آفتاب ولایت | |||||
فضائلِ علی علیہ السلام قرآن کی نظر میں ۔4
(چند دوسری مثالیں)
حضرت علی علیہ السلام سورہ والعصر میں
وَالْعَصْرِ۔اِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِیْ خُسْرٍ۔اِلَّاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْاوَعَمِلُوْاالصّٰلِحٰتِ وَتَوَاصَوْابِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْبِالصَّبْرِ۔
”وقت ِعصر کی قسم! انسان ضرور گھاٹے میں ہے۔ سوائے اُن لوگوں کے جو ایمان لائے اور انہوں نے نیک عمل کئے اور ایک دوسرے کو حق کی پیروی کی تاکید کرتے رہے اور ایک دوسرے کو صبر کی وصیت کرتے رہے“۔ روایت عَنْ اِبْنِ عباس فِی قولہ تعالٰی:”وَالْعَصْرِ۔اِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِیْ خُسْرٍ۔اِلَّاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوْا الصّٰلِحٰتِ وَتَوَاصَوْابِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْ بِالصَّبْرِ“قٰالَ: ھُوَ عَلِی علیہ السلام۔ اس روایت کو علامہ سیوطی نے تفسیر الدرالمنثور جلد6،صفحہ439(آخری روایت تفسیر سورئہ عصر) پر درج کیا ہے۔ اسی روایت کو حافظ الحسکانی نے کتاب شواہد التنزیل، حدیث1156 جلد2،صفحہ373، اشاعت اوّل اور حافظ ابی نعیم اصفہانی نے کتاب”ما نزل من القرآن فی علی علیہ السلام“ میں بیان کیا ہے اور بہت سے دوسروں نے اسی روایت کو نقل کیا ہے۔ ترجمہ ”ابن عباس سے روایت کی گئی ہے کہ اس کلامِ الٰہی ”وَالْعَصْرِ۔اِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِیْ خُسْرٍ“ کی تفسیر میں کہا کہ اس سے مراد ابوجہل لعنة اللّٰہ علیہ ہے اور”اِلَّاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْاوَعَمِلُوْا الصّٰلِحٰتِ وَتَوَاصَوْابِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْبِالصَّبْر“کی تفسیر میں کہا گیاکہ اس سے مراد حضرت علی ابن ابی طالب علیہما السلام ہیں۔ علی علمِ الٰہی کا خزینہ ہیں
قُلْ کَفٰی بِاللّٰہِ شَھِیْدًام بَیْنِیْ وَبَیْنَکُمْ وَمَنْ عِنْدَہ عِلْمُ الْکِتٰبِ۔
”آپ کہہ دیجئے کہ میرے اور تمہارے درمیان گواہی دینے کو (ایک تو) اللہ کافی ہے(دوسرے)وہ جن کے پاس اس کتاب کا پورا علم ہے“۔(سورئہ رعد:آیت43)۔ روایت عَنْ عَبْدِاللّٰہِ ابْنِ سَلٰام رضی اللّٰہ عَنْہُ فِی قَولِہ تَعٰالٰی”وَمَنْ عِنْدَہ عِلْمُ الْکِتٰبِ“قَالَ سَئَلْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَآلِہ وَسَلَّمْ قَالَ اِنَّمَا ذٰلِکَ عَلِیُّ بْنُ اَبِی طَالِب۔ اس روایت کو شیخ سلیمان قندوزی حنفی نے کتاب ”ینابیع المودة“، باب مناقب، صفحہ284،حدیث60میں بیان کیا ہے اور ابن عباس سے نقل کرتے ہوئے اسی کتاب میں باب30،صفحہ121پر بھی درج کیا ہے۔