشار حوض غدیر
زمزم و کوثر تجھ سے کب بہتر ھیںاپنی آبرو تجھ سے خریدتے ھیں
یہ جو کہتے ھیں کہ پانی تمام چیزوں کو زندہ کرتا ھے اس سے مراد آب غدیر ھے نہ ھر سراب
یہ حوض ازل سے قائم تھاآئینہ ٴ لطف خدا تھا “
مکرم اصفھا نی
اندیشہ مکن زانکہ کند و سوسہ خناس
در باب علی یعصمک اللہ من الناس
باید بشناسانیش امرو ز بہ نشناس
بازار خَزَف بشکنی از حُقّہٴ الماس
حق را کنی آنگو نہ کہ حق گفت مد لّل
”خیال بد مت کروکیونکہ خناس وسوسہ کرتا ھے
علی کے سلسلہ میں خدا تم کو لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا
آج تم ان کا نا جاننے والوں کے سامنے تعارف کرادو
اینٹ ،پتھر اور الماس میں فرق ڈالو
جس طرح خدا نے کھا ھے حق کو دلیل کے ساتھ ثابت کرو
خو شدل کرما نشاھی
در غدیر خم نبی خشت از سر خم بر گرفت
خشت از خم ولا ی ساقی کو ثر گرفت
از خم خمر خلافت در غدیر خم بلی
ساقی کو ثر ز دست مصطفی ساغر گرفت
غدیر خم میں نبی نے خم سے اینٹ لی
ساقی کو ثر کی ولایت کے لئے خم سے اینٹ لی
بلیٰ کے غدیر خم میںخلافت کی شرافت کے خم سے
ساقی کو ثر نے مصطفےٰ کے ھاتھ سے ساغر لیا
یو سف علی میر شکاک
ماہ صد آئینہ دارد نیمہ شبھا در غدیر
روز ھا می گسترد خورشید ،خود را بر غدیر
پیش چشم آسمان ،پیشانی باز علی
آفتاب روی زھرا در پس معجر غدیر
”غدیر میں آدھی رات کے وقت چاند کے سو آئینے هوتے ھیں
خورشید خود کو پورے دن غدیر کے اوپرتاباں رکھتاھے
آسمان کی نگاهوں کے سامنے علی کی کھلی هو ئی پیشا نی
غدیر کے بعد گویا جناب فاطمہ زھرا َ کے چھرے کا آفتاب ھے “
سید مصطفی مو سوی گرما رودی
گلِ ھمیشہ بھار غدیر آمدہ است شراب کھنہٴ ما در خم جھان باقی است خدا گفت کہ (اکملت دینکم)آنک نوای گرم نبی در رگ زمان باقی است
قسم بہ خون گل سرخ در بھارو خزان ولایت علی وآل جاودان باقی است
گل ھمیشہ بھارم بیا کہ آیہٴ عشق بہ نام پاک تو در ذھن مردمان باقی است
۔۔۔
”میری بھار کا پھول ھمیشہ غدیر هواھے دنیا کے خم میں ھماری کہنہ شراب باقی ھے
خدا نے اس کے لئے اکملت کھا کیونکہ نبی کی گرم آواز زمانہ کی رگ میں باقی ھے
بھار و خزاں کے سرخ پھولوں کے خون کی قسم علی وآل کی ولایت ھمیشہ باقی رھے گی
میرے ھمیشہ بھاری رہنے والے پھول آ کیونکہ آیہ ٴ عشق تیرے پاک نام کی وجہ سے لوگوں کے ذہن میں باقی ھے
در روز غدیر ،عقل اوّل آن مظھر حق نبیَّ مرسل
چو ن عرش تو را کشید بر دوش آنگاہ گشود لعل خاموش
فرمود کہ این خجستہ منظر بر خلق پس از من است رھبر
بر دامن او ھر آن کہ زد دست چون ذرہ بہ آفتاب پیوست
”غدیر میں عقل اول اور مظھر حق نبی مرسل نے جب آسمان کو دوش پراٹھایا اس وقت گویا هوئے یہ مبارک شخص میرے بعد لوگوں کا رھبر ھے ۔
اس کے دامن سے متمسک رهووہ ذرہ کی طرح آفتاب سے جا ملا“
علی رضا سپاھی لائین
دشت غوغا بود غوغا بود غوغا در غدیر
موج می زند سیل مردم مثل دریا در غدیر
در شکوہ کاروان آن روز باآھنگ زنگ
بی گمان باری رقم می خورد فردا در غدیر
ای فرامو شان باطل سر بہ باطل افکنید
چون پیمبر دست حق را برد بالا در غدیر
حیف اما کاروان منزل بہ منزل می گذشت
کاروان می رفت وحق می ماند تنھا در غدیر !!
”دشت غدیر میں بے حد شور و غل تھا
غدیر میں دریا کی طرح لوگوں کا سیلاب مو جیں مار رھا تھا
اس وفا کے کاروان کی عظمت میں غدیرمیں مستقبل کے سلسلہ میں گفتگو کی جا رھی تھی
اے باطل پرستوں سر جھکالو
جب غدیر میںپیغمبر اپنے دست مبارک کو اٹھائیں
افسوس لیکن کاروان منزل بہ منزل گذر رھا تھا
کاروان جا رھا تھااور حق غدیر میں تنھارھا جا رھا تھا “
محمد علی صفری (زرافشان )
آن روز کہ با پر تو خورشید ولایت
رہ را بہ شب از چار طرف بست محمد
صحرائے غدیر است زیارتگہ دلھا
از شوق علی داد دل از دست محمد
تا جلوہٴ حق را بہ تماشا بنشینند
بگرفت علی را بہ سر دست محمد
”جس دن خورشید ولایت کے پرتو کی بنا پر
محمد نے رات کے لئے چاروں طرف سے راستہ بند کردیا
صحرائے غدیر دلو کی زیارت گاہ ھے
علی کی محبت میں محمد سر شار هوگئے
تاکہ لوگ جلوئہ حق کا نظارہ کریںکہ محمد نے علی کا ھاتھ پکرلیا“
یحیٰ سا قی ای قدت طو بی ای لبت کو ثر
کوثری مِیَم امروز از غدیر خم آور
آور از غدیر خم ،خم خُمَم مِیِ کوثر
من منم بدہ سا غر ،خم خمم بدہ صھبا
بادہ در غدیرم دہ ،از غدیر خم ،خم خم
ھمچون زاھدان شھر ،در غدیر خم شو گم
می زخم وصلم دہ ،تا کف آورم بر لب
خم دل کنم دجلہ ،دجلہ را کنم دریا
”ساقی جس کا قد طوبیٰ کی طرح ھے تیرا لب کو ثر ھے
تو کوثر ھے آج میرے لئے غدیر خم کی شراب لے کر آ
غدیر میں مجھ کو بادہ دے غدیر کا مجھ کو خم دے
شھر کے زاھدوں کی طرح غدیر میں کھوجا
تاکہ میرے لب پرجھاگ آجا ئیں
خم دل کو دجلہ کروں اوردجلہ کو دریا کروں “
ناصر شعار بوذری
گفت بر خیز کہ از یار سفیر آمدہ است
بہ چرا غانی صحرا ئے غدیر آمدہ است
مو ج یک حا دثہ در جان غدیر است امروز
و علی چھرئہ تابان غدیر است امروز
بیعت شیشہ ای و آہن پیمان شکنی
داد از بیعت آبستن پیمان شکنی
پس از آن بیعت پر شور علی تنھا ماند
و وصایای نبی در دل صحرا جا ماند
مو ج آن حا دثہ در جان غدیر است ھنوز
و علی چھرئہ تابان غدیر است ھنوز
”اس نے کا کہ اٹھ یار کا سفیرصحرائے غدیر کی چراغانی لے کر آیاھے
آج غدیر کی جان میں ایک واقعہ کی مو ج ھے
آج علی غدیر کے چھرئہ تاباں ھیں
شیشہ کی بیعت اور پیمان شکنی کا لوھے نے بیعت سے پیمان شکنی کا درس دیا
اس ولولہ انگیز بیعت کے بعد علی تنھا رہ گئے ھیں
نبی کی وصیتیں صحرا میں رہ گئیں
ابھی غدیر کی جان میں اسی واقعہ کی مو جیں ھیںاور ابھی بھی علی غدیر کے رخ تاباں ھیں “
محمد تقی بھار
ای نگار رو حانی ،خیز و پردہ بالا زن
در سرادق لا هوت ،کوس ”لا “و”الّا زن
در ترانہٴ معنی ،دم ز سرّ مو لا زن
و انگہ از غدیر خم با دہٴ تو لّا زن
تا زخود شوی بیرون ،زین شراب رو حا نی
در خم غدیر امروز ،بادہ ای بجوش آمد
کز صفای اورو شن ،جان بادہ نوش آمد
وان مبشّر رحمت ،بازدر خروش آمد
کان صنم کہ از عشاق بردہ عقل وھوش آمد
با ھیولی تو حیددر لباس انسانی
او ست کز خم لاھوت ،نشئا ئہ صفا دارد
در خریطہ ٴ تجرید ،گوھر وفادارد
در جبین جان پاک ، نور کبر یا دارد
در تجلی ادراک جلو ئہ خدا دارد
در رُخَش بود روشن ،راز ھای رحمانی
”اے روحانی نقش اٹھ اور پردہ کو اوپر اٹھا
لاهوت کے ماحول میں لا اور اِلّا کا طبل بجا
معنی کے ترانہ میں مولاکا راز بتا
پھر غدیر خم سے مولا کا جام لا
تا کہ اس روحا نی شراب کی وجہ سے خود سے بھار آجائے
آج خم غدیر میں ایک لاکھ بادہ جوش میں آئے
جس کی صفا سے بادہ نوش کی جان روشن هو گئی
وہ مبشر رحمت پھر جو ش میں آیا
وہ صنم جو عشاق سے لے گیا تھاهوش میں آیا
توحید کی شکل میں انسان کے لباس میں
وہ ھے جو خم لاهوت سے صفا کی ابتدا رکھتا ھے
تجرید سے گوھر وفا رکھتا ھے
جان پاک کی پیشا نی میں نور کبریا رکھتا ھے
تجلی ادراک میں جلوئہ خدا رکھتا ھے
اس کے رُ خ میں روحا نی راز روشن هوتے ھیں “
آیة الله کمپانی
ولا یتش کہ در غدیر شد فریضہ امم
حد یثی ازقدیم بود ثبت دفتر قدم
کہ زد قلم بہ لوح قلب سیّد امم رقم
مکمل شریعت آمد ومتمّم نعم
