کون ہیں صدیق اور صدیقہ
 

عایشہ ا ور صدیقیت
صدیق ،اگر پیغمبر یا وصی پیغمبر نہ ہو تو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے تمام وجود سے رسالت کی تصدیق کرے اور اس پر یقین رکھے ، آسمانی رسالت پر دل سے ایمان لائے اور عقیدہ رکھے نہ یہ کہ رسالت میں شک کرے جیسا کہ عایشہ کے کلام میں مذکور ہے جب کہ وہ پیغمبر اکرمۖ کی عدالت میں مشکوک ہوئیں اور کہا کہ کیا آپ کو یہ گمان نہیں ہے کہ آپ اللہ کے رسول ہیں ، اس وقت عایشہ کے باپ ابوبکر نے ان کے منھ پر طمانچہ مارا۔(١)
اور پھر دوسرے مقام پرعایشہ نے پیغمبر اکرمۖ سے کہا : خدا سے ڈرو حق کے علاوہ کچھ اور نہ کہو ۔
ابو بکر نے یہ سن کر ان کے اوپر ہاتھ اٹھایا اور عایشہ کی ناک مروڑ دی اور کہا: اے ام رومان (عایشہ کی ماں) کی بیٹی تو بغیر ماں کے ہوجائے تو اور تیرا باپ حق بولتے ہیں اور رسول خداۖ حق نہیں بولتے ۔(٢)
..............
(١) مسند ابی یعلی : ١٣٠٨ حدیث ٤٦٧٠۔ مجمع الزوائد : ٤ ٣٢٢۔ المطالب العالیہ (ابن حجر) : ١٨٨٨، باب کید النساء حدیث ١٥٩٩۔
(٢) سبل الھدی و الرشاد : ١١ ١٧٣۔( ابن عساکر نے اپنے اسناد سے عایشہ سے نقل کیا ہے ) اور دیکھیے ، عین العبرہ ٤٥۔ الطرائف ٤٩٢۔ بہ نقل از احیاء العلوم (غزالی ) : ٢ ٤٣۔

٥٧
صدیقہ وہ عورت ہے کہ جس نے کبھی جھوٹ نہ بولا ہو حتی کہ اپنی سوتن کے ساتھ بھی ،اور یہ بات جیسا کہ الاستیعاب (ابن عبدالبر) اور الاصابہ(ابن حجر) میں مذکورہے ، عایشہ کے کردار سے سازگار نہیں ہے ۔ ان دونوں کتابوں میں موجود ہے کہ پیغمبراکرمۖ نے اسماء بنت نعمان سے شادی کی ، عایشہ نے حفصہ سے یا حفصہ نے عایشہ سے کہا :اس کے مہندی لگاؤ اور میں اس کو سنوارتی ہوں ۔
دونوں نے اپنے اپنے کام انجام دیے اور پھر کسی ایک نے اسماء سے کہا کہ پیغمبر اکرمۖ کو یہ بات بہت اچھی لگتی ہے کہ جب وہ تشریف لائیں تو ان سے کہا جائے (اعوذ باللہ منک ) میں آپ سے خدا کی پناہ مانگتی ہوں۔
پس جب رسول خداۖ اسماء کے پاس پہنچے،پردہ کو اٹھایا ہاتھوں کو اس کی طرف بڑھایا اسماء نے کہا (اعوذ باللہ منک )پیغمبراکرمۖ نے اپنی صورت کو اپنی آستینوں سے چھپا لیا اور پردہ کو گرا دیا پھر تین مرتبہ فرمایا : خدا کی پناہ میں ہو ، اور پھر اس کو اس کے گھر والوں کے پاس واپس کردیا ۔(١)
کیا اس طرح کے کارنامے عایشہ کو صادقین کے زمرے سے دور نہیں کرتے کہ جومیاں بیوی کے درمیان جدائی کا سبب بنیں۔
مجھے نہیں معلوم کہ مسلمان کیسے عایشہ کو صدیقہ مانتے ہیں جب کہ ان کو معلوم ہے کہ سورہ تحریم ان ہی کی شأن میں نازل ہوا ہے ، وہ ایسی عورت ہیں کہ جنہوںنے پیغمبر اکرمۖ کو مجبور کیا کہ آپ ۖ اپنے اوپر حلال الہٰی کو حرام کریں!؟۔
..............
(١) الاستیعاب : ٤ ١٧٨٥، شمارہ زندگینامہ ٣٢٣٢۔ الاصابہ: ٨ ٢٠ ، شمارہ زندگینامہ ١٠٨١٥۔ مستدرک حاکم : ٤ ٣٦۔ الطبقات : ٨ ١٤٥۔ المحبر ٩٥۔ المنتخب من ذیل المذیل ١٠٦۔

