|
حدیث نمبر : 6
عن ابن بريدة عن أبيه، قال : قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : مَن کنتُ وليه فعلیّ وليه.
حضرت ابن بریدہ رضی اللہ عنہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’جس کا میں ولی ہوں، اُس کا علی ولی ہے۔‘‘
1. احمد بن حنبل، المسند، 5 : 361
2. احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 2 : 563، رقم : 947
3. ابن ابي عاصم، کتاب السنه : 601، 603، رقم : 1351، 1366
4. حاکم، المستدرک، 2 : 131، رقم : 2589
5. ابن ابي شيبه، المصنف، 12 : 57، رقم : 12114
6. طبراني، المعجم الکبير، 5 : 166، رقم : 4968
7. طبراني، المعجم الاوسط، 3 : 100، 101، رقم : 2204
8. هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 108
9. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 45 : 143
10۔ ابن عساکر نے یہ حدیث ’تاریخ دمشق الکبیر (45 : 142)‘ میں سیدہ فاطمہ رضی اﷲ عنہما سے بھی روایت کی ہے۔
11. حسام الدين هندي، کنز العمال، 11 : 602، رقم : 32905
12۔ یہی حدیث ذرا مختلف الفاظ کے ساتھ حسام الدین ہندی نے ’کنز العمال (15 : 168، 169، رقم : 36511)‘ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے نقل کی ہے اور کہا ہے کہ اسے ابن راہویہ اور ابن جریر نے روایت کیا ہے۔
حدیث نمبر : 7
عن زيد بن أرقم رضی الله عنه قال : لمّا رجع رسولُ اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم مِن حجة الوداع و نزل غدير خم، أمر بدوحات، فقمن، فقال : کأنّي قد دعيتُ فأجبتُ، إني قد ترکتُ فيکم الثقلين، أحدهما أکبر من الآخر : کتاب اﷲ تعالٰي، و عترتي، فانظروا کيف تخلفوني فيهما، فإنّهما لن يتفرقا حتي يردا علي الحوض. ثم قال : إن اﷲ عزوجل مولاي و أنا مولي کلِ مؤمن. ثم أخذ بيد علیّ، فقال : مَن کنتُ مولاه فهذا وليه، اللّٰهم! والِ من والاه و عادِ من عاداه.
زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حجۃ الوداع سے واپس تشریف لائے تو غدیر خم پر قیام فرمایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سائبان لگانے کا حکم دیا اور وہ لگا دیئے گئے پھر فرمایا : ’’مجھے لگتا ہے کہ عنقریب مجھے (وصال کا) بلاوا آنے کو ہے، جسے میں قبول کر لوں گا۔ تحقیق میں تمہارے درمیان دو اہم چیزیں چھوڑ کر جارہا ہوں، جو ایک دوسرے سے بڑھ کر اہمیت کی حامل ہیں : ایک اللہ کی کتاب اور دوسری میری آل۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ میرے بعد تم ان دونوں کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہو اور وہ ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گی، یہاں تک کہ حوضِ (کوثر) پر میرے سامنے آئیں گی۔‘‘ پھر فرمایا : ’’بے شک اللہ میرا مولا ہے اور میں ہر مؤمن کا مولا ہوں۔‘‘ پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا : ’’جس کا میں مولا ہوں، اُس کا یہ ولی ہے، اے اللہ! جو اِسے (علی کو) دوست رکھے اُسے تو دوست رکھ اور جو اِس سے عداوت رکھے اُس سے تو عداوت رکھ۔‘‘
1. حاکم، المستدرک، 3 : 109، رقم : 4576
2. نسائي، السنن الکبري، 5 : 45، 130، رقم : 8148، 8464
