|
حدیث نمبر : 46
و عن عمر رضي الله عنه و قد جاء ه أعرابيان يختصمان، فقال لعلي رضي الله عنه : إقض بينهما يا أبا الحسن! فقضي علي رضي الله عنه بينهما، فقال أحدهما : هذا يقضي بيننا! فَوَثَبَ إليه عمر رضي الله عنه و أخذ بتلبيبه، و قال : ويحک! ما تدري من هذا؟ هذا مولاي و مولي کل مؤمنٍ، و من لم يکن مولاه فليس بمؤمن.
حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ان کے پاس دو بدّو جھگڑا کرتے ہوئے آئے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا : اے ابوالحسن! ان دونوں کے درمیان فیصلہ فرما دیں۔ پس آپ رضی اللہ عنہ نے اُن کے درمیان فیصلہ کر دیا۔ ان میں سے ایک نے کہا کہ (کیا) یہی ہمارے درمیان فیصلہ کرنے کے لئے رہ گیا ہے؟ (اس پر) حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس کی طرف بڑھے اور اس کا گریبان پکڑ کر فرمایا : تو ہلاک ہو! کیا تو جانتا ہے کہ یہ کون ہیں؟ یہ میرے اور ہر مؤمن کے مولا ہیں (اور) جو اِن کواپنا مولا نہ مانے وہ مؤمن نہیں۔
1۔ محب طبری نے یہ روایت ’ذخائر العقبی فی مناقب ذوی القربی (ص : 126)‘ میں بیان کی ہے اور کہا ہے کہ اسے ابن سمان نے اپنی کتاب ’الموافقہ‘ میں ذکر کیا ہے۔
2. محب طبري، الرياض النضره في مناقب العشره، 3 : 128
حدیث نمبر : 47
عن عمر أنه قال : عليّ مولي من کان رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم مولاه.
عن سالم قيل لعمر : إنک تصنع بعليّ شيئا ما تصنعه بأحد من أصحاب رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، قال : إنه مولاي.
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جس کے مولا ہیں علی رضی اللہ عنہ اس کے مولا ہیں۔
حضرت سالم سے روایت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ آپ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ ایسا (امتیازی) برتاؤ کرتے ہیں جو آپ دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے (عموماً) نہیں کرتے! (اس پر) حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے (جواباً) فرمایا : وہ (علی) تو میرے مولا (آقا) ہیں۔
1. محب طبري، الرياض النضره في مناقب العشره، 3 : 128
2. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 45 : 178
حدیث نمبر : 48
عن يزيد بن عمر بن مورق قال : کنت بالشام و عمر بن عبد العزيز يعطي الناس، فتقدمتُ إليه فقال لي : ممن أنتَ؟ قلت : مِن قريش، قال : مِن أي قريش؟ قلتُ : مِن بني هاشم، قال : مِن أي بني هاشم؟ قال : فسکتُ. فقال : مِن أي بني هاشم؟ قلتُ : مولي عليّ، قال : مَن عليّ؟ فسکتُ، قال : فوضع يده علي صدري و قال : و أنا و اﷲِ مولي عليّ بن أبي طالب عليه السلام، ثم قال : حدثني عدة أنّهم سمعوا النبي صلي الله عليه وآله وسلم يقول : مَن کنتُ مولاه فعليّ مولاه، ثم قال : يا مزاحم! کم تعطي أمثاله؟ قال : مائة أو مائتي درهم، قال : إعطه خمسين ديناراً، وقال ابن أبي داؤد : ستين ديناراً لولايته عليّ بن أبي طالب رضي الله عنه ، ثم قال : ألحق ببلدک فسيأتيک مثل ما يأتي نظراءک.
یزید بن عمر بن مورق روایت کرتے ہیں کہ ایک موقع پر میں شام میں تھا جب حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ لوگوں کو نواز رہے تھے۔ پس میں ان کے پاس آیا، اُنہوں نے مجھ سے پوچھا کہ آپ کس قبیلے سے ہیں؟ میں نے کہا : قریش سے۔ اُنہوں نے پوچھا کہ قریش کی کس (شاخ) سے ؟ میں نے کہا : بنی ہاشم سے۔ اُنہوں نے پوچھا کہ بنی ہاشم کے کس (خاندان) سے؟ راوی کہتے ہیں کہ میں خاموش رہا۔ اُنہوں نے (پھر) پوچھا کہ بنی ہاشم کے کس (خاندان) سے؟ میں نے کہا : مولا علی (کے خاندان سے)۔ اُنہوں نے پوچھا کہ علی کون ہے؟ میں خاموش رہا۔ راوی کہتے ہیں کہ اُنہوں نے میرے سینے پر ہاتھ رکھا اور کہا : ’’بخدا! میں علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کا غلام ہوں۔‘‘ اور پھر کہا کہ مجھے بے شمار لوگوں نے بیان کیا ہے کہ اُنہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا : ’’جس کا میں مولا ہوں اُس کا علی مولا ہے۔‘‘ پھر مزاحم سے پوچھا کہ اِس قبیل کے لوگوں کو کتنا دے رہے ہو؟ تو اُس نے جواب دیا : سو (100) یا دو سو (200) درہم۔ اِس پر اُنہوں نے کہا : ’’علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی قرابت کی وجہ سے اُسے پچاس (50) دینار دے دو، اور ابنِ ابی داؤد کی روایت کے مطابق ساٹھ (60) دینار دینے کی ہدایت کی، اور (اُن سے مخاطب ہو کر) فرمایا : آپ اپنے شہر تشریف لے جائیں، آپ کے پاس آپ کے قبیل کے لوگوں کے برابر حصہ پہنچ جائے گا۔
1. ابو نعيم، حلية الاولياء و طبقات الاصفياء، 5 : 364
2. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 48 : 233
3. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 69 : 127
4. ابن اثير، اسد الغابه في معرفة الصحابه، 6 : 427، 428
حدیث نمبر : 49
عن الزهري قال : سمعت أباجنيدة جندع بن عَمرو بن مازن، قال : سمعت النبيا يقول : من کذب عليّ متعمداً فليتبوأ مقعده من النار، و سمعته و إلا صُمَّتا، يقول. و قد انصرف من حجة الوداع فلما نزل غدير خُمّ قام في الناس خطيباً وأخذ بيد علي رضي الله عنه، و قال : من کنت وليه فهذا وليه، اللهم! وال من والاه، وعاد من عاداه. قال عبيد اﷲ : فقلت للزهري : لا تحدّث بهذا بالشام، وأنت تسمع ملء أذنيک سب علي رضي الله عنه، فقال : و اﷲ! إن عندي من فضائل علي رضي الله عنه ما لو تحدثت بها لقُتلتُ.
