کون ہیں صدیق اور صدیقہ
 

صدیقیت کے کچھ معیار
گذشتہ گفتگو سے آپ پر روشن ہوگیا ہے کہ سچا اور صادق کو ن ہے اور جھوٹا و کاذب کون؟ ۔
اب ہم چاہتے ہیں کہ یہ واضح کریں کہ الہٰی نظام میں صدیقیت کیا ہے اور صدیق و صدیقہ کون ہیں ؟ چونکہ صدیق و صدیقہ کا مرتبہ صادق و صادقہ سے کہیں بلند و بالاہے ، اس لیے کہ وہ مبالغہ کا صیغہ ہے اور قرآن کریم میں انبیاء کی صفت کے طور پر واقع ہوا ہے ۔
جیسا کہ خداوندعالم کا ارشاد گرامی ہے حضرت یوسف کے بارے میں :
(یوسف ایھاالصدیق)(١) یوسف اے صدیق اور بہت زیادہ سچے ۔
اور حضرت ابراہیم کے لیے ارشاد ہوا:(واذکر فی الکتاب ابراھیم انہ کان صدیقا نبیا)(٢) اور کتاب میں یاد کرو ابراہیم کو کہ وہ صدیق نبی تھے ۔
اور حضرت ادریس کے متعلق مذکورہے:
(واذکر فی الکتاب ادریس انہ کان صدیقا نبیا)(٣) اور کتاب میں یاد کرو ادریس کو کہ وہ صدیق نبی تھے ۔
..............
(١) سورہ یوسف(١٢)، آیت ٤٦۔
(٢) سورہ مریم (١٩)، آیت ٤١۔
(٣) سورہ مریم (١٩)، آیت ٥٦۔

١٤٠
قرآن کریم میں یہ القاب و اصاف کسی عام اور غیر معصوم کو عطا نہیں کیے گئے ، لہذا صدیقیت انبیاء و اوصیاء کی صفت ہے اور اگر اس کے معنی ، مفہوم اور مدلو ل کو وسعت سے دیکھیں تو ممکن ہے کہ نیک و صالح بندوں کو بھی شامل ہوجائے کہ جو انسان کامل ہیں اور خدا وندعالم اور اس کے رسول پر دل سے ایمان اور عقیدہ رکھتے ہیں نہ کہ وہ افراد کہ جو صرف زبان سے اظہار ایمان کرتے ہیں اور مصلحتاً ایمان لائے ہیں
اس موضوع کو اور زیادہ روشن کرنے کے لیے اور جس کا جو مقام ہے اس کو وہ مقام دینے کے لیے ضروری ہے کہ صدیقیت کے کچھ معیار اور مشخصات کو بیان کیا جائے چونکہ معیار و مشخصات، انسانی زندگی کی ارتقاء اور ارزش میں ایک عمدہ و عالی مقام رکھتے ہیں اور اس کے بعد اس موضوع کے افراد پر تطبیق کریں گے۔

اولـ صدق و سچائی
صدیقیت کی سب سے پہلی خصوصیت یہ ہے کہ صدیق اپنے کلام و گفتگو میں صادق و سچا ہو چونکہ خداوندمتعال نے جھوٹے و کاذب شخص کو اپنے اوپر ظلم کرنے والا قراردیا ہے ۔لہذا ارشاد ہے :
١ ـ (ومن اظلم ممن افتری علی اللہ کذبا او کذب بآیاتہ )
(١) اور اس سے زیادہ ظلم کرنے والا کون ہے کہ جو خدا پر جھوٹ بولے اور اس کی آیات کی تکذیب کرے اور جھٹلائے ۔
..............
(١) سورہ انعام (٦)، آیت ٢١۔ سورہ اعراف (٧) ،آیت٣٧۔ سورہ یونس (١٠)، آیت ١٧۔

