|
لیکن جنگ خیبر !
سیرہ حلبی میں پیغمبراکرمۖ سے روایت منقول ہے کہ جب جنگ خیبر میں شیخین ابوبکر و عمر مسلسل دشمن کے خوف و ڈر سے بھاگتے رہے تب رسول خدا ۖ نے فرمایا : کل میں علم اس کو دوںگا کہ جو خدا اور رسول کودوست رکھتا ہوگا اور خداو رسول اس کو دوست رکھتے ہونگے ،مردہوگا کرار ہوگا ، فرار نہ ہوگا یعنی جم کر لڑنے والا ہوگا بھاگنے والا نہ ہوگا اور اس کے ہاتھوں کامیابی و فتح حاصل ہوگی ۔
اس کے بعد اگلے روز رسول اکرمۖ نے علی کو بلایا جب کہ آپ کی آنکھیں دکھ رہی تھیں رسول خدا نے اپنا لعاب دہن علی کی آنکھوں میں لگایا اور فرمایا اس علم کو لو اور دشمن کی طرف جاؤ تاکہ خداآپ کو کامیاب و کامران فرمائے ۔(١)
ابوسعید خدری کا بیان ہے کہ رسول خداۖ نے علم کولیا اور گھمایا اور پھر فرمایا کون شخص اس علم کا حق ادا کرے گا ،فلاں (ابوبکر) آگے آئے اور کہا میں یا رسول اللہ ۔ پیغمبراکرمۖ نے فرمایا : جاؤ دفان ہو۔ توپھر دوسرا شخص (عمر) آگے بڑھا اور کہا میں یا رسول اللہ تو آپ نے فرمایا : جاؤ ہٹو ۔
..............
(١) السیرة الحلبیہ :٢ ٧٣٧۔ السیرة النبویة (ابن ہشام) : ٣ ٧٩٧۔ مسند احمد :١ ٩٩۔ الاحادیث المختارہ : ٢ ٢٧٥۔ فتح الباری :٧ ٣٦٥۔ مجمع الزوائد :٩ ١٢٤۔ نیز اس حدیث کو بخاری و مسلم نے بطور اختصار بیان کیا ہے ۔ دیکھیے : صحیح بخاری :٥ ٧٦۔ صحیح مسلم :٥ ١٩٥۔
٢٣٩
پھر پیغمبراکرمۖ نے فرمایا قسم ہے اس ذات کی کہ جس نے مجھ کو مکرم و محترم قرار دیا میں علم اس کو دونگا کہ جو میدان سے نہیں بھاگے گا ، اے علی آؤ اوراس علم کو لو آپ نے علم کو لیا اور میدان کی طرف چل دیئے یہاں تک کہ خداوندعالم نے آپ کے ہاتھوں سے در خیبر کو اکھاڑا اور فتح و کامیابی عطا فرمائی ۔(١)
یہ جو پیغمبراکرمۖ نے فرمایا :''غیر فرار''(٢) ایسا مرد ہے کہ جو کبھی نہ بھاگے یا ''رجلا لایفر'' (٣) وہ مرد کہ جو فرار اختیار نہ کرے یہ ابوبکر و عمر کے لیے کنایہ ہے ، اور ظاہر ہے کہ میدان جنگ سے بھاگنے سے کون سا بھاگنا برا اور بدتر ہوگا چونکہ نصوص روایات میں بہت قابل افسوس عبارات مذکو رہیں مثلا ابوبکر نے علم کو لیا ''فانھز م بھا '' (٤)پس اس نے شکست و ہار مان لی اور بھاگ کھڑے ہوئے اور پھر عمر نے لیا ''صارغیر بعیدثم انھزم '' (٥) تھوڑی دیر نہ لگی کہ وہ ہار کے بھاگے آئے ۔
..............
