مقدمہ
 
حضرت رسول خدا (ص)نے فرمایا :
<اٴنا وَ عَلِيٌّ مِنْ نُوْرٍ وَاحِدٍ >[1]
میں اور علی علیہ السلام ایک نور سے ھیں۔
اسی طرح حضرت رسول خدا (ص)نے مزید فرمایا:
< خُلِقتُ اٴنا وَ عَلِيٌّ مِنْ نُوْرٍ وَاحِد> [2]
مجھے اور علی علیہ السلام کو ایک نور سے خلق کیا گیا۔
شبلنجی کھتے ھیں کہ حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام تشریف لائے تو حضرت رسول خدا(ص)نے فرمایا:
<مَرْحَباً بِاٴَخِيْ وَابْنِ عَمِيّ واَلَّذِيْ خُلِقْتُ اٴنَا وَ ھُو مِنْ نُوْرٍ وَاحِدٍ۔> [3]
مرحبا ۔ میرے بھائی اور چچا زاد کیلئے کہ وہ اور میں ایک نور سے خلق کئے گئے۔
میں نے اپنے مولا و سردار ، مولود کعبہ حضرت امیر المؤمنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے ایام ولادت یعنی رجب ۲۱ ۱۴ ھجری میں اپنی سردار حضرت فاطمہ(ع) بنت حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام (جو کہ فاطمہ معصومہ (ع)کے نام سے مشھور ھیں) کی زیارت کے لئے قم آنے کا پروگرام بنایا۔
یہاں پھنچنے کے بعد اسی شھر میں مؤسسہ امام علی علیہ السلام جانے کا قصد کیا تا کہ وہاں حضرت آیت الله شیخ محمد حسن قدس سرہ کے عزیز اپنے فاضل بھائی حجة الاسلام و المسلمین شیخ ضیاء جواھری سے ملوں اور انھیں اپنی کتاب سبیل الوحدة کی آخری طباعت کا نسخہ دوں اور وہ اس کادنیا کی مشھور مختلف زبانوں میں ترجمہ کروائیں ۔ چنانچہ انھوں نے میری خواھش کو قبول فرمایا۔
اس وقت موصوف نے خواھش ظاھر کی کہ میں ان کی عمدہ اور جامع کتاب <عَلِیٌ صِرَاطُ اللهِ الْمُسْتَقِیمَ> پر مقدمہ لکھوں۔ اس سے قبل بھی وہ سید تنا و مولاتنا حضرت فاطمة الزھراء کی سیرت پرحوراء الانسیہ کے عنوان سے کتاب لکھ چکے ھیں۔ میں نے بھتر جانا کہ ےمن میں افریقی اور ایشائی تنظےم کے نمائندے استاد بزرگوار جناب یحییٰ علوی کے سامنے پےش کئے گئے چند سوالات کے جوابات کو مقدمی میں شامل کروں اور ان کی خدمت میں یہ سوالات میں نے کچھ عرصہ پھلے قاھرہ میں عرض کئے تھے۔ لہٰذا مناسب ھے کہ میں حضرت علی علیہ السلام کے متعلق کئے گئے سوال وجواب کو مِن وعَن قارئین کرام کی خدمت میں پیش کروں۔
والسلام

بسم الله الرحمن الرحیم
برادر محترم استاد فاضل جناب سید مرتضی رضوی صاحب( تولاّہ الله وایّاي)
آپ پر اور آپ سے محبت کرنے والوں پر الله کا سلام۔ اور ان پر جنھیں اطمینان ھے کہ آپ شیعہ اور سنی کو اخوت ، محبت ، صفاء اور مؤدت کے ساتھ دعوت دیتے ھیں اور دلوں سے تفرقہ اور شقاوت و بدبختی کی جڑیں اکھاڑ پھینکتے ھیں ۔
اما بعد : میں آپ کے سامنے اس الله کی حمد بیان کرتا ھوں جس کے علاوہ کوئی معبود نھیں۔ میں آپ کی خدمت میں آپ کے بھےجے گئے اھم سوالات کے جواب پیش کئے دیتا ھوں جب آپ استاد بزرگوار ( ھم دونوں کے دوست،جو کہ سن کے لحاظ سے تو بوڑھے ھو چکے ھیں لیکن ان میں بہار ھی بہار ھے) ، رئیس الشیوخ استاد احمد ربیع مصری سے ملنے آئیں تو جوابات لے لےجئے گا۔ بھر حال میں نے صراحت کے ساتھ ان کا جواب تحریر کر دیا ھے۔