اسی طرح حافظ الحسکانی نے کتاب ”شواہد التنزیل“، ،جلد1،صفحہ308،اشاعت اوّل، حدیث دوم میں بیان کیا ہے اور حافظ ابی نعیم اصفہانی نے کتاب ”مانزل من القرآن فی علی علیہ السلام“ میں اس آیت کی تفصیل میں بیان کیا ہے۔ ترجمہ ”عبداللہ بن سلام نے کلامِ الٰہی ”وَمَنْ عِنْدَہ عِلْمُ الْکِتٰبِ“ کے بارے میں روایت کی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا کہ اس سے مراد کون ہیں؟ تو آپ نے فرمایا کہ ا س سے مراد علی ابن ابی طالب علیہما السلام ہیں“۔ علی اور آپ کے اصحاب سچائی کا نمونہ ہیں
یٰٓاَ یُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوااتَّقُوااللّٰہَ وَکُوْنُوْامَعَ الصّٰدِقِیْنَ۔
”اے ایمان لانے والو! اللہ سے ڈرو اور سچوں کے ساتھ ہوجاؤ“۔(سورئہ توبہ:آیت119)۔ روایت عَنْ اِبْنِ عباس رضی اللّٰہُ عنہُ فِی ھٰذِہِ الآیَةِ”یٰٓاَ یُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوااتَّقُوااللّٰہَ وَکُوْنُوْامَعَ الصّٰدِقِیْنَ“قَالَ مَعَ علی واصحابہ۔ اس روایت کو ثعلبی نے اپنی تفسیر(تفسیر ثعلبی) جلد1اور سیوطی نے تفسیر الدرالمنثور میں اس آیت کے سلسلہ میں بیان کیا ہے۔ ابن عساکر نے تاریخ دمشق میں باب شرح حالِ امیر الموٴمنین میں حدیث930،جلد2،صفحہ421میں بیان کیا ہے اور اسی طرح حافظ الحسکانی نے کتاب”شواہد التنزیل“،جلد1،صفحہ259،حدیث اوّل کے تحت بیان کیا ہے۔ ترجمہ ”ابن عباس سے روایت کی گئی ہے کہ اس آیت ”یٰٓاَ یُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوااتَّقُوااللّٰہَ وَکُوْنُوْامَعَ الصّٰدِقِیْنَ“ کے بارے میں انہوں نے کہاکہ” کُوْنُوْامَعَ الصّٰدِقِیْن “سے مراد علی ابن ابی طالب علیہما السلام اور آپ کے اصحاب ہیں“۔ ولایت ِعلی و اہلِ بیت پر اعتقاد رکھنے کا نتیجہ قبولیت ِتوبہ،ایمان، عملِ صالح اور ہدایت ہے وَاِنِّیْ لَغَفَّارٌ لِّمَنْ تَابَ وَاٰمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا ثُمَّ اھْتَدٰی۔ ٍ ”اور میں اُس کو جو توبہ کرے ، ایمان لائے اور نیک عمل کرے اورپھر ہدایت یافتہ بھی ہو، ضرور بخشنے والا ہوں“۔(سورئہ طٰہ:آیت82)۔ روایت عَنْ علی علیہ السلام فِی قولِہ تعٰالٰی”وَاِنِّیْ لَغَفَّارٌ لِّمَنْ تَابَ وَاٰمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا ثُمَّ اھْتَدٰی“ قَالَ اِلٰی وِلٰایَتِنَا۔ اس روایت کو حافظ ابونعیم اصفہانی نے کتاب”مانزل من القرآن فی علی علیہ السلام“ میں نقل کیا ہے اور حافظ الحسکانی نے کتاب ”شواہد التنزیل“،جلد1،صفحہ375، اشاعت اوّل میں امام محمدباقر علیہ السلام اور حضرت ابوذرغفاری کے حوالہ سے نقل کیا ہے۔ ترجمہ ”حضرت علی علیہ السلام سے روایت کی گئی ہے کہ انہوں نے اس کلامِ الٰہی ”وَاِنِّیْ لَغَفَّارٌ لِّمَنْ تَابَ وَاٰمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا ثُمَّ اھْتَدٰی“ کے بارے میں فرمایا:’یعنی وہ جس نے ہماری ولایت کو تسلیم کیا اور اُس نے توبہ کی اور ایمان لایا اور نیک عمل کئے اور پھر ہدایت یافتہ بھی ہوا، اللہ اُس کو ضرور بخشنے والا ہے‘۔“ امت اور ولایت ِعلی پر ایمان اصل میں ایک ہیں
