چھٹی فصل | |||||
رحلت پیغمبر (ص)کے بعد آپ پرھونے والے ظلم
حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام اپنے کلمات قصار میں ارشاد فرماتے ھیں کہ مجھے اس ذات کی قسم جس نے دانے کو شگافتہ کیا اور کلیوں کو نکالا کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا عنقریب میرے بعد یہ امت تجھ پر ظلم ڈھائے گی ۔[1]
حسد اور کینہ:
حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام نے اپنے کلمات قصار میں ارشاد فرمایا کہ قریش جس قسم کا کینہ حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ رکھتے تھے اسی قسم کا کینہ میرے ساتھ رکھتے ھیں اور میری وفات کے بعد یہ لوگ میری اولاد کے ساتھ بھی اسی طرح کا بغض اور کینہ رکھیں گے ۔میں نے قریش کا کیا بگاڑا ھے میں نے تو فقط اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت میں ان کے ساتھ جنگ کی ھے ۔ اگر وہ مسلمان ھیں تو مجھے یہ بتائےں کہ کیا جو اللہ اور اس کے رسول( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کرے اس کی یھی جزا ھے؟[2]
رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایک حصہ:
حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کلمات قصارمیں ارشاد فرماتے ھیں:
میں حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی میںان کاا یک جز شمار ھوتا تھااور لوگ مجھے اس طرح عزت کی نگاہ سے دیکھتے جیسے آسمان پر ستاروں کو دیکھتے ھیں پھر ایک وقت ایسا آیازمانے نے مجھ سے آنکھیں پھیر لیں۔ اور مجھے فلاں فلاں کے ساتھ ملا دیا گیا اور وہ سب لوگ عثمان کی طرح تھے میں نے کھایہ عجیب بدبو ھے ؟ اس کے بعد بھی زمانہ مجھ سے راضی نہ ھوا اور مجھے اس قدر حقیر جانا کہ مجھے ابن ھند اور ابن نابغہ کے مقابل لا کھڑا کیا ۔[3] ایک شخص نے حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام سے سوال کیا کہ آپ کا کیا خیال ھے اگر حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد ان کا ایک بالغ ،عاقل اور راشد، بیٹا ھوتاتو کیا عرب خلافت اس کے سپرد کر دیتے ؟ آپ نے فرمایا: ھرگز نھیں اگر وہ میری طرح صبر نہ کرتا تو یہ لوگ اسے قتل کردیتے کیونکہ عربوں کوحضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لائے ھوئے احکام پسند نہ تھے اور اللہ تعالی نے انھیں جو فضیلت عطا فرمائی تھی اس میں وہ حسد کرتے تھے ان کے ساتھ انھوں نے بڑی بڑی جنگیں کیں یہاں تک کہ ان کی زوجہ پر تھمت لگا دی یہ لوگ بڑے بڑے انعامات اور عظیم احسانات کے باوجود ان سے نفرت کرتے تھے۔ ان کی زندگی میں ھی وہ اس بات پر متفق ھو گئے تھے کہ آپ کی وفات کے بعد خلافت کو اھل بیت( علیھم السلام) تک نھیں پھنچنے دیں گے اگر قریش نے آپ کے مبارک نام کو فقط حکومت کا ذریعہ بادشاھت اور عزت کا ڈھال نہ بنایا ھوتا تو آپ کی وفات کے بعد وہ ایک دن بھی اللہ تعالی کی عبادت نہ کرتے اور اپنی سابقہ گمراھیوں کے گڑھے کی طرف لوٹ گئے ھوتے۔ پھر اللہ تعالی نے ان پر فتح کے دروازے کھول دیئے اور فاقوں کے بعد انھیں کوئی چیز مل گئی اور انھوں نے محنت کر کے مال اکھٹا کر لیا اور اسلام جس چیز کو ناپسند کرتا وہ ان کی نظر میں اچھی کھلائی۔ اکثر لوگوں کے دل دین کے سلسلے میں مضطرب رھے اور اس قوم نے کھاکہ اگر یہ حق نہ ھوتا تو یہ کامیابی نہ ھوتی اور ان فتوحات کو وہ اپنے بادشاھوں کی حسن تدبیر اوربھترین آراء کی طرف منسوب کرتے ۔یہ لوگوں کو یہ تاکید کرتے کہ ان بادشاھوں کی تعریف کرو اور دوسروں کی توھین کرو، ھم وہ لوگ ھیں جنھیں توھین اور غلط الفاظ میں یاد کیا جاتا ھے اور ھمارے نور کو بجھانے کی کوشش کی گئی ھماری آواز اور وصیت کو دبایا گیا اور ایک طویل زمانے تک یھی سلسلہ چلتا رھادنیا والے ھمارے ساتھ زیادتی کرتے رھے۔ یہاں تک کہ کئی سال ا س طرح گزر گئے اور ھمیں جاننے والے اکثر لوگ مر گئے ھیں اور بھت سے ایسے لوگ پیدا ھوگئے جو ھمیں نھیں جانتے تھے اگر اس وقت حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرزند ھوتا تو اس کا کیا حال ھوتا ؟ بے شک مجھے حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جہاد اور اطاعت کی وجہ سے اپنے قریب کیا ھے اور اس وجہ سے نھیں کہ جسے تم قرب سم ھتے ھو یعنی فقط نسب اور خون کی وجہ سے میں حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اقارب سے نھیں ھوں بلکہ حسب و نسب کے علاوہ جہاداور ان کی حکم پر عمل کرنے کی وجہ سے ان کے قریب ھوں۔ اس وقت حضرت نے راوی سے پوچھا کہ تیری رائے کیا ھے؟ اگر رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بیٹا ھوتا تو کیا وہ اسی طرح کرتا جیسے میں نے کیا ھے اور جس طرح میں ان سے دور ھوں وہ بھی دور ھوتا اور پھر قریش کے نزدیک اس کی قدر و منزلت کا کوئی سبب نہ ھوتا آخر میں ارشاد فرمایا: اے اللہ تو جانتا ھے کہ میرا مملکت ،ریاست اور امارت کا کوئی ارادہ نھیں‘ میری تو فقط یہ خواھش ھے کہ تیر ی حدود اور تیری شریعت کو قائم کروں ‘تمام امور صحیح طور پر انجام دوں‘ لوگوں کے حقوق ان تک پھنچادوں ‘ انھیں تیرے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے راستے کی طرف ھدایت کروں اور گمراھوں کو تیری ھدایت کے نور کی طرف رھنمائی کروں ۔[4] مظلوم کائنات :
حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام اپنے کلمات قصار میںارشاد فرماتے ھیں جس دن سے اللہ تبارک تعالی نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روح قبض فرمائی ھے اس دن سے لےکر آج تک میں مظلومےت کی زندگی بسر کر رہاھوں۔[5]
