ایک شبہہ وسوال اور اس کا جواب
یہاں پر ہم ایک شبہہ کا جواب دینے پر مجبور ہیں کہ جو بعض افراد کے ذہن میں پیدا ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ کس طرح حضرت فاطمہ زہرا تمام عالمین کی عورتوں کی سردار ہیں ؟ جب کہ خداوند عالم نے قرآن کریم میں یہ مرتبہ حضرت مریم کو عطا فرمایا ہے لہذا ارشاد گرامی ہے :
(یا مریم ان اللہ اصطفاک و طھر ک واصطفا ک علی نساء العالمین )(١)
اے مریم بیشک اللہ نے آپ کو منتخب فرمایا اور آپ کو پاک و پاکیزہ رکھا اور تمام عالمین کی عورتوں پرچن لیا۔
ہم اس شبہہ کا جواب دو طرح سے پیش کرتے ہیں ، ایک نقضی ہے اور دوسرا حلی ۔
جواب نقضی یہ ہے کہ خود اعتراض کرنے والوں سے معلوم کرتے ہیں کہ اس آیت خداوندی کے بارے میں کیا خیا ل ہے کہ ارشاد گرامی ہے :
..............
(٢) سورہ آل عمران (٣)، آیت ٤٢۔
١٦١
(واسماعیل و الیسع و یونس و لوطا و کلا فضلنا ہ علی العالمین)(١)
اور اسماعیل و یسع و یونس اورلوط ، ان سب کو ہم نے عالمین پر فضیلت بخشی ۔
تو کیا ان کا یہ یقین ہے یا کوئی قائل ہے کہ یہ مذکورہ نبی حضرات، ہمارے پیغمبراکرمۖ حضرت محمد مصطفی ۖ سے افضل ہیں ؟ اصلا ً نہیں ۔ چونکہ پیغمبروں کے یہاں مراتب ہیں کہ جن میں سب سے افضل خاتم الانبیاء ہیں ۔
اور پیغمبروں میں ایک دوسرے پر برتری و افضلیت یہ ایک حقیقت ربانی ہے لیکن یہ فضیلت ہمیشہ کے لیے نہیں ہے بلکہ اپنے اپنے زمانے سے مخصوص ہے ۔
(تلک الرسل فضلنا بعضھم علی بعض منھم من کلم اللہ و رفع بعضھم درجات)(٢) یہ پیغمبران الہٰی کہ جن میں ہم نے بعض کو بعض پر فضیلت عطا کی ان میں سے بعض وہ ہیں کہ جو خدا سے گفتگو کرتے ہیں اور ان میں سے بعض کے درجات کو بلند کیا ہے ۔
اور ان سب سے زیادہ واضح آیت وہ ہے کہ جہاں خداوندعالم نے یہودیوں کو قرآن کریم میں تمام مخلوقات عالم پر فضیلت عطا فرمائی ہے ۔ لہذا ارشاد گرامی ہے :
(یا بنی اسرائیل اذکرو نعمتی التی انعمت علیکم و انی فضلتکم علی العالمین)(٣)
..............
(١) سورہ انعام (٦) ، آیت ٨٦۔
(٢) سورہ بقرہ(٢) ، آیت ٢٥٣۔
(٣) سورہ بقرہ (١) ، آیت ١٢٢۔
١٦٢
اے بنی اسرائیل یاد کرو ان نعمتوں کو کہ جو میں نے تم کو عطا کیں اور بیشک میں نے تم کو تمام عالمین پر فضیلت عطا کی ۔
کیا یہاں کوئی مسلمان یا عیسائی ہے کہ جو یہ عقیدہ رکھتا ہو کہ یہودی تمام عالم سے افضل ہیں ؟ اصلاً نہیں ۔ خصوصاً اس بات کی اطلاع پانے کے بعد کہ انہوں نے انپے پیغمبروں کے ساتھ کیا کیا سلوک کیا ، اور شریعت میں کس قدر تحریف کی ۔
لہذا اس بات کو سامنے رکھتے ہوئے واضح ہوجاتا ہے کہ ان کی فضیلت اور کلمہ'' علی العالمین'' سے مراد اسی زمانے کے لوگ اور مخلوق ہے نہ کہ تما م زمانوں کے ۔
چونکہ آخری زمانہ مخصوص ہے حضرت پیغمبراکرمۖ ،حضرت فاطمہ زہرا ، حضرت امام علی اور ان کے معصوم فرزندوں سے کہ بغیر شک و تردید یہ حضرات انبیاء و بنی اسرائیل سے افضل وبرتر ہیں ۔
لیکن جواب حلی یہ ہے کہ جس شخصیت نے یہ فرمایا ہے کہ فاطمہ زہرا ، مریم سے افضل ہیں اور وہ تمام عالمین کی عورتوں کی سردار ہیں اور بہشت کی عورتوں کی سردار ہیں کہ جن میں مریم بھی ہیں وہی شخصیت ہے کہ جس پر قرآن نازل ہوا ہے اور اسی قرآن میں وہ آیت بھی ہے کہ جس میں مریم کو تمام عالم پر فضیلت دی گئی ہے۔لہذا جس پر قرآن نازل ہوا ہے وہ ہرآیت کے معنی پوری کائنات سے بہتر جانتا ہے ۔
اگر ذرا غور کریں ، اور پیغمبراکرمۖ کے فرامین میں فکر سے کام لیں کہ جو آپ نے اپنی دختر نیک اختر کے بارے میں فرمائے ہیں جیسا کہ روایات میں آیا ہے کہ خداوندعالم حضرت فاطمہ زہرا کی خوشنودی میں خوش اور ان کی ناراضگی میں ناراض ہوتا ہے۔
١٦٣
یقینا آپ کوعلم ہوجائے گا کہ یہ نصوص ، حضرت فاطمہ زہرا کی عصمت اور آپ کے تمام عالمین کی عورتوں پر فضیلت پر دلالت کرتی ہیں لہذا حق یہ ہے کہ آنحضرت کا مرتبہ بہت بلند و بالا ہے اور آپ مریم بنت عمران سے کہیں افضل وبرتر ہیں ۔
اصلی مطلب کی طرف مراجعت
