آٹھویں فصل
 
وفات پیغمبر(ص) کے بعد انحراف کے قطعی شواھد
نص کے مقابلے میں اجتھاد
نص سے مراد نص الٰھی یا نص نبوی ھے، اس کے مقابلے میں جب اجتہاد آجائے تو قطعی طور پر اس اجتہاد کی کوئی اھمےت نھیںھوتی اور وہ نص کے مقابلے میں ساقط ھو جاتا ھے نص کے مقابلے اجتہاد صرف اپنی خواھشات کے لئے ھوتاھے خواہ وہ کسی لباس میں ھی کیوں نہ ھو۔
اس سلسلے میں حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نصوص کثرت سے موجود ھیں کہ میرے بعد امام اور خلیفہ کون ھو گایہ نصو ص دعوت ذو العشیرہ سے لے کر حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی کے آخری لمحات تک موجود ھیں یہاں ھم اجمالی طور بعض کامختصر تذکرہ کرتے ھیں ۔

دعوت ذ والعشیرہ
جب حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حکم دیا گیا کہ اپنے قریبی رشتہ داروں کو (اللہ کے عذاب سے )ڈراؤ تو حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے قریبی رشتہ داروں کو دعوت دی اور ان سے فرمایا :
اِني قد جئتکم بخیر الدنیا والآخرة وقد اٴمرني اللہ عزوجل اٴن اٴدعوکم اِلیہ فایکم یؤمن بي ویؤازرني علیٰ ھذا الاٴمرعلی اٴن یکون اٴخي و وصیي و خلیفتي فیکم۔
میں تمہارے پاس دنیا اور آخرت کی بھلائی لے کر آیا ھوں۔ مجھے اللہ تعالی نے حکم دیا ھے کہ تمھیں اس کی طرف دعوت دوں تم میں سے جو بھی مجھ پر ایمان لائے گا اور اس اھم معاملے میں میری مدد کرے گا وھی میرا بھائی ،وصی اور خلیفہ ھو گا۔ پوری قوم خاموش اور ساکت رھی لیکن حضرت ابن ابی طالب علی علیہ السلام کھڑے ھوئے اور عرض کی یا رسول اللہ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو کچھ اللہ تعالیٰ نے آپ پر نازل کیا میں اس معاملے میں آپ (ع)کی مدد کروں گا۔
آپ نے دو مرتبہ اسی طرح کھالیکن حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ (ع) کو بٹھا دیا تےسری مرتبہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
اِن ھذا اٴخي ،ووصیي وخلیفتي فیکم فاسمعوا لہ و اٴطیعوا ۔
یہ تم لوگوں میں میرا بھائی‘ وصی اور خلیفہ ھے اس کی بات سنو اور اطاعت کرو۔ [1]

حد یث منزلت
اصحاب سیرت و حدیث نے یہ روایت نقل کی ھے کہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب جنگ تبوک کی طرف جانے لگے تو لوگ بھی آپ (ص)کے ساتھ چل دئے۔
اس وقت حضرت علی علیہ السلام نے عرض کی یا رسول اللہ (ص)کیا میں بھی آپ(ص) کے ساتھ چلوں۔ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرمایا نھیں۔ حضرت علی علیہ السلام نے گریہ کرنا شروع کیا توحضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
اٴماترضیٰ اٴن تکونَ مني بمنزلة ھارون من موسیٰ اِلاّ اٴنہ لا نبي بعدي اِنّہ لا ینبغي اٴن اٴذھب اِلاّ و انتَ خلیفتي ۔
کیا آپ (ع)اس بات پر راضی نھیں ھیں کہ آپ کی قدرو منزلت میرے نزدیک وھی ھے جو ہارون کی موسیٰ کے نزدیک تھی لیکن میرے بعد کوئی نبی نھیں آئے گا۔ میں فقط یھی چاھتا ھوں کہ آپ (ع)میرے خلیفہ ھوں۔
اِلاّ اٴنہ لا نبّي بعدي ۔
( مگر یہ کہ میرے بعد کو ئی نبی نھیں ھو گا)یہاں جو استثنا ء پایا جاتا ھے اس سے معلوم ھوتا ھے کہ حضرت ہارون علیہ السلام کے جتنے مناقب تھے نبوت کے علاوہ وہ سب حضرت علی علیہ السلام کی ذات اقدس میں موجود ھیں ۔ [2]

حد یث غد یر
یہ حدیث متواتر احادےث میں سے ھے اسے صحابہ کرام ،تابعےن اور ھر شیعہ سنی نے نقل کیا ھے، ھم یہاں پر ابن حجر سے بیان شدہ روایت کو سپرد قرطاس کر رھے ھیں ابن حجر نے اعتراف کیا ھے کہ اس روایت کی سند صحیح ھے۔ ابن حجر کھتے ھیں کہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم غدیر کے مقام پر شجرات کے نےچے خطبہ دیا اور ارشاد فرمایا :
اٴیھّا الناس اِنہّ قد نّباٴ ني اللطیف الخبیر اٴنہ لم یعمّر نبي الانصفُ عمر الذي یلیہ من قبلہ واٴنيّ لاٴظن اٴني یو شک اٴن اٴدعی فاجیب و اِنی مسوٴول و اٴنکم مسوٴولون فماذا اٴنتم قائلون؟ قالو ا نَشھدُاٴنّک بلغت و جھدت و نصحت فجزاک اللہ خیراً: فقال اٴ لیس تشھدون اٴن لا الہ الا اللّہ و اٴنَّ محمداً عبدہ ورسولہ واٴن جنتہ حق واٴنَّ نارہ حق وان الموت حق واٴن البعث حق بعدالموت ، واٴنّ الساعة آتیة لا ریب فیھا واٴن اللّہ یبعثُ مَن في القبور ؟قالوا بلی نشھد بذلک قالٰ اللھم اشھد ثم قال(( یا اٴیھاالناس اِن اللہ مولاٴي واٴنا مولیٰ المؤمنین واٴنا اٴولیٰ بھم من اٴنفسھم فمن کنت مولاہ فھذا ےعني علیا۔مولاہ اللھم وال من والاہ وعا د من عاداہ ))۔
اے لوگو! مجھے لطیف الخبےر نے خبر دی ھے کہ ھر نبی اپنے پھلے نبی کی نسبت آدھی عمر پاتا ھے لہٰذا میں بھی یہ گمان نھیں کرتا کہ مزید تم لوگوں کے درمیان رھوں، مجھے بارگاہ خداوندی میں بلایا گیا ھے قریب ھے کہ میں اس دعوت کو قبول کروں، وہ وقت آپھنچا ھے کہ میں اس دار فانی کو الودع کھوں اگر میں پکاروں تو مجھے جواب دو۔میں مسئول ھو ں اور تم لوگ بھی اس کے مسئول ھیں اس بارے میں آپ کیا کھتے ھو؟ یہ سن کر وہ لوگ کھنے لگے:
ھم گواھی دیتے ھیں کہ آپ(ص) نے تبلیغ کی ،جہاد کیا ،نصےحت کی ،اللہ کی ذات ھی آپ(ص) کو بھترین جزا دینے والی ھے پھر آنحضرت(ص)نے فرمایا کیا تم یہ گواھی نھیں دیتے کہ اللہ کے علاوہ کو ئی معبود نھیںھے اور محمد اللہ(ص) کے عبد اوراس کے رسول ھیں۔
بے شک اس کی جنت ،جھنم ،موت ، موت کے بعد قبروں سے نکالنا یہ سب حق ھے اور بے شک قیامت اس کی ایسی نشانیوں میں سے ھے جس میں کسی کو کوئی شک وشبہ کی گنجا ئش نھیں ھے اور جو کچھ قبروں میں ھے اللہ ھی اس کو نکالنے والا ھے۔
وہ کھنے لگے ۔جی ہاں۔
ھم ان تمام چیزوں کی گواھی دیتے ھیں: آپ(ص) نے فرمایا اے پروردگار تو بھی اس پر گواہ رہ۔ پھر آپ (ص)نے فرمایا: اے لوگو ! ا للہ میرا مولا ھے اور میں مومنین کا مولا ھوں اور میں ان کی جانوں پر ان کی نسبت اولیٰ ھوں ۔پس جس کا میں مولا ھوں اس کا یہ علی (ع) مولا ھے پروردگار اس سے محبت رکھ جو اس سے محبت رکھے اس سے دشمنی رکھ جو اس سے دشمنی رکھے ۔ [3]
اس میں کسی کو شک و شبہ کی گنجائش نھیں ھے کہ جو شخص حدیث غدیر کے مضمون اور اس میں موجود حالیہ اور مقالیہ قرائن کو مد نظر رکھے تو اسے معلوم ھو جائے گا کہ اس حدیث کا مقصد حضرت علی علیہ السلام کو امامت اور خلافت پر نصب کرنا ھے۔ اسی مطلب کو اس بابرکت محفل میں موجود مہاجرین و انصار نے بھی سمجھا ھے۔ جیسا کے اس کو پھنچانے والے نے سمجھا ھے اور ایک مدت کے بعد امت میں بھی یہ بات ظاھر ھو ئی ھے اوراس وقت سے لے کر آج تک اس کی اتباع مشھور ادباء اور شعراء نے بھی کی ھے ۔ےعنی شعراء وغیرہ نے بھی ابتداء ھی سے اس سے مراد حضرت علی علیہ السلام کا خلافت پر نصب کرنا سمجھا تھا ۔[4]
اس موقع پر حسان بن ثابت حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں عرض کرتے ھیں: یارسول اللہ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا مجھے اجاز ت ھے کہ میں حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی شان میں چند اشعار کھوں۔
چنا نچہ انھوںنے یہ شعارکھے:

ینادیھم یوم الغدیر نبیھُّم
بخم واٴسمعِ بالرسولِ منادیا

فقال فمن مولاکمُ وولیکم
فقالو ا و لم یبدوا ھناک التعامیا

الھٰک مولانا و اٴنت ولینا
و لم تلق منا في الولایة عاصیا

فقال لہ قم یا علي فاِنني
رضیتُک من بعدي اِماماً و ھادیا

فمن کنتُ مولاہُ فھذا ولیّہ
فکونوا لہ اٴتباع صدق موالیا

ھنا کَ دعا اللھم والِ ولیّہ
وکن للذي عا دیٰ علیا مُعادیا

ان کے نبی(ص) غدیر کے دن خم کے مقام پر انھیں پکار رھے تھے اور پکارتے ھوئے نبی (ص)کتنے اچھے معلوم ھو رھے تھے انھوں نے کھاکہ تمہارا مولا اور نبی(ص) کون ھے؟ وہ سب لو گ کھنے لگے اور ان میں سے کسی نے مخالفت اور دشمنی کا اظہار نہ کیا آپ(ص) کا معبود ھمارا مولا ھے اور آپ(ص) ھمارے نبی(ص) ھیں اور آپ (ص)ولایت کے سلسلے میں ھم سے کسی کو نافرمان نھیں پائےں گے۔ آپ (ص)نے فرمایا اٹھو اے علی کیونکہ میں نے آپ(ع) کو اپنے بعد کے لئے امام اور ہادی منتخب کیا ھے۔ پس جس کا میں مولا ھوں اس کا یہ ولی اور مولا ھے ۔لہٰذا اس کے سچے پیروکار اور موالی بن جاؤ اور پھر دعا کی خدا یا اس کے دوست کوتو دوست رکھ اور حضرت علی علیہ السلام سے دشمنی کرنے والے کو دشمن رکھ۔[5]
حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس فرمان کو تنہا(اسی مفھوم کے ساتھ) حسان بن ثابت نے ھی نھیں سمجھا تھا‘ بلکہ اس مطلب کو عمرو بن عاص نے بھی سمجھا تھا ۔حا لانکہ کہ یہ اےسا شخص ھے جس کی حضرت علی علیہ ا لسلام کے ساتھ دشمنی ڈھکی چھپی نہ تھی جب معاویہ کو اس مسئلہ میں شک ھو ا تو حضرت علی علیہ السلام کی جلالت و بزرگی کو بیان کرتے ھوئے کھتا ھے :

وکم قد سمعنا من المصطفیٰ
وصایا مخصصّة في علي

و فی یوم خمّ رقیٰ منبرا
و بلغّ والصحب لم تر حل

فاٴمنحہ اِمرةالمؤمنین
من اللہ مستخلف المنحل

فی کفّہ کفّہ معلنا
ینادي باٴ مر العزیز العلي

قال فمن کنت مولیٰ لہ
عليٌّ لہ الیوم نعم الولي

ھم نے اکثر حضرت محمد (ص)سے حضرت علی (ع) سے متعلق مخصوص وصیتیں سنیں ھیں، حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خم والے دن منبر پرگئے اور خطبہ دیا۔ کسی صحابی اور صحابیہ نے ان کے مطالب کے خلاف گفتگو نہ کی ان (علی (ع)) کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر خدائے بزرگ و برتر کے حکم سے یہ اعلان کیا اور فرمایا جس جس کا میں مولا ھوں آج سے حضرت علی علیہ السلام اس کے بھترین ولی ھیں ۔[6]
اس طرح حدیث غدیر کے اس معنی کو سب بزرگوں نے واضح انداز میں تسلیم کیا شاعر ذائع صےت کمےت بن زید الاسدی کھتا ھے :