١٤١
٢ـ (ومن اظلم ممن افتری علی اللہ کذبا او کذب بالحق لما جائہ )(١) اور اس سے زیادہ ظلم کرنے والا کون ہے کہ جو خدا پر جھوٹ بولے اور اس کی آیات کی تکذیب کرے کہ جب وہ حق کے ساتھ آئے ۔
٣ـ (فمن اظلم ممن افتری علی اللہ کذبا لیضل الناس بغیرعلم)(٢) پس اس سے زیادہ ظلم کرنے والا کون ہے کہ جو خدا پر جھوٹ بولے تاکہ لوگوں کو بغیر علم و معرفت کے گمراہ کرے۔
٤ـ (ومن اظلم ممن افتری علی اللہ کذبا اولٰئک یعرضون علی ربھم)(٣) اور اس سے زیادہ ظلم کرنے والا کون ہے کہ جو خدا پر جھوٹ بولے ،یہ ظالم افراد خدا کے حضور پیش کیے جائیں گے ۔
٥ـ (فمن افتری علی اللہ الکذب من بعد ذالک فاولٰئک ھم الظالمون)(٤) پس اس کے بعد جو بھی اللہ پر جھوٹ بولے پس وہ ہی افراد ظالم ہیں ۔
یوسف صدیق نے عزیز مصر سے کہا :
..............
(١) سورہ عنکبوت (٢٩)، آیت ٦٨۔
(٢) سورہ انعام(٦)، آیت ١٤٤۔
(٣) سورہ ھود (١١)، آیت ١٨۔
(٤) سورہ آل عمران (٣)، آیت ٩٤۔

١٤٢
(قال ھی راودتنی عن نفسی ، شھد شاھد من اھلھا ان کان قمیصہ قد من قبل فصدقت وھو من الکاذبین و ان کان قمیصہ قد من دبر فکذبت وھو من الصادقین فلما رایٔ قمیصہ قد من دبر قال انہ من کیدکن ان کیدکن عظیم)(١)
یوسف نے کہا : یہ زلیخا چاہتی ہے کہ مجھ کو اپنے نفس کی طرف کھیچے اور اس کے گھرانے کے ایک گواہ نے گواہی دی کہ اگر یوسف کی قمیص آگے سے پھٹی ہوتو یہ سچی ہے اور یوسف جھوٹے ہیں اور اگر دامن پیچھے سے پھٹا ہوتو یہ جھوٹی اور یوسف سچے ہیں ، تو جب قمیص کو دیکھا گیا تو اس کا دامن پیچھے سے پھٹا تھا ، تو عزیز مصر نے زلیخا سے کہا یہ تمہاری چلتر بازی ہے اور تم عورتوں کی چلتر بازیاں بہت عظیم ہیں ۔
اسی بنیاد پر حضرت امیر المؤمنین نے خداوندعالم کے اس قول (فمن اظلم ممن کذب علی اللہ و کذبا لصدق اذ جا ئہ)(٢)کے بارے میں فرمایا : صدق سے مراد ہم اہل بیت کی ولایت ہے ۔(٣)
جیسا کہ اس سے پہلے بھی بیان ہوچکا ہے کہ حضرت فاطمہ زہرا نے اپنے مشہور خطبہ میں ابوبکر کے تمام دعووں کوجھوٹ قرار دیا اور فرمایا :
..............
(١) سورہ یوسف(١٢)، آیا ت ٢٦ـ٢٨۔
(٢) سورہ زمر (٣٩)، آیت ٣٢۔
(٣) مناقب ابن شہر آشوب :٣ ٩٢ ۔ امالی طوسی ٣٦٤، مجلس ١٣، حدیث ١٧۔

١٤٣
کیا تم لوگ قرآن کریم کے خاص وعام کو میرے باپ اور ابن عم علی سے زیادہ جانتے ہو تو لو یہ فدک اپنے پاس رکھو کہ روزقیامت ایک دوسرے کا آمنا سامناکروگے کہ خدا بہترین حاکم اور محمد بہترین رہبر و قائد اور بہترین وعدہ گاہ قیامت ہے ۔ اور روز قیامت اہل باطل نقصان و خسارے کو دیکھیں گے اوراگر پشیمان و شرمندہ ہو ئے تو یہ شرمندگی تم کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا ئے گی۔
اور ہر خبر کے لیے اس کا واقع ہونے کا وقت معین ہے (١) ۔ اور بہت جلدی جان لو گے کہ کس پر ذلیل کرنے والا عذاب آنے والا ہے اور اس کو ہمیشہ کے عقاب اور دردناک عذاب میں مبتلا و غرق کرنے والا ہے۔(٢) اور پھر خداوندمتعال کے اس کلام کی طرف اشارہ فرمایا :
(ومامحمد الا رسول قد خلت من قبلہ الرسل أفان مات او قتل انقلبتم علی اعقابکم ومن ینقلب علی عقبیہ فلن یضراللہ شیأ و سیجزی اللہ الشاکرین )(٣)
اور محمد کچھ نہیں ہیں سوائے رسول کے کہ ان سے پہلے بھی رسول آئے ہیں ، کیااگر وہ مرجائیں یا قتل کردیے جائیں آپ اپنے گذشتہ (آداب و رسوم اور جاہلیت) کی طرف پلٹ جائو گے اور جو بھی اپنے گذشتہ اور پیچھے کی طرف پلٹے تووہ خدا کو کوئی ضرر و نقصان نہیں پہنچائے گا اور بہت جلدی خداوند اپنے شکر گذار بندوں کو جزادینے والا ہے ۔
..............
(١) سورہ انعام (٦)، آیت ٦٧۔
(٢) اس کلام کا مضمون سورہ ھو د (١١) ، آیت ٣٩۔میں آیا ہے صرف اس فرق کے ساتھ کہ سوف کے بجائے فسوف ہے اور عذاب عظیم کی جگہ عذاب مقیم آیا ہے ۔
(٣) سورہ آل عمران (٣) ، آیت ١٤٤۔

