کون ہیں صدیق اور صدیقہ
 

ششم : صدیقیت کا نبوت کی طرح ہونا
صدیقیت کی علامت میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ نبوت کی مانند ہواور اس کی ہم فکر و ہم صنف ہو چونکہ خداوندعالم کا ارشاد ہے۔

٢١١
(ومن یطع اللہ و الرسول فاولئک مع الذین انعم اللہ علیھم من النبیین والصدیقین والشھدا والصالحین و حسن اولائک رفیقا)۔(١)
جو لوگ اللہ اور رسول کی اطاعت کرتے ہیں وہ ان حضرات کے ساتھ ہیں کہ جن پر اللہ نے نعمتیں نازل کی ہیں، انبیا، صدیقین، شھدا، اورصالحین میں سے اور وہ بہترین دوست و ہمدم ہیں ۔
یہ مانند و مثل ونظیر ہونا ، پیغمبرۖ و علی کے درمیان توبہت واضح و روشن ہے ۔ لیکن پیغمبر اکرم ۖاور اس شخص کے درمیان کہ جس کو اس زمانے والوں نے صدیق کا لقب دیا ہے اصلاً نہیں پایا جاتا ، چونکہ جب سورہ برائت کی دس آیات نازل ہوئیں تو پیغمبراکرم ۖنے ابو بکر کو بلایا اور ان کو یہ آیات دے کر بھیجا تاکہ مکہ والوں پر ان آیات کی تلاوت کریں ابھی ابوبکر کچھ ہی دور گئے تھے کہ جبرئیل، پیغمبراکرم ۖپر نازل ہوئے اور کہااے محمد آپ کے پروردگار نے آپ کو سلام کہا ہے اور فرمایا ہے :
''لایؤدی عنک الاانت او رجل منک ''آپ کی طرف سے آیات الٰہی کو ادا نہیں کرسکتا اور نہیں پہنچا سکتا مگر خود آپ یا وہ شخص کہ جو آپ سے ہو (یعنی آپ کانفس و جان اور آپ کی مثل و ھم نظیرہو)
تو فورا ہی رسول اکرمۖ نے علی کو بلایا اور فرمایا میرے ناقہ عضباء پر سوار ہوکر اپنے آپ کو ابوبکر تک پہنچا دو ۔اور سورہ برأت کو اس سے لے لو، اس سورہ کو مکہ لے جاؤ اور مشرکین کے عہد و پیمان کو خود انہی پر پھینک دو ۔ اور ابوبکر کو اختیار دینا کہ چاہے تو وہ آپ کے ساتھ چلے یا میرے پاس واپس آجائے ۔
..............
(١) سورہ نسائ(٤) آیت ٦٩۔

٢١٢
امیرالمؤمنین، رسول خداۖ کے ناقہ عضباء پرسوار ہوئے اور چلے یہاں تک کہ ابوبکر تک پہنچ گئے ابوبکر نے جیسے ہی آپ کو دیکھا تو آپ کے آنے سے پریشان ہوئے اور آپ کے پاس آکر کہا اے ابو الحسن کس لیے آئے ہو ؟ کیا میرے ساتھ چلنے کے لیے آئے ہو یا کسی اور کام کے لیے ؟