شد اختیار دین بہ دست صاحب اختیار من
باد ہ بدہ ساقیا ،ولی زخمَّ غدیر چنگ بزن مطربا، ولی بہ یاد امیر
وادی خم ّ غدیر منطقہ نور شد باز کف عقل پیر ،تجلّی طور شد
”ان کی ولایت جو غدیر میں اقوام پر واجب هو گئی
یہ ازل سے دفتر قِدم میں ثبت تھی
قلم نے حضور کے قلب پر لکھاکہ شریعت کامل هوگئی اور نعمت تمام هو گئی صاحب اختیار کے ذریعہ میں نے دین کو اختیار کیا
اے ساقی غدیر خم کا بادہ دے اے مطرب مو لائے کا ئنات کی یاد میں طرب کی باتیں کر
وادی غدیر خم منور هو گئی دوبارہ عقل تجلی طور هو گئی
ناظم زادہ کرمانی :
عارفان راشب قدر است شب عید غدیر بلکہ قدر است ازاین عید مبارک تعبیر
کرد ہ تقدیر بدینسان چو خداوند قدیر ای علی ،ای کہ تویی بر ھمئہ خلق امیر
بھترین شاھد این قصہ بود خمِّ غدیر کرد تقدیر چنین لطف خداوند قدیر
”شب غدیر عارفوں کی شب قدر ھے بلکہ اس عید کوقدر کہنا زیادہ بہتر ھے خدانے یوں فیصلہ کیا کہ اے علی تم تمام مخلوق کے امیر هو
اس قصہ کا بہترین شاھدغدیر خم تھاخدا کے لطف سے یہ فیصلہ هوا “
احمد عزیزی
غدیر خم از غیرت بہ جوش است ببین قرآن ناطق را خموش است
خمّ غدیر از کف این می تَرَست زانکہ علی ساقی این کوثر است
”غدیر خم غیرت کے جوش میں ھے دیکھو کہ قرآن ناطق خا موش ھے
شراب کی وجہ سے ھاتھ سے خم غدیر تر ھے چونکہ اس کو ثر کے ساقی علی ھیں
حالی اردبیلی
صبح سعادت دمید ،عید ولایت رسید فیض ازل یار شد، نوبت دولت رسید
از کر مش برگد ا ،داد ھمی جان فزا گفت بخور زین ھلا ،کز خُم جنت رسید
”صبح سعادت نمودار هو ئی کہ ولایت اب پهونچی فیض ازل یار هوادولت کی نوبت آئی
اس کے کرم سے فقیر کے لئے حوصلہ افزا بات هو گی اس نے کھا اسے کھاؤ کیونکہ یہ جنت کے خم سے آیا ھے
فرصت شیرازی
این خم نہ خم عصیر باشد این خم ،خم غدیر باشد
از خم غدیر می کنم نوش تا چون خم برآورم جوش
”یہ خم انگور کا خم نھیں ھے یہ خم ،خمِ غدیر ھے
میں خم غدیر پیتا هوں تاکہ خم کی طرح جوش میں آجاؤں“
آیة الله میرز ا حبیب خراسانی
امروز بگو ،مگو چہ روز است؟ تا گویمت این سخن بہ اکرام
موجود شد از برای امروز آغاز وجود تا بہ انجام
امروز زروی نص قرآن بگر فت کمال ،دین اسلام
امروز بہ امر حضرت حق شد نعمت حق بہ خلق اتمام
امروز وجود پردہ برداشت رخسارئہ خویش جلو ہ گر داشت
امروز کہ روز دار وگیراست می دہ کہ پیالہ دلپذیر است
از جام وسبو گذشت کارم وقت خم ونوبت غدیر است
امروز بہ امر حضرت حق بر خلق جھان علی امیراست
امروز بہ خلق گردد اظھار آن سرّ نھان کہ در ضمیر است
عالم ھمہ ھر چہ بود وھستند امروز بہ یک پیالہ مستند
”آج کهو ،نہ کهو کو نسا دن ھے تاکہ میں تمھیں یہ بات اچھے انداز میں بتاؤں
آج کے لئے وجود کا آغاز انجام تک موجود هو گیا
آج قرآن کی نص کے اعتبار سے دین اسلام کا مل هو گیا
آج خدا کے حکم سے نعمت حق مخلوق پرکامل هو گئی
آج وجود کا پردہ ہٹا اور رخسارہ جلوہ گر هو گیا
آج جو پریشانیوں کا دن ھے مجھے شراب دے چونکہ پیالہ دل کو لبھانے والاھے
میرا کام جام و صبو سے گذر گیاخم کا وقت اور غدیر کی باری ھے
آج خدا کے حکم سے علی تمام مخلوقات عالم کے امیر ھیں
آج لوگوں پرضمیروں کا پوشیدہ راز آشکار هوجا ئے گا
دنیا جو بھی تھی اور ھے آج ایک پیالہ میں مست ھے “
فارسی ادبیات میں نثر لکھنے والوں نے غدیر کے سلسلہ میں زبر دست قطعے لکھے ھیں جس کے ھم دو نمونہ ذیل میں پیش کررھے ھیں :
غدیر میں گو یا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ فکر فر ما رھے تھے :حضرت علی علیہ السلام کے بغیر کیسے کام کا انجام هو گا ؟
اور حضرت علی علیہ السلام یہ فکر کر رھے تھے کہ :حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بغیر کیسے زندگی بسر هو گی ؟
لوگ اسی آنے اور جا نے کے پس و پیش میں ھیں ایک مشکل میں گرفتار ھیں :
یہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ھیں کہ اگر حضرت علی علیہ السلام کی بیعت کر لی تو باقی رہ جا ئیںگے ۔
یہ علی علیہ السلام ھیں اگر ان کی بیعت توڑ لی تو ھاتھ سے نکل جا ئیں گے !!
لوگوں کے گروہ کس طرح حضرت علی علیہ السلام کے سلسلہ میں فکر کرتے ھیں اور ان کے قائد بیعت کو توڑنے کی سا زش کرتے ھیں ۔۔۔!!؟
اسماعیل نوری علاء
آری ۔۔۔خم ! ھاں ،خم
شربدار ولایت ولایت کی شراب کی جگہ
غدیر حا دثات غدیر واقعات
ومیان منزل افشای راز ھا ست ۔ رازوں کے افشا کے درمیان ھے
بنگریدش اس کو دیکھو
کہ بر اوج دست و بازو دست و بازو کی بلندی پر
در چنگ چنگا لی از نور نور کے پنجہ میں
ایستا دہ است کھڑا ھے
بہ ابر ھا نزدیکتر تا بہ ما ھمارے مقابلہ میں بادلوں سے زیادہ نزدیک ھے
و نگاہ نمی کند نہ در چشمان مشتاق اور مشتاق آنکھوں کو نھیں دیکھتا ھے
نہ در دیدگان دریدہ از حسد ۔ نہ حسد سے پھٹی هو ئی آنکھوں کو
بہ این ترانہ گو ش کنید اس ترانہ کو سنو
کہ در ھفت آسمان می طپد : جو ساتوں آسمانوں میں گونج رھا ھے
”جو مجھ کو اپنا مو لا سمجھتا هواس کو معلوم هوتا ھے کہ میرے برابر میں کھڑا هو ا شخص بھی اس کا مو لا ھے “
آری ھاں
امروز ھمہ چیز کا مل است آج تمام چیزیں کامل هو گئیں
معیاری بہ دنیا آمدہ دنیا کو ایک معیار مل گیا
کہ در سایہ اش جس کے سایہ میں
نیک و بد از ھم مشخصند۔ نیک و بد ایک دوسرے سے ممتاز ھیں۔
شعر اور اردو ادب
پیمبروں نے جو ما نگی ھے وہ دعا ھے غدیر
جو گو نجتی رھے تا حشر وہ صدا ھے غدیر
جو رک سکے نہ وہ اعلان مصطفےٰ ھے غدیر
کہ ابتداء ذو العشیرہ ھے انتھا ھے غدیر
غدیر منزل انعام جا ودانی ھے
غدیر مذ ھب اسلام کی جوانی ھے
غدیر دامن صدق و صفا کی دولت ھے
غدیر کعبہ و قر آن کی ضما نت ھے
غدیر سر حد معراج آدمیت ھے
غدیر دین کی سب سے بڑی ضرورت ھے
غدیر منزل مقصود ھے رسولوں کی
غدیر فتح ھے اسلام کے اصولوں کی
متاع کون و مکاں کو غدیر کہتے ھیں
چراغ خا نہٴ جاں کو غدیر کہتے ھیں
صدا قتوں کی زباں کو غدیر کہتے ھیں
عمل کی روح رواں کو غدیر کہتے ھیں
غدیر منزل تکمیل ھے سفر نہ کهو
نبی کی صبح تمنا ھے دو پھر نہ کهو
ستم کئے ھیں بہت وقت کے شریروں نے
مٹائے نقش وفا خنجروں نے تیروں نے
حدیثیں ڈھا لی ھیں دنیا کے بے ضمیروں نے
فسا نے لکھے ھیں در بار کے اسیروں نے
علی کے لال کا جب ھاتھ تھام لے گی غدیر
ستمگروں سے ضرور انتقام لے گی غدیر
کوہ فاراں سے چلا وہ کا روان انقلاب آگے آگے مصطفےٰ ھیں پیچھے پیچھے بو تراب
فکر کے ظلمت کدے میں نور بر ساتا هوا ذہن کی بنجر زمیں پر پھول بر ساتا هوا
قافلہ تھا اپنی منزل کی طرف یوں گا مزن جیسے دریا کی روانی جیسے سورج کی کرن
خُلق پیغمبر بھی تیغ فا تح خیبر بھی ھے یعنی مر ھم بھی پئے انسانیت نشتر بھی ھے
ذہن کی دیوار ٹو ٹی باب خیبر کی طرح دل میں در وازے کھلے اللہ کے گھر کی طرح
مو ج نفرت میں محبت کے کنول کھلنے لگے خون کے پیا سے بھی آپس میں گلے ملنے لگے
ذو العشیرہ میں هوا پھلے پھل اعلان حق یعنی یہ آغاز تھا آئینہٴ انجام حق
بن گئی ھجرت کی شب دین الٰھی کی سحر بستر احمد پہ سو ئے شیر داور رات بھر
بزم پیغمبر میں دیکھو آدمیت کا جلال یعنی سر داروں کے پھلو میں نظر آئے بلال
آخرش بدر و احد کے معر کے سر هو گئے جب اٹھی تیغ علی پسپاستم گر هو گئے