حضرت امیر امومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام اپنے کلمات قصار میں ارشاد فرماتے ھیں۔ پروردگار عالم میں تجھ سے قریش کے خلاف مدد چاھتا ھوں۔انھوں نے تیرے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ سر کشی اور بغاوت کی ان کے ساتھ سخت جنگےں کیں اور میں تیرے رسول کی اطاعت میں ان کے ساتھ لڑتا رھااور اب انھوں نے مجھے نشانہ بنالیا ھے۔ پروردگار تو میرے حسن (علیہ السلام ) اور حسین (علیہ السلام) کی حفاظت فرما۔ جب تک میںزندہ ھوںقریش کے ظالموںکوان پر قدرت عطانہ کر اورجب میں اس دنیا سے کوچ کر جاؤں تو تو ھی ان کا بھترین محافظ ھے اور تو ھی ھر چیز پر گواہ ھے۔ [6] وصیت رسول :
حضرت امیر امومنین علیہ السلام فرماتے ھیں کہ مجھ سے حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے علی (ع)اگر لوگ آپ(ع) کے خلاف ھو جائیں تو اس وقت صبر و تحمل اور خاموشی کے ساتھ زندگی بسر کرناچنانچہ جب لوگ مجھ سے جدا ھوئے تو میں نے ناگوارحالت میںصبر وتحمل سے کام لیا اور بالکل خاموشی کے ساتھ گوشہ نشےنی اختیار کر لی ۔[7]
حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام فرماتے ھیں مجھے سعد اور ابن عمر پر تعجب ھے کہ ان لوگوں کا خیال ھے کہ میں دنیا کے لئے جنگ کر رھاھوں۔ کیا حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی دنیا کے لئے جنگ کرتے تھے ۔ لیکن اگر ان کا خیال یہ ھے کہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو بتوں کو توڑنے اور خدا کی عبادت کے لئے جنگ کرتے تھے تو میں بھی فقط گمراھیوں کو دور کرنے اور فحاشی اور فساد کو روکنے کے لئے جنگ کرتا رہاھوں۔ کیا مجھے دنیا کی محبت کے ساتھ متھم کیا جاسکتا ھے؟ ےقےنا نھیں۔ خدا کی قسم اگر دنیا ایک انسان کی شکل میں مجسمہ بن کر میرے سامنے آجائے تو میں تلوار کے ساتھ اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر دونگا۔[8] پیراھن خلافت :
حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام اپنے مشھو ر خطبہ شقیقیہ میں ارشاد فرماتے ھیں:
خدا کی قسم ابو قحافہ کے فرزند نے خلافت کا پیراھن پھن لیا حا لا نکہ وہ میرے بارے میں اچھی طرح جانتا تھا کہ میرا خلا فت کے سلسلے میں وھی مقام ھے جو چکی کے اندر اس کے کیل کا ھوتا ھے۔ میں وہ (کوہ بلند ھوں )جس پر سے سےلاب کا پانی گزر کر نیچے گر جاتا ھے اور مجھ تک پرندہ پر نھیں مار سکتا (اس کے باوجود )میں نے خلافت کے آگے پر دہ لٹکا دیا اور اس سے چشم پوشی کر لی اور سوچنا شروع کر دیا کہ اپنے کٹے ھوئے ہاتھوں سے کس طرح حملہ کروں یا اس بھیانک تیرگی پر صبر کروں کہ جس میں سن رسیدہ چل بستے ھیں اور بچے بوڑھے ھوجاتے ھیں اور مومن جد وجھد کرتے ھوئے اپنے پروردگار کے پاس پھنچ جاتے ھیں۔ مجھے اس بھیانک اندھےرے میں صبر کرنا ھی قرےن عقل نظر آیا لہٰذا میں نے صبر کیا حالا نکہ میری آنکھوں میں (غبار و اندہ )کی خلش تھی اوریہ امر حلق میں کانٹے کی طرح پھنس کے رہ گیا اور اس طرح میں اپنی میراث کو لٹتے ھوئے دےکھ رھاتھا۔[9] مکالمہ حضرت عمر اور حضرت ابن عباس
حضرت عمر ابن خطاب ،حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے ساتھ گفتگو کرتے ھوئے کھتے ھیں:
ابن عباس میں تیرے مولا و آقا کو مظلوم سمجھتا ھوں۔ ابن عباس کھتے ھیں کہ اے مومنوں کے بادشاہ ان کی یہ مظلومےت آپ کی وجہ سے ھے۔ حضرت عمر ابن خطاب نے کچھ دےر توقف کیا حا لانکہ دل ھی دل میں حضرت ابن عباس کے جواب کا اعتراف کر چکے تھے کھنے لگے: میرے خیال میں قوم نے انھیں خلافت سے اس لئے دور رکھا ھے کیونکہ وہ نوجوان ھیں اور اھل عرب انھیں کم سن سمجھتے ھیں (حا لانکہ )وہ کامل سن کے انسان ھیں ،اور اس کے بعد کھنے لگے: ابن عباس کیا آپ نھیں جانتے کہ اللہ تعالی نے حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو بھی چالیس سال کے بعد مبعوث رسالت فرمایا تھا: اس بات کا جواب دینا ابن عباس کے لئے چیلنج کی حیثیت رکھتا تھا ابن عباس نے کھااے مومنوں کے باد شاہ جہاں تک صاحبان حجت کا تعلق ھے وہ انھیں ابتداء ھی سے کامل ھوتے ھیں بلکہ جب سے اللہ نے منار اسلام کو بلند کیا ھے اسی وقت سے انھیں کامل بنایا ھے لیکن یہ لوگ اسے محروم گردانتے رھے ھیں اور حضرت رسول اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی وفات سے پھلے حضرت زید کو تمام مسلمانوں کا امیر بنایا تھا تو اس وقت قریش کے بزرگ لوگ بھی موجود تھے جبکہ حضرت اسامہ بن زید فقط بےس سالہ نوجوان تھے۔[10] ایک اور گفتگو:
ابن حدید شرح نھج البلاغہ میں ابی بکر احمد بن عبد العزےز جوھری کی کتاب سقےفہ سے ابن عباس کی سند کے ساتھ روایت بیان کرتے ھیں کہ ابن عباس نے فرمایا:
میں حضرت عمر کے ساتھ مدینہ کی گلی میں جا رھاتھا ھم نے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے ھوئے تھے حضرت عمر نے کھاابن عباس میرے خیال میں تیرے آقا بھت مظلوم ھیں میں نے دل ھی دل میں کھاخدا کی قسم اس قسم کی باتیں مجھ سے پھلے کبھی نہ کھی۔ بھر حال میں نے کھا: اے امیر ان کی یہ مظلومےت آپ کی وجہ سے ھے۔ یہ سننا تھا حضرت عمر نے میرے ہاتھ سے اپنا ہاتھ چھڑا لیا اور پھر کچھ دےر تک علیحدگی میں چلنے لگے پھر ایک جگہ ٹھھرے کچھ دیربعد میرے پاس آ کر کھنے لگے ابن عباس میرے خیال میں قوم نے کم سنی کی وجہ سے انھیں امر خلافت، سے دور رکھا ھے۔ میں نے دل میں کھاکہ یہ تو آپ کی پھلی بات سے بھی زیادہ تعجب خےز ھے۔ میں نے کھاخدا کی قسم اس وقت تو ان کی کم سنی کو مد نظر نھیں رکھا گیا کہ جب اللہ تبارک و تعالی نے انھیں حکم دیا کہ جاؤ اور حضرت ابو بکر سے سورہ برائت لے لو اور اس کی جگہ خود( حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے ذریعہ )تبلیغ کے فرےضہ کو ادا کرو۔[11] احسا س ندامت :
جب حضرت ابوبکر نے حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھاکے گھر پر وہ (مشھور و معروف) چڑھائی کی حالانکہ اس مقدس گھر میں داخل ھوتے وقت حضرت رسول اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اجازت لیتے تھے اور حضرت جبرئیل علیہ السلام اس دروازے پر کھڑے رھتے تھے ۔
