|
عجیب و غریب تحریفات
اہل سنت کا خیال یہ ہے کہ بے بنیاد اور بغیر کسی ملاک و معیار کے ہر کس و ناکس کے لیے لفظ صدیقہ کا اطلاق و استعمال کیا جاسکتا ہے، یا اس طرح کے القاب کی طرح احادیث گھڑنا اور ان کا استعمال کرنا کہ جو اس دور میں از باب مصلحت کارنامے انجام دیئے گئے۔جب کہ تحقیق و جستجو کے بعد یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ یہ کام ان کے خیال کے برعکس ہے ۔
مدائنی نے اپنی کتاب الاحداث میں روایت نقل کی ہے کہ معاویہ ابن ابی سفیان نے حکم دیا کہ فضائل عثمان میں احادیث گھڑی جائیں اور جب عثمان کے بارے میں گھڑی ہوئی احادیث کا انبار لگ گیا اور سب میں منتشر ہوگئیں تب احادیث گھڑنے والوں کے لیے لکھا :
جب میرا یہ خط آپ کے ہاتھ میں پہنچے تو لوگوں کو فضائل صحابہ اور خلفاء راشدین کے بارے میں روایت نقل کرنے کو کہنا اور ابوتراب کے بارے میں کوئی بھی ایسی خبر کہ جس کو کسی مسلمان نے نقل کیا ہو نہ چھوڑنا مگر اس کے مقابل اور اسی طرح کی روایت صحابہ کی شان میں بھی بنا لینا اور مجھے لکھ بھیجنا چونکہ یہ کام مجھے بہت پسند ہے اور اس سے میں بہت خوشحال ہوتاہوں اور یہ کام ابوتراب اور ان کے شیعوں کی دلیلوں کو باطل کرنے کا بہترین طریقہ ہے اور عثمان کے فضائل ان لوگوں پر سخت گذرتے ہیں ۔
٢٨١
راوی کا بیا ن ہے کہ میں نے معاویہ کے خط کو لوگوں کے سامنے پڑھا اور بہت زیادہ روایات کہ جو گھڑی ہوئی و جعلی تھیں صحابہ کی شان میں جمع کیں اور لوگوں نے بھی اس سلسلے میں بہت کوششیں کیں یہاں تک کہ ایسی روایات کو منبروں پر بلند آواز سے پڑھتے تھے اور اس طرح کی روایات مدرسوں میں معلمین و اساتید کودی جاتیں ، وہ بچوں اور نوجوانوںکو تعلیم دیتے اور اس طرح ان کی تربیت ہوتی وہ ایک دوسرے سے ان روایات کو نقل کرتے اور قرآن کی طرح ان روایات کو حفظ کرایا جاتا حتی کہ لڑکیا ں اور عورتیں ، غلام و کنیز سب ان روایات کو حفظ کرتے اوراس طرح یہ سلسلہ چلتا رہا ۔(١)
٭ وہ روایات کہ جو ابوبکر کے بارے میں گھڑی گئیں ان میں ایک یہ ہے کہ ابوبکر زمانہ جاہلیت ہی سے لقب صدیق سے ملقب تھے ۔(٢) یہ اس لیے وضع ہوئی چونکہ رسول اکرمۖ زمانہ جاہلیت اور قبل از بعثت ہی صادق و امین کے لقب سے مشہور تھے لہذا ابوبکر کورسول اکرمۖ کے برابر و مقابل میں پیش کیا جاسکے ۔
٭اسی طرح کی روایت گھڑی کہ خداوندعالم کے فرمان (والذی جاء بالصدق و صدق بہ )(٣) ''اور وہ کہ جو سچائی لایااور اس کی تصدیق کی ''سے مراد ابوبکر ہے ۔
..............
