|
حدیث نمبر : 11
أخرج سفيان بن عيينة عن سعد بن أبي وقاص (في مناقب علیّ) رضي الله عنهم، إن له لمناقب أربع : لأن يکون لي واحدة منهن أحب إلیّ مِن کذا و کذا، ذکر حمر النعم قولها : لأعطينّ الراية، و قولها : بمنزلة هارون من موسیٰ، و قولها : من کنتُ مولاه، و نسي سفيان الرابعة.
سفیان بن عیینہ (مناقبِ علی رضی اللہ عنہ کے ضمن میں) سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی چار خوبیاں ایسی ہیں کہ اگر میں ان میں سے کسی ایک کا بھی حامل ہوتا تو اسے فلاں فلاں چیز حتی کہ سرخ اُونٹوں سے زیادہ محبوب رکھتا۔ وہ چار خوبیاں یہ تھیں : (پہلی خوبی اُنہیں غزوۂ خیبر کے موقع پر) جھنڈے کا عطا ہونا ہے۔ (دُوسری خوبی) حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اُن کے متعلق یہ فرمانا کہ (تیرا اور میرا تعلق ایسے ہے) جیسے ہارون اور موسیٰ کا (تعلق ہے)۔ (تیسری خوبی) حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اُن کے متعلق یہ فرمانا کہ جس کا میں مولا ہوں (اُس کا علی مولا ہے)۔ (راویء حدیث) سفیان بن عیینہ کو چوتھی خوبی بھول گئی۔
1. ابن ابي عاصم، کتاب السنه : 607، رقم : 1385
2. احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 2 : 643، رقم : 1093
3. ضياء مقدسي، الاحاديث المختاره، 3 : 151، رقم : 948
4۔ ابن عساکر نے ’تاریخ دمشق الکبیر (45 : 89۔ 91)‘ میں حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے مروی روایت میں چاروں خوبیاں بالتفصیل لکھی ہیں۔
احمد بن حنبل کی بیان کردہ روایت کی اِسناد حسن ہیں۔
حدیث نمبر : 12
عن عبد الرحمن بن سابط (في مناقب علیّ)، قال : قال سعد : سمعتُ رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يقول في علیّ ثلاث خصال، لأن يکون لي واحدة منهنّ أحب إلیّ مِن الدنیا و ما فیها، سمعتُ رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يقول : مَن کنتُ مولاه، و أنت منّي بمنزلة هارون مِن موسیٰ، و لأعطينّ الرأية.
عبدالرحمن بن سابط (مناقبِ علی کے ضمن میں) روایت کرتے ہیں کہ حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے کہا : میں نے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کی تین ایسی خصلتیں بیان فرماتے ہوئے سنا کہ اگر اُن میں سے ایک بھی مجھے عطا ہو تو وہ مجھے دنیا و مافیہا سے زیادہ محبوب ہوتی۔ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’جس کا میں مولا ہوں (اُس کا علی مولا ہے)، اور علی میری جگہ ایسا ہے جیسے موسیٰ کی جگہ ہارون، اور میں اُسے علم عطا کروں گا (جو اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حبیب ہے اور اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُس کے حبیب ہیں)۔‘‘
1. ابن ابي عاصم، کتاب السنه : 608، رقم : 1386
2. ابن ابي شيبه، المصنف، 12 : 61، رقم : 12127
3. ضياء مقدسي، الاحاديث المختاره، 3 : 207، رقم : 1008
4. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 45 : 88، 89
ضیاء مقدسی نے اس حدیث کی سند کو صحیح قرار دیا ہے۔
حدیث نمبر : 13
عن رفاعة بن إياس الضبي، عن أبيه، عن جده، قال : کنّا مع علیّ رضي الله عنه يوم الجمل، فبعث إلي طلحة بن عبيد اﷲ أن القني، فأتاه طلحة، فقال : نشدک اﷲ، هل سمعتَ رسولَ اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يقول : مَن کنتُ مولاه فعلیّ مولاه، اللّٰهم والِ من والاه و عادِ من عاداه؟ قال : نعم، قال : فَلِمَ تقاتلنی؟ قال : لم أذکرْ، قال : فانصرف طلحةُ.
رفاعہ بن ایاس ضبی اپنے والد سے اور وہ اس کے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ ہم جمل کے دن حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے طلحہ بن عبید اللہ رضی اﷲ عنہما کی طرف ملاقات کا پیغام بھیجا۔ پس طلحہ اُن کے پاس آئے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے کہا : ’’میں آپ کو اللہ کی قسم دیتا ہوں، کیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے کہ جس کا میں مولا ہوں اُس کا علی مولا ہے، اے اللہ! جو علی کو دوست رکھے تو اُسے دوست رکھ، جواُس سے عداوت رکھے تو اُس سے عداوت رکھ؟‘‘ حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ نے کہا : ہاں! حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہا : ’’تو پھر میرے ساتھ کیوں جنگ کرتے ہو؟‘‘ طلحہ رضی اللہ عنہ نے کہا : مجھے یہ بات یاد نہیں تھی۔ راوی نے کہا : (اُس کے بعد) طلحہ رضی اللہ عنہ واپس لوٹ گئے۔
1. حاکم، المستدرک، 3 : 371، رقم : 5594
2. بيهقي، الاعتقاد : 373
3. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 27 : 76
4۔ ہیثمی نے ’مجمع الزوائد (9 : 107)‘ میں لکھا ہے کہ یہ حدیث بزار نے نذیر سے روایت کی ہے۔
5۔ حسام الدین ہندي، کنز العمال، 11 : 332، رقم : 31662
حدیث نمبر : 14
عن بريدة، قال : غزوتُ مع علیّ اليمن فرأيتُ منه جفوة، فلما قدمتُ علي رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ذکرتُ عليا، فتنقصته، فرأيتُ وجه رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يتغيّر، فقال : يا بريدة! ألستُ أولي بالمؤمنين مِن أنفسهم؟ قلتُ : بلي، يا رسولَ اﷲ! قال : مَن کنتُ مولاه فعلیّ مولاه.
حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ یمن کے غزوہ میں شرکت کی جس میں مجھے آپ سے کچھ شکوہ ہوا۔ جب میں رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس (جنگ سے) واپس آیا تو میں نے اس وقت حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ذکر نامناسب انداز سے کیا۔ میں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرۂ مبارک متغیر ہو گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’اے بریدہ! کیا میں مومنین کی جانوں سے قریب تر نہیں ہوں؟‘‘ تو میں نے کہا : کیوں نہیں، یا رسول اﷲ! اس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’جس کا میں مولا ہوں اُس کا علی مولا ہے۔‘‘
1. احمد بن حنبل، المسند، 5 : 347
2. احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 2 : 584، 585، رقم : 989
3. نسائي، السنن الکبریٰ، 5 : 130، رقم : 8465
4. نسائي، خصائص امير المؤمنين علي بن ابي طالب رضي الله عنه : 86، رقم : 78
5. حاکم، المستدرک، 3 : 110، رقم : 4578
6. ابن ابي شيبه، المصنف، 12 : 84، رقم : 12181
7. ابن ابي عاصم، الآحاد والمثاني، 4 : 325، 326
8. شاشي، المسند، 1 : 127
9. طبراني، المعجم الاوسط، 1 : 229، رقم : 348
10. مبارکپوري، تحفة الاحوذي، 10 : 147
11. ابو نعيم، حلية الاولياء و طبقات الاصفياء، 4 : 23
12. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 45 : 142، 146. 148
13. محب طبري، الرياض النضره في مناقب العشره، 3 : 128
14۔ ابن کثیر نے ’البدایہ والنہایہ (4 : 168؛ 5 : 457)‘ میں کہا ہے کہ نسائی کی بیان کردہ روایت کی اسناد جید قوی ہیں اور اس کے تمام رجال ثقہ ہیں۔
15. حسام الدين هندي، کنز العمال، 13 : 134، رقم : 36422
حدیث نمبر : 15
عن ميمون أبي عبد اﷲ، قال : قال زيد بن أرقم رضی الله عنه و أنا أسمع : نزلنا مع رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم بواد يقال له وادي خم، فأمر بالصلاة، فصلاها بهجير، قال : فخطبنا و ظلل لرسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم بثوب علي شجرة سمرة من الشمس، فقال : ألستم تعلمون أو لستم تشهدون أني أولٰي بکل مؤمن من نفسه؟ قالوا : بلي، قال : فمن کنتُ مولاه فإن عليا مولاه، اللّٰهم! عادِ من عاداه و والِ من والاه.
حضرت میمون ابو عبد اﷲ بیان کرتے ہیں کہ میں نے زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کو یہ کہتے ہوئے سنا : ہم رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ایک وادی۔ ۔ ۔ جسے وادئ خم کہا جاتا تھا۔ ۔ ۔ میں اُترے۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نماز کا حکم دیا اور سخت گرمی میں جماعت کروائی۔ پھر ہمیں خطبہ دیا درآنحالیکہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سورج کی گرمی سے بچانے کے لئے درخت پر کپڑا لٹکا کر سایہ کیا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’کیا تم نہیں جانتے یا (اس بات کی) گواہی نہیں دیتے کہ میں ہر مؤمن کی جان سے قریب تر ہوں؟‘‘ لوگوں نے کہا : کیوں نہیں! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’پس جس کا میں مولا ہوں اُس کا علی مولا ہے، اے اللہ ! تو اُس سے عداوت رکھ جو اِس سے عداوت رکھے اور اُسے دوست رکھ جواِسے دوست رکھے۔
1. احمد بن حنبل، المسند، 4 : 372
2. بيهقي، السنن الکبریٰ، 5 : 131
3۔ طبرانی نے یہ حدیث ’المعجم الکبیر (5 : 195، رقم : 5068)‘ میں ایک اور سند سے روایت کی ہے۔
4. هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 104
5. حسام الدين هندي، کنز العمال، 13 : 157، رقم : 36485
6. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 45 : 166
7۔ ابن کثیر نے ’البدایہ و النہایہ، (4 : 172)‘ میں اِس روایت کی سند کو جید اور رِجال کو ثقہ قرار دیا ہے۔
|
|