سوم :ـ مطہر اور پاک وپاکیزہ ہونا
یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ تطہیر ، عصمت کا لازمہ و جزء ہے لیکن ہم یہاں پر عصمت کے قسیم کے طور پر پیش کررہے ہیں ، اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم یہاں پر تطہیر کے متعلق کچھ خاص چیزیں پیش کرنا چاہتے ہیں ، چونکہ ابھی گذرچکاہے کہ خداوندعالم نے موسیٰ کو حکم دیا کہ مسجد تعمیر کرے اور اس کو پاک و پاکیز ہ رکھے ، اس میں اپنے اور ہارون کے علاوہ کسی اور کو رہنے کا حق نہ دے۔ بالکل یہی مطلب خداوندعالم نے پیغمبراکرمۖ اور ان کے خلیفہ و وصی کے متعلق فرمایا ۔(1)
..............
(1) الخصائص (سیوطی ) :٢ ٤٢٤۔غایة المرام :٣ ١٩١۔کتاب سلیم بن قیس ١٩٥و ٣٢١و ٤٠٠۔
١٨٢
امیرالمؤمنین کے احتجاجات میں وارد ہے کہ :
'' تمہیں اللہ کی قسم ، کیامیرے علاوہ تمہارے درمیان کوئی اور مطہر ہے ؟، اس وقت کہ جب رسول خداۖ نے تم سب کے گھروں کے دروازوں کو مسجد کی طرف سے بند کروادیا اور صرف میرے گھر کا دروازہ کھلا رکھا ، اور میں گھر و مسجد میں ہمیشہ ان کے ساتھ رہا ، پھر آپ کے چچا کھڑے ہوئے اور کہا : اے رسول خدا ۖ آپ نے ہم سب کے دروازوں کو بند کردیا اور علی کے دروازے کو کھلا رکھا ، تو آپ نے فرمایا : جی ہاں! خداوندعالم نے اس کام کا حکم دیا تھا ، تو سب نے کہا : نہ ، خدا کی قسم ، (آپ نے جو کہا ہے سچ ہے )''(١)
ابوبکر کے ساتھ احتجاج میں آپ نے فرمایا :
'' میں آپ کو خدا کی قسم دیتاہوں کیا آیہ تطہیر اور ہر طرح کی گندگی و پلیدگی سے دوری تیری اور تیرے خاندان کی شأن میں نازل ہوئی یا میرے اور میرے خاندان کے بارے میں ؟ ابوبکر نے کہا آپ کے اور آپ کے اہل بیت کے بارے میں ۔
آپ نے فرمایا : تجھے خدا کی قسم دیتا ہوں کیا وہ شخص کہ جس کو خداوندعالم نے نسل بعد نسل اس کے باپ سے حضرت آدم تک زنا اور غیر مشروع رابطہ سے دوررکھا اور رسول خدا ۖ فرماتے تھے میں اور آپ آدم سے لیکر عبدالمطلب تک حلال ونکاح کے ذریعہ منتقل ہوتے رہے اور زنا و سفاح سے پاک و پاکیزہ رہے ، میں ہوں یا تو ؟
..............
(١) تاریخ دمشق :٤٢ ٤٣٢۔ کنزالعمال :٥ ٤٢٦، حدیث ١٤٢٤٣۔ مناقب خوارزمی ٣١٥۔ خصال صدوق ٥٥٩، حدیث ٣١۔
١٨٣
ابوبکر نے کہا: بلکہ آپ ہیں ۔(١)
حضرت امیر المؤمنین سے روایت ہے کہ اپنے دین کے سلسلے میں تین طرح کے لوگوں سے بچے رہنا ۔ ۔ ۔ اور فرمایا :
'' وہ شخص کہ جس کو خدائے متعال نے حکومت عطا فرمائی تو اس نے گمان کیا کہ اس کی اطاعت خدا کی اطاعت ہے اور اس کی معصیت خدا کی معصیت ہے ، جب کہ وہ جھوٹا ہے چونکہ خداوندعالم کی معصیت میں مخلوق کی کوئی اطاعت نہیں ہے بلکہ صرف اطاعت خدااور اس کے رسول اور صاحبان امر کی ہے کہ جس کو خداوند عالم نے اپنے اور اپنے رسول ۖکے قرین و ہمراہ قرار دیا ہے اور فرمایا ہے :
(اطیعوا اللہ و اطیعو الرسول و اولی الامر منکم)(٢)
خداوندعالم کی اطاعت کرو اور رسول و صاحب امر کی اطاعت کرو ۔
چونکہ خداوندعالم نے اپنی اور رسول کی اطاعت کا حکم دیا اس لیے وہ معصوم و مطہر ہیں، خدا کی نافرمانی و معصیت کی دعوت نہیں دیتے اور پھر اس کے ساتھ صاحبان امر کی اطاعت کا حکم دیا ، اس لیے کہ وہ بھی معصوم او رپاک ہیں اور خداکی نافرمانی و معصیت کی طرف دعوت نہیں دیتے ۔(٣)
..............
