سولھویں فصل | |||||
حضرت علی علیہ السلام کے اشعار
حضرت امیر المومنین علیہ السلام کے اشعار کے متعلق علماء اسلام کی رائے درج ذیل ھے :
جاحظ اپنی کتاب البیان والتبین اور فضائل بنی ہاشم میں اور بلاذری اپنی کتاب انساب الاشراف میں کھتے ھیں ۔ اِن علیاً اٴشعر الصحابہ واٴ فصحھم واٴخطبھم واٴکتبھم حضرت علی علیہ السلام کو اشعار ،فصاحت ،خطابت ،اور کتابت میں تمام صحابہ پر برتری حاصل تھی۔ صاحب تاریخ بلاذری کھتے ھیں: کان اٴبوبکر ےقول الشعر وعُمر یقول الشعر وعثمانُ یقولُ الشعر وکان علي اٴشعر الثلاثة۔ حضرت ابو بکر ،حضرت عمر اور حضرت عثمان بھی اشعار کھاکرتے تھے لیکن حضرت علی علیہ السلام ان تےنوں سے زیادہ (فصےح اور بلیغ )شعر کھتے تھے۔ بن مسیب کھتے ھیں حضرت ابو بکر ،حضرت عمر اور حضرت علی علیہ السلام اشعار کھاکرتے تھے لیکن ان تینوں میں حضرت علی علیہ السلام کے اشعار بھت بلند اور فصیح وبلیغ ھوتے تھے۔[1] مختلف کتابوں میں آپ سے منسوب بھت سے اشعار موجود ھیں اور ان اشعار کے متعلق یھی شھرت ھے کہ انھیں آ پ نے بیان فرمایا ھے اور ان اشعار کو ثقہ راویوں نے ذکر کیا ھے۔ جب ھم ان اشعار کی فصاحت اور بلاغت کی طرف متوجہ ھوتے ھیں تو ھمیں ان اشعار کی آپ کی طرف نسبت دینا صحیح معلوم ھوتی ھے۔بھر حال ھم یہاں پر چند اشعار ذکر کرنے کی سعادت حاصل کرتے ھیں ۔حضرت سختی کے بعد آسانی اور اللہ تبارک تعالی سے امیدیں وابستہ کرنے کے متعلق ارشاد فرما تے ھیں۔ اِذا اشتملت علیٰ الیاٴس القلوب وضاق لمابہ اِلصدرُ الرحیبُ واٴوطنت المکارہ واستقرت واٴرست في اٴماکنھا الخطوبُ ولم تر لانکشاف الضرّ وجھاً ولااٴغنیٰ بحیلتہ الاٴریبُ اٴتا کَ علیٰ قنوطٍ منک غوث یَمُنُّ بہ اللطیف المستجیبُ وکل الحادثات اِذ تناھت فموصول بھا فرج قریب [2] جب تمہارے دل ناامیدی پر مشتمل ھوں اور سےنہ تنگی محسوس کررھاھو اور مصائب ومشکلات کے بھنور میں پھنس گئے ھو اور رنج وغم سے نجات پانے کی کوئی صورت نظر نہ آتی ھوتو اس وقت تم خداوند عالم کی بارگاہ میں رجوع کرو، لطیف وخبیر دعا قبول کرنے والا اور احسان کرنے والا ھے اور جب مشکل کے وقت تم اسے پکارو گے تو وہ مشکل اس کی طرف سے حل ھو جائے گی۔ حضرت علی علیہ السلام نے جب عمر وبن عبدو د عامری کو جنگ خندق میں فی النار کیا تو یہ اشعار کھے : نَصرَ الحجارة من سفاھة راٴیہ و نصرت دین محمد ٍبصوابِ ضربتہ فترکتہ متجدلاً کالجذع بین دکادک و روابي وعففت عن اثوابہ ولو انني کنت المقطر بزّني اٴثوابي لا تحسبنّ اللّٰہ خاذل دینہ ونبیّہ یا معشر الاٴحزاب پتھروں کی مدد کرناتیری بے وقوفی ھے اور میں نے بھترین انداز میں حضرت احمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دین کی نصرت کی۔ پس میں نے اسے کاری ضرب لگائی اور اسے اس جنگ میں اس طرح چھوڑ آیا ہ اس کے لباس کو میں نے جسم پر ڈال دیا۔اے گروہ احزاب ! اللہ کے دین اور اس کے نبی سے دھوکا کرنے والا اللہ کے نزدیک کسی مقام کے لائق نھیں[3] حضرت امیر المومنین علیہ السلام نے جب اپنا یہ مشھور جملہ ارشاد فرمایا: واعجبا اٴتکون الخلا فة بالصحابة ولا تکون بالصحابة والقرابة۔ بڑے تعجب کی بات ھے کہ خلافت پر صحابہ نے قبضہ جما لیا ھے لیکن کیا یہ خلافت اس کا حق نھیں ھے جو صحابی بھی ھے اور قرابت دار بھی۔ اس موقع پر یہ اشعار کھے ! فاِن کُنت َبالشوریٰ ملکت اٴُمورھم فکیف بھذا والمشےرون غیب واِن کنتَ بالقربیٰ حججت خصےمَھم فغیرک اٴولیٰ بالنبي واٴقربُ اگر تم شوریٰ کے ذرےعے لوگوں کے امور کے مالک بن گئے تو یہ کس طرح ھوا ؟جبکہ مشورہ دینے والے غائب تھے اگر تم یہ قرابتداری کے ذرےعے اپنے مخالف پر دلےل قائم کرو تو تمہارا حرےف (ےعنی میں) حضرت نبی اکرم سے زیادہ نزدیک تر اور قریب تر ھے لہٰذا وہ خلافت کا تم سے زیادہ حق دار اور سزاوار ھے۔[4] حضرت علی علیہ السلام نے لوگوں کو سخاوت کی طرف رغبت دلاتے ھوئے ارشا د فرمایا : اِذا جادت الدنیا علیکَ فجُد بھا علیٰ الناسِ طُرّاً اِنھا تتقلبُ فلا الجود یفنیھا اِذا ھي اٴقبلت ولا البُخل یبقیھا اِذا ھي تذھبُ جب دنیا تم سے جود سخا چاھے تو تم لوگوں میں اسے زیادہ کرو، تمہاری یہ سخاوت تمہارے پاس پلٹ کر آئے گی کیونکہ یہ پسندےدہ خصلت ھے جو کبھی مٹنے والی نھیں،جب کوئی چیز مٹنے والی ھو تو اسے بخل کے ذرےعے باقی نھیں رکھا جاسکتا۔[5] معاویہ بن ابو سفیان نے حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کو خط لکھا جس میں اس نے یہ افتخار کیا تھا کہ میں اسلام کا بادشاہ ھوں اورحضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ھمارے داماد ھیں اور میں مومنین کا ما موںھوں اور کاتب وحی ھوں۔ توجب حضرت امیر المومنین علیہ السلام نے اس خط کو پڑھا تو ارشاد فرمایا : اٴ عليَّ یَفخرُ اِبن آکلة الاٴ کباد ۔ کلیجہ چبانے والی کافرزند کیا تو مجھ پر فخر مباہات کرتا ھے۔ پھرآپ نے اس کے جواب میں چند اشعار کھے : محمدٌ النبي اٴخي وصھري وحمزة سید الشھداء عميّ جعفر الذي یُمسي و یضحیٰ یطیرُ مع الملائکة اِبن اٴُمي و بنت محمد سکني و عُرسی مسوط لحمھا بدمی ولحمی وسبطا اُحمد ولداي منھا فمن منکم لہ سھم کسھمی سبقتکُم اِلی الاِسلام طُرّاً صغیرا مابلغتُ اٴوان حلمي فاٴوصانيالنبي لدیٰ اِختیار رضیً منہ لاٴمتہ بحکمي واٴوجب في الولا ء معاً علیکم خلیلي یوم دوح(غدیر خم) فوےلٌ ،ثم ویلٌ، ثم ویلٌ لمن یرد القیامہ وھو خصمي اللہ تبارک تعالی کے نبی حضرت محمد(ص)میرے بھائی اور سسر ھیں۔ سید الشھداء حضرت حمزہ میرے چچا ھیں اور صبح شام ملائکہ کے ساتھ پرواز کرنے والے جعفر میرے ھی بھائی ھیں،حضرت محمد(ص) کی بیٹی میری ھمسر ھے اس کا گوشت وپوست میرے گوشت وپوست سے مخلوط ھے اور احمد مصطفی کے نواسے میرے فرزند ھیںپس تم میںکون ھے جس کا(خاندان رسالت )کے ساتھ اتنا تعلق ھے جتنا میرا ھے؟۔ جب میں تم میں سابق الاسلام ھوں۔میں نے بچپن میں اسلام کا اظہار کیا۔ نبی اکرم(ص) نے مجھے وصیت کی اور مجھے اختیار دیا اورمیری وجہ سے وہ اپنی امت سے راضی ھیں، غدیر خم میں میرے خلیل نے تم سب پر میری محبت کو واجب قرار دیا تھا۔ جو شخص بھی قیامت کے دن اس مشکل میں حاضر ھو کہ وہ میرا دشمن ھے اس کے لئے ھلاکت ھے۔[6] حضرت علی علیہ السلام علم کی فضیلت بیان کرتے ھوئے فرماتے ھیں : الناسُ مِن جھة اِلتمثیل اٴکفاء اٴبوھم آدمٌ والاٴمُ حواءُ واِن یکن لھم مِن اٴصلھم شرفٌ یفاخرون بہ فالطین و الما ئ ماالفخر الا لاھل العلم انھم الی الھدیٰ لمن استھدیٰ ادلاء وقیمة المرء ماقد کان ےحسنہ والجاھلون لاٴھل العلم اٴعداءُ فقم بعلم ولا تبغي لہ بدلاً فالناس موتیٰ واٴھل العلم اٴحیاءُ لوگوں کی تمثےل کے عنوان سے یھی بات کافی ھے کہ ان کے باپ حضرت آدم اور ان کی ماں حضرت حوا ھیں اور ان کی حقےقت کے لئے یھی شرف کافی ھے کہ وہ مٹی اور پانی سے بنے ھیں،البتہ اھل علم کے علاوہ فخر ومباہات کرنے کاکسی کو حق نھیں ھے کیونکہ اھل علم ھی کو یہ شرف حاصل ھے کہ ان میں جو ھدایت کے طالب ھوتے ھیںوہ ھدایت پا جاتے ھیںکسی شخص کی قدر وقےمت اس کے علم کے حساب سے ھے کیونکہ جاھل اھل علم کادشمن اٹھو اور علم حاصل کرو، علم کے علاوہ کسی چیز کی طلب نہ رکھو کیونکہ (علم سے خالی)لوگ مردہ ھیں اور اھل علم زندہ ھیں [7] موت کا ذکر کرتے ھوئے مولائے متقیان حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام اس طرح ارشاد فرماتے ھیں : الموت لا والد اً ےبقي ولا ولدا ھذا السبےل اِلیٰ اٴن لِا تریٰ اٴحداً کان النبي ولم یخلُدلاٴُمتہ لو خلّد اللہ قوماًقبلہ خَلْدا للموت فےنا سھامٌ غیر خاطئةٍ مَن فاتَہُ الیومَ سھمٌ لم یفتُہ غداً موت نے نہ تو باپ کو باقی رکھا ھے اور نہ بےٹے کو، یہ سلسلہ جاری وساری ھے اور کسی کو اس کے انتھاکی خبر نھیںاور حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جیسی ھستی بھی اپنی امت میںھمیشہ باقی نہ رھی۔ اگر خداوند متعال کسی قوم کو ھمیشہ کے لئے باقی رکھتا تو پھلی والی کوئی قوم بھی ھمیشہ کے لئے باقی رھتی۔ ھماری ذات میں موت کے حقوق اورحصے موجود ھیں جو ھمیں ضرور ملےں گے کسی کو اگر وہ حصہ آج نہ ملا تو کل ضرور ملے گا۔[8] حضرت علی علیہ السلام کی طرف منسوب آخرت یاد دلا نے والے اشعار : ولو اٴناّ اِذا متنا ترکْنا لکان الموت راحة کل حيّ ولکنا اذا متنا بُعِثنا ونُسئَلُ بعدہ عن کلُ شیءٍ اگر ھم یہ جانتے کہ کب ھم مرےں گے اور تمام چیزوں کو چھوڑ جائیں گے توموت ھر زندہ انسان کےلئے آسان ھوجاتی لیکن یاد رکھو جب ھم مرےں گے تو اس کے بعد ھمیں اٹھایا جائے گا اور ھر چیز کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ [9] ادب کی اھمیت بیان کرتے ھوئے ارشاد فرماتے ھیں : کُن اِبن مَن شئت واکتسب اٴدباً یغنیکَ محمودہ عن النَّسبِ فلیسَ یُغني الحسیب نسبتہ بلا لسان لہ ولا اٴدب اِن الفتیٰ مَن یقول ھا اٴنا ذا لیس الفتیٰ مَن یقول کان اٴبي۔[10] اے انسان توکسی کا بھی فرزندھے اپنے آپ کو زیور علم سے آراستہ بنا کیونکہ یہ تجھے اچھے نسب سے بے نیاز بنا دے گا۔ وہ شخص جس کے پاس ادب نھیں اس کا حسب ونسب اس کو اچھا نھیں بنا سکتا اور نہ وہ صاحب ادب بن سکتا ھے ،جوان وھی ھے جو یہ کھے کہ میرے اندر یہ خوبیاں ھیں اور میں اےسا ھوں نہ یہ کہ کھے میرا باپ اےسا ھے اور وےسا ھے۔ جب حضرت علی علیہ السلام نے مکہ سے مدینہ کی طرف ھجرت فرمائی تو راستے میں قریش آپ کو تلا ش کرتے ھوئے وہاں آنکلے، یہ لوگ آٹھ گھوڑوں پر سوار تھے۔ آپ نے سواری پر بےٹھے ھوئے یہ شعر کھا: خلوا سبیل الجاھد المجاھد آلیت لا اٴعبد غیرَ الواحد اللہ تعالی کی راہ میں جہاد کرنے والے مجاھدکا راستہ چھوڑ دو۔ تمہاری خواھش کبھی بھی پوری نہ ھوگی اور میں اس ذات واحد کے علاوہ کسی عبادت نھیں کروں گا ، حضرت علی (ع)کو جب یہ اطلاع دی گئی کہ کچھ لوگ کوفہ میں داخل ھوچکے ھیں اورفتنہ و فساد پھیلانا چاھتے ھیں تو حضرت نے ان سے دور رھنے اور بچنے کا حکم دیا ۔ اور پھر درج ذیل اشعار کھے : من اٴي یوميَّ من الموتِ اٴفِرُّ یومَ لمُ یقدَّر اٴم یوم ُقُدِرْ یومَ لم ےُقدر لا اٴرھبہ ومن المقدور لاینجو الحَذَرِ کس دن موت سے فرار کیا جاسکتا ھے،آیا اس دن جب ان سے بھاگنے کی قدرت نہ ھو یا اس دن جب اس پر قادر ھوں۔ جس دن قادر نھیں ھونگے اس دن انھیں اونٹ پر سوار ھو کر کامیاب نہ ھونے دوں گا اور انھیں کوئی بھی نجات نہ دے سکے گا۔