3۔ ابن ابی عاصم نے ’السنہ (ص : 644، رقم : 1555)‘ میں اسے مختصراً ذکر کیا ہے۔
4. طبراني، المعجم الکبير، 5 : 166، رقم : 4969
5۔ نسائی نے ’خصائص امیر المؤمنین علی بن ابی طالب (ص : 84، 85، رقم : 76)‘ میں یہ حدیث صحیح سند کے ساتھ روایت کی ہے۔
6۔ ابومحاسن نے ’المعتصر من المختصر من مشکل الآثار (2 : 301)‘ میں نقل کی ہے۔
حدیث نمبر : 8
عن ابن واثلة أنه سمع زيد بن أرقم، يقول : نزل رسولُ اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم بين مکة و المدينة عند شجرات خمس دوحات عظام، فکنس الناسُ ما تحت الشجرات، ثم راح رسولُ اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم عيشة، فصلي، ثم قام خطيباً فحمد اﷲ و أثني عليه و ذکر و وعظ، فقال ما شاء اﷲ أن يقول : ثم قال : أيها الناس! إني تارکٌ فيکم أمرين، لن تضلوا إن اتبعتموهما، و هما کتابَ اﷲ و أهلَ بيتي عترتي، ثم قال : أتعلمون إني أولي بالمؤمنين مِن أنفسهم؟ ثلاث مرّاتٍ، قالوا : نعم، فقال رسولُ اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : مَن کنتُ مولاه فعلیّ مولاه.
ابن واثلہ سے روایت کہ اُنہوں نے زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے سنا کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مکہ اور مدینہ کے درمیان پانچ بڑے گھنے درختوں کے قریب پڑاؤ کیا اور لوگوں نے درختوں کے نیچے صفائی کی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کچھ دیر آرام فرمایا۔ نماز ادا فرمائی، پھر خطاب فرمانے کیلئے کھڑے ہوئے۔ اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان فرمائی اور وعظ و نصیحت فرمائی، پھر جو اللہ تعالیٰ نے چاہا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیان کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’اے لوگو! میں تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں، جب تک تم ان کی پیروی کرو گے کبھی گمراہ نہیں ہوگے اور وہ (دو چیزیں) اللہ کی کتاب اور میرے اہلِ بیت / اولاد ہیں۔‘‘ اس کے بعد فرمایا : ’’کیا تمہیں علم نہیں کہ میں مؤمنین کی جانوں سے قریب تر ہوں؟‘‘ ایسا تین مرتبہ فرمایا۔ سب نے کہا : ہاں! پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’جس کا میں مولا ہوں اُس کا علی مولا ہے۔‘‘
1. حاکم، المستدرک، 3 : 109، 110، رقم : 4577
2. ابن کثير، البدايه والنهايه، 4 : 168
3. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 45 : 164
4. حسام الدين هندي، کنز العمال، 1 : 381، رقم : 1657
حدیث نمبر : 9
عن زيد بن أرقم رضي الله عنه، قال : خرجنا مع رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم حتي انتهينا إلي غدير خم، فأمر بروحٍ فکسح في يوم ما أتي علينا يوم کان أشدّ حراً منه، فحمد اﷲ و أثني عليه، و قال : يا أيها الناس! أنّه لم يبعث نبیٌ قط إلا ما عاش نصف ما عاش الذي کان قبله و إني أوشک أن أدعي فأجيب، و إني تارک فيکم ما لن تضلوا بعده کتاب اﷲ عزوجل. ثم قام و أخذ بيد علي رضي الله عنه، فقال : يا أيها الناس! مَن أولي بکم من أنفسکم؟ قالوا : اﷲ و رسوله أعلم، ألستُ أولي بکم من أنفسکم؟ قالوا : بلي، قال : مَن کنتُ مولاه فعلیّ مولاه.
