کون ہیں صدیق اور صدیقہ
 

چوتھا نمونہ :ـ
حضرت فاطمہ زہرا علیہا السلام کے وارث ہونے کے سلسلے میں ابوبکر کا مشکوک ہونا اور ان کے اس کلام کا اعتبار ، خود ایک ایسا دعوی ہے کہ جس پر دلیل کی ضرورت ہے ، جب کہ ان کو اچھی طرح معلوم تھا کہ آیہ تطہیر کی مصداق حضرت زہرا ہیں کہ جس میں حضرت کی پاکیزگی ،جھوٹ و خیانت اور ہر طرح کی پلیدگی و رجس سے دوری آشکار و واضح ہے ۔
یہ فاطمہ وہ خاتون ہیں کہ جن کے بارے میں پیغمبرۖصادق و امین کہ جو اپنی خواہشات نفس سے گفتگو نہیں کرتے بلکہ وہی کہتے ہیں کہ جو وحی ہوتی ہے فرماتے ہیں :
٨٦
''ان اللہ لیغضب لغضب فاطمة و یرضی لرضاھا''
بیشک خداوندعالم حضرت فاطمہ کے غضب ناک ہونے سے غضب ناک ہوتا ہے اور ان کے راضی ہونے سے راضی ہوتا ہے ۔
اس حدیث کے معنی یہ ہیں کہ حضرت فاطمہ خطا و خواہشات نفس سے پاک و معصوم ہیں چونکہ یہ معقول نہیں ہے کہ خداوندعالم کا غضب اور خوشنودی کسی غیر معصوم کے غضب و خوشنودی سے مربوط ہو۔
پیغمبراکرمۖ نے یہ نہیں فرمایا کہ فاطمہ خدا کے لیے غضبناک اور اسی کے لیے خوشنود ہوتی ہیں بلکہ فرمایا ہے کہ خداوندعالم فاطمہ کے غصے میں غصہ اور خوشنودی میں خوشنود ہوتا ہے ۔ اس جملہ میں بہت عظیم معانی پوشیدہ ہیںکہ جس کو صاحب بصیرت لوگ ہی درک کرسکتے ہیں ۔
چونکہ جو انسان بھی کمال عبادت اور معرفت تک پہنچنا چاہتا ہے کوشش کرتا ہے کہ رضایت الہٰی کو حاصل کرلے جبکہ یہاں مسٔلہ برعکس اور مختلف ہے چونکہ رضائے خداونداور اس کا غضب ، رضا و غضب فاطمہ ہے ، یہی وہ مقام ہے کہ عقل حیران ہوجاتی ہے اور سوائے کامل افراد کے، ممکن نہیں ہے کہ کوئی اس کلام کی حقیقت و کنہ تک پہنچ جائے ۔
لہذا اب دیکھتے ہیں کہ ابوبکر نے حضرت فاطمہ زہرا سے کیا برتاؤ کیا ۔

حماد بن عثمان نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت نقل کی ہے آپ نے فرمایا :
جب ابوبکرکی بیعت ہوچکی اور ان کا تمام مہاجرین و انصار پر تسلط ہوگیا تب کچھ افراد کو سرزمین فدک بھیجا تاکہ وہاں سے حضرت فاطمہ زہرا کے وکیل کو باہر نکال دیں ۔

٨٧
حضرت فاطمہ زہرا ابوبکر کے پاس آئیں اور فرمایا: کیوں مجھ کو میرے والد پیغمبراکرمۖ کی میراث سے محروم کیا ہے؟ اور میرے وکیل کووہاں سے باہر کیا جبکہ رسول خدا ۖ نے خدا وندعالم کے حکم سے وہ مجھ کو عطا فرمایا تھا ۔ابوبکر نے کہا اپنے اس کلام پر میرے لیے گواہ لے کر آؤ !۔
حضرت فاطمہ زہرا جناب ام ایمن کو لائیں اور آپ نے کہا اے ابوبکر میں گواہی نہیں دوںگی جب تک کہ آپ سے جو کچھ پیغمبراکرمۖ نے میرے بارے میں فرمایا ہے اعتراف نہ کرالوں آپ کو خدا کی قسم دیتی ہوں کیا آپ نہیں جانتے کہ پیغمبراکرمۖ نے فرمایا کہ ام ایمن اہل بہشت ہے ابوبکر نے کہا : جی ہاں ۔ تب ام ایمن نے کہا: میں گواہی دیتی ہوں کہ خداوندعالم نے اپنے رسول پر وحی نازل کی کہ (وآت ذالقربی حقہ ) (١) اپنے قرابت داروں کا حق ادا کردو۔ لہذا رسول خدا نے خداوندعالم کے حکم سے فدک فاطمہ زہرا کو عطا فرمایا ۔
اور پھر علی علیہ السلام تشریف لائے اور انہوں نے بھی اسی طرح گواہی پیش کی ۔
ان گواہیوں کے بعد ابوبکر نے حضرت فاطمہ کے لیے ایک نامہ تحریر کیا اور آپ کو دیا اسی وقت عمر آئے اور پوچھا یہ نامہ کیسا ہے؟ ابوبکر نے جواب دیا : فاطمہ زہرا نے فدک کا ادعی کیا اور اس پر ام ایمن و علی نے گواہی دی لہذا میں نے یہ فاطمہ زہرا کے لیے لکھا ہے ۔
عمر نے نامہ لیا اس پر تھوکا اور پھاڑدیا ۔
حضرت فاطمہ زہرا روتی ہوئی وہاں سے باہر تشریف لائیں ۔
..............
(١) سورہ روم(٣٠) ، آیت ٣٨۔