٥٨
کس طرح عایشہ جیسی عورت ، صدیقہ ہوسکتی ہیں کہ جو حفصہ کے ساتھ مل کر پیغمبراکرمۖ کے خلاف سازشیں کریں یہاں تک کہ ان کی شأ ن میں خدا وندعالم کی جانب سے یہ آیات نازل ہوں۔
(اذا اسر النبی الی بعض ازواجہ حدیثا فلما نبأت بہ و اظھر ہ اللہ علیہ عرف بعضہ و اعرض عن بعض فلما نبأ ھا بہ قالت من انبأک ھٰذا قال نبأنی العلیم الخبیر٭ ان تتوبا الی اللہ فقد صغت قلوبکما و ان تظاھرا علیہ فان اللہ ھو مولاہ و جبریل و صالح المؤمنین و الملائکة بعد ذالک ظھیرا)(١)

اور جب نبی نے اپنی بعض ازواج سے بات چھپا کر کہی پھر جب اس بیوی نے راز کی خبر کردی اور اللہ تعالی نے اسے رسول پر ظاہر کردیا تو اس نے اس کا کچھ حصہ جتلا دیا اور کچھ حصے سے کنارہ کشی کی ، پس جب اس نے یہ بات اس بیوی کو بتلائی وہ کہنے لگی آپ کو یہ خبر کس نے دی ؟ پیغمبرۖ نے فرمایا: مجھ کو بہت جاننے والے، پوری پوری خبر رکھنے والے نے خبر دی۔ اگر تم دونوں (نبی کی بیویاں) اللہ کے حضور میں توبہ کرلو تو فبھا پس تم دونوں کے دل یقینا منحرف ہوگئے ہیں اور اگر دونوں اس نبی کے خلاف ایک دوسرے کی پشت پناہی کرتی رہیں تو یقینا خداوندعالم اس کاسرپرست ہے اور جبریل و صالح المؤمنین بھی اور اس کے بعد کل فرشتے اس کے پشت پناہ ہیں ۔
..............
(١) سورہ تحریم (٦٦) آیت ٣ و٤۔

٥٩
ابن عباس نے عمر بن خطاب سے سوال کیا کہ وہ دو عورتیں جو پیغمبر اکرمۖ کے خلاف متحد ہوئیں وہ کون ہیں ؟ ابھی ابن عباس کا کلام تما م نہ ہوا تھا کہ عمر نے جواب دیا : عایشہ و حفصہ۔(١)
یہی طعنہ عثمان نے عایشہ کو دیا جب کہ عثمان نے اس مال کو دینے میں تاخیر کی کہ جو ہمیشہ عایشہ کو دیا کرتے تھے ، عایشہ کو غصہ آیا اور کہا :
اے عثمان امانت کو کھاگئے اور رعیت کو ختم کردیا ، اپنے خاندان کے برے لوگوں کومسلمانوں پر مسلط کردیا ، خدا کی قسم اگر نماز پنجگانہ کی ادائگی نہ ہو تی تو جان بوجھ کر تیری طرف کچھ لوگ آتے جو تجھے اونٹ کے ذبیحہ کی طرح قتل کرڈالتے ۔
عثمان نے کہا : (ضرب اللہ مثلا للذین کفروا امرأ ة نوح و امرأة نوط)(٢)
خداوندعالم نے ان کے لیے کہ جنہوں نے کفر کیا نوح کی بیوی اورلوط کی بیوی کی مثال بیان کی ہے ۔
..............
(١) تفسیر طبری :٢٨ ٢٠٢، حدیث ٢٦٦٧٨۔صحیح بخار ی :٦ ٦٩، تفسیر سورہ تحریم باب ٣و٤ ۔ و جلد : ٧ ٤٦، کتاب اللباس ،باب ما کان یتجوز رسول اللہ من اللباس و الزینة(وہ لباس اور زینت کہ جس کی رسول خدا ۖ نے اجاز ت دی )۔ صحیح مسلم : ٤ ١٩٠ـ ١٩٢، کتاب الطلاق ،باب فی الایلاء و اعتزال النساء ۔ مسنداحمد : ١ ٤٨۔
(٢) سورہ تحریم (٦٦) آیت ١٠۔ دیکھیے :ـ المحصل (رازی ) : ٤ ٣٤٣۔ الفتوح :٢ ٤٢١۔

