|
دوسرا نمونہ :ـ
حضرت فاطمہ زہرا نے عمومات قرآنی کے ذریعہ ابوبکر کے بیان اور مقصد کی تکذیب فرمائی کہ جو انہوں نے کہاتھا کہ'' نحن معاشرالانبیاء لا نورث ماترکناہ صدقہ'' ہم پیغمبروں کی میراث نہیں ہوتی اور جو کچھ چھوڑتے ہیں وہ صدقہ ہے ۔ چونکہ اگر ابوبکر کا کلام صحیح ہوتا تو پھر کس طرح پیغمبراکرمۖ کا عصا ، گھوڑا اور نعلین مبارک حضرت علی کو دیدیا ۔(١)اور آپ کی ازواج کو گھر میں رہنے کی اجازت دی بالکل اسی طرح کہ جیسے مالک اپنے مال میں تصرف کرتا ہے یہاں تک کہ دفن کے لیے بھی عایشہ سے اس کے حجرے کی اجازت مانگی جبکہ اسی دور میں حضرت زہرا سے یہ کہکر کہ آپ مالک نہیں بن سکتیں فدک چھین لیا گیا۔
کیا پیغمبراکرمۖ کے لیے ممکن ہے کہ دنیا سے انتقال کرجائیں اور اپنی بیٹی و داماد کو ان کے حق کے متعلق کوئی خبر نہ دیں !؟۔
..............
(١) شرح نہج البلاغہ (ابن ابی الحدید): ٢١٤١٦۔ اور دیکھیے صحیح بخاری :٥ ١١٤ـ١١٥،کتاب المغازی ، حدیث بنی نضر ۔ صحیح مسلم :٣ ١٣٧٧ـ١٣٧٩، کتاب الجھاد و السیر، باب حکم الفن۔
٧٣
یہ کس طرح ہوسکتا ہے کہ وہ دوسروں کو بتائیں اور غیروں کو با خبر کریں لیکن جن کا حق ہے یعنی اپنی بیٹی و داماد کو اس حکم خاص سے آگاہ نہ فرمائیں ؟۔
اور اس کے علاوہ اگر ابوبکر کو اپنے کلام پر اعتماد تھا اور وہ اپنے دعوے میں سچے تھے تو پھر کیوں انہوں نے حضرت زہرا کے لیے فدک کے متعلق نامہ لکھا کہ جس کو بعد میں عمر نے پھاڑدیا !؟ ۔ یعنی اس نامے سے خود اپنے ہی کلام کی تکذیب کی اور اس کو نقض کردیا ۔(١)
ابوبکر نے اپنے اس دعوی سے قانون الٰہی کہ جو پیغمبروں کے بارے میں میراث کے متعلق ہے رسول خدا ۖ کی طرف توڑنے کی نسبت دی جبکہ یہ مطلب واقعیت کے خلاف ہے چونکہ پیغمبر اکرمۖ فرائض و تکالیف الہٰی میں عام لوگوں کی طرح مکلف ہیں اور آسمانی تعالیم آپ کے بارے میں بھی دوسروں کی طرح جاری ہیں اور یہ بات ثابت نہیں ہوئی کہ آپ کے مختصات و خصوصیات میں سے میراث کا نہ ہونا بھی ہے ۔ یہی وجہ تھی کہ حضرت فاطمہ زہرا نے ابوبکر کی تکذیب کی اور جھوٹ کی نسبت دی۔
تیسرا نمونہ:ـ
تیسرا نمونہ حضرت علی کی تکذیب اور آپ کو جھٹلانا ہے کہ جو ابوبکر کی طرف سے واقع ہوا اگر چہ بعض روایات میں عمر کی طرف نسبت دی گئی ہے ۔
..............