اب اپنے اصلی مطلب کی طرف پلٹتے ہیں تاکہ دیکھیں کہ ان چارافراد علی ، فاطمہ اور ابوبکر و عائشہ میں سے کون کون اس صفت صدیقیت کا مستحق ہے،اوران میں سے کس کس کی عصمت بیان ہوئی ہے اور کس کے یہاں اس لقب کے قابل ، امتیازات و علامات موجود ہیں ۔
یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ کسی بھی مسلمان نے ابوبکر و عمراور عائشہ کی عصمت کا دعوی نہیں کیا ہے اور وہ لوگ خود بھی اس طرح کا ادعی نہیں کرتے تھے ۔
جبکہ یہ بات علی و فاطمہ کے یہاں بر عکس ہے کہ وہ دونوں حضرات خود بھی اپنی عصمت کے بارے میں معتقد تھے اور اسی طرح بہت سے مسلمان بھی ان کی عصمت و پاکیزگی اور ہر طرح کے رجس و آدلودگی سے طہارت کے متعلق یقین رکھتے ہیں ۔
قرآن کریم میں آیت تطہیر جیسی آیات انہیں کی شأن میں نازل ہوئی ہیں کہ جو ان کی عصمت پر دلالت کرتی ہیں اور اسی طرح پیغمبرا کرمۖ کی وہ تقاریر اوراحادیث کہ جو ان کے متعلق ارشاد فرمائیں یقینا ان کی عصمت پر دال ہیں ۔
لہذا یہ مطلب اس بات کے لیے کافی ہے کہ کہا جائے کہ صدیقہ اولویت و ترجیح کے اعتبار سے حضرت فاطمہ زہرا کے لیے ثابت ہے نہ کہ عائشہ کے لیے ۔
١٦٤
اور صدیق، حضرت علی کے لیے حق ہے نہ کہ ابوبکر کے لیے ۔
اب ابوبکر اور حضرت یوسف کے درمیان مقایسہ و مقابلہ کرتے ہیں کہ جن کو قرآن کریم میں صدیق کہا گیا ہے تاکہ صدیقیت کے معیار کو سمجھیں اور ان دونوں کے یہاں ان کے اعمال و کردار سے صدیقیت کی صلاحیت کو درک کریں ۔
حضرت یوسف کو یہ لقب اس لیے عطا ہو ا کہ انہوں نے عزیز مصرکے لیے اس کے خواب کی صحیح تعبیر بیان کی کہ جب اس نے خواب دیکھا کہ سات موٹی تازی گائے ہیں جن کو سات پتلی دبلی گائیں کھارہی ہیں اور سات ہرے بھرے گندم کے خوشے (گیہوں کی بالیاں) اور باقی خشک و خالی نکلی ہیں ۔خداوند عالم نے اس ماجرے کو عزیز مصر کی زبانی قرآن کریم میںیوں بیان فرمایا ہے :
(یوسف ایھا الصدیق افتنا فی سبع بقرات سمان یاکلھن سبع عجاف و سبع سنبلات خضر و اخر یابسات لعلی ارجع الی الناس لعلھم یعلمون ٭قال تزرعون سبع سنین دأبا فما حصدتم فذروہ فی سنبلة الاقلیلامما تاکلون ٭ ثم یاتی من بعد ذالک سبع شداد یاکلھن ما قدمتم لھن الا قلیلا مما تحصنون ٭ ثم یاتی من بعد ذالک عام فیہ یغاث الناس و فیہ یعصرون )(١)
یوسف اے صدیق اس خواب کی تعبیر کو ہمارے لیے بیان کریں کہ سات موٹی تازی گائے ہیںجن کو سات دبلی پتلی گائیںکھارہی ہیں اورسات ہرے بھرے گندم کے خوشے (گیہوں کی بالیاں) اور باقی خشک و خالی نکلی ہیں ۔
..............
(١) سورہ یوسف(١٢) ، ٤٦ـ٤٩۔
١٦٥
مجھے امید ہے کہ اس کی صحیح تعبیر پر میں لوگوں کی طرف پلٹ آؤںاور شاید وہ لوگ بھی جان لیں ۔ یوسف نے کہا : آپ لوگ سات سال تک مسلسل کھیتی باڑی کرو ،اور جو کچھ بھی پیدا ہواس کو بالی سمیت ہی رکھ لو اور صرف تھوڑا بہت کھانے کے قابل استعمال کرو، اس کے بعد سات سال سخت وقحط کے آئیں گے کہ جن میں پہلے ہی سے جو بچا کے رکھا ہوگا وہ بھی خرچ ہوجائے گا مگر تھوڑا بہت ،پھر اس کے بعد سال آئے گا کہ جس میں بارش آئے گی اور اس میں لوگ پھولوں کو توڑیں گے ۔
خداوندمتعال نے حضرت یوسف کے چند سال زندان میں رہنے کے بعد ان کی بیان کردہ تعبیر کی تصدیق فرمائی ، لیکن ابوبکر کہ جس کے بارے میں لوگوں کی کوشش ہے کہ لقب صدیق کو ان کے سر پر مڑھیں ، جیسا کہ معلوم ہوچکا ہے کہ ان کے اندر یہ صلاحیت و معیار نہیں ہے اور اس لقب کی قابلیت نہیں پائی جاتی ۔
ابوبکر نہ معصوم صدیق ہیں اور نہ غیرمعصوم صدیق ، بلکہ قرآن و سنت کے معانی و مطالب کو بھی صحیح نہیں سمجھ پاتے ، اور قرآن کریم کی متعددآیات کے سلسلے میں صحابہ سے معلوم کرتے تھے ، بارہا صحابہ کی طرف سے قرآن و سنت اور فتوی دینے میں ان کی غلطیاں پکڑی گئیں ۔ اور وہ قرآن کریم میں استعمال ہونے والا لفظ ''بضع''کے معنی بھی نہیں جانتے تھے اوراپنی طرف سے جلد بازی میں تفسیر کرگئے ۔
سنن ترمذی میں ابن مکرم اسلمی سے روایت ہے کہ اس نے کہا: کہ جب یہ آیت (الم ٭غلبت الروم٭ فی ادنی الارض من بعد غلبھم سیغلبون٭فی بضع سنین) (١)
..............
