السیف الجلی علی منکر ولایت علی
 
حدیث نمبر : 16
عن عطية العوفي، قال : سألت زيد بن أرقم، فقلتُ له : أنّ ختناً لي حدثني عنک بحديث في شأن علي رضي الله عنه يوم غدير خم، فأنا أحب أن أسمعه منک، فقال : إنکم معشر أهل العراق فيکم ما فيکم، فقلت له : ليس عليک مني بأس، فقال : نعم، کنا بالجحفة، فخرج رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم إلينا ظهراً و هو أخذ بعضدِ علي رضي الله عنه فقال : يا أيها الناس! ألستم تعلمون أني أولي بالمؤمنين من أنفسم؟ قالوا : بلٰي، قال : فمن کنتُ مولاه فعلي مولاه، قال : فقلتُ له : هل قال : اللهم! وال من والاه و عاد من عاداه؟ فقال : إنما أخبرک کما سمعتُ.
عطیہ عوفی سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے زید بن ارقم سے پوچھا : میرا ایک داماد ہے جو غدیر خم کے دن حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شان میں آپ کی روایت سے حدیث بیان کرتا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ اسے آپ سے (براہِ راست) سنوں۔ زید بن ارقم نے کہا : آپ اہلِ عراق ہیں تمہاری عادتیں تمہیں سلامت رہیں۔ پس میں نے کہا کہ میری طرف سے تمہیں کوئی اذیت نہیں پہنچے گی۔ (اس پر) انہوں نے کہا : ہم جحفہ کے مقام پر تھے کہ ظہر کے وقت حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت علی رضی اللہ عنہ کا بازو تھامے ہوئے باہر تشریف لائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’اے لوگو! کیا تمہیں علم نہیں کہ میں مؤمنین کی جانوں سے بھی قریب تر ہوں؟‘‘ تو انہوں نے کہا : کیوں نہیں! تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’جس کا میں مولا ہوں اس کا علی مولا ہے۔‘‘ عطیہ نے کہا : میں نے مزید پوچھا : کیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ بھی ارشاد فرمایا : ’’اے اللہ! جو علی کو دوست رکھے اُسے تو دوست رکھ اور جو اِس (علی) سے عداوت رکھے اُس سے تو عداوت رکھ؟‘‘ زید بن ارقم نے کہا : میں نے جو کچھ سنا تھا وہ تمہیں بیان کر دیا ہے۔
1. احمد بن حنبل، المسند، 4 : 368
2. احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 2 : 586، رقم : 992
3۔ نسائی نے یہ حدیث حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے ’خصائص امیر المومنین علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ (ص : 97، رقم : 92)‘ میں الفاظ کے معمولی اختلاف کے ساتھ روایت کی ہے۔ اس کے بارے میں ہیثمی نے ’مجمع الزوائد (9 : 107)‘ میں کہا ہے کہ اسے بزار نے روایت کیا ہے اور اس کے رجال ثقہ ہیں۔
4. طبراني، المعجم الکبير، 5 : 195، رقم : 5070
5. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 45 : 165
6. حسام الدين هندي، کنز العمال، 13 : 105، رقم : 36343
7۔ میمون ابو عبد اﷲ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے یہ حدیث مبارکہ بیان کی۔ حسام الدین ہندی نے یہ حدیث ’کنزالعمال (13 : 104، 105، رقم : 36342)‘ میں بیان کی ہے۔

حدیث نمبر : 17
عن جابر بن عبد اﷲ رضي اﷲ عنهما قال : کنا بالجحفة بغدير خم إذ خرج علينا رسول اﷲا، فأخذ بيد علي رضي الله عنه فقال : من کنت مولاه فعلیّ مولاه.
حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اﷲ عنھما سے روایت ہے کہ ہم حجفہ میں غدیر خم کے مقام پر تھے، جب رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم باہر تشریف لائے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا : ’’ جس کا میں مولا ہوں اُس کا علی مولا ہے۔‘‘
1. ابن ابي شيبه، المصنف، 12 : 59، رقم : 12121
2. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 45 : 169، 170، 172
3۔ ذہبی نے ’سیر اعلام النبلاء (7 : 570، 571)‘ میں اسے عبداﷲ بن محمد بن عاقل سے روایت کرتے ہوئے متن حدیث کو متواتر قرار دیا ہے۔ روایت میں ہے کہ علی بن حسین، محمد بن حنیفہ، ابوجعفر اور عبداﷲ بن محمد بن عاقل رضی اللہ عنھم حضرت جابر رضی اللہ عنہ کے گھر پر تھے۔
4۔ ابن کثیر نے ’البدایہ والنہایہ (4 : 173)‘ میں لکھا ہے کہ ہمارے شیخ ذہبی نے اِس روایت کو حسن قرار دیا ہے۔
5. حسام الدين هندي، کنزالعمال، 13 : 137، رقم : 32433