وَاِنَّ الَّذِیْنَ لَایُوٴْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَةِ عَنِ الصِّرَاطِ لَٰنکِبُوْنَ۔
”اور ضروروہ لوگ جو آخرت پر ایمان نہیں رکھتے، راہِ راست سے ہٹ جانے والے ہیں“۔(سورئہ موٴمنون:آیت74)۔ روایت عَنْ علی ابنِ ابی طالب فی قولہ تعٰالٰی”وَاِنَّ الَّذِیْنَ لَایُوٴْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَةِ عَنِ الصِّرَاطِ لَٰنکِبُوْنَ“قَالَ عَنْ وَلٰایَتِنَا۔ اس روایت کو حافظ ابونعیم اصفہانی نے کتاب”مانزل من القرآن فی علی علیہ السلام“ میں ،حموینی نے کتاب”فرائد السمطین“، باب61،جلد2،صفحہ300اور حافظ الحسکانی نے کتاب”شواہد التنزیل“ حدیث557جلد1،صفحہ402پر نقل کیا ہے۔ ترجمہ ”علی ابن ابی طالب علیہ السلام نے اس آیت ِ خداوندی ”وَاِنَّ الَّذِیْنَ لَایُوٴْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَةِ عَنِ الصِّرَاطِ لَٰنکِبُوْنَ“ کے بارے میں فرمایا کہ صراط سے یہاں مراد ہماری ولایت ہے(ولایت ِعلی ابن ابی طالب علیہ السلام اور ولایت ِاہلِ بیت )“۔ علی کواذیت پہنچانابہت بڑ اصریح گناہ ہے
وَالَّذِیْنَ یُوٴْذُوْنَ الْمُوٴْمِنِیْنَ وَالْمُوٴْمِنٰتِ بِغَیْرٍمَااکْتَسَبُوْافَقَدِ احْتَمَلُوْابُھْتَانًاوَّاِ ثْمًامُّبِیْنًا۔
”اور جو لوگ ایماندار مردوں اور ایماندار عورتوں کو بلاقصور ایذا پہنچاتے ہیں، وہ بہتان اور صریح گناہ کا وبال اپنے ذمے لیتے ہیں“۔(سورئہ احزاب:آیت58)۔ روایت عَنْ مقاتِلَ بن سلیمان فِی قولِہ عَزَّوَجَل”وَالَّذِیْنَ یُوٴْذُوْنَ الْمُوٴْمِنِیْنَ وَالْمُوٴْمِنٰتِ بِغَیْرِمَااکْتَسَبُوْافَقَدِاحْتَمَلُوْابُھْتَانًاوَّاِ ثْمًامُّبِیْنًا“ قَالَتْ نَزَلَتْ فِی علی ابن ابی طالب وَذٰلِکَ اَنَّ نَفَراً مِنَ الْمُنٰافِقِیْنَ کَانُوْایُوْذُوْنَہ وَیَکْذِبُوْنَ عَلَیْہِ۔ اس روایت کو ابی نعیم اصفہانی نے کتاب”مانزل من القرآن فی علی علیہ السلام“ میں درج کیا ہے۔ اس کے علاوہ واحدی نے کتاب ”اسباب النزول“،صفحہ273اور حافظ الحسکانی نے کتاب”شواہد التنزیل“،جلد2،صفحہ93،اشاعت اوّل،حدیث775میں نقل کیا ہے۔ ترجمہ ”مقاتل بن سلیمان روایت کرتے ہیں ،انہوں نے کہا کہ یہ آیت وَالَّذِیْنَ یُوٴْذُوْنَ الْمُوٴْمِنِیْنَ وَالْمُوٴْمِنٰتِ بِغَیْرِ مَااکْتَسَبُوْافَقَدِاحْتَمَلُوْابُھْتَانًاوَّاِ ثْمًامُّبِیْنًا حضرت علی ابن ابی طالب علیہما السلام کے بارے میں نازل ہوئی ہے اور اس کے نازل ہونے کی وجہ یہ تھی کہ کچھ منافقین آپ کو اذیت پہنچاتے تھے اور اُن کو جھٹلاتے تھے“۔ اللہ تعالیٰ آلِ محمدپر سلام بھیجتا ہے
سَلٰمٌ عَلٰی آلِ یَاسِیْنَ۔
