کون ہیں صدیق اور صدیقہ
 

ابو بکر اور صدیقیت
اب ابوبکر کی شخصیت و سیرت پر نظر ڈالتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ کیا واقعاً وہ صدیق ہیں یا حقیقت میں صدیق علی ابن ابی طالب ہی ہیں ۔
اس کا م کو دونوں طرف کے لوگوں کے عقیدہ سے ہٹ کر انجام دیں گے یعنی ان حضرات کی شخصیتوں کی خود ان ہی کے کلام سے وضاحت کریں گے نہ کہ ان کے پیرو کار اور ماننے والوں کے کلام ونظریات کی روشنی میں انہیں پیش کیا جائے ۔
یہ واضح ہے کہ صدق و سچائی ، کذب و جھو ٹ کے مقابل میں ہے ، پس اگرحضرت فاطمہ ، صدیقہ اپنے کلام میں سچی اور حق پر ہیں تو ابوبکر جھوٹے ہیں اور اسی طرح اگر علی حق پرہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کے مقابل میں باطل ہے (جو بھی ہو)۔
اب طرفین کے کلمات و نظریا ت کو سامنے رکھتے ہیںاور ان مقامات کو کہ جن میں اختلاف ہے بطور نمونہ پیش کرتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ کون سچا اور کون جھوٹا ہے ۔ اور اس کے بعد لفظ صدیق پر غور کریں گے اور پھر دیکھیں گے کہ کون ان صفات و کمالات کے ساتھ اس لقب کا مستحق ہے ۔

پہلا نمونہ :ـ
حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا کے خطبہ کا ٹکڑا کہ جس میں مدعیان خلافت سے خطاب ہے :

٦٧
کیا آپ لوگ یہ خیال کرتے ہوکہ ہمارا میراث میں کوئی حق نہیں ہے (أ فحکم الجاھلیة تبغون ومن احسن من اللہ حکماً لقوم یوقنون)(١)
کیا جاہلیت کے حکم کو چاہتے ہواور اللہ کے حکم سے کس کا حکم اچھا ہے ، ان لوگوں کے لیے کہ جو اہل یقین ہیں ۔ کیا اس سلسلے میں حکم خدا کو نہیں جانتے یقینا جانتے ہو ، سورج کی طرح تم پر روشن ہے کہ میں پیغمبراکرمۖ کی بیٹی ہوں ، اے مسلمانوں کیا میں میراث سے محروم ر ہوں؟ اے ابو قحافہ کے بیٹے کیا خدا کی کتاب میں ہے کہ تو اپنے باپ کی میراث پائے اور میں اپنے باپ کی میراث نہ پاؤں؟ (لقد جئت شیأ فریا )(٢)
یقینا اپنے پاس سے من گھڑت لائے ہو۔ کیا جان بوجھ کر کتاب خدا کو چھوڑ دیا ہے اور اس کو پس پشت ڈال دیا ہے کہ جس میں ارشاد ہے (وورث سلیمان داؤد )(٣)
سلیمان نے دائود سے میراث پائی ۔ اور یحی ابن زکریا کی خبر سنائی ہے لہذا ارشاد ہے (فھب لی من لدنک ولیا یرثنی و یرث من آل یعقوب) (٤)
زکریا نے کہا پروردگار مجھ کو اپنی جانب سے ولی و جانشین عطا فرما کہ جو میرا وارث ہو اور آل یعقوب سے میراث پائے۔
..............
(١) سورہ مائدہ (٥) آیت ٥٠۔
(٢) سورہ مریم (١٩) ،آیت ٢٧۔
(٣) سورہ نمل (٢٧) ،آیت ١٦۔
(٤) سورہ مریم (١٩) ،آیت ٥ـ٦۔

