منزلت صدیقہ طاہرہ سلام اللہ علیہا
صدیقہ طاہرہ حضرت فاطمہ زہرا ، نبوت اور وصایت کے درمیان پیوند دینے والی کڑی کا نام ہے ،چونکہ آپ رسول ۖ کی بیٹی اور وصی کی زوجہ ہیں اور دیگر اوصیاء آپ ہی کے بیٹے ہیں کہ جن پر میراث نبوت تمام ہوتی ہے ۔(١)
فاطمہ وہ نور ہے کہ جو محمد رسول اللہۖ کی صلب سے چمکا اور پھر اس نور سے جا ملا کہ جو ابوطالب کی صلب سے تھا ، اس طرح علی و فاطمہ اس نور کے ملاپ کے مرکز ہیں کہ جو خلقت آدم سے پہلے وجود میں آیا ، چونکہ اس سے پہلے گذر چکا ہے کہ احمد بن حنبل نے فضائل الصحابہ : ٢ ٦٦٢ میںپیغمبراکرمۖ سے روایت نقل کی ہے کہ آپ نے فرمایا :
میں اور علی ابن ابی طالب ایک ہی نور کے دو ٹکڑے ہیں ہم خلقت آدم سے پہلے خلق ہوئے اور خداوندعالم نے جب آدم کو پیدا کیا تو ہمارے نور کو ان کی صلب میں رکھا ، یہاں تک کہ ہم ایک ساتھ چلتے رہے اور عبدالمطلب کی صلب میں دو حصوں میں تقسیم ہوگئے ، پس اس نور کا ایک جزء عبداللہ کی صلب میں قرار پایا اور دوسرا جزء صلب ابی طالب میں مستقر ہوا۔
..............
(١) بصائر الدرجات ٨٣، حدیث ١٠۔ امالی صدوق ٣٨٣، حدیث ٤٨٩۔
٢٥٢
حضرت علی علیہ السلام اور حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نے اپنے اپنے خطبوں میں ان حقائق کی طرف اشارہ فرمایا ہے لہذا حضرت فاطمہ زہرا اپنے خطبہ میں ارشاد فرماتی ہیں :
میں گواہی دیتی ہوں کہ میرے والد محمدۖ ، اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں ان کو مبعوث کرنے سے پہلے منتخب فرمایا اور منتخب کرنے سے پہلے اپنا رسول کہا اور ان کو مبعوث بہ رسالت کرنے سے پہلے دوسروں پر فضیلت عطا فرمائی ، میرے والد محمدۖ کی پیغمبری کا انتخاب اس وقت ہوا کہ جب لوگ عالم ذر میں پوشیدہ تھے ، عدم کے تاریک و ہولناک پردوں میں تھے اور وجود کی نعمت ان کو عطا نہ ہوئی تھی ۔
خداوندعالم نے کائنات کے علم اور تمام و قائع و حوادث کی معلومات اور مقدرات کی معرفت کے سبب اپنے اتمام امر کی خاطر، اپنے حکم کی تعمیل اور اپنے مقدرات حتمی کے جریان کی خاطر آپ کو مبعوث بہ رسالت فرمایا ۔(١)
بنابرایں حضرت فاطمہ زہرا لوگوں کو اصل نبوت پر تذکر نہیں دیتیں چونکہ امت نے ظاہرا قبول کرلیا ہے کہ محمد ۖ،اللہ کے رسول ہیں لیکن اللہ کے نزدیک آپ ۖ کی منزلت و مقام کو بیان کرنا مقصود ہے چونکہ بہت سے لوگ رسالت کے عمیق معنی کو درک نہیں کرتے اور مقام پیغمبری کو نہیں سمجھ پاتے بلکہ ایک عام انسان کی طرح اس کے متعلق بھی سطحی نظر رکھتے ہیں ۔
حضرت فاطمہ زہرا نے سمجھانا چاہا کہ معرفت واقعی ہمارے بغیر حاصل نہیں ہوسکتی اور چونکہ انسان روئے زمین پر الہٰی خلیفہ ہے لہذا امت کا رہبر اور قائد کوئی کامل انسان ہو۔
..............