و یوم الدوح دوح غدیر خم
اٴبان لہ الخلافة لواٴُ طیعا

یوم روح ‘روح غدیر خم ھے ۔ اگر وہ اطاعت کر لیتے توان کے لئے خلافت کا مسئلہ واضح ھو چکا ھوتا۔ [7]
غدیر خم میں موجود جلیل القدر صحابی حضرت قیس بن سعد بن عبادہ کھتے ھیں:

و عليٌ اِما مُنا و اِمامٌ
لسوانا اٴتی بہ التنز یل

یوم قال النبي من کنت مولا ہ
فھذا مولاہ خطبٌ جلیل

قرآن مجےد نے ھمیں بتا یا ھے کہ حضرت علی علیہ السلام ھمارے اور ھمارے علاوہ دوسرے لوگوں کے امام ھیں۔ اس دن جب حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جلیل القدر خطبہ میں ارشاد فرمایا: جس جس کا میں مولا ھوں اس اس کا یہ مولا ھے [8]
ھم نے اس حدیث کی مزید وضاحت اور اس کی سند و دلالت اور حجت پر بحث اس لئے نھیں کی کیونکہ احادےث اور سیرت کی کتب نے اس حدیث کو بیان کیا ھے لیکن ھم نے مسلمان بھائیوں کے سامنے اس کی اصل صورت اور حقےقت پیش کر دی تاکہ صاحبا ن عقل کے سامنے حق و حقیقت واضح ھو جائے۔

۴۔حدیث ثقلین
حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ والہ وسلم ارشاد فرماتے ھیں:
اِني اوشک اٴن اُدعیٰ فاجیب،واِنی تارک فیکم الثقلین کتاب اللہ عزوجل وعترتي،کتاب اللہ حبل ممدود من السماء اِلی الارض وعترتي اَھل بیتي۔
واِنّ اللطیف الخبیر اٴخبرني اٴنّھما لن یفترقا حتیٰ یردا عليّ الحوض فانظروا کےف تخلّفوني فیھما۔
مجھے بارگا ہ خدا وندی میں بلایا گیا ھے اور قریب ھے کہ میں اس دعوت پر لبےک کھوں۔ وہ وقت آن پھنچا ھے کہ میں دار فانی کو الودع کھوں۔ میں تم میں دو گراں قدر چیزےں :اللہ کی
کتاب اوراھل بیت چھوڑ کر جا رھاھوںاللہ کی کتاب اور میری اھل بیت زمےن و آسمان کے درمیان اللہ کی دراز رسی ھے۔
اور مجھے لطیف الخبےر نے خبر دی کہ یہ حو ض کوثر پر میرے پاس آنے تک ھر گز ایک دوسرے سے جدا نھیں ھو نگے اور دیکھومیرے بعد ان دونوں کے ساتھ کیسا سلوک کرو۔ [9]

۵۔حد یث سفینہ
حاکم اپنی سند کے ساتھ حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ سے روایت بیان کرتے ھیں کہ حضرت ابو ذر غفاری کعبہ کے درواز ہ کو پکڑ کر کھتے ھیں جو شخص مجھے جانتا ھے سو وہ جانتا ھے جو نھیں جانتا تو وہ سن لے: میں ابو ذر ھوں اور میں نے حضرت رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ھوئے سنا ھے:
اٴلا اِنّ مثل اٴھل بیتي فیکم مثل سفینة نو ح فی قومہ مَن رکبھا نجا و من تخلف عنھا غرق ۔
آگا ہ ھو جاؤ تم لوگوں میں میرے اھل بیت (علیہ السلام) کی مثال حضرت نوح( علیہ السلام )کی قوم میں ان کی کشتی جیسی ھے جو اس پر سوار ھو جائے گا وہ نجا ت پا جائے گا اور جو اس کی مخا لفت کرے گا، وہ ڈوب کر ھلاک ھو جائے گا ۔ [10]
ائمہ معصومین (علیھم السلام )کی کشتی کی مثال حضرت نوح( علیہ السلام) کی کشتی سے دینے سے مراد یہ ھے کہ جس شخص نے دین اسلام کے احکام میں ان کی طرف رجوع کیا اور اس نے دین کے اصول‘ فروع اور آئمہ معصو مےن (علیھم السلام) سے تعلق جوڑا، وہ شخص عذاب جھنم سے نجات حاصل کر لے گا اور جس نے ان کے احکام کی مخا لفت کی تو وہ ڈوب جائے گا۔ جیسے نوح کی قوم نے کھاتھا کہ جب طوفان آئے گا تو لوگ بھاگ کر پہاڑ پر چڑھ جائیں گے۔ اور خدا کے اس عذاب سے بچ جائیں گے لیکن یہ سب لوگ اس پانی میں غرق ھو گئے
اور یھی ان کی تباھی کا مقام ھے۔ [11]

۶۔حدیث امان
حاکم، ابن عباس سے روایت کرتے ھیں کہ ابن عباس نے کھاکہ حضرت رسول اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
النجومَ اٴمانٌ لاٴھلِ الارضِ من الغرق و اٴھلِ بیتیِ اٴمان لاٴمتي من اِلاختلاف فا ذا خالفتھا قبیلةمن العرب اختلفوا فصاروا حزب اٴبلیس۔
اندھےرے میں ستارے اھل زمےن کے لئے امان ھیں اور میرے اھل بیت امت کے اختلاف کے وقت ان کے لئے امان ھیں، اور جو قبیلہ عرب ان کی مخالفت کرےگا ، وہ حزب ابلیس سے ھو گا ۔[12]
قارئین کرام! ھم نے یہ چند ایک قطعی نصوص اور روایات نقل کی ھیں جو کہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان مبارک سے بیان ھوئی ھیں اور جس طرح آپ نے دےکھا ان کو کتب اھلسنت نے بھی بیان کیا ھے۔ اب اس خاندان عصمت کے حق میں نازل شدہ چند آیات کا تذکرہ کرتے ھیں جنھیں حق تعالی نے ان کی شان میں نازل کیا :

۱۔آیت ولایت
< إِ نَّمَا وَلِیُّکُمْ اللهُ وَرَسُولُہُ وَالَّذِینَ آمَنُوا الَّذِینَ یُقِیمُونَ الصَّلاَةَ وَیُؤْتُونَ الزَّکَاةَ وَہُمْ رَاکِعُونَ >
اللہ ، اس کا رسول اور وہ لوگ جو ایمان لے آئے اور نماز پڑھتے ھیں اور رکوع کی حالت میں زکوة ادا کرتے ھیں فقط وھی تمھارے ولی ھیں۔[13]
تمام مفسرےن کا اجماع ھے کہ یہ آیت مبارکہ حضرت علی علیہ السلام کی شان میں نازل ھوئی ھے ۔

۲۔آیت تطھیر
< إِ نَّمَا یُرِیدُ اللهُ لِیُذْہِبَ عَنْکُمْ الرِّجْسَ اٴَہْلَ الْبَیْتِ وَیُطَہِّرَکُمْ تَطْہِیر > [14]
اللہ صرف یہ ارادہ رکھتا ھے کہ اے اھل بیت تم کو ھر قسم کی گندگی سے دور رکھے اور اےسا پاک و پاکیزہ رکھے جیسا پاک و پاکیزہ رکھنے کا حق ھے۔
اس آیت کے متعلق مفسرےن کا اجماع ھے کہ یہ آیت حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ،حضرت امام علی علیہ السلام ،حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا، حضرت امام حسن علیہ السلام اورحضرت امام حسین علیہ السلام کی شان میں نازل ھوئی ھے۔

۳۔آیت مباھلہ
< فَمَنْ حَاجَّکَ فِیہِ مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَ کَ مِنْ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ اٴَبْنَاءَ نَا وَاٴَبْنَاءَ کُمْ وَنِسَاءَ نَا وَنِسَاءَ کُمْ وَاٴَنْفُسَنَا وَاٴَنْفُسَکُمْ ثُمَّ نَبْتَہِلْ فَنَجْعَلْ لَعْنَةَ اللهِ عَلَی الْکَاذِبِ ینَ۔> [15]
اس کے متعلق واضح علم آجانے کے بعد جو شخص تم سے جھگڑا کرے تو تم کہہ دو کہ ھم اپنے بیٹوں کو بلاتے ھیں تم اپنے بےٹوں کو بلاؤ ھم اپنی خواتےن کو بلاتے ھیں تم اپنی خواتےن کو بلاؤ ھم اپنے نفسوں کو بلاتے ھیں اور تم اپنے نفسوں کو بلاؤ پھر ھم مباھلہ کرےں اور جھوٹوں پر اللہ کی لعنت کرےں۔
تمام مفسرےن کا اجماع ھے کہ پو ری دنیا سے حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ کوئی بھی مباھلہ کے لئے نھیں نکلا تھا مگر بےٹوں کی جگہ حضرت امام حسن علیہ السلام اور حضرت امام حسین علیہ السلام تھے اور نساء کی نمائندگی حضرت جنا ب فاطمة الزھرا سلام اللہ علیھانے کی اور نفس رسول فقط حضرت علی علیہ السلام تھے آپ لوگ اس آیت میں غور و فکر و تاٴمل کرےں ۔

۴۔آیت اکمال د ین اور اتمام نعمت
< الْیَوْمَ اٴَکْمَلْتُ لَکُمْ دِینَکُمْ وَاٴ َتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِی وَرَضِیتُ لَکُمْ الْإِسْلاَمَ دِینًا> [16]
آج میں نے تمہارے دین کو کامل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے اس دین اسلام کو پسند کیا۔
حضرت رسول اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس موقع پر ارشاد فرمایا :اللہ اٴکبرعلیٰ اکمال اِلدین و اتمام النعمہ و رضا الربْ برسالتي و الولا یةَ لعلي من بعدي۔
اللہ اکبر آج دین کامل ھوگیا اور نعمتےں پوری ھو گئیں اللہ رب العزت میری رسالت اور میرے بھائی علی (ع) کی ولاےت پر راضی ھے۔
یہ سننے کے بعد لوگ جو ق درجوق حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی خدمت میں جا کر تھنیت و مبارک باد عرض کرنے لگے صحابہ کرام میں سب سے پھلے مبارکباد دینے والے شیخین بھی تھے ۔ےعنی حضرت عمر اور حضرت ابو بکر اور ان کامبارک باد دینے کا انداز یہ تھا :
بخٍ بخٍ لکَ یا بنِ اٴبي طالب اٴصبحت مولاي و مولیٰ کل موٴمن و موٴمنة ۔
مبارک ھو مبارک ھو اے ابو طالب (ع)کے فرزند آپ(ع) ھی میرے اور تمام مومنین اور مومنات کے مولا ھیں ۔[17]