٨٨
اس کے بعد حضرت علی ابوبکر کے پاس آئے اس وقت کہ جب وہ مسجدمیں تھے اور مہاجرین و انصار اردگرد جمع تھے ۔ حضرت نے فرمایا اے ابوبکر کس دلیل پر فاطمہ کو ان کے والد پیغمبراکرمۖ کی میراث سے منع کیا ہے ؟ جبکہ وہ پیغمبراکرمۖ ہی کی زندگی میں اس کی مالک تھیں۔
ابوبکر نے جواب دیا یہ فدک (فیٔ) تمام مسلمانوں کا حق ہے اگر وہ گواہ لے آئیں کہ پیغمبراکرمۖ نے ان کو عطا کردیا تھا تو ان کا حق ہے ورنہ اس میں ان کا کوئی حق نہیں ہے ۔
امیرالمؤمنین نے فرمایا : اے ابوبکر ہمارے درمیان خداوندعالم کے حکم کے خلاف عمل کررہے ہو ! ابوبکر نے جواب دیا: نہیں ۔
تب آپ نے فرمایا: اگر کسی مسلمان کے پاس کوئی چیز ہو کہ وہ اس کا مالک ہو اس وقت میں یہ دعوی کروں کہ وہ مال میرا ہے تو کس سے بینہ و گواہ مانگوگے ؟ ابوبکر نے جواب دیا : آپ سے ۔
آپ نے فرمایا : تو پھر کیوں فاطمہ سے گواہ طلب کیے جب کہ فدک ان کے پاس تھا اور وہ پیغمبراکرمۖ کی زندگی میں بھی اوربعد میں بھی بعنوان مالک اس میں تصرف کررہی تھیں ۔اور کیوں مسلمانوں سے ان کے دعوی کے مطابق گوا ہ طلب نہیں کیے ؟ جیسا کہ میں نے دعوی کیا تھا تو مجھ سے گواہ مانگے ۔
ابوبکر خاموش ہوگئے ، عمر نے کہا اے علی یہ باتیں نہ کریں ہم آپ کے مقابلے میں گفتگو اور بحث کرنے کی طاقت نہیں رکھتے ، اگر دو عادل گواہ لے آئیں تو صحیح ورنہ یہ تمام مسلمانوں کا مال ہے اور اس میں نہ آپ کا کوئی حق ہے اور نہ فاطمہ کا ۔
حضرت امیرنے فرمایا: اے ابوبکر کتاب خدا کی تلاوت کرتے ہو؟ کہا :ہاں ۔

٨٩
آپ نے فرمایا : تو یہ بتاؤ کہ یہ آیت الہٰی(انما یرید اللہ لیذھب عنکم الرجس اھل البیت ویطھرکم تطھیرا) (١)
کن کی شأن میں نازل ہوئی ، ہماری یا کسی اور کی ؟ابوبکر نے کہا : ہاں آپ حضرات کی شأن میں نازل ہوئی ہے۔
حضرت نے فرمایا: اگر مسلمان یہ گواہی دیں کہ فاطمہ زہرا کسی غلط فعل کی مرتکب ہوئی ہیں تو آپ ان کے ساتھ کیا برتاؤ کریں گے ؟ ابوبکر نے کہا : عام مسلمان عورتوں کی طرح ان پر بھی حد جاری کروں گا !۔ آپ نے فرمایا : اس صورت میں آپ خداوندعالم کے نزدیک کافروں میں سے ہوں گے ۔ ابوبکر نے کہا: وہ کیسے ؟

آپ نے فرمایا : چونکہ حضرت فاطمہ زہرا کی پاکیزگی و طہارت پر خداوندعالم کی گواہی کو رد کردیا اور ان کے خلاف مسلمانوں کی گواہی کو قبول کرلیا ۔ اسی طرح خداوندعالم اور رسول خداۖ کے حکم کو فدک کے سلسلے میں رد کردیا ہے جب کہ وہ پیغمبراکرمۖ ہی کی زندگی میں اس کی مالک تھیں اور ایک عرب کہ جو کھڑے کھڑے پیشاب کرتا ہے (٢) اس کی گواہی کو فاطمہ کے خلاف فدک کے سلسلے میں قبول کرلیا ہے اور فدک کو فاطمہ سے چھین کریہ سمجھتے ہو کہ یہ تمام مسلمانوں کا حق ہے۔
..............
(١) سورہ احزاب (٣٣) ، آیت ٣٣۔ (اے اہل بیت اللہ کاارادہ یہ ہے کہ آپ کو ہر طرح کے رجس سے پاک رکھے جو پاک رکھنے کا حق ہے)۔
(٢) یہ جملہ اشارہ ہے مالک بن اوس بن حدثان نضری کہ جو پیغمبراکرمۖ کا صحابی بھی نہیں ہے لیکن پھر بھی بہت سی روایات پیغمبراکرمۖ سے نقل کی ہیں !۔۔۔بقیہ اگلے صفحہ پر۔ ۔ ۔

٩٠
رسول خدا ۖ نے فرمایا ہے ''البینة علی المدعی والیمین علی المدعیٰ علیہ '' مدعی پر ہے کہ وہ دلیل و گواہ لے کر آئے ورنہ مدعی علیہ قسم کھائے تاکہ فیصلہ تمام ہوجائے جبکہ آپ نے اس حکم میں پیغمبراکرمۖ کی مخالفت کی ہے اور فاطمہ سے گواہ مانگے ہیں ، جب کہ وہ مدعی نہیں بلکہ مدعیٰ علیہ ہیں اور مسلمانوں سے گواہ نہیں مانگے جب کہ وہ مدعی ہیں ۔
اس کلام کے بعد لوگوں میں چہ می گوئیاں ہونے لگیں اور ابوبکر کی بات کو ناپسند کیا جانے لگا وہ لوگ ایک دوسرے کی طرف دیکھتے اور کہتے کہ خداکی قسم علی سچ کہہ رہے ہیں ۔
اورحضرت امیر المؤمنین اپنے گھر تشریف لے آئے۔(١)
ان عبارات میں کچھ تناقض ہے کہ جس پر توقف اور تفکر کرنا ضروری ہے وہ یہ کہ کیا فدک پیغمبراکرمۖ کی میراث ہے یا نحلہ و ہدیہ کہ جو پیغمبراکرمۖ نے حضرت فاطمہ زہرا کو عطا کیا ؟۔
اگر فدک، میراث ہے تو میراث کے مطالبہ کے لیے گواہ کی ضرورت نہیں ہے مگر یہ کہ نعوذ باللہ حضرت فاطمہ زہرا کے پیغمبراکرمۖ کی بیٹی ہونے میں شک ہو۔
..............
۔۔۔ پچھلے صفحہ کا بقیہ ۔
ابن خراش نے اس روایت ''نحن معاشرالانبیاء لانورث ماترکناہ صدقہ'' کو من گھڑت اور جعلی قرار دیا ہے ۔ دیکھیے :ـ تاریخ بخاری :٧ ٣٠٥۔ الجرح والتعدیل :٨ ٢٠٣۔ الثقات (ابن حبان ) : ٣ ١١۔ و جلد: ٥ ٣٨٢۔ کمال الدین و تمام النعمة :٢ ٤٠١۔ تاریخ دمشق : ٥٦ ٣٦٠ـ ٣٧٢۔ الکامل (ابن عدی): ٤ ٣٢١۔
(١) احتجاج طبرسی :١ ١١٩۔ تفسیر قمی :٢ ١٥٥۔ (عثمان بن عیسی و حماد بن عثمان نے حضرت امام جعفر صادق سے نقل کیا ہے )۔