حدیث نمبر : 18
عن علي رضي الله عنه، أن النبيا قام بحفرة الشجرة بخم، و هو آخذ بيد علي رضي الله عنه فقال : أيها الناس! ألستم تشهدون أن اﷲ ربکم؟ قالوا : بلی، قال : ألستم تشهدون أن اﷲ و رسوله أولي بکم من أنفسکم. قالوا : بلي، و أن اﷲ و رسوله مولاکم؟ قالوا : بلي، قال : فمن کنتُ مولاه فإن هذا مولاه.
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مقامِ خم پر ایک درخت کے نیچے کھڑے ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کاہاتھ پکڑا ہوا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’اے لوگو! کیا تم گواہی نہیں دیتے کہ اللہ تمہارا رب ہے؟‘‘ اُنہوں نے کہا : کیوں نہیں! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’کیا تم گواہی نہیں دیتے کہ اللہ اور اس کا رسول تمہاری جانوں سے بھی قریب تر ہیں؟‘‘ اُنہوں نے کہا : کیوں نہیں! پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’جس کا میں مولا ہوں اُس کا یہ (علی) مولا ہے۔‘‘
1. ابن ابي عاصم، کتاب السنه : 603، رقم : 1360
2. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 45 : 161، 162
3۔ حسام الدین ہندی نے یہ حدیث ’کنزالعمال (13 : 140، رقم : 36441)‘ میں نقل کی ہے اور کہا ہے کہ اسے ابن راہویہ، ابن جریر، ابن ابی عاصم اور محاملی نے ’امالی‘ میں روایت کیا ہے اور اسے صحیح قرار دیا ہے۔

حدیث نمبر : 19
عن حذيفة بن أسيد الغفاري . . . فقال : يا أيها الناس إني قد نبأني اللطيف الخبير أنه لن يعمر نبي إلا نصف عمر الذي يليه من قبله، و إني لأظن أني يوشک أن أدعي فأجيب، و إني مسؤول، و إنکم مسؤولون، فماذا أنتم قائلون؟ قالوا : نشهد أنک قد بلغتَ و جهدتَ و نصحتَ، فجزاک اﷲ خيراً، فقال : أليس تشهدون أن لا إله إلا اﷲ، و أن محمداً عبده و رسوله، و أن جنته حقٌ و ناره حقٌ، و أن الموت حقٌ، و أن البعث بعد الموت حقٌ، و أن الساعة آتية لا ريب فيها و أن اﷲ يبعث من في القبور؟ قالوا : بلي، نشهد بذالک، قال : اللهم! اشهد، ثم قال : يا أيها الناس! إن اﷲ مولاي و أنا مولي المؤمنين و أنا أولي بهم من أنفسهم، فمن کنتُ مولاه فهذا مولاه يعني علياً رضي الله عنه . . . اللهم! وال من والاه، و عاد من عاداه. ثم قال : يا أيها الناس إني فرطکم و إنکم واردون علي الحوض، حوضٌ أعرض ما بين بصري و صنعاء، فيه عدد النجوم قد حانٌ من فضة، و إني سائلکم حين تردون عليّ عن الثقلين، فانظروا کيف تخلفوني فيهما، الثقل الأکبر کتاب اﷲ عزوجل سببٌ طرفه بيد اﷲ و طرفه بأيديکم فاستمسکوا به لا تضلوا و لا تبدلوا، و عترتي أهل بيتي، فإنه قد نبأني اللطيف الخبير أنما لن ينقضيا حتي يردا عليّ الحوض.
حضرت حذیفہ بن اُسید غفاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے لوگو! مجھے لطیف و خبیر ذات نے خبر دی ہے کہ اللہ نے ہر نبی کو اپنے سے پہلے نبی کی نصف عمر عطا فرمائی اور مجھے گمان ہے مجھے (عنقریب) بلاوا آئے گا اور میں اُسے قبول کر لوں گا، اور مجھ سے (میری ذمہ داریوں کے متعلق) پوچھا جائے گا اور تم سے بھی (میرے متعلق) پوچھا جائے گا، (اس بابت) تم کیا کہتے ہو؟ انہوں نے کہا : ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ نے ہمیں انتہائی جدوجہد کے ساتھ دین پہنچایا اور بھلائی کی باتیں ارشاد فرمائیں، اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کیا تم اس بات کی گواہی نہیں دیتے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں، جنت و دوزخ حق ہیں اور موت اور موت کے بعد کی زندگی حق ہے، اور قیامت کے آنے میں کوئی شک نہیں، اور اللہ تعالیٰ اہل قبور کو دوبارہ اٹھائے گا؟ سب نے جواب دیا : کیوں نہیں! ہم ان سب کی گواہی دیتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے اللہ! تو گواہ بن جا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اے لوگو! بیشک اللہ میرا مولیٰ ہے اور میں تمام مؤمنین کا مولا ہوں اور میں ان کی جانوں سے قریب تر ہوں۔ جس کا میں مولا ہوں یہ اُس کا یہ (علی) مولا ہے۔ اے اللہ! جو اِسے دوست رکھے تو اُسے دوست رکھ، جو اِس سے عداوت رکھے تو اُس سے عداوت رکھ۔ ’’اے لوگو! میں تم سے پہلے جانے والا ہوں اور تم مجھے حوض پر ملو گے، یہ حوض بصرہ اور صنعاء کے درمیانی فاصلے سے بھی زیادہ چوڑا ہے۔ اس میں ستاروں کے برابر چاندی کے پیالے ہیں، جب تم میرے پاس آؤ گے میں تم سے دو انتہائی اہم چیزوں کے متعلق پوچھوں گا، دیکھنے کی بات یہ ہے کہ تم میرے پیچھے ان دونوں سے کیا سلوک کرتے ہو! پہلی اہم چیز اللہ کی کتاب ہے، جو ایک حیثیت سے اللہ سے تعلق رکھتی ہے اور دوسری حیثیت سے بندوں سے تعلق رکھتی ہے۔ تم اسے مضبوطی سے تھام لو تو گمراہ ہو گے نہ (حق سے) منحرف، اور (دوسری اہم چیز) میری عترت یعنی اہلِ بیت ہیں (اُن کا دامن تھام لینا)۔ مجھے لطیف و خبیر ذات نے خبر دی ہے کہ بیشک یہ دونوں حق سے نہیں ہٹیں گی یہاں تک کہ مجھے حوض پر ملیں گی۔‘‘
1. طبراني، المعجم الکبير، 3 : 180، 181، رقم : 3052
2. طبراني، المعجم الکبير، 3 : 67، رقم : 2683
3. طبراني، المعجم الکبير، 5 : 166، 167، رقم : 4971
4. هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 164، 165
5. حسام الدين هندي، کنزالعمال، 1 : 188، 189، رقم : 957، 958
6. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 45 : 166، 167
7۔ ابن عساکر نے ’تاریخ دمشق الکبیر (45 : 169)‘ میں حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے بھی روایت لی ہے۔
8. ابن کثير، البدايه والنهايه، 5 : 463