(١) سورہ روم(٣٠ )، آیات ١ـ٤۔
١٦٦
الم ۔ ملک رو م اپنی نزدیک ترین و پست ترین زمین سے مغلوب ہوگیا اور وہ عنقریب اس شکست کے بعد غالب ہوجائیں گے ۔
اس آیت کے نزول کے وقت فارس ، روم پر غالب آچکا تھا جب کہ مسلمان یہ چاہتے تھے کہ روم ، فارس پر غالب ہوجائے چونکہ اہل روم او ر مسلمان اہل کتاب تھے ۔ اسی سلسلے میں خداوندعالم کا ارشاد گرامی ہے:(ویومئذ یفرح المؤمنون٭ بنصراللہ ینصر من یشاء ، وھو العزیز الرحیم )(١) اور اس وقت مؤمنین ،روم کے فارس پر غلبہ کی وجہ سے خوشحال ہوگئے اور ہر طرح کی کامیابی و غلبہ خدا کی مدد سے ہے ، وہ جس کی چاہتا ہے مدد کرتا ہے اور وہ عزیزو رحم کرنے والا ہے ۔
کفار قریش ، فارس کی کامیابی و غلبہ کو چاہتے تھے ، چونکہ کفار و اہل فارس اہل کتاب نہ تھے اور موت کے بعد دوبارہ زندہ ہونے پر ایمان نہیں رکھتے تھے ۔
جس وقت یہ آیت نازل ہوئی ابوبکر گھر سے باہر آئے اور مکہ کے ادھر ادھر شور مچانا شروع کیا : (الم ٭غلبت الروم٭ فی ادنی الارض من بعد غلبھم سیغلبون٭فی بضع سنین)(٢)
قریش کے لوگوں نے ابوبکر سے کہا یہ بات ہمارے اور تمہارے درمیان رہے کہ آپ کے نبی کا یہ گمان ہے کہ روم بہت جلد ہی چند سالوں میں فارس پر غالب ہوجائے گا تو کیا اس پر شرط لگاتے ہو؟۔
..............
(١) سورہ روم(٣٠)، آیات ٤ـ٥۔
(٢) سورہ روم(٣٠)، آیات ١ـ٤۔
١٦٧
ابوبکر نے کہا ہاں، یہ واقعہ رہان وشرط بندی کے حرام ہونے سے پہلے کا ہے ۔ پس ابوبکر اور مشرکین قریش کے درمیان شرط لگ گئی اور ان دونوں کے درمیان طے پایا کہ بضع کو کتنے سال قرار دیں جب کہ بضع ٣سے ٩ سال تک کے عرصہ کو کہتے ہیں ان لوگوں نے ابوبکر سے وقت معین کرنے کو کہا تاکہ اس زمانے تک یہ شرط پوری ہو لہذا ان کے درمیان ٦ سال کا عرصہ طے پایا ۔ ادھر روم کے غالب ہونے سے پہلے ہی ٦ سال تمام ہوگئے اور مشرکین قریش نے جو کچھ ابوبکر سے شرط میں گروی رکھا تھا لے لیا اور شرط جیت گئے ۔ اورجب ساتواں سال آیا تو روم ، فارس پر غالب آگیا ۔ اس وجہ سے بضع کا نام ٦ سال رکھنے پر مسلمانوں نے ابوبکر پر اعتراض کیا ، چونکہ خداوندعالم نے فرمایا : فی بضع سنین(١)
ایک دوسری حدیث میں ہے کہ جو ابن عباس سے نقل ہوئی اس نے کہا کہ رسول خدا ۖ نے فرمایا : اے ابوبکر آپ نے کیوں احتیاط نہ کی جب کہ بضع ٣ سے ٩ سال تک کا عرصہ ہے (٢)
بہر حال ابوبکر نے قرآن کریم کے ایک ایسے لفظ کی ـکہ جس کے معنی معین ہیںـ ایسی تفسیر کی کہ جو خداوندعالم کے ارادے کے خلا ف ثابت ہوئی اور معنی بضع کو ٦ سال سے تعبیر کیا لہذا پیغمبراکرمۖ نے اس سے فرمایا :'' الااحتطت یاابابکر فان البضع ما بین الثلاث الی التسع ''(٣)
..............
(١) سنن ترمذی :٥ ٢٥، حدیث ٣٢٤٦۔
(٢) سنن ترمذی :٥ ٢٤، حدیث ٣٢٤٥۔
(٣) سنن ترمذی :٥ ٢٤، حدیث ٣٢٤٥۔
١٦٨
جب کہ یوسف صدیق نے عزیز مصر کے خواب کی تعبیر کی اوروہ واقع کے مطابق ثابت ہوئی لہذا یہ فرق دو صدیقوں کے درمیان مناسب نہیں ہے اور اس فرق کو فراموش نہیں کیا جاسکتا ۔
پس قرآن مجید نے اپنے علم و آگاہی کے ذریعہ ابوبکر کے صدیق ہونے کو رد کردیا ہے ۔جبکہ بغیر کسی شک و شبہہ کے اور یقین کے ساتھ یوسف کے صدیق ہونے کی تائید کرتاہے ، اور علی کے صدیق ہونے کی گواہی دیتا ہے ۔
جی ہاں ! صدیق علی اورصدیقہ فاطمہ سے کچھ صادق ذوات مقدسہ وجود میں آئیں کہ جو اہل بیت پیغمبر ۖہیں اور خداوندعالم نے ان کو ہر طرح کے رجس و گندگی سے دور رکھا ہے او ر ایسا پاک وپاکیزہ قرار دیا کہ جو پاک رکھنے کا حق ہے ۔
یہ کچھ خاص افراد ہیں کہ جن کو شیطان کے ہر حربہ اور مکر سے دور کھا ہے ، اور ان پر شیطا ن مسلط نہیں ہوسکتا جبکہ شیطان نے خداوندعالم سے چیلنج کیا ہے کہ اولاد آدم کو بہکاؤں گا اور انہیں گمراہ کروںگا (لاحتنکن ذریتہ الا قلیلا)(١)
آدم کی اولاد کو گمراہ کروں گا سوائے تھوڑے افراد کے ۔
..............