(١) شرح نہج البلاغہ (ابن ابی الحدید ) : ١١ ٤٤(بہ نقل از مدائنی )
(٢) سمط النجوم العوالی :٢ ٤١٢۔
(٣) سورہ زمر (٣٩) آیت ٣٣۔
٢٨٢
عطاء کا بیان ہے کہ وہ سچائی لایا ''سے مراد محمد ہیں اور اس کے بعد سچائی کے انوار کی برکتوں سے یہ صدق وسچائی ابوبکر پر جلوہ گر ہوئی اور ان کالقب صدیق ہوگیا ۔(١) یا یہ کہ خداوندعالم نے قرآن کریم میں ابوبکر کانام صدیق رکھا اور ان کی شان میں یہ آیت نازل ہوئی (والذی جاء بالصدق و صدق بہ )(٢)
٭ خود حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی زبانی حدیث گھڑی گئی کہ آپ نے خداکی قسم کھاکر فرمایا کہ ابوبکر کا نام صدیق آسمان سے نازل ہوا ! (٣)
٭ اسی طرح حضرت علی پر ایک اور جھوٹ بولا گیا کہ آپ سے اصحاب رسول کے متعلق دریافت ہوا اورکہا گہا کہ ابوبکر بن قحافہ کے بارے میں ہمیں کچھ بتائیں تو آپ نے فرمایا کہ یہ وہ انسان ہیں جن کے بارے میں خداوندعالم نے محمدۖ اور جبرائیل کی زبان سے صدیق کہلوایا وہ رسول خدا ۖکے خلیفہ ہیں ، پیغمبراکرمۖ نے ان کو ہمارے دین کے لیے پسند فرمایا تو ہم نے بھی ان کو اپنی دنیا کے لیے پسند کیا ۔(٤)
..............
(١) تفسیر السلمی :٢ ١٩٩۔
(٢) سورہ زمر (٣٩) آیت ٣٣۔ الاحادیث المختار ہ :٣ ١٢۔ تاریخ دمشق : ٣٠ ٤٣٨۔
(٣) تاریخ دمشق :٣٠ ٢٥۔ اسد الغابہ :٣ ٢١٦۔
(٤) تاریخ الخلفا ء :١ ٣٠۔ اعتقاد اہل سنت :٧ ١٢٩٥۔ تہذیب الاسماء :٢ ٤٧٩۔ کنزالعمال :٣ ١٠١،حدیث ٣٦٦٩٨۔
٢٨٣
٭ بلکہ احادیث یہاں تک گھڑی گئیں کہ جن سے بنی امیہ اور بنی عباس کی حکومتوں کی بھی تائید ہونے لگی ، لہذا کہا گیا کہ امیر المؤمنین نے خطبہ دیا اور فرمایا کہ جان لو پیغمبراکرمۖ کے بعد بہترین مرد ابوبکر صدیق ہیں اور ان کے بعد عمر فاروق اور ان کے بعد عثمان ذوالنورین اور ان کے بعد میں اور میرے بعد خلافت آپ لوگوں کے کاندھوں پر ہے جس کو چاہو خلیفہ بنالینا اور میری کوئی حجت آپ پر نہیں ہے ۔(١)
٭ایک جھوٹی روایت حضرت علی علیہ السلام سے منسوب کی گئی کہ آپ نے فرمایا کہ جبرئیل پیغمبراکرم ۖ کے پاس آئے ، پیغمبراکرمۖ نے ان سے پوچھا کہ کون میرے ساتھ ہجرت کرے گا ؟ جبرئیل نے کہا: ابوبکر کہ وہ وصدیق ہیں۔(٢)
٭ اور دوسری روایت رسول خد ا ۖ کی طرف منسوب کی گئی کہ آپ نے فرمایا کہ جبرئیل میرے پاس آئے میںنے ان سے پوچھا کہ میرے ساتھ کون ہجرت کرے گا؟ تو جواب دیا کہ ابوبکر کہ وہ آپ کے بعد آپ کی امت کی سرپرستی فرمائیں گے اور وہ آپ کے بعد آپ کی امت میں بہترین فرد ہیں ۔(٣)
..............