٦٠
ان صفات کے باوجود کس طرح عایشہ کو صدیقہ کہا جاسکتا ہے جبکہ وہ دوسروں کو برے برے القاب سے نوازتیں (١) اور ایمان دار عورتوں کی غیبت کرتی تھیں۔(٢)
اس آیت کے سلسلے میں کہ (یا ایھا الذین آمنوا لایسخر قوم من قوم عسیٰ ان یکونوا خیرا منھم ولا نساء من نساء عسیٰ ان یکن خیرا منھن )(٣) اے ایمان لانے والو آپ ایک قوم،کسی دوسری قوم کا مذاق و مسخرہ نہ بناؤ ممکن ہے کہ وہ لوگ آپ سے بہتر ہوں اور نہ ہی عورتیں دوسری عورتوں کا مذاق اڑائیں کہ ممکن ہے کہ وہ عورتیں آپ سے بہتر ہوں ۔
طبرسی نے مجمع البیان میں نقل کیا ہے کہ یہ آیت پیغمبر اکرمۖ کی بعض ازواج کی شأن میں نازل ہوئی ہے کہ وہ ام سلمہ کامذاق اڑاتی تھیں ۔
انس و ابن عباس نے روایت ہے کہ ام سلمہ نے ایک سوتی کپڑا اپنی کمر سے باندھ رکھا تھا اور اس کے دونوں حصے و سرے لٹکے ہوئے جارہے تھے ، عایشہ نے اس کو دیکھ کر حفصہ سے کہا کہ دیکھو یہ کیسے پیچھے لٹکتا جارہا ہے گویا جیسے کتے کی زبان ہو۔(٤)
..............
(١) خداوندعالم کا ارشاد ہے (ولا تنابزو بالالقاب )(سورہ حجرات (٤٩) آیت ١١) ایک دوسرے کو برے القاب سے یاد نہ کرو ۔
(٢) خداوندعالم کا ارشاد گرامی ہے (ولایغتب بعضکم بعضا )(سورہ حجرات (٤٩) آیت ١٢) ایک دوسرے کی غیبت نہ کرو۔
(٣) سورہ حجرات (٤٩) آیت ١١۔
(٤) مجمع البیان : ٩ ٢٢٤۔ تفسیر قرطبی : ١٦ ٣٢٦۔ زاد المسیر :٧ ١٨٢۔ تفسیر بحر المحیط : ٨ ١١٢۔