(١) سورہ اسراء (١٧)، آیت ٦٢۔ اور سورہ نساء (٤) ، آیت ٨٣ میں آیا ہے :(ولو ردوہ الی الرسول والی اولی الامر منھم لعلمہ الذین یستنبطونہ منھم ولو لا فضل اللہ علیکم و رحمتہ لاتبعتم الشیطان الاقلیلا)اگر اس امر کو رسول و ولی امر کی طرف پلٹا دیں کہ جو لوگ ان میں سے حقیقت کودرک کرتے ہیں اور اگرآپ لوگوں کے اوپر فضل خدا اور اس کی رحمت نہ ہو تو تم سب شیطان کی پیروی کرتے ہوتے مگر تھوڑے سے افراد کے علاوہ ۔
١٦٩
حضرت امیر المؤمنین علی نے اہل شوری پر اسی بات سے احتجاج فرمایا:
آپ کو خدا کی قسم کیا میرے علاوہ تمہارے درمیان کوئی پاک وپاکیزہ ہے جب کہ رسول خداۖ نے تم سب کے گھروں کے دروازے کہ جومسجدمیں کھلتے تھے ، بند کرادئیے اور صرف میرے گھر کا دروازہ مسجد رسول ۖ میں کھلا رہا اس وقت پیغمبراکرمۖ کے چچا نے فرمایا : اے رسول خدا ۖ آپ نے سب کے دروازے بند کرادیئے اور علی کا دروازہ کھلا رہنے دیا ؟ تب آپۖ نے فرمایا : ہاں اس کا م کا خداوندعالم نے حکم دیا تھا، تو سب نے کہا نہیں خداکی قسم آپ کے علاوہ کوئی نہیں ہے ۔(١)
علی ابن الحسین نے اپنے والد اور انہوں نے علی ابن ابی طالب سے روایت بیان کی ہے کہ رسول خدا ۖ نے میرے ہاتھوں کو پکڑا اور فرمایا : بیشک موسی نے اپنے پروردگار سے چاہا کہ اس کی مسجد کو ہارون کے لیے حلال قرار دے اور میں نے اپنے پروردگار سے دعا کی کہ میری مسجد کو علی اور اس کی اولاد کے لیے حلال اور پاک قرار دے تو خداوندعالم نے ہماری دعا مستجاب فرمائی ۔
اور پھر اس وقت ابوبکر کے یہاں پیغام بھیجا کہ اپنے گھر کا دروازہ کہ جو مسجد کی طرف کو کھل رہا ہے اس کو بند کردو ، انہوں نے کلمہ استرجاع کو زبان پر دوہرا یا اور پھر کہا میں نے سنا اور اطاعت کی ، اور اپنے گھر کا دروازہ بند کرلیا ،پھر اسی طرح عمر اوراس کے بعد عباس کی طرف پیغام بھیجا۔
..............
(١) تاریخ دمشق :٤٢ ٤٣٢ ۔ و ٤٣٥۔(متن روایت اسی کتاب سے ہے )۔ المناقب (ابن مغازلی ) ١١٧۔ خصال صدوق ٥٥٢، حدیث ٣٠، ٣١۔ امالی شیخ طوسی ٥٤٨، حدیث ١١٦٨۔ مناقب خوارزمی ٣١٥۔ کتاب سلیم ابن قیس ٧٤۔ کنزالعمال :٥ ٧٢٦، حدیث ١٤٢٤٣۔
١٧٠
پھر اس ماجرے کے بعد پیغمبراکرمۖ نے فرمایا کہ میں نے لوگوں کے دروازے بندنہیں کیے اور علی کا دروازہ نہیں کھولا بلکہ خداوندعالم نے علی کا دروازہ کھولا اور تمہارے دروازے بند کئے ہیں ۔
اس کے علاوہ یہ بھی کہ ابوبکر نے طہارت کا ادعی نہیں کیا اور اپنے آپ کو شیطان کے وسوسہ سے پاک وپاکیزہ نہیں سمجھا بلکہ اس بات کی تصریح کی کہ اس کے ہمراہ ایک شیطان ہے جو اس کو بہکاتارہتا ہے لہذا اس کا قول ہے کہ :
'' خدا کی قسم میں آپ حضرات میں سب سے بہتر نہیں ہوں اور اس مقام کو با دل ناخواستہ اور مجبوراً اختیارکیا ہے اور میں چاہتا تھا کہ آپ لوگوں کے درمیان کوئی ہوتا جو اس بوجھ کو اٹھاتا اور مجھے چھٹکارا ملتا آپ لوگوں کا خیال ہے کہ میں تمہارے درمیان سنت رسول خداۖ کو اجراکروں گا جبکہ اس حالت میں ، میں یہ کام انجام نہیں دے سکتا ، رسول خدا ۖ وحی کے ذریعہ محفو ظ تھے اور خطا ء سے معصوم تھے ان کے ساتھ فرشتے تھے جب کہ میرے ساتھ شیطان ہے کہ جس کے جال میں پھنس جاتا ہوں پس جب کبھی بھی مجھے غصے میں دیکھو تو مجھ سے دوری اختیار کرنا ۔(١)
تمّام بن محمد رازی (م٤١٤ھ) نے اپنی کتاب الفوائد میں اپنی اسناد کے ساتھ ابن ابی عموص سے روایت نقل کی ہے کہ جس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ابوبکر پر شیطان مسلط ہوتا تھا ۔ لہذا تماّم لکھتا ہے :
ابوبکر زمانہ جاہلیت میں شراب پیتے اور پھر یہ شعر پڑھتے تھے :
..............