٩١
اوراگر فدک نحلہ و ہدیہ ہے جیسا کہ ابوبکر کے گواہ مانگنے سے ظاہر ہے تو یہ ان کے ادعی سے باہر کی بات ہے اور یہ ان کے کلام پر منطبق نہیں ہے چونکہ ان کا کہنا ہے '' نحن معاشرالانبیاء لا نورث '' چونکہ اس صورت میں ہدیہ ، پیغمبراکرمۖ کی ملکیت سے نکل چکا ہے اور اب حضرت فاطمہ زہرا کی ملکیت ہے۔
اوراگریہ کلام صحیح ہو کہ انبیاء اپنا وارث نہیں بناتے تو پھر کس طرح پیغمبراکرمۖ کی ازواج کو میراث ملی اور بیٹی کو محروم کردیا گیا ؟!۔
اور اگر پیغمبراکرمۖ کا مال اعم از گھر و فدک ، سب ہدیہ ہے تو کیوں ابو بکر نے آپ کی بیویوں سے گواہ نہ مانگے اور صرف دعوی پر ہی ان کو دے دیا گیا اور حضرت زہرا سے آیہ تطہیر کی نص کے باوجود کہ جو ان کی پاکیزگی و عصمت پر دلالت کرتی ہے گواہ طلب کیے اور وہ گواہ بھی لے کر آئیں تب بھی رد کردی گئیں ! اورپھر کس طرح ابوبکر نے وصیت کی کہ اس کو پیغمبراکرمۖ کے پہلو میں دفن کیا جائے جبکہ وہ اس خبر کے پیغمبراکرمۖ سے ہونے پریقین رکھتے تھے کہ'' نحن معاشرالانبیاء لانورث '' ہم گروہ انبیاء وارث نہیں بناتے ۔
اب ابوبکر سے سوال کیا جائے کہ پیغمبراکرمۖ کا گھر آپ ۖ کا خصوصی مال تھا یا آپۖ کی میراث کا حصہ ؟
اگر آپۖ کا خصوصی مال تھا تو یہ صدقہ ہے اور تمام مسلمانوں کا برابر حق ہے جیسا کہ ابوبکر کا عقیدہ ہے کہ انبیاء جو کچھ چھوڑتے ہیں وہ صدقہ ہے ۔ لہذا یہ جائز نہیں ہے کہ یہ مال کسی ایک شخص کو دیدیا جائے اور دوسروں کو اس حق سے محروم کردیا جائے ۔

٩٢
اوراگر آپۖ کی میراث کا حصہ ہے کہ پیغمبراکرمۖ بھی عام مسلمانوں کی طرح میراث چھوڑتے ہیں اور وارث بناتے ہیں تو ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ ابوبکر و عمر پیغمبراکرمۖ کے وارث نہیں ہیں۔
اور اگر یہ کہا جائے کہ یہ حصہ کہ جس میں ابوبکر و عمر دفن ہوئے ہیں یہ عایشہ و حفصہ کا حصہ ہے کہ جو ان کوپیغمبراکرمۖ کی میراث سے ملا ہے ۔
تو اس بات کا جواب یہ ہے کہ ان دونوں کا حصہ پیغمبر اکرمۖ کی میراث میں سے ایک چڑیا کے گھونسلے کے برابر بھی نہیں نکلتا چونکہ پیغمبراکرمۖ نے بوقت وفات نو( ٩) بیویاں اور ایک بیٹی چھوڑی ہے کہ اس صورت میں ہر بیوی کا حصہ یک نہم از یک ہشتم (آٹھویں میں سے نواں حصہ) ۔
اس لیے کہ اولاد کی صورت میں بیوی کا آٹھواں حصہ ہے اور یہ آٹھواںحصہ نو( ٩) بیویوں میں تقسیم ہوناہے توکیا ملے گا؟
اور پھر کس دلیل پر عایشہ کو میراث مل گئی ؟جب کہ حضرت فاطمہ زہرا کو کہ جو صلبی بیٹی ہیں میراث سے محروم کردیا گیا ؟!۔
اور اگر ابوبکر اس حدیث کے صحیح ہونے اور جو کچھ انجام دیا اس پر اعتماد رکھتے تھے تو پھر کیوں حضرت فاطمہ زہرا کی رضایت حاصل کرنے کی کوشش کرتے رہے ؟ اور پھر کیوں آخر عمرمیں افسوس کرتے تھے کہ کاش میں حضرت فاطمہ زہرا کے گھر کی حرمت کو پامال نہ کرتا۔(١)
..............
(١) المعجم الکبیر:١ ٦٢، حدیث ٤٣۔ تاریخ طبری :٢ ٦١٩۔ تاریخ دمشق :٣٠ ٤١٨ـ٤٢٠۔ خصال صدوق ١٧٢، حدیث ٢٢٨۔

٩٣
اوراگر ابوبکر کا کلام کہ انبیاء میراث نہیں چھوڑتے درست ہوتا تو یہ بات آسمانی ادیان اور دیگر امتوں میں مشہورہوتی ا ور گذشتہ انبیاء کے پیروکاربھی اس سے واقف ہوتے ۔
اس کے علاوہ ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ فدک کسی جنگ و جدال سے حاصل نہیں ہوا تھا بلکہ لشکر و قدرت اسلام سے ڈر کر پیغمبراکرمۖ کی خدمت میں پیش کیا گیا تھا لہذا فدک شیعہ و سنی علماء کے اتفاق رائے کے مطابق خصوصی پیغمبراکرمۖ کا حصہ ہے جیسا کہ ارشاد الہٰی ہے ۔
(وماافاء اللہ علی رسولہ منھم فما اوجفتم علیہ من خیل و لا رکاب ولکن اللہ یسلط رسلہ علی من یشاء واللہ علی کل شی ء قدیر)(١)
وہ مال کہ جس کو حاصل کرنے میں آپ کو گھوڑے نہیں دوڑانے پڑے اور جنگ نہیں کرنی پڑی اس کو خدا وندعالم اپنے رسول کی ملکیت میں قرار دیتا ہے لیکن خداوندعالم جس چیز پر چاہے اپنے رسولوں کو مسلط کردے اور خداہر چیزپر قادر ہے ۔
ابن ابی الحدید کہتا ہے :
اگر مسلمان فدک کو چھوڑنے پر تیار نہ تھے تو پیغمبراکرمۖ کی آبرو و حرمت کی رعایت کی خاطر اور ان کے عہد کے حفظ کے لیے مناسب یہ تھا کہ فدک کے بدلے آپ ۖ کی بیٹی کو کچھ اور چیز دے دیتے تاکہ وہ راضی ہوجاتیں ۔ اور امام کو اس طرح کے کاموں میں خود کو اختیار ہے دیگر مسلمانوں کی اجازت و مشورہ کی ضرورت نہیں ہے ۔(٢)
..............
(١) سورہ حشر(٥٩) ، آیت ٦۔
(٢) شرح نہج البلاغہ (ابن ابی الحدید ) : ١٦ ٢٨٦۔