زہری سے روایت ہے کہ ابوجنیدہ جندع بن عمرو بن مازن نے کہا : میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا : جس نے مجھ پر جان بوجھ کر جھوٹ بولا وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنائے۔ (اور یہ فرمان) میں نے خود سنا ہے ورنہ میرے دونوں کان بہرے ہو جائیں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حجۃ الوداع سے واپس لوٹے اور غدیر خم کے مقام پر پہنچے، لوگوں کو خطاب فرمایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ہاتھ تھام کر فرمایا : جس کا میں ولی ہوں یہ (علی) اُس کا ولی ہے، اے اللہ! جو اِسے دوست رکھے تو اُسے دوست رکھ اور جو اِس سے عداوت رکھے تو اُس سے عداوت رکھ۔ عبیداللہ نے کہا : میں نے زہری سے کہا : ایسی باتیں ملک شام میں بیان نہ کرنا ورنہ تو وہاں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی مخالفت میں اتنی باتیں سنے گا کہ تیرے کان بھر جائیں گے۔ (اس کے جواب میں) اِمام زہری نے فرمایا : خدا کی قسم! حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اِتنے فضائل میرے پاس محفوظ ہیں کہ اگر میں اُنہیں بیان کروں تو مجھے قتل کر دیا جائے۔
ابن اثير، اسد الغابه في معرفة الصحابه، 1 : 572، 573
حدیث نمبر : 50
عن عَمرو بن العاص رضي الله عنه، قال : سئله رجلٌ عن عليّ رضي الله عنه، قال : يا عَمرو! إنّ أشياخنا سمعوا رسولَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم يقول : مَن کنتُ مولاه فعليّ مولاه، فحق ذلک أم باطل؟ فقال عمرو : حق و أنا أزيدک : إنه ليس أحد من صحابة رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم له مناقب مثل مناقب عليّ.
حضرت عَمرو بن عاص رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ اُن سے کسی شخص نے پوچھا : اے عمرو! ہمارے بزرگوں نے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جس کا میں مولا ہوں اُس کا علی مولا ہے۔ یہ بات درُست ہے یا غلط؟ عمرو نے کہا : درست ہے، اور میں آپ کو مزید بتاؤں کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم میں سے کسی کے بھی حضرت علی رضی اللہ عنہ جیسے مناقب نہیں ہیں۔
ابن قتيبه دينوري، الامامه والسياسه، 1 : 113
حدیث نمبر : 51
عن علي رضي الله عنه قال : عمّمني رسولُ اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يوم غدير خم بعمامة سدلها خلفي، ثم قال : إن اﷲ عزوجل أمدني يوم بدر و حنين بملائکة يعتمون هذه العمة، فقال : إنّ العمامةَ حاجزةٌ بين الکفر و الإيمان.
(خود) حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غدیر خم کے دن ایسے عمامے سے میری دستار بندی کروائی اس کا شملہ پیچھے لٹکا دیا پھر فرمایا : ’’اللہ تعالیٰ نے بدر و حنین میں (جن) فرشتوں کے ذریعے میری مدد کی، اُنہوں نے اِسی ہیئت کے عمامے باندھ رکھے تھے۔‘‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’بیشک عمامہ کفر اور ایمان کے درمیان فرق کرنے والا ہے۔‘‘
1. طيالسي، المسند : 23، رقم : 154
2. بيهقي، السنن الکبريٰ، 10 : 14
3. حسام الدين هندي، کنزالعمال، 15 : 306، 482، رقم : 41141، 41909
حسام الدین ہندی نے کہا ہے کہ اِس حدیث کو طیالسی کے علاوہ بیہقی، طبرانی، ابن ابی شیبہ اور ابن منیع نے بھی روایت کیا ہے۔ حسام الدین ہندی نے ’انّ العمامۃَ حاجزۃٌ بین المسلمین و المشرکین‘ کے الفاظ کا اِضافہ کیا ہے۔
عبدالاعلیٰ بن عدی سے بھی یہ روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غدیر خم کے دن علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کو بلایا اور اُن کی دستاربندی فرمائی اور دستار کا شملہ پیچھے لٹکا دیا۔ یہ حدیث درج ذیل کتب میں ہے :
1. ابن اثير، اسد الغابه في معرفة الصحابه، 3 : 170
2. محب طبري، الرياض النضره في مناقب العشره، 3 : 194
3. زرقاني، شرح المواهب اللدنيه، 6 : 272
|
|