(١) مسند احمد :٣ ١٦۔ فضائل احمد :٢ ٥٨٣۔ السیرة النبویة (ابن کثیر) :٢ ٣٥٢۔ مجمع الزوائد:٦ ١٥١۔ تالی تلخیص المتشابہ (خطیب بغدادی) :٢ ٥٢٨۔
(٢) تاریخ یعقوبی :٢ ٥٦۔ مناقب خوارزمی ١٧٠۔ روضہ کافی :٨ ٣٥١، حدیث ٥٤٨۔ کنزالعمال :١٣ ١٢٣،حدیث ٣٦٣٩٣۔
(٣) مسند احمد :٣ ١٦۔ مجمع الزوائد :٩ ١٢٤۔ مناقب کوفی :٢ ٤٩٥، حدیث ٩٩٥۔ البدایة والنہایة : ٤ ٢١٢۔ و جلد : ٧ ٣٧٥۔
(٤) مصنف ابن ابی شیبہ : ٧ ٤٩٧، حدیث ١٧۔ و جلد :٨ ٥٢٢،حدیث ١١۔ مجمع الزوائد :٩ ١٢٤۔کنزالعمال :١٢١١٣،حدیث ٣٦٣٨٨۔
(٥) کشف الیقین ١٤٠۔
٢٤٠
اور روایات میں مذکور ہے کہ عمر میدان سے بھاگ کر پیغمبراکرمۖ کی خدمت میں پہنچے اس صورت میں کہ وہ ڈر ، خوف اور فرار کی نسبت اپنے ساتھیوں کی طرف دے رہے تھے اور ان کے ساتھی ڈر ، خوف اور فرار کی نسبت ان کی طرف دے رہے تھے ۔(١)
یا یہ کہ ابوبکر نے علم کو لیا اور کامیاب نہ ہوئے تو اگلے روز عمر نے علم کو لیا اور شرمندہ ہوکر واپس آئے لوگ مشکلات میں پڑگئے (٢) یایہ کہ پیغمبراکرمۖ نے اپنے علم مبارک کو اپنے مہاجرین اصحاب میں سے ایک کو دیااس نے بھی کچھ نہ کیا اور بھاگ کھڑے ہوئے اور دوسرے (عمر) کودیا تو اس نے بھی کچھ نہ کردکھایا اور بھاگ آئے۔(٣) اصحاب نے بیعت شجرہ میںیہ عہد و پیمان کیا تھا کہ دشمن کے سامنے سے نہیں بھاگیں گے جب کہ یہ کام اس عہد کوتوڑنے کے مترادف تھا ۔ جناب عباس پیغمبراکرمۖ کے چچا اور امام علی نے اس مطلب کی طرف اشارہ فرما یا ہے اس وقت کہ جب آپ دونوں حضرا ت پیغمبراکرمۖ کی میراث کے مطالبے کے لیے دربارخلافت میںگئے اور جو کچھ ان دونوں نے کہا یہ تھا کہ ابوبکر و عمر جھوٹے ، گنہکار ، عہد توڑنے والے اور خائن ہیں ۔(٤)
..............
