کون ہیں صدیق اور صدیقہ
 

پنجم :ـ علم و دانائی
علم، صدیق کے واسطے ضروریات واولیات میں سے ہے جو شخص علم وآگاہی نہ رکھتا ہو اس کے لیے ممکن نہیں ہے کہ وہ اپنے تمام امور اور نظریات و آراء میں صدیق ہو ، اور اس علم سے مراد علم الہٰی ہے یعنی علم لدنی و علم وہبی ۔
اس علم الہٰی کا لازمہ یہ ہے کہ جس شخص کے پاس یہ علم ہو وہ دل و جان سے اور عقیدہ و اعتقاد کی بنیاد پر رسالت آسمانی اور غیب پر ایمان و یقین رکھتا ہے ، نہ یہ کہ صرف زبان اور ظاہری احساسات کی بناپر اقرار کرے ۔
لہذا صدیقیت کسی بھی شخص کی معرفت و عرفان کی بلندی کی حیثیت سے مربوط ہے ، جتنا زیادہ اس کا علم و عرفان ہوگا تو اس کی تصدیق بھی پروردگار عالم کے متعلق اتنی ہی زیادہ اور یقینی ہوگی

٢٠٠
جب کہ واضح ہے کہ ابوبکر ، فرمایشات رسول خدا ۖکے بھی عالم نہ تھے اور آپ دیکھتے ہیں کہ اکثر مسائل میں یہ صحابہ سے سوال کرتے تھے اور بہت زیادہ مقامات ایسے ہیں کہ خطا ء و غلطی کرجاتے تھے ،کوئی ایسا فتوی دے دیتے کہ دوسرے صحابہ ان سے اختلاف کرنے لگتے ۔(١)

لیکن حضرت علی کے متعلق ایسا نہیں ہے بلکہ قضیہ بر عکس ہے کہ تمام عالم اسلام ابتداء سے آج تک علی کے علم و حکمت اور قضاوت کی گواہی دیتے ہیں ۔
حاکم نیشاپوری نے اپنی اسناد کے ساتھ ابن عباس اور جابر ابن عبداللہ انصاری سے روایت نقل کی ہے کہ انہوں نے کہا کہ رسول خدا ۖ نے فرمایا:
'' انا مدینة العلم وعلی بابھا فمن اراد المدینة فلیأت الباب ''(٢)
میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کادروازہ ہیں ،پس جو شہر میں آنا چاہے اس کو چاہیے کہ دروازے سے آئے ۔
اور رافعی نے اپنی اسناد کے ساتھ ابن عباس سے روایت کی ہے کہ پیغمبراکرمۖ نے فرمایا:''علی عیبة علمی ''(٣) علی میرے علم کے خزانے ہیں ۔
..............
(١) اس سلسلے میں اور زیادہ معلومات کے لیے مؤلف کی کتب ''منع تدوین الحدیث'' اور ''تاریخ الحدیث النبوی '' میں مراجعہ کیا جائے ۔
(٢) مستدرک حاکم:٣ ١٢٦۔ المعجم الکبیر :١١ ٥٥۔
(٣) التدوین فی اخبار قزوین ٨٩(بہ نقل از ابن عباس)۔ کنزالعمال :١١ ٦٠٢، حدیث ٣٢٩١١۔(بہ طریق دیگر)۔

