طرفین کے نزدیک جھوٹ بولنے کے اسباب
ا ب ذرا غور و فکر کرنے کے بعد آئیں دیکھیں کہ کیا ابوبکر واقعا سچے اور صدیق ہیں یا صدیق حضرت علی ابن ابی طالب ہیں ؟۔
حضرت امیر المؤمنین علی نے اپنے کلام میں اپنی اس مظلومیت کی طرف اشارہ فرمایا ہے :
'' مازلت مذ قبض رسول اللہ مظلوما و لقد بلغنی انکم تقولون علی یکذب قاتلکم اللہ فعلی من اکذب أ علی اللہ فانا اول من آمن بہ ام علی نبیہ فانا اول من صدقہ ''(١)
جب سے پیغمبراکرمۖ کی رحلت ہوئی ہے تب ہی سے میں مظلوم ہوں اور مجھ کو خبر ملی ہے کہ آپ لوگ کہتے ہو کہ علی جھوٹ بولتے ہیں ،خدا آپ کو ہلاک کرے میں کس پر جھوٹ بولتا ہوں ؟ کیا میں خدا پر جھوٹ بولتا ہوں جب کہ سب سے پہلے اس پر میں ایمان لایا ہوں یا اس کے نبی پر جھوٹ بولتا ہوں ؟ جب کہ سب سے پہلے میں نے آپۖ کی تصدیق کی ہے ۔
..............
(١) نہج البلاغہ: ١ ١١٩، حظبہ ٧١۔ خصائص الائمہ(سید رضی) ٩٩۔ الارشاد:١ ٢٧٩۔ بحار الانوار :٣٩ ٣٥٢۔ ینابیع المودة :٣ ٤٣٦۔
١١٠
امام کی اس فرمایش میں بہت دقیق اور بہت خوبصورت معانی اور ایک عظیم احتجاج و مناظرہ پوشیدہ ہے ۔ چونکہ حقیقت میں کیا دلیل و توجیہ پیش کی جاسکتی ہے اس بات پر کہ علی خدا پر جھوٹ بولیں جب کہ علی وہ شخص ہیں کہ جن کے بارے میں اور آپ کے خاندان کے بارے میں قرآن کریم کی متعدد اور بہت زیادہ آیات نازل ہوئی ہیں جیسے آیہ تطہیر ، آیہ مباہلہ ، آیہ مودت، سورہ دہر اور مذکورہ ذیل آیات کہ جن میں خداوندعالم کا ارشادگرامی ہے :
١ـ (واعتصموا بحبل اللہ جمیعا ولا تفرقوا )(١)
اور سب اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑلو اور آپس میں تفرقہ مت ڈالو۔
تفسیر عیاشی میں مذکور ہے کہ علی ابن ابی طالب ، خداوندعالم کی مضبوط رسی ہے ۔(٢)
٢ـ (کونو امع الصادقین)(٣)سچوں کے ساتھ ہوجاؤ۔
روایت میں آیاہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو جناب سلمان نے پوچھا کہ اے پیغمبرخدا ۖ کیا یہ آیت عام ہے یا خاص ؟ آنحضرت ۖ نے فرمایا تمام مومنوں کو حکم ہوا ہے کہ سچوں کے ساتھ ہوجائیں لیکن صادقین سے مراد خاص افراد ہیں میرے بھائی علی اور ان کے بعد اوصیاء قیامت تک۔(٤)
..............
