آفتاب ولایت
مصنف:علی شیر حیدری
پیش لفظ
علی اور دیگر آئمہ معصومین کی معرفت کیونکر ضروری ہے؟
بے شک بہت سی قیمتی اور اعلیٰ کتابیں مولا علی علیہ السلام اور باقی آئمہ معصومین علیہم السلام کو متعارف کروانے کیلئے اور اُن کی ولایت ِ برحق کے ثبوت میں لکھی جاچکی ہیں اور وہ مسلمانوں اور حق کی تلا ش کرنے والوں کے ہاتھوں تک پہنچ چکی ہیں ۔ لیکن ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ ان تمام کتابوں کے میسر ہونے کے باوجود خدا کے ان خاص بندوں کی مظلومیت اقوامِ عالم میں اب بھی اظہر من الشمس ہے اور اُن کا مقامِ اعلیٰ، عظمت ِ بالا، اُسوئہ حسنہ ،بندگیِ خدااور عبادتِ بے ریاء بہت سے مسلمانوں کی نظروں سے ابھی تک اوجھل ہے۔
اس کے برعکس ہم دیکھ رہے ہیں کہ شیطانی قوتیں اور گمراہ قومیں روز بروزلوگوں کو اہلِ بیت ِ اطہاراور صراطِ مستقیم سے منحرف کرنے کیلئے اپنا دائرئہ اثر وسیع سے وسیع تر کررہی ہیں۔ لہٰذا زیادہ سے زیادہ ایسی کتابیں لکھے جانے کی ضرورت ہے جو عصرِ جدید کے تقاضوں کوکماحقہ پورا کرسکیں۔ امام کی خدمت میں ایک حقیر تحفہ
پیش نظر کتاب جو حقیقتاً خاندانِ نبوت کے دریائے فضائل کے سامنے ایک قطرہ یا اُس سے بھی کم تر حیثیت کی حامل ہے، مجھ ناچیز کی طرف سے جنابِ مولائے متقیان امیرالموٴمنین حضرت علی ابن ابی طالب علیہما السلام کی خدمت ِ اقدس میں یہ حقیر تحفہ اور اُن کے فرزند ِ باکمال، قطب ِ عالم امکان، بقیة اللہ الاعظم امامِ زمانہ علیہ السلام کے توسط سے پیش ہے۔
اس اُمید کے ساتھ کہ میری یہ بہت مختصر اور حقیرکوشش شاید اُن افراد کیلئے جو ان بزرگوں کے اعلیٰ کردار ، بزرگی اور عظمت و بلندی کی مکمل پہچان کی جستجو میں ہیں، مددگار ثابت ہو، اور وہ تلاشِ حق میں کامیاب ہوں ،نیز اُن افرادکیلئے جن کے دل محبت ِاہلِ بیت ِ نبوت سے سرشار ہیں، مزید تقویت ِایمانی کا باعث بنے۔ انشاء اللہ مجھے خدائے بزرگ و برترسے اُمید ِکامل ہے کہ جس دن ” یَوْمَ لَا یَنْفَعُ مَالَ وَلا بَنُون“ کی صدابلند ہوگی، اُس دن اہلِ بیت سے ہمارا یہ رشتہٴ عشق و محبت توشہٴ آخرت ثابت ہوگا اور یہ بزرگ اُس دن ہمیں لوائے حمد کے سایہ میں جگہ دیں گی۔ معاشرے میں صالح حکومت اور مخلص رہبر کی ضرورت
اس میں کوئی شک نہیں کہ صالح حکومت اور مخلص رہبر کا وجود ہر معاشرے کی بنیادی اور اہم ترین ضرورت ہے۔ دنیا کے تمام عاقل اور دانشمند حضرات اس کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہیں اور اِسے معاشرے کی سلامتی اور ترقی کیلئے بنیادی شرط مانتے ہیں ۔ مخلص رہبر کا ہونا تو سب سے اہم اور لازم ہے، اس کے بغیر کسی بھی معاشرے کا قائم رہنا ناممکن ہے۔ جس معاشرے میں کوئی حکومت اور رہبر نہ ہو، اُسے بیمار اور زوال پذیر معاشرہ سمجھا جاتا ہے۔
کلی طور پر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ صالح حکومت اورمخلص رہبر (جس نقطہ نظر سے بھی دیکھیں) کی ضرورت روزِ روشن کی طرح واضح ہے۔ انسانوں کی حکومت بنانے کی کوششیں
