|
دوم : عصمت
صدیقیت کی دوسری صفت عصمت ہے یعنی صفت صدیقیت کے معنی یہ ہیں کہ صدیق مرتبہ ٔ کمال اور عصمت تک پہنچ جائے چونکہ وہ خداوندعالم کی طرف سے منتخب ہوتا ہے اور یہ صفت ، ''صادقیت ''سچ بولنے سے زیادہ بلند و بالا ہے ۔
صدق و سچائی کادارومدار خود انسان پر ہے لیکن صدیقیت کا تعلق خداوند سے ہے ، معصوم نہ صرف صادق بلکہ صدیق ہوتا ہے اور نہ فقط طاہر بلکہ مطہر ہوتا ہے ،پس جو کوئی خداوندعالم کی جانب سے منتخب اور چنا ہوا ہو اس کے لیے واجب ہے کہ اپنی رفتار و گفتار میں بغیر کسی کمی و زیادتی کے راہ حق کو اپنائے جیساکہ یہ خصوصیت حضرت مریم بنت عمران میں نظر آتی ہے لہذا خدا وندعالم کا ارشادگرامی ہے ۔
١٥٢
(ماالمسیح ابن مریم الا رسول قد خلت من قبلہ الرسل وامہ صدیقہ)(١)
مسیح ابن مریم کچھ نہیں ہیں سوائے رسول کے کہ ان سے پہلے بھی رسول آئے اور چلے گئے اور ان کی مادر گرامی صدیقہ ہیں ۔ اور ان ہی کے بارے میں ارشاد خداوندی ہے :
(واذقالت الملائکة یا مریم ان اللہ اصطفاک و طھر ک واصطفاک علی نساء العالمین ٭ یا مریم اقنتی لربک واسجدی وارکعی مع الراکعین٭ذالک من انباء الغیب نوحیہ الیک وما کنت لدیھم اذ یلقون اقلامھم ایھم یکفل مریم وما کنت لدیھم اذ یختصمون )(٢)
اور جب فرشتوں نے کہا : اے مریم خداوندعالم نے آپ کو منتخب کیا اور پاک و پاکیزہ رکھا اور آپ کو عالمین کی عورتوں پر فضیلت بخشی ۔ اے مریم اپنے پروردگار کے سامنے خاضع اور خاشع رہو، سجدہ کرنے والو ں کے ساتھ سجدہ اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو۔ یہ غیبی خبریں ہیں کہ جن کی ہم نے آپ پر وحی کی اورآپ اس وقت ان کے پاس نہیں تھے کہ جب ان کے درمیان اس سلسلے میں قرعہ ڈالے گئے کہ مریم کی پرورش کون کرے ؟ اورآپ ان کے درمیان نہیں تھے کہ جب وہ آپس میں اختلاف کررہے تھے ۔
اور جب اس قوم نے مریم سے کہا (یا مریم لقد جئت شیأ فریا )(٣)
..............
(١) سورہ مائدہ(٥)، آیت ٧٥۔
(٢) سورہ آل عمران (٣)، آیت ٤٢ـ٤٤۔
(٣) سورہ مریم (١٩)، آیات ٢٧ـ ٣٠۔
١٥٣
یعنی اے مریم آپ ایک دھوکے کی چیز لائی ہو کہ جو برائی کا سرچشمہ ہے (یا اخت ھارون ماکان ابوک امرء سوء وما کانت امک بغیا ) اے ہارون کی بہن آپ کا باپ کوئی برا آدمی نہ تھا اور نہ آپ کی ماں کوئی بدکار عورت تھی ۔