۵۔آیت مود ت
<ِ قُلْ لاَاٴَسْاٴَلُکُمْ عَلَیْہِ اٴَجْرًا إِلاَّ الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبَ ی ۔> [18]
اے رسول(ص) کہہ دیجے کہ میں تم لوگوں سے محبت اھل بیت کے علاوہ کو ئی اجر رسالت نھیں مانگتا۔
زمخشری اپنی کتاب کشاف میں کھتے ھیں کہ جب یہ آیت نازل ھوئی تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا گیا ؟ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ(ص) کے وہ قریبی رشتہ دار کون ھیں جن کی محبت و مودت کو ھم پر واجب قرار دیا گیا ھے۔ حضرت نے ارشاد فرمایا:
وہ علی ،(ع)فاطمہ(ع) اور ان کے دو بیٹے ھیں۔
<ِقُلْ لاَاٴَسْاٴَلُکُمْ عَلَیْہِ اٴَجْرًا إِلاَّ الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبَی۔>
اے رسول کہہ دیں تم سے اھلےبیت کی محبت کے علاوہ کسی چیز کے متعلق سوال نھیں کیا جائے گا
زمخشری نے اپنی کتاب کشاف میںاس آیت کی تفسیر کرتے ھوئے بیان کیا ھے ان کے علاوہ بھی قرآن کریم کی متعدد آیات اور احادیث حضرت علی علیہ السلام کی شان میں موجود ھیں مثلاً۔اٴقضاکُم علي
تم میں سب سے بڑے قاضی حضرت علی (ع)ھیں ۔
اٴنا مدینة العلم وعلی بابُھا۔
میں علم کا شھر ھوں اور علی (ع) اس کا دروازہ ھیں ۔
علی اٴعلم اُمتیِ بالسُّنّہ ۔
علی (ع)میری امت میں سنت کو سب سے زیادہ جانتے ھیں ۔
علي مع الحقِ والحقُ مع علی ۔
علی (ع)حق کے ساتھ ھیں اور حق علی (ع)کے ساتھ ھے ۔
علي ولیُّکم بعدی۔
میرے بعد فقط علی (ع)ھی تمہاراولی ھے ۔وغیرہ وغیرہ
جب آپ لوگ ان قطعی نصوص کو جان چکے ھیں تو پھر حق کو چھوڑ کر گمراھی کی راہ اختیار کرنا اور حق کے مقابلے میں خواھشات نفس کی پیروی کرنا قرین قیاس نھیں ھے ۔ آپ کو خلیفہ اول کے ان کلمات کے متعلق خوب غور فکر کرنا چاھیے جسے وہ اپنی بیعت کے دوسرے دن اس طرح بیان کر رھے ھیںاورعذر خواھی کے بعد کھتے ھیں: میری بیعت ایک قلادہ ھے ۔اللہ اس کے شر اور فتنہ سے بچائے ۔[19]
وہ ایک اور مقام پر کھتے ھیں: اے لوگو! میں تم پر بادشاہ بنایا گیا ھوں حالانکہ میں تم سے بھتر نھیں ھوں (بھرحال)اگر میں اچھا کام کروں تو میری مدد کرنا اور اگر غلط کام کروں تو مجھے راہ راست پر لانا کیونکہ مجھ پر ھر وقت ایک شیطان سوار رھتا ھے جو مجھے راہ راست سے دور رکھتا ھے۔[20]
اب سوچنے کی بات یہ ھے کہ حضرت ابوبکر نے تو اپنی شرعی ذمہ داری کاپاس اور لحاظ کیا اور انھوں نے اپنے بعد حضرت عمر کو خلیفہ نامزد کردیا۔ اسی طرح حضرت عمر نے بھی اپنی شرعی ذمہ داری کا خیال رکھا کہ اسے بھی خلیفہ بنانا چاھیے اور اس نے ایک شوری تشکیل دی۔ یہاں تک کہ معاویہ کی بھی یھی رائے تھی کہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کو خلیفہ کے بغیر نہ چھوڑا جائے اور اس نے اپنے بیٹے یزید کوخلیفہ نامزد کردیا۔
توکیا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنا خلیفہ بنانے کا کوئی خیال نہ تھا ؟کہ وہ بھی اپنی امت کے لئے اس قسم کا اھتمام کرتے ؟
کیا ان کی اتنی بھی ذمہ داری نہ تھی کہ وہ اپنے بعد اپنا خلیفہ نامزد فرماتے؟ یا اللہ تعالی کو بھی اس امت مرحومہ کے متعلق معاویہ یا معاویہ سے پھلے لوگو ں برابر بھی خیال نہ تھا ؟!!!
۲۔حضرت علی اور حضرت فاطمہ علیھاالسلام کے دروازے پر ھجوم
حضرت علی علیہ السلام اورحضرت فاطمہ سلام اللہ علیھاکے دروازے پر ھجوم کرنا اسکی حرمت کا خیال نہ رکھنا ،دروازے پر لکڑیاں جمع کرنا اور گھر کو جلانے کی دھمکیاں دینا کیا ھے؟ جبکہ جناب فاطمہ سلام اللہ علیھاکا گھر انبیاء علیھم السلام کے گھروں سے بھی افضل تھا۔ سیوطی در منثور میں سورہ نور کے ذیل میں اللہ تعالی کے اس فرمان کی تفسیر بیان کرتے ھوئے کھتے ھیں :
< فِی بُیُوتٍ اٴَذِنَ اللهُ اٴَنْ تُرْفَعَ وَیُذْکَرَ فِیہَا اسْمُہُ> [21]
یہ ایسے گھروں میں سے ھے جس کے بارے میں خدا نے حکم دیا ھے کہ ان کی تعظیم کی جائے اس کا نام ان میں لیا جائے ۔
ابن مردویہ اور بریدہ نے روایت بیان کی ھے کہ حضرت رسول اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب اس آیت مبارکہ کی تلاوت فرمائی تو ایک شخص نمودار ھوا اور اس نے دریافت کیا:
یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہ کون سے گھر ھیں۔
حضرت نے فرمایا:
وہ انبیاء علیھم السلام کے گھر ھیں ۔
حضرت ابوبکر کھڑے ھوئے اور انھوں نے دریافت کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ گھر جس میں حضرت علی اور حضرت فاطمہ علیھاالسلام رھتے ھیں کیا یہ بھی انھیں گھروں میں سے ھے؟ حضرت نے جواب میں فرمایا: جی ہاں، بلکہ یہ تو انبیاء کے گھروں سے بھی افضل ھے۔[22]
یہ وہ گھر تھا جہاں روح الامین تشریف لاتے تھے اور ملائکہ کی آمد و رفت ھوتی تھی اور اس گھر کو اللہ تعالی نے رجس سے اسطرح پاک رکھا جس طرح پاک رکھنے کا حق ھے یہ وہ گھر جس میں حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی اجازت کے بغیر داخل نہ ھوتے تھے ۔جب اس گھر کی بے حرمتی کی گئی اور یہ بھی نہ دیکھا گیا کہ اس گھر میں کون لوگ موجود ھیں؟ اور یہ حضرت رسول اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کی وجہ سے کس قدر غمگین ھیں؟
اس گھر کے اردگرد لکڑیاں جمع کی گئیں اور اس کو جلا دینے کی دھمکیاں دیں گئیں اور اھلبیت علیھم السلام کے ساتھ زیادتی کی گئی وہ اھلبیت جن کی مودت کے واجب ھونے کا اعلان آیت مودت کرتی ھے اور آیت تطھیر جن کی طہارت اور پاکیزگی کا قصیدہ پڑھتی ھے۔
ابن قتیبہ کھتے ھیں کہ خلافت پر قبضہ جمانے والوں نے چند مرتبہ حضرت علی علیہ السلام کی طرف پیغام بھیجا لیکن آپ نے ان کا جواب دینے سے انکار کر دیا۔
ابن قتیبہ مزیدکھتے ھیں کہ یہ سن کر حضرت عمر کھڑے ھوئے ان کے ساتھ ایک گروہ تھا وہ لوگ جناب فاطمہ زھراء سلام اللہ علیھاکے دروازے پر آئے انھوں نے دق الباب کیا جب جناب سیدہ سلام اللہ علیھا نے ان کی بلند آوازیں سنیں ۔
تب بی بی فاطمہ زھراء سلام اللہ علےھا بلند آواز سے پکار کر کھتیں ھیں۔ اے میرے بابا، اے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ کے بعد ابن خطاب اور ابن ابی قحافہ میرے دروازے پر کس طرح حملہ آور ھورھے ھیں ۔
جب لوگوں نے جناب سیدہ کے رونے کی آواز سنی تو ان میں سے بعض روتے ھوئے دروازے سے ہٹ گئے ،قریب تھا کہ ان کا دل اس دردناک آواز کو سن کر پھٹ جائے لیکن عمر اور ایک گروہ وہاں موجود رھاانھوں نے حضرت علی علیہ السلام کو گھر سے نکالا اور ابوبکر کے پاس لے آئے اور ان سے کھنے لگے کہ ابوبکر کی بیعت کرو۔
حضرت نے فرمایا اگر میں اس کی بیعت نہ کروں تو پھر؟
وہ کھنے لگے: خدا کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نھیں ھم آپ(ع) کی گردن اتار لیں گے ۔[23]
ایک اور روایت میں ابن قتیبہ بیان کرتے ھیں کہ حضرت ابوبکر نے ان لوگوں کو گرفتار کرنے کا حکم دیا جنھوں نے اس کی بیعت کرنے سے انکار کیا تھا اور یہ لوگ حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے پاس موجود تھے۔ حضرت ابوبکر نے حضرت عمر کو ان کی طرف بھیجا حضرت عمر گئے اور اس نے ان سے بیعت کرنے کا مطالبہ کیا وہ لوگ حضرت علی علیہ السلام کے گھر موجود
تھے انھوں نے گھر سے باھر نکلنے سے انکار کر دیا تو حضرت عمر نے لکڑیاں لانے کے لئے کھااور کھنے لگا :
والذي نفس عمر بیدہ لتخرُجن اٴولاٴحرقنھا علیٰ مَن فیھا فقیل لہ یا اٴبا حفص اِنّ فیھا فاطمہ فقال واِن ۔
اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں عمر کی جان ھے اگر یہ لوگ باھر نہ نکلے تو میں اس گھر کو گھر والوںسمیت جلا کر راکھ کر دوں گا۔
کسی نے اس سے کھا: اے ابو حفص جا نتے ھو کہ اس گھر میں تو جناب فاطمہ سلام اللہ علیھا موجود ھیں ، وہ کھنے لگا تو ھوتی رھیں ۔جناب فاطمہ سلام اللہ علیھا فرماتی ھیں تم میں سے جو بھی بری نیت لے کر میرے دروازے پر آیا ھے میرا اس کے ساتھ کوئی تعلق نھیں ھے۔[24]
حق کی جستجو کرنے والے قاری محترم آپ نے ملاحظہ کیا کہ کس کس طرح لوگوں نے رفتار گفتار اور عمل کے میدان میں حضرت رسول اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عمل اور ان کی رفتار گفتار سے انحراف کیا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی آل پاک کے ساتھ کیسا سلوک کرنے کو کھااور ان لوگوں نے ان کے ساتھ کیا کیا؟