(١) مصنف ابن ابی شیبہ :٨ ٥٢١، حدیث ٧۔مستدرک حاکم :٣ ٣٨۔ تاریخ دمشق :٤٢ ٩٧۔ اصول کافی : ١ ٢٩٤، حدیث ٣۔
(٢) السنن الکبری(نسائی ) :٥ ١٠٩، حدیث ٨٤٠٣۔ مجمع الزوائد :٦ ١٥٠۔(ہیثمی کا بیان ہے کہ اس حدیث کے رجال ثقہ ہیں) ۔ البدایة النہایة :٧ ٣٧٣۔
(٣) السیرة الحلبیہ: ٣ ٧٣٢ ۔ اور اس سے منقول ہے الغدیر: ٧ ٢٠٣ میں ۔
(٤) دیکھیے : صحیح مسلم :٥ ١٥٢۔
٢٤١
یہی وجہ ہے کہ رسول خدا ۖ نے بیعت شجرہ کے بعد اہل مکہ سے صلح فرمائی چونکہ مسلمانوں نے کفار مکہ پر حملہ کیا اور قریش نے مسلمانوں کو شکست دے کر بھگادیا پھر پیغمبراکرمۖ نے حضرت علی کو بھیجا آپ نے ان کو شکست دی اور بھگایا ، بھاگنے والے مسلمانوں نے توبہ کی پیغمبراکرمۖ نے فرمایا اب آئیے دوبارہ بیعت کیجیے تم لوگوں نے عہد کو توڑا ہے جب کہ یہ عہد کیا تھا کہ کبھی دشمن کے مقابل میدان سے نہیں بھاگیں گے ۔ اسی وجہ سے ان کے اس عہد و پیمان کو بیعت رضوان کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔ چونکہ یہ بیعت رسول خدا ۖ کی نافرمانی اور معصیت کے بعد آپ کو راضی و خوشنود کرنے کے لیے انجام پائی تھی ۔ پس ابوبکر و عمر اور دیگر مسلمانوں کا جنگ خیبر و حنین وغیرہ سے فرار اور بھاگنا گویا بیعت رضوان کو توڑنا ہے ۔(١)
صحیح مسلم میں مذکور ہے کہ عمر نے عباس وعلی سے مخاطب ہوکر کہا ۔ ۔ ۔ اس وقت کہ جب ابوبکر نے کہا کہ رسول خدا ۖ نے فرمایا ہے کہ ہم گروہ انبیاء میراث نہیں چھوڑتے اور جو کچھ ہم سے رہ جاتا ہے وہ صدقہ ہے ۔ تم دونوں حضرات اس کو جھوٹا ، گنہکار ، عہد توڑنے والا اور خائن جانتے ہو جب کہ ابوبکر دنیا سے جاچکا ہے اور اب میں ابوبکر اور رسول خداۖ کا ولی ہوں جب کہ تم دونوں حضرات مجھ کو بھی جھوٹا ، گنہکار ، عہد توڑنے والا اور خائن مانتے ہو۔(٢)
..............
(١) الصراط المستقیم :٣ ١١٠ـ ١٠١۔
(٢) صحیح مسلم :٥ ١٥٢، کتاب الجہاد و السیر، باب حکم الفئی۔ اور دیکھیے صحیح بخاری : ٤ ٤٤، باب فرض الخمس ۔ و جلد : ٥ ٢٣ـ٢٤، کتاب الجہاد و السیر۔ تفسیر ابن کثیر :٤ ٢٥٩۔ شرح نہج البلاغہ(ابن ابی الحدید): ١٦ ٢٢٢۔ تاریخ المدینہ (ابن شبہ) :١ ٢٠٤۔
٢٤٢
بہر حال ان تمام حالات و روایات کو مدنظر رکھتے ہوئے ابوبکر ، رسول اکرمۖ کے چچا عباس کی نظر میں، رسول اکرمۖ کے داماد علی کی نظر میں اور رسول اکرمۖ کی بیٹی فاطمہ کی نظر میں جھوٹے و گنہکار ہیں ، اور کوئی بھی جھوٹا ، صادق و سچا نہیں ہوسکتا تو پھر صدیق کیسے ہوسکتا ہے ؟۔
ابن شہر آشوب نے مناقب میں لکھا ہے :
متکلمین کہتے ہیں کہ علی کی امامت کے دلائل میں سے یہ خداوندعالم کا فرمان ہے (یا ایھا الذین آمنو ا اتقو اللہ و کونوا مع الصادقین)(١) اے ایمان لانے والوخداسے ڈرو اور سچوں کے ساتھ ہوجاؤ ۔ہم نے آپ کو اس صفت پر پورا پایا ،چونکہ خداوندعالم فرماتا ہے (والصابرین فی الباساء والضراء و حین البأس اولٰئک الذین صدقوا و اولٰئک ھم المتقون )(٢) وہ لوگ سختیوں اور پریشانیوں میں اور وقت جنگ صابر و ثابت قدم ہیں ، سچے ہیں اور یہی لوگ متقی و پرہیز گار ہیں ۔
اسی وجہ سے یہ اجماع متحقق ہوچکا ہے کہ علی دوسروں کی نسبت امامت کے زیادہ حق دار ہیں چونکہ وہ میدان جنگ سے کبھی نہیں بھاگے جب کہ دوسروں نے بارہا راہ فرار اختیار کی ۔(٣)
شیخ مفید نے اپنی کتاب ''الجمل و النصرة لسید العترةفی حرب البصرة'' میں عمر بن آبان سے روایت نقل کی ہے کہ اس نے کہا کہ جب امیر المؤمنین نے اہل بصرہ پر کامیابی حاصل کرلی۔
..............