مریم نے عیسیٰ کی طرف اشارہ کیا کہ جو گہوارے میں تھے اور لوگوں سے چاہا کہ اس ماجرے کی شرح وتفصیل اس بچے سے معلوم کریں ، ان لوگوں نے کہا (کیف نکلم من کان فی المھد صبیا) ہم کس طرح اس بچے سے گفتگو کریں کہ جو ابھی گہوارے میں ہے ، اس وقت خداوندعالم نے حضرت عیسی کو قوت گویائی عطا فرمائی ۔ پس آپ نے کہا (قال انی عبد اللہ آتانی الکتاب و جعلنی نبیا،و جعلنی مبارکا این ما کنت و اوصانی بالصلوة والزکوة مادمت حیا ، وبرا بوالدتی ولم یجعلنی جبارا شقیا ، والسلام علی یوم ولدت ویوم اموت ویوم ابعث حیا)
بیشک میں خدا کا بندہ ہوں کہ جس نے مجھے کتاب عطا فرمائی ہے،مجھے نبی بنایا،مجھے جہاں کہیں بھی رہوں بابرکت قرار دیا،جب تک زندہ ہوں نماز اور زکوة کی وصیت فرمائی اور مجھے وصیت فرمائی کہ میں اپنی والدہ کے ساتھ نیکی کروں اس نے مجھے جبار و شقی نہیںبنایا پس مجھ پر سلام ہو اس دن کہ جب میں پید ا ہوا اور اس روز کہ جب مروں اور اس روز کہ جب دوبارہ زندہ کیا جاؤں ۔
اس بناء پر حضرت مریم قرآن کریم کی نص کے اعتبار سے صدیقہ ہیں۔ ان کے اور حضرت فاطمہ زہرا کے درمیان بہت زیادہ چیزیں مشترک ہیں ، مثلا یہ کہ دونوں نبوت کے سلالہ اور نسل سے ہیں اور نبوت ایک ایسا سلالہ و رشتہ ہے کہ جو بھی اس سلسلے سے ہو گا وہ آپس ہی میں ایک دوسرے کی نسل سے ہے۔ جیسا کہ ارشاد خداوندی ہے ۔
١٥٤
(ان اللہ اصطفی آدم و نوحا و آل ابراہیم و آل عمران علی العالمین ۔ ذریة بعضھا من بعض واللہ سمیع علیم ۔ اذاقالت امراة عمران رب انی نذرت لک مافی بطنی محررا فتقبل منی انک انت السمیع العلیم )(١)
خداوندعالم نے آدم ، نوح اور آل ابراہیم و آل عمران کو چنا اور عالمین پر فضیلت بخشی کہ جو ایک دوسرے کی نسل و ذریت ہیں اور اللہ سننے والا اور جاننے والا ہے ۔ جب عمران کی زوجہ نے کہا : پروردگارا جو بچہ میرے شکم میں ہے اس کے لیے میںنے نذر مانی ہے کہ تیری راہ میں آزاد کروں اور تیری خدمت کے لیے مخصوص کردوں ، پس خداوندا مجھ سے اس کو قبول فرمالے کہ تو سننے اور جاننے والا ہے۔
مریم ایک نبی کی بیٹی اور فاطمہ خاتم الانبیاء کی بیٹی ہیں ، مریم ایک نبی کی ماں ۔ فاطمہ ام ابیھا ، اپنے باپ کی ماں، دو وصیوں کی ماں ، بلکہ مادر اوصیاء ہیں۔
مریم کے یہاں بغیر شوہر کے بچے کی ولادت ہوئی معجزے کے ذریعہ چونکہ اس دور میںان کا کوئی کفو اور مقابل نہ تھا اور فاطمہ کے لیے علی جیسی عظیم شخصیت شوہر قرارپائے اور ان سے حسن و حسین جیسے فرزندوں کی ولادت ہوئی ، اور اگر علی نہ ہوتے تو فاطمہ کے برابر و کفو کوئی نہ ہوتا اور ان دونوں کی تربیت و پرورش پیغمبرۖنے کی ، مریم کی کفالت و پرورش زکریا نبی نے کی، فاطمہ کی پرورش وکفالت سید الانبیاء حضرت محمد مصطفی ۖ نے فرمائی۔
..............