(١) المصنف (عبدالرزاق ) : ١١ ٣٣٦، حدیث ٢٠٧٠١(متن روایت اسی کتاب سے ہے ) ۔ اور دیکھیے :ـ الامامة والسیاسة :١ ٢٢۔ تاریخ دمشق :٣٠ ٣٠٣۔ تاریخ طبری : ٢ ٤٦٠۔ طبقات ابن سعد :٣ ٢١٢۔
١٧١
نحیی ام بکر بالسلام و ھل لی بعد قوم من سلام
اے مادر بکر آپ کو بشارت ہو ،آپ کے فرزندکی سلامتی کی اور کیا اس قوم کے مرنے کے بعد بھی میرے لیے کوئی سلامتی ہے ۔
یہ خبر رسول خداۖ کو پہنچی آپ اٹھے اپنی عبا کو اپنے کاندھوں پر ڈالا اور وہاں تک پہنچ گئے ، وہاں جاکر دیکھا کہ ابوبکر کے ساتھ عمر بھی ہیں ، پس جیسے ہی عمر نے رنجیدگی کی حالت میں آنحضرتۖ کو دیکھا تو کہا : میں غضب رسول اللہۖ سے خدا کی بارگاہ میں پناہ چاہتاہوں خدا کی قسم وہ بغیر سبب ہماری طرف نہیں آتے وہ پہلے فرد ہیں کہ جنہوں نے اپنے اوپر شراب حرام کی ہے ۔(١)
جی ہاں ! ابوبکر نے رسول خداۖ کی رفتار سے درس حاصل نہیں کیا اور ان کے غصے و خشم سے عبرت حاصل نہیں کی بلکہ دیکھیں کہ خالد بن ولید کو اپنی فوج کا کمانڈر بنادیا جب کہ رسول خدا ۖ نے اس سے اور ضرار بن ازور سے متعدد بار شراب خواری و بد خواری اور فسق و فجور کی وجہ سے بیزاری کا اظہار فرمایا تھا ۔
یہ تمام باتیں اس وجہ سے ہیں کہ ابوبکر اپنی خواہشات نفس کے تابع تھے ، اور اپنے دستورات و قوانین کو خداوندعالم کے احکام پر مقدم رکھتے تھے ۔
یہ ابوبکر خلیفہ مسلمین کے تھوڑے سے حالات ہیں ۔
اب دیکھیں حضرت امیر المؤمنین امام علی انپے اور رسول خدا ۖ کے بارے میں کیا فرماتے ہیں :
..............
(١) الفوائد :٢ ٢٢٨۔ اور دیکھیے :ـ الاصابہ :٧ ٣٩، ترجمہ٩٦٣٧۔
١٧٢
''جس وقت رسول خدا ۖ کا دودھ چھڑایا گیا تب ہی سے خداوندعالم کی جانب سے ایک بہت بڑا فرشتہ شب و روز آپ کے ہمراہ قرار پایا ، یہاں تک کہ آپ نے بڑی بڑی راہوں کو طے فرمایا اور دنیا کی اچھی اچھی خصلتیں اپنائیں ۔اور میں سفر و حضر میں آپ کے ہمراہ تھا جیسے کہ اوٹنی کا بچہ اپنی ماں کے ساتھ رہتاہے ، آپ ہرروز میرے سامنے اپنے اخلاق کا ایک خاص نمونہ پیش فرماتے ، اور مجھ سے پیروی کرنے کو فرماتے ، ہر سال غارحرا ء میں گوشہ نشین ہوتے ، میں آپ کو دیکھتا اور میرے علاوہ کوئی آپ کو نہیں دیکھتا تھا ۔اس وقت سوائے اس گھر کے کہ جس میں رسول خدا ۖ اور خدیجة الکبری رہتے تھے کسی دوسرے گھر میں اسلام داخل نہیں ہوا تھا ، ان دوکے علاوہ میں تیسرا مسلمان تھا ، میں رسالت و وحی کے نور کو دیکھتا تھا ، میں نبوت کی خوشبو محسوس کرتا تھا۔
میں نے جس وقت آپ ۖ پر وحی نازل ہوئی شیطان کے رونے کی آواز کو سنا اورپھر رسول خدا ۖ سے سوال کیا کہ یہ کیسی آواز ہے ؟
آپ ۖنے فرمایا : یہ شیطان ہے کہ جو اس بات سے رنجیدہ ہے کہ اب اس کی عبادت نہیں ہوگی ، بیشک تم ہر اس آواز کو سنتے ہو کہ جس کومیں سنتا ہوں اور ہر اس چیز کو دیکھتے ہو جس کو میں دیکھتا ہوں سوائے اس کے کہ میرے بعد پیغمبرنہیں ہو بلکہ میرے وزیر ہو ، راہ حق پر گامزن ہو اور مؤمنین کے امیر ہو ۔ (١)
''بغیة الباحث '' اور '' المطالب العالیہ بزوائد المسانید الثمانیہ'' نیز ''الجمع بین الصحیحین '' اور ان کے علاوہ دوسری بہت سی کتابوں میں مذکورہے کہ آپۖ نے حضرت علی ابن ابی طالب سے فرمایا
..............
(١) نہج البلاغہ ، خطبہ ١٩٢۔
١٧٣
اے علی تم میرے گھر کے دروازے پر کھڑ ے رہو کوئی میرے پاس نہ آئے اس لیے کہ میرے پاس کچھ زائر فرشتے ہیں کہ جو خداوندعالم سے اجازت لے کر میری زیارت کو آئے ہیں ۔
حضرت علی دروازے پر کھڑے ہوگئے اتنے میں عمر آئے، اندر آنے کی اجازت مانگی اور کہا اے علی میرے لیے رسول خدا ۖ سے اجازت لو ، آپ نے فرمایا : کسی کو بھی پیغمبراکرمۖ کی خدمت میں پہنچنے کی اجازت نہیں ہے ، عمرنے کہا کیوں؟ آپ نے جواب دیا: چونکہ آپ ۖ کے پاس کچھ زائر فرشتے ہیں کہ جو خداوند عالم سے اجازت لے کر آئے ہیں کہ آپ ۖ کی زیارت کریں ، عمر نے سوال کیا : اے علی وہ کتنے افراد ہیں ؟ آپ نے فرمایا ٣٦٠ فرشتے ۔
اس واقعہ کے بعد ایک دن عمر نے اس گفتگو کو رسول خداۖ سے نقل کیا اور کہا: اے رسول خدا ۖ یہ سب مجھے علی نے خبردی ہے ۔
پیغمبراکرمۖ نے علی سے فرمایا : اے علی آپ نے زائر فرشتوں کی خبر دی ہے ؟ آپ نے فرمایا: جی ہاں ، یارسول اللہ ۔ پھر فرمایا : کیا عمر سے فرشتوں کی تعداد بھی بیان فرمائی تھی ؟ علی نے کہا : جی ہاں آپ ۖ نے فرمایا: اے علی وہ کتنے افراد تھے ؟ علی نے کہا : وہ ٣٦٠ تھے، آپۖ نے فرمایا : آپ کو ان کی تعداد کا کیسے علم ہوا ؟ علی نے کہا : میں نے ٣٦٠ آواز یںسنیں مجھ کو علم ہوگیا کہ وہ ٣٦٠ فرشتے ہیں ۔
رسول خداۖنے اپنے دست مبارک کو علی کے سینے پر رکھا اور فرمایا : اے علی خداوند تیرے ایمان اور علم میں اضافہ فرمائے ۔(١)
..............