١٤٤
ابوبکر نے حضرت فاطمہ زہرا کو جواب دیا کہ میں نے پیغمبراکرمۖ سے سنا ہے کہ آپ نے فرمایا : ہم صنف انبیاء سونا چاندی اور گھر و جنگل میراث نہیں چھوڑتے بلکہ صرف کتاب و حکمت اورعلم و نبوت کو میراث میں چھوڑتے ہیں ۔
حضرت فاطمہ زہرا نے فرمایا:
سبحان اللہ ، پیغمبراکرمۖ ، کتاب خدا سے روگردان نہ تھے اور اس کے احکام کی مخالفت نہیں کرتے تھے بلکہ اس کی پیروی فرماتے اور قرآن مجید کے سوروں کی رسیدگی کرتے ،کیا دھوکا دینے کے لیے جمع ہوئے ہو اور اس پر ظلم و ستم کرنے اور زور گوئی کرنے کے لیے اکھٹا ہوئے ہو ؟یہ کام ان کی وفات کے بعداسی کی مانند ہے کہ جیسے ان کی زندگی میں دھوکے اور مکاریاں کی جاتی رہیں اور یہ بھی انہیں کی زندگی میں پروپیگنڈ ا تیار ہوا ۔
یہ خدا کی کتاب عادل و حاکم ہے اور حق وحقانیت کو باطل و ناحق سے جدا کرنے کے لیے موجود ہے ۔ کہ جس میں ارشاد ہے (یرثنی و یرث من آل یعقوب)(١) خدا یا مجھ کو فرزند عطا فرما کہ جو میرا اور آل یعقوب کا وارث قرار پائے ۔ اور ارشاد ہوا(وورث سلیمان داؤد) (٢) سلیمان نے داؤد سے میراث پائی ۔ خدا وندعالم نے سب کے حصوں کو تقسیم کرنے کے لیے ، فرائض کو نافذ کرنے کے لیے اور مرد وں عورتوں کو ان کے حق کی ادائیگی کی خاطر تمام چیزوں کو آشکار و واضح کر دیا ہے تاکہ اہل باطل کی تاویلات کو ختم کیا جاسکے اور شبہات و بد گمانی کو دور کیا جاسکے ۔
..............
(١) سورہ مریم (١٩ )، آیت ٦۔
(٢) سورہ نمل (٢٧)، آیت ١٦۔

١٤٥
( بل سولت لکم انفسکم امراً فصبر جمیل و اللہ المستعان علی ما تصفون )(١) بلکہ تمہارے نفسوں نے تمہارے لیے یہ معمہ بنا کرکھڑا کیا ہے لہذا میں صبر کو بہترین راستہ سمجھتی ہوں خداوندمددگار ہے ۔
پس ابوبکر نے کہا خدا سچ کہتا ہے اور اس کا رسول سچ کہتا ہے اور اس کی بیٹی سچ کہتی ہیں،آپ معدن حکمت ، مقام و مرکز ہدایت و رحمت ، رکن دین اور عین حجت ہیں آپ کے سچے و صادق کلام کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا اور آپ کے بیان سے انکار نہیں کرسکتا ۔(٢)