(١) سورہ آل عمران(٣)، آیات ٣٣ـ٣٥۔
١٥٥
حضرت امام رضا سے روایت ہے کہ آپ نے ابن ابی سعید مکاری کے جواب میں فرمایا : خدا وندعالم نے جناب عمران پر وحی نازل کی کہ میں نے تجھ کو بیٹا عطا کیا اور پھر مریم ان کے یہاں پیدا ہوئیں اور مریم کو عیسی عطا ہوئے پس عیسی ، مریم سے ہیں اورمریم ، عیسی سے اور عیسی و مریم دونوں ایک چیز ہیں اور میں اپنے باپ سے ہوں اور میرے والد گرامی مجھ سے اور ہم دونوں ایک چیز ہیں۔(١)
شیعہ اور اہل سنت دونوں نے نقل کیا ہے کہ ایک رات امیر المؤمنین حضرت علی بھوکے سوگئے اور صبح کو اٹھ کر حضرت فاطمہ سے کھانا طلب فرمایا حضرت فاطمہ زہرا نے فرمایا : اس خدا کی قسم کہ جس نے میرے باپ کو مبعوث بہ رسالت کیا اور آپ کو ان کا وصی قرار دیا میرے پاس کھانے کی کوئی چیز نہیں ہے اور دو دن سے گھر میں کچھ بھی نہیں ، حتی کہ بچوں حسن و حسین کے کھانے کے لیے بھی کچھ نہیں ہے ۔
حضرت علی نے فرمایا :آپ نے ان بچوں کے لیے بھی کچھ نہ رکھااور مجھے بھی خبر دار نہ کیا تاکہ آپ کے لیے اور بچوں کے لیے کچھ انتظام کرتا ۔
حضرت فاطمہ زہرا نے فرمایا : اے ابو الحسن مجھے خدا سے شرم آتی ہے کہ کسی ایسی چیز کے لیے آپ سے کہوں کہ آپ کے پاس بھی نہ ہو ۔
حضرت علی ، خداپر بھروسہ و توکل کرکے گھر سے باہر نکلے ایک دینار پیغمبراکرم ۖ سے قرض لیا اور چل پڑے تاکہ اس سے کچھ خرید کر لائیں اچانک مقداد سے ملاقات ہوئی ۔
..............
(١) بحارالانوار :٢٥ ١۔ بنقل از معانی الاخبار ٦٥۔
١٥٦
دیکھا کہ مقداد جلتی ہوئی دھوپ میں باہر گھوم رہے ہیں حضرت علی مقداد کی یہ حالت دیکھ کر تاب نہ لاسکے اورفرمایا: اے مقداد آپ کو ایسی گرمی میں کس چیز نے باہر نکالا ہے ؟ اورکیوںپریشان پھر رہے ہو؟۔
مقداد نے کہا : اے ابو الحسن مجھ کو میرے حال پرچھوڑدو اور میری زندگی کے راز کو نہ کھلواؤ ۔
آپ نے فرمایا: میں بغیر معلوم کئے آپ کو نہیں جانے دوں گا۔
مقداد نے کہا : اے ابوالحسن آپ کو خدا کی قسم مجھے میرے حال پر چھوڑ دو اور میری حالت معلوم نہ کرو۔
علی نے فرمایا : آپ کے لیے مناسب نہیں ہے کہ مجھ سے اپنی حالت کو چھپاؤ ۔
مقداد نے کہا: آپ کا اصرار ہی ہے تو عرض کرتا ہوں اس ذات کی قسم کہ جس نے محمدۖ کو نبوت سے سرفراز کیا اور آپ کو ان کا وصی قرار دیا ۔ مجھے میرے گھر کی ناداری نے بے قرارکررکھا ہے ،میرے بچے بھوک سے بے حال ہیں اور اب میں ان کے پاس بیٹھنے کی بھی طاقت نہیں رکھتا ہوں، لہذا شرم کے مارے میں نے سر کو جھکا یا اور باہر نکل آیا اور اب پریشان پھر رہا ہوں ، یہ ہے میری حالت!۔
یہ باتیں سنتے ہی علی کی آنکھوں سے اشک جاری ہوئے اور آپ کی ریش مبارک تر ہوگئی اور پھر فرمایا : میں بھی قسم کھاتا ہوں اس کی جس کی تونے قسم کھائی ہے میں بھی اپنے اہل خانہ سے اسی وجہ سے شرم کھاکے باہر آیا ہوں جس کی وجہ سے آپ باہر آئے ہیں ۔یہ ایک دینار میں نے قرض لیا ہے اس کو لیں اور اپنی ضرورت کو پورا کریں ۔