(١) سورہ آل عمران(٣) ، آیت ١٠٣۔
(٢) تفسیر عیاشی :١ ١٩٤، حدیث ١٢٢۔
(٣) سورہ توبہ (٩)، آیت ١١٩۔
(٤)کمال الدین و تمام النعمة ٢٧٨، باب ٢٤، حدیث ٢٥۔
١١١
٣ ـ ( ان ھذا صراطی مستقیما فاتبعوہ ولا تتبعوا السبل فتقرق بکم عن سبیلہ )(١)
بیشک یہ میرا سیدھا راستہ ہے پس اس کی پیروی کرو اور دوسرے راستوں پر نہ چلو کہ وہ تم کو سیدھے راستے سے جدا کردیں گے ۔
روضة الواعظین میں مذکورہے کہ پیغمبراکرمۖ نے فرمایا کہ میں نے خدا وندعالم سے چاہا کہ اس آیت کو علی کے بارے میں قرار د ے خداوندکریم نے قبول فرمایا اور ایسا ہی کیا ۔(٢)
اور یہ بھی پیغمبراکرمۖ سے مروی ہے کہ آپ ۖ نے فرمایا : میں وہی صراط مستقیم ہوں کہ جس کی پیروی کا خداوندعالم نے تم کو حکم دیا ہے اور میرے بعد علی ،صر اط مستقیم ہے اور اس کے بعد علی کی نسل میں سے میرے بیٹے خدا کی طرف سے سیدھا راستہ ہیں ۔(٣)
٤ـ (یا ایھاالذین آمنوا اطیعوا اللہ و اطیعو ا الرسول و اولی الامر منکم)(٤)
اے ایمان لانے والو خدا کی اطاعت کرو اورر سول اور اولی الامر کی اطاعت کر و کہ جو تم ہی میں سے ہے ۔
..............
(١) سورہ انعام (٧)، آیت ١٥٣۔
(٢) روضة الواعظین :١ ١٠٦۔
(٣) احتجاج طبرسی :١ ٧٨ـ٧٩، حدیث الغدیر۔
(٤) سورہ نساء (٤)، آیت ٥٩۔
١١٢
جابر ابن عبداللہ انصاری سے روایت ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی میں نے رسول خدا ۖ سے سوال کیا : یارسول اللہ ہم نے اللہ اور رسول کو تو پہچان لیا لیکن یہ اولی الامر کون ہے ؟کہ جس کی اطاعت آپ کی اطاعت کے ساتھ ساتھ ہم پر واجب کی گئی ہے ، پیغمبراکرمۖ نے فرمایا: اے جابر وہ میرے خلفاء اور مسلمانوں کے امام ہیں میرے بعد کہ ان میں سے اول علی ابن ابی طالب اور ان کے بعد حسن پھر حسین ہیں۔(١)
٥ـ (فاسئلو ا اھل الذکر ان کنتم لا تعلمون )(٢) آپ اگر نہیں جانتے تو اہل ذکر سے سوال کرو ۔ روایات میں آیاہے کہ ذکر سے مراد پیغمبراکرمۖ اور اہل ذکر سے آنحضرتۖ کے اہل بیت مراد ہیں ۔ (٣)
٦ـ (ومن یشاقق الرسول من بعد ما تبین لہ الھدی و یتبع غیرسبیل المؤمنین نولہ ما تو لی و نصلہ جھنم و سائت مصیرا )(٤) راہ حق و ہدایت روشن ہونے کے بعد بھی جو شخص پیغمبراکرم ۖ سے اختلاف کرے اور مؤمنین کے راستے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ اختیار کرے تو اس کو اسی راستے پر چھوڑدیں گے کہ جو اس نے اختیار کیا ہے اور اس کو جہنم تک پہنچادیں گے ،کہ جو بہت برا راستہ ہے ۔
..............
(١) ١ کمال الدین و تمام النعمة ٢٥٣،باب ٢٣۔ حدیث ٣۔
(٢) سورہ نحل (١٦)، آیت ٤٣۔
(٣) دیکھیے :ـ اصول کافی :١ ٢١٠، حدیث ١ـ٣۔ تفسیر قمی :٢ ٦٨۔ تفسیر عیا شی :٢ ٢٦٠،حدیث ٣٢۔ بصائر الدرجات ٦٠،باب ١٩، حدیث ١٠و١٣۔ (٤) سورہ نسائ(٤)، آیت ١١٥۔
١١٣
٧ـ (انما انت منذر و لکل قوم ھاد)(١)
بیشک آپ ڈرانے والے ہیں اور ہر قوم کے لیے ایک ہادی ہے ۔
تفسیر مجمع البیان میں مذکورہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو رسول خدا ۖ نے فرمایا : میں ڈرانے والاہوں اور میرے بعد علی ہادی ہے اے علی ہدایت پانے والے آپ سے ہدایت پائیں گے ۔(٢)
٨ـ (انما ولیکم اللہ ورسولہ والذین آمنوا الذین یقیمون الصلوة ویوتون الزکاة و ھم راکعون)(٣)
آپ کا ولی اور سر پرست صرف خدا ہے اور اس کا رسول اور وہ مومنین کہ جو نماز قائم کرتے اور حالت رکوع میں زکات دیتے ہیں (اور جو شخص بھی خدااور اس کے رسول اور ان مومنین کو اپنا ولی قراردے و ہ حزب اللہ کے دائرے میں ہے اور بیشک وہ افراد کہ جو حزب اللہ کے زمرے میں ہیں کامیاب ہیں )
کتاب کافی میں حضرت امام جعفر صادق سے روایت ہے کہ والذین آمنوا سے مراد علی اور قیامت تک آپ کی اولاد آئمہ ہیں ۔(٤)
..............