(١) بغیة الباحث ٢٩٥۔ المطالب العالیہ بزوائد المسانید الثمانیہ:٩٠١٦۔الجمع بین الصحیحین:٤ ٢٦٣۔ سبل الھدی والرشاد:١٠ ٢٤٦۔
١٧٤
یہ حدیث آپ کے لیے واضح کرہی ہے کہ کسی بھی صحابی یا کسی بھی اورشخض کا اہل بیت طاہرین کے ساتھ مقایسہ و مقابلہ نہیں کیا جاسکتا ،چونکہ وہ حضرات نبوت کے ثمر آور اور تناور شجرہ طیبہ سے ہیں ، خداوندعالم نے ان کو پیغمبراکرم ۖ کی جانشینی اور مؤمنین کی رہبری و قیادت کے لیے انتخاب فرمایا ہے اور وہ سب سے پہلے پیغمبراکرمۖ پر ایمان لائے ہیں ، اور آپ کی تصدیق کی ہے اور ان کے واسطے بہت سی خصوصیات اور امتیازات ہیں کہ کائنات کا کوئی فرد بھی ان کامقابلہ نہیں کرسکتا ۔
حضرت امیر المؤمنین کا خط معاویہ کے نام میں مذکورہے :
محمدۖ نے جیسے ہی ایمان اور خداوندعالم کی توحید کی طرف دعوت دی ہم اہل بیت سب سے پہلے ان پر ایمان لائے اور جو کچھ وہ لائے ہم اس پر یقین رکھتے ہیں ، ہم کئی سال تک ایسے عالم میں ایمان پر رہے کہ ہمارے علاوہ پورے عالم میں کوئی خداوندعالم پر ایمان نہیں رکھتا تھا اور اس کی عبادت نہیں کر تا تھا ۔(١)
حضرت امام حسن بن علی نے جس وقت معاویہ سے صلح کرنے کا ارادہ فرمایا تو ابتداء ً حمد و ثناء خداوندی بجالائے اور اپنے جدامجد محمد مصطفی ۖپر درود و سلام بھیجا پھر فرمایا :
ہم اہل بیت کو خداوندعالم نے اسلام میں محترم و مکرم قرار دیا اور تمام عالم میں سے ہم کوچنا اورانتخاب کیا ، ہم سے رجس و پلیدگی کو دور رکھا ، ہم کو پاک و پاکیزہ قرار دیا۔
..............
(١) کتاب صفین (منقری ) ٨٩۔ (اصل عبارت اسی کتاب سے ہے ) ۔ شرح نہج البلاغہ (ابن ابی الحدید ) :١٥ ٧٦۔ بحارالانوار :٣٣ ١١١۔
١٧٥
حضرت آدم سے میرے جد محمدۖ تک جب کبھی بھی دو فرقوں میں تقسیم ہوتے خداوندعالم ہم کو ان میں سے بہترین میں قرار دیتا ۔ پس خداوندمتعال نے محمد ۖ کو نبوت کے لیے انتخاب فرمایا اور ان کو رسالت عطا فرمائی ، آپۖ پر کتاب نازل کی اور میرے والد گرامی سب سے پہلے آپ پر ایمان لائے ، خدا اور اس کے رسول کی تصدیق کی ، خداوندعالم ، اپنی کتاب میں کہ جو اپنے رسول پر نازل کی ہے ، فرماتا ہے (افمن کان علی بینة من ربہ و یتلوہ شاھدمنہ ) (١) کیا وہ شخص کہ جو اپنے پروردگار کی جانب سے بینہ و دلیل رکھتا ہو اور اس کے پیچھے اس کا شاہد و گواہ بھی ہو (جھوٹ بول سکتا ہے ) ۔
میرے جد بزرگوار ہی اپنے پروردگار کی جانب سے بینہ و دلیل پر ہیں اور میرے والد بزرگوار وہی ہیں کہ جو ان کے پیچھے اور اتباع کرنے والے ہیں اور ان پر شاہد و گواہ ہیں۔(٢)
معاویہ کے نام محمد بن ابی بکر کے خط میں مذکور ہے :
۔ ۔ اس وقت خداوندعالم نے اپنے علم کے ذریعے ان کو منتخب فرمایا اور ان کے درمیان سے محمد ۖ کو چنا اور انتخاب کیا ان کو رسالت سے مخصوص کیا اور اپنی وحی کے لیے ان کوپسند فرمایا ، اپنے امر کے لیے ان پر اعتماد کیا، ان کوان تمام خصوصیات کے ساتھ گذشتہ تمام آسمانی کتابوں اور انبیاء و رسل پر گواہ اور گذشتہ شریعتوں پر راہنما قرار دیا ۔
..............