(١) شرح نہج البلاغہ (ابن ابی الحدید):١٦ ٢٧٤۔ احتجاج طبرسی:١ ١٢٢۔ اور دیکھیے تہذیب الاحکام (شیخ طوسی) :٤ ١٤٨۔ تفسیر قمی :١٥٥٢۔ السیرة الحلبیہ:٣ ٤٨٨۔
٧٤
اس وقت کہ جب ابوبکر کی بیعت نہ کرنے پر حضرت علی کو قتل کی دھمکی دی گئی تو آپ نے فرمایا کہ کیا آپ لوگ بندہ ٔخدا اور رسول خدا ۖ کے بھائی کو قتل کروگے ؟ عمر نے کہا: بندہ ٔخدا تو صحیح لیکن رسول خدا کا بھائی نہیں ۔(١)
نہیں معلوم کس طرح پیغمبراکرمۖ اور حضرت علی کے درمیان رشتہ اخوت سے انکار کردیا جب کہ یہ کام دو مرتبہ واقع ہوچکا تھا ایک مرتبہ مکہ میں ہجرت سے پہلے اور دوسری مرتبہ مدینے میں ہجرت کے پانچویں مہینے میں کہ جب پیغمبراکرمۖ نے تمام انصار و مہاجرین کو ایک دوسرے کا بھائی بنایا اور ایک دوسرے کے درمیان عقد اخوت پڑھا اور دونوں مقام پر اپنے لیے حضرت علی کا انتخاب فرمایا اور اپنے و علی کے درمیان عقد اخوت پڑھ کرفرمایا : اے علی آپ دنیا و آخرت میں میرے بھائی ہو ۔(٢)
اور اس کے علاوہ یہی کافی ہے کہ نص آیت مباہلہ کے مطابق حضرت علی نفس رسول خداۖ ہیں، ارشاد ہے(وانفسنا و انفسکم)(٣) تم اپنے نفس و جان کو لاؤ اور ہم اپنے نفس و جان کو لاتے ہیں۔
..............
(١) الامامة والسیاسة:١ ٢٠٠(تحقیق زینی)۔ احتجاج طبرسی :١ ١٠٩۔
(٢) سنن ترمذی :٥ ٣٣٠، حدیث ٣٨٠٤۔ اس میں مذکورہے کہ یہ حدیث حسن اور غریب ہے۔ مستدرک حاکم :٣ ١٤۔
(٣) سورہ آل عمران(٣) ، آیت ٦١۔
٧٥
اور قضیہ تبوک میں آپ ۖنے حضرت علی سے فرمایا:
'' انت منی بمنزلة ھارون من موسیٰ الاانہ لا نبی بعدی وانت اخی و وارثی'' (١) آپ کو مجھ سے وہی نسبت ہے کہ جو ہارون کو موسی سے تھی سوائے اس کے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا اور آپ میرے بھائی اور میرے وارث ہیں ۔
پیغمبراکرمۖ نے حضرت علی کو اس وقت کہ جب دعوت اسلام کا آغازبھی نہ ہوا تھا اپنا بھائی قرار دیا جس وقت یہ آیت نازل ہوئی(وانذر عشیرتک الاقربین)(٢)
اپنے عزیز وخاندان والوں کو ڈراؤ تب پیغمبراکرمۖ نے اپنے تمام رشتہ دارو خاندان والوں کی جناب ابو طالب کے گھر میں دعوت کی ۔ وہ تقریبا چالیس آدمی تھے تب پیغمبراکرمۖ ان کے درمیان کھڑے ہوئے اور فرمایا :اے فرزندان عبدالمطلب ،خدا کی قسم میری نظرمیں عرب کا کوئی جوان بھی اپنی قوم کے لیے ایسا پیغام نہیں لایا کہ جیسا میں لایا ہوں ، میں آپ لوگوں کے لیے دنیا و آخر ت کی خیر و بھلائی لے کر آیا ہوں اور خداوندعالم نے مجھ کو حکم دیا ہے کہ تمہیں اس کی طرف دعوت دوں پس آپ میں سے کون ہے کہ اس امر میں میری مدد کرے گا تاکہ تمہارے درمیان میرا بھائی ، وصی اور خلیفہ قرار پائے۔
..............