٦٨
اور حکم الہی ہے (واولو ا الارحام بعضھم اولی ببعض فی کتاب اللہ ) (١) خداوندعالم کی کتاب میں رشتہ دار ایک دوسرے کی بنسبت دوسروں سے زیادہ مستحق ہیں ۔
اور ارشاد ہے (یوصیکم اللہ فی اولادکم للذکر مثل حظ الانثیین ) (٢) ۔
خداوندعالم آپ کے بچوں کے بارے میں آپ کو وصیت کرتا ہے کہ لڑکے کا حق لڑکی کے حق سے دوبرابر ہے ۔
اور ارشاد ہے (ان ترک خیرالوصیة للوالدین والاقربین بالمعروف حقا علی المتقین ) (٣) جس کوآثار موت نظر آنے لگیں اس پر لازم ہے کہ اگر صاحب مال ہے تو اپنے والدین و رشتہ داروں کے لیے وصیت کرے یہ متقی اور پرہیزگار وں پر حق ہے ۔
ان سب آیات کے باوجود آپ لوگوں کا خیال ہے کہ میرا کوئی حق نہیں ہے اور میں اپنے والد گرامی سے کوئی حق نہیں پاؤں گی اور ہمارے درمیان کوئی رشتہ داری نہیں ہے ؟۔
کیا خدا وندعالم نے آپ پر کوئی خاص آیت نازل کی ہے کہ جو میرے باپ پر نازل نہیں کی یا یہ کہ جو کہہ رہے ہو تو کیا میں اپنے والد کے دین پر نہیں ہوں ، دو دین والے آپس میں میراث نہیں پاتے تو کیا میرا اور میرے والد کا دین ایک نہیں ہے؟ کیا آپ لوگ قرآن کریم کے خاص و عام کو میرے والد اور ابن عم علی سے بہتر جانتے ہو؟۔
..............
(١) سورہ انفال (٨) ،آیت ٧٥۔
(٢) سورہ نساء (٤) ،آیت ١١۔
(٣) سورہ بقرہ (٢) ،آیت ١٨٠۔

٦٩
اب فدک کو غصب کرلو لیکن روز حشر ایک دوسرے کا مقابلہ کرنا ہے ، خداوندعالم کیا ہی خوب حاکم ہے ، اور پیغمبراکرمۖ بہترین رہبر ہیں اور روز قیامت سب کے لیے وعدہ گاہ ہے ۔
قیامت کے دن جو لوگ باطل پر ہیں اپنے نقصان و خسارے کو دیکھیں گے اور وہ لوگ پشیمان و شرمندہ ہونگے لیکن اس وقت وہ شرمندگی کوئی فائدہ نہیں دے گی ۔
(وکل نبأ مستقر)(١) اور ہر خبر کو واقع ہونا ہے ۔ (فسوف تعلمون من یاتیہ عذاب یخزیہ و یحل علیہ عذاب مقیم) (٢) پس عنقریب جان لوگے کہ ذلیل و رسوا کرنے ولا عذاب آن پہنچا ہے اور ہمیشہ رہنے والا عقاب و عذاب سر پر منڈلارہا ہے ۔(٣)

یہ عبارت بہت واضح اور روشن ہے اور زیادہ تحلیل و تفسیر کی ضرورت نہیں ہے ۔ فاطمہ صدیقہ اپنے اس کلام میں ابوبکر صدیق کی تکذیب کر رہی ہیں : اے ابوقحافہ کے بیٹے کیا خدا کی کتاب میں ہے کہ تو اپنے باپ سے میراث پائے اور میں اپنے والد کی میراث سے محروم رہوں ، یقینا یہ کیا من گھڑت چیز پیش کی ہے ۔
اور اس کلام میں بھی کہ ابوبکر اور اس کے طرفدار زمانہ جاہلیت کے رسم و رواج کو سامنے رکھتے ہوئے یہ خیال کرتے ہیں کہ فاطمہ اپنے باپ سے میراث نہیں پائے گی جب کہ یہ خیال قرآن کریم کی آیات وصیت و میراث کے متعلق عمومات کے خلاف ہے ۔
..............
(١) سورہ انعام (٦) ،آیت ٦٧۔
(٢) سورہ ھود (١١) ،آیت ٣٩۔و سورہ زمر(٣٩) ،آیت ٣٩ـ٤٠۔
(٣) احتجاج طبرسی :١ ١٣٨ـ١٣٩۔