(١) الریاض النضرہ :١ ٣٨١، حدیث ٢٦٠۔ الغدیر :٨ ٣٨۔
(٢) مستدرک حاکم :٣ ٥۔ تاریخ دمشق : ٣٠ ٧٣۔ کنزالعمال :١٦ ٦٦٧، حدیث ٤٦٢٩٢۔ الکامل (ابن عدی) :٦ ٢٨٩۔
(٣) الفردوس بماثور الخطاب :١ ٤٠٤، حدیث ١٦٣١۔ کنزالعمال :١١ ٥٥١، حدیث ٣٢٥٨٩۔ (بہ نقل ازماخذ سابق )۔ الغدیر :٥ ٣٥٥۔ (بہ نقل از کنزالعمال)
٢٨٤
٭ حضرت علی علیہ السلام کی طرف ایک جھوٹی روایت کی نسبت دی گئی ہے کہ آپ نے فرمایا : روز قیامت منادی ندادے گا کہ'' این السابقون ''سب سے پہلے ایمان لانے والے اور نیک کام کرنے والے کہاں ہیں ؟ سوال ہوگا کون؟ تو منادی جواب دے گا ابوبکر کہاں ہیں ؟ اسی وجہ سے خداوندمتعال ابو بکر کے لیے خصوصی تجلی دکھائے گا اور تمام لوگوں کے لیے عام ۔(١)
٭ حضر ت علی سے ایک مرفوع روایت نقل کی گئی ہے کہ آپ نے فرمایا : انبیاء و رسل کے بعد سورج کسی پر بھی نہیں چمکا کہ جو ابوبکر سے افضل ہو ۔(٢)
٭ ایک اور روایت حضرت علی سے بطور مرفوع نقل ہوئی ہے کہ پیغمبراکرمۖ نے فرمایا :
اے ابوبکر خداوندعالم نے خلقت آدم سے لیکر روزقیامت تک اس شخص کا ثواب کہ جوخدا پر ایمان لایا مجھ کو عطا کیا اور جو شخص مجھ پر ایمان لایااس کا ثواب میری بعثت سے لیکر روز قیامت تک
..............
(١) رؤیة اللہ (دارقطنی):١ ٧٠ ، حدیث ٥٧۔ الریاض النضرہ :٢ ٧٥۔ سمط النجوم العوالی :٢ ٤٤٣، حدیث ٧٤۔ تفسیر فخررازی :١٢ ٢١۔ اللآلی المصنوعة :١ ٢٦٤۔
(یہ روایت مختلف الفاظ کے ساتھ نقل ہوئی ہے کہ جو معنی میں ایک ہی ہے ) یہ انتہائی ضعیف ہے اس کے راوی کو جعل حدیث کی نسبت دی گئی ہے ۔ دیکھیے:ـ الکشف الحدیث :١ ١٨٥، حدیث ٢٢٧۔ المجروحین :٢ ١١٥۔ المغنی من الضعفاء : ٢ ٥٧٥و ٧٦٥ ۔ میزان الاعتدال :٥ ١٤٨ و ١٣١۔ و جلد : ٧ ٣١١۔ الموضوعات :١ ٢٢٥۔ اور دوسری کتابیں جو ضعفاء و مجروحین کے متعلق لکھی گئی ہیں ۔
(٢) الانساب (سمعانی ) :٢ ٥١۔ تاریخ بغداد :١٢ ٤٣٣۔ تاریخ دمشق :٢٠٨٣٠۔ کنزالعمال :١١ ٥٥٧، حدیث ٣٢٦٢٢۔(ان سب ماخذ نے ابو درداء سے نقل کیا ہے ) اور الغدیر :٧ ١١٢ میں یہ حدیث علامہ حرفیش سے کتاب الروض الفائق ٣٨٨ میں بطور مرفوع حضرت علی سے منقول ہے ۔
٢٨٥
آپ کو عطا کیا ۔(١)
٭ ایک شخص نے حضرت علی سے نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا : رسول خدا ۖ نے ہم میں سے کسی کو منصب امامت وامارت کے لیے منتخب نہیں فرمایا مگر یہ کہ ہم نے اپنی طرف سے جس کو پسند کیا اور منتخب کیا کہ اگر صحیح رہا تو خدا کی جانب سے ہے اوراگر صحیح نہ رہا اور خطا ء و نادرست رہا تو ہماری جانب سے ۔رسول خدا کے بعد ابوبکر خلیفہ ہوئے اور امارت کو قائم کیا اور مضبوطی سے چلایا پھر عمر خلیفہ ہوئے انہوں نے بھی خلافت کو قائم کیا اور استقلال و استحکام پیدا کیا یہاں تک کہ دین مضبوط اور پائدار ہوگیا اور آرام و سکون حاصل ہوا ۔(٢)
٭ یہ بھی جھوٹ نقل کیا ہے کہ ابوبکر نے حضرت علی سے کہا کہ کیا آپ کو معلو م تھا کہ میں آپ سے پہلے اس امر خلافت کا عہدہ دار ہوں آپ نے فرمایا: آپ نے سچ کہا ہے اے خلیفہ رسول خدا ، پھر ابوبکر نے ہاتھ بڑھایا اور علی نے بیعت کی ۔(٣)
٭ اور حضرت علی علیہ السلام سے روایت نقل ہوئی ہے کہ رسول خدا نے فرمایا کہ میں دنیا سے نہ گیا مگر یہ کہ خداوندعالم نے ہمیںبتا دیا کہ میرے بعد سب سے افضل ابوبکر ہیں۔
..............