فدک کا غصب کرنا
فدک جناب فاطمہ زھراء سلام اللہ علیھا کا حق تھا۔ لیکن ان لوگوں نے بی بی (ع)کے اس حق کو غصب کرلیا۔بی بی (ع)نے یہ دعوی کیا تھا کہ یہ میری میراث ھے۔ لیکن اس دعوی کو انھوں نے رد کردیا اور جناب امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام اور جناب ام ایمن کی گواھیوں کو جھٹلادیا ۔
علامہ امام شرف الدین کھتے ھیں کہ فدک کے متعلق حاکم کا اتنا علم ھی کافی تھا کہ یہ مدعی(فاطمہ) تقدیس کی معراج پر فائز ھے اور تقدس میں وہ جناب مریم(ع) بنت بن عمران (ع)کی ھم پلہ ھے بلکہ ان سے بھی افضل ھے ۔جناب زھرا(ع)ء جناب مریم (ع)جناب خدیجہ(ع) جناب آسیہ (ع)اھل جنت کی عورتوں سے افضل ھیں ۔جس طرح اللہ تعالی نے اپنی واجب نمازوں میں اپنے بندوں پر شہادتین پڑھنا واجب قرار دیا ھے اسی طرح ان پر درود سلام بھیجنا بھی واجب قرار دیا ھے اور یہ بی بی(ع) ان ھستیوں میں سے ھے جن پر نماز میں درود بھیجنا واجب قرار دیا گیا ھے ۔[25]
شیخ ابن عربی کھتے ھیں جیسا کہ ابن حجر کی کتاب صواعق المحرقہ وغیرہ میں بھی موجود ھے ۔
رایتُ ولائي آل طہ فریضةً
علیٰ رغم اٴھل البعد یُورثني القُربیٰ
فما طلب الرحمن اٴجراً علیٰ الھدیٰ
بتبلیغہِ اِلاّ المودةَ في القربیٰ
میں سمجھتا ھوں کہ آل طہ کی ولایت واجب ھے ۔قرابت دار ھی وراثت کے حق دار ھوتے ھیں۔ اگرچہ بعض لوگوںنے ان کے اس حق کو نظر انداز کیا ھے۔ خداوند عالم نے صرف محبت اھلبیت ھی کو اجر رسالت و تبلیغ ھدایت کے عوض قرار دیا ھے۔
حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام حضرت ابوبکر سے کھتے ھیں:
اے ابوبکر کیا تم نے اللہ کی کتاب کو پڑھا ھے ۔
وہ کھنے لگے جی ہاں۔
آپ (ع)نے فرمایا مجھے یہ بتاؤ کہ اللہ تعالی کا یہ فرمان کس کی شان میں نازل ھواھے :
< إِنَّمَا یُرِیدُ اللهُ لِیُذْہِبَ عَنْکُمْ الرِّجْسَ اٴَہْلَ الْبَیْتِ وَیُطَہِّرَکُمْ تَطْہِیرًا>۔ [26]
اے اھلبیت اللہ فقط یہ چاھتا ھے کہ آپ اھلبیت (ع) سے ھر قسم کی گندگی اور رجس کو دور رکھے اور ایسا پاک رکھے جیسا پاک رکھنے کا حق ھے ۔
یہ آیت ھماری شان میں نازل ھوئی ھے یا ھمارے علاوہ کسی اور کی شان میں نازل ھوئی ھے؟
وہ کھنے لگا کہ یقینا آپ(ع) کی شان میں نازل ھوئی ھے۔
حضرت نے فرمایا اچھا یہ بتاؤ اگر چند لوگ گواھی دیں کہ جناب سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیھا نے فلاں غلط کام کیا ھے تو تم کیا کروگے ؟
وہ کھنے لگے میں ان پر اس طرح حد جاری کروں گا جس طرح میں تمام مسلمان عورتوں پر حد جاری کرتا ھوں ۔حضرت نے فرمایا تو پھر اس وقت تو اللہ کے نزدیک کافروں کے ساتھ محسوب ھوگا۔
وہ کھنے لگا کیوں ؟
حضرت نے فرمایا چونکہ اللہ نے اس کی طہارت کی گواھی دی ھے اور تو نے اس کی گواھی کو جھٹلادیا ھے اور اس کے عوض لوگوں کی گواھی کو قبول کیا ھے تم نے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بات کو جھٹلا دیا ھے اور ایک اعرابی کی گواھی کو قبول کیا ھے کیونکہ اللہ اور اس کے رسول نے فدک جناب سیدہ کو عطافرمایا ھے اور تم نے جناب سیدہ سے اس کو چھین لیا ھے اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
البیّنة علیٰ المدعي والیمین علیٰ المدّعٰی علیہ ۔
گواہ اور بینہ پیش کرنا مدعی کی ذمہ داری ھے اور مدعی علیہ پر قسم ھے ۔[27]
استاد محمود ابو ریہّ مصری المعاصر کھتے ھیں کہ اس مقام پر ضروری ھے کہ ھم اس بات کی وضاحت کریں کہ جناب فاطمہ صلوات اللہ علیھا کے ساتھ آپ(ع) کے والد محترم کی میراث کے حوالے سے حضرت ابوبکر نے جو رویہّ اختیار کیا ھے ھمیں کھل کر اس کی وضاحت کرنی چاھےے۔ اس سلسلے میں وہ کھتے ھیں کہ اولاً تو ھم اس حدیث کو مانتے نھیں جو انھوں نے گھڑی ھے۔ اورثانیا ً اگر ھم اس کو تسلیم بھی کر لیں تو یہ خبر واحد ظنی ھے اور خبر واحد ظنی، کتاب قطعی(قرآن) کے لئے کس طرح مخصص بن سکتی ھے ؟
ثالثاً اگر یہ سچ ھے اور حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ فرمایا تھا کہ ھم وراثت نھیں چھوڑا کرتے( جبکہ اس خبر کے عموم کی تخصیص بھی نھیں ھے) تو اس وقت حضرت ابوبکر کے لئے بھترین موقع تھا کہ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا کے والد محترم حضرت رسول اکرم(ص) کی چھوڑی ھوئی تمام میراث پر قبضہ جما لیتے۔
فقط خاص طور پر فدک پر ھی قبضہ کیوں کیا اور اس کو مخصص بنا کر اس حدیث کی تخصیص کیوں کی ھے؟ جبکہ فدک جناب سیدہ سلام اللہ علیھا کا وہ حق تھا جس میں کسی کو کسی قسم کا اشکال نھیں ھے۔
اس کی تخصیص تو فقط زبیر بن عوام اور محمد بن مسلمہ وغیرہ نے کی ھے کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی متروکات میں سے فدک ھی وہ ھے جس سے ابوبکر نے جناب فاطمہ سلام اللہ علیھا کو روک دیا تھا، اگر فدک واقعا کسی کی میراث نھیں بن سکتا تھا تو خلیفہ عثمان کبھی بھی مروان کو اس کے کچھ حصے کا مالک نہ بناتا ۔[28]
ابن ابی حدید نے بعض بزرگوں سے ایک روایت نقل کی ھے جس کا مضمون یہ ھے کہ ان دونوں خلفاء نے حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دختر کے ساتھ ان کی وفات کے بعد جو رویہّ اپنایا، ھمیں اس پر سخت تعجب ھوتا ھے!!
آخر میں کھتے ھیں :
وقد کان الاٴجلّ اٴن یمنعھما التکرُّم عما ارتکباہ من بنت رسول اللہ فضلاً عن الدین۔
اور اس سے بڑھ کر کہ انھوں نے بنت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اکرام تک نہ کیا چہ جائیکہ وہ بی بی(ع) کا حق ادا کرتے۔
اس کے ذیل میں ابن حدید کھتے ھیں کہ اس بات کا کوئی شخص بھی جواب نھیں دے سکتاھے ۔[29]
صاحب فدک فی التاریخ میں ایک مطلب کو بیان کرتے ھیں کہ اگر خلیفہ کا موقف درست تھا اور یہ بھی مان لیتے ھیں کہ حضرت رسول اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ ارشاد بھی فرمایا تھا ھم انبیاء وراثت نھیں چھوڑا کرتے اور جو کچھ ھم چھوڑ جاتے ھیں وہ صدقہ ھوتا ھے تو پھر حضرت عمر نے خلیفہ کے فرمان کو کیوں مھمل قراردیا اور پس پشت ڈال کر فدک کو جناب عباس اور جناب علی (ع) کے سپرد کردیا؟
فدک کو ان دونوں کے سپرد کرنے کی وجہ یہ تھی کہ یہ فدک حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی میراث تھی اور یہ کام انھوں نے اپنی خلافت کے دوران انجام دیا تھا۔[30]
قارئین کرام !آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ کس طرح یہ لوگ الٹے پاؤں پھر گئے اللہ تعالی اور اس کی شریعت نے اھل بیت علیھم السلام سے متعلق مودت کا حکم دیا تھا اور وہ ان سے کس طرح روگردان ھو گئے ۔
حضرت رسول اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کئی مرتبہ ارشاد فرمایا :
المرء یحفظ فی ولدہ ۔
کسی شخص کی عزت و اکرام اس کی اولاد کی عزت و حفاظت کے ساتھ ھوتی ھے۔
جیسا کہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حدیث ثقلین میں ارشاد فرمایا ھے (جس کا تذکرہ پھلے ھو چکا ھے )
فانظروا کیف تخلفونني فیھما۔
میں دیکھ رھاھوں کہ تم ان دونوں گراں قدر چیزوں میں کس طرح میری مخالفت کررھے ھو۔

۴۔نظریاتی اور اعتقادی بنیاد کو کھوکھلا کرنا
یہ لوگ نظریاتی اور اعتقادی بنیادوں کو مھمل قرار دے کر فقط فتوحات کی طرف متوجہ ھو گئے اور محرمات خدا میں ظلم و تعدی کرنے لگے جیسا کہ جلیل القدر صحابی رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مالک بن نویرہ اور ان جیسے دوسرے افراد کو قتل کرنا ان کے ظلم کا واضح ثبوت ھے۔
اس جلیل القدر صحابی کو خالد بن ولید نے بڑی بے دردی کے ساتھ قتل کیا جب کہ وہ جانتا تھا کہ وہ مسلمان ھیں نمازیں پڑھتے ھیں شہادتین پر ایمان رکھتے ھیں۔
یعقوبی اپنی تاریخ میں لکھتے ھیں کہ مالک بن نویرہ کو خالد بن ولےد کے پاس لایا گیا اس کے پیچھے پیچھے اس کی بیوی بھی آگئی جب خالد نے اسے دیکھا تو اس پر فریفتہ ھوگیا۔
خالد کھنے لگا خدا کی قسم میں تجھے قتل کردوں گا اور تلوار کے ذریعہ اس نے مالک بن نوےرہ کی گردن اڑادی اور اس کی بیوی کے ساتھ شادی کرلی۔بلکہ اس سے زنا کیا۔
ابو قتادہ نے حضرت ابوبکر کو اس کی اطلاع دی اس نے فقط اس کی قیدی بیوی کو خالد کے چنگل سے آزاد کروادیا، جبکہ مالک بن نوےرہ مسلمان تھا اور اسلام کی حالت میں قتل ھوا تھا ،اس کے متعلق حضرت ابوبکرنے خالد کو کچھ بھی نہ کہا۔[31]

خمس میں ذوی القربی کا حصہ ختم کرنا
حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد خمس سے قریبی رشتہ داروں کا حصہ ختم کردیا گیا جبکہ قرآن مجید میں خمس میں ذوی القربی کے حصے کے متعلق نص موجود ھے ۔
ارشاد رب العزت ھوتا ھے :
< وَاعْلَمُوْا اٴَ نَّمَا غَنِمْتُمْ مِنْ شَیءٍ فَاِنَّ لِلّٰہِ خُمُسَہُ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِیْ الْقُرْبیٰ وَالْیَتَامیٰ وَالْمَسٰاکِیْنِ َوابْنِ السَّبِیْلِ اِنْ کُنْتُمْ آمَنْتُمْ بِاللّٰہِ وَمَا اٴَ نْزَلْنَا عَلیٰ عِبْدِنَا یَوْمَ الْفُرْقَانِ یَوْمَ اِلْتَقیٰ الْجَمْعَانِ وَاللّٰہُ عَلیٰ کُلِّ شَیءٍ قَدِیْرٌ۔> [32]
اور یہ جان لو جب کسی طرح کی غنیمت تمہارے ہاتھ آئے تو اس کا پانچواں حصہ اللہ اور رسول کا ھے (اور رسول کے )قرابت داروں،یتیموں، مسکینوں،اور مسافروں کا حق ھے اگر تم اللہ پر ایمان لائے ھو اور اس پر جو ھم نے اپنے بندے پر فیصلہ کے دن نازل کی تھی جس دن دوگروہ آمنے سامنے آگئے اور اللہ تعالی ھر چیز پر قدرت رکھنے والا ھے ۔
چنا نچہ تمام مسلمانوں کااجماع ھے کہ خمس میں سے ایک حصہ حضرت رسول اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ مخصوص تھا اور ایک علیحدہ حصہ آپ(ص) کے قریبی رشتہ داروں کے ساتھ مخصوص تھا اس میں کسی قسم کی تبدیلی نہ ھوئی حتی کہ اللہ تعالی نے آپ(ص) کو اپنی بارگاہ میں بلالیا۔
لیکن آپ(ص) کی وفات کے بعد خلافت پر مسلط ھونے والے اصحاب رسول نے خمس میں سے بنی ھاشم کا حصہ ختم کردیا اور انھیں دوسرے لوگوں کے برابر سمجھنے لگے اور انھیں دوسری یتیم عورتوں ،مسکینوں اور مسافروں کی صفوں میں شامل کردیا ۔ [33]
یہ آیت مبارکہ منسوخ بھی نھیں ھوئی ھے اور جیسا کہ پھلے گزر چکا ھے کہ۔
حلال محمد حلال الی یوم القیامةوحرامہ حرام الی یوم القیامة ۔
حلال محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قیامت تک کے لئے حلال اور حرام محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قیامت تک کے لئے حرام ھے۔ جب اس طرح ھے تو پھر خمس میں سے ذوی القربی کا حصہ کیوں ساقط کیا گیا !!!؟

۶۔متعہ الحج کا ختم کرنا
ارشاد رب العزت ھے:
< فَمَنْ تَمَتَّعَ بِالْعُمْرَةِ إِلَی الْحَجِّ فَمَا اسْتَیْسَرَ مِنْ الْہَدْیِ فَمَنْ لَمْ یَجِدْ فَصِیَامُ ثَلاَثَةِ اٴَیَّامٍ فِی الْحَجِّ وَسَبْعَةٍ إِذَا رَجَعْتُمْ تِلْکَ عَشَرَةٌ کَامِلَةٌ ذَلِکَ لِمَنْ لَمْ یَکُنْ اٴَہْلُہُ حَاضِرِی الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ۔> [34]
جو شخص حج تمتع کا عمرہ کرے تو اسے جو قربانی میسر آئے وہ کرنا ھوگی اور جس کے لئے قربانی کرنا ناممکن ھو تو اسے تین روزے حج کے زمانہ میں اور سات روزے جب وہ حج سے واپس آئے (رکھنے ھوں گے)اس طرح یہ دس دن پورے ھو جائیں گے یہ حکم اس شخص کے لئے ھے جو مسجد الحرام (مکہ) کے باشندہ نہ ھوں ۔
عمرہ تمتع کی حج کے ساتھ صفت بیان کرنے کا مطلب یہ ھے کہ حج کے مھینوں میں کسی ایک میقات سے احرام باندھنا ھوتا ھے پھر مکہ میں خانہ کعبہ کے طواف کے لئے داخل ھونا ھوتا ھے‘ اور نماز ادا کر نی پڑتی ھے ‘ اس کے بعد صفا اور مروہ کے درمیان سعی کرنی ھوتی ھے اور پھر بال کٹواتے ھیں اس وقت احرام باندھنے کی وجہ سے جو کچھ حرام تھا وہ سب حلال ھو جائے گا۔ پھر اسی حالت پر باقی رھے اور اسی سال حج کے لئے ایک اور احرام باندھ کر عرفات کی طرف نکل جائے وہاں سے مشعر الحرام میں اعمال کے اختتام تک ٹھھرے۔ یھی عمرہ تمتع الی الحج ھے۔
اللہ تعالی نے جو ارشاد فرمایا ھے :
فَمَنْ تَمَتَّعَ بِالْعُمْرَةِ إِلَی الْحَج ۔
اس سے مراد یہ ھے کہ جو اس میں متعہ اور لذت پائی جاتی ھے احرام کے محرمات وغیرہ (دونوں احراموں کی مدت کے درمیان) مباح ھوگئے ھیں۔ اب محرم اور غیر محرم میں کسی قسم کا فرق نھیں ھے۔ یہاں تک کہ اپنی بیویوں کو لمس بھی کر سکتا ھے۔ یھی قرآن کی شریعت ھے لیکن حکومت پر مسلط اور قابض بعض اصحاب نے اس کی مخالفت کی ۔احمد بن حنبل ابو موسی سے روایت بیان کرتے ھیں کہ ابوموسی نے متعہ کا فتوی دیا ایک شخص کھنے لگا تیرے بعض فتوے عجیب ھیں کیا تم نھیں جانتے امیر نے اس کے متعلق کیا کچھ نھیں کھاھے۔ ابو موسی کھتا ھے کہ میں حضرت عمر کے پاس گیا اور اس سے پوچھا تو حضرت عمر کھنے لگے جیسا کہ تو جانتا ھے کہ حضرت نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کے اصحاب نے متعہ کیا لیکن میں اسے ناپسند کرتا ھوں ۔[35]
ابی نضرہ حضرت جابر رضی اللہ سے روایت بیان کرتے ھیں کہ جابر نے کھاابن زبیر تو متعہ سے روکتا ھے لیکن ابن عباس متعہ کرنے کے لئے کھتے ھیں، راوی کھتا ھے کہ ھمارے سامنے یہ سیرت موجود ھے کہ ھم حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت ابوبکر کے زمانے میں متعہ کرتے تھے۔
جب عمر خلیفہ بنے تو انھوں نے لوگوں کو خطبہ دیا اور اس میں انھوں نے کھابے شک رسول اللہ ھی رسول ھیں اور قرآن یھی قرآن ھے ان دونوں نے متعہ کی اجازت دی تھی اور حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں اسی پر عمل بھی ھوتا رھالیکن میں تمھیں ان دونوں سے منع کررھاھوں اور جو شخص متعہ کرے گا، میں اسے سزا دوں گا۔
ان دونوں میں ایک متعہ النساء ھے۔ میرے پاس کوئی ایسا شخص نہ لایا جائے جس نے معینہ مدت کے لئے کسی عورت سے نکاح کیا ھو میں اسے پتھروں میں چھپا دوں گا (یعنی سنگسار کردوں گا )اور دوسرا متعہ الحج ھے ۔ [36]
بالفاظ دیگر خلیفہ یہ کھنا چاھتے ھیں کہ خدا کا حکم ھے (کہ اس نے اسے جائز قرار دیا ھے) اور میرا یہ حکم ھے (کہ میں اسے ناجائز قرار دیتا ھوں )۔اس سے بڑھ کر (اللہ کے فرمان کی مخالفت کرنے میں)اور بڑا اعتراف کونسا ھوگا اوراس سے بڑی اور کیا جسارت ھو گی !!!۔