(١) احتجاج طبرسی :١ ١٣٣۔ السقیفہ و فدک (جوہری) ١٤٠۔ بلاغات النساء (ابن منظور) ١٥۔
٢٥٣
جیساکہ انبیاء و رسل اور منتخب اوصیاء سب انسان کامل تھے یہ وہی افراد ہیں کہ جن کو خداوندعالم نے اپنے بندو ں کے درمیان منتخب فرمایا ہے اور وہ لائق ترین افراد ہیں ، تمام مخلوقات زمین وآسمان میں سب سے بلند و بالا مقام و درجہ پر فائز ہیں ، اور یہی افراد نص قرآنی کے اعتبار سے مطہر و پاک و پاکیزہ ہیں ۔
اس سے پہلے امیر المؤمنین امام علی اور ابوبکر کے درمیان گفتگو و احتجاج گذرچکا ہے کہ آپ نے ابو بکر سے فرمایا اگر کچھ لوگ فاطمہ پر نازیبا حرکت کی تہمت لگائیں تو آپ ان کے ساتھ کیا برتاؤ کرو گے ابوبکر نے کہا میں ان کے خلاف لوگوں کی گواہی کو قبول کرکے ان پر حد جاری کروںگا۔(١)
امیرالمؤمنین اس سوال سے یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ ابوبکر اور ان کے ماننے والے اور آئندہ کی نسل ابھی فاطمہ زہرا کی قرآنی منزلت و مقام کو درک نہیں کرپائے ہیں اور ان کے بارے میں ان لوگوں کی نظر سطحی ہے ، فاطمہ کو صرف ایک عام آدمی کی حیثیت سے دیکھتے ہیں نہ کہ ان کے اصلی مقام اور تمام مراتب کے اعتبار سے ۔
اور ہم صادق و امین پیغمبرۖاور آپ کے صدیق و امین وصی علی ابن ابی طالب اور صدیقہ طاہرہ فاطمہ زہرا کی تھوڑی بہت معرفت رکھتے ہیں جب کہ ان کی حقیقی معرفت تو ہماری سطح سے بہت بلند و بالا ہے لہذا ان کی شخصیت کے بارے میں ہماری نادانی و مجہولات بہت زیادہ ہیں چونکہ وہ بہت بلند وبالا مقام و مرتبہ پر فائز اور نور الہٰی سے خلق ہوئے ہیں ۔(٢)
..............
(١) احتجاج طبرسی :١ ١١٩ـ١٢٣۔ تفسیر قمی :٢ ١٥٥۔
(٢) الامامة والنصرة ١٣٣، حدیث ١٤۔ معانی الاخبار ٣٥١۔ الفضائل (ابن شاذان) ١٥٨۔
٢٥٤
اس وجہ سے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے تصریح فرمائی ہے کہ فاطمہ کو فاطمہ اس لیے کہا جاتا ہے کہ مخلوق الہٰی ان کی معرفت سے جدا اور عاجزہیں ۔(١)
اس حدیث میں امام جعفر صادق نے کلمہ خلق (مخلوقات الہٰی ) کا استعمال کیا جب کہ خلق اور ناس میں بہت زیادہ فرق ہے ، خلق و مخلوقات الہٰی ناس وانسان سے بہت وسیع مفہوم والا لفظ ہے چونکہ مخلوقات الہٰی میں تمام انسان و جن و ملائکہ بھی شامل ہیں ۔
بہرحال اب سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ مخلوقات الہٰی کیوں معرفت فاطمہ سے دور ہیں کیا ان کی کوتاہ فکری کی وجہ سے ؟ یا فاطمہ کا مقام بہت بلند و بالا ہے ؟ یا ان کے اعمال کی وجہ سے ہے کہ وہ ہوا پرستی ، و خواہشات نفس کے سبب فاطمہ کے خلاف مرتکب ہوئے ؟ یا یہ تمام اسباب اس امر میں دخیل ہیں ؟ ۔
جی ہاں، منزلت فاطمہ زہرا بہت بلند و بالا ہے ہم ان کی معرفت کما حقہ حاصل نہیں کرسکتے ، لیکن علی ان کی منزلت کو سمجھتے ہیں چونکہ آپ کا وجود مبارک بھی اسی نور سے ہے کہ جس سے وہ خلق ہوئی ہیں ۔(٢)
..............