(١) فضائل احمد :١ ٤٣٤۔ الفردوس بماثورالخطاب :٥ ٣٠٦، حدیث ٨٢٧٠۔ الریاض النضرہ : ٢ ١٢١۔ سمط النجوم العوالی :٢ ٤٤١، حدیث ٦٩۔ تاریخ بغداد :٥ ١٠، ترجمہ ٢٣٠٩۔ تاریخ دمشق : ٣٠ ١١٨۔
(٢) السنة (عبداللہ بن احمد) :٢ ٥٦٦۔ علل دار قطنی :٤ ٨٧۔ الریاض النضرة :٢ ١٩٨۔ اور دیکھیے :ـ مسند احمد:١ ١١٤۔ السنة (عمرو بن ابی عاصمی ) ٥٦١۔
(٣) الغدیر : ٨ ٤٠، حدیث ٦٠۔
٢٨٦
اوریہ بھی ہم پر واضح کردیا کہ کہ ابوبکر کے بعد افضل ترین فرد عمر ہیں ۔(١)
٭بصورت مرفوع حضرت علی سے روایت نقل ہوئی ہے کہ پیغمبراکرمۖ نے فرمایا : اے علی یہ دو فراد ابوبکر و عمر ،اولین و آخرین میں سے انبیاء و رسل کے علاوہ ،جنت کے بوڑھوں کے سردار ہیں، اے علی یہ بات ان دونوں کو نہ بتانا لہذا میں نے بھی ان کو باخبر نہیں کیا یہاں تک کہ وہ مرگئے ۔(٢)
ان روایات کو خود امیر المؤمنین ہی کی نسبت سے گھڑا گیا تاکہ آپ کے مطالبہ خلافت کو ناحق دکھایا جائے یا فراموش کردیا جائے اور اس پر پردہ ڈا ل دیا جائے ، آپ کے احتجاجات و اعتراضات کو چھپادیا جائے اور کوئی متوجہ نہ ہونے پائے کہ انہوں نے چھ مہینے یا بالکل ہی حاکمان وقت کی بیعت نہیں کی ۔
ان روایات کو وضع و جعل کرکے یہ کوشش کی گئی کہ سقیفہ کی چال بازیوں سے حسد و دشمنی کی علامتوں کو پاک و صاف کردیا جائے نیز یہ کہ پیغمبر اکرمۖ کے جنازے کو چھوڑا ، اسامہ بن زید کے لشکر سے بھاگ کر واپس آئے اور ابوبکر نے خود ہی عمر کو خلیفہ بنایا ، عمر نے ایک پروپیگنڈہ کے ساتھ خلافت کو شوری کے حوالے کیا ، ان سب باتوں پر پردہ پڑ جائے ۔
..............