غدیر نام ھے اللہ کی عبا دت کا غدیر نام ھے انسان کی شرافت کا
غدیر نام ھے نوع بشر کی عظمت کا غدیر نام ھے ربط کتاب و عترت کا
جھاں میں جو ھے اسی اک سفر کا صدقہ ھے
ھر ایک صبح اسی دو پھر کا صدقہ ھے
کھیں سکوں کھیں جھنکار بن گئی ھے غدیر کبھی صدا ئے سرِداربن گئی ھے غدیر
کھیں قلم کھیں تلوار بن گئی ھے غدیر کھیں دعا کھیں انکار بن گئی ھے غدیر
یہ سب اثاثہ ٴ علم و یقین مٹ جاتا
اگر غدیر نہ هو تی تو دین مٹ جاتا
دل پیمبر اعظم کا چین بھی ھے غدیر نمود قوت بدر و حنین بھی ھے غدیر
لب بتول پہ فر یاد و شین بھی ھے غدیر حسن کی صلح بھی جنگ حسین بھی ھے غدیر
کبھی صدا ئے جرس بن کے راہ میں آئی
کفن پہن کے کبھی قتل گاہ میں آئی
نبی کے بعد صف اشقیاء جب آئی تھی عدا وت آل پیمبر کی رنگ لا ئی تھی
ستم پر ستوں نے کب آستیں چڑھا ئی تھی جمل کی اور نہ صفین کی لڑائی تھی
نہ سمجھو تھا وہ شہٴ قلعہ گیر پر حملہ
کیا تھا اھل هوس نے غدیر پر حملہ
یہ آرزو تھی مٹا دیں گے نقش پائے غدیر سمجھ رھے تھے کہ مقتل ھے انتھا ئے غدیر
مگر نہ رک سکی تیغوں سے بھی هوا ئے غدیر سنا ںکی نوک پہ بھی گونج اٹھی صدا ئے غدیر
لهو میں غرق ھر اک حق پسند هو کے رھا
مگر غدیر کا پرچم بلند هو کے رھا
نفاق و کفر کے گھیروں نے را ستہ رو کا جفا و ظلم کے ڈیروں نے راستہ رو کا
جھا لتوں کے اندھیروں نے را ستہ رو کا قدم قدم پہ لٹیروں نے را ستہ رو کا
جو سدّ راہ بصد نخوت و غرور هو ئے
وہ سب غدیر سے ٹکرا کے چورچور هو ئے
جو حق پرست تھے وہ دار پر چڑھا ئے گئے نہ جانے کتنے غریبوں کے گھر جلا گئے
نقوش حق و صدا قت تھے جو مٹا ئے گئے زبا نیں کا ٹی گئیں اور لهو بھا ئے گئے
جو ایک مریض کو بیڑی پہنا نے آئے تھے
وہ سب غدیر کو قیدی بنا نے آئے تھے
ستم گروں سے کهو قتل عام کر تے رھیں نبی کے قول کی تا ویل خام کر تے رھیں
جو کر گئے ھیں اب و جد وہ کام کر تے رھیں ہزار ظلم صبح و شام کر تے رھیں
مگر غدیر کا اعلان رک نھیں سکتا
اٹھا تھا خم سے جو طوفان رک نھیں سکتا
لئے ھے تیغ علی قلعہ گیر کا وا رث نمو د قوت نان شعیر کا وارث
نبی کے لال جناب امیر کا وارث نکل کے آئے گا جس دن غدیر کا وارث
زبان تیغ بتا ئے گی عزّ و شان غدیر
کھیں پناہ نہ پا ئیں گے دشمنان غدیر
جب شکست فاش با طل کو هو ئی جنگاہ میں بد دعا دینے کو آ پهونچے نصا ریٰ راہ میں
تب نبی و فا طمہ حسنین و حیدر آگئے اپنے اھل بیت کو لیکر پیمبر آگئے
منزل خندق پہ پہنچا جب غدیری کا رواں کل ایماں بن کے نکلے تب امام انس و جاں
سورہٴ تو بہ حرم میں لے کے جا ئیگا وھی جس نے چو سی ھے زباں قرآں سنا ئے گا وھی
فتح مکہ میں جھا لت کے صنم تو ڑے گئے پتھروں کے بت روایت کے صنم تو ڑے گئے
آچکا ھے اب وھاں پر کا روان انقلاب انبیاء نے مد توں دیکھا تھا جس منزل کا خواب
هو گیا اعلان جب مو لا علی کے نام کا چھرہ رو شن هو گیا مستقبل اسلام کا
مصطفےٰ کو تا ابد محمود حق نے کر دیا حد پہ جو آئے تو لا محدود حق نے کر دیا
ذمہ دار دین حق پڑھ کر ولا یت هو گئی دو سرے لفظوں میں تو سیع نبوت هو گئی
۔۔۔۔۔۔
بزم ھستی میں جلا ل کبریا ئی ھے غدیر
بھر امت امر حق کی رو نما ئی ھے غدیر
اے مسلماں دیکھ یہ دو لت کھیں گم هونہ جا ئے
مصطفےٰ کی زندگی بھر کی کما ئی ھے غدیر
دا من تا ریخ انسان کی دو لت ھے غدیر
بیکسوں کی شان کمزوروں کی طاقت ھے غدیر
اک ذرا سا ذکر آیا اور چھرے فق هو ئے
دشمنوں کے واسطے روز قیامت ھے غدیر
عظمت دین الٰھی کا منا رہ ھے غدیر
دو پھر میں جو تھا روشن وہ ستارہ ھے غدیر
تھام کر با زوئے حیدر مصطفےٰ بتلا گئے
ایک کیا سا رے رسولوں کا سھارا ھے غدیر
پیچ و خم کو ئی نہ کھا ئی نہ کھا نچہ ھے غدیر
جس میں ڈھلتی ھے صداقت ایسا سا نچہ ھے غدیر
پھر گیا رخ دشمنان مذ ھب اسلام کا
کفر کے رخسار پر حق کا طما نچہ ھے غدیر
منزل تکمیل دین کبریا ئی کی عید ھے
نقطہٴ معراج کار انبیاء کی عید ھے
آدمی کیا عترت و قرآن ملتے ھیں گلے
عید سب بندوں کی یہ دین خدا کی عید ھے
شعر و ادب تر کی
یو سف شھاب
امامی حضرت باری گرَگ ایدہ تعیین
محوّل ھر کَسَہ او لماز امور ربانی
منا دی آیہ ٴ قرآنیدور،علیدی ولی
علینی رد ایلین ،رد ایدو بدی قرآنی
منہ وصی ،سیزہ اولی بنفسدوربو علی
مباد ترک ایلیہ سیز بو وصایانی
بو امر امر الھیدی ،نہ مینم راٴ ییم
امین وَحیِدی نا زل ایدن بو فرمانی
دو توب گو گہ یوزین عرض ایتدی اول حبیب خدا
کہ ای خدا ئے روؤف و رحیم و رحما نی
عم او غلو می دو تا دشمن او کس کہ ،دشمن دوت
محب و نا صر ینہ ،نصرت ایلہ ھر آنی
بو ما جرانی گو رندہ تمام دشمن و دو ست
غریو و غلغلہ دن دو لدی چرخ دا ما نی
او کی محبیدی مسرور او لوب ،عدو غمگین
نہ او لدی حدی سرور ونہ غصہ پایا نی
”امام کو خداوند عالم معین کرتا ھے یہ امر ربانی ھر شخص کے حوالے نھیں کیا جاسکتاھے
علی آیہ ٴ قرآن کے منادی اور خدا کے ولی ھیں،جس شخص نے علی کا انکار کیا اس نے خدا کا انکار کردیاھے
یہ علی میرے وصی اور تم میں سب سے اولیٰ ھیںھر گز ان سفارشات کو ترک نہ کرنا
یہ امر ،امر الٰھی ھے میری اور تمھاری رائے نھیں ھے امین وحی نے یہ فرمان نازل کیا ھے
حبیب خدا نے اپنی صورت آسمان کی طرف کرکے کھااے خداوند رؤوف و رحیم و رحمان جو شخص میرے چچازاد بھائی کا دشمن ھے تو اس کو دشمن رکھ جو اس کو دوست رکھےتو ھمیشہ اس کی مدد کر
تمام دوست اور دشمنوں نے جب یہ ماجرا دیکھا تو دنیا میں خو شی کر لھر دوڑ گئی
دوست خوشحال هوگئے اور دشمن رنجیدہ هوگئے غصہ کافور هوگیا اور خو شی و شادمانی کے حالات فراهو هوگئے “
قمری
حکم خطاب آیہٴ یا ایھا الرسول
تبلیغنہ وصایتوہ مد عا علی
حکم غدیر ہ منزلی حج الوداعدہ
قیلدی سنی یرندہ وصی ،مصطفیٰ علی
”یا ایھا الرسول ۔۔۔کا حکم خطاب ،اے علی تیری وصایت و خلافت کا مدعا ھے
حجة الوداع میں حکم غدیر کے اقتضا کے مطابق پیغمبر اکرم نے تجھے اپنا جا نشین منتخب فرمایا“
یوسف معزی ارد بیلی
پروردگار عالم ایدو بدور حما یتین
بیلد یر دی یر یو زندہ پیمبر رسالتین
گلدی غدیر خُمَیدہ رجعتدہ نا گھان
روح الامین گتور دی پیام و بشارتین
بعد از سلام عرض ایلدی امر ایدور خدا
امّت لَرہ یتور سون علی نون ولا یتین
فرمان و یروب رسول امین کا روان دو شوب
فر ما نیون گور و بدور اولارد ا طاعتین
منبر دو زَلدی چخدی ھمان منبر او ستنہ
اوّل پشیتدی امتی قرآن تلا وتین
خیر البشر علی کمرین دو تدی قا لخِزوب
حضار تا گور و بدور او صاحب شجا عتین
مو لا یم ھر کیمہ دیدی من ھر زماندہ
مو لا سی دور عم او غلوی ھمان با دیانتین
جبریل گتدی آیہ ٴ اکملت دینکم
اسلامون آرترو بدو بو گون حق جلا لتین
”پروردگار عالم نے اپنی حمایت کا اعلان کیا جب رسالت پیغمبر کا زمین پر اعلان فرمایا
ناگھاں غدیر خم آئی روح الامین ان کے لئے پیغام اوربشارت لے کر آئے
سلام کے بعد عرض کیاخداوند عالم کا امر ھے :ولایت علی کا پیغام امت تک پهونچا دیجئے رسول امین کے فرمان سے تمام قافلے ٹھھر گئے انھوں نے بھی رسول کے فرمان کی اطاعت کی
منبر بنایا گیا اور رسول منبر پر تشریف لے گئے پھلے قرآن کی آیت لوگوںکو پڑھ کر سنا ئی