خداوندعالم ھر لغزش کو معاف فرمائے اور اسی پر بھروسہ ھے۔
والسلام
آپ کا برادر دینی
عبداللهیحیی علوی

******
سوال و جواب:
پھلاسوال: کیا حضرت رسول خدا (ص)نے اپنے بعدھونے والے خلیفہ کیلئے وضاحت بیان فرمائی تھی؟
جواب : جی ہاں حضرت رسول خدا (ص)نے صریح اور صحیح احادیث کے ساتھ نص فرمائی ، یہ بالکل واضح احادیث ھیں ۔ انھیں تعصب اور آل(ع) کے بغض سے دور ھو کر سمجھا جاسکتا ھے ۔ اور عقل سلیم بھی اس پر دلالت کرتی ھے۔ ان احادیث میں سے چند ایک یہ ھیں:
< اٴنت مِنّی بمنزلة ہارون من موسیٰ اِلّا اَنّہ لا نبیَّ بعدی >
(اے علی) آپ اور مجھ میں وھی نسبت و منزلت ھے جو ہارون اور موسیٰ کے درمیان تھی مگر یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نھیں۔[4]
<اٴنْت ولیُّ کِلّ مؤمنٍ بعدی ۔>
آپ میرے بعد ھر مؤمن کے ولی ھیں۔ [5]
<علیٌ مَعَ القرآنِ و القُرانُ مَع عَلیٍّ وَ لن یَفتَرِقا حتی یردا علیَّ الحوض۔>
علی قرآن کے ساتھ اور قرآن علی(ع) کے ساتھ ھے ۔(چنانچہ) یہ حوض کوثر پر میرے پاس آنے تک جدا نہ ھونگے ۔ [6]
< مَن کنتُ مَولاَہ فعلیٌّ مولاہ ۔>
جس کا میں مولیٰ ھوں علی ( بھی) اس کے مولا ھیں۔ [7]
صرف اور صرف یھی احادیث بھترین دلیل بن سکتی ھیں کہ آنحضرت(ص)نے حضرت علی علیہ السلام کو اپنا خلیفہ بنایا ، اگر کوئی ان احادیث کے الفاظ اور معنی پر غور کرے، کیونکہ حضرت رسول خدا (ص)جنگ تبوک پر جاتے وقت اپنی قوم میں حضرت علی علیہ السلام کو اس طرح خلیفہ بنا کر گئے جیسے جناب موسیٰ (ع)نے جناب ہارون کو اپنی قوم میں خلیفہ بنا یا تھا، حضرت رسول خدا (ص)نے موسیٰ کی ہارون کے ساتھ حضرت علی (ع) کی تشبیہ دینے سے پورا پورا استدلال کیا ھے کہ میرے انتقال کے بعد یھی میرا بلند پایہ ساتھی ھی تمھارا خلیفہ ھوگا۔
فقط واقعہ غدیر کو مدنظر رکھیں ( جو کہ معروف اور متواتر ھے) تو یہ بات واضح ھوجائے گی کہ حضرت رسول خدا (ص)نے حضرت علی علیہ السلام کی ولایت کو ثابت کیا تا کہ فقط حضرت علی علیہ السلام ھی ان کے خلیفہ قرار پائیں۔ جب اصحاب کی رائے سے ھرج و مرج لازم آرھاتھا تو رسول خدا (ص)کی خواھش تھی کہ مرض الموت میں ایک ایسانوشتہ لکھ جائیں تا کہ وہ انکی گمراھی اور تفرقہ سے محفوظ رکھے۔
اے کاش حضرت عمر ابن خطاب اس نوشتے کے درمیان حائل نہ ھوتے۔
حضرت رسول خدا (ص)کا یہ فرمان مَن کُنْتُ مَولاَہ فَعَلِیٌّ مَولاَہ (جس کا میں مولا ھوں علی (ع) بھی اس کے مولا ھیں)واضح طور پر بیان کر رھاھے کہ حضرت علی علیہ السلام شروع ھی سے ھر مؤمن ومؤمنہ کے ولی ھیں۔