اب یہاں دیکھ رہے ہیں کہ حضرت فاطمہ زہرا نے ابوبکر کی تکذیب کی جبکہ ابوبکر کو حضرت فاطمہ زہرا کی تکذیب پر جرأت نہیں ہوئی بلکہ آپ کے کلام کے صحیح ہونے کی تائید کی ۔اور آپ کی حق بیانی کا اعتراف کیا ۔
اس سے پہلے ، عمر کا کلام گذرچکا ہے کہ اس نے امیر المؤمنین سے کہا کہ ہم آپ کے مقابلے میں گفتگو کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے ۔جب کہ اس دوران دیکھتے ہیں کہ ابوبکر سقیفہ میں انصار سے کہتے ہیں کہ ہم امراء اور آپ وزراء ہو ، اورپھر ان کا فعل و عمل ان کے قول کی تصدیق نہیں کرتا ، چونکہ انصار کو ہر طرح کی ذمہ داری اور منصب سے دور رکھا جاتا ہے چہ جائیکہ وزارت سونپی جائے ۔
اور ادھر قرآن و سنت کی تصریحات کو دیکھتے ہیں کہ حضرت علی کا تعارف ہوتا ہے کہ علی وہ شخص ہیں کہ جن کے متعلق کلمہ صادقین آیا ہے۔
..............
(١) سورہ یوسف (١٢) ، آیت ١٨۔
(٢) احتجاج طبرسی :١ ١٤٤۔

١٤٦
اور علی ہی کی مکمل زندگی اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ آپ صدیق اکبر ہیں اورآپ ہی سچوں کے امام ہیں ۔
شیخ طبرسی مجمع البیان میں آیہ (یا ایھا الذین آمنوا اتقوا اللہ و کونو مع الصادقین)(١) کی تفسیر میں کہتے ہیں :
'' قرائت '' مصحف عبداللہ اور قرائت ابن عباس میں ہے '' من الصادقین'' اوریہ قرائت ابوعبداللہ امام صادق سے روایت ہے ۔
''لغت '' صادق ، سچ اور حق بولنے والے کو کہتے ہیں کہ جو حق پر عمل کرتا ہے چونکہ صادق، صفت مدح ہے اور اس صفت کو بطور مطلق اس وقت بیان کیا جاسکتا ہے کہ موصوف کی سچائی ، مدح و ستائش کے قابل و شائستہ ہو۔
'' معنی'' خداوندعالم نے مومنین کو کہ جو خدائے متعال کی وحدانیت اور رسول مکرم کی رسالت پر ایمان لاچکے اور تصدیق کرچکے ہیں ، ان سے فرمایا ہے ''یا ایھا الذین آمنوا اتقوااللہ'' یعنی خدا کی نافرمانی و معصیت سے اجتناب کرو ''وکونوا مع الصادقین'' اور سچوں کے ساتھ ہوجائو ۔یعنی وہ لوگ کہ جو اپنے قول وعمل میں سچے ہیں اور کبھی جھوٹ نہیں بولتے ۔ اس کے معنی یہ ہیں اے مومنوں ایسے افراد کے مذہب کو اختیار کرو کہ جن کے قول ان کے افعال کے مطابق اور اپنے قول و فعل میں صادق و سچے ہیں ، ان کے ساتھ ہمراہی کرو۔ جیسا کہ آپ کا قول کہ میں اس مسئلے میں فلاں کے ساتھ ہوں یعنی اس مسئلے میں اس کی اقتداء وپیروی کرتا ہوں۔
..............
(١) سورہ توبہ(٩)، آیت ١١٩۔ (اے ایمان لانے والو ، خدا سے ڈرو اور صادقین کے ساتھ ہوجائو )