(١) تفسیر فرات کوفی ٥٨١۔ بحارالانوار : ٤٣ ٦٥۔
(٢) حضرت امیر المؤمنین کا خط عثمان بن حنیف انصاری کے نام کہ جوآپ کی جانب سے بصرہ کا گورنر تھا ، اس میں مذکور ہے کہ میری رسول خداۖ سے نسبت ایک جڑ سے دوشاخیں کی حیثیت ہے جیسے کہنی سے بازو کی نسبت ۔نہج البلاغہ :٣ ٧٣ ، خط ٤٤۔ اس تشبیہ سے اتحاد و امتزاج کی شدت و انتہا بتانا مقصود ہے کہ جو پیغمبر ۖ و علی کے درمیان ہے ۔ ۔ ۔ ۔ بقیہ اگلے صفحہ پر ۔ ۔ ۔
٢٥٥
کتاب مقتل الحسین خوارزمی میں مذکور ہے کہ حضرت امام علی علیہ السلام نے حضرت فاطمہ زہرا کی نماز جنازہ پڑھنے کے بعد خداوندعالم سے مخاطب ہوکے فرمایا :
پروردگارا یہ تیرے رسول کی بیٹی ہے تونے اس کو تاریکی سے بچا کرنور کی طرف راہنمائی کی کہ جس کے نور کے سبب دنیا ، دور دور تک روشن ہوتی چلی گئی ۔(١)
حضرت امیر اس کلام سے بتانا چاہتے ہیں کہ پروردگار ، فاطمہ کو اس تاریک دنیا سے نکال کر اپنے نور مطلق کی طرف لے گیا ۔
(اللہ نور السموات والارض مثل نورہ کمشکاة فیھا مصباح ، المصباح فی زجاجة الزجاجة کانھا کوکب دری یوقد من شجرة مبارکة زیتونة لا شرقیة ولا غربیة یکاد زیتھا یضیٔ) (٢)
..............
۔ ۔ ۔پچھلے صفحہ کا بقیہ۔
اور دوسری روایت میں ہے کہ '' انامن احمد کالصنو من الصنو'' یعنی اصل علی اور اصل پیغمبر ایک ہے جیسے دو خرما کے درخت ایک جڑ سے وجود میں آئے ہوں۔
یہ کلام ، پیغمبراکرمۖ کی زبان مبارک سے نکلے ہوئے الفاظ سے تائید ہوتاہے کہ آپ نے فرمایا : اے علی جس نے تجھے قتل کیا گویا مجھے قتل کیا اور جو تجھ سے دشمنی رکھے گویا میرا دشمن ہے ، اور جو تجھے برا بھلا کہے گویا مجھے برا بھلا کہا ، چونکہ آپ میری جان کی طرح ہو اور آپ کی روح میری روح ہے اور آپ کی طینت و سرشت میری طینت ہے ۔(عیون اخبار الرضا :٢ ٢٦٦۔ اقبال الاعمال :١ ٣٧۔ بحارالانوار :١٩٤٢۔)
(١) بحارالانوار :٤٣ ٢١٥۔
(٢) سورہ نور (٢٤) آیت ٣٥۔
٢٥٦
خداوندعالم ، زمین و آسمان کا نور ہے اس کے نور کی مثال چراغدان کی طرح ہے کہ جس کے اندر چراغ ہو اور چراغ ایک شیشہ کی چمنی و قندیل میں ہو اور وہ قندیل ایسی ہو گویا چمکتا ہوا ستارہ ، اور وہ زیتون کے مبارک درخت کے تیل سے روشن کیا جاتا ہو کہ جو نہ شرقی ہے اور نہ غربی اور اس میں اتنی چمک ہو کہ گویا خود بخود روشن ہوجائے ۔