۷۔مولفہ قلوب کا حصہ ختم کرنا
اللہ رب العزت کا فرمان ھے:
<إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاکِینِ وَالْعَامِلِینَ عَلَیْہَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُہُمْ وَفِی الرِّقَابِ وَالْغَارِمِینَ وَفِی سَبِیلِ اللهِ وَاِبْنِ السَّبِیلِ فَرِیضَةً مِنْ اللهِ وَاللهُ عَلِیمٌ حَکِیمٌ > [37]
صدقات تو فقط محتاجوں ،مسکینوں اور صدقات وصول کرنے والوں اور ان لوگوں کا حق ھے جن کی قلبی تالیف منظور ھو نیز غلام آزاد کرنے اور قرض داروں کا قرض ادا کرنے کے لئے اور راہ خدا میں (مجاھدین کی تیاری)اور مسافروں کی امداد میں صرف کیا جائے اور یہ اللہ کی طرف سے مقرر ھو چکا ھے اور اللہ صاحب علم وحکمت ھے۔
آیت واضح طور پر یہ بتاتی ھے کہ صدقات مندرجہ بالا اصناف میں سے ھر اک صنف کا حصہ ھے۔ اور سیرت مستمرہ بھی یھی رھی ھے ۔لیکن جب حضرت ابوبکر خلیفہ بنے تو مؤلفة القلوب اس کے پاس آئے تا کہ اس سے اپنا حصہ وصول کریں۔ جس طرح یہ لوگ حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مؤلفة القلوب کے عنوان سے وصول کرنے کی عادت بنا چکے تھے۔ حضرت ابوبکر نے انھیں ان کا حصہ لکھ دیا وہ لوگ یہ خط حضرت عمر کے پاس لےکر گئے تا کہ اس سے اپنا حصہ وصول کریں ۔
حضرت عمر نے حضرت ابوبکر کے خط کو پھاڑ دیا اور ان لوگوں سے کہا: ھمیں تمہاری کوئی ضرورت نھیں ھے اللہ نے ھی اسلام کو عزت دی ھے اور وہ تم لوگوں سے بے نیاز ھے اگر تم اسلام لے آؤ تو ٹھیک ھے وگرنہ ھمارے اور تمہارے درمیان تلوار فیصلہ کرے گی۔
وہ لوگ حضرت عمر کی اس جسارت کو دیکھ کر حضرت ابوبکر کے پاس گئے اور ساراقصہ بیان کرنے کے بعد کہا: کیا آپ خلیفہ ھیں یا وہ خلیفہ ھے۔
حضرت ابوبکر کھتے ھیں انشاء اللہ وھی خلیفہ ھیں جو کچھ حضرت عمر نے فیصلہ کیا تھا اسی کے مطابق عمل کیا اور انھیں کچھ بھی نہ دیا ۔[38]
اس آیت کریمہ پر امت اسلامیہ کا اجماع ھے کہ یہ آیت منسوخ نھیں ھوئی لہٰذا خلیفہ کے لئے یہ کس طرح جائز ھے کہ وہ کتاب وسنت کی مخالفت کرے اورقرآن وسنت کے مقابلہ میں صرف اپنی رائے پر عمل کرے!!!
جب جناب سیدہ فاطمہ الزھرہ سلام اللہ علیھا نے اپنے والد محترم حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی میراث کا مطالبہ کیا تو حضرت ابوبکر کھنے لگے کہ میں نے حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ھوئے سنا ھے کہ ھم انبیاء وراثت نھیں چھوڑا کرتے اور جو چیز ھم چھوڑ کر جاتے ھیں وہ صدقہ ھوتا ھے۔
اس کے بعد کھتے ھیں خدا کی قسم میں ھر اس کام کو ضرور انجام دوں گا جسے حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو انجام دیتے ھوئے دیکھا ھے۔ انشاء اللہ تعالی۔[39]
جب حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مؤلفة القلوب کو ان کا حصہ دیتے تھے تو حضرت ابوبکر نے ان کا حصہ کیوںختم کیا !!؟

۸۔اذان واقامت سے حی علی خیر العمل کا نکالنا
حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں،حی علی خیر العمل اذان واقامت کا جز تھا۔ لیکن انھوں نے اللہ تعالی کے اس حکم کو اذان واقامت سے نکال دیا۔
امام مالک اپنی کتاب موطہ ابن مالک میں بیان کرتے ھیں کہ مؤذن حضرت عمر ابن خطاب کے پاس آیا تا کہ اسے نماز صبح کی اطلاع دے لیکن اس نے حضرت عمر کو سویا ھوا پایا تواس نے یہ جملہ کھا:
الصلوٰةُ خیرٌ من النوم ۔
نماز نیند سے بھتر ھے۔
اس کے بعد حضرت عمر نے اس کو حکم دیا کہ صبح کی اذان میں اس جملے کا اضافہ کردیا جائے ۔ [40]
زرقانی موطا ابن مالک کی شرح بیان کرتے ھوئے حضرت عمر کی روایت بیان کرتے ھیں کہ حضرت عمر نے مؤذن سے کھانماز فجر کی اذان میں جب تم
(حی علی الفلاح )پر پھنچو تو تم( الصلوٰةُ خیرٌ من النوم ۔)کا اضافہ کردینا ۔ [41]

۹۔بیت المال کی تقسیم میں سیرت نبی(ص) سے انحراف
حضرت رسول اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہ سیرت تھی کہ عطیات کو فوراً تقسیم کردیتے تھے اور تمام مسلمانوں کے درمیان مال غنےمت برابر برابر تقسیم فرماتے تھے۔
خواہ کو ئی عرب ھو یا غیر عرب مہاجر ھو یا انصار سب کو برابر کا حصہ ملتا تھا۔لیکن(آپ (ص)کی وفات کے بعد)اموال کی تقسیم میںکافی فرق کر دیا گیا۔
خصوصاً حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کی خلافت کے دور میں تو اس تقسیم میں بھت زیادہ فرق ھونے لگا،مثلاً کسی کو۳ ہزارکسی کو۴ ہزار کسی کو۵ ہزاریہاں تک کہ کسی کو۱۲ہزارتک دیا جانے لگا جب کہ عوام الناس اور فقراء کو ۲ہزار (۲۰۰۰)ملتا تھا ۔
خلیفہ ثالث کے دور میں تو کوئی حساب کتاب ھی نہ تھا اس کا جتنا جی چاھتا اتنا مال دے دیتا۔ اس نے اپنے خاندان کے قریبی رشتہ داروں کو عوام الناس پر مسلط کردیا ،گورنری اور دیگر حکومتی عھدوں کو فقط اپنے خاندان میں ھی منحصر کردیا تھا۔ [42]
حضرت عثمان نے اپنے چچا حکم بن ابی عاص کو صدقات میں سے کثیر رقم قرابت داری کی وجہ سے عنایت کی حالانکہ حضرت رسول (اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)نے اسے مدینہ سے نکال دیا تھا (اسی وجہ سے اسے طرید النبی(نبی کا نکالا ھوا )کھاجاتا ھے)۔ [43]
بلازری اپنی کتاب انساب میں روایت بیان کرتے ھیںکہ اسے دیئے جانے والے صدقات کی مالیت تین لاکھ درھم تھی جب یہ واپس آگیا تو عثمان نے صدقات کی یہ رقم
اپنے چچا حکم کو ھدیہ کر دیا۔[44]
حضرت عثمان نے اپنے چچا زاد اور اپنی بیٹی ام ابان کے شوھر مروان بن حکم بن ابی عاص کو افریقہ سے حاصل ھونے والے غنائم کا خمس دے دیا جبکہ ان کی مالیت پانچ ملاکھ دینار تھی۔
اس وقت عبدالرحمن بن حنبل الجمعی الکندی شاعر نے خلیفہ کو مخاطب کر کے یہ اشعار کھے:
دعوتْ اللعینَ [45] فاٴدنےتہُ خلافا لسنةمن قد مضیٰ
واٴعطیتُ مروانَ خُمس الَعبا دظلما لھم وحمیتُ الحمیٰ
تونے اپنے لعےن چچا کو بلا کرمال و دولت سے نوازا جبکہ اس کو بلانا تم سے پھلے والے لوگوں کی سنت اور سیرت کے خلاف تھا اور تو نے رشتہ داری کی وجہ سے اسے خمس دے کر دوسرے لوگوں پر ظلم کیا۔ [46]
غنائم کی تقسیم کے حوالہ سے حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت اور سیرت یہ تھی کہ اللہ کے لئے پانچواں حصہ اور باقی چار حصے لشکر والوں کے لئے ھوتے اور اس سلسلہ میں کسی کو کسی دوسرے پر کوئی برتری حاصل نھیں تھی۔
اپنی طرف سے کسی کے حصے میں اضافہ نھیں کیا کرتے تھے اور اگر کوئی زیادہ کا مطالبہ کرتا تو اس سے کھتے تھے کہ تم اپنے مسلمان بھائی سے زیادہ حق دار نھیں ھو۔ جب حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے مال غنیمت لایا جاتا آپ اسے اسی دن تقسیم فرما دیتے اور اھل جنگ کو دوحصے اور باقی عربوں میں ایک حصہ بانٹا جاتا۔ [47]
مندرجہ بالا مطلب کی روشنی میں صحابہ کرام خلیفہ ثانی سے راضی نہ تھے کیونکہ مال کی تقسیم کے حوالہ سے یہ بعض لوگوں کو دوسروں پر ترجیح دیتے تھے جس کو کسی دوسرے پر کوئی فضیلت ھوتی اسے معتبر قرار دیتے جیسا کہ وہ حضرت نبی خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیگمات اور امہات مومنین کو دوسر ی عورتوں پرترجیح دیتے تھے اسی طرح بدری کو غیر بدری پر مہاجرین کو انصار پر اور مجاھدین کو گھر بیٹھنے والے پر وہ ترجیح دیتے تھے ۔[48]
غلط تقسیم اور مالی تفاوت کی وجہ سے طبعی تفاوت بھی پیدا ھوگیا تھا اور انھوں نے اسلام کے خلاف چلنے کا فیصلہ کرلیا تھااور خلیفہ ثالث کے زمانہ میں تو یہ لوگ خاص طور پر زمانہ جا ھلیت کی طرف پلٹ گئے اس وقت غالب اور مغلوب طبقات پیدا ھوگئے ۔ جب ساری حکومت بنی امیہ کے ہاتھوں میں چلی گئی تو ایسا معلوم ھوتا تھا کہ یہ بوستان فقط قریش کے لئے ھے اور ان کے علاوہ کسی کو اس میں داخل ھونے کاکوئی حق نھیں ھے۔ یہ انحراف قرآن کی روشنی میں شجر ملعونہ کی شکل میں ظاھر ھوا اس کے بعد لوگ غلام بن گئے اور قرآن مجید میں موجود شجرہ ملعونہ کا ثمرہ یزید بن معاویہ اور اس جیسے دوسرے لوگ تھے ۔
اگرحضرت علی علیہ السلام کو حضرت رسول اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات حسرت آیات کے بعد خلافت مل جاتی اور تا حیات آپ کے پاس رھتی اور آپ کی شہادت کے بعد یہ خلافت،امین، طاھر اور نیک لوگوں اور اپنے سچے وارثوں کی طرف منتقل ھوتی رھتی اور اس کے وارث صحیح معنی میں ائمہ ھدی علیھم السلام قرار پاتے تو دنیا کے سامنے اسلام درست تابناک اور روشن چھرے کے ساتھ ظاھر ھوتا۔
جبکہ حضرت علی علیہ السلام کی خلافت بھت کم مدت کے لئے تھی اور آپ کو خلافت اس زمانہ میں ملی جس میں طبعی تفاوت اپنی انتھاء کو پھنچ چکے تھے کمزور لوگ مغلوب بنا لئے گئے تھے ھلاکت میں ڈالنے والی جنگوں کی وجہ سے ھر طرف وحشت ھی وحشت تھی۔
ان سپاہ سالاروں اور ان کی فتوحات پر ترقیاں اور انعامات دئیے جارھے تھے جبکہ اسلام کے صحیح وارثوں اور حقےقی امین لوگوں کو پس پشت ڈال دیا گیا جبکہ ان کے علم وعدالت سے لوگوں کی مشکلات کو حل کیا جاسکتا تھا اور یہ ھستیاں لوگوں کو آزادزندگی بسر کرنے کے وسائل فراھم کرسکتیں تھیں۔[49]