١٤٧
خداوندعالم نے سورہ بقرہ میں صادقین (سچوں) کی اس طرح توصیف فرمائی ہے ۔
(ولٰکن البر من آمن باللہ والیوم الآ خر ـــ اولٰئک الذین صدقوا و اولٰئک ھم المتقون )(١)
اور لیکن نیک وہ افراد ہیں کہ جو روز قیامت پر ایمان لائے ہیں ، وہی لوگ سچے اور وہی لوگ پرہیز گار ہیں ۔
اسی وجہ سے خداوندعالم نے مومنوں کو حکم دیا ہے کہ تقوی و پرہیزگاری اختیار کرو اور سچوں کے ساتھ ہوجائو۔
کہا جاتا ہے کہ صادقین سے مراد وہی افراد ہیں کہ جن کا تذکرہ خداوندعالم نے اپنی کتاب میں فرمایا ہے ، اور وہ آیت یہ ہے (من المؤمنین رجال صدقوا ماعاھدو ا اللہ علیہ فمنھم من قضی نحبہ )(٢) یعنی حمزہ بن عبد المطلب و جعفر بن ابی طالب (ومنھم من ینتظر)(٣) یعنی علی ابن ابی طالب ۔
کلبی نے ابی صالح سے اور اس نے ابن عباس سے روایت نقل کی ہے کہ ابن عباس نے کہا کہ ''کونوا مع الصادقین'' یعنی علی اور ان کے اصحاب کے ساتھ ہوجائو۔
..............
(١) سورہ بقرہ (١)، آیت ١٧٧۔
(٢) سورہ احزاب (٣٣) ، آیت ٢٣۔
(٣) اسی آیت کا ادامہ ،سورہ احزاب (٣٣) ، آیت ٢٣۔

١٤٨
اور جابر نے ابی جعفر امام محمد باقر سے روایت نقل کی ہے کہ خدا وندعالم کے اس کلام ''کونوا مع الصادقین'' کے بارے میں فرمایا کہ آل محمد ۖ کے ساتھ ہوجاؤ۔
اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ بہشت میں پیغمبروں اور صدیقین کے ساتھ رہو۔
اور کہا جاتا ہے کہ یہاں پر ''مع '' ''من ''کے معنی میں ہے گویا خداوندعالم نے حکم دیا ہے کہ مومنین سچوں میں سے ہوجائیں ۔ اور جس نے اس کی من کے ساتھ قرائت کی ہے تو اس معنی کو تقویت ملتی ہے اگر چہ دونوں معنی یہاں پر ایک دوسرے کے نزدیک اور ملتے جلتے ہیں چونکہ '' مع '' مصاحبت کے لیے ہے اور'' من'' تبعیض کے لیے ،پس جس وقت وہ شخص خود صادقین و سچوں میں سے ہو تو ان ہی کے ساتھ ہے اور انہی میں سے شمار ہوتا ہے ۔
ابن مسعود کہتے ہیں کہ جھوٹ بولنا مناسب نہیں ہے نہ حقیقتا اور نہ ہنسی مذاق میں اور نہ تم میں سے کوئی اپنے بچوں سے وعدہ کرے اور پھر اس کو پورا نہ کرے ، جس طرح بھی چاہو اس آیت کی قرائت کرو، تو کیا جھوٹ میں چھٹکارہ دیکھتے ہو؟۔(١)
ابن اذینہ نے برید بن معاویہ عجلی سے روایت کی ہے کہ اس نے کہا کہ میں نے خداوندعالم کے اس فرمان ''اتقوا اللہ وکونوا مع الصادقین'' کے متعلق حضرت امام محمد باقر سے سوال کیا تو آپ نے فرمایا کہ صادقین سے مراد ہم اہل بیت ہیں۔(٢)
..............
(١) دیکھیے :ـ مجمع البیان۔ سورہ توبہ تفسیر آیت ١١٩۔
(2) بصائر الدرجات ٥١، حدیث ١۔ اصول کافی : ١ ٢٠٨، حدیث ١۔