٢٠١
ابن عساکر نے اپنی اسناد کے ساتھ عبد الرحمن بن بہمان سے راویت کی ہے اس نے کہا کہ میں نے جابر کو کہتے ہوئے سنا ہے کہ رسول خدا ۖ روز حدیبیہ علی کے بازو پکڑے ہوئے فرمارہے تھے : '' ھذا امیر البررة وقاتل الفجرة ، منصور من نصرہ مخذول من خذلہ ''
یہ علی نیک و صالحین کا امیر اور فساق و فجار کا قاتل ہے جو شخص اس کی مدد کرے اس کی خدا کی جانب سے مدد ہوگی ، جو اس کو چھوڑدے ا ور پست سمجھے وہ ذلیل و رسوا ہوگا۔
اس وقت پیغمبر اکرمۖ نے باآواز بلند فرمایا : '' میں علم کا شہرہوں اور علی اس کے دروازہ ہیں اور جو بھی شہر میں داخل ہونا چاہے اس کو چاہیے وہ دروازے سے آئے ۔(١)
متقی ہندی نے ابن مسعود سے روایت نقل کی ہے کہ اس نے کہا :
'' حکمت کی دس قسمیں ہیںکہ جن میں سے٩ علی کے پاس ہیں اور ایک حصہ تمام لوگوں کے پاس ہے۔ اور اس ایک حصے میں بھی علی ان سب سے زیادہ عالم ہے'' ۔(٢)
ابن عساکرنے اپنی اسناد کے ساتھ عبداللہ ابن مسعود سے روایت نقل کی ہے کہ اس نے کہا کہ پیغمبراکرمۖ کی خدمت میں تھا کہ علی کے بارے میں آنحضرت ۖسے سوال ہوا تو آپ ۖنے فرمایا : حکمت کے دس حصے ہیں کہ جن میں سے نو علی کے پاس اور ایک حصہ تمام لوگوں کے پاس ہے ۔(٣)
..............
(١) تاریخ مدینة دمشق :٤٢ ٢٢٦و ٣٨٣(ترجمہ امام علی ابن ابی طالب )۔
(٢) کنزالعمال :١١ ٦١٥، حدیث ٣٢٩٨٢۔ و جلد :١٣ ١٤٦، حدیث ٣٦٤٦١۔ فیض القدیر :٣ ٦٠، حدیث ٢٧٠٤۔
(٣) تاریخ مدینة دمشق : ٤٢ ٣٨٤۔ مناقب خوارزمی ٨٢۔

٢٠٢
خطیب بغدادی نے اپنی اسناد کے ساتھ ابن عباس سے روایت کی ہے کہ اس نے کہا کہ پیغمبراکرمۖ نے فرمایا :
''انا مدینة الحکمة و علی بابھا فمن اراد الحکمة فلیات الباب ''(١)
میں حکمت کا شہرہوں اور علی اس کے دروازہ ہیں پس جوبھی حکمت چاہے اس کو چاہیے کہ دروازے سے آئے۔
دوری نے تاریخ ابن معین میں اپنی اسناد کے ساتھ سعید بن مسیب سے روایت نقل کی ہے کہ اس نے کہا کہ پیغمبراکرمۖ کے صحابہ میں کوئی بھی سوائے علی ابن ابی طالب کے یہ دعوی نہیں کرتا کہ جوچاہو مجھ سے پوچھ لو ۔(٢)
خوارزمی نے اپنی اسناد کے ساتھ ابوالبختری سے روایت نقل کی ہے کہ اس نے کہا کہ میں نے علی کو دیکھا کہ رسول خدا ۖ کی تلوار حمائل کیے ہوئے پیغمبراکرمۖ کا عمامہ اپنے سر پر باندھے ہوئے
..............
(١) تاریخ بغداد:١١ ٢٠٤، ترجمہ٥٩٠٨۔
(٢) تاریخ ابن معین :١ ١٠٦۔(دوری کہتاہے ہم سے یحی ابن معین نے نقل کیا کہ اس نے کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے اس سے یحی بن سعید نے اس سے سعید بن مسیب نے )۔ مناقب خوارزمی ٩١۔ اسدالغابہ :٤ ٢٢۔ ذخائر العقبی ٨٣۔
اس حدیث کو احمد نے مناقب میں اور بغوی نے المعجم میں اس عبارت کے ساتھ نقل کیا ہے کہ ماکان احد من الناس یقول سلونی غیر علی ابن ابی طالب ، لوگوں میں کسی نے یہ نہیں کہا کہ مجھ سے سوال کرو سوائے علی ابن ابی طالب کے ۔