(١) احتجاج طبرسی :١ ١٧١۔
(٢) سورہ نسائ(٤)، آیت ٥٩۔
(٣) کتاب سلیم بن قیس ٤٠٥، حدیث ٥٤۔ اسی کی طرح کچھ فرق کے ساتھ منقول ہے : خصال صدوق ١٣٩،حدیث ١٥٨ میں اور بحار الانوار :٢٥ ٢٠٠،حدیث١٩ میں ۔
١٨٤
حضرت امام جعفرصادق نے اپنے آباء و اجداد مطہرین سے روایت نقل کی ہے کہ امیرالمؤمنین نے کوفہ کے منبر پر خطبہ ارشادفرمایا اور اپنے خطبے کے دوران فرمایا کہ:
'' خداوند عالم نے ہم اہل بیت کو محفوظ رکھا اس سے کہ چال باز ، حیلہ گر ، دھوکے بازیا جھوٹے و مکار ہوں ، بس جس میں بھی اس طرح کی بری چیزیں پائی جاتی ہیں وہ ہم میں سے نہیں ہے اور ہمارا اس سے کوئی رابطہ نہیں ہے ۔
بیشک خداوندعالم نے ہم اہل بیت کو ہر طرح کی پلیدگی و رجس سے پاک رکھا اور جب کبھی بھی ہماری زبان سے کچھ نکلا تو سچ کردکھایا اور جب کبھی ہم سے کوئی سوال ہوا اس کا ہم نے جواب دیا ۔ خداوندعالم نے ہم کو دس ایسی خصلتیں عطا فرمائی ہیں کہ جو نہ ہم سے پہلے کسی کو دیں اور نہ ہمارے بعد کسی کو عطا فرمائے۔
حلم ، علم، عقل، نبوت ، شجاعت ، سخاوت، صبر ، صدق و سچائی ، عفت و پاکدامنی اور طہارت و پاکیزگی ۔ پس ہم ہیںکلمة التقوی،ہدایت کے راستے ، بہترین نمونے، بہت عظیم حجت الہٰی اور حکم و مضبوط امانت ، ہم ہی وہ حق ہیں کہ جن کے بارے میں ارشاد الہٰی ہے ۔
(فما ذا بعد الحق الاالضلال فانیٰ تصرفون)(١)
حق کے بعد گمراہی کے علاوہ کچھ نہیں ہے پس کہاں منھ موڑے جارہے ہو۔''(٢)
..............
(١) سورہ یونس (١٠)، آیت ٣٢۔
(٢) تفسیر فرات کوفی ١٧٨، حدیث ٢٣٠۔ بحارالانوار:٣٩ ٣٥٠، حدیث ٢٤۔
١٨٥
عبداللہ بن عمر بن خطاب سے روایت ہے کہ اس نے کہا : فرزند ابو طالب کو تین خصلتیں ایسی عطا ہوئیں کہ اگر ان میں سے مجھ کو ایک بھی مل جاتی تو وہ مجھ کو لال بال والے اونٹ سے بھی کہیں زیادہ عزیز تھی ۔ رسول خداۖ نے اپنی بیٹی کی شادی ان سے فرمائی اور آپ کے یہاں ان سے دو بیٹے پیداہوئے اور تمام مسلمانوں کے گھروں کے دروازوں کو کہ جو مسجد کی طرف کھلتے تھے بندکرادیا سوائے آپ کے گھر کے دروازے کے ، اور روز خیبر آپ کو علم عطا فرمایا ۔(١)
اسی طرح کی روایت ابوسعید خدری(٢) اور عمر بن خطاب سے بھی نقل ہوئی ہے ،صر ف عمر کی روایت میں الفاظ اس طرح ہیں '' وسکناہ المسجد مع رسول اللہ یحل لہ فیہ مایحل لہ ''
یعنی وہ مسجد میں رسول کے ساتھ رہتے اور جو چیز مسجد میںرسول کے لیے حلال تھی علی کے لیے بھی حلال تھی ۔(٣)
حذیفہ بن اسید انصاری سے روایت ہے کہ روزسدالابواب (دروازے بند ہونے والے دن) پیغمبراکرمۖ منبر پر تشریف لے گئے اور خطبہ ارشاد فرمایا :
..............