امام علی یہ بیان کرنا چاہتے ہیں کہ فاطمہ جس چیز سے خلق ہوئی تھی اس کی طرف پلٹ گئی ہے یعنی فاطمہ کا انتقال اور رحلت عام انسانوں کے انتقال کی طرح نہیں ہے کہ جیسے تمام انسانوں کا انتقال (انا للہ و انا الیہ راجعون) (١) ہم خدا کے لیے ہیں اور اسی کی طرف پلٹنا ہے بلکہ فاطمہ کاانتقال کرنا ایک نورانی وجود کا نور اکمل کی طرف منتقل ہونا ہے کہ وہی نور پروردگار ہے ۔(٢)
جابر ابن یزید جعفی سے روایت ہے کہ کسی نے اما م جعفر صادق سے سوال کیا کہ فاطمہ کا نام زہرا کیوں رکھا گیا تو امام نے فرمایا: اس لیے کہ خداوندمتعال نے حضرت فاطمہ کو اپنے نور عظمت سے پیدا کیا اور جب نور خلقت فاطمہ چمکا تو تمام آسمان و زمین کو روشن کردیا اور فرشتوں کی آنکھوں کو چکا چوند کردیا ، فرشتے خداوندعالم کے حضور سجدے میں گر گئے اور کہا اے پالنے والے اے ہمارے پروردگار یہ کیسا نور ہے ؟ خداوندعالم نے فرشتوں پر وحی نازل کی کہ یہ میرے نور کا ایک حصہ ہے کہ جس کو آسمان میں قرار دیا ہے اور اس کو میںنے اپنی عظمت سے خلق کیا ہے ۔
..............
(١) سورہ بقرہ (٢) آیت ١٥٦۔
(٢) اور زیادہ معلومات کے لیے مراجعہ کیجیے کتاب '' الحق المبین''تالیف، حضرت آیت اللہ العظمی وحید خراسانی ۔
٢٥٧
اپنے نبیوں میں سے ایک نبی کی صلب سے وجود ظاہری میں لاؤں گا ۔ اس کو میں نے تمام پیغمبروں پر فضیلت بخشی ، اس نور سے کچھ ہستیاں خلق ہوںگی کہ جو کائنات کے امام ہوںگے اور میرے امر کو قائم کریں گے اور میری طرف لوگوں کی راہنمائی کریں گے ، میں نے ان کو سلسلہ وحی کے ختم ہونے کے بعد روئے زمین پر اپنا خلیفہ قرار دیا ہے ۔(١)
کلینی نے اپنی اسناد کے ساتھ محمد بن مروان سے روایت نقل کی ہے اس نے کہا کہ میں نے حضرت امام جعفر صادق سے سنا کہ آپ نے فرمایا :بیشک خداوندعالم نے ہمیں اپنی عظمت کے نور سے خلق فرمایا اور پھر ہماری خلقت عرش کے نیچے چھپی ہوئی طینت سے فرمائی ، کوئی بھی ہماری طرح اس کیفیت سے خلق نہیں ہوا ۔(٢)
معانی الاخبار میں رسول خدا ۖ سے منقول ہے کہ نور فاطمہ زمین و آسمان کی خلقت سے پہلے خلق ہوا ، کسی نے سوال کیا اے رسول خدا کیا وہ بشر نہیں ہیں ؟آپ نے فرمایا وہ لباس بشریت میں فرشتہ ہیں ، سائل نے دریافت کیا وہ کس طرح ؟ آپ نے فرمایا خداوندعالم نے آدم کو خلق کرنے سے پہلے ، فاطمہ کو انپے نورسے پیدا کیا اور اس وقت فاطمہ عالم ارواح میں تھیں پھر جب آدم کو خلق کیا تو یہ نور آدم کودکھایا گیا ۔ سوال کیا اے رسول خدا اس دوران فاطمہ کہاں تھیں؟ فرمایا ساق عرش کے نیچے ایک خاص مکان میں ، معلوم کیا کہ ان کا کھانا پینا کیا تھا ؟ فرمایا تسبیح وتہلیل و تحمید۔(٣)
..............