جہاں تک حضرت علی کرم الله وجھہ کے حقدارخلافت ھونے کی عقلی دلیل کا تعلق ھے تو وہ یہ ھے کہ حضرت رسول خدا (ص)کی وفات کے بعد خلافت اور مسلمانوں کے امور کی ولایت فقط اسی ھستی کے حصّے میں آسکتی ھے جو فضائل و شمائل میں بے نظےر اور زمانے کا بہادر ترین شخص ھو ،جو تمام ساتھیوں میں بلند ترےن ھو ، اورھم کفولوگوں کا مرّبی ھو۔نظریات اور رائے میں ممتاز ھو ، اشکالات سے دور ھو ، مشکلات کے حل کیلئے منفرد ھستی ھو ۔ اسکے مثل کسی کی نظر نہ ھو ، اس کا کوئی نظیر نہ ھو ۔ اس کا کوئی ھم پلّہ نہ ھو ، اپنے دین ، علم اور تقویٰ میں کا مل ھوتاکہ اس کے ذرےعے کلمہ لا الہ الاالله کو سر بلندی نصیب ھو۔اور وہ سید الانام (ص)کا مدد گارھو ۔ پوری مخلوق میں سب سے پھلے اسلام لانے والا ھو ، کسی معارض کے بغیر تمام لوگوں میں اسکی فضلیت ، شجاعت اور تقویٰ زیادہ ھو (یعنی کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ فلاں شخص میں کوئی صفت ان سے زیادہ ھے)چنانچہ یہ سب کی سب صفات حضرت امام علی علیہ السلام میں جمع ھیں آپ مسلمان پیدا ھوئے ۔ اور الله تبارک و تعالیٰ کے حکم سے اسلام کو تقوےت بخشی۔ آپ مکتب رسول(ص)کے پروردہ تھے ۔ اور سید الوجود(ص) اور متقیوں کے سردار (ص)کی گود میں پرورش پاکر جوان ھوئے۔
خدا کی راہ میں آپ کا جہاد ھر جہاد سے بلند، آپ کا تقوی ھر تقویٰ سے بڑھکر،آپ کی بہادری ھر بہادری سے بلند اور آپ کا زھد و ایمان ھر زھد و ایمان سے بڑھکر تھا۔ آپ اس نبی(ص)کی طرف مائل تھے ، آپ کو رب و خالق نے کامیاب قرار دیا تھا۔آپ اپنے اقوال و فرامین میں ممتاز تھے۔ فضیلت اپنے مصدر سے پہچانی جاتی ھے ۔ آپ سے عرفان پھوٹتا تھا۔ ایمان کو تعیین نصیب ھوئی ۔ ھر کوئی جانتا ھے کہ وہ سید المرسلین کے پروردہ تھے اور وھی آپ کی تربیت کرنے والے اور مربّی تھے ۔ حضرت رسولخدا (ص)آپ کواپنے حجرے میں رکھنے کی خواھش کرتے رھتے ،اپنے سینے پر لٹاتے ۔ اپنے بستر پر سلاتے ۔ آپ کے جسم کو چھوتے رھتے ۔ آپ کی معرفت کو محسوس کرتے ۔ اور آپ میں نور وحی کو ملاحظہ فرماتے تھے۔
جب تاریخ کی خوشبو عقل سلیم کو معطر کرتے ھوئے گزرتی ھے تو چند بڑے اصحاب کا تذکرہ بھی ھوتا ھے اوروہ(تاریخ) ان کے اعمال و افعال کا فوراً قصّہ بیان کرتی ھے۔ جب ھم اصحاب اور حضرت علی کرم الله وجھہ کے اعمال و افعال کا تقابلی جائزہ لیتے ھیں ۔اور ان کی سعی ، جہاد، مقاصد اور رسول خدا (ص)کے نزدیک مقام و منزلت کو ملاحظہ کرتے ھیں ۔ تو عقل کسی شک و تردید کے بغیر فیصلہ سناتی ھے کہ وھی خلافت کے لائق اور حقدار تھے۔
کیا عقل یہ نھیں کھتی ھے کہ حضرت علی کرم الله وجھہ خلافت کے زیادہ حقدار تھے؟ !! اور رسول خدا (ص)نے انھیں ولایت عطا فرمائی ۔ وہ تو مسلمان ھی پیدا ھوئے ۔ کبھی بتوں کو سجدہ نہ کیا۔ الله کی گواھی میں خالص تھے، رسول خدا(ص) کی دعوت اسلام سے پھلے ھی مسلمان تھے۔
کیا عقل کا یہ فیصلہ نھیں ھے کہ حضرت علی کرم الله وجھہ خلافت کے زیادہ حقدار تھے !؟ کیونکہ وہ مولود کعبہ ھونے کی ساتھ حضرت رسول خدا (ص)کے ساتھ سب سے پھلے پڑھی جانے والی نماز میں بھی شریک تھے۔