(١) صحیح مسلم :٧ ١٢٠، کتاب فضل الصحابہ من فضائل علی ۔ مسند ابی یعلی :١ ٢٨٦، حدیث ٣٤٤۔ صحیح ابن حبان :١٥ ٢٧٠ـ٢٧١ ،باب مناقب علی ابن ابی طالب ۔ الآحاد و المثانی :٥ ١٧٠۔، حدیث ٢٧٠٧۔ تاریخ مدینة دمشق : ٢١ ٤١٥ ۔و جلد:٤٢ ٥٣۔
(٢) سورہ شعراء (٦٦) ، آیت ٢١٤۔
٧٦
اس وقت تمام اہل خاندان نے پیغمبر اکرمۖ کی یہ دعوت قبول کرنے سے انکار کیا سوائے حضرت علی کے کہ جو ان سب میں چھوٹے و کم سن تھے تب رسول خداۖ نے اپنا ہاتھ حضرت علی کے کاندھے پر رکھا اور فرمایا:بیشک یہ میرا بھائی ، وصی اور میرا خلیفہ ہے ، اس کی بات ماننا اور اطاعت کرنا ۔
وہ لوگ مذاق اڑاتے اور ہنستے تھے اور جناب ابوطالب سے کہتے کہ محمد ۖ نے تجھ کو حکم دیا ہے کہ اپنے بیٹے کی بات ماننا اور اس کی اطاعت کرنا ۔(١)
اور اس وقت بھی کہ جب زنان عالم کی سیدہ و سردار حضرت فاطمہ زہرا کی شادی حضرت علی سے ہونے لگی تو پیغمبراکرمۖ نے فرمایا: اے ام ایمن میرے بھائی کو بلائو ، ام ایمن نے کہا: وہ آپ کے بھائی ہیں جبکہ آپ اپنی یبٹی کی شادی ان سے کررہے ہیں ؟ آپ نے فرمایا: ہاں اے ام ایمن ، پس ام ایمن نے حضرت علی کو بلایا۔(٢)
پیغمبراکرمۖ نے متعدد مرتبہ حضرت علی کوبھائی کہکر خطاب کیا ہے ۔
ایک مرتبہ فرمایا:'' انت اخی و صاحبی فی الجنة'' (٣)
آپ جنت میں میرے بھائی اور ساتھی و ہمدم ہیں۔
..............
(١) تاریخ طبری :٢ ٦٣۔ السیرة النبوة (ابن کثیر) :١ ٤٥٨ـ٤٥٩۔ کنزالعمال :١٣ ١٣٣، حدیث ٣٦٤١٩۔ کہ یہ ابن اسحاق و ابن جریر اور ابن ابی حاتم سے نقل ہوئی ہے ۔
(٢) مستدرک حاکم : ٣ ١٥٩۔ السنن الکبری (نسائی) : ٥ ١٤٢، حدیث ٨٥٠٩۔
(٣) تاریخ بغداد : ١٢ ٢٦٣۔ تاریخ دمشق :٤٢ ٦١۔ ان دونوں ماخذ میں مذکور ہے ''یا علی انت اخی و صاحبی و رفیقی فی الجنة ''اے علی آپ جنت میں میرے بھائی ، ہمدم اور میرے دوست ہو۔
٧٧
اور دوسرے مقام پر فرمایا:
''انت اخی ووزیری ، تقضی دینی و تنجز موعدی و تبری ذمتی ''(١)
اے علی آپ میرے بھائی اور میرے وزیر ہو آپ ہی میرا قرضہ اتاروگے اور میرے عہد وپیمان اور وعدوں کو پورا کروگے اور میرے ذمہ جو کچھ بھی ہے اس کو ادا کروگے ۔
تیسرے مقا م پر فرمایا :
''ھٰذا اخی وابن عمی و صھری و ابو ولدی ''(٢)
یہ( علی ) میرا بھائی، میرے چچا کا بیٹا ،میرا داماد اور میرے بچوں کا باپ ہے ۔
..............