(١) السنة (عمرو بن ابی عاصمی ) ٥٥٥، حدیث ١٣٠٠۔ تاریخ دمشق : ٣٠ ٣٧٥۔ سبل الھدی و الرشاد :١١ ٢٤٧۔
(٢) مسند احمد : ١ ٨٠۔ مصنف ابن ابی شیبہ : ٧ ٤٧٣۔ المعجم الاوسط : ٤ ٣٥٩۔ تاریخ بغداد : ٧ ١٢١۔ تاریخ دمشق :٣٠ ١٦٦ـ١٧٠۔ اسد الغابہ : ٤ ٦٣۔ الامامة والسیاسة :١ ١٠۔
٢٨٧
ان جھوٹی روایات کو گھڑنے کا مقصد یہ ہے کہ امیر المؤمنین علیہ السلام کے شکوے اور آپ کے ایام خلافت کے درد بھرے خطبات و کلمات جیسے خطبہ شقشقیہ اور دوسرے وہ کلمات و فقرات کہ جن میں آپ نے خلفاء و حکام کی قلعی کھولی ہے، ان کو مبہم و مشتبہ کردیا جائے اور ان کو شک و شبہہ کی دھندلاہٹ میں ڈال دیا جائے ۔
ان جھوٹی و من گھڑت روایا ت سے بنی امیہ اپنے ملک اور نظام حکومت کو چلانے اور حق کو نابود کرنے میں کوشاں رہے ، ان کو جعلی روایات سے بہت سہا را ملا اور حق کو خوب پائمال کیا ، جتنا ہوسکتا تھا باطل کو ابھارا اورپروان چڑھایا ۔
ان میں سے بعض مطالب خندہ آور بھی ہیںاور غم انگیز بھی، نہیں معلوم کہ اس بات پر ہنسا جائے یا گریہ کیا جائے مثلا ً یہ کہ امیر المؤمنین کی شجاعت کو اندھیر ے میںڈال دیا گیا جب کہ آپ کی شجاعت ضرب المثل وزبان زد عام و خاص تھی اور تاریخ وسیر میں مفصل باب موجود ہیں جوآپ کی شجاعت و دلیری کے قصیدہ خواں ہیں اور مشہور و معروف ہے کہ آپ کے دست مبارک سے بڑے بڑے نامور پہلوان قتل ہوئے اور جو بھی آپ کے سامنے آیا بچ نہ سکا اور جو بھی بچ کے بھاگا تو اپنے آپ کو ننگا کرکے، اپنی شرمگاہ کو کھو ل کر جان بچائی ۔(١)
..............
(١) تاریخ نے اس طرح کے تین حادثے ہمارے لیے نقل کئے ہیں :
سب سے پہلے طلحہ بن ابی طلحہ کہ جو جنگ احد میں مشرکوں کا علمبردار تھا جب حضرت علی کے مقابلے آیا تو ننگا ہوکر بھاگا۔اسی طرح جنگ صفین میں ایک مرتبہ بسر بن ارطاة پر حضرت علی نے حملہ کیا اور اس کو یقین ہوگیا کہ اب جان بچنے والی نہیں ہے تو کشف عورت کی، ننگا ہوگیا ، آپ نے منھ پھیر لیا اور وہ بھاگ گیا ۔۔ بقیہ اگلے صفحہ پر۔۔
٢٨٨
یہ چاہتے ہیں کہ ان سب پر پردہ ڈال دیا جائے اور مطلقاً شجاعت کی نسبت ابوبکر کی طرف دی جائے جب کہ ہم نے صدر اسلام سے آخر تک ایک شخص کے متعلق بھی نہیں سنا کہ اس کو ابوبکر نے قتل کیا ہو !۔
٭ خود حضرت علی سے ہی روایت نقل کی گئی کہ آپ نے خطبہ کے دوران لوگوں سے دریافت کیا کہ سب سے بہادر کون ہے ؟ توسب نے کہا : آپ ۔
آپ نے فرمایا آگاہ ہوجاؤ کہ میں نے کسی سے بھی جنگ نہیں کی مگر انتقام کی خاطر لہذا تم مجھے بتاؤ کہ بہادر و دلیر کون شخص ہے ؟ سب نے کہا کہ نہیں معلوم کون ہے ۔
آپ نے فرمایا :ابوبکر ہے ، جنگ بدر میں ہم نے رسول خدا کے لیے ایک سائبان و محافظ قرار دیا اور آپس میں کہا کہ کون رسول خدا ۖ کے ساتھ رہے گا اور آپ ۖ کی حفاظت کرے گا تاکہ کوئی مشرک آپ تک نہ پہنچ سکے ، خدا کی قسم کوئی بھی آگے نہ بڑھا سوائے ابوبکر کے کہ جو ننگی تلوار کے ساتھ پیغمبراکرمۖ کے قریب کھڑے رہے اور اگر کوئی مشرک پیغمبراکرمۖ کے قریب آتا تو ابوبکر اس پر حملہ آور ہوتے اور اس کے شر سے رسول خدا ۖ کو امان میں رکھتے ۔پس وہ سب سے زیادہ شجاع و بہادر ہیں !