(٣) مسند احمد ابن حنبل :٢ ٢٦۔ مجمع الزوائد :٩ ١٢٠۔ فتح الباری : ٧ ١٢۔ کنزالعمال : ١٣ ١١٠، حدیث ٣٦٣٥٩۔
(٤) مستدرک حاکم :٣ ١١٧۔
(١) مستدرک حاکم :٣ ١٢٥۔ مجمع الزوائد :٩ ١٢٠۔ مصنف ابن ابی شیبہ :٧ ٥٠٠ ، حدیث ٣٦۔ مناقب خوارزمی ٢٦١۔ البدایة والنھایة :٧ ٣٧٧۔
١٨٦
''کچھ لوگ اس بات سے کہ میں نے علی کو مسجد میں رکھا اور ان کو باہر کردیا اپنے دلوں میں احساس لیے ہوئے ہیں ، خداکی قسم میں نے یہ کام نہیں کیا بلکہ خداوندعالم نے ان کو باہر کیا ہے اور علی کو سکونت عطا فرمائی ہے ، خدائے متعال نے موسیٰ اور ان کے بھائی ہارون کو وحی فرمائی کہ اپنے لیے شہر میں گھر تعمیر کرو اور اس کو لوگوں کا قبلہ قرار دو ، اس گھر میں عبادت کرو ، علی کو مجھ سے وہی نسبت ہے کہ جو ہارون کو موسی سے تھی اور وہ میرا بھائی ہے ، کسی کے لیے مسجد میں اپنی بیوی کے ساتھ مباشرت جائز نہیں ہے سوائے اس کے ۔(١)
حضرت علی کے دشمنوں نے آپ سے بغض و حسد میں مختلف طریقے کی روایات کوگھڑا جیسے یہ روایت کہ پیغمبراکرمۖ نے تمام صحابہ کے گھروں کے دروازے کہ جو مسجد میں کھلتے تھے بند کرادیئے سوائے ابوبکر کے گھر کی کھڑکی کے۔(٢)
علامہ امینی نے حدیث سد الابواب کے ذیل میں خوخة ابی بکر (ابوبکر کی کھڑکی ) کے متعلق کافی مفصل و دلچسپ گفتگو فرمائی ہے (٣) وہ کہتے ہیں :
..............
(١) ینابیع المودة :١ ٢٥٩، باب ١٧، حدیث ٨۔ الطرائف ٦١، حدیث ٥٩۔ اور دیکھیے :ـ مسند احمد :٤ ٣٦٩۔ مستدرک حاکم :٣ ١٢٥۔
(٢) صحیح بخاری :٤ ٢٥٤۔ صحیح مسلم :٧ ١٠٨۔ مسند احمد :١ ٢٧٠۔ اور ابن جوزی نے الموضوعات :١ ٣٦٧ ۔ میں لکھا ہے کہ بعض عالم نما افراد نے حدیث ابوبکر میں زیادتی سے کام لیا ہے کہ جو صحیح نہیں ہے ۔
(٣) دیکھیے :ـ الغدیر :٣ ٢٠٢ـ ٢١٥۔
١٨٧
اس طرح کی روایات اس مطلب کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ ان سب دروازوں کو بند کرنا کہ جو مسجد کے اندر کو کھلتے تھے مسجد کو ظاہری و معنوی نجاست سے پاک رکھنا تھا ،تاکہ کوئی بھی حالت جنابت میں اس میں وارد نہ ہو اور کوئی بھی اس میں جنب نہ ہو، لیکن اپنے اور امیرالمؤمنین کے لیے مسجد میں ہرحال میں رفت و آمد کی اجازت اور آپ کا دروازہ کھلا رکھنا یہ ان دوبزرگواروں کی طہارت و پاکیزگی کی وجہ سے ہے کہ جس بات پر آیہ تطہیر دلالت کرتی ہے کہ وہ حضرات ہر طرح کی پلیدگی و گندگی حتی معنوی نجاست جیسے جنابت سے بھی پاک و پاکیزہ ہیں ۔
