السیف الجلی علی منکر ولایت علی
 
حدیث نمبر : 41
عن زيد بن أرقم، قال استشهد علي الناس، فقال : أنشد اﷲ رجلا سمع النبي صلي الله عليه وآله وسلم يقول : اللهم! من کنتُ مولاه، فعلي مولاه، اللهم! والِ من والاه، و عادِ من عاداه، قال : فقام ستة عشر رجلاً، فشهدوا.
زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے لوگوں سے گواہی طلب کرتے ہوئے کہا کہ میں تمہیں قسم دیتا ہوں جس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا : ’’اے اللہ! جس کا میں مولا ہوں، اُس کا علی مولا ہے، اے اللہ! تو اُسے دوست رکھ جو اِسے دوست رکھے اور تو اُس سے عداوت رکھ جو اِس سے عداوت رکھے۔‘‘ پس اس (موقع) پر سولہ (16) آدمیوں نے کھڑے ہو کر گواہی دی۔
1. احمد بن حنبل، المسند، 5 : 370
2. طبراني، المعجم الکبير، 5 : 171، رقم : 4985
3. محب طبري، ذخائر العقبي في مناقب ذوي القربي : 125، 126
4. محب طبري، الرياض النضره في مناقب العشره، 3 : 127
5. ابن کثير، البدايه والنهايه، 5 : 461
6. هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 106
ہیثمی نے کہا ہے کہ جنہوں نے اس واقعہ کو چھپایا اُن کی بصارت چلی گئی۔

حدیث نمبر : 42
عن عمير بن سعد أن عليا جمع الناس في الرحبة و أنا شاهد، فقال : أنشد اﷲ رجلا سمع رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يقول : من کنت مولاه فعلي مولاه، فقام ثمانية عشر رجلا فشهدوا أنهم سمعوا نبي صلي الله عليه وآله وسلم يقول : ذالک.
عمیر بن سعد سے روایت ہے کہ انہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو کھلے میدان میں یہ قسم دیتے ہوئے سنا کہ کس نے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے کہ جس کا میں مولیٰ ہوں اُس کا علی مولا ہے؟ تو اٹھارہ (18) افراد نے کھڑے ہو کر گواہی دی۔
1۔ ہیثمی نے ’مجمع الزوائد(9 : 108)‘ میں یہ حدیث بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسے طبرانی نے روایت کیا ہے اور اُس کی اسناد حسن ہیں۔
2۔ ابن عساکر نے ’تاریخ دمشق الکبیر (45 : 158)‘ میں عمیر بن سعید رضی اللہ عنہ سے یہ روایت لی ہے جبکہ عمیر بن سعد رضي اللہ عنہ سے مروی روایت میں ہے کہ گواہی دینے والے افراد بارہ (12) تھے۔
3۔ ابن کثیر نے ’البدایہ والنہایہ (4 : 171، 5 : 461)‘ میں عمیر بن سعد رضی اللہ عنہ سے جو روایت لی ہے اس میں ہے کہ گواہی دینے والے بارہ (12) آدمی تھے جن میں حضرت ابوہریرہ، ابوسعد اور انس بن مالک رضی اللہ عنھم بھی شامل تھے۔
4. حسام الدين هندي، کنز العمال، 13 : 154، 155، رقم : 36480
5. شوکاني، در السحابه : 211