(١) سورہ رعد(١٣)، آیت ٧۔
(٢) مجمع البیان :٥و٦ ٢٨٧۔
(٣) سورہ مائدہ (٥)، آیت ٥٥و ٥٦۔
(٤) اصول کافی :١ ٢٨٨،حدیث ٣۔
١١٤
حضرت امام محمد باقر سے روایت ہے کہ یہودیوں میں سے ایک گروہ نے اسلام قبول کیا اور پیغمبراکرمۖ کے پاس آئے اور آپ ۖ سے سوال کیا کہ آپ کا وصی اور جانشین کون ہے ، آپ کے بعد ہماراولی و سرپرست کون ہے ؟ اس وقت یہ آیت نازل ہوئی (انما ولیکم اللہ و رسولہ ۔۔۔) پیغمبراکرم ۖ نے ان لوگوں سے فرمایا اٹھیے اور مسجد کی طرف چلیے وہ سب کے سب مسجد کی طرف چل پڑے اسی دوران ایک فقیر کو دیکھا کہ جو مسجد سے باہر نکل رہا تھا پیغمبراکرمۖ نے سوال کیا: اے سائل کیا تجھ کو کسی نے کچھ دیا ؟ اس نے کہا؟ جی ہاں یہ انگوٹھی ، پیغمبراکرمۖ نے معلوم کیا : کس شخص نے یہ انگوٹھی تجھے دی ؟ فقیر نے کہا : اس شخص نے کہ جو نماز پڑھ رہا ہے ۔ آپ نے معلوم کیا : کس حالت میں یہ انگوٹھی تجھ کو دی ؟ اس نے کہا : حالت رکوع میں ۔
پیغمبراکرمۖ نے یہ سن کر تکبیر کہی اور تمام اہل مسجد نے تکبیر کہی پھر پیغمبراکرمۖ نے فرمایا: علی ابن ابی طالب آپ کا ولی و سرپرست ہے۔ سب نے کہا ہم راضی ہیں کہ اللہ ہمارا پروردگار، محمد ہمارا رسول ہے اور علی ابن ابی طالب ہمارے ولی و سرپرست ہیں ، اس وقت یہ آیت نازل ہوئی (ومن یتول اللہ و رسولہ)(١)
اور ان کے علاوہ بہت سی دوسری آیات کہ جو اس سلسلے میں نازل ہوئی ہیں اور تفاسیر و دوسری کتابوں میں ان باتوںکی طرف اشارہ ہوا ہے ۔
..............
(١) امالی (شیخ صدوق ) ١٠٧ـ١٠٨، مجلس ٢٦،حدیث ٤۔
١١٥
پیغمبراسلام ۖ پر جھوٹ بولنا چاپلوسی ،چمچے اور تملق مزاج لوگوں کا کام ہے اور وہ یہ حرکت کرتے ہیں کہ جو خواہشات نفس کے پیروکار ہیں یا وہ افراد کہ جو حقیقت میں اسلام کے دشمن ہیں لیکن اپنے آپ کو مسلمانوں کی صفوں میں کھڑا کرلیا ہے ۔یا وہ لوگ کہ جنہوں نے اپنی قلعی و حقیقت کھلنے کے خوف سے پیغمبراکرمۖ کو ستایا اور آپ پر جھوٹ کا الزام لگایا ہے یہ وہی لوگ ہیں کہ جو پیغمبراکرمۖ کے اوپر کوڑا پھینکتے تھے اور آپ کے راستے میں کانٹے بچھاتے تھے ۔
جبکہ حضرت امام علی ابن ابی طالب آپ کے چچا زاد بھائی ہیں اور وہ ہیں کہ جنہوںنے اپنی جان اور خون سے پیغمبراکرمۖ کی محافظت کی، آپۖ سے دفاع کیا اور آپ پہلے فرد ہیں کہ جنہوں نے پیغمبراکرمۖ کی نبوت و رسالت کو قبول کیا ، اور آپ سے خطرات کو ٹالنے کے لیے آپ کے بستر پر سوئے ، جو شخص اس طرح کا ہو اوراس طرح کے امتیازات رکھتاہو کیا یہ معقول ہے کہ وہ پیغمبراکرمۖ پر جھوٹ بولے ؟۔
یہ کس طرح ممکن ہے کہ علی پیغمبراکرمۖ پر جھوٹ کی تہمت لگائیں جب کہ ہم دیکھتے ہیں کہ سیکڑوں حدیثین حضرت علی کے مدح میں پیغمبر اکرمۖ سے مروی ہیں ، مذکورہ ذیل روایات صرف نمونے کے طور پر پیش خدمت ہیں کہ جو پیغمبراکرمۖ نے حضرت علی کے بارے میں فرمایا :
٭ ''امام المتقین وقائد الغر المحجلین''(١)
علی متقین اور پرہیزگاروں کے امام اور سفید و نورانی پیشانی والوں کے قائد ہیں۔
..............