توحضرت ابوبکر اپنی زندگی کے آخری ایام میں کھتے ھیں کاش میں جناب سیدہ فاطمہ(ع) کے گھر پر حملہ نہ کرتا خواہ جناب فاطمہ سلام اللہ علیھامجھے برابھلا ھی کیوں نہ کھتیں۔ ابن ابی الحدید کھتے ھیں کہ میرے نزدیک صحیح قول یھی ھے کہ حضرت فاطمہ (ع) حضرت ابوبکر اور حضرت عمر پر ناراضگی کے عالم میں اس دنیا سے کوچ کر گئیں اور وصیت کرگئیں کہ یہ دونوں میری نماز جنازہ میں شریک نہ ھوں۔[12] عمر اور ابن عباس کی گفتگو :
ابوبکر احمد بن عبدالعزیز جوھری اپنی کتاب سقیفہ میں حضرت ابن عباس کی سند کے ساتھ روایت بیان کرتے ھیں کہ حضرت ابن عباس نے فرمایا:ایک مرتبہ حضرت عمر حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام کے پاس آئے میں اس وقت حضرت کے ساتھ ان کے صحن میں کھڑا تھا انھوں نے حضرت کو سلام کیا۔
حضرت نے اس سے پوچھا کہاں کا ارادہ ھے؟ وہ کھنے لگا بقیع جا رھاھوں اور حضرت سے پوچھا آپ کا یہ ساتھی (ابن عباس)وہاں نماز پڑھنے نھیں جائے گا ؟ حضرت نے فرمایا کیوں نھیں ۔ حضرت علی علیہ السلام نے مجھ سے کھاکہ اٹھو اور اس کے ساتھ جاؤ۔ میں اٹھا اور اس کے ساتھ چلنے لگا اس نے میری انگلیاں اپنی انگلیوں میں ڈالیں اور تھوڑی دیر بعد جب ھم بقیع سے آگے نکل گئے تو مجھ سے کھنے لگے ابن عباس خدا کی قسم آپ کے مولا حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد پوری کائنات کے انسانوں میں خلافت کے زیادہ حقدار ھیں لیکن مجھے دو باتوں کا خوف ھے۔ ابن عباس کھتے ھیں کہ اس نے اس موضوع پر بات چھےڑ دی جبکہ میں اس مسئلہ پربات نھیں کرنا چاھتا تھا۔بھرحال میں نے پوچھا وہ دو باتیں کیا ھیں ؟ کھنے لگا مجھے اس بات کا خوف ھے کہ یہ کم سن بھی ھے اور بنی عبدمطلب سے محبت بھی رکھتا ھے۔[13] حضرت عمر کا استدلال :
ہاشم الحسینی اپنی کتاب سیرت ائمہ اثنی عشر میں کھتے ھیں کہ ابوحفص (عمر)نے بڑی عجیب بات کھی ھے کہ مجھے حضرت علی علیہ السلام سے اس بات کاخوف ھے کہ وہ بنی عبدالمطلب سے محبت کرتے ھیںاور اسی وجہ سے حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد ان کے لئے خلافت کی بیعت نہ لی گئی ۔
جس طرح ابو حفص نے دعوی کیا ھے توکیا حضرت عثمان بن عفان کی اپنے خاندان کے ساتھ محبت کا خیال حضرت عمر کو نھیںآیا اس نے عثمان کو تو خلافت کے گھوارے میں لٹادیا اور اسے بادشاہ بنانے کے لئے دن رات صرف کر دیئے اور اس کی خاطر شوریٰ میں افراد مقرر کئے تاکہ وہ پھلے سے طے شدہ اتفاق پر قائم رھیں گویا حضرت عمر کی بات کا یہ مطلب ھے کہ عثمان کو بادشاہ بنانے میں اس بات کا خوف نھیں ھوا کہ وہ اپنے خاندان کو لوگوں کی گردنوں پر سوار کردےگا۔[14] اجنبی کا تعجب :
ابن ابی الحدید شرح نھج البلاغہ میں ابوبکر الانباری کی کتاب امالی سے روایت کرتے ھیں کہ حضرت علی السلام ایک دن مسجد میں حضرت عمر کے پاس بیٹھے ھوئے تھے جب آپ(ع) وہاں سے جانے کے لئے اٹھنے لگے توایک شخص نے حیرت و تعجب سے دیکھا تو اس سے ابن خطاب نے کھا: اس جیسے شخص کا حق ھے کہ ان پر تعجب کیا جائے خدا کی قسم اگر ان کی تلوار نہ ھوتی تو دین کے ستون قائم نہ ھوتے ۔ آنحضرت (ص)کے بعدیہ پوری امت میں سب سے بڑے قاضی ھیں اورامت میں سب سے پھلے اسلام قبول کرنے والے اور صاحب فضیلت ھیں۔ اس شخص نے جب یہ سنا تو وہ شخص ابن خطاب سے کھنے لگا اگر وہ ان سب خصوصیات کے مالک ھیں تو انھیں خلافت سے کیوں دور رکھا گیا ؟ ابن خطاب نے کھاھمیں ان کی کم سنی اور محبت بنی عبدالمطلب ناپسند تھی ۔[15]
سوال وجواب :
زبیر بن بکار کتاب موفقیات میں محمد بن اسحاق سے اس طرح روایت بیان کرتے ھیں کہ جب حضرت ابوبکر کی بیعت ھونے لگی تو تیم بن مرہ نے بھت افتخار کیا اور کھنے لگا:
سب بزرگان مہاجرو انصار کو اس میں شک نھیں ھے کہ حضرت علی علیہ السلام ھی حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد صاحب امر ھیں۔ فضل بن عباس کھنے لگے اے خاندان قریش اور خصوصا اے بنی تیم بے شک آپ کوحضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت کی وجہ سے خلافت ملی ھے ۔اگر ھم خلافت کا مطالبہ کرتے تو ھم تمہاری نسبت اس کے زیادہ حقدار تھے اور لوگ بھی غیروں کی نسبت اسے زیادہ پسند کرتے لیکن اپنوں نے ھمارے ساتھ حسد کیا اور یہ سب کچھ ھمارے ساتھ کینہ رکھنے کی وجہ سے ھوا ھے کیونکہ ھم جانتے ھیں اس کے صاحب کے لئے عھد ھے اور اس کی طرف اس کی انتھا ھے۔ ابولھب بن عبدالمطلب کے ایک بیٹے نے یہ اشعار کھے : ماکنتُ اٴحسبُ اٴنَّ الامرَ منصرفاً عن ھاشم ثمٍ منھا عن اٴبي حسنِ اٴلیس اولُ من صلَّیٰ لقبلتکم واٴعلمُ الناس بالقرآنِ والسننِ واٴقرب الناسِ عھداَ بالنبي ومَن جبریل عون لہ في الغسل والکفَنِ مافیہ ما فیھم لا یمترون بہ ولیس في القوم ما فیہ من الحسن ماذا الذي ردھم عنہ فَنَعلمہ ھا اِنَّ ذا غبنُنامن اٴَعظم الغبنِ میں یہ خیال نھیں کرتا کہ امر خلافت پھلے ہاشم اور پھر ابوالحسن سے منصرف ھوجائے۔ کیا وہ پھلی شخصیت نھیں ھیں جنھوں نے آپ کے قبلہ کی طرف نماز پڑھی اور کیا وھی پھلی ھستی نھیں ھے جو قرآن و سنت کو سب سے زیادہ جاننے والی ھے او ر کیا انھیں سب سے زیادہ قرب حضرت نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حاصل نھیںھے؟ یہ وھی ھیں جن کی حضرت نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے غسل و کفن میں حضرت جبرئیل علیہ السلام نے مدد کی ۔جن فضائل و خصوصیات کے یہ حامل ھیں وہ کسی میں نھیں ھیں اور کسی کو اس میں شک و شبہ نھیں ھے (کیونکہ)اور پوری قوم میں وہ خصوصیات نھیں ھیں جو ان میں موجود ھیں یہ لوگ جب ان خصوصیات کے حامل تھے تو پھر کس چیز کی وجہ سے انھیں محروم کیا گیا یقینا ھم نے انھیں بھت بڑا دھوکا دیا ۔[16] حضرت عمر کا حسن سلوک !!