پیغمبر خیر البشر نے علی کو اپنے ھاتھوں پر بلند کیااور حاضرین نے اس صاحب شجاعت شخص کا مشاھدہ کیا ۔
فرمایا :جس شخص کا میں ھر زمانہ میں مو لاهو ں یہ علی بھی اس کے مولا ھیں
جبرئیل آیہ ٴ اکملت لکم دینکم لیکر آئے آج اللہ نے اسلام کی جلالت و عظمت بڑھا دی ھے “
۷ غدیر کی یا دیں
غدیر کی یاد کو زندہ رکھنااس کے مطالب و محتوا کو زندہ رکھنے کا سب سے موٴثر سبب ھے ،طول تا ریخ میں غدیر کی یا دگا ری کے طور پر مختلف چیزیں دیکھنے کو ملتی ھیں چو نکہ مسلمانوںکی مختلف اقوام و ملل نے اپنے حالات کے مطابق اپنے معا شرہ میں غدیر کی یادگا ریں بپا کی ھیں۔
مسجد غدیر ،غدیر کے بیا بان میں مسلمانوں کی زیا رتگاہ کے عنوان سے ایک متبرک جگہ تھی۔غدیر کی یاد میں منا ئی جا نے والی سالانہ محفلیں دو سرے مختلف قسم کے پروگرام ،غدیر کو زندہ کر نے کے دو سرے جلوے ھیں ،غدیرمیں زیارت امیر المو منین علیہ السلام پڑھنا صاحب غدیر سے تجدید بیعت اور غدیر کی یاد کو تازہ کرنے کے لئے ھے ۔ یہ تمام مظا ھرے غدیرکے معتقد معاشروں میں غدیر کی حفا ظت اور اس کے مخا لفوں کے با لمقابل اس کے دفاع کے لئے ھیں ۔ان ھی یادوں کے سایہ میں چو دہ صدیوں سے غدیر تا ریخ اسلام میں درخشاں و تا بندہ ھے اور غدیر کی نا بودی کی ہزاروں سازشیں ناکام هو چکی ھیں ۔
ا مسجد غدیر
غدیر وہ سر زمین مقدس ھے جس نے دسویں ھجری میںپیغمبر اکرم (ص)کے حجة الوداع میں ایک اھم کر دار ادا کیا اور ”و صایت و ولایت “امیر المو منین علی بن ابی طالب اس مقام پر انجام پا ئی آج اس کی کیا حا لت ھے ؟
کیا تا ریخ کایہ اھم نقطہ دشمنی و لجا جت کے گرد و غبار میں فر ا موشی کے سپرد کر دیا گیا ھے؟کیا اس مقدس وا دی کو شیعہ بلکہ دنیا کے تمام مسلمانوں کی زیا رتگاہ نھیں هو نا چا ہئے ؟ کیا چودہ صدیاں گزر نے کے با وجود اس معطرخاک نے رسالت و وصایت کی شمیم روح پرور کی نگھداری نھیں کی ھے ؟کیا ابھی بھی اس مقدس و پا کیزہ سر زمین پر پیغمبر اکرم(ص) اور حضرت علی علیہ السلام کے مقدس قدموں کے نشانات نقش نھیںهوئے؟کیا یھی خاک و بالو اس عظیم منظر کے وا قعہ کے شاھد و گواہ نھیں ھیں ؟کیا غدیر کی اس پگھلا دینے والی گرم هوا کی امواج میں پیغمبر اکرم(ص) کی نجات دینے والی صدا نھیںآ رھی ھے ؟
کیابیت اللہ الحرام کے زا ئروں کو اس سر زمین پاک سے گزر نے اور اپنے روح و جسم کو اس فضا میں تا زگی اور شا دابی سے معطر کر نے کی اجا زت ھے جس ۸ا ذی الحجہ کوپیغمبر اکرم (ص) ملکوتی صدا بلند هو ئی تھی ؟
مسجد غدیرکی تا ریخ
جس دن سے پیغمبر اکرم (ص)نے حضرت علی علیہ السلام کو غدیر خم کے میدا ن میں امامت کے منصب پرمتعا رف فر مایایہ وہ وادی اور مقدس هو گئی ۔دو نورانی ھستیوں حضرت رسول اکرم(ص) اور حضرت علیہ السلام کے ذریعہ اس مقام پر تین دن کے پروگرام نے اس وادی کو ایسی رو حانی کیفیت عطا کر دی کہ چودہ سو سال سے لیکر آج تک (غدیر میں پیغمبر اکرم(ص) کی مسجد )کا نام زبان زد عام ھے اور لاکھوں حا جی خا نہ ٴ کعبہ جا تے اور آتے وقت اس کی زیارت کر تے ھیں اور اس میں نماز پڑھ کر خدا وندعالم سے لو لگا تے ھیں ۔
ائمہ علیھم السلام نے اپنے اصحاب کو غدیر خم کی مسجد کی زیارت کر نے کی تا کید فر ما ئی تھی اوریہ کہ
۱۔بحا رالا نوار جلد ۸ قدیم صفحہ ۲۲۵،جلد ۳۷ صفحہ ا۲۰،جلد ۵۲ صفحہ ۵ حدیث ۴،جلد ۰۰ا صفحہ ۲۲۵۔اثبات الھداةجلد ۲ صفحہ ۷ا حدیث ۶۷ ،صفحہ ا۲ حدیث ۸۷ ،صفحہ ۹۹ا حدیث ۰۰۴ا ۔معجم البلدان جلد ۲ صفحہ ۳۸۹،مصباح المتھجدصفحہ ۷۰۹،الوسیلہ (ابن حمزہ) صفحہ ۹۶ا ۔الغیبہ(شیخ طو سی )صفحہ ۵۵ا۔الدروس صفحہ ۵۶ا۔مزارات اھل البیت علیھم السلام و تا ریخھاموٴلف سید جلا لی صفحہ ۴۲۔
مسجد کی زیارت کر نے سے با لکل غافل نہ هونا ۔حضرت امام حسین علیہ السلام جب مکہ سے کربلاکی طرف تشریف لے جا رھے تھے تو آپ نے غدیر میں توقف فر مایا ۔حضرت امام باقر اور حضرت اما م صادق علیھما السلام مسجد غدیر میں تشریف فر ما هو ئے اور انھوں نے اپنے اصحاب کےلئے غدیر میں هو نے والے پرو گرام کی انھیں نشاندھی کی اور اس کی تشریح فر ما ئی ۔
محدثین اور بڑے علمائے کرام بھی غدیر خم میں آتے اور اس وا دی کا احترام کر تے تھے ۔تیسری صدی ھجری میں علی بن مہز یار اهوا زی اپنے سفر حج کے دوران وھاں پر آئے تھے ۔شیخ طو سی چھٹی ھجری ابن حمزہ ساتویں ھجر ی اور شھید اول اور علامہ حلی آٹھویں صدی ھجری کے کلا م میں ھم مسجد غدیر کا اسم مبارک اور اس کے با قی رہنے کے آثار کے متعلق پڑھتے ھیں ۔
سید حیدر کا ظمی نے ۲۵۰ا ھجری میں مسجد غدیر کے وجود مبارک کی خبر دی ھے اور اس زمانہ میں اگرچہ سڑک غدیر سے بہت دور تھی لیکن غدیر کی مسجد مشهور و معروف تھی ۔محدث نوری نے بھی ۳۰۰اھجری میں اس کے وجودکی خبر دی ھے وہ بذات خود مسجد غدیر میں گئے اور وھاں کے اعمال بجا لائے ۔
مسجد غدیر کا دشمنوں کے ھا تھوں خراب هو نا[143]
جس طرح تاریخ میں غدیر کا پرچم بلند و بالا ھے اور اس سے ”علی ولی اللہ “کا نور در خشاں ھے اسی طرح مسجد غدیر بھی دشمنان و لا یت کی آنکھوں میں خار تھی کہ جس کی مٹی اور اینٹوں کی بنیادیں زندہ سند کے عنوان سے صحرا ئے غدیر کے دل پر درخشاں ھے ۔اسی وجہ سے مو لا ئے کا ئنات سے بغض و عناد رکھنے والے جنھوں نے آپ (ع) کے گھر کوبھی جلا دیا تھا اوران کی اتباع کر نے والوں میں اس طرح کی اعتقاداتی اور تا ریخی عمارت کو دیکھنے کی ھمت نھیں تھی ۔
مسجد غدیر کے آثار جن کی پیغمبر اکر م(ص) اور ان کے اصحاب نے بنیاد رکھی تھی سب سے پھلی مر تبہ عمر بن خطاب کے ذریعہ سے نیست و نابود کئے گئے اور ان کی نشانیوں کو مٹا دیا گیا ۔
حضرت امیر المو منین علیہ السلام کے زمانہ میں اسے دوبارہ زندہ کیا گیا لیکن آپ(ع) کی شھا دت کے بعد معاویہ نے دو سو آدمیو ں کو بھیج کر پھر مسجد غدیر کو خاک میں ملادیا !
بعد کے زمانوں میں پھر مسجد غدیر کو بنا یا گیا اور وہ حجاج کے راستہ کے نزدیک قرار پا نے کی وجہ سے بہت زیادہ مشهور و معروف تھی یھاں تک کہ سنی تا ریخ نو یسوں اور جغرافیہ دانوںنے بھی اس کا نام لیا اور اس جگہ کی نشاندھی کی ھے ۔
سو سال پھلے تک مسجد غدیر اپنی جگہ پر قا ئم تھی اگر چہ مسجد مخالفین کے علاقہ میں تھی لیکن باقاعدہ طورپر محل عبادت اور مسجد غدیر کے نام سے مشهو ر و معروف تھی یھاںتک کہ اس کو آخر ی ضربہ وھا بیوں نے لگایا ۔انھوں نے مسجد غدیر کو بر باد کر نے میں بغض و حسد سے بھرے هو ئے دو اقدام کئے: ایک طرف تو انھوں نے مسجد کو منھدم کیا اور اس کے آثار نیست و نا بود کئے اور دو سری طرف انھوں نے راستہ بدل کراسے مسجد غدیر سے بہت دورکر دیاھے ۔
اسوقت مسجد غدیر کا مقام [144]
غدیر اس وقت بھی بیابان کی صورت میں ھے جس میں ایک تالاب اور پانی کا چشمہ ھے اور مسجد جس کا اب نام و نشان نھیں ھے چشمہ اور تالاب کے درمیان تھی ۔یہ علا قہ مکہ سے دو سو کیلو میٹر کے فاصلہ پر شھر رابغ کے نزدیک جحفہ نامی دیھات کے پاس ھے جو حا جیوں کا میقات ھے اور اب بھی یہ علاقہ غدیر کے نام سے ھی جانا پہچانا جاتا ھے اور وھاں کے باشندے اس کے نام سے بخوبی آگاہ ھیں اور انھیں یہ بھی معلوم ھے کہ شیعہ حضرات اس کی تلاش و جستجو میں وھاں پر آیا کرتے ھیں ۔