(١) سورہ ھود (١١) ، آیت ١٧۔
(٢) ینابیع المودة (قندوزی حنفی ) :٣ ٣٦٤ـ ٣٦٦۔
١٧٦
آنحضرتۖ نے اپنی حکمت اور نیک نصیحتوں کے ذریعہ اپنے پروردگار کی طرف دعوت دی تو سب سے پہلے جس نے ان کا جواب دیا اور ان کے ساتھ آمد و رفت کی اور ان کی بات کی تصدیق کی ، سچ سمجھا اوراسلام لائے ، ان کے ساتھ رہے اور ان کی ہر با ت کو قبول کیا ، ان کے بھائی ، ابن عم علی ابن ابی طالب تھے ، انہوں نے آپ ۖ کے غیب کی ہربات کی تصدیق کی ، اور اپنی ہر بات پر ان کو مقدم رکھا اور ان کی ہرخوف و خطر میں حفاظت کی ، ہر طرح کے حوادث میں اپنی جان کو ان پر قربان کرنے کے لیے پیش کیا ، جس نے محمد ۖسے دشمنی کی اس سے علی نے جنگ کی اور جس نے محمد ۖسے صلح کی علی نے اس سے صلح کی۔(١)
حدیث ابوبکر ھذلی اور داؤد بن ہند میں آیا ہے کہ جو شعبی سے منقول ہے اس نے کہا کہ رسول خدا نے علی کے متعلق فرمایا:''ھذا اول من آمن بی و صدقنی و صلیٰ معی ''(٢)
یہ علی وہ فرد ہیں کہ جو سب سے پہلے مجھ پر ایمان لائے، میر ی تصدیق کی اور میرے ساتھ نماز پڑھی ۔
امیرالمؤمنین نے کمیل کو اس طرح وصیت فرمائی :
اے کمیل ! زمین ، شیطانوں کے جالوں سے بھری پڑی ہے کوئی شخص بھی ان سے نجات حاصل نہیں کرسکتا مگر یہ کہ ہمارے دامن سے متمسک ہوجائے۔
..............
(١) مروج الذھب :٢ ٥٩۔ کتاب صفین (منقری ) ١١٨۔(متن عبارت اسی کتاب سے ہے )۔ شرح نہج البلاغہ (ابن ابی الحدید) :٣ ١٨٨۔ جمھرة رسائل العرب :١ ٥٠٢٤٧٧۔
(٢) شرح نہج البلاغہ (ابن ابی الحدید) :١٣ ٢٢٥۔
١٧٧
اور خداوند عالم نے تجھے متوجہ کردیا کہ کوئی بھی ان کے پنجے سے چھٹکارا نہیں پاسکتا مگر اس کے خاص بندے اور خدا کے خاص بندے ہمارے دوستدار و شیعہ ہیں ۔
اے کمیل ! یہ خداوندمتعال کا کلام ہے (ان عبادی لیس لک علیھم سلطان) (١) اے شیطان وہ میرے خاص بندے ہیں تو ان پر مسلط نہیں ہوسکتا ۔ اوریہ کلام پاک ہے (انما سلطانہ علی الذین یتولونہ والذین ھم بہ مشرکون)(٢)
شیطان کا تسلط اور حکومت صرف ان لوگوں پر ہے کہ جو اس کی اطاعت و ولایت کو قبول کرتے ہیں اور جو لوگ اس کے اغوا کرنے سے مشرک ہوجاتے ہیں ۔
اے کمیل! اس سے پہلے کہ آپ کے مال و فرزند میں شیطان شریک ہو ، جیسا کہ تم کو حکم دیا گیا ہے ہماری ولایت کے ذریعہ راہ نجات تلاش کرو۔(٣)
یہ پیغام ہے اس بات پر کہ اہل بیت معصوم ہیں اور ان کی خدا کی جانب سے تصدیق ہوئی ہے اور وہ ہی افراد خداوندعالم کی جانب سے اس آیت (کونوا مع الصادقین)(١)(سچوں کے ساتھ ہوجاؤ ) میں مورد عنایت ہیں نہ ابوبکر و عمر۔چونکہ اہل بیت کے متعلق حدیث ثقلین میں قرآن کریم کے برابر ہونا آیاہے،اوریہ مطلب ہماری راہنمائی کرتا ہے اس بات کی طرف کہ جس طرح قرآن سے متمسک ہونا واجب ہے اسی طرح اہل بیت سے بھی متمسک ہونا واجب ہے۔
..............
(١) سورہ حجر (١٥)، آیت ٤٢۔ و سورہ اسرائ(١٧)، آیت ٦٥۔
(٢) سورہ نحل (٦١)، آیت ١٠٠۔
(٣)بشارةالمصطفی لشیعة المرتضی ٥٥۔ تحف العقول ١٧٤۔
١٧٨
اگر اہل بیت سے خطا ء ممکن ہوتی تو ان سے تمسک کے لیے امر بطور مطلق صحیح نہ ہوتا اور جس طرح قرآن کریم کی تعلیمات بلا شک و تردید ہیں اسی طرح اہل بیت سے بھی جو کچھ ہم تک پہنچا ہے اس میں بھی کوئی شک و شبہہ نہیں ہے ۔ اور اگر اہل بیت معصوم نہ ہوتے تو ان کی پیروی میں گمراہی کا احتمال ہو تا لیکن وہ خدا وندعالم کی آسمان وزمین کے درمیان حبل متین اور مضبوط رسی ہیں اور قرآن کریم کی مانند خداوند اور خلق کے درمیان واسطہ ہیں ۔
اس تمام گفتگو کے بعد ہمیں یہ نتیجہ نظر آتاہے کہ اہل بیت سے دشمنی و اختلاف بدون شک و شبہہ اس شخص کے گمراہ ہونے پر دلیل ہے۔ اور ہمارا وظیفہ ہے قرآن و عترت دونوں سے متمسک رہیں چونکہ یہ دونوں ہمیں گمراہی سے نجات دلائیں گے اور یہی وجہ ہے کہ دونوں ایک دوسرے سے وابستہ ہیں اور حوض کوثر پر پیغمبراکرمۖ کے پاس پہنچنے تک ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوسکتے ۔
اسلامی فرقوں میں سے کوئی سا بھی فرقہ ایسا نہیں ہے کہ جس کے یہاں قرآن و اہل بیت اس طرح متمسک ہوں کہ دونوں حوض کوثر تک ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں اور اس فرقے کے تمام مسائل و احکام و عقائد انہی سے ماخوذ ہوں ،سوائے مذہب شیعہ کے کہ جو بارہ اماموں کی امامت کے قائل ہیں کہ جن میں سے پہلے صدیق اکبر علی ابن ابی طالب اور آخری مہدی منتظر ہیں ۔ یہی معنی ہیں پیغمبراکرمۖ کی اس حدیث شریف کے جوآپ نے بیان فرمائی :
..............