یہ نکتہ غور طلب ہے کہ انسان نے حکومت بنانے اور رہبر چننے کی ضرورت کو بہت عرصہ پہلے محسوس کر لیا تھا لیکن ان میں سے بہت سے علومِ لازمہ سے باخبر نہ ہونے کی وجہ سے حکومت بنانے اور رہبر چننے کیلئے غلط راستوں پر چلے۔ ہمیں یہ تسلیم کرناہوگا کہ غلطی کی بنیادصرف یہ تھی کہ ان لوگوں نے محض اپنی محدود عقل پر بھروسہ کیا، جبکہ ان کے مقابلہ میں دوسرے گروہ نے پیغمبرانِ خدا کی تعلیمات کی روشنی سے اپنی محدود عقل کو وسعت بخشی۔ اس طرح اُن کی فکری نظر لامحدود اور
کامل تر ہوگئی۔ اس کے نتیجہ میں جلد ہی غلط اور صحیح راستے میں پہچان ہوگئی اور ایسی شکل میں حکومت سامنے آئی جو تمام افراد کی مادّی اور معنوی ضروریات کا خیال رکھے اور یہ حکومت سوائے اللہ تعالیٰ کی حکومت کے اور کوئی نہیں۔ اس میں شک نہیں کہ اس سیدھے راستے کے پیروکار ہمیشہ اقلیت میں رہے لیکن اپنے پختہ اورسچے ارادے سے اس کوشش میں رہے کہ ایسی سعادت مند حکومت کا قیام ہوجائے ۔ یہاں تک کہ اللہ نے اپنے پیغمبرخاتم کے ذریعے دین اسلام کو مکمل کردیااور ایک وسیع حکومت ِ اسلامی معرضِ وجود میں آئی۔ اللہ نے اس حکومت ِ اسلامی کو برقرار رکھنے کیلئے اپنے رسول کے ذریعے ایسے مخصوص افراد کی پہچان کروائی تاکہ اُن کی بدولت یہ اسلامی حکومت اپنے مقاصد ِ عالی تک پہنچ سکے اور لوگ اُن کی اطاعت کرکے حق کے راستے کو پہچانیں اور گمراہی سے بچ جائیں اور منازلِ عالیہ کو حاصل کرسکیں۔ حکومت ِ اسلامی کی قابلِ توجہ خصوصیات
حکومت ِ اسلامی کی قابلِ توجہ خصوصیات جنہوں نے اسے دیگر طرز کی حکومتوں سے ممتاز کردیا، وہ اس کے دو بنیادی اور اہم ستون ہیں ،جن کی وجہ سے انتہائی کم مدت میں اسلام کی آواز دنیا کے کونے کونے میں پہنچ گئی۔ جلد ہی اس کے لاکھوں بلکہ کروڑوں پیروکار اور معتقدجہان میں پھیل گئے۔ البتہ وقت کے ساتھ ساتھ جیسے علم و دانش میں ترقی ہوگی، لوگ باقی طرزہائے حکومت کے نقائص اور بے فائدہ ہونے کو جان جائیں گے اور انشاء اللہ حکومت ِ اسلامی کی طرف لوگوں کا رحجان بہت تیزی سے بڑھے گا۔
حکومت ِ اسلامی کی دو قابلِ توجہ خصوصیات یہ ہیں: 1۔ اُس خدائے پاک نے جس نے انسان کو خلق کیا اور وہ اس انسان کی تمام مادی اور روحانی ضروریات سے سوفیصد واقف ہے،ایک ایسا نظامِ حیات کتابی صورت میں عطا کیا جس میں اُس نے اپنے لطف و کرم کی عظمت کے تحت کوئی ایسا ضابطہٴ حیات جو انسان کی ترقی کیلئے ضروری ہو، کم نہیں کیا۔ اللہ تعالیٰ نے تمام قوانین الٰہی اپنے انبیاء، اوصیاء اور اولیاء کے ذریعے سے انسانوں تک پہنچا ئے۔ 2۔ اسلام اور حکومت ِ اسلامی کی دوسری قابلِ توجہ خصوصیت اُن افرادِ پاک سے تعلق رکھتی ہے جو اِن قوانین اور دستوراتِ الٰہی کو انسانوں تک پہنچانے کے ذمہ دار ہیں اور رہیں گے۔ مندرجہ بالا خصوصیات سے ظاہر ہوا کہ حکومت ِ اسلامی میں قوانین کی بنیاد اور اساس قولِ خداوندی ہونے کے ساتھ ساتھ ان کو لوگوں تک پہنچانے اور معاشرے میں رائج کرنے کے ذمہ دار افراد بھی خدا کی طرف سے متعین ہوں گے۔ پہلے مرحلہ میں خود پیغمبرانِ خدا اور دوسرے مرحلہ میں اُن کے جانشین برحق اس کام کے ذمہ دار ہیں۔ اس بنیاد پر سید المرسلین کے وجودِ پاک کے بعد اللہ تعالیٰ کی رحمت ِ ازلی کے سبب یہ ذمہ داری آپ کے اوصیائے کرام یعنی آئمہ معصومین علیہم السلام کے حصہ میں آئی اور ابھی تک یہ خدا کا کرم بصورتِ جنابِ حجة القائم امام مہدی علیہ السلام ابن الحسن عسکری قائم ہے۔ یہاں تک کہ امام مہدی علیہ السلام کی غیبت کے دوران بھی لوگوں کو صحیح راستہ بتانے کیلئے اور اُمت ِمسلمہ کی رہنمائی کیلئے ذمہ داری فقہائے بزرگ و باتقویٰ اور علمائے کرام جن کے سربراہ ولایت ِ فقیہ ہیں، دی گئی ہے۔ ۱ ۱ : کتاب کمال الدین باب۔45 اور دیگر کتب کے حوالہ سے ایک اہم حدیث خود (باقی حاشیہ صفحہ آئندہ) پیغمبر اسلام کے بعد رہبریٴ جامعہ اسلامی
میں اختلافِ بین المسلمین پر ایک نظر
تاریخ اسلام خطرناک اور حساس واقعات سے بھری پڑی ہے۔ اس میں نشیب و فراز
بھی ہیں، کامیابی کی داستانیں بھی ہیں اور پسپائی کے منظر بھی۔انہی راستوں سے تمام ایمان کے دعویداروں کا امتحان بھی ہوا اور آزمائشِ الٰہی بھی۔ آہستہ آہستہ حقیقی موٴمن اور ظاہری دعویدارانِ ایمان الگ الگ ہوگئے۔ یہ روش جاری رہی اور تاقیامت جاری رہے گی۔ اس طرح کا ایک واقعہ تاریخ اسلام میں ایسا بھی ہوا جس میں آزمائش کے تمام مواقع موجود تھے۔ ہم مسلمانوں کے درمیان اختلاف کی اصلی وجہ کو بھی اس میں تلاش کریں گے۔ جب سرورِکائنات، اشرفِ مخلوقات، سبب ِ وجودِ کائنات، پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس جہانِ فانی کو خیر باد کہہ کر لقائے رب العالمین کیلئے اُس جہان کی طرف منتقل ہوئے تو سارا عالمِ اسلام ماتم کدہ بن گیا ۱ ۔ ہر دل غمگین ہوگیا اور ہر چہرہ پریشان ہوگیا۔ (باقی حاشیہ صفحہ سابقہ)امامِ زمانہ علیہ السلام(عج) سے یوں نقل ہے:آپ نے اسحاق بن یعقوب ، ایک معروف شیعہ بزرگ عالم(بواسطہ محمد بن عثمان بن سعید) کے خط کے جواب میں ارشاد فرمایا: ”وَاَمَّاالْحَوَادِثُ الْوَاقِعَةُ فَارْجِعُوْافِیْھَااِلٰی رُوَاةِ حَدِیثِنَافَاِنَّھُمْ حُجَّتِیْ عَلَیْکُم وَاَ نَاحُجَّةُ اللّٰہِ عَلَیْھِمْ“۔ ”تمہارے لئے جو حوادث اور واقعات پیش آئیں، اُن کی رہنمائی کیلئے ہمارے علماء و فقہاء کی طرف رجوع کرو کیونکہ وہ تم سب پر حجت ہیں اور میں اُن پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے حجت ہوں“۔ (حاشیہ صفحہ ہذا)۔جنابِ رسولِ خدا کے انتقال کے فوری بعد ایک گروہ سقیفہ بنی ساعدہ میں نئے رہبر اور خلیفہ کے انتخاب میں مشغول ہوگیا۔ان لوگوں نے امامت اور رہبر کے بارے میں اپنے پیغمبر کی تمام نصیحتوں اور فرامین کو یکسر فراموش کردیا۔جبکہ حضرت علی علیہ السلام اور چند دیگر اصحابِ خاص رسولِ خدا کے کفن و دفن میں مصروف تھے۔ اُن مخصوص حالات میں تمام مسلمانانِ عالم پر واجب تھا کہ وہ رسولِ خدا کی واضح نصیحتوں اور امیر الموٴمنین حضرت علی علیہ السلام کی امامت اور رہبری کے بارے میں ارشادات کو پیش نظر رکھتے تاکہ تمام مسلمانوں کو ہر قسم کے فتنہ و فساد سے بچایا جاسکتا۔ لیکن افسوس !ایسا نہ ہوا۔ مسلمانوں میں سے ایک گروہ کی لاعلمی کی وجہ سے اور منافقین کی ریشہ دوانیوں کی وجہ سے اہم فیصلے ایسے افراد کے ہاتھوں میں آگئے جو اس کے اہل نہیں تھے، جنہوں نے مسلمانوں کی عدم توجہ سے ناجائز فائدہ اٹھایا اور پیغمبر اسلام کی تمام نصیحتوں اور برملا اعلانات کو پس پشت ڈال دیا۔ اس طرح عوام الناس کو خدا کے چنے ہوئے برگزیدہ اماموں کی رہنمائی سے محروم کردیا گیا۔ ان وجوہات کی بناء پر اور عالمِ اسلام کی سلامتی کی خاطر سب سے پہلے جنابِ سیدہ فاطمة الزہراسلام اللہ علیہا نے شہادت پائی۔ جنابِ سیدہ سلام اللہ علیہا ایک عظیم عالمہ اور ولایت ِ علی علیہ السلام کی سب سے بڑی محافظہ تھیں۔ آپ رسول اللہ کے بہت نزدیک تھیں۔ مزید برآں خاص اصحابِ رسول اُس معاشرے میں تن تنہا رہ گئے اور دوسرے افراد حکومت میں نفوذ کرگئے۔ اس طرح مسئلہ خلافت اور حکومت پر مسلمان دودھڑوں میں تقسیم ہوگئے اور آہستہ آہستہ یہ خلیج وسیع سے وسیع تر ہوتی گئی اور یہ بات مسلمانوں میں مزید دھڑے بندیوں کا باعث بنی۔ کچھ عرصہ گزرنے کے بعد عیسائی، یہودی اور اُن تمام لوگوں نے جن کے دلوں میں اسلام کے خلاف کینہ تھا، اِس سانحہٴ عظیم سے بہت فائدہ اٹھایا اور ہر ممکنہ کوشش کی کہ مسلمانوں کے درمیان زیادہ سے زیادہ اختلافات پیدا کئے جائیں۔ اُن کااصلی مقصد تو صرف دین اسلام کی بنیاد اکھاڑنا تھا۔ وہ کسی حد تک اس میں کامیاب بھی ہوئے ۔ وہ افراد جنہوں نے مسلمانوں کے درمیان اختلافات پیدا کئے اور اس چیز کا باعث بنے کہ مسلمان قیامت تک متحد نہ ہو سکیں، یقینا اُس دن اُن سے اس کے بارے میں پوچھا جائے گا، جس دن چھوٹی سے چھوٹی نیکی اور چھوٹی سے چھوٹی بدی کا بھی حساب ہوگا۔ اُس وقت اُن کے پاس شرمساری کے سوا کوئی جواب نہیں ہوگا۔ البتہ اُس دن شرمساری کوئی فائدہ نہیں دے گی۔ آج ضرورتِ وقت کیا ہے؟
رحلت ِ رسولِ خدا کے بعد مسلمانوں کو جوتلخ تجربات ہوئے اور جن نازک حالات سے گزرے، اُن کا تقاضا یہ ہے کہ مسلمان جس فرقہ یا نظریہ کے بھی ماننے والے ہوں، اپنا فرض سمجھ
کر آگے آئیں اور موجودہ دور کی ترقیِ علم و دانش سے فائدہ اٹھاتے ہوئے رسولِ خدا کے اُن تمام ارشادات جو انہوں نے حکومت ِ اسلامی اور اس کے رہبران کے تعارف کیلئے فرمائے، کا مطالعہ کریں۔ یہ مطالعہ اُسی وقت فائدہ دے گا جب ہر قسم کے تعصبات اور شیطانی وسوسوں کو بالائے طاق رکھ کر تلاشِ حق کیلئے جستجو کی جائے۔ ملت ِ اسلامیہ سے عمومی طور پر اور برادران و خواہرانِ اہلِ سنت سے خصوصی طورپر مخلصانہ درخواست ہے کہ علمائے اہلِ سنت کی کتابوں کا بھی مطالعہ کریں جن میں انہوں نے مقام اور فضائلِ حضرت علی علیہ السلام بیان کئے ہیں۔ قرآنِ پاک میں بہت سی آیات ہیں جو حضرت علی علیہ السلام اور اہلِ بیت کی شان میں نازل ہوئیں۔ اس بارے میں رسولِ خدا کی بہت سی روایات موجود ہیں۔ ان کے علاوہ خلیفہٴ اوّل حضرت ابوبکر، خلیفہٴ دوم حضرت عمر، خلیفہٴ سوم حضرت عثمان اور حضرتِ عائشہام الموٴمنین اور دیگر فلسفی اور دانشمند حضرات نے بیشمار فضائل حضرت علی علیہ السلام کے بارے میں بیان فرمائے ہیں۔ اس لئے ہماری گزارش ہے کہ اُن کا بھی مطالعہ کیا جائے۔ اس طرح پڑھنے والے کو اصل حقائق جس طرح واقع ہوئے ہیں، کا علم ہوجائے گا۔ کچھ اس کتاب کے بارے میں
کتابِ ہذا کے چند باب ہیں ،جس کے بابِ اوّل میں امامت کے بارے میں دلائلِ عقلی لکھے گئے۔ بعد کے ابواب میں روایات اور دیگر مسائل کو زیر بحث لایا گیا ہے۔ سب سے زیادہ روایات برادرانِ اہلِ سنت کی کتابوں سے لی گئی ہیں تاکہ برادران و خواہرانِ اہلِ سنت اپنی ہی کتابوں کے مندرجات سے آگاہ ہوں اور مقامِ اعلیٰ و عظمت ِحضرت علی علیہ السلام اور اہلِ بیتِ اطہار سے آشنا ہوں۔
کتاب کے باقی ابواب میں موضوع کو آگے بڑھاتے ہوئے آیاتِ قرآنی، احادیث ِ پیغمبر اکرم، بیاناتِ خلفائے اوّل ، دوم اور سوم، حضرت بی بی عائشہ اُم الموٴمنین اور علمائے اہلِ سنت کو جمع کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ حضرت علی علیہ السلام کے بارے میں غیر مسلم دانشوروں کے نظریات کو بھی ایک باب میں اکٹھا کیا گیا ہے۔ آخر میں مخالفین اور دشمنانِ حضرت علی و اہلِ بیت علیہم السلام کے نظریات بھی تحریر کئے گئے ہیں۔ مجھے اُمید ہے کہ خدا کے لطف و کرم سے اور امامِ زمانہ حضرتِ حجة ابن الحسن علیہ السلام کی نظر عنایت سے یہ کتاب تمام مسلمان بھائیوں کیلئے مفید ثابت ہوگی۔ میں خدائے پاک کا شکرگزار ہوں کہ جس نے مجھے ہمت اور توفیق دی کہ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اُن کے خانوادئہ نورانی کی تھوڑی سی خدمت کرسکوں۔میں واجب سمجھتا ہوں کہ اس موقع پر امام خمینی اور دیگر شہدائے اسلام اور خصوصاً اپنے عزیز یحییٰ سراج کو خراجِ تحسین پیش کروں۔ میں مولا علی علیہ السلام کے فرزند ِصالح ، رہبرمعظم ایران حضرت آیت اللہ علی خامنہ ای مدظلہ العالی اور تمام خدمت گزارانِ اسلام جو امامِ زمانہ علیہ السلام کے ظہور کیلئے سازگار ماحول پیدا کررہے ہیں، کی سلامتی اور درازیٴ عمر کا خواہاں ہوں۔ آخر میں اُن تمام رفقائے محترم کا جنہوں نے میرے اس کام میں میری مدد فرمائی (استادِ محترم حضرت حجة الاسلام والمسلمین حاجی شیخ ید اللہ سراج اور استاد محترم حضرت حجة الاسلام حاجی شیخ محمود گودرزی زاہدی اور ناشر محترم جناب آقای سید مہدی نبوی) کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور خدائے بزرگ وبرترسے اُن کیلئے اجر عظیم کا طلبگار ہوں۔ والحمدللّٰہ ربّ العالمین 15/شعبان المعظم1412ہجری محمد ابراہیم سراج، قم،المقدسہ ایران |