(١) سورہ توبہ (٩) آیت ١١٩۔
(٢) سورہ بقرہ (٢) آیت ١٧٧۔
(٣) مناقب ابن شہر آشوب :٣ ٩٣۔
٢٤٣
تب کچھ لوگ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا اے امیر المؤمنین کیا سبب تھا کہ عایشہ آپ کے خلاف نکل پڑیں اور لوگوں سے آپ کے خلاف مدد مانگی اور ان کو آپ کے خلاف بھڑکایا اور بات یہاں تک پہنچی کہ آپ سے جنگ ہوئی ، جب کہ وہ دوسری عورتوں کی طرح ایک عورت ہیں ان پر جنگ واجب نہیں تھی ، جہاد ان سے ساقط تھا ، ان کو گھر سے باہر نکلنے کی اجازت بھی نہیں تھی ، ان کے لیے لوگوں کے درمیان آنا اور ظاہر ہونا بھی مناسب نہیں تھا اور وہ افراد بھی کہ جو ان کے لشکر کی کمانڈ ہاتھ میں لیے ہوئے تھے وہ بھی اس قابل نہ تھے ۔
امیر المؤمنین نے فرمایا: میں آپ لوگوں سے چند چیز یںبیا ن کرتا ہوں کہ جو عایشہ کے دل میں مجھ سے حسد و کینہ کا سبب بنیں جب کہ ان میں سے میں کسی میں بھی گنہکار نہیں ہوں جب کہ وہ مجھے سزاوار سمجھتی ہیں ۔
١ـ رسول خدا ۖ نے مجھے ان کے باپ پر برتری بخشی ، اور ہر مہم کام میں مجھے ان پر مقدم رکھتے تھے عایشہ کے دل میں حسد بیٹھ گیا چونکہ وہ جانتی تھیں کہ ابوبکر کے دل میں مجھ سے حسد ہے لہذا انہوں نے بھی اپنے باپ کی پیروی کی ۔
٢ـ جب پیغمبراکرمۖ نے تمام اصحاب کے درمیان بھائی چارگی اوررشتہ اخوت قائم کیا تو ان کے باپ اور عمر کے درمیان بھائی چارگی قائم کی اور جب کہ مجھے خود اپنے لیے انتخاب فرمایا اور رشتہ اخوت قائم کیا ۔ یہ کام عایشہ کو بہت ناگوار گذرا اور مجھ سے حسد کرنے لگیں ۔
٣ـ خداوندعالم نے تمام اصحاب کے دروازے کہ جو مسجد میں کو کھلتے تھے ،بند کروادیے سوائے میرے گھر کے دوازے کے ۔ تو جب ان کے باپ کے گھر کا دروازہ ،اور ان کے دوست جیسے عمر کے گھر کا دروازہ بند ہوا جبکہ میرے گھر کا دروازہ مسجد میں کھلا رہا ۔
٢٤٤
تب اس سلسلے میں کچھ لوگو ں نے رسول خداۖ پر اعتراض کیا تب آپۖ نے فرمایا : میں نے آپ لوگوں کے گھروں کے دروازوں کو بند نہیں کیا اور میں نے علی کے گھر کے دروازے کو کھلا نہیں رکھا ہے ، بلکہ یہ حکم الٰہی ہے ۔ابوبکر کو اس کام پر بہت غصہ آیا اور اپنے گھر والوں کے درمیان الٹی سیدھی باتیں کہیں کہ جو ان کی بیٹی نے سنیں اور اس کے بعد سے مجھ سے حسد میں اضافہ ہوا ۔