٩٤
یہ بیان، قضیہ کے ایک طرف کا حصہ ہے جب کہ قضیہ کی دوسری طرف توجہ ضروری ہے وہ یہ کہ حضرت امیرالمؤمنین و صدیقہ طاہرہ حضرت فاطمہ زہرا نے ابوبکر پر ''قاعدہ ٔید '' سے استدلال فرمایا جیسا کہ قبلا بھی گذرچکا ہے لہذا ابوبکر مدعی ہے اور بینہ و دلیل اس کو خود کو لانا چاہیے اورمنکر و مدعی علیہ پر بینہ و دلیل نہ ہونے کی صورت میں قسم کھانا ہے ۔

اس سے پہلے گذرچکا ہے کہ حضرت علی نے ابوبکر پر احتجاج کیااور فرمایا:
اگر کسی مسلمان کے پاس کوئی چیز ہو کہ وہ اس کا مالک ہو اس وقت میں یہ دعوی کروں کہ وہ مال میرا ہے تو کس سے بینہ و گواہ مانگوگے ؟ ابوبکر نے جواب دیا : آپ سے ۔
آپ نے فرمایا : تو پھر کیوں فاطمہ سے گواہ طلب کیے جب کہ فدک ان کے پاس تھا اور وہ پیغمبراکرمۖ کی زندگی میں بھی اوربعد میں بھی بعنوان مالک اس میں تصرف کررہی تھیں ۔اور کیوں مسلمانوں سے ان کے دعوی کے مطابق گوا ہ طلب نہیں کیے ؟ جیسا کہ میں نے دعوی کیا تھا تو مجھ سے گواہ مانگے ۔ ابوبکر خاموش ہوگئے ، عمر نے کہا اے علی یہ باتیں نہ کریں ہم آپ کے مقابلے میں گفتگو اور بحث کرنے کی طاقت نہیں رکھتے ، اگر دو عادل گواہ لے آئیں تو صحیح ورنہ یہ تمام مسلمانوں کا مال ہے اور اس میں نہ آپ کا کوئی حق ہے اور نہ فاطمہ کا ۔
حضرت علی اور صدیقہ طاہرہ حضرت زہرا کے استدلال اور محکم و مضبوط حجت پر خوب غور و فکر کیجیے اور پھردوسری طرف عمر کے اس جملہ کو بھی دیکھیے کہ جو اس نے کہا : دعنا من کلامک فانا لا نقوی علی حجتک ''ہم سے اس طرح کا کلام نہ کیجیے ہم میں آپ کی حجت و دلیل کامقابلہ کرنے کی طاقت نہیں ہے ۔

٩٥
جب انصار نے حضرت فاطمہ کی حجت و دلیل کو اس سلسلے میں کہ علی خلیفہ اور پیغمبراکرمۖ کے جانشین ہیں سنا تو کہنے لگے اے رسول کی بیٹی ہم نے اس مرد کے ہاتھ پر بیعت کرلی ہے اگر آپ کے شوہر اور ابن عم علی اس سے پہلے ہماری طرف آتے تو ہم ان کے طرف دار ہوتے ۔(١)
دوسری جگہ پر مذکور ہے کہ اگر ہم نے آپ کی حجت و دلیل کو سنا ہوتا تو آپ سے کبھی بھی عدول و منحرف نہ ہوتے ۔(٢)
کس طرح علی کی گواہی مورد قطع ویقین واقع نہ ہوئی جب کہ ایک اور گواہی ان کے ساتھ تھی اور کیوں صدیقہ طاہرہ حضرت فاطمہ زہرا کو ایک عام عورت کی طرح مانا گیا، ان کے دعوے پر ان سے دلیل و بینہ کا مطالبہ کیا گیا ۔ جبکہ ہم یہ جانتے ہیں کہ بینہ ایک ظنی راستہ ہے کہ جو کسی احتمال کو ثابت کرنے کے لیے بنایا گیا ہے ۔ جب کہ حضرت فاطمہ زہرا کے کلام سے قطع و یقین کے بعد کہ جن کو خداوندعالم نے پاک و پاکیزہ قرار دیا اور پیغمبراکرمۖ نے اپنا ٹکڑا قرار دیا ، اصلاً ظنی راستہ کی کوئی ضرورت نہیں ہونی چاہیے تھی اس لیے کہ راہ یقین کے بعد راہ ظنی کا کوئی وجود و فائدہ نہیں ہے ۔
..............
(١) احتجاج طبرسی :١ ١٢٢۔ تفسیر قمی :٢ ١٥٦۔ وسائل الشیعہ : ٢٧ ٢٩٣، حدیث ٣٣٧٨١۔ اسی طرح کا کلام جنگ جمل سے پہلے عایشہ کی زبان پر بھی جاری ہوا ہے جس وقت امیرالمؤمنین نے اس پر احتجاج کیا تو عایشہ نے آپ کے نامہ کے جواب میں کہ جو عبداللہ ابن عباس اور زید بن صوحان لے کر گئے تھے ان سے کہا کہ میں آپ کی کسی بات کو رد نہیں کروں گی چونکہ مجھ کو معلوم ہے کہ میں علی ابن ابی طالب کے احتجاج کے جواب کی طاقت نہیں رکھتی ۔ الفتوح (ابن اعثم ):١ ٤٧١۔
(٢) الامامة والسیاسة :١ ١٩۔ شرح نہج البلاغہ : ١٣٦۔ بحار الانوار : ٢٨ ١٨٦۔ و ٢٥٢۔ و ٣٥٥۔