۱۰۔حکم بن ابی العاص کو مدینہ واپس بلانا
خلےفہ ثالث کے چچاحکم بن ابی العاص کو مدینہ واپس بلایا گیا حالانکہ اس کو حضرت رسول اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مدینہ سے نکال دیا تھا اور اس پر لعنت کی تھی ۔
عجےب بات ھے کہ خلیفہ ثانی نے اللہ تعالی اور اس کے پاک رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعتہ الحج اور متعة النساء جیسے احکام پر لوگوں کو عمل کرنے سے منع کر دیا حا لانکہ وہ یہ بھی جانتے تھے کہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں ان پر عمل کیا جاتا تھا، یہ تو تھے حضرت ثانی جنھوں نے اللہ اور اس کے رسول(ص)کی اس طرح مخالفت کی۔
جہاں تک حضرت ثالث کا تعلق تھا حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان کو کسی اور انداز میں ٹھکراتے ھوئے اپنی خواھش پر عمل کرتے ھیں اور اسے مدینہ واپس لاتے ھیں جسے حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مدینہ سے نکال دیا تھا اور اس پر لعنت کی تھی۔
بلاذری اپنی کتاب انساب میں کھتے ھیں زمانہ جاھلیت میں حکم بن الی العاص حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پڑوسی تھا اور اسلام کا جانی دشمن تھافتح مکہ کے بعد مدینہ آیا اور اس نے مجبور ھو کر اسلام قبول کیاحضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب گفتگو فرماتے تو یہ ملعون آپ کی نقلیں اتارتا اور ناک منہ چڑھاتا تھا۔
جب حضرت نماز پڑھتے تو تو یہ پیچھے کھڑے ھو کر انگلیوں سے اشارے کرتا تھا حضرت رسول اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس کی بد تمیزی سے مطلع کیا گیا اس وقت حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی کسی بےگم کے حجرہ میں تشریف فرما تھے آپ باھر تشریف لا ئے ۔اور فرمایا یہ لعین قابل معافی نھیں ھے اسے اور اس کے بےٹے کو یہاں نہ رھنے دیا جائے۔ اصحاب نے ان دونوں کو طائف کی طرف نکال دیا اور حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد تو حضرت عثمان نے حضرت ابو بکر سے اس سلسلے میں بات کی اور اسے واپس بلانے کی درخواست کی حضرت ابو بکر نے یہ جملے کھتے ھوئے حکم ابن ابی العاص کو واپس لانے سے انکار کر دیا۔ اور کھامیں طرےد رسول اللہ کو واپس نھیں لا سکتا۔
اس کے بعد حضرت عمر خلیفہ بنے تو حضرت عثمان نے اسے واپس لانے کے لئے کھاتو حضرت عمر نے بھی حضرت ابو بکر والی بات دھرائی اور اسے واپس لانے سے انکار کر دیا لیکن جب حضرت عثمان خود خلیفہ بنے تو اسے واپس مدینہ لے آئے۔ میں نے بذات خود حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس کے متعلق بات کی تھی اور اسے واپس لانے کی درخواست کی تھی تو انھوں نے وعدہ کیا تھا کہ ان کو واپس بلا لیا جائے گا لیکن اس سے پھلے آپ کی روح مالک حقےقی کی طرف پرواز کر گئی اور مسلمانوں نے انھیںمدینہ واپس بلانے سے انکار کر دیا ۔ [50]
حاکم اپنی کتاب مستدرک میں لکھتے ھیں کہ حکم ابن ابی العاص نے حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں آنے کی اجازت طلب کی حضرت نے اس کی آواز کو پہچان لیا اور فرمایا: کیا اسے اجازت دی جائے جس پر اور جو اس کے صلب میں موجود ھیں (اس پر)(مومنین کے علاوہ) اللہ نے لعنت کی ھے وہ اوراسکی اولاد فرےبی اور مکار ھیں دنیا میں ان سب پر لعنت ھے اور آخرت میں بھی ان کاکوئی حصہ نھیں ھوگا۔[51]

حکم بن ابی العاص قرآن کی نظر میں
ابن ابی حاتم روایت بیان کرتے ھیں کہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ارشاد فرماتے ھیں کہ میں نے حکم بن ابی العاص کے بےٹے کو بندروں کی طرح دےکھا اللہ تعالی نے اس کے بارے میں فرمایا :
<ِ وَمَا جَعَلْنَا الرُّؤْیَا الَّتِی اٴَرَیْنَاکَ إِلاَّ فِتْنَةً لِلنَّاسِ وَالشَّجَرَةَ الْمَلْعُونَةَ فِی الْقُرْآنِ> [52]
جیسے آپ نے دےکھا ھے وہ ھم نے اس لئے دکھا یا ھے کہ وہ لوگوں کے درمیان فتنہ ھے اور قرآن میں وہ شجرہ ملعونہ ھے [53]
ابن ابی حاتم ،ابن مردویہ ، نسائی اور حاکم نے عبداللہ سے روایت صحیحہ بیان کی ھے کہ جب مروان خطبہ دے رھاتھا تو اس وقت میں مسجد میں موجو د تھا وہ کھنے لگا اللہ تعالی نے امیر المومنین ےعنی معاویہ کو ےزید کے متعلق ایک خوبصورت خواب دکھایا کہ وہ اپنے بعد اس (ملعون)کو خلیفہ بناجائے جس طرح ابو بکر نے حضرت عمر کو خلیفہ منتخب کیا۔
عبدالرحمن بن ابو بکر کھنے لگے:
اے چوڑی باچھوں والے یہ کیا بات ھے خدا کی قسم حضرت ابو بکر نے اپنی اولاد میں سے کسی کو خلیفہ منتخب نہ کیا اور اسی طرح اپنے خاندان میں بھی کسی کو خلیفہ نہ بنایا تھا ۔لہٰذا معاویہ کو بھی نھیں چاھےے تھا کہ وہ اپنے بےٹے کو خلافت کے لئے منتخب کرے جبکہ یہ سب کچھ اس نے اپنے بےٹے پرلطف و کرم کیا ھے۔
مروان نے کھاکیا اس طرح کھنے سے تو اپنے والدین کو برا بھلا نھیں کہہ رہا؟عبد الرحمن نے کہاکیا تو ابن لعین نھیں ھے کیا تیرے باپ پر حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لعنت نھیںکی تھی؟
جب حضرت عائشہ نے یہ سنا تو مروان سے کھنے لگیں مراون تو عبدالرحمن کے ساتھ اس طرح کی باتیں کرتاھے یہ(مندرجہ ذیل )آیت عبدالرحمن کے بارے میں نازل نھیں ھوئی بلکہ تیرے باپ کے بارے میں نازل ھوئی ھے اللہ نے فرمایا :
< وَلاَتُطِعْ کُلَّ حَلاَّفٍ مَہِینٍ ۔ ہَمَّازٍ مَشَّاءٍ بِنَمِیمٍ>[54]
اور کسی ایسے شخص کی بات تسلیم نہ کرنا جو بڑا قسمیں کھانے والا، ذلیل خیال، عےب جو اور چغلخور ھو ۔[55]
جناب ابو ذرحضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت نقل کرتے ھیں کہ ابی العاص کے بےٹوں نے تےس (۳۰)افراد کے ساتھ اللہ کے مال کو لوٹا اللہ کے بندوں کو غلام بنا کر ان کے ساتھ جانوروں جیسا سلوک کیا اور اللہ کا دین اختیار کر کے اس کو خراب کرنے کی کوشش کی۔
حلام بن جفال کھتا ھے کہ جب لوگوں نے ابوذر کی اس بات کو تسلیم نہ کیا توحضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام نے گواھی دی کہ میں نے حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ھے آپ نے فرمایا :
ما اظلت الخضراء ولا اقلت الخبراء علی ذی لھجہ اصدق من ابی ذر۔
نیل گوں آسمان کے سایہ میں اور زمےن کے اوپر کوئی اےسا شخص نھیں جو حضرت ابوذر سے زیادہ سچا ھو (ےعنی ابوذر سب سے زیادہ سچے ھیں )
پھر حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا میں یہ بھی گواھی دیتا ھوں کہ یہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ھے ۔
بھرحال آپ لوگ غور فرمائیں یہ حکم ابن ابی العاص کاواضح و روشن چھرہ ھے، اسے شھر سے نکالا گیا تھااور یہ خلےفہ ثالث کا چچا تھا۔
علامہ امینیۺ اپنی کتاب الغدیر میں ارشاد فرماتے ھیں:
ھمارے ذھن میں یہ سوالات ابھرتے ھیں کہ ھم خلیفہ سے پوچھیں کہ (جس لعین کو حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مدینہ سے نکال دیا تھا اس کے بارے میں آپ کو بھی تو معلوم تھا )اور قرآن مجےد کی آیت بھی اس کی مذمت میں نازل ھو ئی ھے اور اس طرح حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث کا بھی علم ھے کہ حضور نے اس پر اور اسکی پوری نسل پر لعنت کی ھے( مگر جو اس کے صلب سے مومن پیدا ھو اور وہ بھت ھی کم ھیں)
اے خلےفہ وہ کونسی وجہ تھی جو آپ کو اسے مدینہ واپس بلانے پر مجبور کر رھی تھی جب کہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے اور اس کے بےٹوں کو مدینہ سے نکال دیا تھا کیونکہ ان میں اموی پلیدگی اور گند گی پائی جاتی تھی اور اب خلیفہ سوم اسے دور کرنے کی کوشش کررھے ھیں۔ خلےفہ سوم اس سے پھلے حضرت ابو بکر اور پھر حضرت عمر سے بھی واپس بلانے کی درخواستےں کر چکے تھے اور انھوں نے یہ جواب دے کر اس کی درخواستوں کوردّ کردیا تھا کہ یہ ھمارے لئے حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عھد کو توڑنا جائز نھیں ھے۔
حلبی اپنی سیرت کی دوسری جلد کے ۸۵ ویں صفحہ پر لکھتے ھیں: جس کو حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مدینہ سے نکال دیا تھا اور اس پر حضور نے لعنت کی تھی اور وہ طائف کی طرف چلا گیا تھا اور وہاں حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت ابو بکر کے زمانے تک رھاحضرت عثمان نے حضرت ابو بکر سے اسے مدینہ واپس لانے کی درخواست کی تو حضرت ابو بکر نے واپس لانے سے انکار کر دیا۔
حضرت عثمان سے کھاتیرے چچا کو واپس لاؤ ں؟تیرا چچا تو جھنم میں ھے میرے لئے بھت ھی مشکل ھے کہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان کو بدل دوں( اےسا ممکن نھیں ) ۔جب حضرت ابو بکر وفات پا گئے اوراس کے بعد حضرت عمر خلیفہ بنے توحضرت عثمان نے وھی جملے حضرت عمر سے دھرائے۔
حضرت عمر نے جواب دیا: عثمان تجھ پر بھت افسوس ھے کہ تو اس شخص کے متعلق درخواست پیش کر رھاھے جس پر حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لعنت کی تھی اور اسے مدینہ سے نکال دیا تھا اور وہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دشمن ھے۔لیکن جب حضرت عثمان خود مسند خلافت پر بےٹھے تو اس لعین کو مدینے واپس لے آئے، یہ بات مہاجرین اور انصار کے دلوں پر بھت سخت نا گوار گزری اور بزرگ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے لئے بھی یہ بات بھت گراں تھی اور انھوں نے اس کی مخالفت کی اوریہ بات ان کے نزدیک عثمان کے خلاف قیام کرنے کا بھت بڑا سبب تھا ۔
علامہ امینیۺ قدس سرہ کھتے ھیں کیاخلیفہ وقت کے لئے رسول کو نمونہ نھیں مانتے تھے؟ جب کہ خدا وند عالم حضرت کے متعلق ارشاد فرماتا ھے ۔:
< لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِی رَسُولِ اللهِ اٴُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَنْ کَانَ یَرْجُو اللهَ وَالْیَوْمَ الْآخِرَ وَذَکَرَ اللهَ کَثِیرًا > [56]
مسلمانوں تمہارے لئے تو رسول اللہ کی زندگی ایک بھترین نمونہ ھے(لیکن یہ اس شخص کے لئے ھے )جو خدا اور روز آخرت کی امید رکھتا ھو اور کثرت سے خدا کی یاد کرتا ھو۔
یا یہ کہ خلیفہ سوم اپنی قوم اورساتھیوں کو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے زیادہ پسند کرتے تھے جب کہ قرآن حکیم بھی ان کے پاس موجود تھا اللہ تعالی ارشاد فرماتا ھے :
< قُلْ إِنْ کَانَ آبَاؤُکُمْ وَاٴَبْنَاؤُکُمْ وَإِخْوَانُکُمْ وَاٴَزْوَاجُکُمْ وَعَشِیرَتُکُمْ وَاٴَمْوَالٌ اقْتَرَفْتُمُوہَا وَتِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ کَسَادَہَا وَمَسَاکِنُ تَرْضَوْنَہَا اٴَحَبَّ إِلَیْکُمْ مِنْ اللهِ وَرَسُولِہِ وَجِہَادٍ فِی سَبِیلِہِ فَتَرَبَّصُوا حَتَّی یَاٴْتِیَ اللهُ بِاٴَمْرِہِ وَاللهُ لاَیَہْدِی الْقَوْمَ الْفَاسِقِینَ> [57]
اے رسول کہہ دو کہ تمہارے باپ دادا نے اور تمہارے بےٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری بیویاں اور تمہارے رشتہ دار نےز وہ مال جو تم نے کمایا اور وہ تجارت جس کے نقصان کا تمھیں اندےشہ ھے اور وہ مکانات جنھیں تم پسند کرتے ھو اگر (یہ سب چیزےں)تمھیں خدا اور اس کے رسول اور ان کی راہ میں جہاد کرنے سے زیادہ عزےز ھیں تو تم انتظار کرو یہاں تک کہ خدا کا حکم (عذاب)آجائے اور خدا نافرمان لوگوں کو ھدایت نھیں کرتا ۔ [58]