(١) سورہ توبہ(٩)، آیت ١١٩۔
١٧٩
''خلفائی اثنا عشر کلھم من قریش''(١)
میرے خلفاء بارہ افراد ہیں کہ جو سب کے سب قریش سے ہیں ۔
پیغمبراکرمۖ کا اپنے خلفاء کو بارہ کی تعداد میں محدود و معین کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ بارہویں امام کی عمر طولانی ہوگی ۔ مذہب شیعہ اور اہل سنت کے بہت سے بزرگوں کا بھی یہی عقیدہ ہے کہ بارہویں امام زندہ ہیں اور ہماری نظروں سے غایب ہیں اور وہ زمان حاضر میں بھی باقی ہیں تاکہ ہرزمانے میں قرآن کریم کی ہمراہی کی جاسکے اور حوض کوثر تک دونوں ساتھ پہنچیں ۔
یہی وجہ ہے کہ امیرالمؤمنین نے کمیل بن زیاد سے اہل بیت کے بارے میں اس طرح تعارف کرایا ہے :
'' ۔ ۔ ۔ جی ہاں ، یہ زمین کسی وقت بھی حجت خدا سے خالی نہیں رہ سکتی چاہے وہ حاضر و آشکار ہو یا غائب اور پوشیدہ اس کی وجہ یہ ہے تاکہ زمین کبھی بھی خدا کی روشن دلیل سے خالی نہ رہے ۔
لیکن وہ لوگ کون ہیں؟ کتنے افراد ہیں اور کہاں ہیں ؟
خدا کی قسم ان کی تعداد بہت تھوڑی ہے اور خدا کے نزدیک بہت بڑی منزلت و مقام رکھتے ہیں خدانے ان کو اپنی امانات و آیات عطا کی ہیں تاکہ وہ اپنے بعد ایک دوسر ے کے سپردکرتے رہیں ۔
..............
(١) صحیح مسلم :٦ ٤، باب الناس تبع القریش ، جابرابن سمرة سے روایت ہے کہ اس نے کہا کہ میں نے رسول خدا کو فرماتے سنا ہے کہ لایزال الدین قائما حتی تقوم الساعة ویکون علیھم اثنا عشر خلیفة کلھم من قریش ۔ یہ دین ہمیشہ قیامت تک باقی رہے گا اور لوگوں پر بارہ خلیفہ حکومت کریں گے کہ جو سب کے سب قریش سے ہوں گے ۔
١٨٠
علم و معرفت ، حقیقی بصیرت کے ساتھ ان کے یہاں ٹھاٹھیں مارتے سمندر کی طرح ہے ، وہ روح یقین سے مخلوط ہیں اور ہر کام کہ جو پوری دنیا پر مشکل ہو وہ ان پر آسان ہے اور جس سے اہل باطل و جاہل بھاگتے ہیں وہ اس سے مانوس ہیں اور اہل دنیا کے درمیان ایسی بلند روح و حوصلہ کے ساتھ زندگی بسر کرتے ہیں کہ جن کی نظیر پیش نہیں کی جاسکتی ۔وہ زمین پر خدا کے خلیفہ ہیں ، اور اس کے دین کی طرف بلانے والے ، آہ آہ مجھے ان کے دیدار کا کس قدر شوق ہے ''۔(١) او ر پھر فرمایا :
'' کہاں ہیں وہ لوگ کہ جو ہم پر جھوٹ و تہمت لگاتے ہیں اور سر کشی کرتے ہیں جب کہ خداوندعالم نے ہمیں سر بلند فرمایا ہے اور ان کو سرنگوں کیا ، ہمیں علم و فضل عطا کیا اور ا ن کو بے نصیب بنایا ، ہمیں امن کے قلعے میں قرار دیا اور ان کو باہر نکال دیا ، وہ لوگ یہ گمان کرتے ہیں کہ علم قرآن میں راسخ ہمارے علاوہ کوئی اور ہے ۔
ہدایت ،ہماری رہنمائی ہی سے مل سکتی ہے اور دل کے نا بینوں کو روشنی ہمارے ہی ذریعہ نصیب ہوتی ہے ، بیشک وہ قریش کے آئمہ ہی ہیں کہ جوہاشم کی نسل او رشجرہ طیبہ سے ہیں دوسرے لوگ اس کے مستحق نہیں ہیں اور نہ ہی ان کے علاوہ کوئی اور امر الہٰی کا ولی وسرپرست ہے ۔(٢)
ابن شہر آشوب، مناقب میں رقمطراز ہے: اس آیت (یا ایھاالذین آمنوا اتقوااللہ و کونوا مع الصادقین) (٣)میں خداوندعالم نے صادقین کی بطور مطلق پیروی کرنے کا حکم دیا ہے
..............
(١) نہج البلاغہ :٣ ٣٧، حکمت (کلمات قصار)١٤٧۔
(٢) نہج البلاغہ :٢ ٢٧، خطبہ ١٤٤۔
(٢) سورہ توبہ(٩)، آیت ١١٩۔ (اے ایمان لانے والو اللہ سے ڈرو اور سچوں کے ساتھ ہوجاؤ)۔
١٨١
اوریہ بات ان کے معصوم ہونے پر دلالت کرتی ہے چونکہ اس طرح کا امر کسی ایسے کے متعلق کہ جو برائیوں سے بچا ہوا نہ ہو ،قبیح ہے چونکہ اس کا م کا نتیجہ امر قبیح ہی کی طرف لے جاتاہے۔ اور جب یہ بات امامت کے باب میں ثابت ہوگئی کہ خصوص امیر المؤمنین اور ان کی اولاد معصوم کے لیے بطور اجماع عصمت ثابت ہے اور یہ آیت انہیں کے لیے ہے ، چونکہ امت اسلامی کا کوئی فرقہ بھی اس آیت کے بارے میں ان کے علاوہ کسی اور کے لیے نہیں کہتا ، اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ صفات ان کے علاوہ کسی اور کے لیے ثابت نہیں ہیں اورکسی نے بھی ان خصوصیات کا ان کے علاوہ ادعی نہیں کیا ہے تو امامت بھی انہیں کا مسلم حق ہے ۔(١)
..............
(١) مناقب ابن شہر آشوب :١ ٢٤٧۔
|