٩٦
اور اسی طرح جناب خزیمہ (ذوالشہادتین)کی گواہی کے واقعہ میں آنحضرت ۖکا اس اعرابی سے اختلاف کے سلسلے میں خزیمہ کی گواہی بغیر کسی کو شامل کیے ،قبول کرلی گئی جب کہ خزیمہ کی گواہی قول رسول ۖ کی تائید و تصدیق ہی تھی اور آپ ۖ کے دعوی سے بڑھ کر کوئی اور بات نہ تھی ۔
ابوبکر اور تمام مسلمانوں پر لازم تھا کہ حضرت فاطمہ زہرا کی طرف سے گواہی دیتے چونکہ خداوندعالم نے ان کو پا ک و پاکیزہ قرار دیا ہے اور وہ سب آپ ہی کی تصدیق کرتے چونکہ خداوندعالم نے آپ کی تصدیق کی ہے جیسا کہ خزیمہ نے رسول اکرمۖ کے ساتھ کیا اور پھر رسول اکرمۖ نے خزیمہ کے فعل کی تائید فرمائی ۔(١)
سید مرتضی نے قاضی القضات عبدالجبار ہمدانی کی رد میں تحریر فرمایا ہے کہ بینہ سے مراد مدعی کے گمان و ظن کے سچے ہونے کو ثابت کرنا ہے چونکہ عدالت میں کسی مدعیٰ کو بھی ثابت کرنے کے لیے ایک معتبر شہادت مانگی جاتی ہے اور اسی ظن و گمان کو تسلیم کرلیا جاتا ہے ، یہی وجہ ہے کہ حاکم کے لیے جائز ہے کہ گواہی کے بغیربھی اگر علم ہوجائے تو اپنے علم کے مطابق عمل کرے بلکہ اس کا علم ، گواہی سے قوی تر و بہتر ہے ، اور اسی وجہ سے اقرار ، بینہ سے زیادہ قوی ہے چونکہ اقرار اس گمان و ظن کو قوی کرنے اور مقام اثبات میں بہتر ہے ۔ اور جب اقرار ، قوت ظن کے اعتبا رسے حاکم کے نزدیک گواہی پر مقدم ہے تو علم بدرجہ اولی مقدم ہونا چاہیے ۔ چونکہ اقرار کی موجودگی میں گواہی کی ضرورت نہیں ہوتی اس لیے کہ قوی دلیل کی موجودگی میں ضعیف دلیل ساقط ہوجاتی ہے ۔
..............
(١) دلائل الصدق :٢ ٣٩۔

٩٧
اسی طرح علم کی موجودگی میں کسی بھی چیز کی کہ جو ظن میں مؤثر ہو جیسے بینہ و شہادت وغیرہ کی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔(١)
لہذا حق ، علی ابن ابی طالب اور حضرت فاطمہ زہرا کے ساتھ ہے اور سب اس مسئلے سے واقف ہیں لیکن ان کی خواہشات نفسانی نے ان کو ابھارا کہ ایک ایسی چیز کا دعوی کریں کہ جو قرآن کریم ، سنت رسولۖ اور عقل سلیم کے مخالف ہو ۔
آپ کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ مامون عباسی کے حضور میں بہت سے علماء جمع تھے کہ مسٔلہ فدک اور پیغمبراکرمۖ کی میراث کا مسٔلہ چھڑگیا، مامون نے سب کو لاجواب کردیا اس طرح کہ مامون نے حضرت علی کے فضائل کے بارے میں علماء سے سوال کیاان لوگوں نے آپ کے متعدد و نایاب فضائل بیان کیے اور پھر حضرت فاطمہ زہرا کے متعلق پوچھا تو آپ کے بارے میں بہت زیادہ فضائل کہ جو آپ کے والد گرامی سے مروی تھے نقل کیے ۔ پھر ام ایمن اور اسماء بنت عمیس کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے پیغمبراکرمۖ سے روایت نقل کی کہ وہ دونوں اہل بہشت ہیں ۔
تب مامون نے کہا کیا جائز ہے کہ یہ کلام یا اعتقاد کہ علی ابن ابی طالب اتنے زہد و تقوی کے باوجود ناحق فاطمہ کی طرف سے گواہی دیں جب کہ خداوندعالم اور رسول خدا ۖ نے اتنے زیادہ فضائل کی ان کے متعلق گواہی دی ہے ۔
..............
(١) الشافی فی الامامة : ٤ ٩٦ـ ٩٧۔ اسی سے نقل ہوا ہے شرح نہج البلاغہ (ابن ابی الحدید ) : ١٦ ٢٧٣ـ ٢٧٤۔

٩٨
کیا یہ جائز ہے کہ آنحضرت ۖکے اتنے علم و فضل کے باوجود یہ کہا جائے کہ فاطمہ معصوم ہونے کے باوجود اور یہ کہ وہ عالمین کی عورتوں کی سردار اور اہل بہشت کی عورتوں کی سردار ہیں جیسا کہ آپ حضرات نے روایت کی ہے ایک ایسی چیز کا مطالبہ کریں کہ جو ان کی نہ ہو!۔اور اس کے ذریعہ تمام مسلمانوں کے حق میں ظلم کریں اور اس حق پر خدوندیکتا کی قسم کھائیں ۔
کیا جائز ہے کہ یہ کہا جائے کہ ام ایمن و اسماء نے ناحق گواہی دی ہے جبکہ وہ دونوں اہل بہشت ہیں ؟۔
بیشک حضرت فاطمہ زہرا اور ان کے گواہوں پر طعنہ زنی گویا کتاب خدا پر طعنہ اور دین خدا سے کفر ہے ۔ خداکی پناہ کہ یہ کلام صحیح ہو ۔(١)
نہیں معلوم کہ کیسے ابوبکر نے علی کی گواہی کورد کیا جب کہ علی کامقام و مرتبہ خزیمہ بن ثابت ذوالشہادتین سے کم نہ تھا (٢) بلکہ علی ان سے بہت بلند و بالا ہیں ، وہ ہر عیب و رجس سے پاک ہیں ، وہ رسول خدا ۖ کے بھائی ہیں بلکہ وہ رسول خدا ۖ کے نفس و جان ہیں ۔
اوراگر اس کلام سے غض نظر کی جائے اور تسلیم کرلیا جائے کہ امام کی گواہی ایک عام مسلمان عادل کی گواہی سے زیادہ نہیں ہے تو بھی ابوبکر ایک شاہد کی جگہ پر حضرت فاطمہ زہرا کو قسم دے سکتے تھے آپ قسم کھاتیں اور مسٔلہ حل ہوجاتا جبکہ یہ کام ابوبکر نے نہیں کیا ! کیوں؟ ۔
بلکہ ابوبکر نے صرف علی کی گواہی اور ام ایمن و اسماء کی گواہی کو رد کیا ۔
..............
(١) الطرائف ٢٥٠۔
(٢) یعنی ان کی گواہی دو گواہوں کی گواہیوں کے برابر ہے ۔