(١) المعجم الکبیر: ١٢ ٣٢١۔ اور اسی سے نقل ہے مجمع الزوائد : ٩ ١٢١ و کنزالعمال :١١ ٦١١، حدیث ٣٢٩٥٥ میں ۔ اور اسی ماخذ میں آیاہے کہ ''فمن احبک فی حیاة منی فقد قضی نحبہ ومن احبک بعدی ولم یرک ختم اللہ لہ بالامن و امنہ یوم الفزع الاکبر ومن مات و ھو یبغضک یا علی مات میتة جاھلیة یحاسبہ اللہ بما عمل فی الاسلام '' اے علی جو شخص بھی آپ کو میری زندگی میں دوست رکھے گا گویا اس نے اپنے عہد کو پورا کیا اور جو کوئی بھی میری زندگی کے بعد آپ کو دوست رکھے اور آپ کو نہ دیکھ پائے خداونداس کا خاتمہ بالخیر کرے گا اور روز قیامت اس کو امن و امان عطا کرے گا ، اور اے علی جو شخص بھی اس حالت میں مرے کہ تجھ سے حسد اور بغض اس کے دل میں ہو تو اس کی موت جاہلیت کی موت ہے خداوندعالم اس کی زندگی کے دوران اسلام کے کارناموں کا محاسبہ کرے گا ۔
(٢) کنزالعمال : ٥ ٢٩١، حدیث ١٢٩١٤ ۔ و جلد : ١١ ٦٠٩ ، حدیث ٣٢٩٤٧۔ اس کو شیرازی نے کتاب القاب میں اور ابن نجار نے ابن عمر سے نقل کیا ہے ۔ اور دیکھیے:ـ مسند احمد: ٥ ٢٠٤۔ مستدرک حاکم : ٣ ٢١٧۔ المعجم الکبیر : ١ ١٦٠ ، حدیث ٣٧٨۔
٧٨
اور چوتھے مقام پر فرمایا:
میرے بھائی علی کو آواز دو ۔پس حضرت علی کو بلایا گیا آپ پیغمبراکرمۖ کے سرہانے آئے حضرت پیغمبراکرمۖ نے فرمایا: اور قریب آئو ، آپ قریب آئے اور پیغمبراکرمۖ کو اپنے زانو پر سہارا دے کر بٹھایا پیغمبراکرم ۖ علی پر تکیہ دیے رہے اور آپ سے محو گفتگو رہے یہاں تک کہ آپ کی روح مطہرآپ کے بدن مبارک سے پرواز کرگئی ۔(١)
پانچویں مقام پر فرمایا:
''مکتوب علی باب الجنة ، لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ علی اخو رسول اللہ'' (٢)
جنت کے دروازے پر لکھا ہوا ہے ، خدا کے سوا کوئی معبود نہیں ہے۔ محمد، اللہ کے رسول ہیں اور علی رسول خداۖ کے بھائی ہیں ۔
اور چھٹے اور ساتویں مقامات پراس وقت کہ جب حضرت علی بستر رسول ۖپر سورہے تھے خداوندعالم نے شب ہجرت جبرئیل و میکائیل کو وحی کی کہ میں نے تمہارے درمیاں عقد اخوت پڑھا اور آپ دونوں کو ایک دوسرے کا بھائی قرار دیا اور ایک کو عمر طولانی دوسرے کو کم عمر عطا کی، آپ میں سے کون ہے کہ اپنی طولانی عمر کو اپنے بھائی پر نثار کرے کوئی ایک بھی حاضر نہ ہو ا ۔
..............