یہ مسئلہ کاملاً مسجد موسی کی طرح ہے اور اس سلسلے میں بیشتر آگاہی کے لیے مفید ہے یہ کہ موسی نے اپنے پروردگار سے دعا مانگی کہ میرے اور میرے بھائی ہارون کے لیے مسجد کو حلال و پاک فرما۔ یا یہ کہ خداوندعالم نے حکم دیا کہ مسجد کو پاک رکھو،سوائے اپنے اور ہارون کے کوئی اور اس میں سکونت اختیار نہ کرے ، اور یہاں پر مسجد کو پاک رکھنا صرف ظاہری نجاست سے پاک رکھنا مقصود نہیں ہے چونکہ یہ تو ہرمسجد کے لیے حکم ہے ۔
اس سے پہلے بھی روایت بیان ہوچکی ہے کہ جس سے یہ مطلب صاف واضح ہوجاتاہے کہ امیرالمؤمنین حالت جنابت میں مسجد میں وارد ہوجاتے تھے ۔(١)
..............
(١) یہ حدیث عبداللہ ابن عباس سے روایت ہے ۔ نسائی نے الخصائص ٧٦ میں نقل کیا ہے ۔ اور اسی سے نقل ہوئی ہے فتح الباری :٧ ١٣ میں اور نسائی کا کہنا ہے کہ اس کے رجال ثقہ ہیں ۔ و نیز کتاب السنة (ابن ابی عاصم ) ٥٨٩ میں بھی مذکور ہے ۔
١٨٨
اوربعض اوقات جنب کی حالت میں مسجد سے عبور فرماتے تھے ۔(١)
آپ حالت جنابت میں مسجد میں تشریف لاتے اور گذر جاتے ۔(٢) اوریہی مطلب اس حدیث کا ہے کہ جو ابوسعید خدری سے نقل ہوئی ہے کہ پیغمبراکرمۖ نے فرمایا : کسی شخص کے لیے بھی حلال و مناسب نہیں ہے کہ مسجد میں جنب ہو سوائے میرے اور اے علی تیرے۔(٣)
اور اسی سلسلے میں پیغمبراکرمۖ کی یہ حدیث :
'' الاان مسجدی حرام علی کل حائض من النساء و کل جنب من الرجال الا علیٰ محمد و اھل بیتہ علی و فاطمة و الحسن و الحسین''۔(٤)
..............
(١) مجمع الزوائد :٩ ١١٥۔ فتح الباری :٧ ١٣۔ اور طبرانی نے معجم الکبیر :٢ ٢٤٦ میں ابراہیم بن نائلہ اصبہانی اور اس نے اسماعیل بن عمر و بجلی سے اور اس نے ناصح بن حرب سے اور اس نے جابر بن سمرہ سے روایت کی ہے ۔
(٢) یہ تمام روایات اہل سنت کے یہاں سے ہیں اگر چہ شیعہ مذہب میں بھی اس طرح کی متعدد روایات موجود ہیں کہ جن کا مطلب یہ ہے کہ واقعہ سد الابواب اور آیہ تطہیر اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ علی اور معصومین علیہم السلام ہر حال میں طیب و طاہر اور پاک و پاکیزہ ہیں ، جنابت و غیر جنابت ا ن کے لیے کوئی فرق نہیں ہے۔(م)
(٣) سنن ترمذی :٥ ٣٠٣،حدیث ٣٨١۔ السنن الکبری(البیہقی ): ٧ ٦٦۔
(٤) السنن الکبری (بیہقی ) :٧ ٦٦۔ سبل الھدی و الرشاد :١٠ ٤٢٣۔ تفسیر ثعلبی :٣ ٣١٣۔ تلخیص التحبیر : ٣ ١٣٦۔ اور دیکھیے : تاریخ دمشق : ١٤ ١٦٦۔ ذکر اخبار اصبہان:١ ١٩١۔ کنزالعمال :١٢ ١٠١،حدیث ٣٤١٨٣۔
١٨٩
آگاہ ہوجائو بیشک میری مسجد ، حائض عورت اور جنب مرد پر حرام ہے سوائے محمد اور آپ کے اہل بیت کے کہ وہ علی و فاطمہ اور حسن و حسین ہیں۔(١)