حدیث نمبر : 20
عن جرير قال : شهدنا الموسم في حجة مع رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، و هي حجة الوداع، فبلغنا مکاناً يقال له غدير خم، فنادي : الصلاة جامعة، فاجتمعنا المهاجرون والأنصار، فقام رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم وسطنا، فقال : أيها الناس! بم تشهدون؟ قالوا : نشهد أن لا إله إلا اﷲ؟ قال : ثم مه؟ قالوا : و أن محمداً عبده و رسوله، قال : فمَن وليکم؟ قالوا : اﷲ و رسوله مولانا، قال : من وليکم؟ ثم ضرب بيده إلي عضد علي رضي الله عنه، فأقامه فنزع عضده فأخذ بذراعيه، فقال : من يکن اﷲ و رسوله مولياه فإن هذا مولاه، اللهم! والِ من والاه، و عادِ من عاداه، اللهم! من أحبه من الناس فکن له حبيباً، ومن أبغضه فکن له مُبغضا.
حضرت جریر سے روایت ہے کہ ہم حجۃ الوداع کے موقع پر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تھے، ہم ایک ایسی جگہ پہنچے جسے غدیر خم کہتے ہیں۔ نماز باجماعت ہونے کی ندا آئی تو سارے مہاجرین و انصار جمع ہو گئے۔ پھر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے درمیان کھڑے ہوئے اور خطاب فرمایا : اے لوگو! تم کس چیز کی گواہی دیتے ہو؟ انہوں نے کہا : ہم گواہی دیتے ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : پھر کس کی؟ انہوں نے کہا : بیشک محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تمہارا ولی کون ہے؟ انہوں نے کہا : اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔ پھر فرمایا : تمہارا ولی اور کون ہے؟ تب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بازو سے پکڑ کر کھڑا کیا اور (حضرت علی رضی اللہ عنہ کے) دونوں بازو تھام کر فرمایا : ’’اللہ اور اُس کا رسول جس کے مولا ہیں اُس کا یہ (علی) مولا ہے، اے اللہ! جو علی کو دوست رکھے تو اُسے دوست رکھ (اور) جو اِس (علی) سے عداوت رکھے تو اُس سے عداوت رکھ، اے اللہ! جو اِسے محبوب رکھے تو اُسے محبوب رکھ اور جو اِس سے بغض رکھے تو اُس سے بغض رکھ۔‘‘
1. طبراني، المعجم الکبير، 2 : 357، رقم : 2505
2. هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 106
3. حسام الدين هندي، کنزالعمال، 13 : 138، 139، رقم : 36437
4. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 45 : 179