(١) طبقات ابن سعد : ٢ ٢٦٣۔
(٢) المعجم الاوسط :٥ ٤٣ ١٣ ۔ تاریخ بغداد :٧ ٣٩٨۔ فیض القدیر :٤ ٤٦٨، حدیث ٥٥٨٩، ترجمہ الامام الحسین(ابن عساکر) ١٨٦، حدیث ١٦٧۔
٧٩
اوردونوں نے طولانی عمر اور حیات کو چاہا تب خدا وندعالم نے ان دونوں پر وحی کی کہ کیوں آپ علی ابن ابی طالب کی طرح نہیں ہو کہ میں نے علی اور محمد ۖ کے درمیان بھائی چارگی ایجاد کی اور علی ، محمد ۖکے بستر پر سوگئے تاکہ اپنی جان محمدۖ پر فدا کردیں اور اپنی زندگی کو اس پر نثار کردیں ، پس زمین پر جاؤ اور اس کو دشمنوں کے شر سے محفوظ رکھو ۔ پس دونوں زمین پر آگئے ۔(١)
حضرت امام علی علیہ السلام نے اس مواخات (پیغمبراکرمۖ سے بھائی چارگی) سے کئی مرتبہ استشہاد کیا ،مثلا روز شوری ، عثمان ، عبد الرحمن، سعد بن وقاص اور طلحہ و زبیر سے فرمایا: آپ کو میں خدا کی قسم دیتا ہوں آپ میں میرے علاوہ کوئی ہے جس کو رسول خدا ۖ نے اس دن جب مسلمانوں کے درمیان بھائی چارگی ایجاد کی ، بھائی بنایا ہو سب نے کہا نہیں خداکی قسم۔(٢)
روز بدر کہ جب ولید آپ کے مقابلے میں لڑنے کے لیے آیا تو آپ سے سوال کیا کہ آپ کون ہو؟ تب آپ نے فرمایا '' انا عبداللہ و اخورسولہ '' (٣) میں خدا کا بندہ اور اس کے رسول ۖ کا بھائی ہوں۔
حضرت فاطمہ زہرا نے بھی اپنے مشہور خطبہ میں اس اخوت و بھائی چارگی کی طرف اشارہ فرمایا ہے جیسا کہ ارشاد ہے :
..............
(١) اسد الغابہ :٤ ٢٥۔ جواہر المطالب : ١ ٢١٧۔ شواہد التنزیل : ١ ١٢٣، حدیث ١٣٣۔
(٢) الاستیعاب :٣ ١٠٩٨۔
(٣) طبقات ابن سعد : ٢ ٢٣۔ تاریخ مدینہ دمشق : ٤٢ ٦٠۔
٨٠
جب کبھی بھی شیطان سر اٹھاتا یا مشرکوں میںسے کوئی اژدھا منھ پھاڑتا تو رسول خداۖ اپنے بھائی کو اس کے حوالے کردیتے اور وہ جب تک کہ ان پر مسلط نہ ہوتے اور ان کی آگ کے شعلے اپنی تلوار سے خاموش نہ کرتے واپس نہیں آتے تھے وہ راہ خدا میں ہر طرح کی سختیوں اور رنج وتکلیف کو برداشت کرلیتے تھے اور امر خدا کے احیاء میں ہرطرح کی کوشش کرتے وہ رسول خداۖ کے عزیز اور اولیاء الٰہی کے سردار تھے ، ہمیشہ راہ خدا میں ناصح، کوشا اور کمر ہمت باندھے ہوئے تھے اور آپ لوگ اس دور میں اسی کی وجہ سے عیش و آرام کی زندگی گذار رہے تھے اور ہر طرح کے حوادث کے ہم پر منتظر رہتے تھے اور فقط ادھر ادھر کی باتیں سنتے اور جنگوں میں جانے سے گریز کرتے اور اگر کسی جنگ میں پہنچ بھی جاتے تو وہاں سے بھاگ کھڑے ہوتے تھے ''(١)۔
ابوبکر نے جب حضرت فاطمہ زہرا کی حجت و دلائل کو سنا تو آپ کے بیان سے متأثر ہوئے اور آپ کا دل لبھاناچاہا اوراس اعتراف کے ساتھ کہ علی ہی رسول خدا کے بھائی ہیں نہ کہ کوئی اور، کہنے لگے:
اے دختر رسول خدا ۖ ،آپ کے والد مؤمنوں پر مہربان تھے اور ان کے ساتھ مہر و محبت سے پیش آتے تھے اور بہت ہی کریم و دل سوز تھے اور کافروں کے حق میں درد ناک عذاب اور بہت سخت عقاب تھے ، اگر ان کے نسب کو دیکھیں تو وہ یقینا آپ کے والد و ماجد ہیں نہ کہ دوسری عورتوں کے اور آپ کے شوہر کے بھائی ہیں نہ کہ دوسرے اصحاب کے ۔ پیغمبراکرمۖ نے ان کو ہر ایک نزدیک ترین دوست سے بھی زیادہ عزیز رکھا اور وہ بھی پیغمبراکرمۖ کی ہر مشکل کام میں مدد فرماتے تھے۔
..............
(١) دیکھیے:ـ شرح نہج البلاغہ (ابن ابی الحدید) : ١٦ ٢٥٠۔ جواہر المطالب :١ ١٥٦۔
٨١
آپ لوگ وہ افراد ہو کہ جن کو صرف سعادتمند و خوشبخت ہی دوست رکھتا ہے اور آپ کو کوئی دشمن نہیں رکھتا سوائے بدبخت انسان کے آپ پیغمبراکرمۖ کی عترت و اہل بیت پاک و پاکیزہ ہو اور اللہ کے منتخب و بہترین بندے ہو ہمیں اچھی راہنمائی اور بھلائی دکھاتے ہواور جنت و آخر ت میں بھی ہمارے بہترین راہنما ہو۔
اور آپ اے عورتوں کی سیدہ و سردار اور بہترین پیغمبرۖ کی بیٹی آپ کا کلام حق اور سچا ہے اور آپ کی عقل کامل و پختہ ہے ، آپ کے حق کو کوئی نہیں روکے گا اور آپ کے صدق و صفائی سے کوئی مانع نہیں ہوگا ۔
خدا کی قسم میں نے پیغمبراکرمۖ سے تجاوز نہیں کیا ہے میں نے سنا ہے کہ رسول خدا نے فرمایا :
''نحن معاشرالانبیاء لا نورث ذھبا و لا فضة ولا دارا ولا عقارا و انما نورث الکتاب و الحکمة والعلم والنبوة وما کان لنا من طعمة فلو لی الامر بعدنا ان یحکم فیہ بحکمہ''۔ ہم جماعت انبیاء سونا چاندی اور گھر و جنگل کو میراث میں نہیں چھوڑتے ہم فقط کتاب و حکمت اور علم و نبوت کو میراث میں چھوڑتے ہیں اور جو کچھ بھی مال و دولت میں سے ہمارے پاس بچتا ہے اس میں ہمارے بعد ولی امر اپنی مصلحت کے مطابق حکم کرتا ہے۔
آپ کا جو مقصد ہے ہم نے اس کو اسلحہ اور گھوڑے خریدنے کے لیے مخصوص و مہیا کردیا ہے تاکہ اس سے مسلمان جنگ کرسکیں اور کفار کا مقابلہ کرسکیں اور فاسقین کی سر کشی کوسرنگوں کیا جاسکے اور یہ کام مسلمانوں کے اجتماع و اتحاد اور رائے و مشورے سے وجود میں آیا ہے میں نے تنہا یہ کام انجام نہیں دیا ہے اور نہ اپنی رائے و نظر کو مقدم رکھا ہے ، میں اور میرا سارا مال و اسباب آپ کی خدمت میں حاضر ہے آپ سے کچھ مخفی نہیں کیا جائے گا ۔
٨٢