٢٠٣
اور آپ کی انگشتر مبارک پہنے ہوئے منبر پر تشریف فرماہیں اور اپنے سینے کی طرف اشارہ کرکے فرماتے ہیں :
'' سلونی قبل ان تفقدونی ،فانما بین الجوانح منی علم جم، ھذا سقط العلم ! ھذا لعاب رسول اللہ ! ھذا ما زقنی رسول اللہ زقا من غیر وحی اوحی الی ، فواللہ لو ثنیت لی وسادة فجلست علیھا ، لافتیت اھل التوراة بتوراتھم و اھل الانجیل بانجیلھم ، حتی ینطق اللہ التوراة والانجیل فیقول : صدق علی قد افتاکم بما انزل فی ، وانتم تتلون الکتاب افلا تعقلون ''(١)
مجھ سے جوسوال کرنا چاہو سوال کرو اس سے پہلے کہ تم مجھے کھو بیٹھو ۔بیشک میرے پہلووں کے درمیان بہت زیادہ علم ہے یہ علم کی سبیل اور جام ہے ، یہ رسول خداۖ کا لعاب دہن ہے ، یہ وہ چیز ہے کہ جو رسول خدا ۖ نے مجھے اس طرح عطا کی کہ جس طرح پرندہ اپنے بچے کے پوٹے کو دانے سے بھرتا ہے ۔ بغیر اس کے کہ مجھ پر وحی نازل ہوئی ہو، خداکی قسم اگر میرے لیے مسند قضاوت بچھادی جائے کہ میں اس پر بیٹھ کر فیصلے کروں تو اہل توریت کے لیے ان کی توریت سے اور اہل انجیل کے لیے ان کی انجیل سے اس طرح فتوے دوںگا کہ خداوندعالم توریت و انجیل کو زبان عطا فرمائے گا اور وہ کہیں گی کہ علی نے سچ کہا ہے اور جو کچھ ہم میں نازل ہوا اسی طرح فتوی دیا ہے اور جب کہ تم کتاب کی تلاوت کرتے ہو تو کیا غور وفکر نہیں کرتے ۔
..............
(١) المناقب ٩١۔ اور دیکھیے :ـ امالی صدوق ٤٢٢۔ اختصاص مفید ٢٣٥۔ احتجاج طبرسی :١ ٣٤٤۔ (بہ نقل از اصبغ ابن نباتہ )۔

٢٠٤
ابن عساکر نے اپنی اسناد کے ساتھ زکریا سے روایت نقل کی ہے کہ اس نے عامر شعبی کو کہتے سنا کہ ابن کوّا نے علی سے سوال کیا : مخلوقات الہٰی میں کون سی چیز سب سے زیادہ سخت ہے ، آپ نے فرمایا :''اشد خلق ربک عشرة : الجبال الرواسی ، الحدید تنحت بہ الجبال ، والنار تاکل الحدید ، والماء یطفی النار ، والسحاب المسخر بین السماء والارض، یعنی یحمل المائ، والریح تقل السحاب،والانسان یغلب الریح یعصمھا بیدہ و یذھب حاحتہ ، السکر یغلب الانسان ، والنوم یغلب السکر، والھم یغلب النوم فاشدخلق ربکم الھم۔(١)
آپ کے پروردگار کی مخلوقات میں سب سے زیادہ سخت چیزیں دس ہیں :
بلند و بالا پہاڑ، اور لوہا پہاڑ کو ریزہ ریزہ کردیتا ہے، آگ کہ جو کہ لوہے کو کھاجاتی ہے ، پانی کہ جو آگ کو بجھا دیتا ہے ، بادل کہ جو پانی کو آسمان و زمین کے درمیان اٹھائے اٹھائے پھرتے ہیں ، ہوا کہ جو بادلوں کو لیے پھرتی ہے ، اور انسان کہ جو ہوا پر غالب آجاتا ہے ، اس کو اپنے ہاتھ سے مسخر کرتا ہے اور اپنی ضرورت کو پورا کرتا ہے ، نشہ انسان پر غالب آجاتا ہے ، نیند کہ جو نشہ پر غالب آجاتی ہے اور ہم و غم (فکر و پریشانی) کہ جو نیند پر غالب آجاتی ہے۔
..............
(١) تاریخ دمشق : ٤٠١٤٢۔ الغارات :١٨٢١۔ اس مدرک میں یعصمھا بیدہ کی جگہ پر یتقیھا بیدہ آیاہے ۔ اس روایت کوطبرانی نے المعجم الاوسط :٢٧٦١ میں حارث سے اور اس نے علی سے نقل کیا ہے اور اس میں یعصھا کی جگہ پر یتقی الریح بیدہ آیاہے اور اس سے ھیثمی نے مجمع الزوائد : ١٣٢٨میں نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ اس حدیث کے رجال ثقہ ہیں ۔ کنزالعمال :١٧٧٦،حدیث ١٥٢٥٢۔