حدیث نمبر : 43
عن أبي الطفيل، قال : جمع علي رضي الله عنه الناس في الرحبة، ثم قال لهم : أنشد اﷲ کل امرئ مسلم سمع رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يقول يوم غدير خم ما سمع لما قام، فقام ثلاثون من الناس، و قال أبو نعيم : فقام ناس کثير فشهدوا حين أخذه بيده، فقال للناس : أتعلمون أني أولي بالمؤمنين من أنفسهم؟ قالوا : نعم، يا رسول اﷲ! قال : من کنت مولاه فهذا مولاه، اللهم! والِ من والاه و عاد من عاداه، قال فخرجتُ و کأنّ في نفسي شياً فلقيتُ زيد بن أرقم فقلتُ له : إني سمعتُ عليا رضي الله عنه يقول کذا و کذا، قال فما تنکر قد سمعت رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يقول ذلک له.
ابوطفیل سے روایت ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو ایک کھلی جگہ (رحبہ) میں جمع کیا، پھر اُن سے فرمایا : میں ہر مسلمان کو اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ جس نے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو غدیرخم کے دن (میرے متعلق) کچھ فرماتے ہوئے سنا ہے وہ کھڑا ہو جائے۔ اس پر تیس (30) افراد کھڑے ہوئے جبکہ ابونعیم نے کہا کہ کثیر افراد کھڑے ہوئے اور اُنہوں نے گواہی دی کہ (ہمیں وہ وقت یاد ہے) جب رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ کا ہاتھ پکڑ کر لوگوں سے فرمایا : ’’کیا تمہیں اس کا علم ہے کہ میں مؤمنین کی جانوں سے قریب تر ہوں؟‘‘ سب نے کہا : ہاں، یا رسول اﷲ! پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’جس کا میں مولا ہوں اُس کا یہ (علی) مولا ہے، اے اللہ! تو اُسے دوست رکھ جو اِسے دوست رکھے اور تو اُس سے عداوت رکھ جو اِس سے عداوت رکھے۔‘‘ راوی کہتے ہیں کہ جب میں وہاں سے نکلا تو میرے دل میں کچھ شک تھا۔ اسی دوران میں زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے ملا اور اُنہیں کہا کہ میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اس طرح فرماتے ہوئے سنا ہے۔ (اس پر) زید بن ارقم رضی اللہ عنہ نے کہا : تو کیسے انکار کرتا ہے جبکہ میں نے خود رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے متعلق ایسا ہی فرماتے ہوئے سنا ہے؟
1۔ احمد بن حنبل نے ’المسند (4 : 370)‘ میں اسے صحیح سند کے ساتھ روایت کیا ہے۔
2. احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 2 : 682، رقم : 1167
3. بزار، المسند، 2 : 133
4۔ ابن حبان کی ’الصحیح (15 : 376، رقم : 6931)‘ میں بیان کردہ روایت کی اسناد صحیح اور رجال ثقہ ہیں۔
5. ابن ابي عاصم، کتاب السنه : 603، رقم : 1366
6۔ حاکم نے ’المستدرک (3 : 109، رقم : 4576)‘ میں اسے شیخین کی شرط کے مطابق صحیح قرار دیا ہے۔
7. بيهقي، السنن الکبريٰ، 5 : 134
8۔ یہ حدیث مختصر الفاظ سے طبرانی نے ’المعجم الکبیر (5 : 195، رقم : 5071)‘ میں روایت کی ہے۔
9. محب طبري، الرياض النضرة في مناقب العشره، 3 : 127
10. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 45 : 156
11. ابن اثیر نے ’اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابہ (6 : 246)‘ میں گواہی دینے والے افراد کی تعداد سترہ (17) ذکر کی ہے۔
12. ابن کثیر نے ’البدایہ والنہایہ (4 : 171)‘ میں لکھا ہے کہ رحبہ سے مراد کوفہ کی مسجد کی کھلی جگہ ہے۔
13. ابن کثير، البدايه والنهايه، 5 : 460، 461
14. هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 104
15. ابومحاسن، المعتصرمن المختصرمن مشکل الآثار، 2 : 301
16۔ ہیتمی نے ’الصواعق المحرقہ (ص : 122)‘ میں لکھا ہے کہ یہ حدیث حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے تیس صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے روایت کی ہے اور اس کے طرق کی کثیر تعداد صحیح یا حسن کے ذیل میں آتی ہے۔
17. شوکاني، در السحابه : 209