ابن حدید کھتے ھیں کہ حضرت عمر ایک لشکر لے کر جناب سیدہ فاطمہ الزھراء سلام اللہ علیھاکے دروازے پر پھنچے۔ اس لشکر میں اسعد بن خضیر اور سلمہ بن اسلم وغیرہ جیسے لوگ شامل تھے ان سے عمر نے کھاجو لوگ بےعت کرنے سے انکار کر رھے ھیں انھیں لے آؤ تا کہ وہ بیعت کریں ۔ان لوگوں نے بیعت کرنے سے انکار کر دیااور حضرت زبیر نے بیعت نہ کی اور اپنی تلوار کے ساتھ ان پر ٹوٹ پڑے تو حضرت عمر نے کھا: تمہارے مقابلے میں کتا نکل آیا ھے اسے پکڑ لو تو سلمہ بن اسلم نے حضرت زبیر کے ہاتھ سے تلوار چھین کردیوار پر دے ماری۔ پھر یہ لوگ حضرت علی علیہ السلام کے طرف بڑھے اور انھیں اپنے ساتھ لے گئے آپ (ع)کے ساتھ بنی ہاشم بھی تھے حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا: میں خدا کا بندہ اور حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بھائی ھوں لیکن وہ انھیں حضرت ابوبکر کے پاس لے گئے اس نے مطالبہ کیا کہ میری بےعت کرو ۔
حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام نے فرمایا: کہ کیامیں تمہاری نسبت خلافت کا زیادہ حقدار نھیں ھوں؟ میں کبھی بھی تمہاری بیعت نہ کروں گا بلکہ تمہارا حق بنتا ھے کہ تم میری بیعت کرو ۔تم لوگوں نے خلافت کو انصار کے سامنے یہ دلیل پیش کر کے حاصل کیا کہ ھم رسول حضرت خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے رشتہ دار ھیں لہٰذا ھر حال میں ھماری اطاعت کرو اور ھماری خلافت کو تسلیم کرو ۔ میں بھی تمہارے سامنے وھی دلیل پیش کرتا ھوں جو تم نے انصار کے سامنے پیش کی (میں کھتا ھوں کہ مجھے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ سب سے زیادہ قربت حاصل ھے)۔ لہٰذا اگر تم اپنی ذات کے متعلق اللہ سے ڈرتے ھو تو انصاف کرو اور ھمیں بھی خلافت کے معاملے میں اس طرح پہچانو جس طرح تمھیں انصار نے پہچانا ھے وگرنہ تم جان بوجھ کر ھم پر ظلم کرنے والوں میں قرار پاؤ گے۔ حضرت عمر کھتے ھیں جب تک یہ بیعت نہ کریں انھیں نا چھوڑنا۔ حضرت علی علیہ السلام نے اسے جواب دیا کہ تم جو خلافت کا دودھ دوہ رھے ھو اسے مضبوطی سے تھام کر رکھنا کیونکہ کل یہ معاملہ تجھے بھی پیش آئے گا (یعنی تم بھی آئندہ اپنی خلافت کے لئے راھیں ھموار کر رھے ھو) خدا کی قسم میں تمہاری بات نھیں مانوں گا اور میں اس کی ھرگز بیعت نہ کروں گا پھر فرمایا: اے مہاجرین اللہ اللہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خلافت کو ان کی اھلبیت سے چھین کر اپنے گھروں میں داخل نہ کرو اور لوگوں میں جو اس مقام کے زیادہ حقدار اور اھل ھیں انھیں دور نہ کرو ۔ اے گروہ مہاجرین خدا کی قسم ھم اھلبیت اس خلافت کے تم سے زیادہ حقدار ھیں کیا کوئی ھم جیسا قاری قرآن دین خدا کا فقیہ، حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت کا جاننے والا اور رعیت کی ذمہ داریوں کا بوجھ اپنے کندھوں پر اٹھانے والا ھے ۔خدا کی قسم ھمارے معاملات میں اپنی خواھشات کی پیروی نہ کرو اور حق سے دوری اختیار نہ کرو ۔[17] حضرت عمر کی پریشانی:
اسی طرح حضرت عمر اور حضرت ابن عباس کے درمیان خلافت کے حوالہ سے ایک اور گفتگوبھی کتب میں موجود ھے حضرت ابن عباس کھتے ھیں کہ میں عمر کے پاس موجود تھا اس نے ٹھنڈی آہ لی، میں نے سمجھا کہ اس کی پسلیوںمیں درد ھو رھاھے اور میں نے اس سے سوال کیا اے امیر ٹھنڈی سانس کیوں لے رھے ھیں کیا کوئی شدید تکلیف ھے ۔
انھوں نے جواب دیا: ابن عباس خدا کی قسم ایسی بات نھیں ھے (بلکہ)میں تو سوچ رہاھوں کہ میرے بعد خلافت کس کو ملنی چاھیے پھر خود ھی کھنے لگے شاید آپ کے مولا و سردار ھی اس کے زیادہ حقدار ھیں ۔ میں نے کھاپھر تم لوگوں نے ان سے یہ حق کیوں چھینا ھے ؟حالانکہ ان کا جہاد ،قرابت رسول، سبقت اسلام اور علم تم سب پر واضح ھے ،وہ کھنے لگے تم نے سچ کھاھے لیکن وہ خوش مزاج آدمی ھیں یہ کہہ کر وہ حضرت علی علیہ السلام کے متعلق اپنے نظریہ کا اظہار کرنے لگا۔ میں نے سوچا کہ کبھی تو وہ لوگ یہ بہانہ بناتے ھیں قریش نھیں چاھتے کہ خلافت و نبوت ایک گھر میں جمع ھوں اورکبھی کھتے ھیں کہ وہ نوجوان ھیں اور بنی عبدالمطلب کے ساتھ محبت رکھتے ھیں اور کبھی کھتے ھیں کہ وہ خو ش مزاج ھیں۔خدا کی قسم ان سب سے اچھا تو یہ ھے کہ وہ سچ سچ یہ کہہ دیں کہ اگر حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کو ولایت دے دیں تو یہ بات ان کی جھوٹی شان وشوکت پر گراں گزرے گی جبکہ حق واضح ھے۔ صاحب سیرت الائمہ الاثنی عشر کھتے ھیں : آپ سب لوگ اچھی طرح جانتے ھیں کہ ابن خطاب تمام مسلمانوں سے سختی، درشتی اور لوگوں کے ساتھ بد اخلاقی میں مشھور و معروف ھے، اور اکثر لوگوں نے حضرت ابوبکر کی توجہ ان خصائص اور بری صفات کی طرف مبذول کروائی اور کھاکہ یہ قبیح اور برے صفات ھیں جن سے نفرت اور دوری کی جاتی ھے ۔ جیسا کہ اس مطلب کی طرف وہ آیہ مبارکہ بھی اشارہ کر رھی ھے جس میں اللہ تعالی نے حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق کے متعلق ارشاد فرمایا: < وَلَوْ کُنْتَ فَظًّا غَلِیظَ الْقَلْبِ لاَنْفَضُّوا مِنْ حَوْلِکَ > [18] اگر آپ سخت دل ھوتے تویہ لوگ آپ کے نزدیک نہ بیٹھتے ۔ لیکن ان بری خصلتوں کے باوجود بھی حضرت ابوبکر اس خلافت کا اصرار کرتے ھیں۔ جہاں تک حضرت علی علیہ السلام کی فقیروں کمزوروں کی ڈھارس اور تسلی کے لئے خوش مزاجی کا تعلق ھے تو فقط اس کی وجہ سے انھیں خلافت سے دور رکھنا مناسب نھیں ھے۔ جبکہ ان کے فضائل، مناقب جہاد اور سب سے پھلا مسلمان ھونا سب کے سامنے واضح ھے ۔[19] حضرت عمر اور حضرت ابن عباس کی ایک اور گفتگو