٢٠٥
پس آپ کے پروردگار کی مخلوقات میں سب سے زیادہ سخت ہم و غم اور فکر و پریشانی ہے ۔
خوارزمی نے اپنی اسناد کے ساتھ ابی سعید خدری سے روایت نقل کی ہے اس نے کہا کہ رسول خداۖ نے فرمایا : اقضی امتی علی ابن ابی طالب (١)میری امت میں سب سے بڑا قاضی علی ابن ابی طالب ہے ۔
ابن سعد نے اپنی اسناد کے ساتھ ابوہریرہ ، ابن عباس اور سعید بن جبیر و عطا سے روایت نقل کی ہے کہ ان حضرات نے کہا کہ عمر کا قول ہے ''علی اقضانا'' (٢)ہمارے درمیان سب سے بڑا قاضی علی ہے ۔
احمد نے اپنی اسناد کے ساتھ ابو البختری سے اور اس نے علی سے نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا : رسول خدا ۖ نے مجھے جوانی ہی کے عالم میں یمن میں حکومت کے لیے بھیجا ، میںنے پیغمبراکرمۖ سے عرض کی مجھے ایک ایسی قوم کی طرف بھیج رہے ہیں کہ جس کے درمیان مجھے قضاوت کرنا ہے جب کہ میں علم قضاوت سے کچھ نہیں جانتا پس رسول خداۖ نے فرمایا : میرے قریب آؤ ، میں آپ کے پاس گیا آپۖ نے اپنے دست مبارک کو میرے سینے پر رکھا اور فرمایا : خدایا اس سینے کو کشادہ فرما اور اس کی زبان کو محفوظ رکھ۔
..............
(١) مناقب خوارزمی ١٨۔ امالی صدوق ٦٤٢ (بنقل از سلمان فارسی)۔تاریخ دمشق : ٤٢ ٢٤١ (بنقل از ابن عباس)۔
(٢) طبقات ابن سعد : ٢ ٣٣٩ـ ٣٤٠۔ اور دیکھیے : مسند احمد :٥ ١١٣۔ مصنف ابن ابی شیبہ : ٧ ١٨٣، حدیث ٣۔ مستدرک حاکم :٣ ٣٠٥۔ مناقب خوارزمی ٩٢۔ البدایة و النہایة : ٧ ٢٩٧۔

٢٠٦
علی نے فرمایا: اس وقت کے بعد سے میں نے کبھی قضاوت کے سلسلے میں دو شخصوں کے بارے میں بھی شک نہیں کیا اور کسی مسئلہ میں بھی مردد نہیں ہوا۔(١)
ابن عساکر نے اپنی اسناد کے ساتھ عبداللہ ابن مسعود سے روایت نقل کی ہے اس نے کہا کہ کہا جاتا ہے کہ فرائض دین اور واجبات و محرمات الہٰی کے متعلق سب سے زیادہ عالم علی ابن ابی طالب ہیں ۔(٢)
اور ابن عبد البر نے اپنی اسناد کے ساتھ انس سے روایت نقل کی ہے اس نے کہا کہ رسول خدا ۖ نے فرمایا : ''اقضاکم علی ''(٣) تم میں سب سے بڑا قاضی علی ہے ۔
عبداللہ ابن عمر سے نقل ہوا ہے اس نے کہا ایک شخص ابوبکر کے پاس آیا اور کہا : کیا آپ کی نظر میں زنا مقدر اور تقدیر الہٰی میں ہے ؟ ابو بکر نے جواب دیا : ہاں، اس شخص نے کہا تو بس خداوندعالم نے میرے مقدر میں زنا لکھا ہے، پھر اس کو انجام دینے پر مجھ پر عذاب کرے گا ؟ ابوبکر نے کہا : ہاں ، اے لخناء کے بیٹے اگر میرے پاس کوئی ہوتا تو اس کو حکم دیتا کہ تیرے ناک کان کاٹ ڈالے ۔(٤)
..............
(١) دیکھیے : مسند احمد :١ ٨٣۔ سنن ابن ماجہ :٢ ٧٧٤، حدیث ٢٣١٠۔ مستدرک حاکم: ٣ ١٣٥۔
(٢) تاریخ دمشق : ٤٢ ٤٠٥۔
(٣) الاستیعاب : ١ ٦٨۔ اور دیکھیے : تفسیر قرطبی : ١٥ ١٦٢۔ مقدمہ ابن خلدون : ١ ١٩٧۔ جواہر المطالب (ابن دمشقی) :١ ٧٦۔ غریب الحدیث (خطابی) : ٢ ٢٠١۔
(٤) اس حدیث کو لالکائی نے اعتقاد اہل السنة : ٤ ٦٦٢، حدیث ١٢٠٥ میں نقل کیا ہے اور اس سے کنزالعمال :١ ٣٣٤، حدیث ١٥٣٧ و تاریخ الخلفا ء :١ ٩٥ میں منقول ہے ۔