١٥٧
لہذا حضرت علی نے مقداد کی ضرورت کو اپنی ضرورت و احتیاج پر مقدم رکھا ،ا ن کووہ دینار دے دیا اور خود ایک گوشہ میں سر رکھ کر سوگئے ۔
پیغمبراکرمۖ اپنے بیت الشرف سے باہر تشریف لارہے تھے کہ ناگہاں آپ کو دیکھا آپ کا سر ہلایا اور فرمایا : کیا کام کیا ؟ حضرت علی نے آپ کو سارا ماجرہ سنا دیا ، پھر اٹھے اور پیغمبراکرمۖ کے ساتھ نماز بجالائے۔
جب نماز سے فارغ ہوئے تو پیغمبراکرمۖ نے حضرت علیۖ سے فرمایا : اے علی آپ کے پاس کھانے کے لیے کچھ ہے ؟ حضرت نے توقف کیا اور خاموشی اختیار کی اور شرم کی وجہ سے پیغمبراکرمۖ کا کوئی جواب نہ دیا جبکہ ان کو دینار کا سار ا قصہ سنا چکے تھے ، پھر فرمایا : جی ہاں یا رسول اللہ ، خداوندعالم کی نعمتیں بہت زیادہ ہیں ۔
خداوندعالم نے اپنے رسول پر وحی نازل کردی تھی کہ آج شام کا کھانا علی ابن ابی طالب کے گھر پر ہے ۔ پس دونوں چلے اور فاطمہ کے بیت الشرف میں وارد ہوئے آنحضرت مصروف عبادت تھیں ، اور آپ کے پاس ایک بہت بڑا طشت رکھا ہوا تھا کہ جس میں سے گرم گرم کھانے کا دھواں اٹھ رہا تھا ۔
حضرت فاطمہ زہرا نے نمازکے بعد اس طشت کو اٹھایا اور ان بزرگواروں کے سامنے لاکر رکھ دیا ، حضرت علی نے سوال کیا : اے فاطمہ یہ آپ کے پاس کہاں سے آیا ؟ آپ نے جواب دیا یہ خداوندعالم کا فضل اور اس کا رزق ہے خداوندعالم جس کو چاہتا ہے بے حساب روزی عطا کرتا ہے ۔
اسی دوران پیغمبراکرمۖ نے اپنے دست مبارک کو علی کے دوش مبارک پر رکھا اور فرمایا : اے علی یہ آپ کے دینار کے بدلے میں ہے ، پھر آپ کے آنسو جاری ہوگئے اور روتے ہوئے فرمایا :
١٥٨
حمد و شکر ہے اس پروردگار کا کہ مجھے موت نہ آئی جب تک کہ میں نے اپنی آنکھوں سے اپنی بیٹی کے پاس وہ سب کچھ نہ دیکھ لیا کہ جو زکریا نے مریم کے پاس دیکھا تھا ۔(١)
ہماری روایات میں مذکور ہے کہ نسل حضرت فاطمہ زہرا سے آئمہ ، بنی اسرائیل کے نبیوں سے افضل ہیں اور عامہ کی روایات میں ہے کہ پیغمبراکرمۖ نے فرمایا کہ میری امت کے علما ء انبیاء بنی اسرائیل کی طرح ہیں۔(٢)
اور دونوں فرقوں کی روایات میں ایسی خبریں اور حدیثیں موجود ہیں کہ جو مذہب شیعہ کے عقیدے کی تصدیق کرتی ہیں چونکہ شیعہ اور سنی دونوں نے نقل کیا ہے کہ حضرت عیسیٰ آخری زمانے میں جب حضرت امام مہدی کے ظہور کے ساتھ زمین پر تشریف لائیں گے تو آپ کی اقتداء میں نماز ادا کریں گے ۔(٣) جب کہ یہ خود دلیل ہے کہ آئمہ اہل بیت ، انبیاء بنی اسرائیل سے افضل ہیں ۔
اور اگر حضرت ابراہیم و حضرت علی کے کلاموں کے درمیان مقایسہ کیا جائے تو حضرت علی کی بزرگی و معرفت حضرت ابراہیم کی نسبت واضح و آشکار ہوجائے گی ۔
..............