(١) الامامة النصرة ١٣٣۔ علل الشرائع :١ ١٨٠۔
(٢) اصول کافی :١ ٣٨٩، حدیث ٢۔
(٣) معانی الاخبار ٣٩٦۔
٢٥٨
ابو حمزہ ثمالی سے روایت ہے کہ اس نے امام محمد باقر سے سوال کیا ، اے فرزند رسول مجھے مطلع فرمائیں کہ آپ حضرات ساق عرش میں کس طرح تھے ؟ آپ نے فرمایا ہم خدا کے حضور نور تھے اس سے پہلے کہ وہ مخلوقات کو پیدا کرے ، پس جب خدا نے اپنی مخلوق کو وجود بخشا ہم نے تسبیح کی تو مخلوق نے بھی ہمارے ساتھ تسبیح کی ہم نے تہلیل کی تو اس نے بھی تہلیل کی ، ہم نے تکبیر کہی تو اس نے بھی تکبیر کہی ۔(١)
عیون اخبار الرضا میں منقول ہے کہ پیغمبراکرمۖ نے علی سے فرمایا : انبیاء ، ملائکہ سے افضل ہیں اور میں افضل الانبیاء ہوں اور یہ فضیلت میرے بعد علی کے لیے ہے اور علی کے بعد اس کی نسل کے آئمہ کے لیے ہے ۔
اس وقت علی نے فرمایا ہم کس طرح فرشتوں سے نہ افضل ہوں جب کہ ہم نے ا پنے پروردگار کی معرفت اور تسبیح و تہلیل و تقدیس میں فرشتوں پر سبقت حاصل کی ہے چونکہ خداوندعالم نے سب سے پہلے ہمیں خلق فرمایا اور ہمارے ذریعہ سے اپنی تمحید و توحید کرائی ، پھر ملائکہ کو خلق کیا پس جب انہوں نے ہمارے عظیم نو ر کا مشاہدہ کیا تو ان کی نظروں میں اس کی جلالت آشکار ہوئی تب ہم نے ملائکہ کو سکھانے اور تعلیم دینے کے لیے تسبیح کی تاکہ ان کو یہ علم ہو جائے کہ ہم بھی خدا کی ایک مخلوق ہیں اور خداوندعالم ہماری صفات والا سے منزہ وجدا ہے تب ملائکہ نے ہماری تسبیح کی طرح خداوندعالم کی تسبیح کی اور اس کو ہم سے اور ہمار ی صفات سے جدا و منزہ جانا۔(٢)
..............