..............
۔۔۔ پچھلے صفحہ کا بقیہ۔
پھر دوسری مرتبہ عمرو بن عاص نے یہی واقعہ دہرایا کہ جو تاریخ میں بہت مشہور ہوا کہ جس کے ذکر کی ضرورت بھی نہیں ہے ۔ السیرة الحلبیہ:٢ ٤٩٨۔ السیرة النبویہ (ابن کثیر) :٣ ٤٠۔ البدایہ والنہایہ:٤ ٢٣۔
(١) مسند بزار :٢ ١٥، حدیث ٧٦١۔ السیرة النبویة (ابن کثیر) : ٢ ٤١٠۔ فتح الباری :٧ ١٢٩۔
٢٨٩
ان کے علاوہ دسیوں روایات ابوبکر کے بارے میں نقل کی گئی ہیں کہ جن میں سے بعض روایا ت خود امیر المؤمنین سے منسوب ہیں !۔
ان جھوٹی و من گھڑت روایا ت سے یہ چاہا گیا ہے کہ صدیقیت ، شجاعت ، اولویت و امارت اور خلافت کو ابوبکر کے لیے ثابت کریں ۔ اور یہ سب ان احادیث کے مقابل میں گھڑی گئیں کہ جو پیغمبراکرمۖ نے حضرت علی کے بارے میں ارشاد فرمائی تھیں ۔
٭ کہتے ہیں کہ ابوبکر کو زمانۂ جاہلیت ہی میں صدیق کا لقب دیا گیا اور اس کے بعد محمد ۖبن عبداللہ مبعوث بہ رسالت اور صادق و امین سے ملقب ہوئے۔!
٭ خود رسول خداۖ ہی سے روایت نقل کی گئی کہ آپ نے ابوبکر سے فرمایا کہ اگر میں کسی کو دوست بناتا تو یقینا اپنا دوست و خلیل ابوبکر کو انتخاب کرتا ۔ یہ روایت گھڑی گئی چونکہ علی اور رسول خداۖ کے درمیان برادری و عقد اخوت کہ جو شیعہ و سنی دونوں کے یہاں مسلم ہے اس کے مقابل میں پیش کی جاسکے ۔(١)
کتنے تعجب کا مقام ہے کہ یہ روایت خلت (ابوبکر کو دوست بنانے والی روایت) صحیح ہوتی تو پھر کیوں رسول خداۖنے روز مواخات (ایک دوسرے کو بھائی بنانے کے دن) ابوبکر کو اپنا بھائی نہ بنایا
..............