امیر المؤمنین علی نے فرمایا : رسول خداۖ نے مجھے حکم دیا ہے کہ اپنے آپ کو تم تک پہنچاؤں اور سورہ برأت کو آپ سے لے لوں اور اس کو مشرکین کے عہد کے ساتھ ان کے منھ پر ماروں اور مجھ سے فرمایا ہے کہ آپ کو اختیار دوں کہ چاہوتو میرے ساتھ چلو یا پیغمبراکرمۖ کی طرف پلٹ جاؤ ۔ ابوبکر نے کہا بیشک میں پیغمبراکرمۖ کی طرف پلٹ رہاہوں ۔
پس ابوبکر پیغمبراکرمۖ کے پاس آئے اور کہا اے رسول خداۖ پہلے مجھے اس کام کے لیے مناسب سمجھا اور انتخاب کیا کہ تمام لوگوں کی نگاہیں مجھ پر جم گئیں اور پھر جب میں اس کام کو انجام دینے کے لیے چلا تو وہ کام واپس لے لیا میرے سلسلے میں کیا پیش آیا ؟ کیا میرے بارے میں کوئی آیت نازل ہوئی ہے ؟
پیغمبراکرمۖ نے فرمایا : نہیں لیکن مجھ پر جبرئیل نازل ہوئے اور خدا کی جانب سے یہ پیغام مجھے دیا کہ میرے جانب سے آیات الہٰی کو کوئی ادا نہیں کرسکتا مگر میں خود یا وہ شخص کہ جو مجھ سے ہو ، '' و علی منی و لا یؤد ی عنی الا علی ''(١)
اور علی مجھ سے ہے اور میری طرف سے کوئی پیغام الہٰی کوسوائے علی کے ادا نہیں کرسکتا ۔
..............
(٢) ارشاد مفید :١ ٦٧۔ کشف الیقین (علامہ حلی ) ١٧٥۔

٢١٣
یہ کارنامہ اول ذی الحجہ سال ہفتم ہجری کو پیش آیا اور امام علی نے اس کو روز عرفہ اور روز نحر، عید قربان لوگوں پر بیان کیا ،اور یہ وہی فرمان ہے کہ جس میں خدا وندعالم نے ابراہیم اور آپ کی اولاد کو دعوت دی ہے جیسا کہ ارشاد ہوا ۔
(طھر بیتی للطائفین و العاکفین و الرکع السجود )(١)
میرے گھر کو طواف کرنے والوں،اعتکاف کرنے والوں اور رکوع و سجدہ گذاروں کے لیے پاک کرو۔
پس خداوندمتعال نے سب سے پہلے جناب ابراہیم کو دعوت دی (واذن فی الناس بالحج)(٢)
لوگوں کے درمیان حج کی انجام دہی کے لیے آواز دو ۔اور ان کے بعد علی ولی کو سورہ برأت کے پہنچانے کے لیے انتخاب فرمایا ۔
اور یہ واضح ہے کہ عہد و پیمان اسی سے مربوط ہوتا ہے کہ جس نے باندھا ہو اور وہ رسول خد اۖ کا عہد تھا تو یا رسول خدا ۖ تشریف لے جائیں یا وہ کہ جو آپ کے قائم مقام ہو آپ کے مثل و نظیر ہو اور مقام و مرتبہ اور صلاحیت و لیاقت میں آپۖ کی طرح ہو تو صرف علی ہی تنہا وہ فرد ہیں کہ جن میں اس امت کے درمیان یہ تمام صلاحیتیں پائی جاتی ہیں ۔
..............
(١) سورہ بقرہ(٢) آیت ١٢٥۔
(٢) سورہ حج(٢٢) آیت ٢٧۔

٢١٤
اس لیے کہ فقط وہ ہی نفس اور جان پیغمبر ہیں (١) اور آپ ۖ کے بھائی اور آپ کے مثل و نظیر ہیں ۔(٢)
آپ ۖ کی بیٹی کے شوہر اور کفو ہیں ۔(٣) اور آپ کے نزدیک سب سے زیادہ پیارے و محبوب ہیں ۔(٤)
اس الہٰی فرمان میں کہ جو پیغمبراکرمۖ کی طرف ابلاغ ہوا اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ابوبکر کے یہاں قرآن کریم کی چند آیات کے پہنچانے تک کی صلاحیت نہیں ہے تو پھر وہ کس طرح مسلمانوں پر امامت و رہبری کی صلاحیت و شائستگی رکھتے ہیں ؟۔
اور امام علی کے ہوتے ہوئے ان کو کس طرح لقب صدیق دیا جاسکتا ہے ۔
بہر حال خدا اور رسول خدا ۖکے نزدیک ان دونوں کی یہ حالت ہے ۔
اوروہ نصوص کہ جو امام علی و حسن و حسین اور حضرت زہرا کے بارے میں پائی جاتی ہیں ان کو ذرا غور سے دیکھیں تو یقینا ان حضرات کو رسول اکرم ۖکے ہم پلہ پائیں گے ۔
..............
(١) اس بنیاد پر خداوندعالم کا ارشادہے (وانفسنا و انفسکم)آپ اپنے نفس و جان کو لاؤ اور ہم اپنے نفسوں کو لاتے ہیں ۔ (سورہ آل عمران (٣) آیت ٦١)۔
(٢) امالی طوسی٦٢٦،حدیث ١٩٢۔ امالی مفید٦،مجلس اول۔ کشف الغمہ ٤١٢۔بحار الانوار: ٣٩ ٢٤٠۔
(٣) مسند ابی یعلی :٣٣٨١،حدیث ٥٠٣۔ شرح الاخبار : ٣ ٢٨، حدیث ٩٦٤۔
(٤) تاریخ دمشق : ٣٧ ٤٠٦ ۔ و جلد: ٤٢ ٢٤٥۔ مناقب خوارزمی ٢٢٢۔ خصال صدوق :٢ ٥٥٤۔ امالی طوسی ٣٣٣، حدیث ٦٦٧۔