[11] حضرت علی علیہ السلام قدرکے متعلق مزید ارشاد فرماتے ھیں: للناس حرصٌ علیٰ الدنیا بتدبیر وصفوھا لک ممزوج بتکدیر لم ےُرزَقوھا بعقل حینما رُزقوا لکنما رُزقوھا بالمقادیر لو کان عن قوةٍ اٴوعن مغالبةٍ طار البزاة بارزاق العصا فیر لوگ دنیا پر اس قدر حرےص ھیں کہ اس کو حاصل کرنے میں زحمتےں برداشت کرتے ھیں، جبکہ ان کا رزق اور روزی ابتدا ھی سے مقرر ھے اور جو ان کی قسمت ھے وھی ان کو ملے گا اگر یہ چیز زور اور قوت کے بل بوتے پر ھوتی تو چڑیوں کا رزق دوسرے پرندے ھوا میں لے کر اڑ جاتے۔[12] حضرت علی علیہ السلام انسان کی عظمت بیان کرتے ھوئے ارشاد فرماتے ھیں: دواؤک فیک وماتشعر وداؤک مِنک وما تُبصر وتحسبُ اٴنّک جرمٌ صغیر و فیک اِنطویٰ العالم الاٴکبر تیری دوا تجھ میں پوشےدہ ھے اسے ادھار نہ لے تیرا علاج تجھ میں ھے، گھبرانھیں۔ تو صرف یھی گمان کر کہ تو ایک چھوٹا سا جسم ھے جس کے اندراتنی بڑی کائنات پوشےدہ ھے۔[13] حضرت فاطمہ الزھرا سلام اللہ علیھا کی وفات پر ماتم کرتے ھوئے ارشاد فرمایا: اے بنت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں کسے تعزےت پیش کروں۔ میں تو تیرے ساتھ بےٹھ کر مصائب برداشت کیا کرتا تھا اب مجھے بتا کہ میں تیرے جانے کے مصائب اور عزا ء کو کس کے سامنے بیان کروں اورپھر یہ اشعار کھے: لکل اِجتماعٍ من خلیلینِ فرقة وکل الذي دون الفراق قلیلُ واِن اِفتقادي فاطماً بعد اٴحمدٍ دلیل علیٰ اٴن لاےَدومُ خلیلُ دوستوں کے مابین جدائی ایک حتمی چیز ھے اگرچہ کم مدت کے لئے ھی ھو حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد میرا سب کچھ فاطمہ تھی۔ حضرت فاطمہ کا چلا جانا اس بات کی دلیل ھے کہ پوری کائنات میں کسی کا کوئی دوست ھمیشہ رھنے والا نھیں ھے۔[14] اپنے امام ،سردار ،مولا وآقا حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی سیرت نوےسی کا سلسلہ ، حضرت سید ة نساء العالمین فاطمہ الزھرا سلام اللہ علیھاکی ولادت باسعادت والے دن ےعنی ۲۰ جمادی الثانی ۱۴۱۸ ھجری بروز جمعرات اختتام کو پھنچا۔میں بارگاہ خدا وندی میں سائل بن کر عرض کرتا ھوں کہ پروردگارااپنے اس حقےر بندے کی یہ ناچیز کوشش اپنی بارگاہ میں قبول ومقبول فرما ۔ اور تو ھی بھترین مولا اور مدد گار ھے۔ والسلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ موٴلف: شیخ جواھری -------------------------------------------------------------------- [1] اعیان الشیعہ سید محسن امین ج ۱ص ۵۴۹۔ [2] اعیان ا لشیعہ ج۱ ص ۵۵۰۔ [3] ارشاد ج ۱ ص ۹۹۔ [4] اعیان الشیعہ ج۱ ص۵۵۱۔ [5] آئمتنا ۔علی دخیل ج ۱ ص ۸۳۔ [6] تذکره ابن جوزی، ص 102. 103. [7] تذکرة الخواص ص ۱۵۲ ۔ [8] ٓئمتنا، ج۱ ص ۸۳ ۔ [9] تذکرہ خواص :ص۱۵۱۔ [10] آئمتنا ج ۱ ص ۸۳ ۔ [11] نھج البلاغہ ج ۶ ص ۵۵۔ [12] تذکرہ الخواص ،ص۱۵۲۔ [13] اعیان الشیعہ :ج۱ص۵۵۲۔ [14] کشف الغمہ فی معرفتہ الائمہ ج ۱ ص ۵۰۱ ۔ |