(١) صحیح بخاری :١ ١١٩ـ ١٢٠، کتاب الصلوة ،باب الخوخة و الممر فی المسجد۔ و جلد : ٤ ١٩٠، کتاب بدء الخلق ، باب النبی سدوا الابواب الا باب ابی بکر ۔ صحیح مسلم : ٢ ٦٨، باب فضل بناء المسجد و الحث علیھا ۔ و جلد : ٧ ١٠٨، کتاب فضائل الصحابہ ، باب من فضائل ابی بکر۔ سنن ابن ماجہ :١ ٣٦، حدیث ٩٣۔سنن ترمذی : ٥ ٢٧٠، حدیث ٣٧٤٠۔
٢٩٠
بلکہ ابوبکر کو عمر کا بھائی بنایا ۔(١)
کیا بھائی و عقد اخوت میں دوستی نہیں ہے یا دوستی اس سے بڑھ کر کوئی اور چیز ہے ؟!۔
٭ انہیں گھڑی ہوئی روایات میں سے یہ بھی ہے کہ پیغمبراکرمۖ نے فرمایا کہ اگر ابوبکر کو ترازو و میزان کے ایک کف و پلڑے میں رکھا جائے اور تمام امت کو دوسرے پلڑے میں تو ابوبکر کا پلڑا بھاری رہے گا ۔(٢)
یہ روایت اس حدیث کے مقابلے گھڑی گئی کہ جورسول خدا ۖ نے حضرت علی کے بارے میں فرمایا تھا : روز خندق علی کی ضربت عبادت ثقلین پر بھاری ہے ۔(٣)
..............
(١) مسند احمد :٥ ٢٥٩۔ مجمع الزوائد : ٩ ٥٨۔ المعجم الکبیر :٨ ٢١٤۔ الموضوعات :٢ ١٤۔ اللآلی المصنوعہ :١ ٣٧٨۔(ابن جوزی و سیوطی کا بیان ہے کہ یہ روایت صحیح نہیں ہے ) دیکھیے اس روایت کے مصادر ، الغدیر :٧ ٢٨٥،باب ١٤، ابوبکر فی کفة المیزان ۔
(٢) دیکھیے :ـ مستدرک حاکم :٣ ٣٢۔ تاریخ دمشق :٥ ٣٣٣۔ مناقب خوارزمی ١٠٧، حدیث ١١٢۔ شواہد التنزیل :٢ ١٤۔ الطرائف ٥١٤۔
اس سلسلے میں ایک لطیفہ بھی مشہور ہے کہ یہ روایت جب بہلول کے سامنے پیش کی گئی تو بہلول نے فرمایا کہ اگر یہ روایت صحیح ہو تو ترازو خراب ہے ۔ دیکھیے الصوارم المھرقہ (قاضی نور اللہ شوشتری) ٣٢٩۔
(٣) اس روایت کے منابع پہلے بھی گذرچکے ہیں ، سیوطی نے اللآلی مصنوعہ میں بہت زیادہ صحیح سند کے ساتھ نقل کیا ہے اور دیکھیے :ـ الغدیر :٣ ١٢٧۔
٢٩١
٭ رد شمس (سورج کو پلٹانے) والی روایت کے مقابلے میں ایک روایت گھڑی گئی کہ سورج ابوبکر سے متوسل ہوا !۔(١)
٭ اور جس طرح یہ ثابت ہے کہ رسول اکرمۖ نے فرمایا: علی کا نام ساق عرش پر لکھا ہے ۔(٢ ) توابوبکر کے لیے بھی کہا جانے لگا کہ ساق عرش پر ابوبکر کا نام اس طرح لکھا ہوا ہے ۔(٣)
٭ رسول خدا ۖ کی اس فرمائش کے مقابلے میںکہ آپ نے فرمایا : علی میرے بعد میرا خلیفہ و وصی و جانشین ہے اور جو اس کی اتباع و پیروی کرے گا وہ کامیاب ہے اور کبھی گمراہ نہیں ہوسکتا ۔ یہ روایت گھڑی گئی کہ خداوندعالم نے ابوبکر کو میرا خلیفہ بنایا اور وہ میرے دین میں میرا وصی ہے اس کی پیروی کرو اور اگر اس کی اطاعت کروگے تو راہ حق پر رہو گے ۔(٤)
..............