٧٠
یہ کس طرح ہوسکتا ہے کہ ابوبکر اپنے باپ سے میراث پائے اور فاطمہ اپنے والد سے میراث نہ پائیں! کیا خداوندعالم نے ان کے لیے کوئی خاص آیت بھیجی ہے کہ جس سے پیغمبراکرمۖ کو باہر و جدا کردیا گیا ہے یا یہ کہ ان کا نظریہ ہے کہ پیغمبرۖ اور فاطمہ کا دین جدا جدا ہے کہ ایک دوسرے سے میراث نہیں پاسکتے یایہ کہنا چاہتے ہیں کہ نعوذ باللہ فاطمہ ، رسول خداۖ کی بیٹی نہیں ہیں ۔
چونکہ یہ معقول نہیں ہے کہ پیغمبراکرمۖ ایک حکم الہٰی کو ان لوگوں سے بیان کریں کہ جو وارث نہیں ہیں اور جو وارث ہیں ان سے چھپائے رکھیں ۔
اس بات کو عقل کیسے قبول کرسکتی ہے کہ کتاب الہٰی کو ایک ایسی خبرواحد سے تخصیص دی جائے کہ جس کی علی و فاطمہ تصدیق نہ فرمائیں۔
یہ کس طرح ممکن ہے اور عقل کیسے قبول کرے کہ کتاب الہٰی کی تخصیص ایک ایسی خبر واحد سے ہوکہ جو ظاہر اور عمومات قرآن کے مخالف ہو چونکہ گذشتہ نبیوں کی سیرت اس کے خلاف ثابت ہے
جی ہاں ! حضرت فاطمہ زہرا اپنے اس کلام سے یہ واضح کرنا چاہتی ہیں کہ ان لوگوں نے کتاب خدا پر بھی عمل کرنا چھوڑدیا ہے ۔ چونکہ لفظ وارث عام ہے اور مال کی میراث پر دلالت کرتا ہے جیسا کہ متعدد آیات سے واضح ہے اور کسی خاص قید سے مقید بھی نہیں ہوا ، لیکن انہوں نے میراث کو ، میراث حکمت و نبوت سے تعبیر کیا ہے نہ کہ اموال سے اور مجاز کو حقیقت پر مقدم رکھا ۔
جب کہ علم و حکمت اور نبوت کی میراث کا مطلب یہ نہیں ہے کہ مالی میراث ختم ہوجائے بلکہ میراث نبوت اور اموال ایک دوسرے کے لازم و ملزوم ہیں ، اور یہ وراثت پروردگار کے نزدیک روز ازل سے اس کے مستحقین کے لیے محفوظ و مخصوص ہے ۔

٧١
(واللہ اعلم حیث یجعل رسالتہ)(١) اور خداوندعالم بہتر جانتا ہے کہ اپنی رسالت کو کہاں رکھے۔
فخر رازی اپنی تفسیر میں رقمطراز ہے کہ دونوں جگہوں پر میراث سے مراد مالی میراث ہے ، اور یہ ابن عباس و حسن اور ضحاک کا قول ہے ۔(٢)
زمخشری نے تفسیر کشاف میں لکھا جناب سلیمان نے اپنے والد جناب داؤد سے ہزار گھوڑے میراث میں پائے ۔(٣) بغوی نے معالم التنزیل ،سورہ مریم کی چھٹی آیت کی تفسیر میں لکھا ہے حسن نے کہا کہ اس آیت کے معنی یہ ہیں کہ وہ میرے مال کا وارث ہو۔(٤)
ہم لوگ حضرت علی صدیق اور صدیقہ کبری حضرت فاطمہ زہرا و حضرت رسول اکرمۖ کے چچا جناب عباس کے استدلال پر ذرا غور کریں تو بالکل واضح ہوجائے گا کہ ابوبکر اپنے دعوی میں جھوٹے اور خطا کار ہیں چونکہ جو چیز خود ہی نے اپنے لیے لازم قرار دی تھی اب اسی کی مخالفت کررہے ہیں اس لیے کہ لوگوں کو پیغمبر اکرمۖ کی حدیث نقل کرنے سے منع کیا اور کہا کہ ہمارے اور تمہارے درمیان کتاب خدا کافی ہے ۔(٥)
..............
(١) سورہ انعام(٦) ،آیت ١٢٤۔
(٢) تفسیر کبیر فخررازی : ٢١ ١٥٦۔
(٣) تفسیر کشاف :٤ ١٣۔
(٤) تفسیر بغوی (معالم التنزیل) : ٣ ١٨٩۔
(٥) تذکرة الخواص : ١ ٣۔ تو جیہ النظر (جزائری ) :٦٠١۔

٧٢
اور دوسری طرف ان حضرا ت نے ابوبکر کی خطا کاری پر میراث و وصیت کے بارے میں عموعات قرآن سے استدلال کیا ، لیکن ابوبکر نے اس چیز کاسہارا لیا کہ جس سے خود ہی نے لوگوں کو منع کیا تھا۔یعنی قرآن کریم کے مقابلے حدیث کو سہارا بناتے ہوئے استدلال کیا لہٰذا یہ ابوبکر کی تناقض گوئی، ایک لمحہ فکریہ ہے !۔