(١) بحارالانوار :٢٥ ٢٤ ، حدیث ٤٠۔ اور دیکھیے : ـ الہدایة الکبری ٢٤٠۔
(٢) عیون اخبار الرضا :٢ ٢٣٧۔ ینابیع المودة :٣ ٣٧٨۔ تفسیر قمی :١ ١٨۔
٢٥٩
تسبیح و تہلیل و تحمید کے مفاہیم ہمیںنماز کی تسبیح کی یاد دلاتے ہیں وہ تسبیح کہ جو رسول اکرمۖ نے اپنے میوہ ٔدل حضرت فاطمہ زہرا کو تعلیم دی اور یہ مفاہیم ساق عرش کے نیچے آپ کا کھانا پانی تھے اور یہ بات خود ہمیں امر نبوت اور امر خلافت و وصایت کے درمیان رابطے کا پتا دیتی ہے ۔
جی ہاں ، یہ مفاہیم اس انسان نما فرشتے کی خصوصیات میں سے ہیں کہ جس کے متعلق رسول خدا ۖ جب کبھی بھی بہشت کے مشتاق ہوتے تو آپ کی خوشبو لیا کرتے اور آپ کے بدن مبارک کا استشمام فرماتے تھے۔
عایشہ سے روایت ہے کہ رسول خداۖ نے فرمایا :جب مجھے معراج ہوئی اور آسمان پر گیا تو بہشت میں لے جایا گیا ، میں وہاں بہشت کے ایک درخت کے قریب کھڑا ہوگیا کہ جو تمام درختوں میں سب سے زیادہ خوبصورت تھا، اس سے زیادہ خوبصورت میںنے درخت نہیں دیکھا، اس کے پتوں سے زیادہ سفیدی، اس کی خوشبو سے زیادہ خوشبو اور اس کے پھلوں سے زیادہ خوشمزہ پھل نہیں دیکھے ، لہذا میں نے اس میں سے ایک پھل کو لیا اور کھالیا وہ پھل میرے صلب میں نطفہ بنا جب زمین پر آیا تو وہ نور میری صلب سے خدیجہ کے رحم میں منتقل ہوگیا اور اس سے فاطمہ متولد ہوئیں ۔لہذا میں جب کبھی بھی بہشت کی خوشبو کا مشتا ق ہوتا ہوں تو فاطمہ کو استشمام کرتا ہوں ۔(١)
جی ہاں ، فاطمہ بہشت کے سب سے بہترین پھل و میوہ ہیں کہ جو درخت طوبی سے وجود میں آیا ہے ۔(٢)
..............
(١) المعجم الکبیر :٢٢ ٤٠١۔ الدر المنثور :٤ ١٥٣۔
(٢) بحار الانوار :٤٣ ٦، حدیث ٦۔
٢٦٠
اس کے بعد اس معزز خاتون کے رحم میں منتقل ہوا (١) کہ جو عالم کی سب سے بہتر اور افضل خاتون ہیں یعنی حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا ، یہ وہ عظیم المرتبت بی بی ہیں کہ ان کے پاس جو کچھ بھی مال و دولت تھی سب کچھ راہ خدا میں نثار کردی یہاں تک کہ جب ان کی وفات کا وقت آیا تو ان کے لیے کفن بھی نہ تھا تب خداوندعالم نے جبرئیل کے ذریعہ جنت سے کفن بھیجا ۔
یقینا اس عظیم المرتبت بی بی کا حق ہے کہ ان کو صدیقہ ، محدثہ اور علیمہ کہا جائے چونکہ آپ کی والدہ خدیجہ ، باپ رسول اکرمۖ ، شوہر علی مرتضی اور بچے حسن وحسین جیسی ہستیاں ہیں ۔
..............