کیا عقل ھی کا یہ فرمان نھیں کہ حضرت علی علیہ السلام خلافت کے زیادہ حقدار تھے؟! جبکہ الله تعالیٰ نے ان کو اور ان کے اھل بیت (ع)کو آیت تطھیر میں رجس اور پلیدی سے پاک و طاھر قرار دیا تھا ۔ اور یہ الله کا ارادہ ھے وہ جسے چاھتا ھے عطا کرتا ھے۔
کیا عقل نھیں کھتی کہ حضرت علی علیہ السلام اسلئے بھی خلافت کے زیادہ حقدار تھے وہ رسول الله(ص) کے ساتھ ھونے والی تمام جنگوں میں شریک تھے سوائے غزوہ تبوک کے ۔ اسمیں آپ حضرت علی (ع) کواپنا خلیفہ بنا کر مدینہ میں چھوڑ گئے تھے ۔ وہ بھت تیز حملہ کرنے والے جوان تھے۔ شیر سے زیادہ بہادر تھے۔ ان کے علاوہ کوئی ان خصوصیات کا حامل نہ تھا ،ھر جنگ میں فقط انھی پر دارو مدار ھوتا تھا۔ فقط یھی لوگوں کی شادابی اور خوشحالی کا موجب بنتے تھے۔ ان کی ثابت قدمی اور صبر کو دیکھ کر آسمانی فرشتے تعجب میں پڑجاتے تھے۔ حضرت جبرئیل نے زمین و آسمان کے درمیان صدا بلند کی ۔
<لَا فَتٰی اِلَّا عَلِیٌّ وَ لَا سَیْفَ اِلَّا ذُوالْفِقَار۔>
(حضرت )علی علیہ السلام سے بڑھکرکوئی جوان نھیں اور ذوالفقار سے بڑھکر کوئی تلوار نھیں۔
کیا عقل حضرت علی علیہ السلام کو خلافت کا زیادہ حقدار نھیں سمجھتی کیونکہ حضرت رسول خدا(ص)نے حضرت علی علیہ السلام کے متعلق جنگ خندق میں عمر ابن عبدود العامری سے جنگ کے وقت ارشاد فرمایا تھا:
< بَرَزَ الْاِیْمَانُ کُلّہ إلیٰ الشِّرکِ کُلِّہ۔>
کل ایمان ،کل شرک کے مقابلے میںجارھاھے۔
کیا عقل حضرت علی علیہ السلام کے زیادہ حقدار خلافت ھونے کو نھیں کھتی!؟ کیونکہ الله نے تمام مسلمانوں پر ان کی اور اھل بیت(ع)کی مودّت کو واجب قرار دیا ھے ۔ الله تعالیٰ نے اسے کارِ رسالت اور رسول خدا (ص)کی زحمتوں کا اجر قرار دیا ھے۔
کیا عقل حضرت علی علیہ السلام کے خلافت پر زیادہ حقدار ھونے کا حکم نھیں لگاتی جبکہ حضرت رسول خدا (ص)نے ان کے متعلق فرمایا :
< اٴنَا مَدِیْنَةُ الْعِلْمِ وَ عَلِیٌ بَابُھَا ۔>
میں علم کا شھر ھوں اور علی ( علیہ السلام )اسکا دروازہ ھیں۔
کیا عقل حضرت علی علیہ السلام کے خلیفہ رسول (ص)ھونے کو زیادہ حقدار نھیں سمجھتی ؟! کیونکہ وہ دنیا و آخرت میں رسول خدا (ص)کے بھائی ان کے پشت پناہ ، وزیر، خزانہ علم ،وارث حکمت ، سابق الامت ، صاحب نجویٰ ، پوشیدہ اور علانیہ مال خرچ کرنے والے ، وارث کتاب اور(احکام رسول (ص))کو مکمل طریقہ سے سننے والے تھے۔
کیا عقل حضرت علی علیہ السلام کے خلیفہ نبی(ص) ھونے کے زیادہ حقدار ھونے کو نھیں کھتی !؟ کیونکہ وہ امیر المؤمنین ، یعسوب الدین،شوھر جناب بتول =،فاجروں کے قاتل،صاحب الرایہ (علمبردار) اور سیّد العرب تھے۔
کیا عقل حضرت علی علیہ السلام کے زیادہ حقدا رخلافت ھونے کو نھیں کھتی جنکے متعلق حضرت عمر ابن خطاب کھتے ھیں:
< لَو لَا عَلِیٌّ لَھَلَکَ عُمَرَ۔>
اگر علی( علیہ السلام )نہ ھوتے تو عمر ھلاک ھو جاتا۔