٦١
کہتے ہیں کہ عایشہ نے ام سلمہ کو پستہ قد ہونے کا طعنہ دیا تھا اور ان کی طرف اشارہ کرکے کہاتھا کہ وہ گانٹھی ہے۔
کیا معقول ہے کہ کسی صدیقہ کے یہاں طرح طرح کی نامناسب اور حسد جیسی بری عادتیں پائی جائیں ؟!۔
سنن ترمذی میں عایشہ سے منقول ہے کہ آپ نے کہا میں نے خدیجہ سے زیادہ کسی سے حسد نہیں کیا اور پیغمبر اکرمۖ نے مجھ سے شادی ان کے انتقال کے بعد کی ، خداوندعالم نے ان کو جنت میں مروارید سے بنے ہوئے گھر کی بشارت دی کہ جس میں نہ شورو شرابہ ہے نہ رنج و غم۔(١)
کیوں ( یحسدون الناس علی ما اتاھم من فضلہ ) (٢) لوگ حسد کرتے ہیں اس چیز پر کہ جو اللہ نے اپنے فضل و کرم سے دی ہے ۔ اگر عایشہ واقعا ًصدیقہ ہوتیں تو کیا یہ ممکن تھا کہ رسول خدا ۖ ان کو دوسری غیر عورتوں کی طرح شمار کرتے اور ان کے بارے میں فرماتے (ان کن صویحبات یوسف) (٣) آپ عاشقان یوسف کی طرح ہو ۔
..............
(١) سنن ترمذی :٥ ٦٦، حدیث ٣٩٧٩، (فضل خدیجہ)۔
(٢) سورہ نسائ(٥) آیت ٥٤۔
(٣) احیاء علوم الدین : ٤ ٤٧۔ المسترشدین فی الامامة ١٤١۔ اور صحیح بخاری :١ ١٦٥، کتاب الاذان ، باب اہل العلم و الفضل احق بالامامة ۔ و صحیح مسلم :٢ ٢٥ کتاب الصلوة ،باب تقد م الجماعة من یصلی بھم ۔ و سنن دارمی : ١ ٣٩،باب وفات النبیۖ ، میں صواحب یوسف مذکور ہے ۔

٦٢
یہ آیت بھی آپ ہی کی شأن میں نازل ہوئی (ترجی من تشاء منھن و تؤی الیک من تشاء ومن ابتغیت ممن عزلت فلا جناح علیک ) (١)جس بیوی کے نمبر کو چاہو دیر میں رکھو اور جس کو چاہو اپنے پاس رکھو آپ کے لیے کوئی حرج نہیں ہے کہ جس کو چھوڑ دیا ہے اس کو پھر بلالو۔
عایشہ جیسی عورت کس طرح صدیقہ ہوسکتی ہے کہ جو خداوندعالم کی جانب سے نازل ہونے والی آیت پر اعتراض کرے اور پیغمبر اکرمۖ سے کہے کہ واللہ میں نے آپ کے پروردگار کو نہیں دیکھا مگر یہ کہ وہ آپ کی خواہشات نفس کے مطابق جلدبازی کرتا ہے۔(٢)
کیا یہ کلام صحیح ہے کہ رسول خدا ۖ اپنی خواہشات نفسانی کی پیروی کرتے تھے ؟!۔
یا خداوندعالم آپ ۖ کی خواہشا ت نفسانی کی خاطر جلدبازی کرے؟ کیا یہ عایشہ کا کلام رسول خدا ۖ کی توہین اور رسالت کو ہیچ سمجھنا اور خداوندعالم کی حقارت و اہانت نہیں ہے ؟۔
کیا یہی سب کچھ ایک صدیقہ کے عرفان و معرفت سے امید کی جاسکتی ہے ؟۔
کیا رسول خدا ۖ کا پروردگار عایشہ کے پروردگار سے جدا ہے کہ جو پیغمبراکرمۖ سے مخاطب ہوکر کہتی ہے کہ میں نے آپ کے پروردگار کو نہیں دیکھا مگر یہ کہ وہ آپ کی خواہشات نفس کے مطابق جلدبازی کرتا ہے۔
..............
(١) سورہ احزاب (٣٣) آیت ٥١۔
(٢) صحیح مسلم :٥ ١٧٤، کتاب الرضاع ،باب جواز ھبتھا بوبتھا لضرتھا ۔ صحیح بخاری :٢٤٦، کتاب التفسیر،سورہ احزاب۔ و جلد:١٢٨٦،کتاب النکاح،باب ھل للمرأةان تھب نفسھا۔ تفسیر طبری:٣٣٢٢۔ تفسیر ابن کثیر:٥٠٨٣۔