اور یہ آپ کے علاوہ کسی اور کے لیے جمع نہیں کیا گیا ہے ۔ آپ اپنے والد گرامی کی امت کی شہزادی اور اپنی اولاد کے لیے پاک و پاکیزہ شجرہ ہیں اور جو فضل و کمال آپ کا ہے اس تک کوئی نہیں پہنچ سکتا اور آپ کی فرع و اصل میں سے کچھ کم نہیں کیا جا سکتا ، جو کچھ میرے اختیار میں ہے آپ کے حکم کی تعمیل کے لیے حاضر ہے ، لیکن کیا آپ حاضر ہیں کہ آپ کے والد گرامی کی مخالفت کروں!؟۔
حضرت فاطمہ زہرا نے فرمایا:
سبحان اللہ ، پیغمبراکرمۖ ، کتاب خدا سے روگردان نہ تھے اور اس کے احکام کی مخالفت نہیں کرتے تھے بلکہ اس کی پیروی فرماتے اور قرآن مجید کے سوروں کی رسیدگی کرتے ،کیا دھوکا دینے کے لیے جمع ہوئے ہو اور اس پر ظلم و ستم کرنے اور زور گوئی کہنے کے لیے اکھٹا ہوئے ہو ؟یہ کام ان کی وفات کے بعداسی کی مانند ہے کہ جیسے ان کی زندگی میں دھوکے اور مکاریاں کی جاتی رہیں اور یہ بھی انہیں کی زندگی میں پروپیگنڈ ا تیار ہوا ،یہ خدا کی کتاب عادل و حاکم ہے اور حق وحقانیت کو باطل و ناحق سے جدا کرنے کے لیے موجود ہے ۔ کہ جس میں ارشاد ہے (یرثنی و یرث من آل یعقوب)(١) خدا یا مجھ کو فرزند عطا فرما کہ جو میرا اور آل یعقوب کا وارث قرار پائے ۔اور ارشاد ہوا(وورث سلیمان داؤد) (٢) سلیمان نے داؤد سے میراث پائی ۔
..............
(١) سورہ مریم(١٩)، آیت ٦۔
(٢) سورہ نمل(٢٧)، آیت ١٦۔
٨٣
خدا وندعالم نے سب کے حصوں کو تقسیم کرنے کے لیے اور فرائض کو نافذ کرنے کے لیے اور مرد و عورتوں کو ان کے حق کی ادائیگی کی خاطر تمام چیزوں کو آشکار و واضح کر دیا ہے تاکہ اہل باطل کی تاویلات کو ختم کیا جاسکے اور شبہات و بد گمانی کو دور کیا جاسکے ۔کیا ایسا نہیں ہے ؟(بل سولت لکم انفسکم امرا فصبر جمیل واللہ المستعان علی ما تصفون )(١) بلکہ تمہارے نفسوں نے تمہارے لیے یہ معمہ بنا کرکھڑا کیا ہے لہذا میں صبر کو بہترین راستہ سمجھتی ہوں خداوندمددگار ہے ہر اس چیز پر کہ جو بیان کرتے ہو۔
ابو بکر نے کہا:
خدا اور اس کا رسول سچ کہتے ہیں اور اس کی بیٹی بھی سچ کہتی ہے ۔ اے فاطمہ آپ معدن حکمت ہیں اور مقام ہدایت و رحمت اور آپ دین کی رکن اور عین حجت ہیں۔
میںآپ کے کلام حق کو بعید نہیں سمجھتا اور آپ کی فرمایش سے انکار نہیں کرتا یہ مسلمان کہ جو میرے اور آپ کے درمیان ہیں ان لوگوں نے یہ ذمہ داری میرے کاندھوں پر ڈالی ہے ۔ جوکچھ بھی انجام دیا گیا ہے وہ انہیں کے مشورے سے انجام پایا ہے نہ کہ میں نے کوئی زبردستی کی ہے اور نہ ہی اپنی رائے و نظر یہ کو مقدم رکھا اور یہ لوگ اس بات پر شاہد و گواہ ہیں ۔
حضرت فاطمہ زہرا نے لوگوں کی طرف رخ کیا اور فرمایا :
اے لوگو ! آپ نے باطل کے کلام کی طرف سبقت کی اور برے و نقصان دہ کام سے چشم پوشی کی ۔
..............