(١) اس روایت کا کامل متن ، الغدیر :٧ ٢٨٨ میں نزھة المجالس :٢ ١٨٤ ، سے نقل ہوا ہے ۔
(٢) المعجم الکبیر :٣٠٠٢٢۔ نظم درر السمطین ١٢٠۔ کنزالعمال : ١١ ٦٢٤، حدیث ٣٣٠٤٠۔ شواہد التنزیل : ١ ٢٩٣، حدیث ٣٠٠۔ و صفحہ ٢٩٨، حدیث ٣٠٤۔ تاریخ بغداد :١١ ١٧٣۔ تاریخ دمشق :١٦ ٤٥٦۔
(٣) تاریخ دمشق :٣٧ ٣٤٤۔و جلد :٤٤ ٥٠۔ میزان الاعتدال :٣ ١١٧، حدیث ٥٨٠٠۔ الکامل (ابن عدی ) :٥ ٣٣۔
(٤) اس روایت کو ابونعیم نے فضائل الصحابہ میں نقل کیا ہے اور وصابی نے الاکتفاء میں نقل کیا ہے ، اور دیکھیے :ـ تاریخ بغداد :١١ ٢٩٢، ترجمہ ٦٠٧١ و تاریخ دمشق :٣٠ ٢٢٤۔۔ کنزالعمال :١١ ٥٥، حدیث ٣٢٥٨٦۔
٢٩٢
٭ حدیث طیر (١)اور مرغ بریان کے مقابے میں ابوبکر کے لیے جگر بریان والی روایت جعل کی گئی ۔(٢)
٭ اور اس حدیث کے مقابلے میں کہ آپ نے فرمایا کہ خداوندعالم کی جانب سے رسول خدا ۖ اور خدیجہ کے لیے سلام آیا اور خدا کی مرضی فاطمہ کی مرضی و خوشنودی پر موقوف ہے ، یہ روایت گھڑی وجعل کی گئی کہ جبرئیل رسول خدا ۖ کے پاس آئے اور کہا کہ خداوندعالم نے ابوبکر کو سلام کہا ہے اور فرمایا ہے کہ کیا اس فقر و نادار ی میں خداسے راضی ہو یا ناراض۔(٣)
اور اسی طرح دسیوں روایات جھوٹی گھڑی گئیں کہ جن کو عقل و عرف و شرع بے بنیاد بتاتی ہے اور ان کے راوی و متن روایا ت خود ان کے کلام معصوم نہ ہونے پر گواہ ہیں ۔
بہر حال ہم اس مکمل گفتگو میں اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ قضیہ فدک و میراث میں کون صدیق و صادق اورسچا ہے اور کون کاذب و جھوٹا ہے ، یہ حادثہ رسول اکرمۖ کی وفات کے بعد پیش آیا کہ جس کو ہم نے روایات و نصوص کے ساتھ بیان کردیا ہے۔
..............
(١) سنن ترمذی :٥ ٣٠٠ ، حدیث ٣٨٠٥۔ مستدرک حاکم :٣ ١٣٠ـ١٣١۔ المعجم الکبیر :١ ٢٥٣۔ و جلد : ١٠ ٢٨٢۔ معرفة علوم الحدیث ٦۔ مسند ابی حنیفہ ٢٣٤۔ نظم درر السمطین ١٠١۔
(٢) الریاض النضرہ :٢ ١٣٥، حدیث ١٠۔ مرأ ة الجنان :١ ٦٨، احادیث السنة الثالثہ عشرة۔
(٢) تاریخ بغداد : ٢ ١٠٥۔ تاریخ دمشق :٣ ٧١۔ المجروحین (ابن حبان) :٢ ١٨٥ ۔ میزان الاعتدال :٣ ١٠٣۔ لسان المیزان :٤ ١٨٥،(اس روایت کو ذہبی اور ابن حجر نے جھوٹ مانا ہے )۔
٢٩٣
اس کتاب میں بے بنیادو جھوٹے دعوے اورسچائیت و واقعیت دونوں کو مد نظر رکھا گیا ہے ۔
اور اب جب کہ صدیقیت کے کچھ معیار ہمارے ایمان اور دل پر روشن ہوگئے ہیں یہ معیار ابوبکر ابن قحافہ پر تطبیق نہیں کرتے کہ جو ہم نے ان کی سیرت وزندگی میں محسوس کیا ہے ۔جب کہ صدیقیت علی و زہرا اور ان کی معصوم اولاد سے کاملاً مطابقت رکھتی ہے اور ان کے علاوہ کسی سے ہم آہنگ ومطابق نہیں ہے ۔
وآخردعوانا الحمدللہ رب العالمین۔
| |