٦٣
کیا صدیقہ پر خواہشات نفسانی کا اثر ہوتا ہے ؟ اور کیا غیرت نسوانی اس کو ابھارتی ہے کہ وہ حق کو چھپائے اور جھوٹی خبر دے ؟!۔
ایک مرتبہ پیغمبر اکرمۖ نے عایشہ کو ایک عورت کو دیکھنے کے لیے بھیجا کہ جس سے آپ شادی کرنا چاہتے تھے ، عایشہ گئیں اور پھر واپس آئیں ، پیغمبراکرمۖ نے سوال کیا : اس عورت کو کیسا پایا ؟
عایشہ نے جواب دیا : وہ کوئی اچھی عورت نہیں ہے ۔
پیغمبر ۖ نے فرمایا : تونے اس کے رخسار پر تل دیکھا کہ جس سے تیرا سر چکراگیا ۔ عایشہ نے کہا: آپ سے کوئی راز پوشیدہ نہیں ہے آپ ۖ سے کون چھپا سکتا ہے ۔(١)
یہ ہے عایشہ کی سیرت کا خلاصہ کہ جو اہل سنت کے نزدیک صدیقہ کہلاتی ہیں ۔میری نظر میں عایشہ کی شخصیت کے تعارف کے لیے بس اتنا ہی کافی ہے ۔

اور ظاہرا ً عایشہ کا جناب فاطمہ زہرا اور جناب خدیجہ سے مقایسہ و مقابلہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔ لیکن پھر بھی مندرجہ ذیل روایت سے عایشہ اور حضرت فاطمہ زہرا و جناب خدیجہ کے درمیان فرق بالکل واضح ہوجاتاہے ۔
تاریخ دمشق میں مذکور ہے کہ عایشہ نے پیغمبر اکرمۖ کو دیکھا کہ آپ حضرت فاطمہ زہرا اور ان کے بچوں کے لیے گوشت کی بوٹیاں چھوٹی چھوٹی کررہے ہیں عایشہ نے کہا : اے رسول خداۖ آپ حمراء (جناب خدیجہ ) کی بیٹی کے لیے کہ جو وحشی ترین عورت تھی یہ کام کررہے ہو؟
..............
(١) تاریخ بغدار : ١ ٢١٧، تاریخ دمشق :٥١ ٣٦۔ ذکر اخبار اصبھان :٢ ١٨٨۔ کنزالعمال :١٢ ٤١٨، حدیث ٣٥٤٩، اور دیکھیے طبقات ابن سعد : ٨ ١٦١۔ سبل الھدی و الرشاد:١١ ٢٣٥۔

٦٤
پیغمبر اکرمۖ غصہ میں آگئے اور عایشہ کو چھوڑدیا، اس سے ترک تعلق کرلیا اور کلام کرنا بند کردیا ، ام رمان (عایشہ کی ماں) نے رسول خداۖ سے گفتگو کی اور کہا اے رسول خدا ۖ عایشہ چھوٹی بچی ہے اس کو تنبیہ نہ کریں ، پیغمبر اکرمۖ نے فرمایا: تم کو معلوم ہے کہ اس نے کیا کہا ہے ؟ ایسا ویسا خدیجہ کے بارے میں کہا ہے ، حالانکہ میری امت کی عورتوں میں خدیجہ کو سب پر فوقیت و فضیلت حاصل ہے۔جیسا کہ جناب مریم پوری دنیا کی عورتوں سے افضل ہیں۔(١)
سنن ترمذی میں عایشہ سے منقول ہے کہ اس نے کہا کہ پیغمبر اکرمۖ کی بیویوں میں سے میں نے کسی سے بھی اتنا حسد اور رشک نہیں کیا جتنا خدیجہ سے کیا کاش کہ میں ان کا مقام پاتی اور یہ حسد صرف اس لیے تھا کہ پیغمبراکرمۖ ان کو بہت یاد فرماتے اور ان کی بہت تعریفیں کرتے تھے۔
آنحضرتۖ کی عادت یہ تھی کہ کسی خاص بھیڑ کو ذبح کرتے اور جناب خدیجہ کی دوست و سہیلیوں کو ہدیہ فرمادیتے تھے ۔(٢)
..............
(١) تاریخ دمشق :٧ ١١٤۔
(٢) سنن ترمذی : ٣ ٢٤٩، حدیث ٢٠٨٦۔ و جلد: ٥ ٣٦٦، حدیث ٣٩٧٧۔ اور دیکھیے : ـ مسند احمد : ٦ ٢٧٩۔ صحیح بخاری:٤ ٢٣٠، کتاب بدء الخلق ، باب تزویج النبی ۖخدیجہ و فضلھا ۔ الطرائف ٢٩١۔ فتح الباری :٧ ١٠٢۔