٢١٥
بلکہ امیرالمومنین وصی پیغمبراکرم ۖمیں انبیا سے شباہت پائی جاتی ہے۔
ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول خدا ۖنے فرمایا :
کہ جو بھی آدم کو ان کے علم میں ، نوح کو ان کی حکمت میں اورابراہیم کو ان کے حلم میں دیکھنا چاہے تو وہ علی کو دیکھے ۔(١)
ابو الحمرا ء سے روایت نقل ہوئی ہے کہ پیغمبراکرم ۖنے فرمایا: جو شخص بھی چاہے کہ علم آدم ، فہم نوح کو دیکھے ، یحی کے زہد و تقوی اور، موسی کی شجاعت و دلاوری کودرک کرے پس اس کو چاہیے کہ علی کو دیکھے ۔(٢)
بیاض رقمطراز ہے کہ اس کلام پیغمبرۖ کو ابن جبیر نے ابن عباس کی سند سے بیان کیا ہے کہ جو بھی آدم کو ان کے علم میں، نوح کو ان کی فہم و عقل میں، موسی کو ان کی مناجات میں، عیسی کو ان کی خاموشی میں اور محمد کو ان کے تمام صفات میں دیکھنا چاہے تو وہ اس شخص کو دیکھے ، اس وقت سب کی گردنیں دراز ہوئیں اور نگاہیں اٹھیں تو دیکھا وہ شخص علی ابن ابی طالب ہیں ۔(٣)
٭رسول خدا ۖنے علی کو آدم سے علم میں تشبیہ دی ہے چونکہ خداوندعالم نے تمام اسماء (تمام موجودات اور حقائق عالم کے نام) کی تعلیم آدم کودی (علم آدم الاسماء کلھا)(٤)۔
..............
(١) اور محب طبری : 3/ 249 میں آیا ہے کہ جو یوسف کو ان کے حسن و جمال میں ۔
(٢) مناقب خوارزمی /40 فصل 7۔ حاکم نے شواہد التنزیل :1/ 180 میں بھی روایت نقل کی ہے ۔
(٣) الصراط المستقیم:١ ١٠٣۔
(٤) سورہ بقرہ (٢)آیت ١٣۔