۱۱۔غلاموں پر بھروسہ
مملکت چلانے کے لئے غلام زادوںپر بھروسہ کیا گیااور حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعض مخلص اصحاب کو دشمنی کی وجہ سے نظر انداز کیا گیا ان غلام زادوں میں چند مندرجہ ذیل ھیں :

۱۔ معاویہ بن ابو سفیان
خلیفہ ثانی نے اسے شام کا گورنر بنایا اور اس نے شام میں ۲۲/سال تک حکومت کی۔[59]
خدا کی قسم ھماری سمجھ نھیں آتا کہ خلیفہ ثانی کی نظر میں اس کی کونسی سی فضیلت تھی جس کے پیش نظر اسے شام کی گونری کے لئے معین کیا گیاحا لانکہ یہ کافروں کے سردار اور بھت بڑے منافق ابو سفیان کا بیٹا تھا کیا دین اسلام میں اس کا کوئی کردار تھا؟ کیا جہاد میں اس کی کوئی فضیلت تھی؟ کیا اسلام کی تروےج کا اس نے کوئی بوجھ اٹھایا تھا؟
(ےقےنا نھیں)تو پھر سب سے پھلے اسلام لانے والوں جہاد میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والوں اور تقوی میں بلند مقام حاصل کرنے والے لوگوں کو کیوں نظر انداز کیا گیا؟!! ھمیں نھیں معلوم کہ اللہ کی بارگاہ میں اس کا کیا جواب دیں گے جب کہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ فرمان ان کی نظروں کے سامنے تھا :
من اِستعمل عاملاً من المسلمےن وھو ےعلم اٴنَّ فےھم اٴولیٰ بذلک منہ واٴعلم بکتاب اللہ و سنةِ نبیہ فقد خانَ اللہُ ورسولَہ وجمےع المسلمینَ۔
اگر کوئی شخص یہ جانتے ھوئے کسی بد کردار شخص کو حکومت کے کسی عھدے پر نصب کر ے جب کہ اس سے بھتر افراد مسلمانوں موجود ھوں جو اللہ کی کتاب اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو زیادہ جانتے ھوں تو اس نے اللہ ، اس کے رسول(ص) اور تمام مسلمانوں کے ساتھ خیانت کی ھے۔[60]
ابن ابی الحدید شرح نھج البلاغہ میں معاویہ کے بارے میں کھتے ھیں۔ ھمارے بزرگوں کی رائے کے مطابق معاویہ اپنے دین میں مطعون ھے اور علماء اس کو زندےق سمجھتے ھیں۔اس طرح وہ مزید کھتے ھیں ھمارے بزرگ اپنی علم کلام کی کتابوں میں بیان کرتے ھیں یہ ملحد تھا ، حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جھگڑتا تھا اس میں جبر اور ارجاء کا عقیدہ پایا جاتا تھا اس کا کوئی اور جرم نہ بھی ھوتا تو بھی اس کے مفسد ھونے کے لئے یہ کافی ھے کہ اس نے امام علیہ السلام سے جنگ کی تھی۔[61]

۲۔ولید بن عقبہ بن ابی معےط
یہ ماں کی طرف سے خلیفہ ثالث کا بھائی تھا اس کا باپ عقبہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سخت ترےن دشمن تھا اور حضور کو اذیت پھنچانے میں کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتا تھا ۔
حضرت عائشہ روایت بیان کرتی ھیں کہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میں ابو لھب اور عقبہ بن معےط جیسے گندے اور شرےر لوگوں کاھمسایہ تھا یہ دونوں کوڑاوغیرہ اٹھا کر میرے دروازے پر پھنک جایا کرتے تھے۔[62]
اس ملعون کے متعلق مشھورواقعہ ھے کہ اس نے حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ جسارت کی اور آپکے (مقدس اور پاک )چھرے پر لعاب دھن پھےنکا۔
اس ملعون کے بارے میں خدا وند عالم نے اس طرح ارشاد فرمایا :
< وَیَوْمَ یَعَضُّ الظَّالِمُ عَلَی یَدَیْہِ یَقُولُ یَالَیْتَنِی اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُولِ سَبِیلًا۔ یَاوَیْلَتِی لَیْتَنِی لَمْ اٴَتَّخِذْ فُلَانًا خَلِیلًا ۔ لَقَدْ اٴَضَلَّنِی عَنْ الذِّکْرِ بَعْدَ إِذْ جَاءَ نِی وَکَانَ الشَّیْطَانُ لِلْإِنسَانِ خَذُولاً > [63]
اور جس دن ظالم اپنے ہاتھوں کو اپنے دانتوں سے کاٹے گا اور کھے گا کہ کاش میں حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ھمرا ہ ھوتا ہائے افسوس میں نے فلاں کو اپنا دوست نہ بنایا ھوتا باتحقےق میں تو ذکر کے آجانے کے بعد گمراہ ھوگیا اور شےطان انسان کو بھت ذلیل و رسوا کرتا ھے[64]
یہ تو ولید کے باپ کے متعلق تھا اور جہاں تک خود ولید کا تعلق ھے تو یہ وحی مبین کی زبان میں فاسق زانی ،فاجراورشرابی و کبابی ھے اور اس نے دین کو تباہ و برباد کیا ھے اور بڑے بڑے اصحاب کو اس نے کوڑے مارے اس نے صبح کی نماز میں چار رکعتےں پڑھیں اور شراب کے نشے میں چور ھو کر یہ شعر کھنے لگا :
علق القلب الربابا بعد ما شابت و شابا
میں جب سے جوانی کا مالک بنا ھوں اس وقت سے میرا دل سرداری کے لئے مچل رھاھے پھر نشے میں کھنے لگا میںاس سے بھی زیادہ رکعتےں پڑھوں گا۔
یہ سن کر ابن مسعود نے جوتے سے اس کی پٹائی کی اور تمام نمازیوں نے ھر طرف سے اس پر پتھر بر سائے تویہ بھاگ کر اپنے گھر میں گھس گیا ۔[65]
قارئین کرام! ھم یہ کھتے ھیں کہ اس جیسے گمراہ شخص کی طرف ان کی نظریں کیوں لگی ھوئی تھیں جب کہ خدا وند متعال نے قرآن مجےد میں اس ملعون کا اس طرح تعارف کروایاھے ۔
<اِنْ جَا ءَ کُمْ فَاسِقٌ بِنَباٴٍ فَتَبینواْ ۔>
اگر تمہارے پاس فاسق کوئی خبر لائے تو اس میں اچھی طرح چھان بین کر لیا کرو۔
کیااس (ملعون)جیسا فاسق انسان کیو نکر اللہ کے حدود ،اس کے احکام، مسلمانوں کے اموال اور عزتوں کا نگھبان ھو سکتا ھے ؟!
اٴنّا للّٰہ و اِناّ اِلیہ راجعون۔

۳۔عبداللہ بن ابی سرح
یہ خلیفہ ثالث کا رضائی بھائی تھا اس کو مصر کا گورنر بنایا گیا اس نے فتح مکہ سے پھلے اسلام قبول کیا تھا اور مسلمانوں کے ساتھ ھجرت بھی کی تھی لیکن بعد میں مرتد اور مشرک ھو گیا تھا۔ اور قریش مکہ کے ساتھ جا ملا تھا،اور ان سے کھنے لگا : میں نے حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایسی کاری ضرب لگائی ھے جیسی میں چاھتا تھا۔ جب مکہ فتح ھو گیا تو حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کو قتل کرنے کا حکم صادر فرمایا کہ اس( ملعون)کا خون مباح ھے اگرچہ یہ خانہ کعبہ کے غلاف میں ھی کیوں نہ چھپا ھو۔
یہ حضرت عثمان کے پاس چلا گیا اور حضرت عثمان نے اس کو چھپا دیا یہاں تک کہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اھل مکہ سے اطمینان حاصل ھو گیا تو حضرت عثمان نے حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس کے لئے امان مانگی حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کافی دےر تک خاموش رھے۔ پھر فرمایا ہاں اسے امان ھے۔جب حضرت عثمان چلے گئے تو حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے ارد گرد بےٹھنے والے صحابیوں سے ارشاد فرمایا: میں اتنی دےر صرف اس لئے خاموش رھاتھا تاکہ تم میں سے کوئی شخص اس کی گردن اڑا دے۔[66]
قرآن مجےد نے سورہ انعام میں اس کے کفر کا اس طرح اعلان فرمایاگیا ھے:
< وَمَنْ اٴَظْلَمُ مِمَّنْ افْتَرَی عَلَی اللَّہِ کَذِبًا اٴَوْ قَالَ اٴُوحِیَ إِلَیَّ وَلَمْ یُوحَ إِلَیْہِ شَیْءٌ وَمَنْ قَالَ سَاٴُنزِلُ مِثْلَ مَا اٴَنزَلَ اللَّہُ۔> [67]
اس سے بڑھ کر کون ظالم ھو گا جو خدا پر جھوٹ اور افتراء پر دازی کرے اورکھے کہ ھمارے پاس وحی آئی ھے حا لانکہ اس کے پاس کو ئی وحی وغیرہ نھیں آئی یا وہ یہ دعوی کرے کہ جیسا خدا وند عالم نے قرآن نازل کیا ھے میںبھی اےسا قرآن عنقریب نازل کئے دیتا ھوں۔
تمام مفسرےن اس بات پر متفق ھیں کہ یہ عبداللہ بن ابی سرح کے الفاظ ھیں کہ میں بھی عنقریب ایسا ھی قرآن نازل کرونگا جس طرح اللہ تعالی نے نازل کیا ھے۔[68]
اے اھل دین اور اھل انصاف کیا حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عمال معین کرنے کا یھی معیار اور شرائط بیان فرمائے تھے جن کا ھم معاویہ کے متعلق کی گئی بحث میں ذکر کر چکے ھیں کیا یہ کھلی ھوئی جاھلیت نھیں ھے ؟
کیا یہ حکم خدا اور رسول سے انحراف نھیں ھے ؟یقینا یہ تو الٹے پاؤ ں جاھلیت کی طرف پلٹنا اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احکام سے انحراف کرنا ھے ۔!!!