١٤٩
صفار نے حسین بن محمد اور اس نے معلی بن محمد اوراس نے حسن اور اس نے احمد بن محمد سے روایت کی ہے کہ اس نے کہا کہ میں نے حضر ت امام رضا سے خداوندعالم کے اس فرمان ''اتقوا اللہ وکونوا مع الصادقین'' کے متعلق سوال کیا تو امام نے فرمایا: صادقین سے مراد آئمہ ہیں کہ جو اطاعت و عبادت میں صدیق ہیں ۔(١)
حدیث مناشدہ میں مذکور ہے کہ امیر المؤمنین نے فرمایا : آپ کو خدا کی قسم دیتا ہوں کیا جانتے ہو کہ یہ آیت نازل ہوئی (یا ایھا الذین آمنوا اتقوا اللہ وکونو مع الصادقین) تب سلمان نے سوال کیا :اے رسول خدا یہ دستور عام ہے یا خاص ؟ پیغمبراکرمۖ نے فرمایا : خطاب کی طرف تو تمام مؤمنین مراد ہیں کہ جن کو اس کام کا حکم دیا گیا ہے لیکن صادقین سے مخصوص میرے بھائی علی اور روز قیامت تک اس کے بعد کے اوصیاء ہیں ، تب سب نے کہا ہاں خدا کی قسم یہی درست ہے ۔(٢)
ابن شہر آشوب نے تفسیر ابویوسف سے روایت کی ہے کہ یعقوب بن سفیان نے ہم سے کہا کہ مالک بن انس نے نافع سے اور اس نے ابن عمر سے کہ ابن عمر نے اس آیت کے بارے میں کہ (یا ایھا الذین آمنوا اتقوا اللہ) کہا کہ خدا وندعالم نے صحابہ کو حکم دیا کہ خدا سے ڈرو اور پھر فرمایا (و کونو مع الصادقین) یعنی محمد اور ان کے اہل بیت کے ساتھ ہوجائو۔(٣)
..............
(١) بصائر الدرجات ٥١، حدیث ١۔ اور اسی سے منقول ہے بحار الانوار :٢٤ ٣١ میں ۔
(٢) کتاب سلیم بن قیس ٢٠١۔ التحصین ٦٣٥۔ ینابیع المودة :١ ٣٤٤۔
(٣) مناقب ابن شہر آشوب :٢ ٢٨٨۔ ینابیع المودة : ١ ٣٥٨، باب ٣٩، حدیث ١٥، کہ اس میں موفق بن احمد خوارزمی سے منقول ہے ۔ فضائل ابن شاذان ١٣٨۔

١٥٠
حضرت امام موسیٰ کاظم سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا : کہتے ہیں کہ ہم علی کے شیعہ ہیں ، علی کا شیعہ وہ ہے کہ جس کا عمل اس کے قول کی تصدیق کرے ۔(١)
حضرات معصومین کی امامت و صدیقیت کے اثبات میں شیعوں کے درمیان اس آیت سے استدلال و تمسک معروف ہے اور محقق طوسی نے کتاب تجرید الاعتقاد میں اس کو ذکر کیا ہے ۔(٢)

علامہ مجلسی کہتے ہیں کہ اس آیت سے وجہ استدلال یہ ہے کہ خداوندعالم نے تمام مؤمنین کو صادقین کے ساتھ ہونے کا حکم دیاہے اور اس کا ظاہری مطلب یہ ہے کہ ان کے بدن کے ساتھ رہنا مقصود نہیں ہے بلکہ ان کی روش کی پیروی و ملازمت اور ان کے عقائد و اقوال و افعال کی اتباع مراد ہے ، اور یہ واضح ہے کہ خداوندعالم کسی بھی ایسے شخص کی اتباع و پیروی کا حکم نہیں دیتا کہ جس کے بارے میں جانتاہو کہ اس سے فسق و فجور اور گناہ صادر ہوتے رہتے ہیں ، بلکہ ایسے افراد کی ہمراہی سے منع فرمایا ہے ۔
پس لازم ہے کہ صادقین ، معصوم ہوں کہ جو کسی بھی خطا و غلطی کے مرتکب نہ ہوں تاکہ ان کی اتباع اور پیروی تمام امور میں واجب ہوسکے ۔نیز یہ حکم کسی خاص زمانے سے مخصوص نہیں ہے بلکہ ہر زمانے کے لیے عام ہے ،پس ان صادقین میں سے کوئی ایک معصوم ہرزمانے میں موجود ہو تاہے تاکہ ہرزمانے کے مومنین کے لیے ان کی اتباع کا حکم صحیح ہوسکے ۔(٣)
..............
(١) روضہ کافی :٨ ٢٢٨،حدیث ٢٩٠۔
(٢) تجرید الاعتقاد ٢٣٧، مقصد خامس فی الامامة ۔ کشف المراد (علامہ حلی ) ٣٧١۔
(٣) بحار الانوار : ٢٤ ٣٣ـ٣٤۔

١٥١
شاعر کہتا ہے:
اذا کذبت اسماء قوم علیھم
فاسمک صدیق لہ شاھد عدل(١)

جب تمام اقوام عالم کے نام ان کے اوپر جھوٹ ثابت ہوں اور کوئی نام مطابقت نہ رکھتا ہوتو تیر ا نام صدیق و سچا ہے ، اور اس بات پر شاہد عادل گوا ہ ہے ۔
ان تمام مطالب کے بعد آپ کے لیے واضح ہوگیا کہ صدیق کون ہے اور صدیقہ کون؟

..............
(١) مناقب ابن شہر آشوب :٢ ٢٨٧۔