(١) اس حدیث کے منابع و مصادر سے آشنائی کے لیے دیکھیے :ـ المراجعات (شرف الدین) ٣٤٠، مراجعہ ٤٨۔
١١٦
٭ '' ھذا امیر البررة وقاتل الفجرة منصورمن نصرہ مخذول من خذلہ''(١)
یہ علی، نیک وصالحین کے امیر ،فاسقین و فاجرین کے قاتل اور جو اس کی مدد کرے وہ کامیاب ہے اور جو اس کو پست و خوار سمجھے وہ خود ذلیل ہے ۔
٭ '' انا مدینة العلم و علی بابھا فمن اراد العلم فلیات الباب ''(٢)
میں علم کا شہرہوں اورعلی اس کے دروازہ ہیں پس جس کو علم چاہیے وہ دروازے سے داخل ہو۔
٭ '' انت تبین لامتی ما اختلفوافیہ من بعدی''(٣)
آپ اے علی میرے بعد میری امت کے لیے وضاحت کریںگے جن مسائل میں وہ اختلاف کریں۔
..............
(١) مستدرک حاکم :٣ ١٢٩۔ حاکم کا بیان ہے کہ اس حدیث کے اسناد صحیح ہیں اور بخاری و مسلم نے اس کو نقل نہیں کیا ہے ۔ تاریخ بغداد : ٤ ٤٤١، ترجمہ ٢٢٣١۔
(٢) المعجم الکبیر :١١ ٥٥(بہ نقل از ابن عباس )۔ مستدرک حاکم :٣ ١٢٦(حاکم کا بیان ہے کہ اس حدیث کی اسناد صحیح ہیں اور بخاری و مسلم نے اس کو نقل نہیں کیا ہے ) اور ١٢٧ صفحہ پر اس حدیث کو جابر بن عبداللہ انصاری سے نقل کیا ہے ۔ فیض القدیر :١ ٤٩۔ اسد الغابہ :٤ ٢٢۔
(٣) مستدرک حاکم:٣ ١٢٢ ۔حاکم کا بیان ہے کہ اس حدیث کی اسناد صحیح ہیں اور بخاری و مسلم نے اس کو نقل نہیں کیا ہے ۔ تاریخ دمشق : ٤٢ ٣٨٧۔
١١٧
٭ '' اناالمنذر و علی الھادی و بک یا علی یھتدی المھتدون من بعدی''(١)
میں ڈرانے والاہوں اور علی ہادی ہیں ، اور اے علی میرے بعدہدایت پانے والے آپ سے ہدایت پائیں گے ۔
٭ '' ان الامة ستغدربک بعدی وانت تعیش علی امتی و تقتل علی سنتی من احبک احبنی ومن ابغضک ابغضنی و ان ھذہ ستخضب من ھذا (یعنی لحیتہ من راسہ )''(٢) اے علی میرے بعد میری امت آپ سے خیانت کرے گی جب کہ آپ کی زندگی میرے آئین و روش پر ہوگی اور میری سنت کے احیاء میں قتل کردیے جاؤ گے اور جو آپ کو دوست رکھے وہ مجھ کو دوست رکھتا ہے اور جوآپ سے بغض رکھے وہ مجھ سے بغض، اور میر ا دشمن ہے ۔اور عنقریب آپ کی ڈاڑھی آپ کے سر کے خون سے رنگین ہوگی ۔
..............