اس وقت وادی غدیر تک پہنچنے کے دو راستے ھیں :
ا۔راہ جحفہ
رابغ کے هو ائی اڈے سے لیکر جحفہ نامی دیھات کے شروع هونے تک ،اس کے بعدپانچ کلو شمال کی طرف ریگستان میں قصر علیا تک ریت کے ٹیلوں سے گزر کر ،اس کے بعد چھو ٹے سے بیابان سے گزر کر دائیں طرف غدیر کا راستہ ھے ۔مشرق کی طرف سے غدیر کا فاصلہ میقات جحفہ سے آٹھ کیلو میٹر ھے
۲۔راہ رابغ
مکہ”مدینہ “رابغ روڈ کے چو راھے سے مکہ کی طرف سڑک کے بائیں جانب دس کیلو میٹر اس کے بعد دائیں جانب غدیر کی طرف ایک چھو ٹا راستہ ھے کہ جس کا فا صلہ جنوب مشرق سے رابغ تک ۲۶ کیلو میٹر ھے ۔
اس آرزو و امید کے ساتھ کہ صاحب غدیر کے ظهور کے ساتھ خو شگوار اور روح انگیز علاقہ دوبارہ زندہ هو اور تالاب اور اس کے چشمہ کے درمیان بڑی شان و شوکت کے ساتھ ایک عظیم الشان مسجد کی تعمیر هواور پیغمبر اکرم (ص)کے منبر اور خیمہ کی جگہ مکمل طور پر بنا ئی جا ئے اور پھر سے اس عظیم واقعہ کی یاد تازہ هو اور پوری دنیا کے افراد کی زیارت گاہ بن جا ئے ۔
۲ غدیر کے دن حضرت امیر المو منین علیہ السلام کی زیارت
ھر شیعہ انسان کی یہ دلی آرزو و تمنا ھے کہ اے کاش زمانہ پیچھے پلٹ جاتا اور ھم غدیر میں حا ضر هو تے اور اپنے مو لا کے ھاتھ پر بیعت کرتے اور ان کو مبارکباد دیتے ۔اے کاش حضرت امیر المو منین (ع) اب زندہ هو تے اور ھم ھر سال غدیر خم میں آپ (ع) کی خدمت اقدس میں حا ضر هو تے اور ان سے تجدید بیعت کرتے اور پھر انھیں تبریک و تہنیت پیش کرتے ۔
اس آرزو کا محقق هو نا کو ئی مشکل نھیں ھے ۔نجف اشرف میں آپ(ع) کے حرم مطھر میں حاضر هو نا اور صمیم دل سے آپ (ع) کی ساحت مقدس میں دلی آرزو کے ساتھ آپ(ع) سے گفتگو کرنا شیعہ نظریہ کے مطابق حقیقی بیعت کی تجدید اور واقعی طور پر تبریک و تہنیت کہنا ھے ۔غدیر کا عالم ھستی کے اس دوسرے نمبر کے شخص پرسلام جو ھما ری آواز کو سنتا ھے ھمارا جواب دیتا ھے غدیر میں حا ضر هو نے اور ان کے دست مبارک پر بیعت کر نے کا حکم انھیں کے حو الہ ھے ۔
حضرت امام صادق اور حضر ت امام رضا علیھما لسلام نے سفارش فر ما ئی ھے کہ جس حد تک ممکن هو ھمیں غدیر کے روز حضرت امیر المو منین علیہ السلام کی قبر مبارک کے پاس حا ضر هو نا چا ہئے اور غدیر کی اس عظیم یاد کو صاحب غدیر کے حرم میں منا ئیں ۔یھاں تک کہ اگر ھم ان کے حرم مبارک میں حا ضر نھیں هو سکتے تو ھم کھیں پر بھی هوں ھما رے لئے یھی کا فی ھے کہ ان کی قبر مبارک کی طرف اشارہ کر یں ان پر سلام بھیجیں اور اپنے دل کو حرم مطھر میں حا ضر کریں اور اپنے مو لا سے گفتگو کریں۔[145]
غدیر کی یہ سالانہ یاد غدیر کے واقعہ کو دو بارہ زندہ کرنا اور صاحب غدیر سے تجدید بیعت کر نا ھے اور یہ یاد ائمہ علیھم السلام کے زمانہ سے لیکر آج تک اسی طرح بر قرار ھے ۔سالانہ غدیر کے دن ہزاروں افراد حضرت امیر المو منین علیہ السلام کے حرم مطھر میں جمع هو تے ھیں اور ان کی غلا می کے ھار کو اپنی گردن میں ان کے مبارک ھاتھوں سے ڈالتے ھیں اور اپنے نفوس کے مطلق طور پر ان کے با اختیار هو نے پر فخر کر تے ھیں اور اسے ان کے فرزند حضرت قائم عجل اللہ تعا لیٰ فر جہ الشریف سے بیعت سمجھتے ھیں،وہ ھما رے سلام کا جواب دیتے ھیں اور ھما رے ھاتھ کو اپنے دست ید اللّٰھی سے دبا تے ھیں ۔
حضرت امام ھادی علیہ السلام جس سال معتصم عباسی نے آپ(ع) کو مدینہ سے سا مرا شھر بدر کیا غدیر کے دن نجف اشرف تشریف لا ئے اور اپنے جد محترم حضرت امیر المو منین علیہ السلام کے حرم مطھر میں حاضر هو ئے اور ایک مفصل زیارت میں آپ(ع) (حضرت علی علیہ السلام) سے مخاطب هوکر فر مایا[146] یہ زیارت مطالب و محتوا کے اعتبار سے شیعوں کے حضرت امیر المو منین علیہ السلام کے بارے میں عقائداور آپ(ع) کے فضائل اور محنت و مشقت کاایک مکمل مجموعہ ھے ۔اس مقام پر ھم اپنے تجدید عھد کے لئے اس زیارت کے چند جملے بیان کر تے ھیں نیزان دعاؤں کا بھی تذکرہ کریں گے جن میں مسئلہ ٴ غدیر بیان کیا گیا ھے۔
ا۔دعائے ندبہ میں آیا ھے :
فَلَمَّااِنْقَضَتْ اَیَّامُہُ اَقَامَ وَلِیَّہُ عَلِیَّ بْنَ طَالِبٍ صَلَوَاتُکَ عَلَیْہِمَاوَآلِہِمَا ھَادِیاًاِذْکَانَ ھُوَالْمُنْذِرُوَلِکُلِّ قَوْمٍ ھَادٍفَقَالَ وَالْمَلَاُاَمَامَہُ”مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاہُ،اللَّھُمَّ وَالِ مَنْ وَالَاہُ وَعَادِمَنْ عَادَاہُ وَانْصُرْمَنْ نَصَرَہُ وَاخْذُلْ مَنْ خَذَلَہُ“
”پھر جب آپ (ع) کی رسالت کے دن تمام هو گئے تو انھوں نے اپنے ولی علی بن ابی طالب علیہ السلام کو قوم کا ھا دی مقرر کر دیا اس لئے کہ خود عذاب الٰھی سے ڈرا نے والے تھے اور ھر قوم کے لئے ھا دی کی ضرورت ھے آپ نے مجمع عام میں اعلا ن کر دیا جس کا میں صاحب اختیار هوں اس کے یہ علی (ع) صاحب اختیار ھیںخدا یا جو اسے دو ست رکھے اسے دوست رکھ اورجو اس سے دشمنی کرے اسے دشمن رکھ اور جو اس کی مدد کرے اس کی مدد کر اور جو اسے چھوڑ دے اسے ذلیل و رسوا کر “
۲۔دعا ئے عدیلہ میں آیا ھے :
آمَنَّابِوَصِیِّہِ اَلَّذِیْ نَصَبَہُ یَوْمَ الْغَدِیْرِوَاَشَارَبِقَوْلِہِ ”ھٰذَا عَلِیٌ“اِلَیْہِ “
”ھم ایمان لا ئے ان کے وصی پر جن کو غدیر کے دن منصوب کیا اور اپنے اس قول کے ذریعہ اشارہ فر مایا کہ علی میرے جا نشین ھیں “
۳۔زیارت غدیر میں آیا ھے :
اَلسَّلَا مُ عَلَیْکَ یٰا مَوْلاٰیَ وَمَوْ لَی الْمُوْ مِنینَ ۔
السّلاٰمُ عَلَیْکَ یٰا دینَ اللہِ الْقَو یمَ وَصِرٰطَہُ الْمُسْتَقیمَ ۔
اَشْھَدُ اَنَّکَ اَخُورَسُولِ اللہِ صلی اللہ علیہ آلہ ۔۔۔وَاَنّہُ قَدْ بَلَّغَ عَنِ اللہِ مٰا اَنْزَلَہُ فیکَ،فَصَدَعَ بِاٴمْرِہِ وَاَوْجَبَ عَلیٰ اُمَّتِہِ فَرْضَ طٰاعَتِکَ وَوِلاٰیَتِکَ وَعَقَدَ عَلَیْھِمُ الْبَیْعَةَ لَکَ وَجَعَلَکَ اَوْلیٰ بِالْمُوْمِنینَ مِنْ اَنْفُسِھِمْ کَمٰاجَعَلَہُ اللہُ کَذٰلِکَ ثُمَّ اَشْھَدَاللہَ تَعٰالیٰ عَلَیھم فَقٰالَ اَلَسْتُ قَدْ بَلَّغْتُ ؟فَقٰا لُوااللھم ۔بلیٰ ۔فقال: اللّٰھُمَّ اشْھَدْ وَکَفٰی بِکَ شَھیداًوَحَاکِماً بَیْنَ الْعِبٰادِ فَلَعَنَ اللہُ جٰاحِدَ وِلاٰیَتِکَ بَعْدَ الاِقْرٰارِوَنٰاکِثَ عَھْدِکَ بَعْدَ الْمیثٰاقِ ۔
”سلام هو آپ پر اے میرے مو لا اور مومنوں کے مولا۔
سلام هو آپ پر اے اللہ کے دین محکم اور اس کے صراط مستقیم
میں گو اھی دیتا هوں کہ آپ رسول خدا(ص) کے بھا ئی ھیں ۔۔۔اور میں گو اھی دیتا هوں کہ انھوں نے آپ کے سلسلہ میں اللہ کی طرف سے جو نا زل هوااسے پہنچا دیا اور خدا کے امر کو اجرا کیا اور انھوں نے اپنی امت پر آپ کی اطاعت اور ولا یت کوواجب کیا اور انھوں نے امت سے آ پ کے لئے بیعت لی اور آپ کو مو منین پر ان کے نفسوں کے مقابلہ میں اولیٰ قرار دیا جیسا کہ انھیں اللہ نے ایسا ھی بنایا تھا۔ پھر اللہ کو ان پر گواہ بنایا اور کھا کیا میں نے پہنچا دیا ؟ان لوگوں نے کھا ھاں پہنچا دیا پھر فر مایا خدا یا گواہ رہنا کیونکہ تیری گو اھی کا فی ھے اور تیرا حکم بندوں کے درمیان کا فی ھے پس خدا کی لعنت هو تیری و لایت کا اقرارکر نے کے بعد انکار کر نے والے پر اور عھد کے بعد عھد شکنی کر نے والے پر“