(١) سورہ یوسف(١٢)، آیت ١٨۔
٨٤
(وافلا تتدبرون القرآن ام علی قلوب اقفالھا)(١) اورکیا قرآن کریم میں غور و فکر نہیں کرتے یاتمہارے دلوں پر تالے لگے ہوئے ہیں کیا ایسا نہیں ہے ؟ بلکہ تمہارے برے اعمال نے تمہارے دلوں پر زنگ لگادیا ہے کہ جس سے تمہارے کان اور آنکھیں بند ہوگئی ہیں ، کس قدر بری تأویل کی ہے اور جو کچھ آپ لوگوں نے انجام دیا بہت برا ہے ، اور وہ کہ جس کا بدلہ چاہتے ہوبہت خطرناک ہے۔
خدا کی قسم یہ بہت سنگین و بھاری بوجھ ہے اور اس کا نتیجہ بہت برا اور وبال جان ہے وہ وقت کہ جب حقیقت کے پردے آپ کی آنکھوں کے سامنے سے ہٹیں گے اوراس کے بعد تمہاری بدبختی و پریشانی تمہارے سامنے آشکار ہوگی ۔
(وبدا لکم من ربکم مالم تکونوا تحتسبون )(٢)
آپ کے پروردگار کی جانب سے کہ جو تم شمار بھی نہ کرتے تھے آشکار ہوگیا ۔
(وخسر ھنالک المبطلون)(٣)
یہی وہ مقام ہے کہ اہل باطل ، خسارہ و نقصا ن دیکھیں گے ۔(٤)
..............
(١) سورہ محمد(٤٧)، آیت ٢٤میں آیا ہے (افلا یتدبرون القرآن ام علی قلوب اقفالھا) ۔
(٢) سورہ زمر(٣٩)، آیت ٤٧میں آیا ہے (وبدا لکم من اللہ مالم تکونوا تحتسبون )۔
(٣) سورہ مؤمن (٤٠)، آیت ٧٨۔
(٤) احتجاج طبرسی :١ ١٤١۔ اور اسی سے نقل ہوا ہے بحار الانوار :٢٩ ٢٣٢ـ٢٣٣ میں ۔
٨٥
خدائے سبحان کا ارشاد ہے :
(تلک آیات اللہ نتلوھا علیک بالحق فبای حدیث بعد اللہ و آیاتہ یومنون ٭ ویل لکل افاک اثیم ٭ یسمع آیات اللہ تتلی علیہ ثم یصر مستکبرا کأن لم یسمعھا فبشرہ بعذاب الیم)(١)
یہ خداوندعالم کی آیات ہیں کہ جو ہم آپ پرحق کے ساتھ تلاوت کرتے ہیں ، پس خدا اور اس کی آیات کے بعد کون سا کلام ہے کہ اس پر ایمان لائو گے ۔وائے ہو جھوٹے گناہکار پر کہ اس پرآیات الہٰی کی تلاوت ہوتی ہے تو سنتا ہے اور پھر تکبر سے منھ پھیر لیتا ہے گویااس نے سنا ہی نہ ہو تو آپ اس کو جہنم اور سخت عذاب کی بشارت دیں ۔
..............
(١) سورہ جاثیہ (٤٥) ، آیات ٦ـ٧ـ٨۔
| |