(١) یہ بات قابل ذکر ہے کہ حدیث سابق کہ جو معجم کبیر و درمنثور ، اہل سنت کی کتابوں سے نقل ہوئی ہے شیعہ روایات کی تائید و تصدیق کرتی ہے اور یہی مؤلف محترم کی نظر بھی ہے کہ صدیقہ طاہرہ کا معنوی و ملکوتی مقام بہت بلند و بالا ہے اور یہ نورانیت ، ودیعۂ الہٰی ہے کہ جو ان کے بعد آپ کی اولاد طاہرین و آئمہ معصومین میں منتقل ہوتی رہی ہے ، بہشتی خوشبو ،ماوراء انسانی خلقت، فرشتہ صفت انسان، اور بشریت سے مافوق یہ سب اموراس وقت حضرت امام زمان (عج) کے وجود مبارک میں پایدار ہیں ، لہذا اس حیثیت سے کوئی بھی انسان بلکہ کوئی بھی مخلوق اہل بیت علیہم السلام کی شریک اور مثل و نظیر نہیں ہے ۔
لیکن واضح ہے کہ آپ کی خلقت ظاہری عام انسانوں کی طرح وجود جسمانی میں پیغمبراکرم ۖ اور حضرت خدیجہ کے ذریعہ وجود میں آئی لہذا حضر ت فاطمہ کو وجود ظاہری عطا کرنے میں جناب خدیجہ کا حق پیغمبراکرمۖ کی مانند ہے بلکہ اس کے علاوہ آپ کا تغذیہ جیسے دودھ وغیرہ جناب خدیجہ ہی سے مخصوص ہے جب کہ یہ نکتہ حضرت فاطمہ زہرا کے بے نظیر و بے شمار فضائل کو مدنظر رکھتے ہوئے بہت بنیادی و ظریف ہے کہ جس سے جناب خدیجہ کی عظمت اور نمایاں ہوتی ہے اور اس کو خدا ہی بہتر جانتا ہے ۔(م)
٢٦١
حضرت فاطمہ کی منزلت کو نصاریٰ تک نے دریافت کیا اور اسقف نصاریٰ نے روز مباہلہ حضرت رسول اکرمۖ کے ہمرا ہ علی و فاطمہ اور حسن و حسین کو دیکھ کر اپنے ساتھیوں اور قوم سے کہا کہ میں کچھ ایسے چہرے دیکھ رہا ہوں کہ اگر یہ چاہیں توخداوندعالم پہاڑ کو بھی اپنی جگہ سے ہٹا سکتا ہے لہذا ان سے مباہلہ نہ کرو ورنہ قیامت تک کے لیے قوم نصاریٰ دنیا سے مٹ جائے گی اور کوئی نصرانی باقی نہ رہے گا ۔(١)
کیا آپ نے کبھی ان قرآنی مفاہیم (انفسنا و انفسکم ، نسائنا و نسائکم ، ابنائنا و ابنائکم ) (٢) میں غور و فکر کیا ہے ؟۔
واقعا علی کیا ہیں اور آپ کا کیا مقام ہے ؟ زہرا کون ہیں اور آپ کی کیا منزلت ہے ؟ حسن و حسین کون ہیں آپ کے مرتبے کیا ہیں ؟۔
بیشک یہ معنوی مفاہیم اورآسمانی نام ہیں کہ جن کے متعلق غور وفکرلازم و ضروری ہے ۔(٣)
جی ہاں ، فاطمہ اور آپ کے والد گرامی ایک گوہر ہیں اور علی و پیغمبر ۖایک نفس وجان ہیں رسول خدا ۖ نے فاطمہ کی شادی علی کے ساتھ فرمائی چونکہ علی ،فاطمہ کے کفو و برابر ہیں۔
..............
(١) تفسیر کشاف :١ ٣٦٩۔ تفسیر فخررازی :٨ ٧١۔ السیرة الحلبیة :٣ ٢٦٣۔ الطرائف ٤٢۔ مجمع البیان :٢ ٣١٠۔
(٢) سورہ آل عمران(٣) آیت ٦١۔
(٣) جو کوئی بھی معارف الہٰی اور نفخات قدسی کو اس طرح کے کلمات میں تلاش کرنا چاہتاہے تو وہ کتاب شریف '' الحق المبین'' تالیف، حضرت آیت اللہ العظمی وحید خراسانی کی طرف مراجعہ کرے۔
٢٦٢
اور اگر علی نہ ہوتے تو کوئی فاطمہ کی برابری کے قابل نہ تھا ، یہ خداوندعالم کا لطف خاص اور فضل و کرم ہے اور پھر خداوندعالم نے انہیں پاک و پاکیزہ و طاہر و مطہر فرزند عطا فرمائے کہ جو مسلمانوں کے امام ہیں ۔
|