تیرھویں فصل | |||||
علی (ع) اور آپ کے عمال
صاحب استعاب اپنی کتاب میں بیان کرتے ھیں کہ حضرت علی (علیہ السلام) روزانہ بیت المال کو عوام میں تقسیم کردیتے تھے اور کچھ بھی باقی نہ رکھتے تھے مگر یہ کہ تقسیم کرتے کرتے تھک جاتے ۔آپ فرمایا کرتے تھے کہ اے دنیا میرے غیر کو دھوکا دے۔ اس طرح آپ مال فئی میں سے کچھ بھی نہ لیتے تھے اورناھی اپنے قریبی رشتہ داروں اوردوستوں کو عطافرماتے، اسی طرح اھل دین و دیانت کے علاوہ کسی والی کے ساتھ بھی اسے مختص نہ فرماتے۔[1]
صاحب اسد الغابہ بنی ثقیف کے ایک شخص کی سند سے روایت بیان کرتے ھیں کہ میں حضرت علی (علیہ السلام)کا” مدرج سابور“ میں عامل تھا ۔ حضرت نے ارشاد فرمایا: کسی شخص کو بھی درھم کے لئے کوڑے نہ لگانا اور ان سے سردیوں اور گرمیوں میں لباس اور کھانا نہ لینا اوروہاں کام کرنے والے کی سواری بھی نہ لینا اور جس شخص کے ذمہ مال کا مطالبہ ھو اس پر حدود تعزیر قائم نہ کرنا ۔ میں نے عرض کی کہ مولا!اسے پکڑ کر آپ کی خدمت میں لایا جائے جس طرح اس نے آپ سے فرار کیا ھے ۔ آپ نے فرمایا اگر میرے پاس پکڑکر لائے تو تجھ پرافسوس ھے ھمارا کام تو ان پر عفویعنی فضل کرنا ھے ۔[2] خراج وصول کرنے والے عاملوں کے نام حضرت کا خط
خدا کے بندے علی امیرالمومنین کاخط خراج وصول کرنے والوں کے نام۔
اما بعد! لوگوں کے ساتھ عدل و انصاف سے پےش آو اور ان کی خواھشوں کا احترام کرو۔ صبر و تحمل سے کام لو اس لئے کہ تم رعیت کے خزانہ دار ،امت کے وکےل اور ائمہ کے سفےر ھو کسی سے اس کی ضروریات کو قطع نہ کرو ۔ اس کے مقصد میں رکاوٹ نہ ڈالو اور کسی مسلمان یا ذمی کے مال کو ہاتھ نہ لگاؤ مگر یہ کہ اس کے پا س اےسا گھوڑا یا ھتھیار ھو جسے وہ اھل اسلام کے خلاف استعمال کرنے والا ھو اس لئے کہ یہ ایک ایسی چیز ھے کہ کسی مسلمان کے لئے یہ مناسب نھیں ھے کہ وہ اس کو اسلام کے دشمنوں کے ہاتھوں میں رھنے دے جو مسلمانوں پر غلبہ کا سبب بن جائے ۔ اپنوںسے خیر خواھی ،ان سے نیک برتاؤ ، رعیت کی امداد اور دین خدا کو مضبوط کرنے میں کوئی کسر باقی نہ رکھو اللہ کی راہ میں جو تمہارا فریضہ ھے ، اسے انجام دو۔ اللہ سبحانہ نے اپنے احسانات کے بدلہ میں ھم سے اور تم سے یہ چاھاھے کہ ھم مقدور بھر اس کا شکر اور طاقت کے مطابق اس کی نصرت کریں اور ھماری قوت و طاقت بھی توا علیٰ و عظیم خدا ھی کی طرف سے ھے ۔[3] ایک مرتبہ جب حضرت علی علیہ السلام کے پاس یہ خبر پھنچی کہ ان کے ایک عامل کی عوام کے ساتھ رفتار و گفتار شریعت کے مخالف ھے تو آپ نے اس کو کام کرنے سے روک دیا اور اللہ اور لوگوں کے حقوق کی حفاظت میں اس پر سختی کی لہٰذا” اردشیر خرہ“ میں آپ کی طرف سے نصب شدہ حاکم مصقلہ بن ھبیرہ شیبانی کو لکھے گئے خط میں یہ واقعہ موجود ھے ۔ حضرت ارشاد فرماتے ھیں: مجھے تمہارے متعلق ایک ایسے امر کی خبر ملی ھے اگر تم نے اسے کیا ھے تو اپنے خدا کو ناراض کیا اور اپنے امام کو بھی غضبناک کیا ھے وہ یہ کہ مسلمانوں کے اس مال غنیمت کو جیسے ان کے نیزوں (کی انیوں)اور گھوڑوں(کی ٹاپوں)نے جمع کیا تھا جس پر ان کے خون بہائے گئے تھے۔ اس کو تم اپنی قوم کے ان بدوؤ میں بانٹ رھے ھو جو تمہارے ھواخواہ ھیں۔ اس بابرکت ذات کی قسم جس نے دانے کو شگافتہ کیا اور جاندار چیزوں کو پیداکیا اگر یہ صحیح ثابت ھوا تو تم میری نظروں میں ذلیل ھو جاؤ گے اور تمہاراپلہ ھلکا ھوجائے گا اپنے پروردگار کے حق کو سبک نہ سمجھو اور دین کو بگاڑ کر اپنی دنیا کو نہ سنوارو، ورنہ عمل کے ا عتبار سے خسارہ اٹھانے والوں میں سے قرار پاؤگے ۔ دیکھو!وہ مسلمان جو میرے اور تمہارے پاس ھیں اس مال کی تقسیم میں برابر کے حصہ دار ھیں اسی اصول پر وہ اس مال کو میرے پاس لینے کے لئے آتے ھیں اور لے کر چلے جاتے ھیں۔[4] حضرت کا خط زیاد بن ابیہ کے نام
عبداللہ بن عباس بصرہ ،شھر اھواز ،فارس اور کرمان پر حکمران تھا اور یہ بصرہ میں ان کاقائم مقام تھا ۔اس خط میں آپ ملاحظہ فرمائیں گے۔
جب حکمران لوگوں کی امانت میں خیانت کرتے ھیں تو حضرت ان کے ساتھ کس قدر سخت رویہ اپناتے ھیں بھرحال زیاد کو مخاطب کر کے ارشاد فرمایا : میں اللہ تعالی کی سچی قسم کھاتا ھوں اگر مجھے پتہ چل گیا کہ تم نے مسلمانوں کے مال میں خیانت کرتے ھوئے کسی چھوٹی یا بڑی چیز میں ھیرا پھیری کی ھے تو یاد رکھو میں ایسی مار ماروں گا کہ جو تمھیں تھی دست بنا دے گی اور تم پر گراں گزرے گی اور تمھیں ذلےل کر دے گی ۔[5] صاحب استیعاب کھتے ھیں کہ جب حضرت علی علیہ السلام کے پاس اپنے کسی عامل کی نامناسب شکایت پھنچی تو آپ نے اسے خط لکھا ”بے شک تمہارے پاس رب کی طرف سے موعظہ حسنہ آچکا ھے “ناپ تول میں عدل و انصاف سے کام لو، لوگوں کی چیزوں کی طرف مائل نہ ھو اور زمین پر ظلم و زیادتی کرکے فساد برپا نہ کرو۔ بقیةاللہ تمہارے لئے بھتر ھے اگر تم مومن ھو اور میں تم پرحفیظ نھیں ھوں، جب میرا خط تمہارے پاس پھنچے تو ھم نے جو کام تمہارے سپرد کیا ھے اس کی اچھی طرح حفاظت کرو یہاں تک کہ ھم تیری طرف کسی کو روانہ کرےں پھر آپ نے آسمان کی طرف سر اٹھا کر فرمایا: اے اللہ تو جانتا ھے کہ میں نے انھیں تیری مخلوق پر ظلم کرنے کو نھیں کھااور تیرے حق کو چھوڑنے کاحکم نھیں دیا ۔[6] جب بھی حضرت کسی شخص کوکوئی کام سونپتے تھے تو اسے اس کے بارے میں مکمل طور پر بتاتے تھے کہ اسے کس طرح کام انجام دینا ھے اس کی عمومی حالت کیا ھے جیسا کہ حضرت نے زکوةجمع کرنے کے لئے جس عامل کو بھیجا اس کے نام یہ عھدنامہ تحریر فرمایا : میںتمھیں تقویٰ کا حکم دیتا ھوں کہ اپنے پوشیدہ ارادوں اور مخفی کاموں میں اللہ سے ڈرتے رھوجہاں نہ اللہ کے علاوہ کوئی گواہ ھوگا اور نہ اس کے سوا کوئی نگران ھو گااورمیں حکم دیتا ھوں کہ ایساکام نہ کرو جس میں بظاھر الله کی اطاعت ھو لیکن باطن میں اسکی مخالفت ھو جس شخص کا ظاھر و باطن اور رفتار و گفتار یکساں ھو تو اس نے درحقیقت امانت داری کا فرض انجام دیا اور اللہ کی عبادت میں خلوص دل سے کام لیا ھے اور میں نصیحت کرتا ھوں کہ تم لوگوں کو آرزدہ اورپریشان نہ کرو اور نہ ان سے اپنے عھدے کی برتری کی وجہ سے بے رخی کرو کیونکہ وہ تمہارے دینی بھائی اور زکوة و صدقات برآمد کرنے میں معین و مدد گار ھیں۔ یہ معلوم ھے کہ اس زکوة میں تمہارا بھی معین حصہ اور جانا پہچانا ھوا حق ھے اور اس میں بیچارے مسکین اور فاقہ کش لوگ بھی تمہارے شریک ھیں اور ھم بھی تمہارا حق پوراا پورا ادا کرتے ھیں تو تم بھی ان کا حق پورا پورا ادا کرو۔یاد رکھو ! اگر اےسا نہ کیا تو روز قیامت تمہارے ھی سب سے زیادہ دشمن ھوں گے اور اس شخص کی انتہائی بدبختی ھے جس کے خلاف فقیر، نادار، سائل، دھتکارے ھوئے لوگ الله کے حضور میں قیامت کے دن فریق بن کر کھڑے ھونگے ۔ یاد رکھو !جو شخص امانت کو بے وقعت سمجھتے ھوئے اسے ٹھکرا دے اور خیانت کی چراگاھوں میں چرتا پھرے ،اور اپنے دین اور خود کو اس کی آلودگی سے نہ بچائے تو اس نے دنیا میں بھی خود کو ذلت و خواری میں ڈالا اور وہ آخرت میں بھی ذلیل و رسوا ھوگا ،سب سے بڑی خیانت امت کی خیانت ھے اور سب سے بڑافریب پیشوائے دین کو فریب دینا ھے ۔[7] آپ کا خط مالک اشتر کے نام
جب حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام نے مالک اشتر کو مصر کی حکومت سپرد فرمائی ۔تو ایک نامہ تحریر فرمایا۔اس دستاویز میں آپ نے حاکم کے لئے دستور کامل بیان فرمایا جس میں تقرب خدا بھی ھے اور اللہ جسے رعیت کے لئے محبوب جانتا ھے وہ دستور بھی ھے ھمیشہ بحث کرنے والوں اور مفسرین نے ا س غور وفکراور دقت کی نگاہ سے دیکھاھے ،کیونکہ یہ جامع اور مانع امور پر مشتمل ھے اور ھم برکت اور ثواب کے لئے اس کا تذکرہ کئے دیتے ھیں۔
حضرت نے ارشاد فرمایا :رعایا کے لئے اپنے دل کے اندر رحم و رافت اور لطف ومحبت کو جگہ دو ،ان کے لئے پھاڑ کھانے والا درندہ نہ بنوجو انھیں نگل جانے کی تاک میں ھوکیونکہ رعایا میں دو قسم کے لوگ ھوتے ھیں ایک تو تمہارے دینی بھائی دوسرے تمہارے جیسی مخلوق خدا ،ان سے لغزشیں بھی ھوں گی ان کی خطاؤں سے بھی سابقہ پڑے گا۔ان سے عمداً یا سھواً غلطیاں بھی ھوں گی۔ تم ان سے اس طرح عفوو درگزر سے کام لینا جس طرح اللہ سے اپنے لئے عفو و درگزر کو پسند کرتے ھو اس لئے کہ تم ان پر حاکم ھو اور تمہارے اوپر تمہارا امام حاکم ھے اور جس(امام)نے بھی تمھیں والی بنایا ھے اس کے اوپر اللہ حاکم ھے اور اس نے تم سے لوگوں کے معاملات کو صحیح طور پر انجام دینے کا مطالبہ ھے اور ان کے ذریعہ تمہارا امتحان لے رھاھے۔ خبردار اللہ سے مقابلے کے لئے نہ اترنا اس لئے کہ اس کے غضب کے سامنے تم بے بس ھو اور اس کی عفو و رحمت سے بے نیاز نھیں ھو سکتے اپنی ذات کے بارے میں اور اپنے خاص عزیزوں اور رعایا میں سے اپنے دل پسند افراد کے معاملے میں حقوق اللہ اور حقوق الناس کے بارے میں بھی انصاف کرنا ۔ اگر تم نے ایسا نہ کیا تو ظالم ٹھھرو گے اور جو خدا کے بندوں پر ظلم کرتا ھے تو بندوں کی بجائے اللہ اس کا حریف و دشمن بن جاتا ھے اور جس کا وہ حریف و دشمن ھو جائے وہ اس کی ھر دلیل کو کچل دے گا اور اللہ اس وقت تک برسرپیکار رھے گا۔یہاں تک کہ وہ باز آجائے اور توبہ کرے کیونکہ ظلم پر باقی رھنے سے اللہ کی نعمتیں سلب ھوجاتی ھیں اور اس کا عذاب جلد نازل ھوتا ھے اللہ مظلوموں کی پکار کو سنتا ھے اور ظالموں کےلئے وہ موقع کا منتظر رھتا ھے۔ اور تمہاری رعایا میں سب سے زیادہ دور اور سب سے زیادہ ناپسند تمھیں وہ شخص ھونا چاھیے جو زیادہ تر لوگوں کی عیب جوئی میں لگا رھتا ھے ،کیونکہ لوگوں میں عیب تو ھوتے ھی ھیں۔ حاکم کےلئے سب سے بڑی شان یہ ھے کہ ان پر پردہ ڈالے لہٰذ ا جو عیب تمہاری نظروں سے اوجھل ھوں انھیں نہ اچھالنا کیونکہ تمہارا کام انھی عیبوں کو چھپانا اور مٹانا ھے کہ جو پوشیدہ ھوں، ان کا فیصلہ اللہ کے ہاتھ میں ھے اس لئے جہاں تک ھوسکے عیبوں کو چھپاؤ تاکہ اللہ بھی تمہارے ان عیوب کی پردہ پوشی کرے جنھیں تم رعیت سے پوشیدہ رکھنا چاھتے ھو ۔ لوگوں سے کینہ کی ھر گرہ کھول دو اور ان سے دشمنی کی ھر رسی کو کاٹ دو اور ھر ایسے رویہ سے جو تمہارے لیے مناسب نھیں ھے، بے خبر بن جاؤ اور جلدی سے چغل خور کی ہاں میں ہاں مت کھو کیونکہ وہ فریب کار ھوتا ھے اگرچہ خیر خواھوں کی صورت میں سامنے آتا ھے ۔ اپنے مشورہ میں کسی بخیل کو شامل نہ کرنا وہ تمھیں دوسروں کے ساتھ بھلائی کرنے سے روکے گا اور فقرو افلاس کا خطرہ دلائے گا۔ اور نہ کسی بزدل سے سخت کاموں میں مشورہ لینا کیونکہ وہ تمہاری ھمت پست کردے گا نہ کسی لالچی سے مشورہ کرنا کیونکہ وہ ظلم کی راہ سے مال اکھٹا کرنے کو تمہاری نظروں میں سجا دے گا۔ یاد رکھو! بخل، بزدلی اورحرص اگرچہ الگ الگ خصلتیں ھیں مگر اللہ سے بد گمانی ان سب میں شریک ھے تمہارے لئے سب سے بدتر وزیر وہ ھو گا جو تم سے پھلے بد کرداروں کا وزیر اور گناھوں میں ان کا شریک رہ چکا ھے۔اس قسم کے لوگوں کو تمہارے خواص میں سے نھیں ھونا چاھیے کیونکہ وہ گناھگاروں کے معاون اور ظالموں کے ساتھی ھوتے ھیں۔ پھر تمہارے نزدیک ان میں زیادہ ترجیح ان لوگوں کو ھونا چاھیے جو حق کی کڑوی باتیں کھل کر تم سے کھنے والے ھوں اور ان چیزوں میں جنھیں اللہ اپنے مخصوص بندوں کےلئے ناپسند کرتا ھے تمہاری بھت کم مدد کرنے والے ھونے چاھیے وہ تمہاری خواھشوں سے کتنی ھی میل کھاتی ھوں۔ پرھیزگاروں اور راست بازوں سے خود کو وابسطہ رکھنا پھر انھیں اس کا عادی بنانا کہ وہ تمہارے کسی کارنامے کے بغیر تمہاری تعریف کرکے تمھیں خوش نہ کریں کیونکہ زیادہ تعرےف غرور پیدا کرتی ھے اور سرکشی کی منزل سے قریب کر دیتی ھے اور تمہارے نزدیک نیکوکار اور بد کار برابر نہ ھوں کیونکہ ایسا کرنے سے نیکوں کو نیکی سے بے رغبت کرنا ھے اور بروں کو برائی پر آمادہ کرنا ھے۔ تمھیں معلوم ھونا چاھیے کہ رعایا میں کئی طبقے ھوتے ھیں جن کی فلاح بھبود ایک دوسرے کے ساتھ وابسطہ ھوتی ھے اور وہ ایک دوسرے سے بے نیاز نھیں ھوسکتے۔ ان میں سے ایک طبقہ اللہ کی راہ میں کام آنے والے فوجیوں کا ھے اور دوسرا طبقہ وہ ھے جو عمومی اور خصوصی تحریروں کا کام انجام دیتا ھے اور تیسرا انصاف کرنے والے قاضیوں کا ھے اور چوتھا حکومت کے ان کارندوں کاھے جو امن وانصاف قائم کرنے پر مامور ھوتے ھیں۔پانچواں طبقہ خراج دینے والے مسلمانوں اور جزیہ دینے والے ذمی کافروں کا ھے چھٹا طبقہ تجار اور ھنرمندوں کا ھے اور ساتواں طبقہ فقراء مساکین کا ھے جو سب سے پست ھے اور اللہ تعالی نے ھر ایک کا حق معین کردیا ھے اور اپنی کتاب یا سنت نبوی میں اس کی حد بندی کردی ھے اور وہ (مکمل) دستور ھمارے پاس محفوظ ھے۔ پھلا طبقہ فوج یہ خدا کے حکم سے رعیت کی حفاظت کا قلعہ ،فرمانرواؤں کی زینت دین و مذھب کی قوت اور امن کی را ھیں ھیں اور رعیت کا نظم و نسق انھیں سے قائم رہ سکتا ھے اور فوج کی زندگی کا سہارہ وہ خراج ھے جو اللہ نے ان کے لئے معین کیا ھے کہ جس سے وہ دشمنوں سے جہاد کرنے میں تقویت حاصل کرتے ھیں۔ اور اپنی حالت کو درست بناتے اور ضروریات کو بھم پھنچاتے ھیں۔ پھر ان کے نظم ونسق اور بقاء کے لئے دوسرے طبقوں کی ضرورت ھے جو قضاة،عمال اور دفاتر کے کاتبوں پر مشتمل ھیں جن کے ذریعے باھمی معاھدوں کی مضبوطی خراج اور دیگر منافع کی جمع آوری ھوتی ھے ۔اور معمولی اور غیر معمولی معاملوں میں ان کے ذریعے وثوق اور اطمینان حاصل کیا جاتا ھے ۔ سب کا دارمدار تاجروں اور صنعت گروں پر ھے کہ وہ ان کی ضروریات کو فراھم کرتے ھیں بازار لگاتے ھیں اور اپنی کاوشوں سے ان کی ضروریات کو مھیا کر کے انھیں آسودہ خاطربناتے ھیں ،اس کے بعد پھر فقیروں اور ناداروں کا طبقہ ھے جن کی اعانت و دستگیری ضروری ھے ۔ اللہ تعالی نے ان سب کے گزارے کی صورتیں پیدا کر رکھی ھیں اور ھر طبقہ کا حاکم پر یہ حق ھے کہ وہ ان کے لئے اتنا سامان مھیا کرے کہ جس سے ان کی حالت بھتر ھوسکے۔ پھر یہ کہ لوگوں کے معاملات کا فیصلہ کرنے کے لئے ایسے شخص کاانتخاب کرو جو تمہارے نزدیک تمہاری رعایا میں سب سے بھتر ھو جو واقعات کی پےچیدگیوں کو اچھے ڈھنگ سے سلجھا سکے اور غےض و غضب سے دور رھے اور اپنی غلطی پر مصر نہ رھے،نہ حق کو پہچان کر اسے اختیار کرنے میں طبیعت پر بار محسوس کرتا ھو ،نہ اس کا نفس ذاتی طمع پر جھک جاتا ھو اور نہ پوری طرح چھان بین کئے بغیر سرسری طور پر کسی معاملہ کو سمجھ لینے پر اکتفاء کرتا ھو۔ شک و شبہ کے موقع پر قدم روک لیتا ھو اور دلیل و حجت کو سب سے زیادہ اھمیت دیتا ھو اور فریقین کی بحث سے اکتانہ جاتا ھو ،معاملات کی تحقیق میں بڑے صبر و ضبط سے کام لیتا ھو اور جب حقیقت واضح ھو جاتی ھو ،تو یہ بے دھڑک فیصلہ کردیتا ھو وہ ایساھو جسے تعرےف مغرور نہ بنائے۔ اگرچہ ایسے لوگ کم ھی ملتے ھیں۔ پھر یہ کہ تم خود ان کے فیصلوں کا بار بار جائیزہ لیتے رھنا ،دل کھول کر انھیں اتنا دینا ۔کہ جو ان کے ھر عذر کو غیر مسموع بنا دے۔ اور لوگوں سے انھیں کوئی احتیاج نہ رھے اور اپنے دربار میں انھیں ایسے باعزت مرتبہ پر رکھو کہ لوگ انھیں ضرر پھنچانے کا کوئی خیال نہ کر سکیں تاکہ وہ تمہارے التفات کی وجہ سے لوگوں کی سازش سے محفوظ رھیں۔ اس کے بارے میں انتہائی بالغ نظری سے کام لینا کیونکہ (اس سے پھلے)یہ دین بد کرداروں کے پنجے میں اسیر رہ چکا ھے جس میں نفسانی خواھشوں کی کارفرمائی تھی اور اسے دنیا طلبی کا ایک ذریعہ بنا دیا گیا تھاپھر اپنے عھدے داروں کے بارے میں نظر رکھنا اور ان کو خوب آزمائش کے بعد منصب دینا، کبھی صرف رعایت اور جانبداری کی بنا پر انھیں منصب عطا نہ کرنا کیونکہ یہ باتیں ناانصافی اور بے ایمانی کا سرچشمہ ھیں۔ ایسے لوگوں کو منتخب کرنا جو آزمودہ اور غیرت مند ھوں ،ایسے خاندانوں میں سے جو اچھے ھوں اور جن کی خدمات اسلام کی سلسلہ میں پھلے سے ھوں ان کا انتخاب کرنا کیونکہ ایسے لوگ بلند اخلاق کے مالک اور شرافتمند ھوتے ھیں ۔ حرص و طمع کی طرف کم جھکتے ھیں اور عواقب و نتائج پر زیادہ نظر رکھتے ھیں ۔اور سچے اور وفادار مخبروں کو ان پر معےن کر دینا کیونکہ خفیہ طور پر ان کے امور کی نگرانی انھیں امانت داری اور رعیت کے ساتھ نرم رویہ رکھنے کی پابند بنا دے گی ۔ مالیات کے معاملہ میں مالیات ادا کرنے والوں کا مفاد پیش نظر رکھنا کیونکہ انھی کی بدولت دوسروں کے حالات درست کیے جاسکتے ھیں سب اسی خراج اور خراج دینے والوں کے سہارے پر جیتے ھیں۔خراج کی جمع آوری سے زیادہ زمین کی آبادی کا خیال رکھنا کیونکہ خراج بھی تو زمین کی آبادی سے حاصل ھو سکتا ھے۔ اور جو آباد کئے بغیر خراج چاھتا ھے وہ ملک کی بربادی اور خدا کے بندوں کی تباھی کاسامان کرتا ھے اور اس کی حکومت زیادہ نھیں چل سکتی۔ اب اگر وہ خراج کی گر انباری یا کسی ناگہانی آفت یا نھری اور بارانی علاقوں میں ذرائع آبپاشی کے ختم ھونے یا زمین کے سیلاب میں گھر جانے یا سیرابی کے نہ ھونے کے باعث اس کے تباہ ھونے کی شکایت کریں تو خراج میں اتنی کمی کر دو جس سے تمھیں ان کے حالات سدھر نے کی توقع ھو ۔ پھر خصوصیت کے ساتھ پسماندہ و افتادہ طبقہ کے بارے میں اللہ کا خوف کرنا جن کا کوئی سہارا نھیں ھوتا وہ مسکینوں محتاجوں، فقیروں ،اور معذوروں کا طبقہ ھے ان میں کچھ تو ہاتھ پھیلا کر مانگنے والے ھوتے ھیں اور کچھ کی صورت (ھی)سوال ھوتی ھے اللہ کی خاطر ان بے کسوں کے بارے میں اس کے اس حق کی حفاظت کرنا جس حق کا اس نے تمھیں ذمہ دار بنایا ھے ۔ ان کے لئے ایک حصہ بیت المال سے مختص کر دینا اور ایک حصہ ھر شھر کے اس غلہ میں سے دینا جو اسلامی غنیمت کی زمینوں سے حاصل ھوا ھو کیونکہ اس میں دور والوں کا اتنا ھی حصہ ھے جتنا نزدیک والوں کا ھے اور تم سب ان کے حقوق کی نگھداشت کے ذمہ دار بنائے گئے ھو ۔ خصوصیت کے ساتھ ایسے افراد کی خبر رکھنا ۔ جو تم تک نھیں پھنچ سکتے جنھیںآنکھیں دیکھنے سے کراھت کرتی ھوں اور لوگ انھیں حقارت سے ٹھکراتے ھوں گے ۔تم ان کے لئے اپنے کسی باوثوق انسان کو مقرر کرنا جو خوف خدا رکھنے والا ھو اور متواضع ھو تاکہ وہ ان کے حالات تم تک پھنچاتا رھے۔پھر ان کے ساتھ وہ طرز عمل اختیار کرنا جس سے قیامت کے روز تم اللہ کے سامنے حجت پیش کر سکو کیونکہ رعیت میں دوسروں سے زیادہ یہ لوگ انصاف کے محتاج ھیں اور یوں تو سب ھی ایسے ھی ھیں کہ تمھیں ان کے حقوق کو ادا کرکے اللہ کے سامنے سرخرو ھونا ھوگا ۔ دیکھو!یتیموں اور ضعےفوں کا خیال رکھنا جو نہ کوئی سہارا رکھتے ھیں اور نہ سوال کے لئے اٹھتے ھیں یھی وہ کام ھے جو حکام پر گراں گزرا کرتا ھے، ہاں جو لوگ عقبیٰ کے طلب گار رھتے ھیں خدا ان کی مشکلوں کو آسان بنا دیتا ھے اور وہ اسے اپنی ذات پر برداشت کرلیتے ھیں اور اللہ نے جو ان سے وعدہ کیا ھے وہ اس کے سچے وعدے پر اعتماد رکھتے ھیں ۔ تم اپنے اوقات کا ایک حصہ حاجتمندوں کے لئے معین کردینا۔ جس میں ھر کام چھوڑ کر انھیں کے لئے مخصوص ھوجانا اور ان کے لئے ایک عام دربار قائم کرنا اور اس میں اپنے پیدا کرنے والے اللہ کے لئے تواضع و انکساری سے کام لینا۔ فوجیوں نگھبانوںاور پولیس والوں کو ہٹا دینا تاکہ کھنے والے بے دھڑک کہہ سکیں کیونکہ میں نے رسول خدا (ص)کوکئی موقع پر یہ فرماتے ھوئے سنا ھے : اس قوم میں پاکیزگی نھیں آسکتی جس میں کمزوروں کو طاقتوروں سے حق نھیں دلایا جاتاھو۔پھر کچھ امور ایسے ھیں جنھیں خود تم ھی کو انجام دینا چاہئے ان میں سے ایک حکام کے ان مراسلات کا جواب دینا ھے جو تمہارے منشیوں کے بس میں نہ ھوں، دوسرا تمہارے سامنے پیش ھونے والے لوگوں کی حاجتیں۔ ھر دن کا کام اسی دن ختم کر دیا کرو کیونکہ ھر دن اپنے ھی کام کے لئے مخصوص ھوتا ھے اور اپنے اوقات کا بھتر و افضل حصہ اللہ کی عبادت کے لئے خاص کردینا اگرچہ وہ تمام کام بھی اللہ کے لئے ھیں جب نیت بخیر ھو اور ان کاموں سے رعیت کی خوشحالی ھو ان مخصوص کاموں میں سے جن کے ساتھ تم خلوص کے ساتھ اللہ کے لئے اپنے دینی فریضہ کو ادا کرتے رھو ان واجبات کی انجام دھی ھونا چاھیے جو اس کی ذات سے مخصوص ھیں ۔تم شب و روز کے اوقات میں اپنی اپنی جسمانی طاقتوں کا کچھ حصہ اللہ کے سپرد کردو اور جو عبادت بھی تقرب الھی کی غرض سے بجالانا وہ ایسی ھو کہ اس میں کوئی خلل اور نقص نہ ھو۔ اس میں تمھیں کتنی ھی جسمانی زحمت اٹھانا پڑے ۔ اور دیکھو!جب لوگوں کو نماز پڑھانا تو ایسا نہ ھو کہ (طول دیکر)لوگوں کو بیزار کر دو اور نہ اتنی مختصر ھو کہ نماز ھی نہ رھے کیونکہ نمازیوں میں بیمار بھی ھوتے ھیں اور بعض وہ ھوتے ھیں جنھیں کوئی ضرورت درپیش ھوتی ھے۔ مجھے جب رسول خدا(ص)نے یمن کی طرف روانہ کیا تو میں نے آپ سے دریافت کیا کہ انھیں کس طرح نماز پڑھاؤں؟ آپ نے فرمایا ”جیسی ان کے سب سے زیادہ کمزور و ناتواں کی نماز ھو سکتی ھے اور تمھیں مومنوں کے حال پر مھربان ھونا چاہئیے “۔[8] آپ کا خط عثمان بن حنےف کے نام
اس بحث کا اختتام حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے اس خط پر کرتے ھیں جو آپ نے والی بصرہ عثمان بن حنیف کو اسوقت تحریر فرمایا۔ جب اسے وہاں کے بعض افراد نے کھانے کی دعوت دی اور وہ ان کھانے میں شریک ھوئے، حضرت نے ارشاد فرمایا :
اے ابن حنیف!مجھے یہ اطلاع ملی ھے کہ بصرہ کے جوانوں میں ایک شخص نے تمھیں کھانے پر بلایا ھے اور تم لپک کر اس کے پاس پھنچ گئے ۔اور وہاں رنگا رنگ کے عمدہ عمدہ کھانے تمہارے لئے چن چن کر لائے جارھے تھے اور بڑے بڑے پیالے تمہاری طرف بڑھائے جارھے تھے ۔مجھے امید نہ تھی کہ تم ان لوگوں کی دعوت قبول کر لو گے جن کے ہاں سے فقیر و نادار تو دھتکارے گئے ھوں اور دولت مند مدعو کئے گے ھوں، تمھیں معلوم ھونا چاھیے کہ ھر مقتدی کا ایک پیشوا ھوتا ھے جس کی وہ پیروی کرتا ھے اور جس کے نور علم سے کسب ضیاء کرتا ھے۔ دیکھو! تمہارے اس امام کی حالت تو یہ ھے کہ اس نے دنیا کے سا زو سامان میں دو پھٹی پرانی چادروں اور کھانوں میں سے دو روٹیوں پر قناعت کر لی ھے ۔میں مانتا ھوں کہ یہ تمہارے بس کی بات نھیں ھے ۔ لیکن اتنا تو کروکہ پرھیز گاری،سعی وکوشش،پاکدامنی اور سلامت روی میں میرا ساتھ دو۔ خدا وند متعال کی قسم میں نے تمہاری دنیا سے سونا سمیٹ کر نھیں رکھا اور نہ اس کے مال و متاع میں سے انبار جمع کر رکھے ھیں اور نہ ان پرانے کپڑوں کے بدلہ میں (جو پھنے ھوئے ھوں)اور کوئی نیا کپڑا میں نے مھیا کیا ھے اور نہ ایک بالشت زمین خریدی ھے۔ اس آسمان کے سائے تلے لے دے کر ایک فدک ھی ھمارے ہاتھوں میں تھا اس پر بھی کچھ لوگوں کے منہ سے رال ٹپکی اور دوسرے فریق نے اس کے جانے کی پروا نہ کی اور بھترین فیصلہ کرنے والی اللہ تعالی کی ذات ھے۔ بھلا میں فدک یا فدک کے علاوہ کسی اور چیز کو لے کر کیا کروں گا جبکہ کل نفس کی منزل قبر قرار پانے والی ھے کہ جس کی تاریکیوں میں اس کے نشان مٹ جائیں گے اور اس کی خبریں نا پید ھوجائیں گی ۔ وہ تو ایک ایسا گڑھا ھے کہ اگر اس کا پھیلاؤ بڑھا بھی دیا جائے اور چنانچہ ہاتھ اسے کشادہ بھی کردیں جب بھی پتھر اور کنکر اس کو تنگ کریں گے اور مسلسل مٹی کے ڈالے جانے سے اس کی دراڑیں بند ھوجائیں گی ۔میری توجہ تو صرف اس طرف ھے کہ میں تقوی الٰھی کے ذریعہ اپنے نفس کو بے قابونہ ھونے دوںتاکہ جس دن خوف حد سے بڑھ جائے وہ مطمئن رھے اور پھسلنے کی جگھوں پر مضبوطی سے جما رھے ۔ اگر میں چاھتا تو بھترین شھد ،عمدہ گیھوںاور ریشم کے بنے ھوئے کپڑوں کے ذرائع مھیا کر سکتا تھا لیکن ایسا کہاں ھو سکتا ھے کہ خواھشیں مجھے مغلوب بنا لیں اور حرص مجھے اچھے اچھے کھانوں کی طرف دعوت دے جبکہ شاید حجاز اور یمامہ میں ایسے لوگ بھی ھوں جنھیں ایک روٹی ملنے کی بھی آس نہ ھو اور انھیں پیٹ بھر کر کھانا کبھی نصیب نہ ھوا ھو ۔کیا میں شکم سیر ھو کر پڑا رھو؟جبکہ میرے اردگرد بھوکے پیٹ اور پیاسے جگر تڑپتے ھوں یا میں ویسا ھو جاؤں جیسا کھنے والے نے کھاھے۔ ”کہ تمہاری بیماری یہ کیا کم ھے کہ تم پیٹ بھر کر لمبی تان لو اور تمہارے گرد کچھ ایسے جگر ھوں جو سوکھے چمڑے کو ترس رھے ھوں“ کیا میں اسی میں مگن رھوں کہ مجھے امیرالمومنین کھاجاتا ھے۔ مگر میں زمانہ کی سختیوں میں مومنوں کا شریک و ھمدم ،اور ان کی زندگی کی تلخیوں میں ان کے لئے نمونہ عمل نہ بنوں میں اس لئے تو پیدا نھیں ھوا ھوں کہ اچھے اچھے کھانوں کی فکر میں لگا رھوںاس بندھے ھوئے جانور کی طرح جسے صرف اپنے چارے کی فکر لگی رھتی ھے۔ یا اس کھلے ھوئے جانور کی طرح کہ جس کا کام منہ مارنا ھوتا ھے۔ وہ گھاس سے پیٹ بھر لیتا ھے اور جو مقصد اس کے پیش نظرھوتا ھے اس سے وہ غافل رھتا ھے۔ کیا میں بے قید و بند چھوڑدیا گیا ھوں یا بیکار کھلے بندوں کی طرح رھاکر دیا گیا ھوں کہ گمراھی کی رسیوں کو کھینچتا رھوں اور بھٹکنے کے مقامات میں سرگردان رھوں ۔[9] ----------------------------------------------------------------------- [1] مناقب اھلبیت ماردتہ العامہ الشرو انی ص۲۱۷۔ [2] سید محسن الامین کی اعیان الشیعہ ج۱ ص۳۴۸۔ [3] شرح نھج البلاغہ ج۱۷ ص۱۹۔۲۰۔ [4] الامام علی منتھی الکمال البشری ص۱۶۷۔ [5] شرح نھج البلاغہ ج۱۵۔ص۱۳۸۔ [6] ما روتہ العامہ فی مناقب اھلبیت علیھم لسلام شیروانی ص ۲۱۶۔ [7] شرح نھج البلاغہ ج۱۵ص۱۵۸۔ [8] شرح نھج البلاغہ ج۱۷ص۳۲۔۸۹۔ [9] شرح نھج البلاغہ ج۱۶ص۲۰۵۔۲۸۷۔ |