”آلِ یاسین تم پر سلام ہو“۔(سورئہ الصّٰٓفّٰت:آیت130)۔ روایت عَنْ اِبْنِ عباس رضی اللّٰہ عنہُ فِی قولہ تعٰالٰی”سَلٰمٌ عَلٰٓی اِلْ یَاسِیْنَ“قَالَ آلِ محمد صلَّی اللّٰہُ علیہ وآلہ وسلَّم۔ اس روایت کو حافظ ابی نعیم اصفہانی نے کتاب”مانزل من القرآن فی علی علیہ السلام“میں، ابن حجر ہیشمی نے ”صواعقِ المحرقہ“ میں صفحہ76پر اور حافظ الحسکانی نے کتاب”شواہد التنزیل“،جلد2،صفحہ110،اشاعت اوّل میں نقل کیا ہے۔ ترجمہ ”ابن عباس سے روایت کی گئی ہے کہ خدا کے اس کلام ”سَلٰمٌ عَلٰٓی آلِ یَاسِیْنَ“ سے مراد آلِ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں“۔ یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ معتبر روایات کے مطابق آلِ محمد سے مراد حضرت علی علیہ السلام،جنابِ سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا، امام حسن علیہ السلام ،امام حسین علیہ السلام اور اُن کی پاک اولاد ہیں“۔ علی اور تصدیقِ نبوتِ پیغمبر اکرم
وَالَّذِیْ جَآءَ بِالصِّدْقِ وَصَدَّقَ بِہٓ اُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُتَّقُوْنَ۔
”اور وہ جو سچ کو لے کر آیا او روہ جس نے اُس کی تصدیق کی(خدا سے) ڈرنے والے وہی تو ہیں“۔(سورئہ زمر:آیت33)۔ روایت عَنْ مُجٰاھِدٍ فِی قولہ تعالٰی”وَالَّذِیْ جَآءَ بِالصِّدْقِ وَصَدَّقَ بِہٓ اُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُتَّقُوْنَ“قَالَ جٰاءَ بِاالصِّدْقِ محمدصلَّی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلَّم صَدَّقَ بِہِ علی ابنِ ابی طالب۔ اس روایت کو ابن مغازلی شافعی نے کتاب”مناقب“،صفحہ269،حدیث317، اشاعت اوّل میں، حافظ الحسکانی نے کتاب ”شواہد التنزیل“،جلد2،صفحہ121،حدیث812، اشاعت بیروت اور حافظ ابی نعیم اصفہانی نے کتاب”مانزل من القرآن فی علی علیہ السلام“میں آیت ِ مذکور کی تشریح کے سلسلہ میں بیان کیا ہے۔ ترجمہ ”مجاہد سے روایت کی گئی ہے کہ اس کلامِ الٰہی ”وَالَّذِیْ جَآءَ بِالصِّدْقِ وَصَدَّقَ بِہٓ اُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُتَّقُوْنَ“ کے بارے میں انہوں نے کہاکہ”جَآءَ بِالصِّدْق“سے مراد پیغمبر اسلام ہیں اور”صَدَّقَ بِہٓ“سے مراد علی ابن ابی طالب علیہ السلام ہیں(یعنی جو کوئی صداقت اور حق کے ساتھ آیاوہ پیغمبر اسلام ہیں اور جس نے اُن کی تصدیق کی، وہ علی علیہ السلام ہیں)“۔ علی اور آپ کے ماننے والے حزب اللہ ہیں اور وہی کامیاب ہیں
اَ لَآاِنَّ حِزْبَ اللّٰہِ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۔