٢٠٧
اس طرح کی باتیں ہمیں علی کے یہاں نہیں ملتیں بلکہ وہ لوگوں سے کہتے ہیں کہ جو سوال کرنا ہے مجھ سے سوال کرو اس سے پہلے کہ تم مجھے کھو بیٹھو ، چونکہ جو عالم ہوتاہے وہ سوال کرنے پر گھبراتانہیں ہے، بلکہ سوالات اس کو خوشحال کرتے ہیں ، اس شخص کے برعکس کہ جو مسائل شرعی سے واقف نہیں ہے اس کو آپ دیکھتے ہیں کہ سوالات سے ڈرتا ہے اور یہ حالت ابو بکر و عمر کے یہاں مشاہدہ کی جاسکتی ہے ۔
ابوعثمان نہدی نے نقل کیا ہے کہ ایک شخص نے بنی یربوع یا بنی تمیم خاندان سے (والذاریات)، (والمرسلات ) اور (والنازعات ) کے معنی اور تفسیر یا ان میں سے کسی ایک کے معنی یا تفسیر کے متعلق سوال کیا ۔
عمر نے کہا : اپنے سر سے عمامہ کو اتار اس نے سر سے عمامہ اتار لیا تو اس کے سر کے لمبے بال نظر آنے لگے ۔ عمر نے کہا: خدا کی قسم اگر تیرا سر منڈا ہوا ہوتا تو تیرا سر توڑ دیتا ۔

اس کے بعد اس کو ابوموسی اشعری کے پاس بھیجا اور اہل بصرہ کو لکھا،اور ہم سے بھی کہا کہ اس کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا چھوڑدیں ، پس اگر ہم سو (١٠٠)افراد ہوتے اور وہ ہماری طرف آتا تو سب آپس میں متفرق ہوجاتے اس شخص کا نام صبیغ بن عسیل تھا ۔(١)
ابوبکر و عمر کی اس سیرت کے مقابل دیکھتے ہیں کہ حاکم نیشاپوری نے اپنی اسناد کے ساتھ ابوطفیل سے روایت بیان کی ہے کہ اس نے کہا کہ میںنے امیرالمؤمنین علی کودیکھا کہ آپ منبر پر تشریف لے گئے اور فرمایا : پوچھو جو پوجھنا چاہواس سے پہلے کہ تم مجھے کھو بیٹھو ۔
..............
(١) مسائل احمد :١ ٤٧٨، حدیث ٨١۔

٢٠٨
میرے بعد کوئی میری طرح جواب دینے والا نہیں پاؤ گے ۔پس ابن کوا کھڑا ہوا اور اس نے کہا اے امیر المؤمنین (والذاریات ذرواً )(١) کیا ہے ؟
آپ نے فرمایا ہوائیں ۔ پھر اس نے سوال کیا (والحاملات وقراً) کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا :بادل ۔ پھر اس نے سوال کیا(فالجاریات یسرا ً) کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا :کشتیاں ۔
پھر اس نے سوال کیا (والمقسمات امراً) کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا : ملائکہ ۔ پھر اس نے سوال کیا (الذین بدلوا نعمة اللہ کفراً واحلوا قومھم دار البوار جھنم )(٢) ان لوگوں نے نعمت الہٰی کو کفر سے تبدیل کردیا اور اپنی قوم کے لیے ایک ہلاک ہونے والے گھر کا انتخاب کیا ۔وہ لوگ کون ہیں؟آپ نے فرمایا : منافقین قریش۔
حاکم کا بیا ن ہے کہ یہ حدیث صحیح الاسناد ہے بخاری و مسلم نے اس کو ذکر نہیں کیا ہے ۔(٣)
..............
(١) سورہ ذاریات (٥١) آیت ١ـ٤
(٢) سورہ ابراہیم (١٤) آیات ٢٨ـ٢٩۔
(٣) مستدرک حاکم :٢ ٤٦٧۔ اور دیکھیے اس کے طرق و اسانید کو عمدة القاری : ١٩ ١٩٠ میں تغلیق التعلیق ٣١٨ـ ٣١٩۔ کنزالعمال :٢ ٥٦٥،حدیث ٤٧٤٠۔ الاحادیث المختارہ :١٢٤٢و ١٧٦و ٢٩٨، حدیث ٤٩٤ و ٥٥٦ و٦٧٨۔ مسند شامی :٢ ٩٦ ، حدیث ٦٢٠۔ تاریخ دمشق : ٢٧ ٩٩۔ المعیار والموازنہ ٢٩٨۔ فتح الباری :٨ ٥٩٩۔ الغارات :١ ١٧٨۔ احتجاج طبرسی :١ ٣٨٦۔ جواہر المطالب :١ ٣٠٠ ۔ اور بعض مصادر میں حدیث طولانی ہے اور اس میں سوال زیادہ ہیں کہ جن کے امیر المؤمنین نے جواب دیے ہیں ۔