(١) تفسیر طبری :١٣ ١٤٢(بہ نقل از ابن عباس) ۔ فتح الباری : ٨ ٢٨٥(ابن حجر کا بیان ہے کہ اس حدیث کے اسناد حسن ہیں ) ۔ الدر المنثور : ٤ ٤٥۔(اس ماخذ میں وارد ہے کہ اس حدیث کو ابن حجر ، ابن مردویہ اور ابونعیم نے المعرفت میں اور دیلمی ، ابن عساکر ، ابن نجار اور اسی طرح حاکم نے عباد بن عبداللہ اسدی سے کہ اس نے علی سے روایت کی ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث صحیح الاسناد ہے اور بخاری و مسلم نے نقل نہیں کیا ہے ) دیکھیے:ـ مستدرک حاکم :٣ ١٣٠۔
(٢) اس حدیث کو حاکم نے مستدرک :٣ ١٤٢ میں نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے اور ذہبی نے اس کو اپنی تلخیص میں صحیح جانا ہے ۔ کنزالعمال :١١ ٢٩٧، حدیث ١٣٥٦٢۔اسی طرح کی روایت شیعہ طرق سے بھی نقل ہوئی ہے جیسا کہ عیون اخبار الرضا :١ ٧٢، حدیث ٣٠٦، میں وارد ہے ۔
١١٨
عمر بن خطاب سے منقول ہے انہوں نے کہا: علی کو تین ایسی خصلتیں ملیں کہ اگر مجھ کو ان میں سے ایک بھی مل جاتی تو اس سے کہیں زیادہ بہتر تھی کہ مجھ کو لال بالوں والے اونٹ دیئے جائیں ۔
لوگوں نے معلوم کیا کہ وہ علی کی کیا خصوصیتیں ہیں؟تو کہا : علی کی فاطمہ دختر رسول خدا ۖ سے شادی ہونا ، اور آپ کا پیغمبراکرمۖ کے ساتھ مسجدمیں سونا اور ہر وہ چیز کہ جو پیغمبراکرمۖ کے لیے مسجد میں حلال تھی آپ کے لیے بھی حلال تھی اور آپ کو روزخیبر علم کا دیا جانا ۔(١)
مسلم نے سعد بن وقاص سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے ۔(٢)
اور اسی طرح کے مضمون کی روایت ابن عباس سے نقل ہوئی ہے ۔(٣)
جس کے حصے اور نصیب میں خدا اور رسول سے اس قدر فضائل و کمالات ہوں تو کیا اس کے لیے یہ تصور کرنا ممکن ہے کہ وہ خدا اور رسول پر جھوٹ بولے ۔
صدیق اکبرحضرت علی اور صدیقہ کبری حضرت فاطمہ زہرا کی تصدیق نہ کرنا یا ان کی بات رد کرنا ـ ان دونوں کی فضیلت میں اتنی زیادہ احادیث صحیحہ و متواترہ ہونے کے باوجود ـ گویا رسول خداۖ کی تکذیب کرنا ہے خصوصاًان روایات میں کہ جن کے صحیح ہونے پر تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے ۔
..............