٤ـ رسول خدا ۖ نے جنگ خیبر میں علم ان کے باپ کو عطا کیا اور ان کو لشکر اسلام کا سردار بنایا ، خیبر کو فتح کرنے کے لیے بھیجا تاکہ یا خیبر کو فتح کریں یا شہید ہوجائیں جب کہ وہ ثابت قدم نہ رہ سکے اور ہارمان کر بھاگ آئے ، اس کے اگلے روز علم عمر بن خطاب کودیا اور جیسا کہ ابوبکر کو حکم دیا تھا ان کو بھی وہی حکم دیا لیکن وہ بھی دشمن کے مقابل نہ ٹھہر سکے اور ہار کے بھاگ آئے ۔ یہ کارنامہ رسول خداۖ کو بہت برالگا اور آپ نے اپنے لشکر کے درمیان بلند آواز سے فرمایا :کل میں علم اس کو دوں گا کہ جو مرد ہوگا خدا اور رسول اس کو دوست رکھتے ہوںگے اور وہ خداورسول کو دوست رکھتا ہوگا ، حملہ کرنے والا ہوگا بھاگنے والا نہیں ہوگا اور خیبر کو فتح کیے بغیر واپس نہیں آئے گا۔
اس روز رسول خداۖ نے علم مجھے عطا فرمایا میں نے صبر کیا ، ثابت قدم رہا یہاں تک کہ خداوندعالم نے میرے ہاتھوں خیبر کو فتح کرایا اور کامیابی بخشی ، اس کام سے عایشہ کے باپ بہت غمگین ہوئے اور مجھ سے کینہ و حسد میں اور بھی اضافہ ہوگیا جب کہ میں ان کاموں میں ان کے حق میںبالکل بھی خطاکار و مقصر نہیں ہوں لیکن عایشہ نے بھی اپنے باپ کی وجہ سے مجھ سے حسد کیا ۔
٥ـ رسول خدا ۖ نے ابوبکر کو کفار و مشرکین مکہ کے لیے سورہ برأت کی تلاوت کرنے کو بھیجا اور ان کو حکم دیا کہ مشرکین کے عہد کو توڑنا اور ان کے درمیان یہ آیات تلاوت کرنا اور بلند آواز سے یہ پیغام الہٰی پہنچانا ، وہ یہ پیغام لے کرچلے اور راستہ میں منحرف ہوگئے ۔
٢٤٥
پھر خداوندعالم نے اپنے رسول پر وحی نازل فرمائی کہ ان کو پلٹائیں اور ان آیات کو ان سے واپس لیں اور مجھے عطا کریں پس وہ آیات لطف الہٰی سے مجھے عطا کی گئیں اور عایشہ کے باپ واپس آگئے ۔جو کچھ خداوند متعال نے اپنے رسول پر وحی نازل فرمائی تھی وہ یہ تھی کہ آپ کی جانب سے کوئی حق ادا نہیں کرسکتا مگر آپ خود یا آپ ہی سے کوئی مرد۔اور میں رسول خداۖ سے ہوں اور وہ مجھ سے ہیں ۔لہذا ابوبکر اس کا م کی وجہ سے مجھ سے بہت حسد کرنے لگے جب کہ اس معاملے میں بھی ان کی بیٹی نے اپنے باپ کی پیروی کی ۔
٦ـ عایشہ کو خدیجہ بنت خویلد بری لگتی تھیں جیسا کہ معمولا تمام سوتن ہی ایک دوسرے کو برا سمجھتی ہیں ۔ عایشہ بھی خدیجہ سے دشمنی رکھتی تھیں جب کہ خدیجہ کے مقام و منزلت کو رسول خدا ۖ کی نظرمیں پہچانتی تھیں اور پیغمبراکرمۖ کا خدیجہ کا اس قدر احترام کرنا عایشہ کو برا لگتا تھا ، سخت ناگوار گذرتا تھا اور ان میں تحمل و برداشت کا مادہ نہ تھا۔یہ خدیجہ سے نفرت پھر فاطمہ کی طرف منتقل ہوگئی کہ جس کے نتیجے میں عایشہ خدیجہ ، فاطمہ اور مجھ سے بھی بیزار ہوگئیں ۔ جب کہ معمولاً سوتنوں کے درمیان یہ حالات معروف ہیں ۔