٢٠٩
ابن شہر آشوب راقم ہے کہ خداوندعالم کا فرمان ہے (ولو ردوہ الی الرسول والی اولی الامر منھم لعلمہ الذین یستنبطونہ منھم)(١)
(اگر اس کو رسول اور صاحبان امر کی طرف پلٹا دیں تو یقینا ایسے افراد ہیں کہ جو اس کو درک کرلیتے ہیں اور اس کی اچھائی و برائی اور حق و باطل کو جانتے ہیں )
یہ آیت آئمہ طاہرین کی عصمت پر دلالت کرتی ہے چونکہ اس آیت میں خبر دی گئی ہے کہ جس طرح پیغمبراکرمۖ پر مسائل بیان کیے جائیں تو وہ حق و باطل اور اچھائی و برائی کو سمجھ لیتے ہیں اسی طرح صاحبان امر بھی ہیں ۔ اور معصوم کے علاوہ کسی بھی چیز کا علم بحد یقین ممکن نہیں ہے اور نیز یہ بھی صحیح نہیں ہے کہ خدا وند ایسے کی نظر کو مطلقاً صحیح سمجھے کہ جو خود خطا ء و غلطی سے پاک نہ ہو چونکہ اس صورت میں امر الہٰی کا قبیح ہونا لازم آئے گا۔
اور جب یہ آیت اولی الامر کی عصمت پر دلالت کرتی ہے تو ان کا امام ہونا بھی ثابت ہے ۔ چونکہ کسی نے بھی عصمت و امامت کے درمیان فرق بیان نہیں کیا ہے اور اگر یہ بات ثابت ہوجائے تو یہ بھی ثابت ہوجاتا ہے کہ یہ آیت آل محمد کی شان میں ہے ۔
روایت میں ہے کہ یہ آیت بارہ الہٰی حجتوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے ۔(٢)
..............
(١) سورہ نساء (٤) آیت ٨٣۔
(٢) مناقب ابن شہر آشوب :١ ٢٤٧ـ٢٤٨۔

٢١٠
شاعر کہتا ہے :
علی ھو الصدیق علامة الوری (١)
و فاروقھا بین الحطیم و زمزم
علی ہی صدیق ہے اور کائنات میں سب سے زیادہ عالم، اورباب حطیم و زمزم کے درمیان حق و باطل میں فیصلہ کرنے والا ہے۔
اور دوسرا شاعر کہتا ہے :
فقال من الفاروق ان کنت عالما
فقلت الذی کان للدین یظھر
علی ابو السبطین علامة الوری
وما زال للاحکام یبدی و ینشر (٢)
کہا کہ اگر جانتے ہو تو بتاؤ کہ حق و باطل کے درمیان فیصلے کرنے والا کون ہے تو میں نے کہا وہ کہ جو دین کو آشکار و و اضح کرتا ہے ، علی ،سبطین حضرات حسن و حسین کے والد بزرگوار پوری کائنات میں سب سے زیادہ عالم کہ جو ہمیشہ احکام الہٰی کو بیان کرتے ہیں اور منتشر فرماتے ہیں ۔
..............
(١) مناقب ابن شہر آشوب : ٢ ٢٨٧،ابن شہر آشوب نے اس شعر کو قمی نامی شاعر کے نام سے منسوب کیا ہے ۔
(٢) مناقب ابن شہر آشوب : ٢ ٢٨٧۔ اس ماخذ میں یظھرکے بجائے مظھر آیاہے۔