٩٩
خدا کی قسم یہ مصیبت ہے بلکہ فتنہ ہے کہ جس سے بہت سے مقدسات آلودہ ہوگئے ہیں ، اور رسول خدا ۖ کے نا م سے احکام خدا میں تغیر اور دین خدا کو تبدیل کیا گیا ہے ۔
حضرت فاطمہ زہرا بتول حق بجانب ہیں کہ یہ کہیں :
(الافی الفتنة سقطوا وان جھنم لمحیطة بالکافرین)(١)

آگاہ ہوجاؤ کہ وہ لوگ فتنے میں جاپڑے ہیں اور بیشک جہنم کافروں کو گھیرے ہوئے ہے (٢)
مناسب ہے کہ ہم یہاں علی بن فارقی( کہ جو ابن ابی الحدید کے استادوں میں سے ہے )کا کلام پیش کریں جس وقت ابن ابی الحدید نے اس سے سوال کیا کہ کیا حضرت فاطمہ زہرا اپنے اس دعوی میں کہ فدک نحلہ و ہدیہ ہے کہ جو پیغمبراکرمۖ نے ان کو اپنی زندگی ہی میں عطا کردیا تھا ، سچی تھیں؟۔
فارقی نے جواب دیا: جی ہاں ۔
ابن ابی الحدید نے کہا: پس کیوں ابوبکر نے اس علم کے باوجود کہ حضرت فاطمہ زہرا سچی ہیں فدک ان کو واپس نہیں کیا ؟۔
فارقی مسکرایا اور بہت لطیف جواب دیا کہ جو اس کی شخصیت اور مزاج و مزاح کے مطابق تھا وہ یہ کہ اگر ابوبکر آج صرف حضرت فاطمہ زہرا کے سچی ہونے کی بنیاد پر ان کے دعوی کی تصدیق کرتے اور فدک ان کو واپس کردیتے تو کل کو وہ اپنے شوہر کے لیے خلافت کا دعوی کرتیں ۔
..............
(١) سورہ توبہ (٩)، آیت ٤٩۔
(٢) یہ آیت حضرت فاطمہ زہرا کے خطبہ کا حصہ ہے کہ جس کا کچھ حصہ قبلا بھی گذر چکا ہے ۔

١٠٠
تو اب ابوبکر کے پاس کوئی جواب نہ تھا ۔ چونکہ جس بناء پر کل حضرت فاطمہ زہرا کی تصدیق کی تھی وہی بناء آج بھی موجود ہے کہ بغیر گواہی وبینہ حضرت فاطمہ زہرا، صدیقہ و سچی ہیں ۔(١)
اب ہم پلٹتے ہیں اور سوال کرتے ہیں۔
کیا معقول ہے کہ جو چیز فاطمہ کا حق نہ ہو وہ اس کا مطالبہ فرمائیں، جب کہ وہ عالمین کی عورتوں کی سردار اور بہشت کی خواتین کی سردار ہیں ، اور ان کی طہارت و پاکیزگی و عصمت کے علاوہ خداوندعالم نے اپنی رضایت و غضب کو ان کی رضایت و غضب پر موقوف کردیا ہے ۔
کیاحضرت فاطمہ زہرا اس کا م سے مسلمانوں پر ظلم کرنا چاہتی تھیں اور ان کے مال کو غصب کرناچاہتی تھیں نعوذباللہ ۔
کیا حضرت علی کے لیے مناسب ہے کہ حضرت فاطمہ زہرا کے حق میں ناحق گواہی دیں ؟ اور کیا ہوسکتا ہے کہ علی کی مخالفت کو حق بجانب فرض کیا جائے؟ جب کہ رسول خدا ۖ کا ارشاد گرامی ہے : '' علی حق کے ساتھ ہے اور حق علی کے ساتھ ہے ، پروردگار حق کو ادھر ادھر موڑ جدھر جدھر علی مڑے ''۔
اور کیا جائز ہے کہ ام ایمن کہ جن کے لیے جنت کی بشارت ہو وہ جھوٹی گواہی دیں؟۔
جی ہاں ہمارے بس کی بات نہیں ہے کہ ابوبکر اور حضرت فاطمہ زہرا دونوں کو پاک و پاکیزہ اور جھوٹ سے بری مانیں ، چونکہ اگر ابوبکر کو اپنے دعوی میں ـکہ جو قطعا جھوٹے ہیںـ سچا مانیں اور ان کی تصدیق کریں تو اس کے مقابل کے دعوی کی تکذیب کرنا ہوگی اور اگران کو جھوٹا مانیں ـجیسا کہ حق بھی یہی ہےـ تو حضرت فاطمہ زہرا سچی و صدیقہ ہیں ۔
..............
(١) شرح نہج البلاغہ (ابن ابی الحدید) :١٦ ٢٨٤۔

١٠١
پس یہ ممکن نہیں ہے کہ ہم صدیقیت کو جمع کریں اور دونوں کو صدیق مانیں چونکہ یہ کام تناقض گوئی ہے۔
اور مندرجہ ذیل احادیث کے سلسلے میں بھی امر یہی ہے ۔
''من خرج علی امام زمانہ '' جو شخص اپنے زمانے کے امام کے خلاف قیام کرے ۔ یا
''من مات ولیس فی عنقہ بیعة'' جو شخص مرجائے اور اس کی گردن پر کسی امام کی بیعت نہ ہو ۔یا

''من لم یعرف امام زمانہ '' جو شخص اپنے زمانے کے امام کو نہ پہچانتا ہو ۔ یا
''من خرج من طاعة السلطان شبرا '' جو شخص اپنے زمانے کے امام کی نافرمانی میں ایک بالشت بھی دورہو '' مات میتة جاھلیة '' تو اس کی موت جاہلیت کی موت ہے ۔
اگرفرضاً ہم یہ قبول کرلیں کہ یہ احادیث مذکورہ ابوبکر کے امام زمان ہونے پر دلالت کرتی ہیں تو مطلب یہ ہوگا کہ حضرت فاطمہ زہرا کہ جو نص قرآنی اور حدیث رسول ۖ کے اعتبار سے پاک و پاکیزہ اور طیب و طاہر ، عالمین کی عورتوں کی سردار، خواتین بہشت کی سردارہیں، ان کی موت جاہلیت کی موت ہوگی ۔نعوذ باللہ من ذالک۔
لیکن اگر ابوبکر کے امام زمان ہونے میں شک کریں ، دلیل نہ ہونے کی وجہ سے اور ان کے یہاں امام ہونے کی صلاحیت و لیاقت نہ ہونے کی وجہ سے اور بزرگان صحابہ کی مخالفت کی وجہ سے جیسے علی ، عباس ، و افراد بنی ہاشم وزبیر ، مقداد اور سعد بن عبادہ وغیرہ ،تب حضرت فاطمہ زہرا کا خروج ابوبکر کے خلاف مناسب و جائز ہے اور آپ کا اعتقاد کہ ابوبکر منحرف ہوگئے ہیں صحیح ہے ۔
لہذا ممکن نہیں ہے کہ دونوں نظریوں کو ایک جگہ جمع کیا جائے اور دونوں کو صحیح مانا جائے ۔