٧ـ اس سے پہلے کہ پیغمبراکرمۖ کی ازواج کو پردے کا حکم آئے میں پیغمبراکرمۖ کی خدمت میں حاضر ہوا تو دیکھا عایشہ آپ کے پاس بیٹھی ہوئی ہیں ، رسول خداۖ نے مجھے دیکھا، میرے بیٹھنے کے لیے جگہ فراہم کی اور مجھ سے فرمایا آؤ ہمارے پاس آجاؤ ، اتنا قریب بلایا کہ مجھے اپنے اور عایشہ کے درمیان بٹھالیا ، یہ کام عایشہ پر بہت سخت و ناگوار گذرا اور خواتین کی تند رفتاری اور ناز نخوت کی طرح مجھ سے مخاطب ہوئیں اور کہا اے علی آپ کو بیٹھنے کے لیے میری ران کی جگہ کے علاوہ کوئی اور جگہ نہ مل سکی ۔
٢٤٦
پیغمبراکرمۖ کو یہ کلام برا لگا اور ان کی اس رفتار سے ناراض ہوگئے اور غصے میں فرمایا کیا یہ باتیں علی سے کہہ رہی ہو ، خداکی قسم وہ مجھ پر سب سے پہلے ایمان لائے ہیں اور میری تصدیق کی ہے اور وہ سب سے پہلے میرے پاس حوض کوثر پر آئیںگے اور وہ امر الہٰی او ر امور دین میں عہد و پیمان پر ثابت قدم رہنے والے سب لوگوںسے زیادہ حق دار ہیں ، کوئی بھی ان سے دشمنی نہیں رکھے گا مگر یہ کہ خداوندعالم اس کی ناک کو جہنم کی آگ سے رگڑ دے گا۔ پیغمبراکرمۖ کے اس فرمان اور میری تمجید سے عایشہ کے غیظ و غضب میں اور اضافہ ہوگیا ، مجھ سے اوربھی زیادہ نفرت و حسد کرنے لگیں ۔
٨ـ جس وقت عایشہ سے متعلق لوگوں میں ایک تہمت مشہور ہوئی تو پیغمبراکرمۖ نے مجھے طلب فرماکر معلوم کیا ، میں نے عرض کی یا رسول اللہ آپ اس بات کی حقیقت اس کی کنیز بریرہ سے معلوم کریں ،اگر معلو م ہوگیا کہ یہ تہمت صحیح ہے تو ان کو چھوڑ دینا عورتیں اور بہت زیادہ ہیں ۔رسول خدا ۖ نے اس مسئلہ کے متعلق مجھے ہی حکم دیا کہ میں بریرہ سے دریافت کروں ، عایشہ کی صورتحال اور اس کی تحقیق میری گردن پرآگئی، میں نے اپنی ذمہ داری نبھائی اور اس کام کو انجام دیا ۔ اس وجہ سے بھی عایشہ کے دل میں مجھ سے نفرت اور زیادہ ہوگئی جب کہ خدا کی قسم میرا کوئی برا ارادہ نہیں تھا بلکہ میں نے خدا اور اس کے رسول کے لیے خیر خواہی چاہی ۔
اسی طرح کے اور بھی بہت سے موارد ہیں لہذاآپ اگر چاہیں تو خود عایشہ سے ہی معلوم کرلیں کہ ان کو کیا حسد تھا اور کیا سبب ہوا کہ وہ میرے خلاف جنگ پر نکل آئیں ، لوگوں کو بیعت توڑنے پر مجبور کیا ، میرے چاہنے والوں کا خون بہایا ، بغیر کسی دینی و الہٰی سبب کے مسلمانوں کے درمیان اپنے حسد کو میرے خلاف آشکار کیا اورلوگوں کو میرا دشمن بنادیا ، جب کہ خداوند مددگار ہے اور وہی نصرت کرنے والا ہے ۔
٢٤٧
ان افراد نے کہا اے امیرالمؤمنین بات یہی ہے کہ جو آپ نے فرمائی ہے خدا کی قسم آپ نے ہمارے ا فکار و احساسات کو صاف کردیا اور ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ خداو رسول کے نزدیک ان لوگوں سے کہ جنہوں نے آپ سے دشمنی کی زیادہ اولیٰ و حق دار ہیں ۔