٢١٦
اس بنا پر کوئی حادثہ، کوئی واقعہ اور کوئی شیٔ بھی نہیں ہے کہ جس کا علم علی کے پاس نہ ہو، اور ان کے معانی و مفاہیم کو آپ نہ سمجھتے ہوں ، خدا وندعالم نے آدم کو تراب سے خلق فرمایا جب کہ رسول خدا ۖنے علی کا لقب ابوتراب رکھا ۔
٭پیغمبراکرم ۖنے علی کو جناب نوح کی فہم و حکمت میں مثل و نظیر قرار دیا ہے چونکہ جناب نوح نے اپنی قوم کے ساتھ بہت حلم و بردباری سے کام لیا اور کہا پروردگارا میری قوم کی ہدایت فرما ، چونکہ وہ نادان ہے۔(١) اور اسی طرح امیر المومنین کی زبان مبارک پر بھی یہ کلمات جاری ہوئے لہذا فرمایا:''فصبرت وفی العین قذی و فی الحلق شجی''(٢)
میں نے صبر کیا حالانکہ میری آنکھوں میں خش و خاشاک اور میرے حلق میں ہڈی تھی ۔
نوح نے اپنی قوم پران کی بدکرداری ، تجاوز اور فسق و فجور کی انتہا پر پہنچنے کے بعد اور یہ جاننے کے بعد کہ یہ قابل اصلاح نہیں ہیں لعنت کی لہذا کہا : (رب لاتذر علی الارض من الکافرین دیارا)(٣)
پروردگارا روی زمین پر ایک گھر بھی کافروں کا باقی نہ رکھ۔
امیرالمومنین نے بھی اسی طرح نوح کے کلام کی مانند ایک جانگذار شکوہ فرمایا لہذا ارشاد ہوا :
..............
(١) ذکر اخبار اصبہان:٤٩٢، باب غین۔ فتح الباری :١٢ ٢٥٠ ۔ الدر المنثور : ٣٠ ٩٤۔
(٢) نہج البلاغہ :خطبہ شقشقیہ،خطبہ٣۔
(٣) سورہ نوح (٧١)آیت ٢٦۔

٢١٧
''اللھم انی قد مللتھم و ملونی و سئمتھم و سئمونی، فابدلتنی بھم خیراًمنھم وابدلھم بی شراً منی''(١)
پروردگارا ، بیشک یہ لوگ مجھ سے بیزار ہیں اور میں بھی ان سے خستہ ہوچکا ہوں یہ لوگ مجھ سے دل تنگ و عاجز ہیں اور میں بھی ان سے دل شکستہ ہوچکا ہوں ، پالنے والے میری جگہ ان کو کوئی برا اور بدتر حاکم نصیب فرمااور ان کی جگہ میرے لیے کوئی بہتر رعایا و امت قرار دے۔

٭پیغمبراکرم ۖنے امیرالمومنین علی کو حضرت ابراہیم سے تشبیہ دی ہے چونکہ خداوندعالم نے بچپنے ہی میں ان کے لیے اپنی دلیلیں اور براہین پیش فرمائے جب کہ وہ گھر سے باہر تشریف لائے اور اپنے چچا اور قوم سے مناظرہ کیا جیسا کہ خداوندکریم کے کلام میں مذکور ہے ۔
(یاابت لم تعبد مالایسمع ولا یبصر ولا یغنی عنک شیئا)(٢)
اے میرے بابا (چچا آذر)کیوں آپ ایسی چیز کی عبادت کرتے ہو کہ جو نہ سنتی ہے نہ دیکھتی ہے اور نہ ہی آپ کو کسی طرح کا کوئی فائدہ پہنچاتی ہے ۔
(اذ قال لابیہ و قومہ ماذا تعبدون)(٣)
جب کہ ابراہیم نے اپنے والد (چچا آذر)اور اپنی قوم سے کہا کہ تم کس کی عبادت کرتے ہو۔
..............
(١) نہج البلاغہ :٦٥١،خطبہ ٢٥۔ اور دیکھیے : الغارات:٢ ٦٣٦۔ شرح الاخبار:٢ ٢٩٠۔
(٢) سورہ مریم(١٩)آیت ٤٣۔
(٣) سورہ صافات(٣٧)آیت ٨٥۔