١٠٢
کس طرح ابوبکر و عمر ، حضرت علی کی گواہی کو ردکرتے ہیںاور کہتے ہیں کہ علی نے اپنے حق میں گواہی دی ! جبکہ آنحضرت نہ دنیا کے طالب تھے اور نہ اس میں رغبت رکھتے تھے جیسا کہ کوئی بھی انسان ان کی سیرت یا کلام کہ جونہج البلاغہ میں مذکور ہے، کا مطالعہ کرے تو بخوبی اس حقیقت کودرک کرلے گا ۔ اور اسی سلسلے میں حضرت کا نامہ کہ جوعثمان بن حنیف والی بصرہ کو تحریر فرمایا ، موجود ہے کہ ''وما اصنع بفدک و غیر فدک ، والنفس مظانھا فی غد جدث''(١)
مجھے فدک و غیر فدک سے کیا مطلب جب کہ جان آدمی کا مقام قبر ہے ۔
ابوبکر نے حضرت علی کی گواہی کو قبول نہیں کیا اس لیے کہ وہ ان کے فائدے میں تھی تو پھر رسول اکرمۖ نے خزیمہ بن ثابت کی گواہی کوکیوں قبول فرمالیا جب کہ وہ بھی آنحضرت ۖ کے فائدے میں تھی ، بلکہ اس کی گواہی کو دوگواہیوں کے مقابلے کا مقا م عطا فرمایا ؟!۔
اس شخص کی گواہی سے کس طرح یقین حاصل نہ ہوا کہ جس کے بارے میں پیغمبراکرمۖ نے فرمایا ہے :'' علی حق کے ساتھ ہے اور حق علی کے ساتھ اور حق علی پر موقوف ہے'' ۔(٢)
جبکہ ابوبکر کو یہ علم تھا کہ علی ، ثقلین ، یعنی دو گرانبہا چیزوں میں سے ایک ہے ، قرآن کریم کے مقابل ایک ثقل اور گرانبہا حصہ ہے ، وہ ایسا گواہ ہے کہ جس کی گواہی رسول خداۖ کے حق میں خداوندعالم نے قبول کی ہے اور اس کو رسالت کا گواہ اور تصدیق کرنے والا قراردیا ہے ۔
..............
(١) نہج البلاغہ :٣ ٧١، خط ٤٥۔
(٢)شرح نہج البلاغہ (ابن ابی الحدید) : ٢ ٢٩٧۔ الفصول المختارہ ٩٧، حدیث ٩٧۔ التعجب (کراجکی)١٥۔

١٠٣
لہذا ارشادہے ۔(افمن کان علی بینة من ربہ و یتلوہ شاہدمنہ)(١)
کیا وہ شخص کہ جو اپنے پروردگار کی جانب سے روشن دلیل پر ہے اور اس کا گواہ بھی اس کی پیروی کرتا ہے (نامناسب بات کہہ سکتاہے)۔
اگر ان لوگوں کا استدلال کامل اور صحیح ہو کہ فدک کے مسئلے میں گواہی اپنے حدنصاب کو نہ پہنچ سکی چونکہ علی تنہا تھے اور ایک ام ایمن ۔ تو کیا خلفاء و حکام کی سیرت یہ نہیں رہی کہ ایک گواہ کی صورت میں دوسرے گواہ کی جگہ پر قسم کھلاتے اور قضیہ کو حل کردیتے تھے ۔
کتاب الشہادات کنزالعمال میں مذکور ہے کہ بیشک رسول خدا ۖ ، ابوبکر ، عمر اور عثمان ایک گواہ کی صورت میں ایک قسم کھلاتے اور فیصلے کرتے تھے ۔(٢) دارقطنی نے علی سے روایت نقل کی ہے کہ ابوبکر و عمر اور عثمان ایک قسم اور ایک شاہد پر فیصلے کرتے تھے ۔(٣)
نیز حضرت علی سے روایت ہے کہ جبرئیل ، رسول خداۖ پر نازل ہوئے یہ حکم الہٰی لے کر کہ ایک گواہ کی صورت میں ایک قسم لے کر فیصلہ کرو۔(٤)
ابن عباس سے منقول ہے کہ رسول خدا ۖ ایک گواہ اور ایک قسم سے حکم صادر فرماتے تھے ۔(٥)
..............
(١) سورہ ہود(١١) ، آیت ١٧۔ اور دیکھیے :ـ الدرالمنثور :٣ ٣٢٤۔
(٢) کنزالعمال : ٧ ٢٦ ، حدیث ١٧٧٨٦۔ دارقطنی سے منقول ہے ۔
(٣) سنن دارقطنی :٤ ١٣٧۔ السنن الکبری (بیہقی ) :١٠ ١٧٣۔
(٤) کنزالعمال : ٥ ٨٢٦، حدیث ١٤٤٩٨۔ الدرالمنثور :٦ ١٣٥۔
(٥) صحیح مسلم :٥ ١٢٨، کتاب الاقضیہ ،باب القضاء بالیمین و الشاہد۔