(١) مصنف ابن ابی شیبہ :٧ ٥٠٠، حدیث ٣٦۔ مستدرک حاکم :٣ ١٢٥۔(حاکم کا بیان ہے کہ اس حدیث کی اسناد صحیح ہیں اور بخاری و مسلم نے اس کو نقل نہیں کیا ہے ) ۔ مجمع الزوائد :٩ ١٢٠۔
(٢) صحیح مسلم ١٢٠ کتاب فضائل الصحابہ ، فضائل علی ۔ سنن ترمذی :٥ ٣٠١، حدیث ٣٨٠٨۔
(٣) المعجم الاوسط : ٨ ٢١٢ ۔ مجمع الزوائد : ٩ ١٢٠۔ مستدرک حاکم :٣٠ ١١١۔ تاریخ دمشق :٤٢ ٧٢۔ شواہد التنزیل : ١ ٢٢۔
١١٩
وہ لوگ کہ جو تاریخ اسلام کا حقیقت مندانہ مطالعہ کرتے ہیں وہ اچھی طرح درک کرلیتے ہیں کہ خدا اور رسول پر ان لوگوں نے جھوٹ بولا ہے کہ جن کے یہاں زمانہ جاہلیت کی طرف تمایل اور تعصب تھا ، یا خواہشات نفس کے تابع تھے ، یا حکومت و جاہ طلب، اور یا پھر فکری اعتبار سے پست تھے اور یہ لوگ عموماً وہ تھے کہ جو مسلمانوں کی تلوار کے خوف سے ایمان لائے تھے، اپنی جان کے خوف میں جہاد پر بھی نہ گئے اور اگر گئے بھی تو مسلمانوں کی صفوں میں رخنہ و تفرقہ ڈالا ۔ جیسے فتح مکہ کے دن اسلام قبو ل کرنے والے اور اس کے بعد والے یا منافق افراد وغیرہ۔
یہ تمام اسباب ـ کہ جن کی سزا اور بھگتان بہت سنگین ہے ـ حضرت علی ابن ابی طالب ، حضرت فاطمہ زہرا ، جناب خدیجہ اور تمام ہی اہل بیت علیہم السلام کے حق میں کہ جن کو خداوندعالم نے پاک و پاکیزہ رکھا ہے ، منتفی ہیں ، اور یہی وجہ ہے کہ صدیق اکبر حضرت امیر المؤمنین علی ابن ابی طالب کا ارشاد گرامی ہے :
'' ما کذبت ولا کذبت ''(١)
نہ میں نے کبھی جھوٹ بولا اور نہ مجھ پر(رسول خدا ۖ کی جانب سے) کبھی جھوٹ بولا گیا ۔
اور یہ اسباب ، اہل بیت علیہم السلام کے پیرو وتابع حضرات جیسے سلمان ، مقداد ، ابوذر ، عمار ، ابن عباس ، حذیفہ بن یمان اور خزیمہ بن ثابت ذوالشہادتین وغیرہ کے یہاں بھی منتفی و محال ہیں
..............
(١) مسند احمد : ١ ١٣٩ـ١٤١۔ مستدرک حاکم:٢ ١٥٤۔ (حاکم کا بیان ہے کہ یہ حدیث بہ شرط شیخین صحیح ہے لیکن انہوں نے اس کو نقل نہیں کیا ہے ) ۔ السنن الکبری (بیہقی ) :٢ ٣٧١۔ مسند ابی داؤد ٢٤۔ المصنف(عبد الرزاق) :٣ ٣٥٨، حدیث ٥٩٦٢۔
١٢٠
اس لیے کہ ان حضرات کی صدق وصفائی اور فضائل میں خود رسول اکرمۖ سے روایات وارد ہیں اور یہ لوگ صدق و صفائی میں مشہور ہیں ان پر سیاسی حوادث اور خواہشات نفس کا غلبہ نہیں ہوا اور ان میں سے کوئی ایک بھی حدیث کے جعل و گھڑنے اور جھوٹ سے متہم نہیں ہوا ہے ۔ ان کے بر خلاف حاکم اور ان کے پیروکاروں کے یہاں جعل حدیث اور جھوٹ کا بازار گرم ہے جیسے کعب الاحبار ، وھب بن منبہ ، سمرہ بن جندب اور ابوھریرہ وغیرہ ۔
جی ہاں ! حضرت فاطمہ زہرا کی سچائی اور راست گوئی کی تصدیق ہوئی ہے ۔ اور بیشک آپ اور آپ کے شوہرحضرت امیرالمؤمنین سیاسی امور وشخصی معاملات میں جھٹلائے گئے حضرت فاطمہ زہرا بیت الشرف سے باہر تشریف لائیں تاکہ لوگوں کو یہ تاکید کرسکیں کہ وہ رسول خداۖ کی بیٹی ہیں اور وہ اپنے قول و فعل میں سچی ہیں ، پس جو کچھ بھی فرمائیں وہ غلط و جھوٹ نہیں ہے اور جوکام بھی انجام دیں وہ کسی کے حق میں ظلم و زیادتی نہیں ہے ۔
اے لوگو! یہ جان لو کہ میں فاطمہ اور میرے باپ محمدۖ ہیں ، میرا اول و آخر کلام یہ ہے کہ میں کوئی غلط بات نہیں کہتی اور جو کام کرتی ہوں اس میں کسی پر ظلم و ستم نہیں کرتی ۔
(لقد جاء کم رسول من انفسکم عزیز علیہ ما عنتم حریص علیکم بالمؤمنین رؤف رحیم )(١) خدا کی قسم آپ ہی میں سے آپ کے درمیان پیغمبرآئے کہ جس پر آپ کے رنج و تکلیف دشوار تھی اور جو آپ لوگوں کی کامیابی و سعادت کے لیے حرص و طمع کرتے اور مومنین کے متعلق بہت مہربان و دل سوز تھے ۔
..............