ایک اور مناسبت سے حضرت عمر کھتے ھیں کہ اے ابن عباس کیا تم جانتے ھوکہ لوگوں نے تم سے خلافت کودور کیوں رکھا؟
ابن عباس کھتے ھیں اے امیر میں نھیں جانتا۔ حضرت عمر کھتے ھیں: میں جانتا ھوں اس کی وجہ یہ ھے کہ قریش خلافت اور نبوت کے ایک گھر میں جمع ھونے کو ناپسند کرتے تھے ، لہٰذا قریش نے ایسا نہ ھونے دیا، ےعنی خلافت اور نبوت کو ایک گھر میں جمع نہ ھونے دیا اور خلافت کو حاصل کر لیا اور اپنے اس کام کو صحیح سمجھتے ھیں ۔ابن عباس نے اسے جواب دیا : اے امیر اگر تیرے غضب سے مجھے امان ھو اور آپ جواب سننے کی سکت بھی رکھتے ھوں تو میں کچھ عرض کروں؟ وہ کھنے لگے جو کچھ کھنا چاھتے ھو کھو۔ ابن عباس نے کھتے ھیں: اگر قریش اسے پسند نھیں کرتے (کہ خلافت اور نبوت ایک مقام پر ھوں)تو پھر سن لو کہ اللہ تعالی بھی ایک قوم سے اس طرح فرماتاھے : <ذَلِکَ بِاٴَنَّہُمْ کَرِہُوا مَا اٴَنزَلَ اللهُ فَاٴَحْبَطَ اٴَعْمَالَہُمْ ۔> [20] اللہ تعالی نے جو کچھ نازل کیا ھے وہ لوگ اسے پسند نھیں کرتے لہٰذا اللہ تعالی نے ان کے تمام اعمال اکارت کر دیئے ۔ جہاں تک تمہارا یہ کھنا کہ لوگ اس پر فخر و مباحات کرتے ھیں ۔اگر خلافت کوئی فخر ھے تو وہ قرابت کے فخر کی وجہ سے ھے اور ھم وہ لوگ ھیں جن کے اخلاق حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق سے مشتق ھیں جن کے اخلاق کے متعلق خدا اس طرح فرماتا ھے : < وَإِنَّکَ لَعَلی خُلُقٍ عَظِیمٍ > [21] بے شک آپ خلق عظیم کے مالک ھیں۔ سورہ شعراء میں خدا اس طرح فرماتا ھے : < وَاخْفِضْ جَنَاحَکَ لِمَنْ اتَّبَعَکَ مِنْ الْمُؤْمِنِینَ > [22] اور جو مومنین تمہارے پیروکار بن گئے ھیں ان کے سامنے اپنے بازو جھکاؤ یعنی ان کے ساتھ تواضع کرو۔ جہاں تک تیرا یہ کھنا ھے کہ قریش نے خلیفہ کو انتخاب کیا ھے۔ تو اس کے متعلق اللہ تعالی کا یہ فرمان موجود ھے : < وَرَبُّکَ یَخْلُقُ مَا یَشَاءُ وَیَخْتَارُ مَا کَانَ لَہُمْ الْخِیَرَةُ > [23] اور تمہارا پروردگار جسے چاھتا ھے پیدا کرتا ھے اور جسے چاھتا ھے منتخب کرتا ھے۔ اے امیر کیا تم جانتے ھو کہ اللہ تعالی اپنی مخلوق میں سے جسے منتخب کرنا چاھتا ھے منتخب کرتا ھے اگر قریش بھی اس طرح منتخب کر سکتے ھیں جس طرح اللہ تبارک و تعالی انتخاب کرتا ھے تب’ تم‘ اور’ خلافت ‘دونوں درست ھیں اور صحیح مقام پر ھیں ۔ قارئین کرام ! اس آخری کلمہ سے ظاھر ھوتا ھے کہ خلیفہ حضرت علی علیہ السلام ھیں کیو نکہ اللہ تعالی نے وحی بھےج کر حضرت امیر امومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کو خلیفہ منتخب فرمایا اور نص صرےح اس پر گواہ ھے اور عقل بھی خلافت کے صحیح راستے کی نشاندھی کرتی ھے ، چنانچہ ابن عباس کے ٹھوس اور محکم بیان کے سامنے عمر لا جواب ھو کر کھنے لگے۔ اے ابن عباس خا موش ھو جا تم بنی ہاشم تو ھمےشہ قریش کے ساتھ کینہ، مخالفت اور حسد رکھتے ھو اور اس کو دل سے نھیں نکال سکتے۔ حضرت ابن عباس اس طرح استدلال پیش کرتے ھوئے کھتے ھیں تم بنی ھاشم کی طرف فرےب کی نسبت نہ دو کیو نکہ ان کے دل حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے دل سے ھیں اور اللہ تبارک وتعالی نے حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دل کو پاک و پاکےزہ پیدا کیا ھے ۔ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کے اھل بیت (ع) کی شان میں خدا وند متعال اس طرح ارشاد فرماتا ھے : <إِنَّمَا یُرِیدُ اللهُ لِیُذْہِبَ عَنْکُمْ الرِّجْسَ اٴَہْلَ الْبَیْتِ وَیُطَہِّرَکُمْ تَطْہِیرًا ۔>۔[24] اے اھل بیت اللہ چاھتا ھے کہ آپ سے ھر قسم کے رجس کو دور رکھے اور آپ کو اس طرح پاک و پاکیزہ رکھے جس طرح پاک و پاکیزہ رکھنے کا حق ھے ۔ اور جہاں تک تمہارا یہ کھنا ھے کہ بنی ھاشم کے دلوں میں قریش کے متعلق حسد اور کینہ ھے ۔تو تم بتاؤ کہ بنی ہاشم کس طرح ان سے نفرت نہ کرےں جنھوں نے ان کا حق غصب کر لیا ھے اور وہ اپنے حق کو غا صبوں کے ہاتھوں میںدےکھ رھے ھیں۔ حضرت عمر اس صراحت کے ساتھ جواب کو سن کر غضبناک ھو ئے کیونکہ اسے حضرت ابن عباس سے یہ امید نھیںتھی کہ وہ اس طرح کی گفتگو کرےں گے۔ لہٰذا حضرت عمر نے حضرت ابن عباس کو مخاطب کرتے ھو ئے کھاکہ تمہاری ایسی ایسی باتیں مجھ تک پھنچی ھیں جنھیں میں بیان کرنا پسند نھیں کرتا کیونکہ انھیں بیان کرنے سے میری نظر میں تمہارا کوئی مقام نھیں رھے گا۔ حضرت ابن عباس کھتے ھیں ایسی کونسی باتیں ھیں مجھے ان سے آگاہ کرو کیونکہ میری باتیں درست نھیں ھیں تو میں ان کی اصلاح کرنے کے لئے حاضر ھوں اور میری باتیں بر حق ھیں تو حق بات کی وجہ سے میرا مقام تیرے نزدیک کیوں کم ھو جائے گا۔ حضرت عمر کھتے ھیں کہ مجھے معلوم ھوا ھے کہ آپ ھمےشہ سے کھتے آئے ھیں کہ ھم سے خلافت حسد اور ظلم کی وجہ سے چھینی گئی۔ حضرت ابن عباس نے جواب دینے میں تھو ڑا سا بھی توقف نہ کیا اور فوراً کھا: جہاں تک میری اس بات کا تعلق ھے کہ حسد اور ظلم کی وجہ سے آپ لوگوں نے ھم سے خلافت چھینی ھے تو تمھیں معلوم ھو نا چاھےے کہ ابلیس نے بھی حضرت آدم علیہ السلام پر حسد کیا اور انھیں بھشت سے نکلوا دیا۔ ھم بھی اسی آدم کے بےٹے ھیں جن سے آج بھی ابلیس صفت لوگ حسد کرتے ھیں اور جہاں تک ظلم کا تعلق ھے تو اے امیر تم اچھی طرح جانتے ھو کہ اس خلافت کا صحیح حق دار کون ھے؟ حضرت ابن عباس نے اپنی گفتگو کو جاری رکھتے ھوئے کھاکہ عرب ، عجم پر حضرت رسول اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وجہ سے فخر ومباہات کرتے ھیں۔ قریش اھل عرب پر حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ رشتہ داری کی وجہ سے اپنی برتری جتاتے ھیں اور ھم بنی ھاشم قریش وغیرہ کی نسبت حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زیادہ قریب ھیں اور زیادہ حق دار ھیں چنا نچہ ان الفاظ کوسننے کے بعد عمر اپنے سےنے میں تنگی محسوس کرنے لگا اور اس کا کوئی جواب نہ دے سکا اور ابن عباس کو نزدیک سے اٹھاتے ھوئے کھااے عبداللہ اٹھو اور اپنے گھر کی طرف چلے جاؤ۔ ابن عبا س وہ مجلس چھوڑ کر اپنی منزل کی طرف چل دئے حضرت عمر انتہائی غصے اور طےش کی حا لت میں ابن عباس کی طرف بڑھے اور ان سے کھنے لگے اے جانے والے میں تیرے حق کی رعاےت کرنے والا نھیں ھوں۔ ابن عباس اس کی طرف متوجہ ھوئے اور اس سے مرعوب ھوئے بغیر سخت جواب دیا اے امیر تم پر اور تمام مسلمانوں پر حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وجہ سے حق ھے پس جس نے اس حق کی حفاظت کی اس نے اپنے آپ کو محفوظ کر لیا اور جس نے اس عظیم حق کو ضائع کیا اس نے اپنے آپ کو ضائع کیا۔ حضرت عمر اپنے صحابیوں سے مخاطب ھو کر کھتے ھیں ابن عباس تم پر وائے ھو، میں نے تم جیسا جھگڑالو اور بحث کرنے والا کوئی نھیں دےکھا ۔[25] عبد الفتا ح مقصود اپنی کتاب علی ابن ابی طالب میں بیان کرتے ھیں کہ جب حضرت ابوبکر اپنی وفات کے بعد خلافت ، حضرت عمر کو سونپنے کی وصیت کی تو اس غضب نے حضرت علی علیہ السلام کے دل کو توڑدیا حالانکہ وہ اپنے حق خلافت کے بارے میں بار بار اصرار کرتے رھے۔ اور اس سلسلے میں انھو ںنے صبر وتحمل کا دامن تھامے رکھا اور ان کو عوام الناس کے درمیان خاموشی سے بٹھا دیا گیا اور خلافت کو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آل پاک سے چھین لیا گیا پھر دوسری مرتبہ بھی انھیں بچھو کی طرح ڈنک لیا اور خلافت کو ان کی دھلیز سے نکال دیا ،قریش کو دےکھ کر اس قدر تعجب نھیں ھوتا لیکن تعجب کی انتھاتو اس شےخ پر ھے کیو نکہ اس کے اور حضرت علی علیہ السلام کے درمیان تمام مسائل واضح ھو چکے تھے۔ حضرت ابو بکر نے حضرت علی علیہ السلام کی جوانی کے مقام و منزلت کا لحاظ نہ کیا حا لانکہ حضرت علی علیہ السلام کا کردار اسلام کی بقا میں روز روشن کی طرح واضح ھے اور دین اسلام کی نشو نما میں آپ نے جو گرانقدر خدمات انجام دیں اس کو بھی فراموش نھیں کیا جاسکتا لیکن اس شےخ نے سب کچھ بھلا دیا اس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نھیں ھے،حالانکہ وہ جانتا تھا کہ حضرت علی علیہ السلام کی حکمت عملی ھی کی وجہ سے اسلامی حکومت کمال تک پھنچی تھی۔ اس کے بعد ابو الفتاح کھتے ھیں : حضرت ابو بکر نے اپنے بعد خلیفہ کے انتخاب کا جو طریقہ کار اختیا ر کیا وہ غلط اور خطاء سے بھرا ھوا تھا اس کی اس روش سے ظاھر ھوتا ھے کہ وہ خلافت کے معاملے کو اپنے گھر میں پو شیدہ رکھنا چاھتا تھا اور اس کی دلی خواھش یہ تھی کہ اھل بیت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس کا علم تک نہ ھو۔ حضرت ابو بکر کی یہ خطاء بھی اس خطاء کی مانند ھے جو حضرت عمر نے حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد اس وقت کی تھی جب وہ حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جنازے کو چھوڑ کر اپنے ساتھیوں کے ساتھ سقےفہ بنی ساعدہ چلے گئے اوربنی ھاشم میں سے کسی کو اطلاع تک نہ دی۔ استاد مقصود صاحب اس پر اضافہ کرتے ھو ئے کھتے ھیں حضرت علی علیہ السلام کو تمام افراد پر جو اولوےت اور فوقےت حاصل تھی خلیفہ نے اسے بھی فراموش کر دیا اور اپنے بعد خلیفہ بنانے کے لئے حضرت علی علیہ السلام کی بجائے دوسرے لوگوں سے مشورہ کیا حا لانکہ پورے عرب میں کون ھے جو حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا زاد حضرت علی علیہ السلام سے افضل اور ان کا قائم مقام ھوتا!! یہاں تک کہ حضرت ابو بکر نے خلافت کے معاملہ میں حضرت سے مشورہ تک کرنا گوارا نہ کیا اور اس سے زیادہ تعجب تو اس بات پر ھے کہ خلیفہ فرد واحد کے بارے میں تو حضرت علی علیہ السلام سے مشورت کی التماس کرتے رھے لیکن جہاں پوری امت اور حکومت کا معاملہ تھا وہاں آپ سے مشورہ کرنا ضروری نہ سمجھا ۔[26] بزرگوں کی باتیں :
زبیر بن بکار کتاب المو فقیات میں کھتے ھیں کہ جب حضرت ابو بکر کی بےعت ھونے لگی تو لوگوں کی ایک جماعت بےعت کرنے لئے مسجد کی طرف بڑھی ،لیکن انصار کی اکثرےت اس بےعت پر پشےمان تھی اور بعض لوگ ایک دوسرے کو ملامت کر رھے تھے اور حضرت علی علیہ السلام کو یاد کرتے اور ان کو آواز دے کر بلاتے تھے آپ اپنے گھر میں موجود تھے اوران کی آوازےں سننے کے باوجود باھر تشریف نہ لائے۔