۴۔ غدیر کی زیارت کے دوسرے حصہ میں یوں آیاھے:
اَشْھَدُ اَنَّکَ اَمیرُ الْمُوْ مِنین الْحَقُّ الَذِی نَطَقَ بِوِلاٰیَتِکَ التَّنْز یلُ وَاَ خَذَ لَکَ الْعَھْدَ عَلَی الْاُ مَّةِ بِذٰ لِکَ الرَّ سُولُ۔
اَ شْھَدُ یٰااَمیرَالْمُوْمِنینَ اَنَّ الشٰاکَّ فیکَ مٰاآمَنَ بِالرَّسُولِ الْاَمینِ وَاَ نَّ الْعٰادِلَ بِکَ غَیْرَکَ عٰانَدَ عَنِ الدینِ القویم الَّذِیْ ارْتَضَاہُ لَنَارَبُّ الْعَالَمِیْنَ وَاَکْمَلَہُ بِوِلَایَتِکَ یَوْمَ الْغَدِیْرِ۔ضَلَّ وَاللّٰہِ وَاَضلَّ مَنِ اتَّبَعَ سِوٰ اکَ وَعَنَدَ عَنِ الْحَقَّ مَنْ عٰادٰاکَ۔
میں گوا ھی دیتا هوں کہ آپ برحق امیر المو منین ھیں آ پ کی ولایت پر قرآن نا طق ھے اور رسول نے اس کا عھد اپنی امت سے آپ کے با رے میں لے لیا ھے۔
اے امیر المو منین آپ کے با رے میں شک کرنے والا پیغمبرامین پر ایمان نھیں لایا اور جس نے آپ کوکسی غیر کے برابر قرار دیاوہ دین محکم کا دشمن ھے جس کو خدا وند عالم نے ھما رے لئے پسند کیا ھے اور جس کو آپ کی ولایت کے ذریعہ روز غدیر مکمل کیا ھے۔
خدا کی قسم وہ گمراہ هوا اور دوسروں کو گمراہ کیا جس نے تیرے علا وہ کسی اور کا اتباع کیا “
۵۔زیارت غدیر کے ایک اور مقام پر آیا ھے :
اَ شْھَدُ اَنَّکَ مَااتَّقَیْتَ ضٰارِعاًوَلاٰاَمْسکْتَ عَنْ حَقِّکَ جٰازِعاًوَلاٰ اَحْجَمْتَ عَنْ مُجاھَدةِ غٰاصِبیکَ نٰاکِلاًوَلاٰاَظْھَرْتَ الرِّضٰابِخِلاٰفِ مٰایُرْضِی اللہَ مُدٰاھِناًوَلاٰوَھَنْتَ لِمٰااَصٰابَکَ فی سَبیلِ اللہِ وَلاٰضَعُفْتَ وَلاَاسْتَکَنْتَ عَنْ طَلَبِ حَقِّکَ مُرَاقِباً ۔
مَعَاذَاللہِ اَنْ تَکُوْ نَ کَذَالِکَ، بَلْ اِذْظُلِمَتَ احْتَسَبْتَ رَبَّکَ وَفَوَضّْتَ اِلَیْہِ اَمْرَکَ وَذَکَّرْتَھُمْ فَمَاادَّکَرُوْاوَوَعَظْتَھُمْ فَمَااتَّعَظُوْاوَخَوَّفْتَھُمْ فَمَا تَخَوَّفُوْا ۔
اور میں گو ھی دیتا هوں کہ آپ نے ذلت کی وجہ سے تقیہ نھیں کیا اور نہ آپ اپنے حق سے عاجزی کی وجہ سے رکے اور نہ آپ نے اپنے غاصبوں کے مقابلہ میںعقب نشینی کرتے هوئے صبر کیا اور نہ آپ نے کسی سازش کے تحت خدا کی مر ضی کے خلاف مطلب کا اظھار کیا اور جو آپ کو راہ خدامیں تکلیف هو ئی تو اس کو کمزوری اور سستی کی وجہ سے قبول نھیں کیا اور خوف کی وجہ سے اپنے حق کے مطالبہ میں کو ئی کو تا ھی نھیں کی ۔
معاذ اللہ آپ ایسا کیسے کر سکتے ھیں بلکہ جب آپ پر ظلم کیا گیا تو آپ نے رضائے خدا کو نگاہ میں رکھا اور اپنا امر اللہ کے حوالہ کر دیا اور آپ نے ظالموں کو نصیحت کی لیکن انھوں نے قبول نھیں کیا آپ نے ان کو مو عظہ کیا انھوں نے نھیں مانا آپ نے انھیںخدا سے ڈرایا لیکن وہ خائف نھیں هوئے ۔
۶۔زیارت غدیرکے ایک اور مقام پر آیا ھے :
لَعَنَ اللہُ مُسْتَحِلّیْ الْحُرْمَةِ مِنْکَ وَذَائِدیِ الْحَقِّ عَنْکَ وَاَشْھَدُ اَنَّھُمْ الاَخْسَرُوْنَ الَّذِیْنَ تَلْفَحُ وَجوْھَھُمُ النَّارُ وَھُمْ فِیْھَا کَالِحُوْنَ۔
لَعَنَ اللہُ مَنْ سٰاوَاکَ بِمَنْ نَاوَاکَ ۔
لَعَنَ اللہُ مَنْ عَدَلَ بِکَ مَنْ فَرَضَ اللہُ عَلَیْہِ وِلَایَتَکَ ۔
”پس خدا کی لعنت هو آپ کی حرمت ختم کر نے والے پر اور آپ کے حق کو آپ سے دور کر نے والے پر اور میں گو اھی دیتا هوں کہ وہ لوگ گھاٹا اٹھانے والوں میں ھیں ان کے چھرے جہنم میں جھونک دئے جا ئیں گے اور وہ اسی میں پڑے جلتے رھیں گے ۔
پس اس پر خدا کی لعنت هو جو آپ کے دشمن کو آپ کے برابر کرے ۔
خدا کی لعنت هو اس پر جو اسے آپ کے برابر قرار دے جس پر اللہ نے آپ کی اطاعت فرض کی ھے “
۷۔زیارت غدیر میں ایک اور مقام پر آیا ھے :
اِنَّ اللہَ تَعالیٰ اسْتَجَابَ لِنَبِیِّہِ صلی اللہ علیہ وآلہ فِیْکَ دَعْوَتَہُ،ثُمَّ اَمَرَہُ بِاِظْھَارِمَااَوْلَاکَ لِاُمَّتِہِ اِعْلَاءً لِشَانِکَ وَاِعْلَاناًلِبُرْھَانِکَ وَدَحْضاً لِلاَبَاطِیْلِ وَقَطْعاً لِلْمَعَا ذِیْرِ ۔
فَلَمَّااَشْفَقَ مِنْ فِتْنَةِ الْفَاسِقِیْنَ وَاتَّقیٰ فِیْکَ الْمُنَافِقِیْنَ اَوْحیٰ اِلَیْہِ رَبُّ الْعَالَمِیْنَ<یَااَیُّھَاالرَّسُوْلُ بَلّغْ مَااُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکْ وَاِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَابَلَّغْتَ رَسَالَتَہُ وَاللہُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ >فَوَضَعَ عَلیٰ نَفْسِہِ اَوْزَارَالْمَسِیْرِوَنَھَضَ فِیْ رَمْضَاءِ الْھَجِیْرِفَخَطَبَ وَاَسْمَعَ وَنَادیٰ فَاَبْلَغَ ،ثُمَّ سَاٴَلَھُمْ اَجْمَعَ فَقَالَ:ھَلْ بَلَّغْتُ؟ فَقَالُوْا:اَللَّھُمَّ بَلیٰ ۔فَقَالَ اللَّھُمَّ اشْھَدْ۔ثُمَّ قَالَ:اَلَسْتُ اَوْلیٰ بِالْمُوْمِنِیْنَ مِنْ اَنْفُسِھِمْ؟ فَقَا لُوْا:بلیٰ ۔فَاَخَذَ بِیَدِکَ وَقَالَ:مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَہَذَا عَلِیٌّ مَوْلَا ہُ،اَللَّہُمّّ وَالِ مَنْ وَالَاہُ وَعَادِمَنْ عَادَاہُ وَانْصُرْمَنْ نَصَرَہُ وَاخْذُلْ مَنْ خَذَلَہ“فَمَا آمَنَ بِمَااَنْزَلَ اللہُ فِیْکَ عَلیٰ نَبِیَّہِ اِلَّا قَلِیْلٌ وَلَازَادَاَکْثَرَھُمْ غَیْرَتَخْسِیْرٍ ۔
خداوند عالم نے آپ کے سلسلہ میں اپنے نبی کی دعا قبول فر ما ئی پھر ان کوحکم دیا آپ کی ولا یت کوظاھر کر نے ،آپ کی شان کو بلند کر نے ،آپ کی دلیل کا اعلان کرنے ،اور با طلوں کو کچلنے اور معذرتوں کو قطع کر نے کےلئے ۔
تو جب منافقین کے فتنہ سے ڈرے اور آپ کے با رے میں انھیںمنافقین کی طرف سے خوف پیدا هواتو عالمین کے پرور دگار نے وحی کی” اے رسول آپ اس پیغام کو پہنچا دیجئے جس کا ھم آپ کو حکم دے چکے ھیں اگر آپ نے وہ پیغام نھیں پہنچایا تو گو یا رسالت کا کو ئی کام ھی انجام نھیں دیا اور خدا آپ کو لوگوں کے شر سے محفو ظ رکھے گا“ تو انھوں نے سفر کی زحمتوں کو اٹھایا اورظھر کے وقت کی سخت گرمی میں غدیر خم میں ٹھھر کر خطبہ دیا اور سنا یا اور آواز دی پھر پهو نچا دیا پھر ان سب سے پو چھا کیا میں نے پہنچا دیا تو سب نے کھا ھاں خدا کی قسم آپ نے پہنچا دیا پھر کھا کہ خدا یا گو اہ رہنا پھر کھا کیا میں مو منوں کی جان پر خود ان کی نسبت اولیٰ نھیں هوں انھوں نے کھا ھاں پھر آپ نے علی (ع) کے ھاتھ کو پکڑا اور فر مایا جس کا میں مو لا هوں اس کے یہ علی مو لا ھیں خدا یا اس کو دو ست رکھنا جو انھیں دو ست رکھے اور اسے دشمن رکھنا جو انھیں دشمن رکھے اس کی مدد کرنا جو ان کی مدد کرے اس کو ذلیل کرجو انھیں رسواکرے تو آپ کے با رے میں جو خدا نے اپنے نبی پر نا زل کیا ھے اس پر چند لوگوں کے علاوہ اور کو ئی ایمان نھیں لایا اور زیادہ تر لوگوں نے گھا ٹے کے علا وہ کچھ بھی نھیں پایا۔
۸۔زیارت غدیر میں ایک اور مقام پر آیا ھے :
اَللَّھُمَّ اِنَّانَعْلَمُ اَنَّ ھٰذَاھُوَالْحَقُّ مِنْ عِنْدِکَ۔فَالْعَنْ مَنْ عٰارَضَہُ وَاسْتَکْبَرَوَکَذبَّ بِہِ وَکَفَرَوَسَیَعْلَمُ الَّذینَ ظَلَمُوااَیَّ مُنْقَلَبٍ یَنْقَلِبُونَ۔