اس وقت حجاج بن عمر و انصاری اٹھے اور آپ کی شأن میں کچھ اشعار پڑھے (١)
ان تما م باتوں کے علاوہ اگر خطبہ حضرت فاطمہ زہرا پر غور کرلیا جائے تو معلوم ہوجائے گا کہ آپ نے لوگوں کو تذکر دیا ہے کہ خداوندعالم نے ان کے والد گرامی حضرت محمد ۖ کواس وقت انتخاب فرمایا کہ جب مخلوق عالم ذر میں پوشیدہ تھی اور آپ کو لوگوں کے درمیان بھیجنے سے پہلے منتخب فرمایا ۔ حضرت فاطمہ زہرا کے کلام کا مطلب یہ ہے کہ پیغمبراکرمۖ ازل سے ہی اور اس سے پہلے کہ خداوندعالم خلائق کو وجود بخشتا، خدا کے نزدیک منتخب تھے اور خود آنحضرت ۖنے بھی اسی مطلب کا تاکیدسے ارشاد فرمایا : '' کنت نبیا و آدم بین الماء الطین ''(٢)
میں اس وقت بھی نبی تھا کہ جب آدم پانی اور مٹی کے درمیان تھے ۔
..............
(١) الجمل (مفید)٢٢٠۔ اس میں حجاج بن عمرو کی جگہ حجاج بن عزمہ مذکور ہے ۔
(٢) مناقب ابن شہر آشوب :١ ١٨٢۔ عوالی اللئالی :٢ ١٢١۔ ینابیع المودة : ١ ٤٦ ۔ اور طبقات ابن سعد :١ ١٤٨ ۔ میں مذکور ہے کہ بین الروح والطین من آدم ۔ اور سیرة النبویة (ابن کثیر) :١ ٣٤٧ میں مذکور ہے کہ '' وآدم منحدل فی الطین ''۔ اور دیکھیے مسند احمد :٤ ٦٦۔ مستدرک حاکم :٢ ٦٠٩۔ مصنف ابن ابی شیبہ :٨ ٤٣٨۔ المعجم الکبیر : ١٢ ٧٣۔ الاحتجاج (طبرسی ) :٢ ٢٤٨۔ الفضائل (ابن شاذان) ٢٤۔ اسدالغابہ :٣ ١٣٢۔ اور دوسرے مدارک و منابع کہ جن میں '' وآدم بین الروح و الجسد '' مذکور ہے ۔ ۔ ۔ ۔بقیہ اگلے صفحہ پر ۔ ۔ ۔
٢٤٨
امیر المؤمنین امام علی نے حارث ہمدانی کو اس بات کی طرف توجہ دلائی اور تاکید فرمائی کہ آپ نے آنحضرتۖ کی تصدیق اس عالم میں کی کہ جب آدم روح و بدن کے درمیان تھے ۔ لہذا آپ کا ارشاد گرامی ہے : میں خدا کا بندہ اور اس کے رسول کا بھائی ہوں میں نے سب سے پہلے آپ کی تصدیق اس وقت کی کہ جب آدم روح و جسد کے درمیان تھے اور آپ کی امت میں بھی حقیقتاً و بدون شک و تردید میں سب سے پہلے تصدیق کرنے والا ہوں ۔(١)
اور اس سے پہلے آپ کا کلام گذرچکا ہے کہ آپ نے فرمایا : خداوندعالم نے پیغمبرا کرمۖ کو بچپنے ہی میں جب سے آپ کا دودھ چھٹا آپ کے ہمراہ روح القدس سب سے بڑے فرشتے کو قرار دیا اور اس کو آپ کا ہمدم و قرین بنایا اس طرح آپ کی رسالت کا آغاز ہوا ، میں اونٹنی کے بچے کی طرح آپ کے ہمراہ رہا کہ جیسے اونٹنی کا بچہ اپنی ماں کے پیچھے لگار ہتاہے اسی طرح میں رسول خدا ۖ کی پیروی کرتا رہا ۔(٢)
..............