زید بن ارقم رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ نکلے یہاں تک کہ غدیر خم پہنچ گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سائبان لگانے کا حکم دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس دن تھکاوٹ محسوس کر رہے تھے اور وہ دن بہت گرم تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ کی حمد و ثنا بیان کی اور فرمایا : ’’اے لوگو! اللہ تعالیٰ نے جتنے نبی بھیجے ہر نبی نے اپنے سے پہلے نبی سے نصف زندگی پائی، اور مجھے لگتا ہے کہ عنقریب مجھے (وصال کا) بلاوا آنے کو ہے جسے میں قبول کر لوں گا۔ میں تمہارے اندر وہ چیز چھوڑے جا رہا ہوں کہ اُس کے ہوتے ہوئے تم ہرگز گمراہ نہیں ہو گے، وہ کتاب اﷲ ہے۔‘‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کھڑے ہوئے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ہاتھ تھام لیا اور فرمایا : ’’اے لوگو! کون ہے جو تمہاری جانوں سے زیادہ قریب ہے؟‘‘ سب نے کہا : اللہ اور اُس کا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بہتر جانتے ہیں۔ (پھر) فرمایا : ’’کیا میں تمہاری جانوں سے قریب تر نہیں ہوں؟‘‘ اُنہوں نے کہا : کیوں نہیں! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’جس کا میں مولا ہوں اُس کا علی مولا ہے۔‘‘
1. حاکم، المستدرک، 3 : 533، رقم : 6272
2. طبراني، المعجم الکبير، 5 : 171، 172، رقم : 4986
3. حسام الدين هندي، کنزالعمال، 11 : 602، رقم : 32904
یہ حدیث شیخین کی شرط پر صحیح ہے اور اِمام ذہبی نے بھی اسے صحیح قرار دیا ہے۔
حدیث نمبر : 10
عن سعد بن أبي وقاص رضي الله عنه، قال : لقد سمعتُ رسولَ اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يقول في علیّ ثلاث خصال، لأن يکون لي واحدة منهن أحبّ إلیّ من حمر النعم. سمعتُه يقول : إنه بمنزلة هارون من موسي، إلا أنه لا نبي بعدي، و سمعته يقول : لأ عطينّ الرأية غداً رجلاً يحبّ اﷲ و رسوله، و يحبّه اﷲ و رسوله و سمعتُه يقول : مَن کنتُ مولاه، فعلیّ مولاه.
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی تین خصلتیں ایسی بتائی ہیں کہ اگر میں اُن میں سے ایک کا بھی حامل ہوتا تو وہ مجھے سُرخ اُونٹوں سے زیادہ محبوب ہوتی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (ایک موقع پر) ارشاد فرمایا : ’’علی میری جگہ پر اسی طرح ہیں جیسے ہارون موسیٰ کی جگہ پر تھے، مگر میرے بعد کوئی نبی نہیں۔‘‘ اور فرمایا : ’’میں آج اس شخص کو علم عطا کروں گا جو اللہ اور اُس کے رسول سے محبت کرتا ہے اور اللہ اور اس کا رسول اس سے محبت کرتے ہیں۔‘‘ (راوی کہتے ہیں کہ) میں نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو (اس موقع پر) یہ فرماتے ہوئے بھی سنا : ’’جس کا میں مولا ہوں اُس کا علی مولا ہے۔‘‘
1. نسائي، خصائص امير المومنين علي بن ابي طالب رضي الله عنه : 33، 34، 88، رقم : 10، 80
2۔ شاشی نے ’المسند (1 : 165، 166، رقم : 106)‘ میں یہ روایت عامر بن سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے لی ہے۔
3۔ ابن عساکر نے ’تاریخ دمشق الکبیر (45 : 88)‘ میں عامر بن سعد اور سعد بن ابی وقاص رضی اﷲ عنہما سے مروی احادیث بیان کی ہیں۔
4۔ حسام الدین ہندی نے ’کنز العمال (15 : 163، رقم : 36496)‘ میں عامر بن سعد رضی اللہ عنہ سے یہ روایت چند الفاظ کے اضافے کے ساتھ ذکر کی۔
اِس حدیث کی اسناد صحیح ہیں۔
|
|