١٠٤
نووی نے صحیح مسلم کی شرح میں تحریر کیا ہے کہ جمہور علماء اسلام ، صحابہ و تابعین سے لیکر آج تک تمام بلاد اسلامی میں ایک گواہ اور ایک قسم کے ساتھ مالی امور میں فیصلے ہوتے ہیں اور اسی کے قائل ہیں ابوبکر، علی ، عمر بن عبد العزیز اور مالک بن انس ، شافعی ، احمد اور مدینہ کے فقہا ء ،علماء حجاز اور دیگر شہروں کے بڑے بڑے علماء و مفتی ، ان کی دلیل وہ روایات ہیں کہ جو اس سلسلے میں بہت زیادہ مذکور ہیں ۔(١)
کتاب شرح التلویح علی التوضیح میں مذکورہے کہ امام علی سے روایت ہے کہ پیغمبراکرمۖ ، ابوبکر و عمر اور عثمان ایک گواہی اور ایک قسم کے ساتھ حکم صادر کرتے تھے ۔(٢)
ہم اگر ان نصوص و روایات کو جمع کریں ابوبکر کے اس کلام و قضاوت کے ساتھ کہ جو انہوں نے حضرت فاطمہ زہرا کے ساتھ انجام دی اور آپ سے کہا کہ'' اے فاطمہ آپ اپنے قول میںسچی ہو اور عقل میں پختہ و کامل ہو آپ کا حق مارا نہیں جائے گا اور آپ کی سچائی و حقانیت سے چشم پوشی نہیں کی جاسکتی ''اور آخر میں کہا '' خداوندسچ کہتا ہے اور اس کے رسول نے سچ کہا اور اس کی بیٹی نے سچ کہا ''تو نتیجہ یہ نکلے گا کہ ابوبکر جھوٹے ہیں اور اپنے کلام میں سچے و صادق نہیں ہیں ۔
اگر ابوبکر جو کچھ کہہ رہے تھے اپنے اس کلام میں سچے تھے تو پھر کیوں فدک حضرت فاطمہ زہرا کو واپس نہیں کیا ؟۔ اس لیے کہ حق کا یقین حاصل ہونے کے بعد حاکم کے پاس اور کوئی راستہ باقی ہی نہیں رہتا کہ قضیہ کے حل کے لیے کسی اور طریقے کی تلاش و جستجو کرے۔
..............
(١) شرح نووی علی مسلم٤١٢۔
(٢) شرح التلویح علی التوضیح :٢ ١٧۔

١٠٥
سنن ابی داؤد میں وارد ہے کہ حاکم کے لیے اگر ثابت ہوجائے کہ ایک گواہ بھی حق بجانب ہے اور سچا ہے تو اس کو چاہیے کہ اس پر اعتماد کرتے ہوئے فیصلہ کردے ۔(١)
ترمذی نے اپنی اسناد کے ساتھ ابی جحیفہ سے روایت کی ہے کہ اس نے کہا کہ میں نے پیغمبراکرمۖ کو دیکھا کہ آخر عمر میں گندمی چہرے کے ساتھ حکم کیا کہ ہم کو تیرہ (١٣)جوان ناقے عطا کریں گے ہم اس خیال میں چلے گئے کہ ان کو بعد میں لے لیں گے ،وقت کے ساتھ ساتھ آنحضرتۖ بھی دنیا سے رخصت ہوگئے اور ہم کو کچھ نہ ملا ،پس جس وقت ابوبکر حاکم ہوئے اور کہا کہ جو کوئی بھی کہ جس کو رسول خدا ۖ نے وعدہ دیا ہو وہ آئے میں اس کو پورا کروں گا میں ان کے پاس گیا اور ماجرے کو نقل کیا تو انہوں نے حکم دیا کہ ناقے عطا کیے جائیں ۔(٢)
صحیح بخاری کی کتب الکفالة ،باب من یکفل عن میت دینا میں روایت نقل ہوئی ہے کہ جابر بن عبداللہ انصاری نے زمان ابوبکر میں دعوی کیا کہ پیغمبراکرمۖ نے اس سے وعدہ کیا تھا کہ اس کو مال بحرین میں سے کچھ حصہ عطا کریں گے ۔ پس ابوبکر نے بغیر اس کے کہ اس سے کوئی دلیل طلب کرتے اس کو بیت المال سے پندرہ سو دینار دیئے ۔(٣)
..............
(١) سنن ابی داؤد :٢ ١٦٦۔
(٢) سنن ترمذی :٤ ٢١٠، حدیث ٢٩٨٣۔ المعجم الکبیر: ٢٢ ١٢٨۔
(٣) دیکھیے :ـ صحیح بخاری :٣ ٥٨، کتاب الاجارہ ، باب الکفالة فی القرض و الدیون ۔ و ١٣٧ کتاب المظالم ،باب من لم یقبل الھدیة لعلة ۔

١٠٦
ابن حجر نے فتح باری باب من یکفل عن میت دیناً میں اس حدیث کی شرح میں کہا ہے کہ ا س کا مطلب یہ ہوا کہ صحابہ کی خبر واحد عادل بھی قابل قبول ہے چاہے وہ اس کے نفع و فائدے ہی میں کیوں نہ ہو۔(١)
یہاں پر یہ سوال کرنا مناسب و معقول ہے کہ کیا ابوبکر کے نزدیک ابو جحیفہ اور جابر بن عبداللہ انصاری حضرت فاطمہ زہرا سے زیادہ سچے تھے ؟ خصوصا آپ کے شوہر صدیق کی گواہی کے باوجود بھی کہ جو نفس پیغمبرۖاور ان کے وصی ہیں نیز ام ایمن و اسماء کی گواہی کے باوجود کہ وہ دونوں اہل بہشت ہیں ، یا یہ کہ مسٔلہ ایک سیاسی و حکومتی اور دنیوی تھا ۔
اس تمام گفتگو کے بعد بھی کیا ایجی کی ابوبکر کی جانب سے عذرتراشی آپ کو قانع کرسکتی ہے کہ جو اس نے تحریر کی ہے کہ۔
اگر یہ کہیں کہ حضرت فاطمہ زہرا نے ادعی کیا کہ فدک نحلہ ہے اور اس پر علی و حسن و حسین اور ام کلثوم نے گواہی دی تو پھر ابوبکر نے کیوں قبول نہ کیا اور ان کی گواہیوں کو رد کردیا ؟۔
تو اس کا جواب یہ ہے کہ حسن و حسین کی گواہی فرعیت کی وجہ سے (مدعی کے بیٹے ہونے کی وجہ سے رد ہوئی ) اور علی و ام کلثوم کی گواہی بینہ و شہادت کے حد نصا ب تک نہیں پہنچی تھی ۔ اور شاید ابوبکرکے نزدیک گوا ہ اور ایک قسم کا رواج نہ تھا چونکہ یہ بہت سے علماء کا نظریہ ہے ۔(٢)
..............
(١) فتح الباری :٤ ٣٨٩۔
(٢) المواقف (ایجی ) :٣ ٥٩٨، مقصد چہارم۔

١٠٧
اس کلام کو پڑھیے اور تعجب کیجیے اور خود ہی قضاوت و فیصلہ کیجیے چونکہ آپ ابوبکر کے نظریہ سے واقف ہوچکے ہیں کہ وہ ایک گواہ اور ایک قسم پر فیصلہ کرتے تھے ، بلکہ یہ بھی واضح ہوچکا ہے کہ وہ بغیر گواہی کے صرف ادعی پر بھی حکم کردیتے تھے اور مدعی کو مال دیتے تھے ۔