(١) دیکھیے:ـ مناقب ابن شہر آشوب : ١ ٣٥٠ ۔ امالی شیخ طوسی ٦١٧۔ الخرائج و الجرائح :٢ ٥٢٢۔ ذخائرالعقبی ٤٦۔ فضائل سیدة النساء (عمر بن شاہین) ٢٦۔ تفسیر فرات کوفی ٨٤۔ کشف الغمہ :٢ ٩٨۔تاویل الآیات :١ ١٠٩۔ ینابیع المودة :٢ ١٣٦۔
(٢) المحصوم (رازی ) :٥ ٧٢۔ سبل الھدی و الرشاد:١٠ ٣٣٧۔
(٣) الآحاد المثانی :٢ ٤٤٦ـ٤٤٩، حدیث ١٢٤٩۔ کنزالعمال :١٤ ٢٢٦، حدیث ٣٨٦٧٣۔ یہ ابونعیم کی کتاب مہدی میں ابو سعیدسے روایت ہے ۔ فتح الباری :٦ ٣٥٨۔ تفسیر قرطبی :١٦ ١٠٦۔
١٥٩
خداوندعالم نے حضرت ابراہیم سے خطاب فرمایا (اولم تومن قال بلی ولکن لیطمئن قلبی ) (١) اے ابراہیم کیا مردوں کے زندہ ہونے کے بارے میں آپ کو یقین نہیں ہے ابراہیم نے جواب دیا یقین تو ہے لیکن اپنے دل کو مطمئن کرنے کے لیے معلوم کررہا ہوں ۔
جب کہ حضرت علی کا ارشاد گرامی ہے : '' لوکشف الغطاء ما زددت یقینا ''(٢) اگر میری آنکھوں کے سامنے سے پردے بھی ہٹادیے جائیں تو بھی میر ے یقین میں کوئی اضافہ نہیں ہوگا۔
اس کلام میں بہت عظیم معنی پوشیدہ ہیں کہ جس کو علماء اپنی بصیرت سے درک کرتے ہیں ۔
اسی منطق و دلیل اور پیغمبراکرمۖ کی نص کے مطابق حضرت فاطمہ زہرا جناب مریم سے افضل و بالاتر ہیں چونکہ حضرت رسول خدا ۖ کہ ان پر قرآن نازل ہو ااور اس میں جناب مریم کے انتخاب کی آیت نازل ہوئی جبکہ آپ نے حضرت فاطمہ زہرا کے لیے فرمایا: فاطمہ تمام عالم کی عورتوں کی سرادار ہیں لوگوں نے سوال کیا اے رسول خداۖ فاطمہ کیا اپنے زمانے کی عورتوں کی سردار ہیں تو آپ نے فرمایا: ''ذاک مریم بنت عمران ، اما ابنتی فھی سیدة نساء العالمین من الاولین و آخرین'' (٣)
..............
(١) سورہ بقرہ (٢)، آیت ٢٦٠۔
(٢) تفسیر ابی السعود :١ ٥٦۔ و جلد:٤ ٤۔ الصواعق المحرقہ :٢ ٣٧٩۔ حاشیہ السندی :٨ ٩٦۔ مناقب ابن شہر آشوب :١ ٣١٧۔ فضائل ابن شاذان ١٣٧۔
(٣) امالی صدوق ٥٧٥۔ اور اسی سے منقول ہے شرح الاخبار :٣ ٥٢٠، حدیث ٩٥٩۔ اور بحار الانوار : ٤٣ ٢٤، حدیث ٢٠،میں ۔ بشارة المصطفی ٣٧٤، حدیث ٨٩ ۔ بحارالانوار : ٣٧ ٨٥، حدیث ٥٢ ۔
١٦٠
یہ کہ اپنے زمانے کی عورتوں کی سردار تو مریم بنت عمران تھیں لیکن میری بیٹی تمام عالمین اولین و آخرین کی عورتوں کی سردار ہیں ۔
عائشہ کی کیا صورت حال ہے ؟ کہاں عایشہ اور کہاں یہ فضائل ، کیا وہ ان عظیم فضائل و کمالات میں سے کچھ تھوڑ ا بہت بھی رکھتی تھیں؟۔
| |