”آگاہ رہو کہ خدائی گروہ کے لوگ(پوری پوری) فلاح پانے والے ہیں“۔ (سورئہ مجادلہ:آیت22) روایت عَنْ علی عَلَیْہِ السَّلام قَال سَلْمَانُ:فَلَمَّااِطَّلَعْتُ عَلٰی رسولِ اللّٰہ یٰا اَبَاالْحَسَنْ اِلَّا ضَرَبَ بَیْنَ کِتْفِیْ وَقٰالَ:یَاسَلْمَانُ ھَذَاوَحِزْبُہُ ھُمُ الْمُفْلِحُوْن۔ اس روایت کو گنجی شافعی نے کتاب”کفایة الطالب“ باب62،صفحہ250میں، حافظ ابن عساکر نے کتاب”تاریخ دمشق“،باب شرح حالِ امیرالموٴمنین علیہ السلام،جلد2،صفحہ346 حدیث854،اشاعت دوم میں، ابو نعیم اصفہانی نے کتاب”مانزل من القرآن فی علی علیہ السلام“ میں اس آیت کی تشریح میں اور حافظ الحسکانی نے ”شواہد التنزیل“،جلد1،صفحہ68،اشاعت اوّل میں سورئہ بقرہ کی آیت4کی تفسیر کرتے ہوئے نقل کیا ہے۔ ترجمہ ”حضرت علی علیہ السلام سے روایت کی گئی ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ سلمان نے مجھ سے مخاطب ہوکر کہا:’یا اباالحسن !میں جب بھی رسولِ خدا کی خدمت میں حاضر ہوا تو انہوں نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر آپ کی طرف اشارہ کرکے فرمایا کہ اے سلمان! یہ شخص اور اس کی جماعت فلاح(کامیابی) پانے والے ہیں“۔ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ رسولِ اکرم اور علی کے ماننے والوں کو رسوا نہیں کرے گا
یَوْمَ لَا یُخْزِی اللّٰہُ النَّبِیَّ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَہ۔
”جس دن خدا تعالیٰ نبی کو اور اُن لوگوں کو جو اُن کے ساتھ ایمان لائے ہیں، رسوا نہ کرے گا“۔(سورئہ تحریم:آیت8)۔ روایت قَرَأَ بْنُ عَبَّاس(یَوْمَ لَا یُخْزِی اللّٰہُ النَّبِیَّ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَہ)قَالَ عَلِیٌ وَاَصْحٰابُہُ۔ اس روایت کو حافظ ابی نعیم اصفہانی نے کتاب”مانزل من القرآن فی علی علیہ السلام“ میں اس آیت کے ضمن میں اور علامہ سیوطی نے کتاب”جمع الجوامع“میں جلد2،صفحہ155پر نقل کیا ہے۔ ترجمہ ”روایت کی گئی ہے کہ ابن عباس یہ آیت ”یَوْمَ لَا یُخْزِی اللّٰہُ النَّبِیَّ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَہ“ تلاوت فرمارہے تھے،اُس وقت انہوں نے کہا کہ ”وہ لوگ جو ایمان لائے“سے مراد علی علیہ السلام اور اُن کے ماننے والے ہیں“۔ روزِقیامت ولایت ِعلی کے بارے میں سوال کیا جائے گا
ثُمَّ لَتُسْئَلُنَّ یَوْمَئِذٍ عَنِ النَّعِیْمِ۔
”پھر تم سے اُس دن نعمتوں کی بابت ضرور بازپرس کی جائے گی“۔(سورئہ تکاثر:آیت8)۔ روایت عَنْ جَعْفَرِابْنِ محمد علیہ السلام فِی قولِہِ عَزَّوَجَلَّ”ثُمَّ لَتُسْئَلُنَّ یَوْمَئِذٍ عَنِ النَّعِیْمِ“قَالَ:عَنْ وِلَایَةِ عَلِیّ۔ اس روایت کو حافظ ابی نعیم اصفہانی نے کتاب”مانزل من القرآن فی علی علیہ السلام“ میں اس آیت کے بارے میں بیان کرتے ہوئے اور حافظ الحسکانی نے کتاب ”شواہد التنزیل،جلد2،صفحہ368،اشاعت اوّل میں نقل کیا ہے۔ ترجمہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کی گئی ہے کہ آپ نے اس آیت ”ثُمَّ لَتُسْئَلُنَّ یَوْمَئِذٍ عَنِ النَّعِیْمِ“ کے بارے میں فرمایا کہ وہ نعمت جس کے بارے میں روزِ قیامت سوال کیا جائے گا وہ ولایت ِعلی ابن ابی طالب علیہ السلام ہے“۔ |