لہذا تطہیر ، پاک ہونا ، اہل بیت علیہم السلام کے لیے ممتاز ترین وعالی ترین مرتبہ ہے اور یہ مطلب بھی واضح ہوجاتاہے کہ وہ حضرات ایک نور سے خلق ہوئے ہیں کوئی بھی شیٔ ان کے سامنے قابل قیاس نہیں ہے ۔
ابھی تھوڑا پہلے گذرچکا ہے کہ وہ حضرات پاک و پاکیزہ ماؤوں کے رحم اور پاک و طاہر صلبوں میں منتقل ہوتے رہے اور آپ حضرات کی جدہ خدیجہ زمانہ جاہلیت میں بھی طاہرہ و پاکدامن کہلاتی تھیں۔(٢)
یہی وجہ ہے کہ معصوم کو معصوم کے علاوہ کوئی اورغسل نہیں دے سکتا ، روایات میں مذکورہے کہ حضرت امام موسی بن جعفر نے فرمایا کہ مجھ سے میرے والد نے فرمایا کہ علی کا ارشاد ہے کہ جب میں نے رسول خدا کا وصیت نامہ پڑھا تو دیکھا کہ اس میں تحریر ہے کہ اے علی مجھے آپ ہی غسل دینا اور آپ کے علاوہ مجھے کوئی اور غسل نہ دے ،میں نے سوال کیا اے رسول خدا ۖ میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوجائیں کیا میں تنہا آپ کو غسل دے سکتا ہوں ؟ کیا میرے اندر اتنی طاقت ہے ؟ آپ نے فرمایا : یہ جبرئیل کا پیغام ہے کہ جس کو خداوندعالم نے حکم دیا ہے ۔
..............
(١) الغدیر :٣ ٢١٠ـ٢١٢۔
(٢) مجمع الزوائد :٩ ٢١٨۔فتح الباری :٧ ١٠٠۔ المعجم الکبیر :٢٢ ٤٤٨۔ اسدالغابہ :٥ ٤٣٤۔ تاریخ دمشق :٣ ١٣١۔ البدایة والنھایة ٣٢٩۔ السیرة النبویة (ابن کثیر) :٤ ٦٠٨۔
١٩٠
میں نے سوال کیا : اگر میں تنہا آپ کو غسل نہ دے سکا توکیا اپنے علاوہ کسی ایسے کو جو ہم ہی میں سے ہے غسل میں مدد کے لیے بلا سکتاہوں ؟ توآپ نے فرمایا کہ جبرئیل نے کہا ہے کہ علی سے کہیں کہ آپ کے پروردگارکا حکم ہے کہ اپنے چچا زاد بھائی محمد کو غسل دو چونکہ یہ سنت الٰہیہ ہے کہ انبیاء کو اوصیاء کے علاوہ کوئی غسل نہیں دیتا اور ہر نبی کو اس کے بعد والاوصی غسل دیتا ہے۔اور یہ امت پر پیغمبراکرمۖ کی جانب سے حجت خدا ہے اس بات پر کہ جو انہوں نے مشیت خدا کے خلاف اجماع کر رکھا ہے۔
اے علی جان لو کہ میرے غسل میں آپ کی مددگار وہ ہستیاں ہیں کہ جو بہترین بھائی اور مددگار ہیں ۔
علی نے سوال کیا اے رسول خدا ،وہ کون ہیں ؟آپ پر میرے ماں باپ فداہوں تو آپ نے فرمایا : وہ جبرئیل و میکائیل و اسرافیل اور ملک الموت اور اسماعیل صاحب آسمان دنیا ہیں کہ جو آپ کی مدد کریں گے ۔
پس علی نے کہا کہ میں خدا کے حضور سجدہ میں گرگیا اور عرض کی خدایا تیرا شکر ہے کہ تو نے ایسے بھائی و مددگار میرے لیے معین فرمائے کہ جو خدا کے امین ہیں ۔(١)
..............