(١) سورہ توبہ(٩)، آیت ١٢٨۔
١٢١
اگر ان کے نسب کو دیکھنا ہے اور ان کو پہچاننا ہے تو دیکھوگے کہ وہ میرے باپ ہیں نہ کہ آپ کی عورتوں کے باپ ۔ اور میر ے ابن عم علی کے بھائی ہیں نہ کہ تم مردوں کے ، اور یہ کتنی نیک نسبت ہے کہ جومجھے ان سے ہے ۔
انہوں نے اپنی الہٰی رسالت کو انجام دیا اور خداوندعالم کی جانب سے عذاب کے اسباب و علل کو پہچنوادیا ہے ۔۔۔(١)
ابوبکر اور ان کے پیرو کار و طرف دار حضرت فاطمہ زہرا کے اسلام میں مقام و منزلت سے اچھی طرح واقف تھے اور جان بوجھ کر آپ کی منزلت و شان میں تجاہل عارفانہ سے کام لے رہے تھے اور اپنے آپ کو نادانی میں ڈالے ہوئے تھے اور جہاں کہیں بھی حضرت فاطمہ زہرا کے مقا م کا اعتراف کیا وہ از راہ اکراہ تھا، حقیقت مندانہ نہیں تھا بلکہ اپنے نئے نئے حربوں سے آپ کو آپ کے مقام سے اوروہ منزلت کہ جو آپ کو خدا نے عطا فرمائی تھی گرانے کی کوشش کرتے تھے ۔
اگر ان لوگوں کے افعال کی بہترین توجیہ و تاویل کی جائے تو یہ ہوگی کہ وہ لوگ مقام رسالت و حقائق الہٰی سے ناآشنا تھے اور معرفت نام کی ان کے پاس کوئی چیز نہ تھی اگر امیر المؤمنین کے احتجاج پرکہ جو آپ نے ابوبکر پر کیا ، غور کریں تو معلوم ہوجائے گا کہ ابوبکر حقیقت وحی و رسالت کی کما حقہ معرفت نہیں رکھتے تھے ، چونکہ جب امیرالمؤمنین نے ان کی زبان سے یہ کہلوالیا کہ آیت تطہیر ان حضرا ت کی شان میں نازل ہوئی ہے تب فرمایا :
..............
(١) شرح الاخبار :٣ ٣٤۔ احتجاج طبرسی :١ ١٣٤۔ شرح نہج البلاغہ (ابن ابی الحدید) :١٦ ٢١٢۔
١٢٢
اگر مسلمان یہ گواہی دیں کہ فاطمہ زہرا کسی غلط فعل کی مرتکب ہوئی ہیں تو آپ ان کے ساتھ کیا برتاؤ کریں گے ؟ ابوبکر نے کہا : عام مسلمان عورتوں کی طرح ان پر بھی حد جاری کروں گا !۔ آپ نے فرمایا : اس صورت میں آپ خداوندعالم کے نزدیک کافروں میں سے ہوں گے ۔ ابوبکر نے کہا: وہ کیسے ؟
آپ نے فرمایا : چونکہ حضرت فاطمہ زہرا کی پاکیزگی و طہارت پر خداوندعالم کی گواہی کو رد کردیا اور ان کے خلاف مسلمانوں کی گواہی کو قبول کرلیا ۔ اسی طرح خداوندعالم اور رسول خداۖ کے حکم کو فدک کے سلسلے میں کہ جو آپ کے لیے قرار دیا تھا اورآپ پیغمبراکرمۖ کی زندگی ہی میں اس کی مالک تھیں، رد کردیا ہے ۔
|