کیا عقل کا یہ تقاضا نھیں کہ وہ حضرت علی علیہ السلام کو خلافتِ رسول (ص)کا زیادہ حقدار سمجھے کیونکہ جناب شیخین( حضرت ابو بکر اور حضرت عمر )نے غدیر خم میں ان کی ولایت کا اقرار کیا ۔ اور دونوں کی زبان پر یہ ورد تھا:
< بَخٍ بَخٍ لَکَ یَا بنَ ابِی طَالِبٍ اَصبَحْت واٴَمْسَیت مُولَایَ وَمَوْلَی کُلِّ مُؤمِنٍ وَ مُوْمِنَةٍ۔>
اے ابن ابی طالب مبارک ھو مبارک ھو ۔ صبح و شام آپ ھمارے اور ھر مؤمن و مومنہ کے مولا ھیں۔
کیا عقل حضرت علی علیہ السلام کے خلیفہ نبی(ص) ھونے کا اعتراف نھیں کرتی جبکہ آپ وہ ھستی ھیں جن کے متعلق حضرت رسول خدا (ص)نے ایک طویل حدیث میں ارشاد فرمایا:
<اَلَّلھُمَّ اَدْرِ الْحَقَّ مَعَہ حَیْثُ دَارَ۔>
خدایا حق کو اسکے ساتھ اُدھر پھیر دے جدھریہ پھرے۔
جی ہاں حضرت علی کرم الله وجھہ ھی رسول خدا (ص)کے بعد خلافت کے حقدار ھیں ۔ اور بے شک آپ ھی تمام صفات و خوبیوں کے جامع ھیں۔
وَلَمْ تک تَصْلَحُ الاَّ لَہُ وَلَمْ ےک ےَصْلَح اِلَّا لَھَا
مقام خلافت فقط انھیں زیب دیتا ھے اور ےھی مقام خلافت کی صلاحیت رکھتے ھیں۔
امامِ برحق کے ھوتے ھوئے حضرت رسول خدا (ص)کے بعد حضرت ابوبکر خلیفہ بن بیٹھے۔ یہ حضرت علی علیہ السلام پر حضرت ابو بکر کے افضل ھونے کے دلیل نھیں ھے۔ بلکہ ھر زمان و مکان کی یھی سیاست ھے ۔ یہ یوم سقیفہ سے حاصل شدہ فضیلت ھے جبکہ خدا و رسول(ص) کا حکم ترک کردیا گیا اور قریش کی خواھشات کو لیا گیا۔یہ سب اس دن کے اختلاف کا نتیجہ ھے جب سید الوجود (ص)نے اپنے اصحاب سے قلم و دوات مانگا تھا تا کہ ان کے لیئے نوشتہ لکھ دیںتاکہ آپ کی رحلت کے بعد امت گمراہ نہ ھو۔

دوسراسوال :
کیا خلافت نص سے ثابت ھوتی ھے یا اجماع سے؟
جواب: اس میں کسی قسم کا شک و تردید نھیں ھے بلکہ ایک اصولی قاعدہ ھے کہ جب نص موجود ھو تو ھر دلیل باطل ھو جایا کرتی ھے۔
ھم یہاں استاد بزرگوا ر عبد الله یحیی علوی صاحب ۔ کے فقط انھی جوابات پر اکتفاء کرتے ھیں۔ اور چونکہ باقی دوسرے بھت سے سوال وجواب ھمارے موضوع سے باھر تھے لہٰذا ھم ان کا تذکرہ نھیں کرتے۔
وَالله ُ نَسْاٴَلُ اَنْ یُوفَقَ العَاملِینَ المُخْلِصِینَ لِمَرْضَاتِہِ انَّہ وَ لِیُّ التَّوفیق۔

سید مرتضیٰ رضوی
۲۰ رجب المرجب ۱۴۲۱ ھجری
----------------------------------------------------------
[1] مناقب سیدنا علی ص ۲۷ مطبوعہ حیدر آباد ، ھند وستان۔
[2] وھی مصدر ص ۳۴۔
[3] ینابیع المودة ص ۱۱،قندوزی حنفی، طبع استانبول۔
[4] فضائل صحابہ امام احمد بن حنبل ص ۱۳،صحیح مسلم ج۷ص۱۲۰۔
[5] المعجم الکبیر، طبرانی ج ۱۲ ، ص ۷۸ ، سنن الکبریٰ، نسائی ج ۵ ص ۱۳۲ ، کنز العمال، متقی ھندی ج۱۱ ص ۵۹۹۔
[6] تاریخ ابن عساکر ، ج ۳ ص ۱۲۴ ۔
[7] فضائل الصحابة ، احمد ابن حنبل ص ۱۴ ، مسند احمد ، احمد ابن حنبل ج ۱ ص ۸۴ ، سنن ابن ماجہ ، محمد بن یزید قزوینی ج ۱ ص ۵۴،سنن ترمذی ج ۵ ص ۲۹۷۔