حدیث نمبر : 44
عن رياح بن الحرث قال : جاء رهط إلي علي رضي الله عنه بالرحبة فقالوا : السلام عليک يا مولانا! قال : کيف أکون مولاکم وأنتم قوم عرب؟ قالوا : سمعنا رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يوم غدير خم يقول : من کنتُ مولاه فإن هذا مولاه، قال رياح : فلما مضوا تبعتهم فسألت من هؤلاء؟ قالوا : نفر من الأنصار فيهم أبو أيوب الأنصاري.
ریاح بن حرث سے روایت ہے کہ ایک وفد نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ملاقات کی اور کہا : اے ہمارے مولا! آپ پر سلامتی ہو۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے پوچھا : میں کیسے آپ کا مولا ہوں حالانکہ آپ تو قومِ عرب ہیں (کسی کو جلدی قائد نہیں مانتے)۔ اُنہوں نے کہا : ہم نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے غدیر خم کے دن سنا ہے : ’’جس کا میں مولا ہوں بے شک اُس کا یہ (علی) مولا ہے۔‘‘ حضرت ریاح رضی اللہ عنہ نے کہا : جب وہ لوگ چلے گئے تو میں نے ان سے جا کر پوچھا کہ وہ کون لوگ ہیں؟ انہوں نے کہا کہ انصار کا ایک وفد ہے، اُن میں حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ بھی ہیں۔
1. احمد بن حنبل، المسند، 5 : 419
2. احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 2 : 572، رقم : 967
3. ابن ابي شيبه، المصنف، 12 : 60، رقم : 12122
4. طبراني، المعجم الکبير، 4 : 173، 174، رقم : 4052، 4053
5. هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 103، 104
6. محب طبري، الرياض النضره في مناقب العشره، 2 : 169
7. محب طبري، الرياض النضره في مناقب العشره، 3 : 126
8۔ ابن عساکر نے یہ روایت ’تاریخ دمشق الکبیر‘ میں زیاد بن حارث (45 : 161)، حسن بن حارث (45 : 162) اور ریاح بن حارث (45 : 163) سے لی ہے۔
9۔ ابن اثیر نے ’اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابہ (1 : 672)‘ میں زِر بن حبیش سے روایت کیا ہے کہ بارہ صحابہ کرام نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اپنا مولا تسلیم کیا، جن میں قیس بن ثابت، ہشام بن عتبہ اور حبیب بن بدیل رضی اللہ عنھم شامل تھے۔
10. ابن کثير، البدايه و النهايه، 4 : 172
11. ابن کثير، البدايه والنهايه، 5 : 462
ہیثمی نے اس روایت کے رجال کو ثقہ قرار دیا ہے۔

حدیث نمبر : 45
عن عمر رضي الله عنه : و قد نازعه رجل في مسألة، فقال : بيني و بينک هذا الجالس، و أشار إلي عليّ بن أبي طالب رضي الله عنه ، فقال الرجل : هذا الأبطن! فنهض عمر رضي الله عنه عن مجلسه و أخذ بتلبيبه حتي شاله من الأرض، ثم قال : أتدري من صغرت، مولاي و مولي کل مسلم!
حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے آپ کے ساتھ کسی مسئلے میں جھگڑا کیا تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میرے اور تیرے درمیان یہ بیٹھا ہوا آدمی فیصلہ کرے گا ۔ ۔ ۔ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف اشارہ کیا ۔ ۔ ۔ تو اس آدمی نے کہا : یہ بڑے پیٹ والا (ہمارے درمیان فیصلہ کرے گا)! حضرت عمر رضی اللہ عنہ اپنی جگہ سے اٹھے، اسے گریبان سے پکڑا یہاں تک کہ اسے زمین سے اوپر اٹھا لیا، پھر فرمایا : کیا تو جانتا ہے کہ تو جسے حقیر گردانتا ہے وہ میرے اور ہر مسلمان کے مولیٰ ہیں۔
محب طبري، الرياض النضره في مناقب العشره، 3 : 128
محب طبری نے کہا ہے کہ ابن سمان نے اس کی تخریج کی ہے۔