لَعْنَةُ اللہِ وَلَعْنَةُ مَلاٰ ئِکَتِہِ وَرُسُلِہِ اَجْمَعینَ عَلیٰ مَنْ سَلَّ سَیْفَہُ عَلَیْکَ وَسَلَلْتَ سَیْفَکَ عَلَیْہِ ۔یٰااَمیرَالمُوٴمِنینَ مِن الْمُشْرِکینَ وَالْمُنٰافِقینَ اِلیٰ یَوْمِ الدّ ینِ وَعَلیٰ مَنْ رَضِیَ بِمٰاسٰائَکَ وَلَمْ یُکْرِھْہُ وَاَغْمَضَ عَیْنَہُ وَلَمْ یُنْکِرْاَوْاَعٰانَ عَلَیْکَ بِیَدٍ اَوْ لِسٰانٍ اَوْقَعَدَعَنْ نَصْرِکَ اَوْخَذَلَ عَنِ الْجِِھٰادِ مَعَکَ اَوْغَمَطَ فَضْلَکَ وَجَحَدَ حَقَّکَ اَوْعَدَلَ بِکَ مَنْ جَعَلَکَ اللہُ اَوْلیٰ بِہِ مِنْ نَفْسِہِ ۔
”خدایا میں جانتا هوں بیشک یہ حق تیری طرف سے ھے تو تو لعنت کر اس پر جو علی سے ٹکرائے، سر کشی کرے ،تکذیب کرے اور کفر کرے اور عنقریب ظلم کرنے والے جان لیں گے کھاں جا ئیں گے۔
اللہ اس کے ملائکہ اور تمام رسولوں کی لعنت هو اور ان سب پر جنھوں نے اپنی تلوار کو آپ کے مقابلہ میں کھینچا اورجن پر آپ نے اپنی تلوار کھینچی اے امیر المو منین چا ھے وہ مشرکوں میں سے هوں یا منافقین میں سے روز قیامت تک ،اور ان سب پر جو آپ کی برا ئی سے راضی هو ئے اور اس کو نا پسند نہ کیا اور چشم پوشی کی اور انکار نہ کیا یا آپ کے خلاف مدد کی ھاتھ یا زبان سے یا آپ کی نصرت سے بیٹھارھا یا آپ کے ساتھ جھاد سے باز رھا یا آپ کے فضل کو کم کیا اور آپ کے حق کا انکار کیا یااس کو آپ کے برابر کیا جس سے خدا نے آپ کو اولیٰ بنایا تھا ۔
۹۔زیارت غدیر کے ایک اور حصہ میں ھم پڑھتے ھیں :
وَالْاَمْرُالْاَعْجَبُ وَالْخَطْبُ الْاَفْزَعُ بَعْدَجَحْدِکَ حَقَّکَ غَصْبُ الصَّدّ یقَةِ الطَٰاھِرَةِ الزَّھْرٰاءِ سَیَّدَةِ النَّساءِ فَدَکاًوَرَدُّشَھٰادَتِکَ وَشَھٰادَةُُُُ السَّیَّدَ یْنِ سُلاٰلَتِکَ وَعِتْرَةِ الْمُصْطَفیٰ صَلَّی اللہُ عَلَیْکُمْ۔وَقَدْاَعْلَی اللہُ تَعٰالیٰ عَلَی الْاُمَّةِ دَرَجَتَکُمْ وَرَفَعَ مَنْزِلَتَکُمْ وَاَبٰانَ فَضْلَکُمْ وَشَرَّفَکُمْ عَلَی الْعٰالَمینَ ۔
اور عجیب ترین امر اور سب سے نا گوار واقعہ آپ کے حق کے انکار کے بعد جناب صدیقہ طاھرہ فا طمہ زھرا (ع) سید ة النساء علیھا السلام کے حق فدک کا غصب کرنا ھے اور آپ کی گو اھی اور سردار جوانان جنت امام حسن اور امام حسین علیھما السلام کی گو اھی (جو آپ کی نسل اور عترت مصطفےٰ سے ھیں )کا رد کرنا ھے جبکہ خدا وند عالم نے آ پ (ع) کے مرتبہ کو امت پر بلند کیا ھے اور آپ کی منزلت کو رفعت دی ھے اور آپ کے فضل کو ظاھر کیا ھے اور تمام عالم پر آپ کو شرف دیا ھے ۔
۰ا۔زیارت غدیر میں آیا ھے :
مٰااَعْمَہَ مَنْ ظَلَمَکَ عَنِ الْحَقِّ ۔
فَاَشْبَھَتْ مِحْنَتُکَ بِھِمٰا مِحَنَ الْاَنْبِیٰاءِ عِنْدَ الْوَحْدَةِ وَعَدَمِ الْاَنْصٰارِ ۔
مٰا یُحیطُ الْمٰادِحُ وَصْفَکَ وَلاٰیُحْبِطُ الْطٰاعِنُ فَضْلَکَ
تُخْمِدُ لَھَبَ الْحُرُوبِ بِبَنٰانِکَ وَتَھْتِکُ سُتُورَ الشُّبَہِ بِبَیٰانِکَ وَتَکْشِفُ لَبْسَ الْباطِلِ عَنْ صَریحِ الْحَقَّ۔
تو وہ کتناسرگشتہ اور اندھا ھے جس نے آپ کے حق پر ظلم کیا ۔
تنھائی اور ناصرو مددگار نہ هو نے کی صورت میں آپ کی مظلومی انبیا ء علیھم السلام کی مظلومی سے کتنی مشابہ ھے ۔
پس آپ کی مدح کر نے والا آپ کی صفت کا احاطہ نھیں کر سکتا اور نہ کو ئی طعنہ دینے والا آپ کے فضل کا احاطہ کرسکتا ھے ۔
آپ نے اپنی انگلیوں (اپنی قدرت )سے جنگ کے شعلوں کو خاموش کیا اوراپنے بیان سے شبہ کے پردوں کوچاک کیااور باطل کے اشتباہ کوحق کی وضاحت سے کھول دیا ۔
اا۔زیارت غدیر میں آیا ھے :
اللّٰھُمَّ الْعَنْ قَتَلَةَ اَنْبِیٰا ئِکَ وَاَوْصِیٰاءِ اَنْبِیٰائِکَ بِجَمیعِ لَعَنٰا تِکَ وَاَصْلِھِمْ حَرَّنٰارِکَ وَالْعَنْ مَنْ غَصَبَ وَلِیَّکَ حَقَّہُ وَاَنْکَرَعَھْدَہُ وَجَحَدَہُ بَعْدَ الْیَقینِ وَالْاقْرَارِ بِالْوِلاٰیَةِ لَہُ یَوْمَ اَکْمَلْتَ لَہُ الدّ ینَ ۔
اللّٰھُمَّ الْعَنْ قََََتَلَةَ اَمیرالْمُوْمِنِیْنَ وَمَنْ ظَلَمَہُ وَاَشْیٰاعَھُمْ وَاَنصٰارَھُمْ۔
اللّٰھُمَّ الْعَنْ ظٰالِمِی الْحُسَیْنِ وَقٰٰاتِلیہِ وَالْمُتٰابِعینَ عَدُوَّہُ وَنٰاصِریہِ وَالرّٰاضینَ بِقَتْلِہِ وَخٰاذِلیہِ لَعْناًوَبیلاً۔
خدایا لعنت کر اپنے انبیاء کے قا تلوں پر اور ان کے اوصیا کے قاتلوں پر مکمل لعنت اور ان کو جہنم کی گر می میں ڈال دے اور لعنت کراس پر جس نے تیرے ولی کا حق غصب کیا اور اس کے عھد کا انکار کیا اور یقین اور اقرار و لایت کے بعد ان سے منحرف هوا جس روز تو نے دین کو مکمل کیا ۔
خدایا لعنت کر امیر المو منین کے قاتلوں پر اور اس پر جس نے ان پر ظلم کیا اوران (ظلم کرنے والوں) کے ماننے والوں اور نا صروں پر ۔
خدایالعنت کرحسین کے ظالموں اور قا تلوں اور ان کے دشمنوں کا اتباع کرنے والوں اور مدد گاروں پر اور ان کے قتل پرراضی رہنے والوں پر اور انھیں چھو ڑنے والوں پر سخت عذاب و لعنت کر “
۲ا۔زیارت غدیر میں ھم پڑھتے ھیں :
اللّھمّ العن اولّ ظالم ظلم آل محمّد ومانعیھم حقوقھم ۔
اللّھمّ خُصَّ اوّل ظالم وغاصب لآل محمّد باللعن وکل مستنّ بما سنّ الی یوم القیامة۔
اللَّھُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ خَاتَمِ النَّبِیِیّنَ وَعَلیٰ عَلِیٍّ سَیَّدِ الْوَصِیِیّنَ وآلہِ الطّاھرین واجْعَلْنَابِھِمْ مُتَمَسِّکِیْنَ وَبِوِلَایَتِھِمْ مِنَ الْفَائِزِیْنَ الآمِنِیْنَ الَّذِیْنَ لَاخَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلَاھُمْ یَحْزَنُوْنَ۔
خدا یا آل محمد پر سب سے پھلے ظلم کرنے والے پرلعنت کر اور ان کے حقوق کے رو کنے والوں پر
خدایا آل محمد پر پھلے ظالم اور غاصب پر مخصوص لعنت کر اور اس پر بھی جو اس کے طریقہ پر چلے روز قیامت تک ۔
خدایا درود نا زل فرما محمد پر جو خا تم النبیین ھیں اور علی پر جو سید الو صیین ھیں اور ان کی آل پاک پر اور ھم کو ان سے اور ان کی ولا یت سے متمسک قرار دے کر کا میاب فرمااور ان صاحبان امان میں سے قرار دے جن کےلئے کو ئی خوف اور حزن نھیں ھے ۔
۳ا۔ھم روز غدیر کی دعا میں پڑھتے ھیں :
اللَّھُمَّ صَدَّقْنَاوَاَجَبْنَادَاعِیَ اللّٰہِ وَاتَّبَعْنَاالرَّسُوْلَ فِیْ مُوَالَاةِ مَوْلَانَاوَمَوْلیَ الْمُوٴْمِنِیْنَ اَمِیْرِالْمُوٴْمِنِیْنَ عَلِیٍ بْنِ اَبِیْ طَالِبٍ۔اللَّھُمَّ رَبَّنَااِنَّنَاسَمِعْنَامُنَادِیاًیُنَادِیْ لِلاِیْمَانِ اَنْ آمِنُوْا بِرَبِّکُمْ فَآمَنَّا ۔۔۔فَاِنَّایٰارَبَّنَا بِمَنِّکَ وَلُطْفِکَ اَجَبْنَادَاعِیْکَ وَاتَّبَعْنَاالرَّسُوْلَ وَصَدَّقْنَاہُ وَصَدَّقْنَامَوْلیَ الْمُوْمِنِیْنَ وَکَفَرْنَابِالْجِبْتِ وَالطَّاغُوْتِ،فَوَلِّنَامَاتَوَلَّیْنَا ۔۔۔
”بار الٰھاھم نے تصدیق کی اللہ کی جا نب بلانے والے کی دعوت پر لبیک کھا اور ھم نے رسول کا اتباع کیا اپنے اور مو منین کے مو لا امیر المو منین علی بن ابی طالب کی دو ستی میں ۔۔۔اے خدا اے ھما رے پرور دگار ھم نے ایمان کے لئے آواز دینے والے کی آواز کو سناکہ ایمان لا وٴ اپنے رب پر تو ھم ایمان لے آئے ۔
بیشک اے ھمارے پروردگار ھم نے تیرے لطف و احسان کی وجہ سے تیری طرف بلانے والے کی دعوت پر لبیک کھی اور رسول کا اتباع کیا اور اس کی تصدیق کی اور اسی طرح ھم نے مو منین کے مو لا کی تصدیق کی اور جبت و طاغوت کا انکار کیا لہٰذا تو ھماری ولایت اور ایمان کی حفاظت فر ما “
۴ا۔ھم دعائے روز غدیر میں ایک اور مقام پر پڑھتے ھیں :