عبد الرحمن بن عوف کھنے لگا اے گروہ انصار اگرچہ آپ لوگ صاحب فضیلت ھیں جنگوں میں حصہ لیا ھے اور آپ(ع) کا شمار سب سے پھلے اسلام لانے والوں میں ھے لیکن آپ لوگوں میں حضرت ابوبکر حضرت عمر ،حضرت علی علیہ السلام اور حضرت ابو عبےدہ جیسا کو ئی شخص بھی نھیں ھے۔ اس کے بعد زید بن ارقم نے کہا: عبد الرحمن نے جب ان لوگوں کا تذکرہ کیا ھے ھم لوگ ان کی فضیلت کا انکار نھیں کر سکتے۔ لیکن ھم یہ بھی جانتے ھیں کہ قریش میں جن لوگوں کے نام خلافت کے لئے ذکر ھوئے ھیں ان میں ایک ھستی ایسی ھے کہ اگر اس کانام پیش کیا جائے تو کسی قسم کا جھگڑا نھیں ھو گا اور وہ ھستی حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام ھیں ۔زبیر بن بکار کھتے ھیں ۔ دوسرے دن حضرت ابو بکر نے کھڑے ھو کر لوگوں کو خطبہ دیا: یا اٴیھاالناس اِني وُلّیت اٴمرکم و لست بخیرکم فا ذا اٴحسنت فاٴعینوني واِن اٴساٴت فقّوموني، اِنّ لي شیطانا یعترینی۔[27] اے لوگوں میں آپ کے امور کا والی بن گیا ھوں اگرچہ میں آپ سے زیادہ بھتر نھیں ھوں بھر حال اگر میں اچھا کام کروں تو میری مدد کرنا اور اگر میں برا کام کروں تو مجھے سیدھے راستے پر لگا دینا کیونکہ مجھ پر ایک اےسا شےطان مسلط ھے جو مجھے بھکاتا رھتا ھے ۔ حضرت ابو بکر کی پر یشانی :
صاحب سیرت الائمہ اثنی عشر کھتے ھیں کہ حضرت ابو بکر صاحب حضرت عمر کو خلیفہ بنا رھے ھوں اور وہ حضرت عثمان بن عفان کی خلافت کے متعلق اشارہ اور کنایہ سے کہہ رھے ھوں تو یہ بات ان کے اس کے قول کے بالکل منافی ھے اور مخالف ھے جو انھوں نے اپنی خلافت کے آغاز میں کھتی تھی۔
میں تم سے بھتر نھیں ھوں کیو نکہ تم میں حضرت علی علیہ السلام موجود ھیں اسی طرح ان کی وفات سے پھلے وہ اقوال جنھیں مو رخین نے قلم بند کیا ھے کہ میں تےن کاموںکی وجہ سے پریشان ھوں۔ کاش میں نے انھیںانجام نہ دیا ھوتا کاش میں حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھاکے گھر پر حملہ نہ کرتا اگرچہ وہ میرے خلاف حملہ کرتےں (تب بھی میں حملہ نہ کرتا )۔ ان تےنوں میں اس امر کا تذ کرہ بھی ھے جس کی وہ تمنا کیا کرتے تھے کاش اگر حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ان کی وفات کے وقت خلافت کے بارے میں یہ سوال کرلیا جاتا کہ آیا انصار کا اس خلافت میں حق ھے یا نھیں تو اس میں کسی قسم کا جھگڑا نہ ھو تا ۔ صاحب سیرت الائمہ الاثنی عشر کھتے ھیں کہ انتہائی تعجب ھے کہ یہ شےخ بستر مرگ پر پھنچنے تک اپنی خلافت کے متعلق شک کرتا رھااور اس بات کا خائف رھاکہ شاےد خلافت میرے علاوہ کسی اور کا حق ھے جب کہ اس نے صاحبان خلافت سے خلافت کو غصب کیا تھا اور اب حیران ھے کہ میں نے حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس معاملہ میں سوال کیوں نہ کیا اور دوسری طرف یہ ذمہ داری اپنے دوش پر اٹھا لی کہ کسی تردد کے بغیرحضرت عمر کو اپنے بعد خلیفہ نامزد کر دیا۔ حضرت ابو بکر کے اس فعل پر لوگوں نے اعتراض کیا لیکن انھوں نے کسی کی بھی نہ سنی۔جب لوگوں نے خلافت کے متعلق دریافت کیا تو خدا کی قسم کھا کر کھنے لگے حضرت عمر نہ ھوتے تو خلافت عثمان کا ھی حق تھا جیسا کہ انھوں نے دعوی کیا ھے اور احتمال دیا ھے کہ حضرت رسول اکر م صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی شخص کو اپنی وفات سے پھلے خلیفہ بنا چکے تھے ۔ کیا وہ نھیں جانتے تھے کہ حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام وہ شخص ھیں جن کے متعلق حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم واضح طور پر ارشاد فرما چکے ھیں تو پھر کیا وجہ ھوئی کہ انھوں نے جہالت و لا علمی کا اظہار کیا اور حضرت علی علیہ السلام کو کچھ بھی نہ سمجھا اورکھاکہ حضرت عثمان بن عفان کو خلیفہ بننے میں حضرت عمر بن خطاب کا وجود مانع ھے جب تک عمر موجود ھیں اس وقت تک عثمان خلیفہ نھیں بن سکتے۔[28] قریش کا حقےقی مقصد :
استاد عبد الفتاح مقصود اپنی کتاب علی (ع)ابن ابی طالب (ع)میں بیان کرتے ھیں کہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جانشےن کے انتخاب میں قریش کا اصل مقصد یہ تھا کہ ھمےشہ کے لئے آل رسول سے خلافت کو ختم کر دیاجائے اور ان کے حق کو ان سے چھین لیا جائے در اصل یہ چیز ان کے یہاں ھمےشہ سے موجود تھی۔
البتہ اس کا سلسلہ شروع شروع میں اصحاب کے درمیان پوشےدہ طور پر جاری تھا ۔کبھی کبھی ان کے افعال سے اس چیز کا اظہار ھو تا تھا اور کچھ دنوں کے بعد قریش نے یہ بات پھےلا دی کہ ھم اھل بیت کو خلافت نھیں دیں گے۔ حضرت رسول خداصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد امر خلافت کو ابو بکر کے سپرد کر دیا گیا۔ اور انھوں نے بنی ھاشم کو بےباکانہ، بلند آواز میں یہ کہہ دیا کہ ھم اس چیز کو پسند نھیں کرتے کہ خلافت اور نبوت دونوں ایک ھی گھر میں جمع ھو جائیں اسی لئے یہ لوگ حضرت ابو بکر وغیرہ کو خلافت کی مبارک باد دیتے تھے اور انصار وغیرہ میں سے جو بھی حضرت علی علیہ السلام کا نام لیتا یا ذ کر کرتا تو اس کے خلاف اعلان جنگ کر دیتے ۔ بعض کتابوں میں مذکور ھے کہ سھیل بن عمر کو جب یہ معلوم ھوا ھے کہ قبےلہ انصارحضرت علی (ع) کی بےعت کرنے کی خواھش رکھتے ھیں اور اس بات پر بضد ھیں کہ خلافت حضرت علی علیہ السلام کو ملنی چاھےے تو سھیل بن عمر اپنی ننگی تلوارلے کر قریش کے سردار حارث بن ھشام اور عکرمہ بن ابو جھل جیسے بزرگوں کے سامنے کھتا ھے۔ اے گروہ قریش یہ لوگ تمھیں حضرت علی (علیہ السلام) کی حماےت کے لئ بلاتے ھیں ،حضرت علی علیہ السلام اپنے گھر میں موجود ھیں اگر وہ چاھیں تو ان کو اےسا کرنے سے روک سکتے ھیں اگر حضرت علی علیہ السلام انھیں نھیں روکتے تو پھر تمھیں چاھےے تھا انھیں اپنے خلیفہ کی طرف بلا ؤ اور ان لوگوںسے تجدید بےعت کراؤ اگر یہ لوگ تجدید بےعت پر راضی ھو جائیں تو ٹھےک ھے ورنہ انھیں قتل کر دیا جائے ۔