۴۔سعید بن عاص
خلیفہ ثالث نے ولید کو کوفہ کی گورنری سے معزول کر کے اس کو کوفہ کا امیر بنایا حالانکہ اسلام میں اس کا کوئی کردار نھیں تھا جہاں تک اس کے (ملعون )باپ عاص کا تعلق ھے وہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سخت دشمن تھا اور آپ کو وہ اذیت دیا کرتا تھا اسی(معلون )کو حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام نے جنگ بدر میں شرک کی حالت میں فی النار کردیا تھا۔[69]
جہاں تک سعید کا تعلق ھے تو یہ ایک بے راھرو نوجوان تھا اور کسی قسم کی ذمہ داری کا بوجھ اٹھانے کی اھلیت نہ رکھتا تھا اور اسے گورنر بنا دیا گیا اس نے اپنی گورنری کے پھلے دن سے لوگوں کو بھڑکا یا تو کوفہ کے لوگوں کو اس کی شقاوت اور گفتگو میں تضاد کا پتہ چل گیا وہ کھتا تھا کہ اس باغ(اسلامی حکومت) کی سرداری قریش کے بے راہ رو جوانوں کے لائق ھے۔ اس کودین اوراحکام کے متعلق کسی چیز کا ذرا برابر علم نہ تھا اس نے ایک مرتبہ کوفہ میں کھاکہ تم میں سے چاند کس نے دیکھا ھے( یہ چاند دیکھنا عید الفطر کے موقع پر تھا) لوگوں نے کھاکہ ھم میں سے کسی نے بھی چاند نھیں دیکھا۔
ہاشم بن عقبہ (جو کہ جنگ صفین میں امیرالمومنین علی ا بن ابی طالب کے علمبردار تھے) نے کھاکہ میں نے چاند دیکھا ھے سعید نے اس سے کھاتم نے اپنی ان اندھی آنکھوں کے ساتھ چاند دیکھ لیا ھے اور پوری قوم نے نھیں دیکھا ؟ہاشم نے کھاتم میری ان آنکھوں کا عیب نکال رھے ھو جب کہ میری یہ آنکھ تو اللہ کی راہ میں خراب ھوئی ھے (ان کی یہ آنکھ غزوہ یرموک میں خراب ھوئی تھی) جناب ہاشم نے اگلے دن روزہ نہ رکھا اور لوگوں نے بھی آپ کے ساتھ صبح کھانا تناول کیا جب سعید تک یہ خبر پھنچی تو اس نے اپنے سپاھی بھیجے جنھوں نے ہاشم کو مارا پیٹا اور ان کے گھر کو جلا کر راکھ کردیا۔[70]
قارئین کرام! حضرت رسول اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت سے اس ظالم،سرکش اور بے راہ رو شخص کی جہالت کو ملاحظہ کریں کہ وہ روایت جسے اصحاب صحاح نے نقل کیا ھے یہ اس سے بھی ناواقف اور جاھل تھا ارشاد ھوا :
صوموا لرؤیتہ و افطروا لرؤیتہ۔چاند دیکھ کر روزہ رکھو اور چاند دیکھ کر افطار کرو۔
بھت سی چیزوں کے متعلق کوفیوں نے اس کی ملامت کی ھے اور خلیفہ سے اس کی شکایت کی لیکن کوئی شنوائی نہ ھوئی اور جب اسے ان شکا یات کا علم ھوا تو اس نے کوفہ والوں کو بھت مارا اور انھیں سخت اذیتیں دیں ۔[71]
حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
ان فساد امتی علی ید غلمہ سفھاء من قریش ۔
قریش کے بے وقوف جوانوں کے ہاتھوں میری امت میں فساد برپا ھوگا۔[72]
اسی وجہ سے قریش کا چھوکرا سعید بن عاص کوفہ کا والی بن گیا وہ کھتا تھا کہ اس باغ کی سرداری قریش کے چھوکروں کے لائق ھے ۔

۵۔عبداللہ بن عامر بن کریز ۔
یہ خلیفہ ثالث کا ماموں زاد بھائی تھا ابو موسی اشعری کو بصرہ اور عثمان بن ابوالعاص کو فارس سے معزول کرنے کے بعد خلیفہ نے اس کو بصرہ اور فارس کا والی بنایایقینا آپ کو اس بات پر تعجب ھوگا۔ لیکن اس سے زیادہ تعجب انگیز بات مندرجہ ذیل ھے کہ شبل بن خالد عثمان کے پاس آیا اس وقت امویوں کے علاوہ کوئی بھی اس کے پاس موجود نھیں تھا ۔شبل نے کھااے خاندان قریش تمھیں کیا ھو گیا ھے تم نے اپنے خاندان کے تمام لوگوں کو نجیب بنا دیا ھے اس خاندان کے تمام غریبوں کو غنی بنادیا ھے اور ھر گمنام کو نامور بنادیا ھے تم لوگوں نے ابوموسی اشعری جیسے بزرگوں کو ان کے عھدوں سے معزول کردیا اور عراق کے حق کو نظرانداز کردیا ھے ۔حضرت عثمان نے کھاایسا کس نے کھاھے اس نے عبداللہ بن عامر کی طرف اشارہ کیا ،جس وقت اسے والی بنایا گیا تھا اس وقت اس کی عمر سولہ سال کی تھی ۔[73]
ابو عمر نے عبداللہ بن عامرکے حالات زندگی میں اسے چوبیس سال کا اور ابو الیقطان نے چوبیس یا پچیس سال کا نوجوان ذکر کیا ھے ۔[74]
حضرت عثمان نے ان جیسے لوگوں کو اپنی خلافت میں والی مقرر کیا ، اور وہ ان کے تمام کرتوت جانتا تھا جبکہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ فرمان موجود ھے:
من اِستعمل عاملامن المسلمین وھویعلم اٴن فیھم اٴولیٰ بذلک منہ واٴعلم بکتاب اللہ وسنةنبیہ فقد خان اللہ و رسولہ و جمیع المسلمین ۔
جو شخص مسلمانوں میں سے کسی کو عامل مقرر کرے اور وہ یہ جانتا ھو کہ (جسے اس نے والی بنایا ھے)اس سے بھتر افراد موجود ھیں جو اللہ کی کتاب اور اس کے نبی (ص)کی سنت کو زیادہ بھتر جانتے ھیں تو گویا اس (والی مقرر کرنے والے) نے اللہ اس کے رسول اور تمام مسلمانوں سے خیانت کی۔[75]
جب آپ ان والیوں کی صلاحیت پر ذرا گھراھی کے ساتھ غور کریںگے تو آپ کو معلوم ھو جائے گا کہ ان میں ایسے اشخاص بھی ھیں جنھیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مدینہ سے نکال دیا تھا اور ان پر لعنت کی یا وہ جھوٹوں کے سردار اور فسق و فجور کے پیکر تھے۔
اور قرآن مجید نے ان کی فصیحت بیان کی ھے اور ان تمام غلام زادوں کی جائے پناہ خلیفہ ثالث تھی اس طرح انھوں نے بے راہ رو چھوکرے مسلمانوں پر حاکم اور والی بنادئےے یہ سب لوگ اسلام اور مسلمانوں کے لئے وبال جان بن گئے اور وہ ھمیشہ دین اور اللہ کے صالح افراد کے ساتھ جنگ کرنے میں مشغول رھتے تھے اور ان لوگوں سے ظاھر ھونے والا فسق وفجور ان کے اسلام سے منحرف ھونے کی واضح وروشن دلیل ھے۔
-------------------------------------------------------------------
[1] بحوت فی الملل والنحل شیخ جعفر سبحانی ج ۴۴،تا ریخ طبری ج ۲ ص۶۲ ،۶۳، تاریخ ابن اثیر ج ۲ ص۴۰ ، ۴۱۔
[2] بحوث فی الملل والنحل ج ۶ ص۴۵ ،صحیح بخاری ۵ باب فضائل اصحاب نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، باب مناقب حضرت علی علیہ السلام ۲۴۰۔
[3] ابن حجر کی کتاب الصواعق المحرقہ ص۴۳ ،۴۴ ، اسی طرح مسند امام احمد ج ۴ ص۳۷۲۔
[4] بحوث فی الملل والنحل ج ۶ ص ۵۰
[5] شیخ جعفر سبحانی کی کتاب الا لھیات ج ۲ ص ۵۸۶ ، ۵۸۷۔
[6] ابن ابی الحدید کی شرح نھج البلاغہ ج ۱۰ ،ص ۵۶ ،۵۷۔
[7] الغدیر ج ۲ ص ۱۸۱ ۔
[8] الالھیات ج ۲ص۶۰۰۔
[9] مسند احمد ج ۳ ص ۱۷ تا ۲۶ مسند احمد نے اس حدیث کو ابی سعید خدری سے نقل کیا ھے ۔
[10] المستدرک علی الصحیحین ج ۳ ص ۱۵۱ ۔
[11] بحوث فی الملل والنحل ج ۱ ص ۳۳۔
[12] المستدرک علی الصحیحین ج ۳ ص۱۴۹۔
[13] سورہ مائدہ :۵۵۔ v
[14] سورہ احزاب:۳۳۔
[15] سورہ آل وعمران آیت ۶۱۔
[16] سورہ مائدہ:۳۔
[17] الا لھیات ج ۲ ص۵۸۶ ۔
[18] سورہ شوریٰ آیت۲۳۔
[19] شرح نھج البلاغہ ج۶ ص۴۷۔
[20] شرح نھج البلاغہ ج۶ص ۲۰۔
[21] سورہ نور: آیت۳۶۔
[22] سیوطی درمنثور میں مندرجہ بالاآیت کی تفسیر بیان کرتے ھوئے ۔
[23] ابن قتیبہ کی الامامة والسیاسة ج۱ ص ۲۰۔
[24] الامامة والسیاسة ابن قتیبہ ج۱ ص ۱۹۔
[25] امام شرف الدین موسوی کی کتاب النص والاجتھاد ص ۶۸ تا ۷۱۔
[26] سورہ احزاب:۳۳۔
[27] طبرسی کی کتاب الاجتحاج ص ۹۰،۹۲۔
[28] مجلہ رسالہ مصریہ نمبر ۵۱۸ ،السنہ :۱۱ص ۴۵۷۔
[29] شرح نھج البلاغہ ج۴ ص ۱۰۶۔
[30] شھید سید محمد باقر الصدر کی فدک فی التاریخ ص ۴۷۔
[31] تاریخ یعقوبی ج۲ ص ۱۳۱،۱۳۲۔
[32] سورہ انفال:۴۱
[33] بحوث فی الملل والنحل جعفر سبحانی ج۶ص ۹۲،۹۳۔
[34] سورہ :بقرہ :۱۹۶
[35] بحوث فی الملل والنحل ج ۶، ص ۹۰،۹۲صحیح مسلم ج۱ ص۴۷۲ مسند احمد ج۱ ص۵۰ وغیر ۔
[36] سنن بیہقی ج۷ ص۲۰۶،الغدیر ج۶ ص۲۱۰۔
[37] سورہ توبہ آیت۶۰۔
[38] بحوث فی الملل والنحل ج۶ص۹۳،۹۴منقول از الجوھرہ النیرہ فی الفقہ الحنفی ج۱ص۱۶۴۔
[39] امامت و سیاست ج۱ ص۲۱۔
[40] بحوث فی الملل والنحل ج۶ص۸۷۔
[41] موطا مع شرح الزرقانی ج۱، ص۱۵۰، طبع مصر باب ماجاء فی النداء فی الصلوة، حدیث نمبر ۸۔
[42] سیرت ائمہ اثنی عشر ج۱ ص۳۱۳۔
[43] تاریخ یعقوبی ج۲ ص۴۱۔
[44] انساب الاشراف بلاذری ج۵ ص۲۸۔
[45] لعین سے مراد حکم ابن ابی العاص ھے جس پر حضرت رسول اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لعنت کی تھی اور اسے مدینہ سے نکال دیا تھا ۔
[46] ابن قتیبہ کی کتاب المعارف ص ۸۴۔
[47] سنن البیہقی ج۶ ص ۳۲۴،سنن ابی داؤد ج۲ ص ۲۵،مسند احمد ج۶ ص۲۹۔
[48] ابن جوزی کی تاریخ عمر ابن الخطاب ص۷۹،۸۳اور بلاذری کی فتوح البلدان ص ۴۵۳۔
[49] سیرت ائمہ اثنا عشر ج۱ ص۳۱۴۔
[50] بلاذری کی کتاب ا نساب ج ۵ ص۲۷۔
[51] حاکم کی کتاب مستدرک ج ۴ ص۴۸۱ ۔
[52] سورہ اسراء آیت:۶۰۔
[53] علامہ امینی ۺکی الغدیر ج ۸ ص۲۳۹۔
[54] سورہ قلم :۱۰۔۱۱۔
[55] سیرت حلبیہ ج۱ ص۳۳۷، تفسیر شو کافی ج ۵ص۲۶۳،درمنثور ،سیوطی ص۴۱ ۔اور ص۲۵۱۔
[56] سورہ احزاب:۲۱
[57] سورہ توبہ :۲۴
[58] کتاب الغدیر ج ۸ ص۲۵۴ ،۲۵۵۔
[59] شرح نھج البلاغہ ج ۱ ص۳۳۸۔
[60] مجمع الزوائد ج ۵ ص۲۱۱، سنن بیہقی ج ۲۰ ص۱۱۸۔
[61] شرح نھج البلاغہ ج ۱ ص۳۴۰ ۔
[62] طبقات ابن سعد ج ۱ ص ۱۸۶ ۔
[63] سورہ فرقان :۲۷ تا ۲۹ ۔
[64] سیرت ابن ھشام ج۱ ص۳۸۵ ۔
[65] الغدیر علامہ امینی ج۸ ص۲۷۴۔
[66] بلازری کی انساب ا لاشراف ج ۵ ص ۴۹۔
[67] سورہ انعام:۹۳
[68] تفسیر قرطبی ج ۷ص۴۰ زمخشری کی تفسیر کشاف ج ۱ ص۴۶۱ وغیرہ ۔
[69] طبقات ابن سعد:ج۱ص۱۸۵۔
[70] طبقات ابن سعد ج۵ ص۲۱۔
[71] الغدیر ج۸ ص۲۷۰۔
[72] حاکم کی کتاب المستدرک ج۴ ص۴۷۰۔
[73] الغدیر ج ۸ص ۲۹۰ ۔
[74] الغدیر ج ۸ ص ۲۹۰۔
[75] مجمع الزوائد الھیثمی ج۵ص۲۱۱۔