اللَّھُمَّ اِنِّیْ اَسْاٴَلُکَ ۔۔۔اَنْ تَجْعَلَنِیْ فِیْ ھَذَالْیَوْمِ الَّذِیْ عَقَدْتَ فِیْہِ لِوَلِیِّکَ الْعَھْدَ فِیْ اَعْنَاقِ خَلْقِکَ وَاَکْمَلْتَ لَھمُ الدِّ یْنَ، مِنَ الْعَارِفِیْنَ بِحُرْمَتِہِ وَالْمُقَرِّیْنَ بِفَضْلِہِ ۔۔ ۔ اللَّھُمَّ فَکَمَاجَعَلْتَہُ عَیْدَکَ الاَکْبَرَوَسَمَّیْتَہُ فِی السَّمَاءِ یَوْمَ الْعَھْدِ الْمٍعْھُوْدوَفِیِ الاَرْضِ یَوْمَ الْمِیْثَاقِ الْمَاخُوْذِ وَالْجَمْعِ الْمَسْوٴُوْلِ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ وَاقْرِرْبِہِ عُیُوْنَنَا وَاجْمَعْ بِہِ شَمْلَنَاوَلَاتُضِلَّنَابَعْدَ اِذْھَدَیْتَنَاوَاجعَلْنٰا لِاَنْعُمِکَ مِنَ الشٰاکِرینَ یااَرْحَمَ الرّٰاحِمینَ۔
اے خدا میں تجھ سے سوال کرتا هوں ۔۔۔مجھ کو اس روزمیں قرار دیدے جس دن تو نے اپنے ولی کےلئے اپنی مخلوق کی گردن میں عھد ڈالا ھے اوران کے دین کو مکمل کیا ھے کہ مجھے اس کی حرمت کو پہچا ننے والوں اور اس کی فضیلت کا اقرار کرنے والوں میںقرار دے۔۔۔اے خدا جس طرح تو نے اس کو عید اکبر قرار دیا ھے اس کا نام آسمان میں عھد معهو د اور زمین میں روز میثاق ما خوذ اور جمع مسئو ل قرار دیا ھے درود نا زل کر محمد وآل محمد پر اور اس سے ھما ری آنکھوں کو روشن کر اور ھما ری پراگندگی کو جمع کر اور ھما ری ھدا یت کے بعد ھم کو گمراہ نہ کرنا اور ھم کو اپنی نعمت کا شکر ادا کر نے والوں میں قرار دے اے سب سے زیادہ رحم کرنے والے ۔
۱۵۔ھم دعائے روز غدیر میں ایک اور مقام پر پڑھتے ھیں :
الْحَمْدُلِلِّٰہ الَّذی عَرَّفَنٰافضلَ ھٰذَاالیَوْمِ وَبَصَّرَنٰاحُرْمَتَہُ وَکَرَّمَنٰابِہِ وَشَرَّفَنٰابِمَعْرِفَتِہِ وَھَدانٰابِنُورِہِ ۔۔۔اللّٰھُمَّ اِنیّ اَساَلُکَ۔۔۔اَنْ تَلْعَنَ مَنْ جَحَدَ حَقَّ ھٰذَاالْیَوْمَ وَانْکَرَحُرْمَتَہُ فَصَدَّ عَنْ سَبیلِکَ لِاطْفَا ءِ نُوْرِکَ۔
خدا کی حمد ھے جس نے ھم کو اس دن کی فضیلت پہچنوا ئی اور اس کی حرمت کی بصیرت عطاکی، اور اس کے ذریعہ ھم کو عزت دی اور اس کی معرفت سے ھم کوشرف بخشا اور اس کے نور سے ھما ری ھدایت کی ۔۔۔اے خدا میں تجھ سے سوال کرتا هوں ۔۔۔اور ان پر لعنت کر جس نے اس روز کے حق کا انکار کیا اور اس کی حرمت کا انکار کیااور جس نے تیرے نور کو بجھا نے کےلئے تیری راہ بند کر دی ھے ۔
۶ا۔عید غدیر کی دعا میں ایک اور مقام پرآیا ھے :
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ اَلَّذِیْ جَعَلَ کَمَالَ دِیْنِہِ وَتَمَامَ نِعْمَتِہِ بِوِلَایةِ اَمِیْرَالْمُوٴمِنِیْن عَلی بْنِ اَبِیْ طَالِبٍ عَلَیہِ السلام۔
حمد ھے اس خدا کےلئے جس نے اپنے دین کو مکمل اور اپنی نعمت کو تمام کیا امیر المو منین علی بن ابی طالب علیہ السلام کی ولایت کے ذریعہ ۔
۳ غدیرکی محفلیں[147]
ھر سال غدیر کے سلسلہ میں۸ا/ذی الحجہ کوجو پوری دنیا میں محفلیں منا ئی جا تی ھیں وہ غدیر کی یاد کاسب سے مشخص و معین آئینہ ھیں اور غدیر کے مطالب کو محفوظ کر نے میں اس کا معا شرتی اثر لوگوں کے اذھان میں غیرمعمولی ھے ۔
جس طرح غدیر کی یاد گا ر محفل ھر سال آسمان پر ملائکہ کے در میان منا ئی جا تی ھے اسی طرح زمین پربھی شیعہ حضرات اس دن غدیر کی یاد میں محفلیں برپا کر تے ھیں ۔
سب سے پھلی محفل غدیر اسی بیابان غدیر میں منا ئی گئی اور پیغمبر اکرم(ص) اور حضرت امیرالمو منین (ع) کومبارکباد پیش کر نے والوں کا ایک سیلاب ا مڈ آیا اور اس دن اتنے زور شور سے محفل هو ئی کہ اس جیسی محفل آج تک اس بیابان میں نہ هو سکی ۔
اس کے بعدپچیس سال تک غدیر حضرت علی علیہ السلام اور حضرت فا طمہ زھرا سلام اللہ علیھا کے جلے هو ئے دروازے کے پیچھے رو تی رھی یھاں تک مو لا ئے کا ئنات نے سلطنت کی باگ ڈور سنبھا لی اور غدیر کی پھلی محفل مسجد کو فہ میں آپ کی مو جود گی میں بپا هو ئی ۔عید غدیر جمعہ کے دن سے مقارن هوئی اور حضرت امیر المو منین علیہ السلام نے نماز جمعہ کے خطبوں میں مفصل طور پر غدیر کی عظمت بیان فر ما ئی نماز جمعہ کے بعد تمام افراد حضرت علی علیہ السلام کے ھمراہ حضرت امام حسن علیہ السلام کے دو لت کدہ پر غدیر کا مخصوص طعام کھانے کےلئے گئے ۔
اس کے بعد غدیر کی مفصل محفل منا نے کے لئے حالات سازگار نہ هوئے یھاں تک کہ حضرت امام رضا علیہ السلام نے اپنے دور میں خراسان میں اپنے مخصوص اصحاب کے ایک گروہ کو عید غدیر کا روزہ افطار کر نے کی دعوت فر ما ئی اور ان کے گھروں میں تحفے تحا ئف اور عیدی بھیجی اور ان کے لئے غدیر کے فضائل کے سلسلہ میں مفصل خطبہ بیان فر مایا۔
آل بویہ کے زمانہ میں ایران اور عراق میں اور فا طمی حکو مت کے دور میں شام ، مصر اور یمن میں مفصل طور پر غدیر کی محفلیں منائی جا تی رھیں اور ان محفلوں کو خا ص اھمیت دی جا تی تھی ۔[148]صفوی دور سے لیکر ھما رے دور تک غدیر کی محفلیں بڑے ھی زور و شور سے منائی جا تی ھیں اور ایران ،عراق ،لبنان ، پاکستان اور ہند و ستان میں بڑے وسیع پیمانہ پر غدیر کاجشن منا یا جا تا ھے ۔
متعدد بر سوں سے علما ء و بزرگان ،اور بلند عھدوں پر فائز افراد اور مختلف طبقوں کے لوگ غدیر کے دن ایک دو سرے کو مبار کباد ی پیغام بھیجتے ھیں اور اس کی بڑی عزت و توقیر کرتے ھیں ۔غدیر کی محفلیں بڑے بڑے شھروں سے لیکر چھو ٹے سے چھوٹے گا وٴں میں بھی برپا هو تی ھیں یھاں تک پوری دنیا میں جھاں جھاں بھی شیعہ آباد ھیں چا ھے وہ کتنی ھی کم تعداد میں کیوں نہ هوں ایک دو سرے کے پاس جا تے ھیں اور غدیر کے دن محفل کر تے ھیں ۔
۰ا۴ا ھ میں غدیر کی چودهویں صدی کی منا سبت سے لندن میں ایک عظیم الشان سیمینار منعقدکیا گیاجو کئی دن تک جاری اور اس کی رپورٹ بھی طبع هوچکی ھے اس کے بعد ایک مرتبہ پھر غدیر کی عظمت کی بین الاقوامی سطح پر نما ئش هو ئی ۔
اب ھم چودہ سو گیارہ سالہ کا جشن غدیر منا رھے ھیں اور غدیر کو سورج کی طرح روشن و منور دیکھ رھے ھیںھم اس پر فخر کرتے ھیں اور غدیر کی کامیابی کی خو شی منا ئیں گے اور سقیفہ کی مایوسی کو دیکھیں گے ۔
غدیر کی محفلوں میں غدیر کے سلسلہ میں تقریروں اورقصیدوںکے علاوہ غدیر میں پیغمبر اکرم (ص) کے خطبہ کی حفا ظت اور اسے حفظ کر نے والوں کو تحفے تحا ئف عطا کرنا برسوں سے رائج ھے اور اس کے مثبت آثار دیکھنے کو ملتے ھیں ۔
آخر میں ھم یہ پیشکش کر تے ھیں :
ھر سال غدیر سے متعلق هو نے والی محفلوں اور پروگراموں میں ”خطبہٴ غدیر “اور واقعہٴ غدیرکو مفصل طور پر بیان کیاجا ئے تا کہ اس طرح ھم پیغمبر اسلام(ص) کے اس کے ابلاغ کے بارے میںدئے هو ئے حکم کی تعمیل کر سکیں اور صاحبان ولایت مطلقہٴ الٰھیہ کی پیغمبر اکرم(ص) ،حضرت امیر المو منین علیہ السلام ،فا طمہٴ زھرا سلام اللہ علیھا اور ائمہ معصو مین علیھم السلام سے تجدید عھد و پیمان کر سکیں ۔
--------------------------------------------
[143] مثالب النواصب (ابن شھر آشوب )خطی نسخہ صفحہ /۶۳۔
[144] مجلہ تراثنا شمارہ ا۲ صفحہ ۵ سے ۲۲ تک۔
[145] عوالم جلد ۵ا/۳صفحہ ۲۲۰۔
[146] ا رالانوار جلد ۹۷ صفحہ ۳۶۰۔
[147] عوالم جلد ۵ا/۳صفحہ ۲۰۸،ا۲۲،۲۲۲۔
[148] کتاب ”عید الغدیر فی عھد الفاطمیین “میں رجوع کیجئے ۔
|