(١) بحارالانوار : ٢٢ ٤٥٦،حدیث ٦٤۔(بنقل از طرائف ابن طائوس ، متن روایت اسی کتاب سے ہے ) ۔ الصراط المستقیم : ٢ ٩٤، حدیث ١٤۔ اور دیکھیے :ـ کنزالعمال :٧ ٢٤٩، حدیث ١٨٧٨٠۔ تاریخ دمشق :١٣ ١٢٩۔ سمط النجوم العوالی :٣ ٤١، حدیث ٤٥۔
١٩١
اور یہ خود امیر المؤمنین کا ارشاد گرامی ہے کہ :
'' اس وقت کہ جب رسول خداۖ کی روح قبض ہوئی آپ کا سرمبارک میری آغوش میں تھا اور پھر میرے سر آپ کے غسل کی ذمہ داری پڑگئی کہ مقرب فرشتے میرے ساتھ آپ کے جنازے کو الٹتے پلٹتے تھے اور خدا کی قسم کسی بھی پیغمبرکے بعد اس کی امت میں اختلاف نہ ہوا مگر یہ کہ اہل باطل ، اہل حق پر کامیاب ہوئے اور خداجو چاہتا ہے کرتا ہے۔(١)
نیز امیرالمؤمنین نے فرمایا :
''رسول خد اۖنے وصیت فرمائی کہ میرے علاوہ کوئی ان کو غسل نہ دے چونکہ جو کوئی بھی شرم گاہ کو دیکھے گا اس کی دونوں آنکھیں اندھی ہوجائیں گی ،پس عباس اور اسامہ پردے کے پیچھے سے پانی پہنچا رہے تھے اور میںبدن کے جس حصہ کو بھی پکڑتا تو محسوس کرتا کہ گویا کوئی تیس افراد میرے ساتھ اس حصے کو پکڑے ہوئے الٹ پلٹ کررہے ہیں یہاں تک کہ میں غسل سے فارغ ہوا ''۔(٢)
..............
(١) کتاب صفین (منقری) ٢٢٤۔ جمھرة خطب العرب :١ ٣٤٦۔ شرح نہج البلاغہ :٥ ١٨١۔ امالی مفید ٢٣٥۔
جس چیز کی امیرالمؤمنین نے خبر دی ہے یہی چیز معاویہ کی زبان پر بھی جاری ہوئی ، شعبی سے نقل ہوا ہے کہ اس نے کہا کہ جب معاویہ کے ہاتھ پر بعیت ہورہی تھی تو اس نے خطبہ دیا اور کہا کہ کسی بھی امت میں اپنے پیغمبر کے بعد اختلا ف نہیں ہوا مگریہ کہ اہل باطل ، اہل حق پر کامیاب ہوئے اور اس کے بعد معاویہ کو اپنے کہے پر پشیمانی ہوئی لہذا کہا سوائے اس امت کے کہ بیشک۔۔۔(مقاتل الطالبین ٤٥۔ سبل الھدی والرشاد:١٠ ٣٦٤) ۔
(٢) طبقات ابن سعد :٢ ٢٧٨۔ مجمع الزوائد: ٩ ٣٦۔ کنزالعمال :٧ ٢٥٠، حدیث١٨٧٨٤۔
١٩٢
اسی طرح کی حدیث آپ کے احتجاجات میں بھی ہے کہ آپ نے فرمایا :
''آپ کو میں خدا کی قسم دیتاہوں کیاآپ لوگوں کے درمیان میرے علاوہ کوئی ہے کہ جس نے فرشتوں کے ساتھ رسول خدا ۖکی آنکھیں بند کی ہوں، سب نے کہا نہ خداکی قسم،پھر آپ نے فرمایا تمہیں میں خدا کی قسم دیتاہوں کیا آپ لوگوں کے درمیان میرے علاوہ کوئی ہے کہ جس نے فرشتوں کے ساتھ پیغمبراکرمۖ کو غسل دیا ہوکہ جو میری خواہش کے مطابق پیغمبراکرمۖ کے بدن کو پلٹا رہے تھے ۔ سب نے کہا : نہ ''۔(١)
مفضل ابن عمر نے حضرت امام جعفر صادق سے روایت نقل کی ہے کہ آپ نے فرمایا :
''فاطمة صدیقة لم یکن یغسلھا الاصدیق''(٢)
فاطمہ، صدیقہ ہیں ان کو صدیق کے علاوہ کوئی اور غسل نہیں دے سکتا ۔
ان مذکورہ تمام احادیث سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ ہر طرح کی پلیدگی ، گندگی ، آلودگی و نجاست سے تطہیر اور پاک و پاکیزہ ہونا ، صدیقیت کی واضح ترین علامت ہے اور چونکہ جھوٹ ، رجس و پلیدگی کا جزء ہے جب کہ صدیق، صادق و صدوق کا صیغہ مبالغہ ہے۔
..............