٢١٨
(فلما جن علیہ اللیل رأی کوکباً)(١)
جب رات ہوگئی اور ابراہیم نے ستارہ کو دیکھا ۔ ۔ ۔
(وتلک حجتنا آتیناھا ابراہیم علی قومہ نرفع درجات من نشائ)(٢)
یہ ہماری حجتیں ہیں کہ جو ہم نے ابراہیم کو ان کی قوم پر پیش کرنے کے لیے عطا کیں اورہم جس کے مرتبے کوچاہتے ہیں بلند کرتے ہیں ۔
اور یہی حال امام علی علیہ السلام کا ہے جیسا کہ خدا وندعالم نے جناب ابراہیم کو زمانہ طفلی میں اور سن بلوغ سے پہلے ہی اپنی آیات و دلائل سے نوازا اور انہوں نے اپنی قوم سے مناظرہ کیا ، بتوں کو توڑا ، خداوندعالم نے ابراہیم کو حکم دیا کہ میرے گھر کعبہ کو پاک کرو (وطھر بیتی) (٣)
جب کہ علی کے گھر کو خود خداوندعالم نے پاک و پاکیزہ قرار دیا (ویطھرکم تطھیرا) (٤)
اے اہل بیت، خدا نے تمہیں پاک و پاکیزہ رکھا جو پاک رکھنے کا حق ہے ۔
اسی طرح کا کلام خداوندعالم نے حضرت یحی کے بارے میں ارشاد فرمایا (یا یحی خذ الکتاب بقوة)(٥) اے یحی قدرت و طاقت سے کتاب کو پکڑلو۔
..............
(١) سورہ انعام(٦)آیت ٧٦۔
(٢) سورہ انعام(٦)آیت ٨٣۔
(٣) سورہ حج(٢٢) آیت ٢٦۔
(٤) سورہ احزاب(٣٣) آت ٣٣۔
(٥) سورہ مریم(١٩)آیت ١٢۔

٢١٩
خداوندمتعال نے جناب یحی کو کم سنی ہی میں توریت کا علم عطا کیا ۔
(وآتیناہ الحکم صبیاً)(١) اور ہم نے یحی کو بچپنے ہی میں نبوت عطا کی ۔
(وبراً بوالدیہ ولم یکن جباراً عصیاً) (٢) اوریحی اپنے والدین کے حق میں بہت نیک و شریف تھے اور نافرمانی و ظلم و زبردستی نہیں کرتے تھے ۔
(وسیداً و حصوراًو نبیاً من الصالحین)(٣)
اور یحی بزرگوار و سردار، پاک دامن و باوقار اور نیک و صالحین میں سے نبی تھے ۔
روایت میں ہے کہ زکریا نے اپنے بیٹے یحی کو روتے ہوئے دیکھا تو آپ نے کہا بیٹا یہ آپ کی کیا حالت ہے ؟ یحی نے جواب دیا : بابا جان آپ نے مجھے با خبر کیا ہے کہ جبرئیل نے آپ سے فرمایا کہ جنت و جہنم کے درمیان ایک بہت بڑا آگ کا میدان ہے کہ جس کو صرف راہ خدا میں آنسو ہی بجھا سکتے ہیں ۔(٤)
..............
(١) سورہ مریم(١٩)آیت ١٢۔
(٢) سورہ مریم(١٩)آیت ١٤۔
(٣) سورہ آل عمران(٣)آیت ٣٩۔
(٤) یہ حدیث جیسا کہ متن میں آئی ہے اس طرح کسی بھی ماخذ میں نہیں مل سکی لیکن بحار الانوار: ١٦٥١٤، حدیث ٤ کے تحت واردہے؛
''یا بنی مایدعوک الی ھذا ؟ انما سألت ربی ان یھبک لی لتقربک عینی ، قال: انت امرتنی بذالک یا ابہ ! قال: و متی ذالک یا بنی ؟ قال: الست القائل ان بین الجنة و النار لعقب لایجوزھا الاالبکاوون من خشیة اللہ ۔ ۔ ۔'' ۔۔۔ اگلے صفحہ پر ۔۔۔