۔ ۔ ۔پچھلے صفحہ کا بقیہ۔
شیخ سعدی شیرازی نے اس حدیث کو اپنی کتاب بوستان کے دیباچہ میں شعر کی صورت میں پیش کیا ہے۔
بلند آسمان پیش قدرت خجل تومخلوق و آدم ھنوز آب و گل
بلند و بالا آسمان آپ کی قد رو منزلت کے حضور شرمندہ ہے کہ آپ کی خلقت ہوچکی ہے جب کہ ابھی آدم پانی و مٹی کے درمیان ہیں ۔(م)
(١) امالی (مفید ) ٦، مجلس اول ، حدیث ٣۔ امالی طوسی ٦٢٦، حدیث ١٢٩٢۔ کشف الغمہ :١ ٤١٢۔ بحارالانوار :٣٩ ٣٩۔
(٢) نہج البلاغہ :٢ ١٥٧ ، ضمن خطبہ ١٩٢۔
٢٤٩
ان تمام واقعات و حالات سے یہ واضح ہوگیا کہ صدیقیت ایک ربانی و الہٰی امتیاز ہے اور صرف ان لوگوں کو عطا ہوتا ہے کہ جو عالی صفات کے حامل ہوں ، ان کا کردار ان کی گفتار کی تصدیق کرتا ہو ، انپے دل و جان سے ایمان لائے ہوں اور علی ہے کہ جس نے فرمایا:
''ما شککت فی الحق منذ اریتہ''(١) میں نے جب سے حق کو پہچانا اس میں کبھی شک نہ کیا ۔
مسلمان پریہ بات مخفی نہیں رہنی چاہیے کہ تمام خلائق کے پیدا ہونے کا مقصد و ہد ف، خداوندمتعال کی عبادت و معرفت ہے اور یہ معرفت وحی کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتی ، اسی وجہ سے مخلوقات کے وجود او رپیدائش کے آخری سبب پیغمبراکرمۖ اور ان کے وصی و معصومین ہیں کہ وہ واقعی انسان کامل ہیں اور یہ معرفت حضرت محمد مصطفی ۖ کی بعثت کے وقت اپنے عروج پر پہنچی اور روز غدیر کامل ہوئی لہذا خداوندعالم کا ارشاد گرامی ہے :
(الیوم اکملت لکم دینکم و اتممت علیکم نعمتی و رضیت لکم الاسلام دینا)(٢)
آج میں نے تمہارے لیے تمہارے دین کو کامل کردیا اور تم پر اپنی نعمتوں کا اتمام کردیا اور تمہارے لیے دین اسلام سے راضی ہوگیا ۔
..............
(١) خصائص الآئمہ (سید رضی ) ١٠٧۔ ارشاد مفید :١ ٢٥٤۔ شرح نہج البلاغہ (ابن ابی الحدید ) :١٨ ٣٧٤۔
(٢) سورہ مائدہ (٥) آیت ٣۔
| |