اللہ کی قسم اگرتم اس کام کو عملی جامہ پھناؤ تو مجھے ےقےن ھے کہ ان کو سرکوب کرنے میں تمہاری مدد کی جائے گی۔ سھیل بن عمر اور حارث بن ھشام کھتے ھیں ۔ اے لوگوں انصار نے پھلے اسلام قبول کیا اور انھوں نے ھمیں گھر دیئے اور حضرت رسول اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ھمیں چھوڑ کر ان کے پاس تشریف لائے اور ان لوگوں نے ھمیں جگہ بھی دی اور ھماری مدد بھی کی لیکن اس کا مطلب یہ نھیں ھے کہ اب وہ خلافت کے دعوےدار بن بےٹھیں اگر یہ لوگ اپنے اس مطالبے پر ثابت قدم رھیں تو ھمارے نزدیک ان کی قربانیوں کی کوئی اھمیت نہ ھو گی بلکہ ھمارے اور ان کے درمیان فقط تلوار ھی سے فیصلہ ھوگا ۔[29] استدلال علی علیہ السلام :
جب لوگوں نے عثمان کی بیعت کا ارادہ کیا تو حضرت امیر المومنین نے ارشاد فرمایا تم جانتے ھوکہ مجھے دوسروں کی نسبت خلافت کا زیادہ حق حاصل ھے خدا کی قسم جب تک مسلمانوں کے امور کا نظم و نسق برقرار رھے گا اور صرف میری ھی ذات ظلم کا نشانہ بنتی رھے گی میں خاموشی اختیار کرتا رھوں گا تاکہ اس صبر پر اللہ سے اجر ثواب طلب کروں اور اس زیب و زینت اورآرائش کو ٹھکرا دوں جس پر تم لوگ فریفتہ ھو۔[30]
اسی طرح حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام نے حضرت عثمان کی بیعت ھونے سے پھلے ارشاد فرمایا تمھیں اللہ کی قسم بتاؤ کیا تم میں میرے علاوہ کوئی حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بھائی ھے فقط میرے اور ان کے درمیان مواخات ھے جس دن مسلمان ایک دوسرے کے بھائی بنے؟ ان سب لوگوں نے جواب دیا نھیں۔ پھر فرمایا کیا میرے علاوہ تم میں کوئی ایسا شخص ھے جس کے متعلق حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ھو : من کنتُ مولاہُ فھذا مولاہُ۔ جس جس کا میں مولا ھوں اس اس کا یہ مولا ھے ۔ ان سب نے یک زبان ھو کر کھاجی نھیں ۔ آپ (ع)نے فرمایا کیا میرے علاوہ تم میں کوئی ایسا شخص ھے جس کے متعلق حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ فرمان ھو: اُنتَ مني بمنزلة ھارون من موسیٰ اِلاّ اٴنہ لا نبي بعدي۔ تیری قدر و منزلت میرے نزدیک وھی ھے جو حضرت ہارون(ع) کی حضرت موسی(ع) کے نزدیک تھی۔ فقط یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نھیں ھوگا۔ ان سب نے کھاآپ (ع)کے علاوہ کوئی ایسا نھیں ھے ،پھر حضرت نے ارشاد فرمایا: کیا میرے علاوہ تم میں کوئی ایسا شخص ھے جسے سورہ براٴت کی تبلیغ سپرد کی گئی ھو اور حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جس کے متعلق یہ ارشاد فرمایا ھو : اِنّہ لا یؤدّي عني اِلا اٴنا و رجل مني ۔ اس کام کو کوئی نھیں کر سکتا مگر میں خود کروں یا وہ شخص کرے جو مجھ سے ھے۔ انھوں نے کہا: آنحضرت نے فقط آپ (ع)ھی کی ذات کے متعلق ایسا فرمایا تھا۔ پھر آپ (ع)نے فرمایا: اے لوگو!یہ بتاؤ کہ نسب کے لحاظ سے حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قریب تر کون ھے؟ انھوں نے کھاآپ (ع)ھی سب سے زیادہ قریب ھیں۔ اس وقت عبدالرحمن بن عوف نے آپ (ع)کی بات کاٹی اور کھااے علی (ع) لوگ فقط عثمان کو اپنا خلیفہ بنانا چاھتے ھیں لہٰذا آپ(ع) اپنے لئے خلافت کی راھیں نہ نکالیں۔[31] جب لوگوں نے عثمان کی بیعت کرنے کا ارادہ کیا توآپ نے فرمایا: تمھیں معلوم ھے کہ میں تمام لوگوں میں سب سے زیادہ حق دار ھوں اور خدا گواہ ھے کہ میں اس وقت تک حالات کا ساتھ دیتا رھوں گا جب تک مسلمانوں کے مسائل ٹھیک رھیں اور ظلم صرف میری ذات تک محدود رھے تاکہ میں اس کا اجر و ثواب حاصل کروں،اور اس زیب و زینت دنیا سے اپنی بے نیازی کا اظہار کر سکوں ،جس کے لئے تم مرے جا رھے ھو۔[32] ------------------------------------------------------------------ [1] شرح نھج البلاغہ ابن حدید ج ۲۰ ص ۲۲۶ کلمہ نمبر۷۳۴۔ [2] شرح نھج البلاغہ کلمہ نمبر ۷۶۴ص ۳۲۸۔ [3] شرح نھج البلاغہ ج ۲۰ کلمہ نمبر ۷۳۳ص ۲۲۶۔ [4] شرح نھج البلاغہ ج ۲۰ کلمہ نمبر ۴۱۴ص ۲۹۸۔ [5] شرح نھج البلاغہ ج ۲۰ کلمہ نمبر ۲۴۱ ص ۲۸۳۔ [6] شرح نھج البلاغہ ج ۲۰ کلمہ ۴۱۳ ص۲۹۸۔ [7] شرح نھج البلاغہ الحدید ج ۲۰ ص۲۲۶کلمہ نمبر ۷۳۶۔ [8] شر ح نھج البلاغہ الحدید ج ۲۰ کلمہ نمبر ۷۶۵،ص۳۲۸ ۔ [9] شرح نھج البلاغہ الحدید ج ۱ خطبہ ۳ ،ص۱۵۱۔ [10] سیرت الائمہ الاثنی عشرتالیف، ھاشم معروف الحسےنی ج۱ص۳۳۶۔ [11] شرح نھج البلاغہ ج ۵ ص۴۵۔ [12] شرح نھج البلاغہ ج ۵ ص ۵۰تا ۵۱۔ [13] شرح نھج البلاغہ ج۵ ص ۵۱۔ [14] سیرة الائمہ الاثنی عشر ج۱ ص ۳۳۷۔ [15] سیرت الائمہ الثنی عشر ج۱ ص ۳۳۷۔ [16] شرح نھج البلاغہ ج۵ ص ۲۱۔ [17] شرح نھج البلاغہ ج۵ ص۱۱،ص۱۲۔الا مامة والسیایة،تالیف ابن قتیبہ ص۱۸،۱۹۔ [18] آل عمران آیت ۱۵۹۔ [19] سیرت الائمہ الاثنی عشر ج ۱ ص ۳۳۷۔،۳۳۸ [20] سورہ محمد:۹۔ [21] سورہ قلم :۴۔ [22] سورہ شعراء:۲۱۵۔ [23] قصص:۶۸۔ [24] سورہ احزاب:۳۳۔ [25] سیرت الائمہ الاثنی عشر ج ۱ ص۳۴۰ ، ۳۴۲ ، ابن اثیر کی کتاب الکامل فی التاریخ ج ۲ ص۲۱۸ ، ۲۱۹ ، شرح نھج البلاغہ ج ۱۲ ص۵۲ تا۵۴ [26] سیرت الائمہ اثنی عشر ج ۱ ص ۳۲۳، ۳۲۴ ۔ [27] شرح نھج البلاغہ ،ج ۵ ص۱۹ ۔ ۲۳۔ [28] سیرت الائمہ اثنی عشر ج ۱ ص۳۲۵، ۳۲۶۔ [29] سیرت ائمہ اثنی عشر ج۱ص ۳۲۷و ۳۲۸۔ [30] شرح نھج البلاغہ ج۶ص ۱۶۶۔ [31] شرح نھج البلاغہ ج۶ ص۱۶۷۔۱۶۸ [32] شرح نھج البلاغہ ج۶ ص۱۶۷۔۱۶۸ |