(١) تاریخ دمشق :٤٢ ٤٣٣و٤٣٥۔ الطرائف ٤١٣۔ شرح الاخبار :٢ ١٨٩،حدیث ٥٢٩۔ مناقب خوارزمی ٣١٥۔
(٢) اصول کافی :١ ٤٥٩، باب مولد الزھرا، حدیث ٤۔ فروع کافی :٣ ١٥٩،باب الرجل یغسل المرأ ة ،حدیث ١٣۔ علل الشرایع:١ ١٨٤،باب العلة التی من اجلھا غسل فاطمة امیر المؤمنین لما توفیت ، حدیث ١٣۔ تہذیب الاحکام :١ ٤٤٠،حدیث ١٤٢٢۔ الاستبصار :١ ٢٠٠ ،حدیث ١٥٧٠٣۔
١٩٣
لہذا جھوٹ کبھی بھی صدیق تک نہیں آسکتا بلکہ صدیق کے لیے لازم ہے کہ پہلے مرحلے میں صادق، امین اور وعدہ وفادار ہو، تاکہ اپنے دوسرے مرحلہ میں صدیق کہلاسکے ۔
یہی وجہ ہے کہ آیت تطہیر میں اس مبالغہ کا خیال رکھا گیا ہے جیسے کلمہ ''انما''کہ کلمہ حصر ہے اور مفعول مطلق کو تاکید کے لیے لایا گیا ''یطھر کم تطھیرا'' اور اس آیت کا نزول صرف محمد و علی و فاطمہ و حسن و حسین سلام اللہ علیہم اجمعین کے لیے ہے ۔(١)
یہ اسی کی مانند ہے کہ جو حضرت مریم بنت عمران کے لیے قرآن کریم میں آیا ہے:
٭ (اصطفاک علی نساء العالمین)(٢)
اے مریم خداوندعالم نے آپ کو تمام عالمین کی عورتوں پر چنا ۔
٭ (و جعلناابن مریم و امہ آیة)(٣)
ہم نے ابن مریم اور اس کی ماں کو آیت و نشانی قرار دیا۔
پس مریم بنت عمران اور فاطمہ بنت محمد ، تطہیر کے دو کامل نمونے ہیں ۔ خداوندکریم کا ارشاد گرامی ہے :
..............
(١) تفسیر الکشاف :١ ٣٩٦۔ البرھان (زرکشی) :٢ ١٩٧۔ اسباب النزول (نیشابوری) ٢٣٩۔ اور دیکھیے :ـ الدرالمنثور :٥ ١٩٨۔(سیوطی نے اس روایت کو کئی طریقوں سے نقل کیا ہے )
(٢) سورہ آل عمران (٣)، آیت ٤٢۔
(٣) سورہ مؤمنون (٢٣)، آیت ٥٠۔
١٩٤
(و مریم بنت عمران التی احصنت فرجھا فنفخنا فیہ من روحنا و صدقت بکلمات ربھا و کتبہ و کانت من القانتین)(١)
اور مریم بنت عمران کہ جس نے پاکدامنی اختیار کی تو ہم نے اپنی روح میں سے ان میں پھونکی اوروہ خدا کی کتب و کلمات کی تصدیق کرنے والی اور فرمانبردار تھیں ۔
اور اسی طرح کا کلام حضرت امام جعفر صادق سے نقل ہوا ہے آپ نے فرمایا : مریم بنت عمران نے پاکدامن زندگی گذاری اور ان کی مثال خداوندعالم نے حضرت فاطمہ کے لیے یہاں بیان فرمائی ہے ، اور پھر آپ نے فرمایا :
'' ان فاطمة احصنت فرجھا فحرم اللہ ذریتھا علی النار'' (٢) بیشک فاطمہ پاکدامن رہیں پس خداوندعالم نے ان کی ذریت و نسل پر جہنم کی آگ کو حرام کردیا ۔
..............
(١) سورہ تحریم(٦٦)، آیت ١٢۔
(٢) تفسیر برہان :٤ ٣٥٨۔
|