٢٢٠
اور حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالب کی بھی یہی حالت و منزلت ہے ۔ حضرت امام جعفر صادق اور امام محمد باقر سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا امام علی ابن الحسین زین العابدین جب کبھی بھی امیر المومنین کی زندگانی پر نظر کرتے اور آپ کی عبادت کو ملاحظہ فرماتے توکہتے :
''من یطیق ھذا'' (١)
کس میں طاقت ہے کہ اس قدر عبادت کرسکے اور عبادت میں علی کا مقابلہ کرسکے۔
٭پیغمبر اکرم ۖنے حضرت علی کو جناب موسی سے شجاعت و دلیری میں تشبیہ دی خداوندعالم جناب موسی کے بارے میں ارشاد فرماتا ہے ۔
(فاستغاثہ الذی من شیعتہ علی الذی من عدوہ فوکزہ موسی فقضی علیہ)(٢) موسیٰ کے شیعہ نے اپنے دشمن پر غلبہ پانے کے لیے موسی کو مدد کے لیے بلایا تو موسی نے اس دشمن کے ایک گھونسا مارا اور وہ مرگیا۔
..............
۔۔۔پچھلے صفحہ کا بقیہ۔
زکریا نے کہا اے میرے بیٹے یہ آپ نے اپنی حالت کیا بنا رکھی ہے جب کہ میں نے پروردگار سے تجھے اس لیے مانگا ہے تاکہ میرا دل ٹھنڈا ہو اور میری آنکھوں کی روشنی قرار پائے ۔ یحی نے جواب دیا اے میرے بابا جان آپ نے مجھے اس کام کے لیے آمادہ فرمایا ، زکریا نے سوال کیا میرے بیٹے کب میں نے ایسا کیا ؟ یحی نے جواب دیا تو کیا آپ یہ نہیں فرماتے کہ جنت و جہنم کے درمیان ایک بہت بڑا آگ کا میدان ہے کہ اس سے صرف وہی گذر سکتا ہے جو خوف خدا میں بہت زیادہ گریہ و زاری کرتا ہو(م)۔
(١) روضہ کافی : ٨ ١٣١، ذیل حدیث ١٠٠۔
(٢) سورہ قصص(٢٨) آیت ١٥۔

٢٢١
موسی شجاعت و دلیری میں مشہور تھے اور یہی حال علی ابن ابی طالب کا ہے کہ وہ راہ خدا میں ثابت قدم تھے شکست نہ کھانے والی جنگیں کرتے ،دین مبین اسلام کے دفاع میں پیغمبراکرمۖ کی حفاظت کی خاطر قریش اور عرب کے بڑے بڑے پہلوانوں کو قتل کیا ۔
٭ حضرت علی کی جناب عیسی سے تشبیہ کے متعلق نسائی نے اپنی کتاب الحضائص الکبری میں حضرت علی سے روایت نقل کی ہے کہ رسول خدا ۖ نے فرمایا : اے علی تیری مثال عیسی کی طرح ہے ، یہودیوں نے ان سے دشمنی کی یہاں تک کہ ان کی والدہ پر تہمتیں لگائیں اور نصاری نے ان سے محبت کی یہاں تک کہ ان کو وہ مقام بھی دیا کہ جو ان کا نہیں تھا ۔(١)
پس علی علیہ السلام کی عیسی سے شباہت ان کے کتاب کے علم کی وجہ سے ہے کہ جو خداوندعالم نے ان کو کم سنی اورسن بلوغ سے پہلے ہی عطا فرمایا لہذا ارشاد ہوا :
(ویعلمہ الکتاب والحکمة والتوراة والانجیل)(٢)
خداوندعالم نے عیسی کو کتاب و حکمت اور توریت و انجیل کی تعلیم دی اور علی عیسی کی طرح خدا کے مطیع و فرمانبردار بندے ہیں ، جیسا کہ ارشاد ہوا :
(انی عبداللہ آتانی الکتاب )(٣)
میں خدا کا بندہ ہوں اور مجھے کتاب عطا کی گئی ہے ۔
..............
(١) مسند احمد : ١ ١٦٠۔ مجمع الزوائد : ٩ ١٣٣۔ خصائص امیر المؤمنین(نسائی) ١٠٦۔
(٢) سورہ آل عمران (٣) آیت ٤٨۔
(٣) سورہ مریم (١٩) آیت ٣٠۔

٢٢٢
اور اسی طرح دسیوں صفات کی طرف اشارہ کیا جاسکتا ہے کہ جن میںحضرت علی، حضرات آدم ، موسی ، ابراہیم ، عیسی ، نوح ، یحی ، ایوب ، یوسف ، سلیمان ، اور داؤد وغیرہ سے شباہت رکھتے ہیں ۔
بصائر الدرجات میں حضرت امام محمد باقر سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا : '' کانت فی علی سنة الف نبی ''(١)
حضرت علی کے یہاں ایک ہزار نبیوں کی سنتیں پائی جاتی تھیں۔

..............
(١) بصائر الدرجات ١٣٤۔